Wednesday 26 August 2015

حجیت حدیث اور منکرینِ حدیث کو جواب

0 comments
حجیت حدیث اور منکرینِ حدیث کو جواب
محترم قارئین کرام : حدیث سے ہماری مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ، فعل اور حال ہے ۔ حجیت سے ہمارا مقصد دلیل شرعی ہونا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال اور احوال مبارکہ دلیل شرعی ہیں ۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال کی پیروی کا حکم دیا چنانچہ ارشاد فرماتا ہے : أطيعوا الله وأطيعوا الرشول ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 36)
ترجمہ : اللہ عزوجل کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو ۔

ما اتكم الرسول فخذوہ وما نهكم عنه فانتهوا ۔ (سورہ الحشر آیت نمبر 7)
ترجمہ : رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم کو جوحکم دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ ۔

قل إن کنتم تحبون الله فاتبعونی ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۱)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجیے کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ۔

لقد كان لكم في رسول الله أسوۃ حسنة ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر ۲۱)
ترجمہ : تمہارے اعمال کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔

ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی اطاعت اور آپ کے افعال کی اتباع قیامت تک کے مسلمانوں پر واجب ہے اب سوال یہ ہے کہ بعد کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام اور آپ کے افعال کا کس ذریعہ سے علم ہوگا ۔ الله تعالی نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو ہمارے لیے نمونہ بنایا ہے پس جب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے سامنے نہ ہو ہم اپنی زندگی کوحضور کے اسوہ میں کیسے ڈھال سکیں گے اور جب کہ ہمیں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اطلاع صرف احادیث سے ہی ممکن ہے تو معلوم ہوا کہ الله تعالی کے نزدیک جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے بنفس نفیس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہدایت تھی اسی طرح ہمارے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث ہدایت ہیں اور اگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی ہدایات اور آپ کے نمونہ کےلیے معتبر ماخذ نہ مانا جائے تو اللہ تعالی کی حجت بندوں پر ناتمام رہے گی کیونکہ اللہ تعالی نے رشد و ہدایت کےلیے صرف قرآن کو کافی قرار نہیں دیا بلکہ قرآن کے احکام کے ساتھ ساتھ رسول کے احکام کی اطاعت اور اس کے افعال کی اتباع کوبھی لازم قرار دیا ہے اور اس کے اقوال اور افعال کو جانے کے لیے احادیث کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔

احادیثِ مبارکہ کو اگر معتبر نہ مانا جائے تو نہ صرف یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی ہدایات سے ہم محروم ہوں گے بلکہ قرآن کریم کی دی ہوئی ہر بات سے بھی مکمل طور پر مستفید نہیں ہوسکیں گے کیونکہ الله تعالی نے ہدایت کےلیے قرآن نازل فرمایا لیکن اس کے معانی کا بیان اور اس کے احکام کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کر دی چنانچہ ارشادفرمایا : وانزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل الیهم ۔ (سورہ نحل آیت نمبر 44)
ترجمہ : ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ذکر (قرآن کریم) نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں سے بیان کریں جو ان کی طرف احکام نازل کیے گئے ۔

ويعلمهم الكتاب والحكمة ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 164)
ترجمہ : اور وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔

ممکن ہے کوئی شخص یہ کہدے کہ آیات کے معانی کا بیان اور کتاب و حکمت کی تعلیم صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کےلیے تھی تو جواباً عرض ہے کہ اسلام صرف صحابہ کانہیں بلکہ قیامت تک کے مسلمانوں کا دین ہے اس لیے جس ہدایت کی انہیں ضرورت تھی ہمیں بھی ضرورت ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب اپنی بلندی مقام اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب کے باوجود قرآنی احکام کو سمجھنے کےلیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے محتاج تھے تو بعد کے لوگ تو بدرجہ اولی اس بیان اورتعلیم کی طرف محتاج ہوں گے ۔ قرآن کریم میں الله تعالی فرماتا ہے : هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ ۔ وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْم ۔ (سورہ الجمعۃ آیت نمبر ٢ ۔ ٣)
ترجمہ : وہ ذات جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک بڑی شان والا رسول بھیجا جو ان پر الله کی آیات تلاوت کرتا ہے اوران کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ وہ لوگ پہلے کھلی گمراہی میں تھے اور بعد کے لوگوں کو جو ابھی پہلوں کے ساتھ لاحق نہیں ہوئے ۔

قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی تعلیم دی ہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے بھی ہے اور بعد کے لوگوں کےلیے بھی پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآن کریم کی تعلیم دینا اور آیات کے معانی بیان کرنا جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کےلیے تھا اسی طرح قیامت تک کے مسلمانوں کےلیے بھی ہے اور اگر احادیث کو معتبر نہ مانا جائے تو بعد کے لوگوں کےلیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم اور تزکیہ کا کس طرح ثبوت ہوگا اور اس آیت کا صدق کیسے ظاہر ہوگا ۔

آپ ہی سوچیے ! اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ بتلاتے تو میں کیسے معلوم ہوتا کہ لفظ صلوہ سے یہ ہیبت مخصوصہ مراد ہے مؤذن کی اذان سے لے کر امام کے سلام پھیرنے تک نماز اور جماعت کی تفصیل اور کیونکر معلوم ہوتی اس طرح حج اور عمر کا بیان احرام کہاں سے اورکس دن باندھنا ہے وقوف عرفہ طواف زیارت وداع ان تمام احکام کی تفصیل اور تعیین قرآن میں کہیں نہیں ملتی حد یہ ہے ۔ قرآن میں یہ بھی مذکور نہیں کہ حج کسی دن ادا کیا جائے زکوة کا صرف لفظ قرآن میں مذکور ہے لیکن عشر اور زکوة کی کسی تفصیل کا قرآن میں بیان نہیں، پھر ان کی شہری ہیئت کذائی جس سے فرائض واجبات اور آداب کی تمیز ہو قرآن میں کہیں نہیں ملتی ۔

قرآن کریم کے بیان کردہ ان تمام احکام کی تفصیل او تعیین صرف حضور سے ملتی ہے عبد رسالت میں صحابہ کو یہ بیان زبان رسالت سے حاصل ہوا اور بعد کے لوگوں کو یہی بیان احادیث نبویہ سے حاصل ہورہا ہے اور جو شخص ان احادیث کو معتبر نہیں مانتا اس کے پاس قرآن کریم کے مجمل اور مبہم احکام کی تفصیل او تعین کے لیے کوئی ذریعہ نہیں ہوگا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن چیزوں کو حلال اور حرام کیا قرآن میں کہیں ان کا ذکر نہیں ہے ۔ ان کا ذکر صرف احادیث رسول سے ہی ممکن ہے حضور نے شکار کرنے والے درندوں اور پرندوں کو حرام کیا دراز گوش اور حشرات الارض کو حرام کیا اور ہمارے لیے ان احکام کاعلم صرف احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ممکن ہے اور اگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حجت نہ مانا جائے تو حلت و حرمت کے تمام احکام کےلیے شریعت اسلامی متکفل نہیں ہو گی ۔

قرآن کریم کے نفس مضمون کو سمجھنے کےلیے بھی ہمیں احادیث کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ قرآن مجید کی بعض آیات کا نزول کسی خاص واقعہ سے متعلق ہوتا ہے بعض مرتبہ کسی خاص سوال کے سبب سے کوئی آیت نازل ہوتی ہے اور بعض مرتبہ مشرکین یا منافقین کی کسی بات کے رد میں کوئی آیت نازل ہوتی ہے کبھی کسی آیت میں ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہونے والے کسی واقعہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور بھی صحابہ کے کسی عمل پر تنبیہ یا اس کی تائید میں کوئی آیت نازل ہوتی ہے لہذا جب تک اس قسم کی تمام آیات کے پس منظر اور اسباب نزول کا علم نہ ہو ان کا کوئی واضح معنی سمجھ میں نہیں آتا اور اگر فہم قرآن کےلیے احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک معتبر ماخذ اور حجت نہ مانا جائے تو قرآن مجید کی بعض آیات ایک چیستان اور معمہ بن کر رہ جائیں گی ۔

ہم نے اس مضمون میں اثبات مدعا کےلیے قرآن مجید کی روشنی میں جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان جسم و روح کا مجموعہ اور علم و عمل کی صلاحیتوں کا مجسمہ ہے ۔ وہ خود بخود پیدا نہیں ہوا ۔ اسے خدائے قدوس نے پیدا کیا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق ہے ۔ مخلوق کا ہر فرد اپنے وجود و بقا میں اپنے خالق کا محتاج ہوتا ہے ۔ تمام مخلوقات کی حاجات و ضروریات ان کے حسب حال ہیں جن کا پورا ہونا صرف خالق کائنات کی طرف سے ممکن ہے ۔

انسان کی حاجات اس کے حسب حال دو قسم کی ہیں جسمانی اور روحانی۔ قدررت نے اس کی جسمانی حاجات کے لئے ایک جسمانی مستحکم نظام قائم فرما دیا جس سے اس کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں لیکن روح کی نوعیت جسم سے بالکل مختلف ہے اس لئے اس کی ضرویات و نظام تکمیل ضروریات کی نوعیت بھی مختلف ہے۔

اس اختلاف کے باوجود چونکہ جسم و روح مخلوق و محتاج ہونے میں یکساں ہیں اس لیے دونوں کی ضرورت پوری ہونے میں ایسے علم کی طرف محتاج ہونا مساوی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعہ سے اسے یہ بات معلوم ہو جائے کہ میرا خالق و مالک میرے کون سے فعل کو پسند کرتا ہے جسے صادر کر کے میں اپنے مقصد تخلیق میں کامیاب ہو سکوں گا اور کون سا وہ کام ہے جس کے کرنے سے میرا پیدا کرنے والا مجھ سے نا خوش ہو گا اور اس کی وجہ سے میں حقیقی فوز و فلاح سے محروم ہو جاؤں گا ۔

مختصر یہ کہ انسانی فوز و فلاح سعادت و نجات اور مقصد تخلیق میں کامیابی و کامرانی کا مدار صرف اس بات پر ہے کہ انسان رضائے الٰہی کو جانے اور اس پر عمل پیرا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس علم کا حصول اور طریق عمل کی تعیین عام انسانوں کے لئے ناممکن ہے اس لئے خالق کائنات نے اس کا ذریعہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بنایا اور ان کی ذواتِ قدسیہ اس علم و عمل کا سرچشمہ قرار پائیں۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی وہ خصوصیات جو قرآن مجید کی روشنی میں نظر آتی ہیں ان کے پیشِ نظر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ کار نہیں کہ ان کے اقوال و افعال اور احوال مبارکہ حجت شرعیہ ہیں ورنہ انسان پر فلاح و بہبود، سعادت و نجات اور مقصد تخلیق میں کامیابی کے تمام دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے اور وہ شکوک و شبہات کی ظلمتوں میں حیران و پریشان رہے گا اور ضلالت کی وادیوں میں بھٹکتا ہوا ایک دن ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے گا ۔ اس مضمون کی بنیاد ہم نے مثبت پہلو پر رکھی ہے ۔ اثنائے کلام میں کہیں کہیں حسبِ ضرورت استدراک آ گیا ہے ۔ البتہ ازالۂ شکوک و شبہات کےلیے آخر میں ایک عنوان قائم کر کے منکرین ِ حدیث کی بنیادی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی جسمانی تخلیق کی ابتداء مٹی کے جوہر سے فرمائی جو آگے بڑھ کر نطفہ بنا۔ نطفہ سے خون بستہ اور خون بستہ سے مضغہ اور مضغہ سے عظام کی صورت میں تبدیل ہوا۔ عظام پر گوشت پہنایا گیا۔ اس چھٹے مرحلے پر انسانی جسم کا ڈھانچہ مکمل ہو گیا۔ اس کے بعد خالق کائنات نے فرمایا ’’ثُمَّ اَنْشَاْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ۔‘‘ (پھر ہم نے اسے دوسری مخلوق بنا کر اٹھا کھڑا کیا) یعنی اس کے جسم میں روح ڈال کر تخلیق انسان کو مکمل فرما دیا۔ جسم و روح کا یہ حسین امتزاج گویا دست قدرت کا وہ بہترین شاہکار قرار پایا جس کے متعلق ارشاد ہوا : فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔
دیکھیے آیت ۱۲۔ ۱۴، سورئہ مؤمنون میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ۔ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَأْ نَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔

جس طرح مراتب ستہ جسمانیہ مرتبہ تکوین میں حسن خالقیت کے آئینہ دار ہیں اسی طرح انسان کے صفات ستہ روحانیہ ایمان، خشوع فی الصلوٰۃ، اعراض عن اللغو، فعل زکوٰۃ، حفظ فروج اور رعایت امانت و عہد مقام تشریح میں حسن الوہیت کے علمبردار ہیں۔ ان کا ذکر بھی سورئہ مؤمنون کی ابتدائی آیات میں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ۔ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۔ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَائَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ۔ اُولٰئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ۔ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ۔ (سورہ مؤمنون آیت نمبر ۱ - ۱۱)

وہ مراتب کمال جسم کا مدار تھے اور یہ صفات فلاح روح کا معیار ہیں ۔ تکوین و تشریح کا فرق اور مرکب و بسیط کا امتیاز یہاں مضر نہیں بلکہ نگاہِ بصیرت کے لئے یہی فرق آگے چل کر مشعل راہ ہو گا ۔

حسن خالقیت کے یہ دونوں نمونے جن کا مجموعہ انسان ہے اپنی اپنی شان کے مطابق ضروریات و حوائج رکھتے ہیں۔ خالق کائنات کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی چیز کو پیدا کر کے اس کی طرف سے غافل ہو جائے بلکہ وہ اپنی مخلوق کی حفاظت و بقا کے طریقوں اور اس کے جمیع حوائج و ضروریات سے پوری طرح باخبر اور اپنی حکمت کے مطابق کفیل کار ہوتا ہے۔ اسی سورئہ مؤمنون میں تخلیق انسانی کو کمال جمعیت کے ساتھ بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِیْنَ ۔ اس کے بعد ’’وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَائِ مَائًم بِقَدَرٍ فَاَسْکَنَّاہُ فِی الْاَرْضِ‘‘ سے لے کر ’’وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ‘‘ (آیۃ: ۱۸- ۲۲) تک تمام جسمانی ضروریات کے انتظام کی تکمیل بیان فرمائی۔ اس کے بعد قصص انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کی بنیادی تعلیمات کا ذکر نہایت تفصیل سے فرما کر روح کی حوائج و ضروریات کے انتظامات کا باحسن وجوہ ذکر فرمایا اور قصص و تعلیمات رسل کرام کے ضمن میں اس امر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جس طرح آیاتِ سابقہ میں انسانوں کی جسمانی ضروریات کا انتظام مذکور تھا اسی طرح روحانی ضروریات و حوائج کے سرانجام کرنے کے لئے دنیا کی ابتدا ہی سے وحی نبوت و رسالت کا سلسلہ بھی ایسے مستحکم طریق پر قائم فرما دیا جسے کوئی طاغوتی طاقت متزلزل نہیں کر سکتی۔ اسی لئے دوسری جگہ فرمایا ’’لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔‘‘ (یونس: ۶۴) اور ایک اور مقام پر فرمایا ’’ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۔ (روم: ۳۰)

چونکہ انسان جسم و روح دونوں کا مجموعہ ہے اس لئے صرف ایک کی ضرورت کا انقضاء انسان کےلیے کافی نہیں ۔ انسان کی ضروریات کا پورا ہونا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کی روح کی ضروریات بھی مکمل طور پر پوری ہو جائیں بلکہ اگر اس مسئلہ کو اس نوعیت سے سوچا جائے کہ جسم فانی ہے ، اس کی ضروریات بھی فانی ہیں اور روح باقی ہے لہٰذا اس کی ضروریات بھی باقی ہیں تو روحانی ضروریات کا سر انجام ہونا اور بھی زیادہ ضروری اور اہم قرار پاتا ہے ۔

اگرچہ ہر چیز اللہ تعالیٰ اپنے خزائن قدرت سے نازل فرماتا ہے ’’وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗ اِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۔‘‘ (حجر: ۲۱) لیکن عادتِ الٰہیہ یہ ہے کہ جو چیز جہاں ہوتی ہے اس کی غذا اور اس کی ضروریات کا استیصال بھی وہیں ہوتا ہے ۔

جسم عناصر اربعہ سے مرکب ہے اور اس کی اصل مٹی کا جوہر ہے لیکن روح بسیط ہے اس کی حقیقت میں عناصر کا کوئی دخل نہیں بلکہ وہ عالم بالا سے لائی گئی ہے اسی لئے وہ لوگوں کے فہم سے بالا تر رہی۔ لوگ اس کے متعلق سوال کرتے رہے مگر ان کے ناقص علم کی حدود سے چونکہ روح کا مقام بہت بلند تھا اس لئے ارشاد ہوا ’’وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً ۔ (بنی اسرائیل: ۸۵)

بنا بریں ضروری ہوا کہ اس کے حوائج و ضروریات کا مرکز عالم قدس قرار پائے جو وحی نبوت اور دین سماوی کا مبداء ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جسم و روح دونوں مخلوق اور محتاج ہونے میں مساوی ہیں اس لئے دونوں کا دائرہ علم و عمل حصول رضائے الٰہی کے نقطہ پر امور مذکورہ کو جاننے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ۔

ظاہر ہے کہ ان امور کا علم ہر شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے حصول کا ذریعہ کسی کے پاس نہیں ۔ اس کے لئے صرف انبیاء علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ مخصوص کی جاتی ہیں کیونکہ فیضانِ الٰہی کے حصول کی جو استعداد انبیاء کرام میں ہوتی ہے وہ کسی دوسرے انسان میں نہیں پائی جاتی۔ اس لحاظ سے نبی کی ذات عام انسانوں سے بالکل مختلف اور مباین ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ’’اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘ (انعام: ۱۲۴) اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کی رسالت کے لئے کون سی ذات موزوں اور مناسب ہے ۔

اسی لیے قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کو مصطفی اور برگزیدہ قرار دیا گیا ہے : اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ۔‘‘ (الحج: ۷۵)
اور اسی طرح ’’اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرَاہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘ (اٰل عمران: ۳۳)
ان سب کی برگزیدگی ہمارے بیان کی روشن دلیل ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی فرمایا ’’اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ۔‘‘ (اعراف: ۱۴۴)
ابراہیم و اسحاق و یعقوب علیہم السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’وَاِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ ۔‘ (سورہ ص : ۴۷)

ان آیات میں اصطفاء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صفات ذمیمہ سے بالکل پاک اور خصائل حمیدہ سے مزین فرمایا۔ یہ معنی ’’اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘ کے بالکل موافق ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کا یہ اصطفاء جو قرآن مجید میں جابجا وارد ہوا ہے اس کے یہی معنی ہیں کہ انبیاء علیہم السلام ایسے برگزیدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے تمام قوائے جسمانیہ و روحانیہ مدرکہ محرکہ ظاہرہ و باطنہ سب میں عام انسانوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ان کے غیر میں یہ کمالات نہیں پائے جاتے۔ البتہ اگر شاذو نادر ان کے کسی متبع میں کمال اتباع کی وجہ سے تبعاً کوئی کمال پایا جائے تو ان کی خصوصیت میں فرق نہیں آتا ۔

انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حواس ظاہر کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے حاسۂ بصر کو اتنا قوی فرما دیا کہ ملکوت السمٰوٰت والارض کا انہوں نے مشاہدہ فرمایا۔ قرآن مجید میں ہے ’’وَکَذَالِکَ نُرِیْ اِبْرَاہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ۔ (انعام: ۷۵)

نبی کا حاسہ سمع ملاحظ ہو۔ قرآن مجید میں نملہ کا قول مذکور ہے ’’یٰاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ ۔ (نمل: ۱۸)

اور اس کے بعد سلیمان علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے ’’فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِہَا ۔ (نمل: ۱۹)

سلیمان علیہ السلام نے نملہ کی یہ بات سنی اور مسکرا کر ہنس پڑے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کا حاسہ سمع بھی عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے ۔

اسی طرح حاسۂ شم میں بھی انبیاء علیہم السلام اپنے غیر سے ممتاز ہوتے ہیں۔ سورئہ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کا مقولہ بیان فرمایا۔ انہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا ’’اِذْہَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَأْتِ بَصِیْرًا۔‘‘ (یوسف: ۹۳) میری یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو وہ بینا ہو جائیں گے ۔

’’وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْہُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَااَنْ تُفَنِّدُوْنَ۔‘‘ (یوسف: ۹۴) جب قافلہ روانہ ہوا تو یعقوب علیہ السلام بولے میں یوسف کی بو محسوس کرتا ہوں اگر تم مجھے دیوانہ نہ بناؤ ۔

یہی حال انبیاء علیہم السلام کی قوت لامسہ کا ہوتا ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کےلیے نار کو بردو سلام بنا دیا اور قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلاَمًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ ۔ (انبیاء: ۶۹)

بے شک ابراہیم علیہ السلام کا اثر برد وسلام کو محسوس کرنا جعل الٰہی سے تھا مگر عادتِ الٰہیہ یہی ہے کہ اثر سے پہلے تاثر کی استعداد پیدا کی جاتی ہے جس کی دلیل ’’فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا‘‘ ہے۔ حاسۂ ذوق اور قدرتِ لامسہ میں ایسی قوی مشابہت ہے کہ بعض نے دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے اس لئے ایک کا ذکر دوسرے سے مستغنی کر دیتا ہے۔ رہے حواس باطنہ تو بے شک نبی ان میں بے نظیر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰی اِلَّا مَا شَائَ اللّٰہُ ۔ (الاعلٰی: ۶۔ ۷)

یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن کی قرأت کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ بھولیں گے مگر وہ جو اللہ چاہے ۔ معلوم ہوا کہ نبی کی قوت حافظہ غیر نبی میں نہیں پائی جاتی ۔ ورنہ کامل قرآن کا وجود قطعی نہ رہے گا کیونکہ ایسی صورت میں یہ احتمال رہ جائے گا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اپنی طرف سے بھول گئے ہوں ۔

قوت مدرکہ کے بعد قوت محرکہ کی طرف آیئے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا رفع اس بات کی روشن دلیل ہے کہ نبی کی ذات میں یہ قوت بھی ایسے کامل طور پر پائی جاتی ہے جس کا تصور غیر نبی کے لئے نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں فرمایا ’’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًام بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ۔ (النساء: ۱۵۷، ۱۵۸)

بے شک رافع اللہ تعالیٰ ہے مگر جب تک مرفوع میں تحمل رفع کی قوت نہ ہو رفع متحقق نہیں ہوتا۔ اسی طرح قول خداوندی ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی ۔ (بنی اسرائیل: ۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں اسی قوت محرکہ کے پائے جانے کی دلیل ہے جو عام انسانوں کے حق میں نہیں پائی جاتی ۔

رہے قوائے روحانیہ عقلیہ تو انبیاء علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ میں وہ بھی غایت کمال اور نہایت صفاء کے درجہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس مسئلہ میں آخری بات یہ ہے کہ نفوس قدسیہ نبویہ باقی نفوس سے اپنی ماہیات میں بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ کمال ذکاوت و فطانت، حریت و استعلا اور ترفع عن الجسمانیات و الشہوات اس نفس قدسیۂ نبویہ کے لوازمات سے ہیں ۔

نبی کی روح جب صفا و شرف کے انتہائی مقام پر ہوئی اور اس کا بدن غایت پاکیزگی اور طہارت کے درجہ میں ہوا تو لا محالہ اس کے تمام قوائے محرکہ و مدرکہ غایت کمال میں ہوں گے۔ کیونکہ اس تقدیر پر وہ ان انوار کے قائم مقام قرار پائیں گے جن کا فیضان روح کے جوہر سے ہوتا ہے اور وہ بدن تک پہنچتے ہیں۔ ایسی صورت میں فاعل و قابل یعنی جسم و روح دونوں صفا کے انتہائی درجہ میں ہوں گے ۔ ان کمالات کو معجزہ قرار دیا جانا ہمیں مضر نہیں۔ اس لئے کہ وہ ایک کمال عظیم ہے اور کوئی کمال کسی کو اس وقت تک نہیں دیا جاتا جب تک اس میں اس کمال کو قبول کرنے کی صلاحیت اور استعداد نہ ہو ۔

(استدراک) اس مقام پر یہ شبہ درست نہ ہو گا کہ انبیاء علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ میں ملکات و قوی اور نبوت کی استعداد اشاعرہ کے نزدیک شرط نہیں۔ واضح رہے کہ یہ علوم اشتراط بربنائے ایجاب ہے یعنی اہل حق کے نزدیک استعداد نبوت علت موجبہ نہیں کہ بغیر عطائے الٰہی کے محض ملکات و قوی اور استعداد کی وجہ سے نبوت حاصل ہو جائے بلکہ اس کا حصول محض جعل خداوندی اور عطائے الٰہی پر موقوف ہے ۔

قرآن مجید کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کے مصطفی اور برگزیدہ ہونے کے یہی معنی ہیں۔ اب اس کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ سے اس علم کو حاصل کرنے کا طریق کار کیا ہے؟ جسے اختیار کر کے انسان مدارِ فلاح و نجات، روحانی حوائج و ضروریات کے حصول اور اپنے تقاضائے فطرت ایمان باللہ و معرفت الٰہیہ کی تحصیل میں کامیاب ہو سکے اس پر ہدایت کی راہیں کھل جائیں وہ عذابِ الیم سے نجات پا کر سعادت ابدی حاصل کر سکے اور ’’اُولٰئِکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ‘‘ کا مصداق بن جائے تو قرآن مجید کی روشنی میں وہ طریق کار صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان ہو اور صحیح معنی میں ان کی اطاعت و اتباع پائی جائے۔ ان کی لائی ہوئی کتاب اور ان کی سنت کو مشعل راہ بنایا جائے ۔

ایمان بالرسل دین سماوی کا بنیادی نقطہ ہے : اس مقام پر دو چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں … ایک ایمان بالوحی … دوسرے ایمان بالرسول … ظاہر ہے کہ وحی الٰہی ہمیں بواسطۂ رسول ہی ملی ہے۔ اس لئے جب تک رسول پر ایمان نہ لایا جائے اس وقت تک وحی الٰہی پر ایمان لانے کا ہمارے لئے کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ معلوم ہوا کہ ایمان بالرسل دین سماوی کا پہلا بنیادی نقطہ ہے جس کے بغیر فلاح و نجات متصور نہیں ہو سکتی ۔ حسب ذیل آیاتِ قرآنیہ اس حقیقت پر صراحۃً دلالت کرتی ہیں : ⬇

(۱) فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (نساء)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرمایا کہ جب تک رسول کو مان کر اور اسے حاکم تسلیم کر کے اس کے ہر فیصلے کو بدل و جان تسلیم نہ کیا جائے اس وقت تک کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ نجاتِ اخروی کا مدار ایمان پر ہے اور ایمان کا دار ومدار رسول کو ماننے اور اسے حاکم تسلیم کرنے اور اس کے ہر فیصلے کو بلا چون وچرا بدل و جان مان لینے پر ہے۔

(۲) وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًام بَعِیْدًا۔ (س: النساء)
اس آیت میں ہر اس شخص کو کافر اور گمراہ قرار دیا گیا ہے جو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخر میں سے کسی کا انکار کرے۔ معلوم ہوا کہ ان سب چیزوں کا ماننا ہی ایمان ہے۔

(۳) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔ (س: نور)
اس آیت میں ایمان باللہ وایمان بالرسول میں مومنین کا حصر کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا۔

(۴) وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ (س: نساء)
یہاں ارسال رسول کو اس مقصد میں منحصر کیا گیا ہے کہ اذنِ الٰہی کے موافق اس کی اطاعت کی جائے۔ خدا کا ارسال ہی اس بات کی دلیل ہے کہ رسول پر ضرور ایمان لایا جائے۔ پھر یہ کہ اس کا مطاع ہونا اس پر ایمان لانے کے ضروری ہونے کو اور بھی مستحکم کر دیتا ہے۔

(۵) اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًاoلا اُولٰئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًاج وَاَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًاo (س: نساء)
یہ آیت کریمہ ایمان بالرسول کے لئے اس قدر روشن دلیل ہے کہ قطعاً محتاج تشریح نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفریق کرنا مثلاً اللہ پر ایمان لانا اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانا اس آیت میں کفر صریح قرار دیا گیا اور اس قسم کے لوگوں کے لئے فرمایا گیا کہ ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

(۶) وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ (س: نساء)
پہلی آیت میں اس مسئلہ کا منفی پہلو مذکور تھا۔ اس میں مثبت پہلو کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ جو لوگ ایمان باللہ و ایمان بالرسول میں تفریق نہیں کرتے اور اللہ اور اس کے رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں انہیں کو اللہ تعالیٰ اجر اخروی عطا فرمائے گا اور وہی لوگ خدا کی رحمت اور اس کی مغفرت کے اہل ہیں ۔

ان آیات سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ ایمان بالوحی یقینا مدار ایمان ہے لیکن اس کا ذریعہ صرف ایمان بالرسول ہے اور جس طرح انکارِ وحی کے ساتھ کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا اسی طرح رسول کا انکار کرنے سے بھی مومن نہیں رہ سکتا ۔

حجیت حدیث کا مدار : اگرچہ آیاتِ سابقہ و مضمون سے اس معنیٰ پر روشنی پڑ چکی ہے کہ رسولوں پر ایمان لانا اس وقت تک متحقق نہیں ہوتا جب تک کہ ان کی کامل اتباع اور اطاعت نہ کی جائے لیکن چونکہ ہمارے اس موضوع ’’حجیت حدیث‘‘ کا دارو مدار رسول کی اطاعت اور کامل اتباع پر ہے اس لئے ہم قرآن مجید سے وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کی رو سے یہ مدعا قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے ۔

(۱) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ (س: آل عمران)

اتباع اور اطاعت سے مراد یہ ہے کہ کسی کی تعظیم و توقیر کے ساتھ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس کے اقوال و افعال کی پیروی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی اتباع و اطاعت رسول مومنوں پر فرض فرمائی اور اس اتباع کو خدا کی محبت کے لئے شرط قرار دے دیا۔ خدا کی محبت دین کی روح اور ایمان کا خلاصہ ہے۔ لہٰذا اس کی شرط بھی اسی کے لائق دین میں اہم قرار پائے گی ۔

(۲) وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ (س: نساء)
اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے جنت کے داخلے اور فوز عظیم کے حصول کو مشروط کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بغیر اطاعت رسول کے جنت میں جانا اور فوز عظیم حاصل کرنا ناممکن ہے ۔

(۳) یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ ۔ (سورہ : محمد)

معلوم ہوا کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ہر عمل باطل ہے ۔

(۴) لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الاٰخِرَ۔ (سورہ : احزاب)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ میں اقتداء حسن کا ایک کامل نمونہ ہر اس شخص کےلیے بیان فرمایا ہے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو۔ یہ آیت حجیت حدیث میں اصل عظیم ہے۔ جیسا کہ ہم ان شاء اللہ آگے چل کر وضاحت کریں گے ۔

(۵) قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ۔ (س: آل عمران)
اس آیت کریمہ کا مفاد یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کرنے والے کافر ہیں۔

ان کے علاوہ بے شمار آیاتِ قرآنیہ ہیں جن سے اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ سابقاً معلوم ہو چکا ہے کہ اتباع اور اطاعت ہمیشہ قول اور فعل میں ہوتی ہے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و فعل حجت شرعیہ نہ ہو تو آپ کی اتباع و اطاعت کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے گی ۔ لہٰذا اس بات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و فعل یعنی حدیث شرعاً حجت ہے ۔

اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستقل حیثیت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں بعض لوگوں کا یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم محض ایک امیر ہونے کی حیثیت سے دیا گیا ہے اس خیال کا مبنیٰ اس آیت کریمہ کو قرار دیا جاتا ہے جو سورہ نساء میں وارد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ۔
منکرینِ حدیث کی وجہ استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ ، رسول اور اولوا الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ اگر رسول کی اطاعت فرض ہونے کی وجہ سے رسول کا قول و فعل حجت شرعیہ ہو سکتا ہے تو ہر امیر کے اقوال و افعال بھی شرعاً حجت قرار پائیں گے کیونکہ ’’وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘‘ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو بھی اہل ایمان پر فرض کیا ہے۔

اس خیال کے غلط ہونے کی دلیل خود اسی آیت میں موجود ہے اور وہ اسی آیت کا اگلا حصہ ہے ’’وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘‘ کے بعد متصلاً فرمایا: فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً ۔ (س: نساء)

اطاعت اولی الامر کی حیثیت : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین اطاعتوں کو فرض فرمایا جن میں دو مستقل ہیں اور ایک غیر مستقل ۔ اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت تو مستقلاً فرض کی گئی اور تیسری اطاعت اولوا الامر کی ان دو اطاعتوں کے ماتحت درج کر دی گئی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ پہلی دو اطاعتوں کےلیے لفظ ’’اَطِیْعُوْا‘‘ مکرر لایا گیا ہے اور تیسری اطاعت کےلیے جداگانہ امر کا صیغہ ارشاد نہیں فرمایا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت قرآنیہ کی رو سے خدا اور رسول کی اطاعت مستقل حیثیت رکھتی ہے لیکن اولوا الامر کی اطاعت مستقل حیثیت نہیں رکھتی ۔ یہاں استقلالاً کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کی اطاعت کی طرح براہِ راست ہم پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت واجب ہے جس طرح حکم خداوندی آجانے کے بعد ہمارے اوپر اس کا بجا لانا واجب ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جب رسول کوئی امر فرمائیں تو بغیر اس کے کہ رسول سے اس امر کی دلیل طلب کی جائے یا کتاب اللہ سے اس کا ثبوت حاصل کیا جائے محض رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرما دینے سے اس کی بجاآوری ہم پر لازم ہو جاتی ہے بخلاف اطاعت اولی الامر کے کہ اس کی یہ شان نہیں کہ امیر جو حکم بھی دے وہ براہِ راست ہمارے لئے واجب التعمیل قرار پائے بلکہ ہم اسے خدا اور رسول کی طرف لوٹائیں گے اور کتاب و سنت کے معیار پر پرکھیں گے۔ اگر وہ اس کسوٹی پر صحیح اترا تو اس کا ماننا اس لئے ہم پر واجب ہو گا کہ وہ امر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے موافق ہے اسی موافقت کی وجہ سے اس کی اطاعت محض ظاہری صورت میں غیر مستقل طور پر ظاہر ہو گی۔ اصل اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی قرار پائے گی ۔ اسی لیے ارشاد فرمایا ’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ۔‘‘ یعنی اگر تم کسی امر میں جھگڑنے لگو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو ۔

یعنی کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا حکم تلاش کرو ۔ اگر اطاعت امیر کی حیثیت مستقل ہوتی تو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے امیر کی طرف اس امر کو لوٹانے کا حکم دیا جاتا یا کم از کم الی اللہ والرسول کے ساتھ اولی الامر بھی فرما دیا جاتا ۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بحیثیت امیر ہونے کے نہیں بلکہ رسول ہونے کی حیثیت سے ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ رسول اور امیر کی اطاعت یکساں نہیں ۔ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستقل ہے اور اطاعت امیر غیر مستقل۔ لہٰذا امیر کا قول و فعل حجت شرعیہ قرار نہیں پا سکتا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و فعل حجت شرعیہ رہے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔