میں تو کیے ہی جاؤں گا میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ آلہ وسلّم بیان
محترم قارٸینِ کرام : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے والد ہر سال میلاد مناتے تھے ایک سال لنگر کےلیئے کچھ نہ تھا بھنے چنے منگوائے ان پر میلاد پڑھا اور تقسیم کر دیئے رات کو خواب میں سرکارِ کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بہت خوش تھے ۔ (رسائل شاہ ولی اللہ الدر الثمین صفحہ 199 بائیسویں حدیث)
نجدیوں کے قبضہ سے پہلے اہل مکّہ میلاد مناتے تھے : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل مکہ ولادت کے دن میلاد منا رہے تھے میں نے دیکھا یکا یک انوار نازل ہو رہے تھے جب غور کیا تو دیکھا یہ وہ فرشتے ہیں جو ایسی محافل پر انوار و رحمت لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ (فیوض الحرمین صفحہ 115)
اے اہلِ ایمان حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ کی اس گواہی و بیان سے معلوم ہوا حرمین مقدسہ پر نجدیوں کے قبضہ سے پہلے اہل مکّہ بڑی دھوم دھام سے میلاد مناتے تھے کیا نجدی قابضوں کا عمل ہمارے لیئے بہتر ہے یا 13 سو سالہ مسلمانوں اور اکابرین ملت اسلامیہ علیہم الرّحمہ کا عمل مبارک فیصلہ خود کیجیئے ۔
میں تو کیے ہی جاؤں گا میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بیان : ⬇
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
دل نکل جانے کی جا ہے آہ کن آنکھوں سے وہ
ہم سے پیاسوں کے لئے دریا بہاتے جائیں گے
کُشتگانِ گرمیِ محشر کو وہ جانِ مسیح
آج دامن کی ہوا دے کر جِلاتے جائیں گے
گُل کِھلے گا آج یہ اُن کی نسیمِ فیض سے
خون روتے آئیں گے ہم مسکراتے جائیں گے
ہاں چلو حسرت زدو سنتے ہیں وہ دن آج ہے
تھی خبر جس کی کہ وہ جلوہ دکھاتے جائیں گے
آج عیدِ عاشقاں ہے گر خدا چاہے کہ وہ
ابروئے پیوستہ کا عالم دکھاتے جائیں گے
کچھ خبر بھی ہے فقیرو! آج وہ دن ہے کہ وہ
نعمتِ خلد اپنے صدقے میں لٹاتے جائیں گے
خاک اُفتادو! بس اُن کے آنے ہی کی دیر ہے
خود وہ گر کر سجدے میں تم کو اُٹھاتے جائیں گے
وسعتیں دی ہیں خدا نے دامنِ محبوب کو
جرم کُھلتے جائیں گے اور وہ چھپاتے جائیں گے
لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف
خرمنِ عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے
آنکھ کھولو غمزدو! دیکھو وہ گریاں آئے ہیں
لوحِ دل سے نقشِ غم کو اب مٹاتے جائیں گے
سوختہ جانوں پہ وہ پرجوش رحمت آئے ہیں
آبِ کوثر سے لگی دل کی بجھاتے جائیں گے
آفتاب اُن کا ہی چمکے گا جب اوروں کے چراغ
صِر صِرِ جوشِ بَلا سے جھلملاتے جائیں گے
پائے کوباں پل سے گزریں گے تِری آواز پر
رَبِّ سَلِّمْ کی صَدا پر وَجد لاتے جائیں گے
سرورِ دیں لیجے اپنے ناتوانوں کی خبر
نفس و شیطاں، سیّدا! کب تک دباتےجائیں گے
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائشِ مولیٰ کی دھوم
مِثل فارس نجد کے قلعےگراتے جائیں گے
خاک ہوجائیں عَدُو جل کر مگر ہم تو رؔضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر اُن کا سناتےجائیں گے
سب سے پہلے چند باتیں ذہن نشین کرلیں
میلاد کا مطلب کیا ہے ؟
دلیل کے اعتبار سے اس کو کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جو نہ کر سکے اس کے لیے کیا حکم ہے ؟
معترض کے ہر اعتراض کا جواب ان تین باتوں کی روشنی میں بآسانی دیا جاسکتا ہے ہم اس موضوع میں ہر بات کو مختصر اور واضح طور پر بیان کرنے کی کوشش کریں گے لہٰذا تمام پڑھنے والوں کی بارگاہ میں عرض ہے کے تمام دلائل کو اپنے پاس کاپی کرلیں تا کہ معترض کو خود ہی جواب مل جاۓ ۔
میلاد کا مطلب ہے پیدائش یا ولادت اسکا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بلخصوص ولادت کے واقعات بیان کرنا اور بالعموم آپ کی سیرت نسب آپ کے کمالات و برکات و معجزات و واقعات کو بیان کرنا اس مفہوم کو بھی اچھی طرح ذھن نشین فرمالیں ۔
میلاد کا حکم شرعی : مستحب ہے اور یہ شریعت کے اصولوں میں سے ایک ہے ۔
مستحب : وہ کام ہےجس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی کیا ہو اور اس کو سلف صالحین نے پسند کیا ہو ( شامی ج ١ ص ٥١١ ) اس کےکرنے میں ثواب نہ کرنے میں گناہ بھی نہیں اس کو نفل مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں ۔ والنفل و منہ المندوب یثاب فاعلہ ولا یسیئی تارکہ (شامی ج ١ ص٥٩ ) مطلب یہ ہے کہ میلاد 1 مستحب عمل ہے جس کے کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے پر گناہ نہیں جو کوئی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نہ کرسکے تو اس پر ملامت نہیں نہ ہی اس سے سوال کیا جاےگا کہ کیوں نہ کیا ؟
میلاد کا مطلب اور اس کو کرنے اور نہ کرنے کا حکم بھی ہم نے بیان کردیا اب سوال یہ ہے کہ میلاد ثابت کہاں سے ہے تو جواب یہ ہے کہ مستحب عمل کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ تمام بحث آپ کتاب سعید الحق شرح جاء الحق کے باب بدعت میں پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح کوئی عمل اگر شریعت کے خلاف نہ ہو تو اسے کرنے کا ثواب ہے اور نہ کرنے کا گناہ نہیں ۔
اب ان شاء اللّه عزوجل ہم میلاد کے ثبوت و دلائل پیش کریں گے جس کے لیے پہلے بیان کی گئی 3 باتوں کا ذھن نشین ہونا بہت ضروری ہے ۔
سوال : ابھی تو اپ نے کہا کہ مستحب عمل پر دلیل کی حاجت نہیں پھر خود ہی دلائل کی بات کر رہے ہیں ؟
جواب : ہم یہ باتیں اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ ہمارے سنی بھائیوں کے عقائد مضبوط ہوں اور ان سے بدمذ ھبی دور ہو اور انھیں عقائد اہل سنت سے متعلق آگاہی حاصل ہو ورنہ بدمذہبوں پر ان دلائل کا کچھ اثر نہ ہوگا ۔
قرآن مجید سے دلائل
ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ : اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو ۔ (سورۂ وَٱلضُّحَىٰ :11)
معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ ۔ ہمارے پاس ﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے ۔ خود ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر ﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے ۔ (سورہ النحل:18)
معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں ۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی ﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ ﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے ۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ : ﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے ۔ (سورۂ آل عمران آیت 164)
ﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا ۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا ؟ ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ ﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ۔ (سورۃ یونس آیت 58)
لیجیے ! اس آیت میں تو ﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے ۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں ۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ ﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں ۔ خود ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ ۔ (الانبیاء :107)
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کا جشن منائیں ۔
میلاد کو عید کہنا کیسا ؟
ترجمہ : عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے رب ہمارے ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔ (المائدة:114)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان سے خوان یعنی نعمت اترنے کے دن کو عید کہا اپنے اگلے پچھلوں کے لئے تو وہ نبی جو تمام کائنات کے لئے رحمت و نعمت ہو ان کی تشریف آواری کا دن کیوں نہ عید ہو ؟؟؟ بلکہ وہ تو عیدوں کی عید ہے
میلاد بدعت نہیں
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اپنا نسب اور پیدائش کا تذکرہ ممبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا ۔ (ترمذی جلد 2 صفحہ201 )
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی پیدائش کے ساتھ دیگر نبیوں کی پیدائش کا ذکر فرمایا ۔ (مسلم جلد 2 صفحہ 245)
غزوہ تبوک سے واپسی پر حضرت ابن عباس رضی اللّه عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں عرض کی میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں ارشاد ہوا بیان کرو اللّه تمھارے منہ کو ہر آفت سے بچاۓ پس انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ (دلائل النبوت لالبیہقی جلد 5 صفحہ نمبر 47 ، 48،چشتی)
کیا وہ کام جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دعا دیں بدعت ہو سکتا ہے ؟
اپنی آمد کا جشن تو خود آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منایا ہے۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں ؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 7،چشتی)(مشکوٰۃ شریف صفحہ 179)
مخالفین کہتے ہیں کہ کیا میلاد صحابہ رضی اللہ عنہم نے منایا ؟ ہم پوچھتے ہیں کہ جب آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی آمد کا جشن خود منائیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عمل کافی نہیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا ۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا ۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری ؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا ۔ (صحیح بخاری شریف جلد 2 صفحہ 764)
اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے ؟
حافظ الحدیث امام ابن الجزری رحمة ﷲ علیہ کا فرمان مبارک:جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو۔ مجھے اپنی جان کی قسم ﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا ۔ (مواہب لدنیہ جلد 1 صفحہ 27)
جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمة ﷲعلیہ کا فرمان مبارک:جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے ۔ (بیان المولد النبوی صفحہ 70،چشتی)(مختصر سیرۃ الرسول صفحہ 23)
جھنڈے اور جلوس : ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مدینے میں آمد پرصحابہ نے جلوس نکالا ۔ (ابو داود جلد 2 صفحہ 300)
سیدتنا آمنہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا ۔ (سیرت حلبیہ جلد اول صفحہ 109)
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جھنڈے لہرائے گئے ۔ ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں اور تیسرا کعبتہ ﷲ کی چھت پر ۔ (بیان المیلاد النبی، محدث ابن جوزی صفحہ 51)(خصائص الکبریٰ جلد اول صفحہ 48،چشتی)(مولد العروس صفحہ 71)(معارج النبوت جلد دوم صفحہ 16)
ان محدثین کرام اور اسلاف کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبد ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کا جشن کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرما دے گا ۔ اللہ بُغضِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بچائے آمین ۔ (طالبِِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment