Friday 21 August 2015

سرکار دو عالم ﷺ کی حیات ظاہری میں زیارت رسول اکرم ﷺ کا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا معمول

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اوّل تا آخر محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ ان کی اسی طاقت نے انہیں ہر طوفان سے ٹکرانے اور ہر مشکل سے سرخرو ہونے کا ہنر سکھایا۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔ اُن کی محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے ہی اپنی بھوک پیاس کو بجھا لیتے تھے اور حالتِ نماز میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تَکتے رہتے تھے۔

کتبِ احادیث و سیر میں متعدد واقعات کا ذکر ہے جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پیش آئے۔ یہ واقعات اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی کی حرارت پاتے تھے۔ انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ ان مشتاقانِ دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کا محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہیں۔

ذیل میں اسی لازوال محبت کے چند مستند واقعات کا ذکر کیا جائے گا۔
1. صحابہ کی نماز اور زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسین منظر

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے۔ پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسبِ معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک سے مسجدِ نبوی میں جھانک کر گویا اپنے غلاموں کو صدیق کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اظہارِ اطمینان فرما رہے تھے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :

فکشف النبي صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة، ينظرإلينا وهو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسّم.

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ (ہم نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو یوں لگا) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور کھلا ہوا قرآن ہو، پھر مسکرائے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1 : 240، رقم : 648
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر، 1 : 315، رقم : 419
3. ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب في ذکر مرض رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 519، رقم : 1624
4. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 163

حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علي عقبيه ليصل الصف، وظنّ أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خارج إلي الصلوٰة.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1 : 240، رقم : 648
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 75، رقم : 4825
3. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433

ان پرکیف لمحات کی منظر کشی رِوایت میں یوں کی گئی ہے :

فلما وضح وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم ما نظرنا منظرًا کان أعجب إلينا من وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا.

’’جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1 : 241، رقم : 649
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر، 1 : 315، رقم : 419
3. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 372، رقم : 1488

مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں :

فبهتنا ونحن في الصلوة، من فرح بخروج النبي صلي الله عليه وآله وسلم.

’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر، 1 : 315، رقم : 419

علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے :

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
2. زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھوک کا مداوا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت صحابہ کرام کے لئے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔ چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد قلب ونظر میں اترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ

لا يخرج فيها و لا يلقاه فيها أحد.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا۔‘‘

دراصل ہوا یوں تھا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا :

ما جاء بک يا أبا بکر؟

’’اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟‘‘

اس وفا شعار پیکرِ عجزو نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کیا :

خرجت ألقي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وأنظر في وجهه و التسليم عليه.

’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آپ کی ملاقات، چہرہ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ہی سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔ نبیء رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :

ما جاء بک يا عمر؟

’’اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟‘‘

شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی لپٹی کے بغیر عرض کی :

الجوع، يا رسول اﷲ.

’’یا رسول اللہ! بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الزهد، باب في معيشة أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 : 583، رقم : 2369
2. ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 312، رقم : 373
3. حاکم، المستدرک، 4 : 145، رقم : 7178

شمائلِ ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے :

لعل عمر رضي الله عنه جاء ليتسلي بالنظر في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کما کان يصنع أهل مصر في زمن يوسف عليه السلام، و لعل هذا المعني کان مقصود أبي بکر رضي الله عنه و قد أدي بالطف وجه کأنه خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما ظهر عليه بنور النبوة أن أبابکر طالب ملاقاته، وخرج أبوبکر لما ظهر عليه بنور الولاية أنه صلي الله عليه وآله وسلم خرج في هذا الوقت لانجاح مطلوبه.

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے، جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے اپنی بھوک کو مٹا لیا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا۔ مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چکا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔‘‘

شمائل الترمذي : 27، حاشيه : 3

چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جاں نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی۔ یہ واقعہ باہمی محبت میں اخلاص اور معراج کا منفرد انداز لیے ہوئے ہے۔
3. ٹکٹکی باندھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت

کائنات کا سارا حسن و جمال نبیء آخر الزماں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں سمٹ آیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے مشرف ہونے والا ہر شخص جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح کھو جاتا کہ کسی کو آنکھ جھپکنے کا یارا بھی نہ ہوتا اور نگاہیں اٹھی کی اٹھی رہ جاتیں۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :

کان رجل عند النبي صلي الله عليه وآله وسلم ينظر إليه لا يطرف.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے چہرۂ انور) کو (اِس طرح ٹکٹکی باندھ کر) دیکھتا رہتا کہ وہ اپنی آنکھ تک نہ جھپکتا۔‘‘

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس جاں نثار صحابی کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا :

ما بالک؟

’’اِس ( طرح دیکھنے) کا سبب کیا ہے؟‘‘

اس عاشقِ رسول صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

بأبي و أمي! أتمتع من النظر إليک.

’’میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔‘‘

1. قاضي عياض، الشفاء، 2 : 566
2. قسطلاني، المواهب اللدنية، 2 : 94

اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خودسپردگی کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال میں اس طرح کھو جاتے کہ دنیا کی ہر شے سے بے نیاز ہو جاتے۔
4. سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی خواہشِ زیارت

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کس طرح چہرۂ نبوت کے دیدارِ فرحت آثار سے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک پسند و دلبستگی کا کیا معیار تھا؟ اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار سے متعلق درج ذیل روایت سے بخوبی ہو جائے گا :

ایک مرتبہ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں : خوشبو، نیک خاتون اور نماز جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے بھی تین ہی چیزیں پسند ہیں :

النظر إلي وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وإنفاق مالي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وأن يکون ابنتي تحت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے چہرۂ اقدس کو تکتے رہنا، اللہ کا عطا کردہ مال آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے قدموں پر نچھاور کرنا اور میری بیٹی کا آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے عقد میں آنا۔‘‘

ابن حجر، منبهات : 21 - 22
5. شیخین رضی اﷲ عنھما کا منفرد اعزاز

صدیقِ باوفا رضی اللہ عنہ کو سفرِ ہجرت میں رفاقتِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول ہونے کے شرفِ لازوال سے مشرف ہوئے۔ ان جلیل القدر شخصیات کو صحابہ رضی اللہ عنھم کی عظیم جماعت میں کئی دیگر حوالوں سے بھی خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يخرج علي أصحابه من المهاجرين والأنصار، وهم جلوس وفيهم أبوبکر وعمر، فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلا أبوبکر وعمر، فإنهما کانا ينظران إليه وينظر إليهما ويتبسّمان إليه ويتبسّم إليهما.

’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کرتا، البتہ ابوبکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنھما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو مسلسل دیکھتے رہتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کو دیکھتے، یہ دونوں حضرات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘

1. ترمذي، السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر کليهما، 5 : 612، رقم : 3668
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 150
3. طيالسي، المسند، 1 : 275، رقم : 2064
6. سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کیفیتِ اِضطراب

یوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی آرزو اور تمنا ہر صحابی رسول کے دل میں اس طرح بسی ہوئی تھی کہ اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ اس سے خالی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سکون کی دولت نصیب ہوتی اور معرفتِ الٰہی کے دریچے ان پر روشن ہو جاتے۔ اُن کے دل کی دھڑکن میں زیارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اس درجہ سما گئی تھی کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار میسر نہ آتا تو وہ بے قرار ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت گزرتی تھی اس کے بارے میں وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزاری :

إني إذا رأيتک طابت نفسي و قرّت عيني، فأنبئني عن کل شئ، قال : کل خلق اﷲ من الماء.

’’جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہوں (تو تمام غم بھول جاتا ہوں اور) دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، پس مجھے تمام اشیاء (کائنات کی تخلیق) کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے۔‘‘

1. احمد بن حبنل، المسند، 2 : 323
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 176، رقم : 7278

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ہر کوئی فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھا اُن کا جینا مرنا، عبادت ریاضت، جہاد تبلیغ سب کچھ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسوب تھا۔ اس لئے وہ اپنے آقا و مولا سے ایک لمحہ کی جدائی گوارا نہ کرتے تھے اور ہر لمحہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت میں مست و بے خود رہتے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔