نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ سے دعاء کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ سے دعاء کرنا اور آپ سے مدد چاہنا حصول مغفرت و مقصد براری کا قوی ذریعہ ہے ۔ جیساکہ شفاء السقام میں ہے : ویحسن التوسل والاستغاثۃ بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی ربہ ۔ (شفاء السقام صفحہ 37﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا توسل آپ کی ولادت شریفہ سے قبل اور آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں اور آپ کے وصال شریف کے بعد نصوص سے ثابت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ائمہ و محدثین علیہم الرّحمہ کے واقعات اس کے شاہد عدل ہیں ۔ جیساکہ فتاوی رملی میں ہے : ’’ویجوز التوسل الی اللّٰہ تعالیٰ والاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والعلماء والصالحین فی حیاتھم وبعد مماتھم ۔ (فتاویٰ علامہ رملی صفحہ 382، بحوالہ فتاویٰ نظامیہ صفحہ 447،چشتی)
اہل کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت شریفہ سے پیشتر آپ کے وسیلہ سے دعائیں کرتے اور دشمنوں پر فتح پاتے تھے ’’وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا‘‘(سورۃالبقرۃ : 89) ترجمہ ؛؛ اور اس سے پہلے وہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے کافروں پر فتح یابی کی دعائیں مانگا کرتے تھے،
سیدنا آدم علیہ السلام نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے: فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ- ترجمہ:پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 هـ) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ"میں روایت مذکور ہے : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد- ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں – اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا - ﴿مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194-)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690-)(معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989 )(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243)(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917،چشتی)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457)(كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37،چشتی)(تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 هـ) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)0شرح المواهب للزرقاني,ج,1, ص,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23-٭ الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف ، موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل)
اس سلسلہ میں واقعات اور روایات بکثرت وارد ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کو جو دعاء تعلیم فرمائی تھی اس میں خود توسل کی صراحت موجود ہے :
’’اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی اللھم فشفعہ فی‘‘ ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوا ہوں ۔ اے پیکر حمد و ثنا رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو ۔ اے اللہ میرے حق میں آپ کی سفارش قبول فرما ۔ یہ حدیث شریف تھوڑے سے اختلاف الفاظ کے ساتھ سنن ابن ماجہ ‘ ترمذی ‘مسند امام احمد ‘مستدرک للحاکم ‘بیہقی‘ التاریخ الکبیر للبخاری میں موجود ہے ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث شریف کو حسن صحیح کہا ہے ۔ وصال مبارک کے بعد بھی صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا توسل لیا کرتے تھے چنانچہ خلافت فاروقی میں جب لوگ قحط میں مبتلاء ہوگئے تو حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک پر حاضر ہوکر عرض کئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیے کہ امت ہلاک ہورہی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں ارشاد فرمایا کہ تم عمر رضی اللہ عنہ کو میری طرف سے سلام پہنچاؤ اور کہوکہ بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔ چنانچہ جب یہ صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ تفصیل بیان فرمائی تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ روپڑے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں کوتاہی نہیں کروں گا سوائے اس کام کے جس سے میں عاجز ہوجاؤں ۔ ( سنن بیہقی، ابن ابی شیبہ وفاء الوفاء ، انجاح الحاجہ ، ابن عبدالبر ،فتح الباری ۔ج2۔ص 451﴾۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment