کیا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانا جائز ہے دو دوستوں میں دلچسپ گفتگو ضرور پڑھیئے
نعیم کئی سالوں کے بعد ملے یار احمد! تمہارا کنبہ تو کافی پھل پھول رہا ہے…ماشاء اللہ
احمد: (ہنستے ہوئے) آپ لوگوں کی دعاؤں اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فیضان ہے ۔
نعیم: ویسے یہ تمہارے گھر میں اتنی چہل پہل کیسی ہے؟ کسی شادی کی تیاری چل رہی ہے کیا؟
احمد: کچھ ایسا ہی سمجھو، 11 ؍روز بعد شادیوں کی شادی عیدوں کی عید جو ہے…
نعیم: کیا مطلب؟ اتنی سجاوٹ اور انتظام صرف بارہ ربیع الاول کے لیے! ویسے تم میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مناتے کیوں ہو؟
احمد: دیکھو نعیم! قرآن پاک نے ہمیں حکم دیاکہ’’اللہ کی نعمتوں کاخوب چرچا کرو‘‘ اب بتاؤ کیا ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی نعمت سے کم ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا کو ہمارا شفیع بنایا… انہیں رحمۃ للعالمین بنایا… بے شک وہ تمام نعمتوں میں افضل ہیں… تو پھر کیوں نہ ہم ایسے شفیق و کریم نبی کا یوم ولادت مناکر، ان کا ذکر کرکے ان سے محبت کا اظہار کریں…
دیکھو یار! تم تو جانتے ہی ہو کہ دنیا کا ماحول کس طرح پرا گندہ ہوتا جا رہا ہے… لوگوں کے دلوں سے خوفِ خدا، شرمِ نبی کم ہوتے جا رہی ہے… اسی لیے آج ہم پر ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت اسلاف کرام کے راستے پر چلتے ہوئے کریں…اور ان کے دلوں کو عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا گنجینہ بنائیں… ورنہ کل ہم سے اس بارے میں پوچھ گچھ ہوگی… تم نے سیوطی الجامع الصغیر، جلد۱،ص۲۵ کی وہ حدیث سنی ہوگی، جس کا مفہوم ہے:’’اپنی اولاد کو تین چیزوں کا ادب سکھاؤ… اپنے نبی کی محبت… اہلِ بیت کی محبت اور قرآن کی تلاوت کا ادب۔‘‘ اور ہمارا عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم منانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، محبتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پنہاں ہوجائے… جس کے لیے یہ موثر ترین ذریعہ ہے… دیکھو اس جشن کے نام پر نئی نسل یک جا ہو جاتی ہے… او جگہ جگہ ذکر رسول کی محفلیں ہوتی ہیں… جس میں سیرت رسول، خصائص رسول، فضائل رسول، نعتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سناتے ہیں… ظاہر ہے جب لوگ ذکر سنیں گے… فضائل و خصائص نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے آگاہ ہوں گے تو خود بخود ان کا دل سیرتِ طیبہ کی طرف مائل ہوگا… اور دل مائل ہوگا تو محبت بھی بڑھے گی۔
نعیم: تو کیا ذکرِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا نعت رسول سے محبت پیدا ہو سکتی ہے؟
احمد: تجھ کو یاد ہوگا، جب ہم گیارہویں جماعت میں تھے… ہمارا Politicsکا آخری Lessonچل رہا تھا… جس میں ہمارے سَر اشتراکی ممالک میں کمیونسٹ انقلاب کے اثرات سمجھا رہے تھیکہ’’وہاں کسی بچے کی پیدائش کے بعد سے ہی ا س کے کانوں میں قومی رہنما ماؤزے تنگ کی تقریریں سنائیں جاتیں اور اس نوزائدہ بچے کے ساتھ یہ علم کئی سالوں تک روا رکھا جاتا۔‘‘
اس عمل سے ان کا مقصدیہ، ان کا یقین یہ تھا کہ بچہ جب ان سب باتوں کو سنے گا اور اس ماحول میں پرورش پائے گا…تو جب وہ باشعورہو جائے گا تو اس کے کانوں تک ایک خاص پیغام پہنچ چکا ہوگا… جس کے بعد اس کے دل میں کمیونزم کی محبت ڈالنا آسان ہوگا… یاوہ خود ہی اس کی حمایت کرے گا…
ایسے ہی اگر بچپن سے ہم اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ کریں… انہیں سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرائیں… ان کے سامنے ذکرِ رسول کریں… انہیں سرکار کی نعتیں سنائیں… محفلِ میلاد کا انعقاد کریں تو یقیناً ان کے دل ودماغ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور وہ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف راغب ہوں گے…
نعیم: (چائے پیتے ہوئے) جس محفل اور ذکر کی بات آپ کررہے ہیںواقعی وہ احسن ہے مگر جشن میلادالنبی میں مَیں نے اکثر دیکھا ہے لوگ ناچتے ہیں… پٹاخے پھوڑتے ہیں… ڈھول بجاتے ہیںاور طرح طرح کی بے ہودہ حرکات کرتے ہیں… اس لیے اس کا انعقادنہ کرنا ہی بہتر ہے… کم سے کم لوگ ثواب کے نام پر گناہ سے تو بچیں گے…
احمد: (مسکراتے ہوئے) میں جو ابھی بتایا کہ اصل محفل مولود اور ذکر و نعت وہی ہے جو خالص اور شریعت مطہرہ کے دائرے میں ہوتی ہے اور یہی مستحسن، باعثِ برکت و رحمت اور کارِ ثواب ہے… ہاں! اگر کچھ جاہل اس میں کچھ غلط یا غیر شرعی کام کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں غلط کام سے روکیں نہ کہ ان خرافات کی وجہ سے ہم محفلِ میلاد جیسا مستحسن و مبارک فعل ہی بند کردیں…
اب دیکھو ہمارے یہاں شادیوں میں کیا ہوتا ہے… رسم ورواج کے نام پر کس قدر غیر شرعی رسمیں، خرافات اور بے حیائی ہوتی ہے… ناچ گانا، عورتوں سے چھیڑ چھاڑ غرض ہر طرح کی خرافات شادی میں گویا جائز ہو جاتی ہیں… مگر کیا ہم اس فعل سے شادی پر پابندی عائد کردیں گیَ نہیں ناں۔ بلکہ ہم ان رسموں کو مٹائیں گے جو شادی میں بن بلائے مہمان کی حیثیت رکھتی ہیں… میرا مطلب ہے ان خرافات کو ختم کریں گے، شادی کو بے جا رسموں سے پاک کریں گے۔ہے ناں؟
نعیم: ہاں! بالکل
احمد: اسی طرح محفلِ ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا میلاد النبی پر صرف اس لیے پابندی نہیں لگانا چاہیے کہ اس میں غیر شرعی کام ہوتے ہی۔ بلکہ ہمیں ان غیر شرعی کاموں، رسموں کو ختم کرنا ہوگا… اور ایسا کرنے والوں پر پابندی عائد کرنی ہوگی… اول تو یہ ہر جگہ نہیں ہوتا… الحمدللہ ، لوگ اس محفل میں بڑے مؤدب اور با وضو اور دُرودِ پاک کا وِرد کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں…
نعیم: پھر بھی احمد، یہ سب باتیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دور میںتو نہیں تھیں …یعنی بدعت ہوئی ناں؟
احمد: نعیم یار! لگتا ہے تم کسی کے بہکاوے میں آگئے ہو… تم نے بھی میرے ساتھ پڑھا ہے کہ بدعت کی کئی قسمیں ہیں اور ہر بدعت بُری نہیں ہوتی… کسی چیز کے احسن ہونے کے لیے صرف یہ ہی نہیں دیکھا جاتا کہ وہ عہدِ رسالت میں کیاجاتا تھا یا نہیں ؟ بلکہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کی کوئی اصل قرآن مجید سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ثابت ہے یا نہیں… اگر اس سے کسی سُنّت، واجب، فرض یا اصل پر اثر پرے تو اس سے تعارض کیاجائے گا… ورنہ صرف اپنی طبیعت سے کفر، شرک یا بدعت کا فتویٰ گانا کسی جہالت سے کم نہ ہوگا…
جیسے جمع قرآن کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ظاہری حیات میں یک جا محفوظ نہیں تھا… مگر امّتِ مسلمہ کی آسانی اور ضرورت زمانی کے پیشِ نظر کیاگیا… اسی طرح ۲۰؍ رکعت نمازِ تراویح کا باجماعت پڑھنا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دور میں باقاعدہ رواج نہیں تھا… مگر بعد میں حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کیا… حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جمعہ سے قبل دوسری اذان شروع کی… مگر ان سب سے اصل دین میں کسی قسم کافرق نہین پڑتا… نہ ہی شریعت مطہرہ کی مخالفت ہوتی ہے… بلکہ یہ جائز و مستحسن اور نیک کام تھا… جو روا رکھا گیا…
اسی طرح عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی بظاہر سرکار کے دور میں نہیں منایا جاتا تھا… کیوں کہ صحابہ کرام تو ہمیشہ عشقِ مصطفی میں سرشار رہا کرتے تھے… اور حسنِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مشاہدہ اپنی مبارک آنکھوں سے کیا کرتے تھے… اس لیے انہیں ضرورت ہی نہیں تھی… ہاں! یہ ہماری ضرورت ہے، کیوں کہ ہم ان خوش نصیبوں میں سے نہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کو جمالِ جہاں آراکے دیدار کے جام سے سرشار کیا… اس لیے ہم ان کی یاد مناتے ہیں… ان کا ذکر کرتے ہیں… ان کی نعتیں پڑھتے ہیں… کہ ان کے صدقے ہمیں بھی بحرِ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کچھ قطرے نصیب ہو جائیں…
نعیم: تو بھی میلادالنبی قرّن سے کہاں ثابت ہوتا ہے؟
احمد: یار! خیر تم کو قرآن پاک کی وہ آیت یاد ہوگی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ہے کہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایسے رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے… ان کا نام احمد ہے… اور جیسا کہ میں نے تم کو بتایا کہ میلادالنبی کا مقصد ذکرِ رسول ہے ، تو کیا اس آیت میں ذکرِ رسو ل نہیں…
اسی طرح اللہ فرماتا ہے:’’ قل بفضل اللّٰہ و برحمتی فبذلک فلیفرحوا۔‘‘یعنی اللہ کے فضل و رحمت پر خوب خوشیاں مناؤ… اور میں نے ابھی ابھی تم کو بتایا تھا… چلو وہ آیت بھی یاد آگئی،اللہ فرماتا ہیـ:’’وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث۔‘‘یعنی اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو… اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری تمام جہانوں کی نعمت سے بڑھ کر ہے… لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن میں بھی ذکر رسول یعنی میلادِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم موجود ہے… اور ایسا کرنے سے اصل یا واجب میں اختلاف یا فرق نہیں پڑتا… لہٰذا بلاشبہ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جائز و مستحسن ہے…
نعیم: ہاں جناب! تمہاری باتیں کچھ کچھ سمجھ میں آرہی ہیں…
احمد: یارنعیم! جب ہمارے بچے کی ولادت پر خوشیاں منائی جاتی ہیں… اس کے لیے کوئی قرآن و حدیث سے دلیل تلاش نہیں کرتا… لیکن جب عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں سرشار ہو کر کوئی نبی آخرالزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی مناتا ہے تو لوگ اعتراض کرتے ہیں…
افسوس کی بات ہے کہ لوگ بات بات میں قرآن و حدیث سے ثابت کرو کی رٹ لگاتے رہتے ہیں… میلاد کی مبارک و مسعود محفلوں پر شرک و بدعت کا فتویٰ لگاتے ان کے قلم نہیں رُکتے اور منہ نہیں تھکتے۔ مگر یہی لوگ اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب ہر سال حکومتِ سعودی عرب اپنے یومِ تاسیس پر’’سعودی ڈے‘‘ مناتا ہے… کیا اس کی کوئی اصل قرآن و حدیث سے یہ دے سکتے ہیں؟ عرب ممالک میں جب کسی حکومت کے بادشاہ کی تخت نشینی یا تاج پوشی ہوتی ہے… تو اس دن حکومت کی جانب سے ایک جشن کااہتمام ہوتا ہے… کیا یہ اس فعل کی دلیل قرآن و احادیث سے دے سکتے ہیں…
مطلب یہ کہ یہ خود سراپا بدعت ہیں اور اگر ہم کوئی نیک و مستحسن کام انجام دیں تو انہیں وہ بدعت اور شرک نظر آتا ہے… جو میلادالنبی کی دلیل مانگتے ہیں ان سے پوچھو کہ ان کے مدارس میں درسِ نظامی کا اہتمام ہوتا ہے… سالانہ دستاربندی کا جلسہ ہوتا ہے… ختم بخاری کی محفل ہر سال منعقد کی جاتی ہے… کیا اس کی دلیل قرآن و حدیث سے دے سکتے ہیں؟ کیا صحابہ کرام نے کبھی ختم بخاری کروایا؟ کیا سالانہ جلسۂ دستار بندی کیاکرتے تھے؟
نعیم: لیکن احمد! بخاری شریف تو عہدِرسالت کے کافی بعد کی ہے اور عہد رسالت ،میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
احمد: یہی تو بات ہے میرے دوست… ہر دور کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں… وہ خوش نصیب عہد رسالت کے نفوسِ قدسیہ تھے… انہیں ہم جیسا میلاد منانے کی کیا ضرورت تھی… جب کہ وہ خود سراپا عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں سرشار رہا کرتے تھے… اب اگر میلاد النبی پر شرک اور بدعت کا فتویٰ صرف اس وجہ سے دیا جائے کہ وہ عہدِ رسالت میں اس صورت میں نہیں منائی جاتی تھی… تو ان کے مدارس پر کیا حکم عائد ہوگا؟ جو ایسی کتابیں پڑھاتے، درس و جلسے منعقد کرتے ہیں جو عہدِ رسالت میں نہیں ہوتے تھے… اور ان کے مبلغین پر کیا حکم لگائیں گے جو گھوم گھوم کر بھولی بھالی عوام کو مغالطے میں ڈالتے ہیں… لوگوں میں غلط ماتیں مشہور کرتے ہیں؟
جن کی تعلیمات کو یہ پھیلاتے ہیں خود ان کے پیر ومرشد حاجی امدادللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر سال میلاد کا اہتمام کرتے اور وقتِ قیام میں لطف پاتے… یہ لوگ محفل منعقد کرنے پر جو ہمارے اوپر شرک و بدعت کا فتویٰ دیتے ہیں، ان سے پوچھو کہ حاجی امداد اللہ صاحب پر کیا حکم لگایا جائے؟
خود دیوبندی مکتبِ فکر کے سرخیل مولانا اشرف علی تھانوی اپنے رسالہ’’میلادالنبی‘‘صفحہ ۴؍ پرسورۃ البقرہ کی ۶۴ویں آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’اس آیۂ کریمہ سے بدلالۃالنص یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ یہاں رحمت اور فضل سے مراد حضور ہیں۔جن کی ولادت پر اللہ تعالیٰ خوشی منانے کا حکم دے رہے ہیں۔‘‘ اب آپ ان سے پوچھیے کہ مولانا اشرف علی تھانوی پر کیا حکم صادر ہوگا؟ جو کہ ان کی جماعت کے پیشوا ہیں… اور میلاد النبی کا ثبوت قرآن سے دے کر گویا اس کو منعقد کرنے کی تعلیم کر رہے ہیں…
نعیم: واقعی اب مجھے سمجھ میں آرہا ہے… اب تک میں مغالطے کا شکار تھا… ان شاء اللہ آئندہ سے ایسے گروہ سے بچوں گا جو تعظیم نبی کو شرک اور بات بات میں بلا وجہ کفر و بدعت گردانتے، اور اپنے مدارس یا حکومت کے یومِ تاسیس کو دھوم سے مناتے ہیں… اور اس میں انہیں کوئی شرک و بدعت نظر نہیں آتا…
احمد: ہمیں ضرور اپنی حفاظت کرنی ہوگی… اور ہمارے اہل خانہ کی پرورش بھی اسی سانچے میں کرنی ہوگی کہ آگے چل کر وہ محب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بنیں… حضرت عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بڑھانے کے لیے دُرودِ پاک کثرت اور سیرتِ طیبہ کا مطالعہ بہت ضروری ہے… لہٰذا جو پڑھے لکھے لوگ ہیں ان تک سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں پر مشتمل پیغامات اور مختصر رسائل پہنچائے جائیں… اور جو مطالعہ کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ میلادالنبی کے جلسوں اور ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفلوں میں شرکت کرکے اپنے علم و عمل میں اضافہ کریں…
نعیم: بہت خوب… جزاک اللہ… تم نے میری آنکھیں کھول دیں اور مجھے گُم راہی کے راستے پہ جانے سے بچا لیا… اللہ تیرے علم میں برکت دے… بہت بہت شکریہ یار!
احمد: ارے دوست! اس کے لیے شکریے کی ضرورت نہیں… یہ تو ہم سب کا فریضہ ہے کہ جو کچھ علم ہے اسے پھیلایا جائے… تم بھی عہد کرلو کہ عوام میں جو غلط فہمیاں اور بد گمانیاں پھیلائی جا رہی ہیں… اور بے جا بدعت، شرک کی رٹ لگائی جاتی ہے، اسے اپنی ممکنہ کاوش سے دور کرو گے…
نعیم: ان شاء اللہ، ضرور… واقعی تم نے بڑا احسان کیا… اچھا اب مجھے اجازت دے… وقت کافی ہوگیا ہے… ان شاء اللہ پھر ملیں گے… تم سے اور بہت ساری باتیں کرنی ہیں … اللہ حافظ
احمد: ضرورضرور تشریف لائیے… اپنا خیال رکھیے …
اللہ حافظ ۔( طالبِ دعا و دعا گو ڈآکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment