Sunday 30 August 2015

فضائل و مسائل اور ایّام قربانی معہ طریقہ نماز عید حصّہ چہارم

0 comments
قربانی سے متعلق اہم مسائل

ماخوذ از بہار شریعت : ۔

مسئلہ:قربانی کرنے والے کے لیےمستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند ہونے کے بعد سے ۱۰ تاریخ تک حجامت نہ بنوائے، ناخن نہ تراشے، ہر مسلمان پر مستحب ہے کہ عید قربان میں نماز عید سے پیشتر کچھ نہ کھائے ، نماز کے بعد کھائے۔ مسئلہ:عیدالاضحیٰ میں راستہ میں بلند آواز سے تکبیریں کہتا ہوا جائے۔ مسئلہ:۹ تاریخ کو فجر کے بعد سے ہر جماعت مسنونہ کے بعد تکبیر پڑھنا واجب ہے خواہ وہ جماعت جنگل میں ہو یا گاؤں میں یا شہر میں بلند آواز سے ۱۳ تاریخ کی عصر کے بعد تک ۔ مسئلہ:جس شخص کو وسعت ہو وہ اپنے ماں باپ اوراستاد اور دیگر بزرگانِ دین خصوصاً حضور سیّد المرسلین ﷺ کے لیے ایک قربانی علیحدہ کرے۔ کہ اس میں ثواب عظیم کے علاوہ سرکار دوعالم ﷺ کی رضامندی اور آپ کی سنت کا اتباع ہے۔ کیونکہ خود سرکار ﷺ اپنی طرف سے قربانی فرماتےتھے تواپنی امت کے لیے بھی قربانی فرماتے تھے۔
مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ حضور ﷺ نے دو مینڈے ذبح فرمائے اور فرمایا یہ ایک میری طرف ہے ۔ اور دوسرا میری امت کی طرف سے ہے۔
مسئلہ:اگر کوئی اپنی بیوی یا بیٹے یا دوست وغیرہ کی طرف سے ان کی اجازت کےبغیر قربانی کر دے تو یہ ان کی طرف سے کافی نہ ہوگی۔ بلکہ ان کے ذمہ پر واجب رہے گی۔ جو کسی کی طرف سے قربانی کرنا چاہے اسکو پہلے اجازت لینا ضروری ہے۔مسئلہ:اگر کسی نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا یا پالا پھر وہ بھاگ گیا یا چوری ہو گیا۔ یا کسی جانور نے پھاڑ ڈالا تو اگر وہ صاحب نصاب ہے جس پر قربانی واجب ہوتی ہے توا س کو دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب ہے اور اگر قربانی سے پیشتر پہلا مل گیا وہ دونوں میں جس کی چاہے قربانی کر دے۔ اور اگر دوسرے کی قربانی کے بعد ملا تو قربانی ہوگئی۔ پہلے والے کو بیچے یا رکھے یا جو چاہے کرے اور اگر کسی فقیر یعنی جس پر قربانی واجب نہ ہو۔ اس کا جانور تھا تو اگر قربانی کی تاریخوں کے اندر واپس مل جائے تو اس کی ہی قربانی کرنا لازم ہے اگر نہ ملے تو کچھ نہیں، اور اگر قربانی کی تاریخوں کے بعد ملے تو اس کا زندہ صدقہ کر دینا لازم ہے۔مسئلہ:ذبح کرنے کی جگہ گرہ اور گڑھے کے درمیان میں سے ذبح میں چار رگیں نرخرہ اور اس کے اوپر والی رگ او رآس پاس کی دونوں رگیں کاٹنا چاہئیں اگر ان میں سے تین رگیں بھی کٹ جائیں تو ذبح درست ہوگا ورنہ نہیں۔مسئلہ:قربانی کے جانور کو کرایہ پر دینایا اس پر سوار ہونا، اس کا دودھ یا اُون اپنے صرف میں لانا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر اُون یا دودھ ذبح سے پیشتر نکالے تو فقراء پر صدقہ کرنا لازم ہے۔مسئلہ:ذبیحہ صحیح العقیدہ مسلمان کا شریعت کے مطابق "بِسۡمِ اللہِ اللہُ اَکۡبَر"کہہ کر درست ہوگا کسی بد مذہب مرتد کا ذبیحہ درست نہیں اگرچہ وہ بسم اللہ کہے۔ مسئلہ:اگر کوئی مسلمان قصداً "بِسۡمِ اللہِ اللہُ اَکۡبَر" کہنا چھوڑ دے تو اس کا ذبیحہ حرام ہو جائے گا۔ اگر بھول کر چھوٹ جائے تو جائز ہوگا۔ مسئلہ:اگر کسی نے بھول کر ذبح کرنا شروع کیا تو جب یاد آئے فورا ً"بِسۡمِ اللہِ اللہُ اَکۡبَر" پڑھ لے ذبح کے لیے بالغ ہونا شرط نہیں جو سمجھدار بچہ ذبح کرنا جانتا ہو اور عورت، لونڈی، غلام اور وہ جس کا ختنہ نہ کیا گیا ہو سب کا ذبیحہ جائز ہے۔
کن جانوروں کی قربانی جائز اور کن کی جائز نہیں
چھ قسم کے جانوروں کی قربانی جائز ہے۔ (۱)اونٹ(۲)گائے(۳)بھینس(۴)دنبہ(۵)بھیڑ(۶)بکری.نرومادہ ہر ایک کی قربانی جائز ہے۔مسئلہ:کسی جنگلی جانور کی قربانی جائز نہیں۔ جو بچہ کسی جنگلی اور پالتو جانور سے مل کر پیدا ہوا وہ اپنی ماں کے تابع ہے ۔یعنی اگراس کی ماں ان چھ قسم کے جانوروں میں ہے تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں۔ اونٹ پانچ سال سے کم اور گائے بھینس دو سال سے کم کی قربانی جائز نہیں۔ بھیڑ، دنبہ، کھیرا چھ ماہ کابھی جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ سال بھر والے کے برابر معلوم ہوتا ہو۔ ورنہ ناجائز ہے۔مسئلہ:عیب والے جانور کی قربانی درست نہیں مثلاً اندھا، کانا اتنا کاناکہ مذبح پر نہ پہنچ سکتا ہو۔ جس کے پیدائشی کان نہ ہوں ایک تہائی کان کٹا ہو یا تہائی چکی کٹی ہو، یا پیدائشی دم نہ ہو۔ یا سینگ جڑ سے ٹوٹا ہو جس کا پستان کٹا ہو یا دوا وغیرہ سے خشک ہو گیا ہو۔ یا ایسادیوانہ ہو کہ چارہ نہ کھا سکتا ہو۔ ایسا بوڑھا یا بیمار جو بہت دبلا ہوگیا ہو جو نجاست کے علاوہ اور کچھ نہ کھاتا ہو، جس کے اکثر دانت گر گئے ہوں کہ چارہ کھانا دشوار ہو۔ مذکورہ بالا کل جانوروں کی قربانی درست نہیں۔ مسئلہ:اگر کسی مالدار کا جانور خریدنے کے بعد عیب دار ہوگیا ہو تو اس کو دوسرا اچھا خرید کر قربانی کرنا واجب ہے۔ فقراء کو وہی کافی ہے۔مسئلہ:ذبح کرتے وقت اگرکوئی عیب پیدا ہو جائے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں قربانی جائز ہے۔مسئلہ:خصی اور جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا ٹوٹے ہوئے ہوں۔ مگر جڑ سے نہ ٹوٹے ہوں۔ جس کو معمولی خارش ہو، گوشت خراب نہ ہوا ہو، جو دیوانہ ہو مگر چارہ کھالیتا ہو، جو معمولی لنگڑا ہو مگر چل سکتا ہو۔ جس کے کچھ دانت ٹوٹے ہوں مگر چارہ کھا لیتا ہو، جس کا کان یادم یا چکی تہائی سے کم کٹی ہو۔ جس کے کان پیدائشی چھوٹے ہوں، جس کی پیدائشی چکی نہ ہو۔ کھیرا دنبہ جب کہ سال بھر والے کے برابر معلوم ہوتا ہو۔مسئلہ:(خواہ واجب ہو یا نفلی ہو) اگر کوئی صرف گوشت کھانے کی نیت سے شریک ہو گا تو کسی کی قربانی جائز نہ ہوگی۔ بھیڑ، بکری، دنبہ صرف ایک آدمی کی طرف سے ہوسکتا ہے۔مسئلہ:بکرا، بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے البتہ دنبہ اگر اتنا فربہ(موٹا تازہ) اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے گائے، بھینس، دوسال کی ، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔مسئلہ:اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا عمر پوری بتاتا ہےاور ظاہر حالت میں اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔مسئلہ:جس جانور کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں یا بیچ میں سے ٹوٹ گیا ہو۔ اس کی قربانی درست ہے ہاں سینگ جڑ سے اکھڑگیا ہو جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ مسئلہ:اندھے، کانے، لنگڑے جانور کی قربانی درست نہیں اسی طرح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پاؤں سے چل کر نہ جا سکے اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔مسئلہ:جس جانور کے کان یا دم یا چکی تہائی سے زیادہ کٹے ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں۔مسئلہ:جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ اسی طرح جس جانور کے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں یونہی اگر ایک کان نہ ہو توپھر بھی جائز نہیں۔ مسئلہ:اگر جانور صحیح و سالم خریدا تھا پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا۔ تو اگر خریدنے والا غنی نہیں تو اس کے لیے عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے۔ مسئلہ:جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے ۔ اندازہ سے تقسیم نہ کریں۔مسئلہ:قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے۔مسئلہ:ذبح کرنیوالے کی اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں اجرت علیحدہ دینی چاہیے۔
مسئلہ: شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نما زہو جائے۔ لہذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہو سکتی۔ اور دیہات میں چونکہ نمازِ عید نہیں ہے۔ یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہو سکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع ِآفتاب قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عیدکا خطبہ ہو چکنے کے بعد قربانی کی جائے۔
یعنی نماز ہو چکی ہے اور ابھی خطبہ نہیں ہوا اس صورت میں قربانی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔مسئلہ: یہ جو شہر و دیہات کا فرق بتایا گیا  یہ مقامِ قربانی کے لحاظ سے ہے قربانی کرنے والے کے اعتبار سے نہیں یعنی دیہات میں قربانی ہو تو وہ وقت ہے اگرچہ قربانی کرنے والا شہر میں ہو۔اور شہر میں ہوتو نماز کے بعد ہواگرجس کی طرف سے قربانی ہے وہ دیہات میں ہو۔ لہذا شہری آدمی اگر یہ چاہتا ہے کہ صبح ہی نماز سے پہلے قربانی ہو جائے تو جانور دیہات میں بھیج دے۔مسئلہ: اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ ہو چکنے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ عیدگاہ میں نماز ہو جائے تب ہی قربانی کی جائے بلکہ کسی مسجد میں ہو گئی اور عید گاہ میں نہ ہوئی تب بھی ہو جائے گی۔
 جانوروں کی عمریں
اونٹ پانچ سال کا ، گائے دو سال کی، بکری اور بھیڑ ایک سال کی، اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں زیادہ ہو تو بہتر ہے۔ہاں دنبہ چھ ماہ کا اگر دور سے دیکھنے میں سال کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
قربانی کا  سنت طریقہ
ذبح سے پیشتر چھری تیز کی جائے جانور کو چارہ پانی رکھا جائے قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کی جائے۔ اگر ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو دوسرے سے ذبح کرائے مگر خود موجود رہے۔ اور اپنے بال بچوں کو بھی پاس کھڑا کرے کہ وہ قیامت میں گواہی دیں گے۔ جانور کو قبلہ رخ لٹا کر یہ دعا پڑھے:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیۡ وَجَّھۡتُ وَجۡھِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّمَا اَنَامِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِ الۡعَالَمِیۡنَ لَا شَرِیۡکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ اُمِرۡتُ وَاَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنۡکَ بِسۡمِ اللہِ اَللہُ اَکۡبَرُ۔ اسے پڑھ کر ذبح کر دے قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا پڑھے:۔اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلۡ مِنِّیۡ کَمَا تَقَبَّلۡتُ مِنۡ خَلِیۡلِکَ اِبۡرَاہِیۡمَ عَلَیۡہِ السَّلَامُ وَحَبِیۡبَکَ مُحَمَّد ﷺ
گوشت کا مصرف
قربانی کا گوشت خود کھائے، دوستوں کو کھلائے اور مستحب یہ ہے کہ تیسرا حصہ فقراء اور مساکین کو تقسیم کرے۔قربانی کا گوشت یا کھال قصاب وغیرہ کو اجرت میں دینا جائز نہیں۔نہ دونوں چیزوں کو داموں سے فروخت کرنا جائز ہے۔اگر کسی نے گوشت یا کھال داموں سے فروخت کی تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے۔ اپنے صرف میں لانا جائز نہیں، گوشت اور کھال مالدار اور فقراء ہر ایک کو دینا لینا جائز ہے۔ قربانی کا گوشت اور کھال ، کسی غیر مسلم کو دینا جائز نہیں، نہ کسی بدمذہب کو۔
اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا
بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اگر اچھی طرح ذبح کر سکتا ہو۔ امام بخاری و مسلم﷫نے نقل کیا ہے حضرت انس ﷜روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے دو مینڈھے سینگ والے اپنے دست مبارک سے ذبح کئے اور بِسۡمِ اللہ واللہُ اَکۡبَر کہا۔ کہتے ہیں اور اگر اچھی طرح ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو دوسرے سے ذبح کروالے مگر اس صورت میں بہتر یہ کہ وقت قربانی خود بھی حاضر ہو۔
قربانی کن پر فرض ہے
قربانی ہر ایسے مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملک میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہو، یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ (رہائشی) مکان سے زائد کوئی مکان وغیرہ ہو۔
قربانی کے معاملے میں اس مال مذکور پر سال گزرنا بھی شرط نہیں۔  مسئلہ: قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت نہیں اور قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہیں۔ ان میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے۔ البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے۔
قربانی کے بدلہ میں صدقہ و خیرات
اگر قربانی کے دن گزر گئے ناواقفیت یا غفلت یاکسی عذر سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت صدقہ کر دینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا۔ ہمیشہ گنہگار رہے گا۔ کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی۔ ایسے ہی صدقہ و خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی۔
صحابہ کرام کا طرز عمل
حضرت عبد اللہ بن عمر اپنی قربانی عید گاہ(مدینہ) کے پاس ذبح کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حضور انورﷺ کا طریقہ مبارکہ بھی یہی تھا۔( ابوداؤد، ابن ماجہ)
صحابہ کرام  کے نزدیک قربانی کی اتنی اہمیت اور عظمت تھی کہ بیماری وغیرہ کے باعث اگر نمازِ عید میں شرکت نہ کرسکتے تو اس حال میں بھی قربانی فوت نہیں ہونے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت نافع تابعی اپنے استاد گرامی حضرت عبد اللہ بن عمر کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ایک بار حضرت بیمار ہوئے اور تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ نمازِ عید کے لیے عید گاہ تک تشریف نہ لے جاسکتے تھے۔ استاد گرامی نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے ایک مینڈھا خریدوں اور پھر اسے عید گاہ کے پاس آپ کی طرف سے ذبح کروں چنانچہ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور ذبح کے بعد وہ جانور آپ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ (موطا امام مالک)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:ہم حضور ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے کہ قربانی کے دن آگئے۔ چنانچہ ہم نے دس دس نے اونٹ میں اور سات سات نے گائے میں شریک ہو کر قربانی ادا کی۔( نسائی، ترمذی، مشکوٰۃ، ابن ماجہ)
نوٹ: بعد میں دس کا حکم منسوخ ہو گیا۔ اب اونٹ کی قربانی میں بھی سات ہی آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔
حضرت سہل قربانی کے متعلق صحابہ کرام کا طرز عمل اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
’’ہم (صحابہ) مدینہ منورہ میں قربانی کے جانور کو کھلا پلا کر خوب فربہ کر لیا کرتے تھے اور عام مسلمانوں کا بھی یہی طرز عمل تھا۔‘‘(بخاری)
حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ قربانی کے گوشت کے متعلق صحابہ کرام کا طریقہ استعمال بیان کرتے ہیں۔ہم حضور ﷺ کے زمانہ میں قربانیوں کا گوشت جمع کر کے رکھ لیا کرتی تھیں اور کافی دنوں تک استعمال کرتے رہتے تھے۔
خود حضورنبی اکرم ﷺ نے قربانی کا گوشت عید کے بعد کئی دنوں تک تناول فرمایا ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم حضور انور ﷺ کے لیے نمک لگا کر قربانیوں کا گوشت خشک کر کے رکھ لیا کرتے تھے اور حضور ﷺ مہینہ مہینہ تک وہ گوشت استعمال فرماتے رہتے تھے۔ (نسائی)
حضرت محمد بن سیرین تابعی فرماتے ہیں ۔ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے پوچھا کیا قربانی واجب ہے؟قال ضحی رسول اللہ ﷺ والمسلمون من بعدہ وجرت بہ السنۃ (ابن ماجہ، ابواب الاضاحی)
آپ نے فرمایا حضور ﷺ نے ہمیشہ قربانی ادا کی اور آپ کے بعد والےمسلمانوں نے قربانی کی اور آج تک پوری آب و تاب سے قربانی کی، یہ یاد گار قائم و دائم ہے۔
عشرہ ذوالحجہ کے فضائل
حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے عشرہ ذو الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں۔ ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات میں عبادت کرنا شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔قرآن مجید میں سورہ والفجر میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے، وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق یہی عشرہ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔ خصوصاً نویں تاریخ یعنی حج کا دن اور نویں اور دسویں کی درمیانی رات، ان تمام دنوں میں بھی خاص فضیلت رکھتے ہیں۔ نویں ذو الحجہ کا روزہ رکھنا ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کا کفارہ ہے اور عید کی رات میں بیدار رہ کر عبادت میں مشغول رہنا بہت بڑی فضیلت اور ثواب کا موجب ہے۔
تکبیر تشریق
اَللہُ اَکۡبَر ُاَللہُ اَکۡبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکۡبَرُ اَللہُ اَکۡبَر ُوَلِلّٰہِ الۡحَمۡدُ
نویں ذی الحجہ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند ایک مرتبہ
مذکورتکبیر پڑھنا واجب ہے اور تین بارافضل۔
عید الاضحیٰ کی سنتیں
۞غسل کرنا
 ۞مسواک کرنا
۞خوشبو لگانا
 ۞نئے کپڑے پہننا
۞عید گاہ کو پیدل جانا
۞ مصافحہ و معانقہ
۞ قبل از نماز کچھ نہ کھانا
عید کے دن ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ و معانقہ کرنا سنت ہے۔سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی سے مصافحہ کیا اللہ تعالیٰ اس پر سو(100) رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ایک اس پر جس نے مصافحہ کیا اور نناوے اس پر جس نے پہلے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
قربانی کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ عید کے دن قربانی سے پہلے کچھ نہ کھائے بلکہ قربانی ہی کے گوشت میں سے کھانے کا اہتمام کرے مگر یہ روزہ نہیں ہوگا نہ ہی اس دن روزہ کی نیت کرنا جائز ہے کیونکہ عید کے تین دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ البتہ پہلی سے نویں تک کے روزے بہت افضل ہیں اور سب نفلی روزوں میں بہتر روزہ عرفہ (نویں ذوالحج) کے دن کا روزہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:۔
’’جن دنوں میں رب کی عبادت کی جاتی ہے ان میں سے کوئی دن عشرہ ذی الحجہ سے زیادہ پسندیدہ نہیں ان میں سے ہر دن کا روزہ سال کے روزوں اور ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔‘‘
نمازِ عید پڑھنے کا طریقہ
نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نماز عید الاضحیٰ واجب ساتھ چھ زائد تکبیروں کے خاص اللہ تعالیٰ کے لیےبندگی اللہ تعالیٰ کی، منہ میرا قبلہ شریف کی طرف پیچھے اس امام کے" اَللہُ اَکۡبَرُ۔"یہ کہہ کر ہاتھ زیر ناف باندھ لیں اور"سُبۡحَانَکَ اللّٰھُمَّ تا وَلَا اِلٰہَ غَیۡرُکۡ "پڑھ کر امام کے ساتھ"اَللہُ اَکۡبَرُ "کہہ کر ہاتھ چھوڑ دیں، اس طرح تین تکبیریں کہیں اور تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور تیسری مرتبہ ہاتھ باندھ لیں۔ اب امام قرأت کرے گا اور مقتدی خاموشی سےسنیں گے اور حسب دستور پہلی رکعت کا رکوع سجود کر کے دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جائیں اور ہاتھ باندھ لیں۔ا ب امام قرات کرے گا اور قرات کے بعد امام تین تکبیریں کہے گا اور تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں اور باقی نماز حسب دستور پوری کریں۔ نماز کے بعد امام خطبہ پڑھے گا ، سب خاموشی سے سنیں اور خطبہ کے بعد دعا مانگیں ۔
( آخری پوسٹ ) دعاؤں کی درخواست ہے ڈاکٹر فیض احمد چشتی

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔