Monday, 31 August 2015

نام نہاد اھلحدیثوں غیر مقلد وھابیوں کا بخاری و مسلم کی احادیث مبارکہ سے اختلاف اور بخاری و مسلم سے ناروا سلوک

 ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قارئین کرام کی توجہ غیر مقلدین کے علماءکے ان بیانات کی طرف بھی کراتے چلیں جن میں امام بخاری سے عقیدت و محبت کے علی الرغم بخاری شریف اور امام بخاری پر حملے کئے گئے ہیں۔
بخاری شریف آگ میں
(العیاذ باﷲ)
مشہور صحافی اختر کاشمیری اپنے سفر نامہ ایران میں لکھتے ہیں۔
”اس سیشن کے آخری مقرر گوجوانوالہ کے اہل حدیث عالم مولانا بشیر الرحمن مستحسن تھے،مولانا مستحسن بڑی مستحب کی چیز ہیں علم محیط (اپنے موضوع پر، ناقل)جسم بسیط کے مالک، ان کا انداز تکلم جدت آلود اور گفتگو رف ہوتی ہے فرمانے لگے۔
”اب تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل قدر ضرور ہے قابل عمل نہیں، اختلاف ختم کرنا ضرور ہے مگر اختلاف ختم کرنے لئے اسباب اختلاف کو مٹانا ہوگا، فریقین کی جو کتب قابل اعتراض ہیں ان کی موجودگی اختلاف کی بھٹی کو تیز کر رہی ہے کیوں نہ ہم ان اسباب کو ہی ختم کر دیں؟ اگر آپ صدق دل سے اتحاد چاہتے ہیں تو ان تمام روایات کو جلانا ہوگاجو ایک دوسرے کی دل آزاری کاسبب ہیں ہم بخاری کو آگ میں ڈالتے ہیں، آپ اصول کافی کو نذر آتش کریں آپ اپنی فقہ صاف کریں ہم اپنی فقہ (محمدی۔ناقل) صا ف کر دینگے“
علامہ و حید الزمان صاحب کی امام بخاریؒ پر تنقید
صحاح ستہ کے مترجم علامہ وحیدالزماں صاحب امام بخاریؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
امام جعفر صادق مشہور امام ہیں بارہ اماموں میں سے اور بڑے ثقہ اور فقیہ اور حافظ تھے، امام مالک اور امام ابوحنیفہ ؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاری کو معلوم نہیں کیا شبہ ہو گیا کہ وہ اپنے صحیح میں ان سے روایت نہیں کرتے۔۔۔ اﷲ تعالیٰ بخاری پر رحم کر مروان اور عمران بن حطان اور کئی خوارج سے تو انہوں نے روایت کی اور امام جعفر صادق سے جو ابن رسول اﷲ ہیں ان کی روایت میں شبہ کرتے ہیں۔
(لغات الحدیث،۱:۶۲)
ایک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں:اور بخاری ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت نہیں کی اور مروان وغیرہ سے روایت کی جو اعدائے اہل بیت علیہم السلام تھے۔
(لغات الحدیث،۲:۳۹)
نواب وحید الزماں صاحب کی بخاری شریف کے ایک راوی پر سخت تنقید نواب صاحب بخاری شریف کے ایک راوی مروان بن الحکم پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں
”حضرت عثمان ؓ کو جو کچھ نقصان پہنچا وہ اسی کمبخت شریر النفس مروان کی بدولت خدا اس سے سمجھے(خدا اس سے بدلہ لے)
(لغات الحدیث،۲:۲۱۳)۔
بخار شریف حکیم فیض عالم کی نظر میں
امام بخاری ؒ نے واقعہ افک سے متعلق جو احادیث بخاری شریف میں ذکر کی ہیں ان کى تردید کرتے ہوئے حکیم فیض عالم لکھتے ہیں:
”ان محدثین، ان شارح حدیث، ان سیرت نویس اور ان مفسرین کی تقلیدی ذہنیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو اتنی بات کا تجزىہ یا تحقیق کرنے سے بھی عاری تھے کہ یہ واقعہ سرے سے ہی غلط ہے، لیکن اس دینی وتحقیقی جرات کے فقدان نے ہزاروں المیئے پیدا کیئے اور پیدا ہوتے رہیں گے، ہمارے امام بخاری ؒ نے اس صحیح بخاری میں جو کچھ درج فرما دیا وہ صحیح اور لاریب ہے خواہ اس سے اﷲ تعالیٰ کی الوہیت، انبیاء کرام کی عصمت، ازاوج مطہرات کی طہارت کی فضائے بسیط میں دھجیاں بکھرتی چلی جائیں، کیا یہ امام بخاری کی اسی طرح تقلید جامد نہیں جس طرح مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں“
بخاری شریف میں موضوع روایت
حکیم فیض عالم حضرت عائشہ ؓ کی عمر کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”اب ایک طرف بخاری کی نوسال والی روایت ہے اور دوسری طرف اتنے قوی شواہد حقائق ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ نو سال والی روایت ایک موضوع قول ہے جسے ہم منسوب الی الصحابة کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے“
بخاری شریف کے اىک مرکزی راوی پرحکیم فیض عالم کی جرح وتنقید
حکیم فیض عالم بخاری شریف کے ایک مرکزی راوی جلیل القدر تابعی اور حدیث کے مدون اول امام بن شہاب زہری ؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”ابن شہاب منافقین و کذابین کے دانستہ نہ سہی نادانستہ ہی سہی مستقل ایجنٹ تھے اکثر گمراہ کن خبیث اور مکذوبہ روایتیں انہیں کی طرف منسوب ہیں“
مزید لکھتے ہیں:
” ابن شہاب کے متعلق یہ بھی منقول ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بھی وبلا واسطہ روایت کرتا تھا جو اس کی ولادت سے پہلے مر چکے تھے، مشہور شیعہ مولف شیخ عباس قمی کہتا ہے کہ ابن شہاب پہلے سنی تھا پھر شیعہ ہوگیا (تتمتہ المنتہیٰ ص۱۲۸) عین الغزال فی اسماءالرجال میں بھی ابن شہاب کو شیعہ کہا گیا ہے“
قارئیں کرام !! علامہ وحید الزماں صاحب اور حکیم فیض عالم کی امام بخاریؒ اور ابن شہاب زہریؒ پر اس شدید جرح کے بعد غیر مقلدین کو بخاری شریف پر سے اعتماد اٹھا لینا چاہیئے اور بخاری شریف کی ان سینکڑوں احادیث سے ہاتھ دھو لینا چاہئیے جن کی سند میں ابن شہاب ؒ موجود ہیں بالخصوص حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کی رفع یدین والی حدیث اور حضرت عبادةؓ کی قرات فاتحہ والی حدیث سے تو بالکل دستبردار ہو جانا چاہىئیے کیونکہ ان احادیث کی سند میں یہی ابن شہاب ؒ موجود ہیں، دیکھئے غیر مقلدین کیا فیصلہ فرماتے ہیں؟۔
6۔غیرمقلدین کی احادیث میں بےاصولیاں
غیر مقلدین حضرات بخاری شریف کے معاملہ میں اس قدر غیر محتاط واقع ہوئے ہیں کہ بے دھڑک احادیث مبارکہ بخاری کی طرف منسوب کر دیتے ہیں حالانکہ وہ احادیث یا توسرے سے بخاری میں نہیں ہوتیں یا ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہوتیں، دو چار حوالے اس سلسلہ کے نذر قارئین کیئے جاتے ہیں۔
)غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب نے اپنی کتاب رسول اکرم کی نماز" میں ص۴۸میں ایک حدیث درج کی ہے
”عن عبداﷲ بن عمر قال رایت النبی ﷺافتح التکبیر فی الصلوة فرفع یددہ حین یکبر حتی یجعلھما حدو منکیبہ واذاکبر للرکوع فعل مثلہ و اذا قال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثلہ و اذ اقال ربنا رلک الحمد فعل مثلہ ولا یفعل ذالک حین یسجد ولا حین یرفع راسہ من السجود“
(سنن کبری ج۲ص۶۸، ابو داود ج۱ ص ۱۶۳، صحیح بخاری ج۱ص ۱۰۲ الخ)“
ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بخاری شریف میں نہیں ہے، شائید غیر مقلدین کہیں کہ الفاظ کے ساتھ نہ سہی معنا سہی تو ان کے یہ بات بھی غلط ہے یہ معنا بھی بخاری میں نہیں ہے اس لئے کہ حدیث سے چار جگہ رفع یدین ہو رہا ہے۔(۱)تکبیر تحریمہ کے وقت (۲)رکوع میں جاتے وقت (۳) سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے وقت (۴) اور ربنالک الحمد کہتے وقت جبکہ بخاری میں صرف تین جگہ رفع یدین کا ذکر ہے۔
(۲)غىر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل مفتی ابو البرکات احمد صاحب ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں
”صحیح بخاری میں آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے کہ تین رکعت کے ساتھ وتر نہ پڑھو، مغرب کے ساتھ مشابہت ہوگی“
یہ حد یث بخاری تو دور رہی پوری صحاح ستہ میں نہیں،من ادعی فعلیہ البیان
(۳)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب تحریرفرماتے ہیں
”حالانکہ حضور نے یہ بھی صاف صاف فرمایا ہے : افضل الاعمال الصلوة فی اول و قتھا (بخاری) افضل عمل نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا ہے“
ان الفاظ اور معنی کے ساتھ یہ حدىث پوری بخاری میں کہیں نہیں ہے
(۴) حکیم صادق صاحب نے ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ درج کی ہے
”عن ابن عباس قال کان الطلاق علی عہد رسول اﷲ ﷺ وا بی بکر و سنتین من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة (صحیح بخاری)
رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں اور حضرت اوبکر ؓ کی پوری خلافت میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دو برس میں(بیکبارگی)تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھی“
اور الفاظ کے ساتھ اس حدیث کا پوری بخاری میں کہیں نام و نشان نہیں ہے
(۵)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ”صلوة الرسول “ ص۲۱۸ میں ”رکوع کی دعائیں“ کے تحت چوتھی دعا یہ درج کی ہے۔
”سبحان اﷲ ذی الجبروت والملکوت والکبریاء والعظمة“
اور حوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ یہ حدیث نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔
(۶)حکیم صادی سیالکوٹی صاحب نے صلوة الرسول ص۱۵۳ پر” اذان کے جفت کلمات“ کا عنوان دے کر اذان کے کلمات ذکر کیئے ہیں اورحوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ اذان کے یہ کلمات نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔
(۷) حکیم صاحب نے صلوة الرسول ص۱۵۴ پر”تکبیر کے طاق کلمات“ کا عنوان کے تحت تکبیر کے الفاظ درج کئے ہیں اور حوالہ بخاری ومسلم کا دیا ہے حالانکہ تکبیر کے یہ الفاظ نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔
(۸)حکیم صاحب صلوة الرسول ص۱۵۶ پر ”اذان کا طریقہ اور مسائل“ کی جلی سرخی قائم کر کے اس کے ذىل میں لکھتے ہیں
”حی علی الصلوة کہتے وقت دائیں طرف مریں اور حی علی فلاح کہتے وقتا بائیں مڑیں ولایستدر اور گھو میں نہیں یعنی دائیں اور بائیں طرف گردن موڑیں گھوم نہیں جانا چاہئیے (بخاری ومسلم)
بخار ی شریف کے غلط حوالے
قارئین کرام!! غیر مقلدین حضرات جب کوئی عمل اختیار کرتے ہیں تو چاہے وہ غلط کیوں نہ ہو اس ثابت کرنے کے لئے غلط بیانی سے بھی گریز نہیں کرتے بلا حھجک بخاری کے غلط حوالے دےدیتے ہیں حالانکہ بخاری میں ان کو کوئی وجود نہیں ہوتا دو چار حوالے اس سلسلہ کے بھی نذر قارئین کیئے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) مولانا ثناءاﷲ امرتسری صاحب تحریر فرماتے ہیں
”سینہ پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کی روایات بخاری و مسلم اور ان کی شروح میں بکثرت ہیں“
مولانا کی یہ بات بالکل غلط ہے بخاری ومسلم میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایات تو درکنار ایک روایت بھی موجود نہیں۔
(۲)فتاوی علما حدیث میں ایک سوال کے جواب میں تحریر ہے۔
”جواب صریح حدیث سے صراحتاً ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، دعا ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا والیٰ ہے، رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے، بخاری شریف میں رکوع کے بعد ہے الخ“
غیر مقلد مفتی صاحب کا یہ جواب بالکل غلط ہے، بخاری شریف پڑھ جائے، پوری بخاری میں قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کا کہیں ذکر نہیں ملے گا، بلکہ اس کا الٹ یعنی رکوع میں جانے سے پہلے قنوت پڑھنے کا ذکر متعدد مقامات پر ملے گا۔
7۔ غیرمقلدین کےچٹ پٹے مسائل
۔عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ عیسی کی شکل میں ظاہر ہوا،غیرمقلد کہتے ہیں جس شکل میں چاہے ظاہر ہوسکتا ہے
(ہدیۃ المہدی)۔
۲۔اللہ آدم کی شکل کا ہے اس کی آنکھ ہاتھ ہھتیلی مٹھی انگلیاں پہنچا بازو سینہ پسلی پاؤں پنڈلی سب کچھ ہے
(ہدیۃ المہدی۱،۹)
۳۔حافظ عبداللہ روپڑی مسئلہ وحدۃ الوجود کو حق مانتے ہیں
(فتاوی اہل حدیث۱:۱۵۰)
۴۔نواب صدیق حسن خان مسئلہ وحدۃ الوجود کو حق مانتے ہیں
(ماثر صدیقی)
۵۔رام چندر کرشن جی لچھمن ،زراتشت مہاتما بدھ یہ سب انبیاء صالحین میں سے ہے ہم پر واجب ہے کہ سب رسولوں پر بلا تفریق ایمان رکھیں
(ہدیۃ المہدی۱:۲۴)
۶۔اہل حدیث شیعان علی ہیں۔
۷۔خلفائے راشدین کو گالیاں دینے سے آدمی کافر نہیں ہوتا
(نزل الابرار۲:۳۱۸)
۸۔خطبہ جمعہ میں خلفائے راشدین کےذکر کا التزام بدعت ہے
(ہدیۃ المہدی ۱:۱۱۰)
۹۔(صحابہ کرام میں سے)ولید(بن مغیرہ)معاویہ(بن سفیان)عمرو(بن عاص)مغیرہ(بن شعبہ) سمرہ (بن جندب)فاسق ہیں
(نزل الابرار۳:۹۴)
۱۰۔اصول میں یہ بات طے ہوگئی ہے کہ صحابہ کاقول حجت نہیں
(عرف الجادی:۱۰۱)
۱۱۔صحابہ کا اجتہاد امت میں سے کسی فرد پر بھی حجت نہیں
(عرف الجادی :۲۰۷)
۱۲۔اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں
(عرف الجادی:۳)
۱۳۔کافر کاذبیحہ حلال ہے اس کا کھانا جائز ہے
(عرف الجادی:۱۰)
۱۴۔اگر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی ہوتو بھی حلال ہے کھاتے وقت پڑھ لے
(عرف الجادی:۱۱)
۱۵۔بیک وقت چار عورتوں سےزائدنکاح جائز ہے
(عرف الجادی:۱۱۱)
۱۶۔اونچی قبروں کو زمین کے برابر کردینا واجب ہے چاہے نبی کی قبر ہویا ولی کی۔
(عرف الجادی:۶۰)
۱۷۔انبیاء اور اولیاء کی قبروں پر نہیں جانا چاہئے تاکہ امر جاہلیت رواج نہ پائے۔
(عرف الجادی:۸۵)
۱۸۔مال تجارت اور سونے چاندی کےزیورات میں زکوۃ واجب نہیں ہے
(بدورالاہلہ:۱۰۲)
۱۹۔مرزائی مسلمان ہیں
(مظالم روپڑی:۳۷)
۲۰۔مرزائی عورت سے نکاح جائز ہے
(اہل حدیث،۲نومبر۱۹۳۴ء)
۲۱۔مرزائی مسلمانوں کےساتھ قربانی میں حصہ دار بن جائے توسب کی قربانی صحیح ہے
(فتاوی علمائے حدیث)
۲۲۔رسول اقدس ﷺ کی مزار مبارک کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ کاسفر کرنا جائز نہیں
(عرف الجادی:۲۵۷)
۲۳۔مؤذن کے لئے مرد ہونا شرط نہیں
(بدورالاہلہ:۳۸)
۲۴۔عامی کے لئے مجتہد یا مفتی کی تقلید ضروری ہے
(نزل الابرار۱:۷)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...