میلاد امام الوہابیہ و دیابنہ ابن تیمیہ کی نظر میں
ہم نے ابن تیمیہ کا حوالہ پیش کیا تو ایک منکر میلاد غیر مقلد کو آگ اور مرچی لگ گئی کہ خیانت کی گئی ہے ان بچاروں کے پاس جواب تو ہوتا نہیں جب جواب نہیں ہوتا تو سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کےلیئے جھوٹ بولنے سے دریغ نہیں کرتے کبھی کہتے ہیں حدیث ضعیف ہے ، کبھی کہتے ہیں عبارت مکمل نہیں اور جب پھنس جائیں تو پھر کہتے یہ مولوی ہمارے لیئے حجت نہیں ہے مگر انہیں ملاّؤں کا نام استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ بھی کرتے ہیں آیئے ہم اقتضاء الصراط مستقیم کے دو عربی ایڈیشنوں اور ایک اردو ترجمہ جو وہابیوں نے کیا ہے کے اسکن ساتھ پیش کر رہے ہیں اور کچھ دیگر عبارت اصل مقصود ابن تیمیہ کی عبارت ہے جس میں علامہ ابن تیمیہ نے صاف لکھا ہے کہ میلاد منانے والوں کےلیئے اجر عظیم اور ثواب ہے پڑھیئے اور وہابیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم سے بغض و عداوت ملاحطہ کیجیئے ۔
اہل اسلام کے نزدیک نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانا، سال کے تمام ایام میں بالخصوص ماہ ربیع الاول میں اجر و ثواب کی نیت سے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے شمائل و خصائل کو بیان کرنا اور ایصال ثواب کے نذرانے پیش کرنا اہل اسلام کا طریقہ رہا ہے.
یہ بات اظہر من الشمس ہے کے میلاد منانا ایک کار خیر اور باعث اجر و ثواب ہے .
یہی وجہ ہے کہ جمہور محدثین، مفسرین ، مورخین سب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو ایک امر خیر جانتے ہیں اور اس کے منانے والوں کےلئے الله کی جانب سے اجرعظیم کی امید رکھتے ہیں .
آگے بڑھنے سے پہلے یہ حدیث پڑھ لیجیئے دین میں اچھے کام کے رائج کرنے والوں پر اجر : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ).(رواہ مسلم كتاب الزكاة ١٠١٧،چشتی)
ترجمہ : جو شخص اسلام میں اچھے طریقے کو رائج کرے گا ، تو اس کو اس کا ثواب ملے گا، اور ان لوگوں کے عمل کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے ایجاد کردہ فعل پر عمل کرتے رہیں اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں واقع نہیں ہوگی ، اور جو شخص اسلام میں کسی برے عمل کو رائج کرے گا تو اس پر اس عمل کو رائج کرنے کا بھی گناہ ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کا بھی جو اس کے بعد اس طریقے پر چلتے رہے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی .
اہل بدعت یعنی غیر مقلدین جنہوں نے عقائد میں طرح طرح کی بدعات نکال لی ہیں .اور دین کے ہر مسئلے میں انکا اسی طرح پوری امت سے علیحدہ ہی رہنے کا انکا عزم ہے۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بدعت بدعت کہ کر رٹ لگاے رکھتے ہیں پر ان غیر کے مقلدوں کے پاس اس کی حرمت کی دلیل نہیں فقط یہ کہنے کہ " كل بدعة ضلالة " یا پھر "من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد " سے استدلال باطلہ کرنے کے . من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد، اس حدیث کی شرح میں محدثین کے اقوال میں نقطہ یہ ہے کہ اس میں ما لیس منه کی قید ہے . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب الإيمان » باب الاعتصام بالكتاب والسنة."ما ليس منه فيه إشارة إلى أن إحداث ما لا ينازع الكتاب والسنة - "
ترجمہ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسی نئی بات کا نکالنا جو کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو مذموم (نا پسندیدہ )نہ ہو گی .
امام شافعی رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں : مَا أَحْدَثَ وَخَالَفَ كِتَابًا أَوْ سُنَّةً أَوْ إِجْمَاعًا أَوْ أَثَرًا فَهُوَ الْبِدْعَةُ الضَّالَّةُ. وَمَا أُحْدِثَ مِنَ الْخَيْرِ وَلَمْ يُخَالِفْ مِنْ ذٰلِكَ فَهُوَ الْبِدْعَةُ الْمَحْمُوْدَةُ.
( إعانة الطالبين ج 1 ص 594،چشتی)
ترجمہ : جو چیز نئی پیدا ہوئی اور مخالف ہوئی کتاب و سنت اور اجماع اور اثر کے ، وہ بدعت ضلاله ہے اور جو نئی چیز پیدا ہوئی خیر سے اور نہیں مخالف ہے ان سے (کتاب و سنت ، اجماع اثر)، پس وہ بدعت محمودہ ہے .
دوسری حدیث : " كل بدعة ضلالة " اس حدیث میں لفظ کل استغراقی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ "کل" عام اور مخصوص البعض ہے کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم احداث کو ما لیس منہ کے ساتھ مقید فرما چکے ہیں تو اب جس قدر حدیثیں بدعت کی منع ہوں گی وہ سب احداث، مخالف شریعت کی طرف راجع ہونگی ، نہ کہ موافق شریعت کی طرف، کیونکہ اصول کا مسلہ ہے کہ جب کوئی حکم کسی امر مقید پر ہوتا ہے تو وہ حکم قید کی طرف راجع ہوگا . (حديث مرفوع) : " مَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ " ،أحمد في كتاب السنة رقم الحديث: 914)
ترجمہ : جسے مسلمان اچھا جانیں، وہ الله کے نزدیک بھی اچھا ہے .
وہابیوں کی گردنوں پر تلوار ، شیخ ابن تیمیہ بھی میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو ایک کارخیر ہی جانتے ہیں . فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں : وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. واﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا ۔
ترجمہ : اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ طور عید اپنایا ۔ (اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 269 ، 619 ، 622چشتی)
اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں : فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد ۔
ترجمہ : میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں ۔ (اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 269 ، 619 ، 622)
جو مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محبت میں میلاد مناتے ہیں اللہ انہیں اس پر اجر و ثواب عطاء فرمائے گا ۔ (فکر و عقیدہ کی گمراہیاں ترجمہ اقتضاء الصراط مستقیم صفحہ 73 ابن تیمیہ، مترجم وہابی عالم) لو جی وہابیو اب تو ترجمہ اور چھاپہ تمہارا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment