٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مرزا غلام قادیانی ۱۸۳۹ یا ۱۸۴۰ء کو پیدا ہوا ابتدائی تعلیم مولوی گل علی شاہ سے حاصل کی کچھ عرصے اپنے والد کے ساتھ انگریزی کچہریوں کے چکر بھی لگائے آبائی پیشہ زمینداری تھا آباؤ اجداد سکھوں اور انگریزوں کے وفادار ملازم رہتے آئے تھے والد کا نام غلام مرتضیٰ تھا مرزا غلام قادیانی انگریزی اور عربی میں ابجد خواں تھا اس نے قانون کا امتحان دیا مگر فیل ہونے پر تعلیم سے دل اچاٹ ہوگیا کمزوری دل و دماغ کا مرض پوری عمر جولانی سے رہا تشنج قلب ، اسہال، درد سر ، مالیخولیا ، شوگر وغیرہ امراض موصوف کی زندگی کے ساتھی تھے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو لاہور میں موصوف کا شدت اسہال یا ہیضہ سے
انتقال ہوا۔ بعد وفات انکے منہ سے پاخانہ نکلتے دیکھا گیا جو حاضرین کی عبرت کا باعث ہوا ۔مرزا غلام احمد قادیانی کے خلفاء اس صورت حال کی تردید کرتے رہے والعلم عند اللہ عزوجل۔
۱۸۸۶ء میں مرزا نے اپنی نبوت کی بنیاد رکھنا شروع کی جو کہ گول مول الہام اور کشف وغیرہ پر مبنی تھی جو کہ براہین احمدیہ میں موجود ہے یادر رہے براہین احمدیہ اور تحذیر الناس ( مدرسہ دیوبند ) بیک وقت لکھی گئیں نیز علی گڑھ کالج کا اجراء ،مدرسہ دیوبند کی تاسیس اور براہین احمدیہ کی تصنیف کا زمانہ بھی ایک ہی ہے گویا انگریزوں نے بیک وقت چار فتنے دیوبند، قادیان ، علی گڑھ و دہلی سے کھڑے کردئیے مگر مرزا غلام قادیانی سب پر بازی لے گیا کہ نبوت کا دعویٰ کرکے دجالوں میں اپنا نام لکھوایا اپنی دنیا سنبھالنے کی خاطر کروڑوں مسلمانوں کی عاقبت برباد کی چنانچہ ۱۸۸۶ء کے کشف و الہام کے دعاوٰی کے بعد ایک نیا مکسچر ظلی و بروزی نبی کے نام سے تیار کیا چنانچہ ۱۸۹۰ میں یہ کہنا شروع کیا کہ مسیح موعود اور ابن مریم، میں خود ہوں چنانچہ خود لکھتا ہے '' مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا ( کشتی نوح ص ۴۷ ) اور مسیح موعود کے متعلق لکھتا ہے : میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدائے تعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیشن گوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہوگا ( تحفہ گولڑویہ ص ۱۹۵ ) ۔
موصوف نے اپنی ظلی و بروزی کی منطق کا ہیرپھیر لفظوں کی چکر بازی میں
یوں بھی دکھایا ہے کہ اس نکتہ کو یاد رکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے ،اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے۔ میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کاکامل انعکاس ہے اور میں کوئی علیحدہ شخص نبوت کا دعوٰی کرنے والا ہوتا تو خدا تعالیٰ میرا نام محمد ، احمد، مصطفی اور مجتبیٰ نہ رکھتا( نزول المسیح ص ۲ ) یہ تو ظل ہونے کے بارے میں ہے ۔بروزی کا فارمولا بھی ملاحظہ فرمائیے لکھتا ہے :مجھے بروز ی صورت میں نبی و رسول بنایا ہے اور اس بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت میں میرا نفس درمیان میں نہیں بلکہ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہے اسی لحاظ سے میرا نام محمد او رحامد ہوا پس نبوت و رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی ( نعوذ باللہ )( ایک غلطی کا ازالہ )۔
اس کے بعد مرزا قادیانی نے اور ترقی کی یہاں تک کہ ۱۹۰۱ء میں حقیقی نبوت کا دعوی کردیا چنانچہ لکھتا ہے: ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول (یعنی مرزاغلام ) کو قبول نہ کیا ۔مبارک وہ، جس نے مجھ کو پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور اس کے نوروں میں سے آخری نور ہوں بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ (کشتی نوح ص ۵۶)
یہ شخص انبیاء کرام کا نہایت گستاخ تھا چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھتا ہے : عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ ظاہر نہ ہوا اور اس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔
(ازالہ اوہام ص ۳۰۳ ملخص از برطانوی مظالم کی کہانی مؤلفہ عبدالحکیم اختر شاہ جہاں پوری علیہ الرحمۃ ص ۶۴۳ تا ۶۵۶ )
سیدی اعلیٰحضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قادیانی سے بدزبان کو دیکھو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی کیسی توہین کرتا ہے یہاں تک انہیں اور انکی ماں صدیقہ بتول کو فحش گالیاں دیتا ہے یہاں تک ۴۰۰انبیاء کو صاف جھوٹا لکھا حتی کہ دربارہ حبیب خود شان اقدس حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ناپاک حملہ کیا۔
( ملفوظات ص۲۰۸ مطبوعہ مشتاق بک کارنر لاہور)
دعویٰ نبوت کے بعد مرزا کی رگ شیطانی مزید پھڑکی تو اس نے خدائی دعویٰ کر ڈالا چنانچہ لکھتا ہے میں نے نیند میں اپنے آپ کو ہو بہو اللہ دیکھا اور میں نے یقین کرلیا کہ میں وہ ( اللہ ) ہوں پھر میں نے آسمان و زمین بنائے اور کہا ہم نے آسمان کو ستاروں کے ساتھ سجایا ہے۔
( کمالات اسلام ص ۵۶۴ ، ۵۶۵ بحوالہ برطانوی مظالم کی کہانی ص ۶۵۸ )
دیگر جھوٹے نبوت کے دعویداروں کی طرح مرزا غلام قادیانی نے بھی کچھ پیشن گوئیاں کی تھیں مگر ان کا انجام مسیلمہ کذاب کی طرح ہوا ۔
۱۔ اپنے لیے ایک لڑکے کی پیشن گوئی کی تھی جس کی نسبت کہاتھا کہ انبیاء کا چاند ہوگا اور بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت لیں گے مگر نشان الٰہی کہ چوں دم برادشتم مادہ برآمد بیٹی پیدا ہوئی اس پر کہا کہ وحی سمجھنے میں غلطی ہوئی اب کی جو ہوگا وہ لڑکا انبیاء کا چاند ہوگا، بیٹی بیٹے ہمیشہ پیدا ہوتے ہیں اب کی ہوا بیٹا مگر چند روز جی کر مرگیا بادشاہ کیا
کسی محتاج نے بھی اس کے کپڑوں سے برکت نہ لی۔
۲۔ ایک اور پیشن گوئی آسمانی بیوی کی تھی اپنی چچا زاد بہن احمد ی کو لکھ بھیجا کہ اپنی بیٹی محمدی بیگم میرے نکاح میں دے دے اس نے صاف انکار کیا اس پر طمع دلائی پھر دھمکیاں دیں پھر کہا کہ وحی آگئی کہ زوجنٰکھا ہم نے تیرا نکاح اس سے کردیا اور یہ کہ اس کانکاح اگر تو دوسری جگہ کرے گی تو ڈھائی یا تین برس کے اندر اس کا شوہر مرجائے گامگر اس خدا کی بندی نے ایک نہ سنی ، سلطان محمد خان سے نکاح کردیا وہ آسمانی نکاح دھرا ہی رہا نہ وہ شوہر مرا کتنے بچے اس سے ہوچکے اور یہ چل دئیے ۔
( ملخص از فتاوی رضویہ جلد ۶ ص ۳۱ مطبوعہ آرام باغ کراچی )
پردہ اٹھتا ہے مرزا غلام احمد قادیانی کی اصلیّت و حقیقت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مرزا
غلام قادیانی ۱۸۳۹ یا ۱۸۴۰ء کو پیدا ہوا ابتدائی تعلیم مولوی گل علی شاہ
سے حاصل کی کچھ عرصے اپنے والد کے ساتھ انگریزی کچہریوں کے چکر بھی لگائے
آبائی پیشہ زمینداری تھا آباؤ اجداد سکھوں اور انگریزوں کے وفادار ملازم
رہتے آئے تھے والد کا نام غلام مرتضیٰ تھا مرزا غلام قادیانی انگریزی اور
عربی میں ابجد خواں تھا اس نے قانون کا امتحان دیا مگر فیل ہونے پر تعلیم
سے دل اچاٹ ہوگیا کمزوری دل و دماغ کا مرض پوری عمر جولانی سے رہا تشنج قلب
، اسہال، درد سر ، مالیخولیا ، شوگر وغیرہ امراض موصوف کی زندگی کے ساتھی
تھے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو لاہور میں موصوف کا شدت اسہال یا ہیضہ سے
انتقال
ہوا۔ بعد وفات انکے منہ سے پاخانہ نکلتے دیکھا گیا جو حاضرین کی عبرت کا
باعث ہوا ۔مرزا غلام احمد قادیانی کے خلفاء اس صورت حال کی تردید کرتے رہے
والعلم عند اللہ عزوجل۔
۱۸۸۶ء میں مرزا نے
اپنی نبوت کی بنیاد رکھنا شروع کی جو کہ گول مول الہام اور کشف وغیرہ پر
مبنی تھی جو کہ براہین احمدیہ میں موجود ہے یادر رہے براہین احمدیہ اور
تحذیر الناس ( مدرسہ دیوبند ) بیک وقت لکھی گئیں نیز علی گڑھ کالج کا اجراء
،مدرسہ دیوبند کی تاسیس اور براہین احمدیہ کی تصنیف کا زمانہ بھی ایک ہی
ہے گویا انگریزوں نے بیک وقت چار فتنے دیوبند، قادیان ، علی گڑھ و دہلی سے
کھڑے کردئیے مگر مرزا غلام قادیانی سب پر بازی لے گیا کہ نبوت کا دعویٰ
کرکے دجالوں میں اپنا نام لکھوایا اپنی دنیا سنبھالنے کی خاطر کروڑوں
مسلمانوں کی عاقبت برباد کی چنانچہ ۱۸۸۶ء کے کشف و الہام کے دعاوٰی کے بعد
ایک نیا مکسچر ظلی و بروزی نبی کے نام سے تیار کیا چنانچہ ۱۸۹۰ میں یہ کہنا
شروع کیا کہ مسیح موعود اور ابن مریم، میں خود ہوں چنانچہ خود لکھتا ہے ''
مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے
حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں
بذریعہ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن
مریم ٹھہرا ( کشتی نوح ص ۴۷ ) اور مسیح موعود کے متعلق لکھتا ہے : میرا
دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدائے تعالیٰ کی تمام
پاک کتابوں میں پیشن گوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہوگا ( تحفہ
گولڑویہ ص ۱۹۵ ) ۔
موصوف نے اپنی ظلی و بروزی کی منطق کا ہیرپھیر لفظوں کی چکر بازی میں
یوں
بھی دکھایا ہے کہ اس نکتہ کو یاد رکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی
باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے ،اور میں رسول اور نبی ہوں
یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے۔ میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی
نبوت کاکامل انعکاس ہے اور میں کوئی علیحدہ شخص نبوت کا دعوٰی کرنے والا
ہوتا تو خدا تعالیٰ میرا نام محمد ، احمد، مصطفی اور مجتبیٰ نہ رکھتا( نزول
المسیح ص ۲ ) یہ تو ظل ہونے کے بارے میں ہے ۔بروزی کا فارمولا بھی ملاحظہ
فرمائیے لکھتا ہے :مجھے بروز ی صورت میں نبی و رسول بنایا ہے اور اس بناء
پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا مگر بروزی صورت
میں میرا نفس درمیان میں نہیں بلکہ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہے
اسی لحاظ سے میرا نام محمد او رحامد ہوا پس نبوت و رسالت کسی دوسرے کے پاس
نہیں گئی محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی ( نعوذ باللہ )( ایک غلطی کا
ازالہ )۔
اس کے بعد مرزا قادیانی نے اور ترقی
کی یہاں تک کہ ۱۹۰۱ء میں حقیقی نبوت کا دعوی کردیا چنانچہ لکھتا ہے: ہلاک
ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول (یعنی مرزاغلام ) کو قبول نہ کیا
۔مبارک وہ، جس نے مجھ کو پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں
اور اس کے نوروں میں سے آخری نور ہوں بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے
کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ (کشتی نوح ص ۵۶)
یہ
شخص انبیاء کرام کا نہایت گستاخ تھا چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے
بارے میں لکھتا ہے : عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات
یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ ظاہر نہ ہوا اور اس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے
والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا
اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔
(ازالہ اوہام ص ۳۰۳ ملخص از برطانوی مظالم کی کہانی مؤلفہ عبدالحکیم اختر شاہ جہاں پوری علیہ الرحمۃ ص ۶۴۳ تا ۶۵۶ )
سیدی
اعلیٰحضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قادیانی سے بدزبان کو دیکھو سیدنا
عیسیٰ علیہ السلام کی کیسی توہین کرتا ہے یہاں تک انہیں اور انکی ماں صدیقہ
بتول کو فحش گالیاں دیتا ہے یہاں تک ۴۰۰انبیاء کو صاف جھوٹا لکھا حتی کہ
دربارہ حبیب خود شان اقدس حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ناپاک
حملہ کیا۔
( ملفوظات ص۲۰۸ مطبوعہ مشتاق بک کارنر لاہور)
دعویٰ
نبوت کے بعد مرزا کی رگ شیطانی مزید پھڑکی تو اس نے خدائی دعویٰ کر ڈالا
چنانچہ لکھتا ہے میں نے نیند میں اپنے آپ کو ہو بہو اللہ دیکھا اور میں نے
یقین کرلیا کہ میں وہ ( اللہ ) ہوں پھر میں نے آسمان و زمین بنائے اور کہا
ہم نے آسمان کو ستاروں کے ساتھ سجایا ہے۔
( کمالات اسلام ص ۵۶۴ ، ۵۶۵ بحوالہ برطانوی مظالم کی کہانی ص ۶۵۸ )
دیگر جھوٹے نبوت کے دعویداروں کی طرح مرزا غلام قادیانی نے بھی کچھ پیشن گوئیاں کی تھیں مگر ان کا انجام مسیلمہ کذاب کی طرح ہوا ۔
۱۔
اپنے لیے ایک لڑکے کی پیشن گوئی کی تھی جس کی نسبت کہاتھا کہ انبیاء کا
چاند ہوگا اور بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت لیں گے مگر نشان الٰہی کہ چوں دم
برادشتم مادہ برآمد بیٹی پیدا ہوئی اس پر کہا کہ وحی سمجھنے میں غلطی ہوئی
اب کی جو ہوگا وہ لڑکا انبیاء کا چاند ہوگا، بیٹی بیٹے ہمیشہ پیدا ہوتے
ہیں اب کی ہوا بیٹا مگر چند روز جی کر مرگیا بادشاہ کیا
کسی محتاج نے بھی اس کے کپڑوں سے برکت نہ لی۔
۲۔
ایک اور پیشن گوئی آسمانی بیوی کی تھی اپنی چچا زاد بہن احمد ی کو لکھ
بھیجا کہ اپنی بیٹی محمدی بیگم میرے نکاح میں دے دے اس نے صاف انکار کیا اس
پر طمع دلائی پھر دھمکیاں دیں پھر کہا کہ وحی آگئی کہ زوجنٰکھا ہم نے تیرا
نکاح اس سے کردیا اور یہ کہ اس کانکاح اگر تو دوسری جگہ کرے گی تو ڈھائی
یا تین برس کے اندر اس کا شوہر مرجائے گامگر اس خدا کی بندی نے ایک نہ سنی ،
سلطان محمد خان سے نکاح کردیا وہ آسمانی نکاح دھرا ہی رہا نہ وہ شوہر مرا
کتنے بچے اس سے ہوچکے اور یہ چل دئیے ۔
( ملخص از فتاوی رضویہ جلد ۶ ص ۳۱ مطبوعہ آرام باغ کراچی )
No comments:
Post a Comment