Sunday 16 August 2015

غیر مقلد وھابی سلفیوں کا عقیدہ اللہ کی ذات کے حصے بھی ہیں نعوذ باللہ اور اللہ کی ذات کے نچلے حصے میں حد بھی ہے

0 comments
وھابی غیر مقلد نام نہاد اھلحدیث یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ذات کے متعلق وہی کچھ کہتے ہیں جو کتاب و سنت میں ہے حالانکہ ان کے عقائد دیکھنے کے بعد ان کے اس دعوی کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں اور یہ اپنے اس دعوی میں پوری طرح سے نا کام ثابت ہوتے ہیں ان کے عقائد دلائل شرعیہ کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ، اجماع امت (سلف و خلف) کہیں سے بھی ثابت نہیں۔
عقیدہ : ۔ اللہ کی ذات کے حصے بھی ہیں نعوذ باللہ اور اللہ کی ذات کے نچلے حصے میں حد بھی ہے۔
بات كرنے سے قبل ياد رہے كہ امام احمد ؒ سے حد كے بارے ميں دو قول آئے ہيں ايك اثبات كا ايك نفي ، اب ہونا تو يہ چاہيئے تها كہ حد كي نفي جو كہ اہل سنت كا عقيده ہے اور سلف كے بارے ميں منقول ہے كہ وه حد ثابت نہيں كرتے تهے
امام بيهقيؒ فرماتے ہيں
الأسماء والصفات للبيهقي (2/ 334)
أَ كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَشَرِيكٌ وَأَبُو [ص:335] عَوَانَةَ لَا يُحِدُّونَ
” امام سفيان ثوري ا مام شعبه امام حماد بن زيد ، حماد بن سلمه امام شريك اور امام ابوعوانه رحمهم الله الله تعالٰی كي حد ثابت نہيں كرتے تهے “
امام بیہقیؒ اگے فرماتے ہیں:
وَعَلَى هَذَا مَضَى أَكَابِرُنَا
”اسی پر ہمارے اکابر بھی گزرے ہیں“ ۔
تو امام احمد كو حد كے اثبات كے قول سے بری كہنا چاہئے تها اس ليے كہ اثبات حد پر قران و سنت ميں كوئي دليل نہيں جيسا كہ خود انکے شيخ الباني نے كہا ہے ،
وليس فيه مايشهد لذالك من الكتاب والسنة (فہرس مخطوطات دار الکتب الظاہریه ص 376)
ليكن ابن تيميه اور قاضي ابويعلي ان كو عجيب و غريب احوال پر حمل كرت ہيں جنكا خلاصہ ہم ذيل ميں لکھتے ہيں۔
قاضي ابويعلي جس سے ابن تيميه نے جگہ جگہ اخذ كيا ہے اور اس كے عقائد پر علامه ابن الجوزي ؒ نے دفع شبه التشبيه ميں بہت مضبوط سخت رد كيا انہوں نے امام احمد سے حد كے اثبات اور انكار كے دونوں روايتوں كو اس طرح جمع كيا ہے
قال إنه على العرش بحد معناه أن ما حاذى العرش من ذاته هو حد له وجهة له والموضع الذي
جہاں انہوں نے حد كا اثبات كيا ہے وہاں اس مراد الله كي ذات كا وه حصہ ہے جو كہ عرش كے مقابل يعني سامنے ہے وہی اس کی حد اور جہت ہے۔
قال هو على العرش بغير حد معناه ما عدا الجهة المحاذية للعرش وهي الفوق والخلف والأمام واليمنة واليسرة وكان الفرق بين جهة التحت المحاذية للعرش وبين غيرها ما ذكرنا أن جهة التحت تحاذي العرش بما قد ثبت من الدليل والعرش محدود
اور جہاں امام احمد نے كها كہ وه عرش پر بغير حد كے ہے وہاں مراد الله كي ذات كا وه سائيڈ ہے جو عرش كے مقابل نہيں ہے ، جو كہ اوپر ، آگے ، پيچهے ،دائيں اور بائيں كي سائيڈ كي ہے ،(یعنی يہ تمام سائيڈ الله كے غيرمحدود ہيں)
استغفرالله ايسے خرافات پر نہ ابن تيميه كو كوئي غصه آتا ہے نہ غيرمقلدين ، الله كے ذات كے حصے بناليے ايك وه جو عرش كي طرف عرش كے بالمقابل ہے باقي اوپر كا حصه ، پيچهے كا حصه ، دائيں ، بائيں ۔۔۔ الله كي ذات كو حصوں ميں تقسيم كرليا جبكہ حصے تركيب كي واضح علامت اور جسم كي تعريف اور خصوصيات ميں شامل هيں اس سے زياده تجسیم کي وضاحت اور كيا هوگي ۔
ابن تيميه اس پر يہ تبصره اور ابو یعلی سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہيں كه امام احمد كے كلام كي تفسير ميں الله كو صرف ايك جهت سے محدود ماننا ماسوائے ديگر پانچ جهتوں كے ، يه تفسير قاضي كي دوسري جگه بيان كي گئي تفسير كے خلاف هے
(كيا امام احمد ايسے خرافات پر اپنے كلام كو حمل كرنا صحيح سمجهتے هونگے )
ليكن آگے ابن تيميه نے جو خود امام احمد كے كلام كي تفسير جو ان كے ہاں مختار هے وه نقل كي هے ، وه بهي قابل ديد ہے ،ابن تيميه كہتے ہيں كہ
قول أحمد حد لايعلمه إلا هو والثاني أنه صفة يَبِين بها عن غيره ويتميز فهو تعالى فرد واحد ممتنع عن الاشتراك له في أخص صفاته قال وقد منعنا من إطلاق القول بالحد في غير موضع من كتابنا ويجب أن يجوز على الوجه الذي ذكرناه فهذا القول الوسط من أقوال القاضي الثلاثة هو المطابق لكلام أحمد وغيره من الأئمة وقد قال إنه تعالى في جهة مخصوصة وليس هو ذاهبًا في الجهات بل هو خارج العالم متميز عن خلقه منفصل عنهم غير داخل في كل الجهات وهذا معنى قول أحمد حد لايعلمه إلا هو ولو كان مراد أحمد رحمه الله الحد من جهة العرش فقط لكان ذلك معلومًا لعباده فإنهم قد عرفوا أن حده من هذه الجهة هو العرش فعلم أن الحد الذي لا يعلمونه مطلق لا يختص بجهة العرش
بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية (3/ 24)
” امام احمد نے جہاں حد نفي كي ہے اس سے مراد يہ ہے كہ كوئي اس حد كے اندازے كا علم نہيں ركهتا كہ كتنا حد ہے ،كيونكه انهوں نے كہا ہے کہ لله كی ايسی حد هے جس كو صرف الله ہی جانتا ہے اگر اس كا مطلب يہ ہوتا که الله صرف عرش كي جهت ميں محدود ہے تو وه تو الله كے بندوں كو معلوم تها ۔
( كوئي بتائے كهاں كسی نص ميں ہميں الله كے ليے حد بتائ گئ هے كه ہميں اس بات پر علم هو ، ام تقولون علي الله مالاتعلمون)
آگے لكها كه بندوں كو پته ہے كہ الله كا حد اس جهت سے عرش ہ ہے ۔ پس معلوم هوا كہ الله كا وه حد جو مخلوق كو معلوم نہيں وه مطلق هے صرف عرش كے ساتھ مختص نهيں“
آخري جملے ميں غور كیجئے الله كے ليے حد اور وه بهي جہاں قاضي اس كو صرف عرش كي سائيڈ ميں ثابت كرتے ہيں ابن تيميه اس كو مطلقا ثابت كرتے ہيں نہ كہ صرف عرش كي سائيڈ ميں مخصوص ، سبحان الله عما يصفون ،
كيا يه سب قران و حديث سے ليا گيا ہے ،ايسي باتوں كو يقينا وھابی غیر مقلد نام نہاد احلدیث سلفی علم كلام ہی كهتے ہهيں اور فرماتے ہيں كہ علم كلام صرف زنديق ہی استعمال كرتے ہيں ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔