Sunday, 16 August 2015

وھابیوں کا عقیدہ قرآن مخلوق اور اللہ عزّ وجل کی بعض صفات حادث ہیں کا منہ توڑ جواب

برائے کرم کوئ بھی جاہل فیس بکی غیر مقلد یوں ہی منہ اٹھا کر کمنٹس نہ کرے یہ اللہ پاک کی ذات کے متعلق عقیدہ کی بات ھے صاحبان علم سے گذارش ھے کہ ایک بار ضرور غور سے پڑھیں جن کو اختلاف ھو وہ علمی انداز میں اپنی رائے کا اظہار فرمائیں اور جن کو اتفاق ھو اس تحریر سے وہ مزید مشوروں سے نوازیں کہیں غلطی پائیں تو ضرو آگاہ فرمائیں ان شاء اللہ اصلاح کر دی جائے گی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ کا کلام (قرآن)بھی اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی کوئی صفت حادث نہیں ۔

حادث کا مطلب ہے جو چیز پہلے نہ ہو اور بعد میں ایجاد ہو
ہمارا مذہب ہے کہ اللہ کا کلام اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی تمام صفات قدیم ہیں حادث نہیں صرف ان صفات (فعلیہ) کے تعلقات حادث  ہیں اور تعلقات کے حادث ہونے  کی وجہ سے خود صفات حادث نہیں ہوتیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا منظور مینگل صاحب حفظہ اللہ اس کی ایک بہترین مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں  ” زینب نکاح کے سبب حلال ہوئی۔ صفت تحلیل اور تحریم یہ اللہ کی صفات ہیں، اللہ محلل بھی ہے اور محرم بھی ۔ آپ کہیں کہ یہ حلت تو اب آئی ہے اس لئے یہ تحلیل والی صفت بھی حادث ہے، یہ غلط ہے۔ صرف اس تحلیل والی صفت کا تعلق جو زینت کے ساتھ ہوا ہے وہ حادث ہے، صفت تحلیل خود حادث نہیں“۔
(تحفۃ المناظر ص 354)
اہلسنت و جماعت  کا موقف
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
وَصِفَاته فِي الْأَزَل غير محدثة وَلَا مخلوقة وَمن قَالَ إِنَّهَا مخلوقة أَو محدثة اَوْ وقف اَوْ شكّ فيهمَا فَهُوَ كَافِر بِاللَّه تَعَالَى واالقرآن كَلَام الله تَعَالَى فِي الْمَصَاحِف مَكْتُوب وَفِي الْقُلُوب مَحْفُوظ وعَلى الألسن مقروء وعَلى النَّبِي عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام منزل ولفظنا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوق وكتابتنا لَهُ مخلوقة وقراءتنا لَهُ مخلوقة وَالْقُرْآن غير مَخْلُوق وَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن حِكَايَة عَن مُوسَى وَغَيره من الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم السَّلَام وَعَن فِرْعَوْن وابليس فَإِن ذَلِك كُله كَلَام الله تَعَالَى إِخْبَارًا عَنْهُم وَكَلَام الله تَعَالَى غير مَخْلُوق وَكَلَام مُوسَى وَغَيره من المخلوقين وَالْقُرْآن كَلَام الله تَعَالَى فَهُوَ قديم لَا كَلَامهم وَسمع مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام كَلَام الله تَعَالَى كَمَا فِي قَوْله تَعَالَى {وكلم الله مُوسَى تكليما} وَقد كَانَ الله تَعَالَى متكلما وَلم يكن كلم مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام وَقد كَانَ الله تَعَالَى خَالِقًا فِي الْأَزَل وَلم يخلق الْخلق فَلَمَّا كلم الله مُوسَى كَلمه بِكَلَامِهِ الَّذِي هُوَ لَهُ صفة فِي الْأَزَل وَصِفَاته كلهَا بِخِلَاف صِفَات المخلوقين يعلم لَا كعلمنا وَيقدر لَا كقدرتنا وَيرى لَا كرؤيتنا وَيتَكَلَّم لَا ككلامنا وَيسمع لَا كسمعنا وَنحن نتكلم بالآلات والحروف وَالله تَعَالَى يتَكَلَّم بِلَا آلَة وَلَا حُرُوف والحروف مخلوقة وَكَلَام الله تَعَالَى غير مَخْلُوق

اللہ تعالٰی کا فعل مخلوق نہیں ہے اور اس کی یہ  صفات ازلی ہیں جو غیر حادث ہیں اور جس شخص نے یہ کہا کہ اس کی صفات مخلوق یا غادث (نو پیدا)  ہیں یا اس نے ان میں توقف اور شک کیا تو وہ اللہ تعالٰی کا منکر اور کافر ہوا اور قرآن کریم اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے جناب نبی کریمﷺ پر نازل ہوا ہے اور ہمارا قرآن کریم کو پڑھنا اور اس کا لکھنا تو مخلوق اور حادث ہے (مگر خود) قرآن غیر مخلوق ہے۔ اور حضرت موسیٰؑ اور فیگر انبیاء کرامؑ سے اللہ تعالٰی نے بطور حکایت جو کچھ بیان کیا ہے  اور فرعون  و ابلیس سے اس سے جو کچھ نقل فرمایا ہے تو یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو ان سے خبر دیتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ذکر فرمایا ہے اور اللہ تعالٰی کا کلام غیر مخلوق ہے اور حضرت موسیٰ ؑ اور دیگر مخلوق کا کلام مخلوق اور حادث ہے اور قرآن کریم اللہ تعالٰی کا کلام ہے سو وہ قدیم ہے نہ یہ کہ مخلوق کے کلام کی طرح حادث ہے۔ موسیٰ ؑ نے اللہ تعالٰی کا کلام سنا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے اور اللہ تعالٰی نے موسیٰ ؑ سے کلام کیا (مگر) اللہ تعالٰی اس وقت بھی متکلم تھا جب کہ اس نے حضرت موسیٰؑ  سے کلام نہیں کیا تھا اور اللہ تعالٰی اس وقت  ازل میں بھی خالق تھا جب کہ اس نے مخلوق کو پیدا نہیں کیا تھا پس جب اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو آپ نے اسی کلام کے سبب جو اسکی  ازلی صفت ہے۔ اور اس کی تمام صفات مخلوق کی صفات سے بالکل الگ ہیں۔ وہ جانتا ہے لیکن نہ اس طرح جیسے ہم جانتے ہیں وہ قادر ہے لیکن ہمارے طرح اسکی قدرت نہیں وہ دیکھتا ہے مگر ہماری مثل  نہیں دیکھتا وہ کلام کرتا ہے مگر ہمارے کلام کی مانند نہیں وہ سنتا ہے مگر ایسا نہیں جیسے ہم سنتے ہیں اللہ تعالٰی ہماری طرف آلات و حروف کے ساتھ کلام نہیں کرتا کیونکہ حروف مخلوق ہیں اور اللہ تعالٰی کا کلام مخلوق نہیں ہے۔ (مترجم الفقه الأكبر ص 29- 32 )
سلفیوں اور غیرمقلدین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی یہ صفات حادث یعنی نو پیدا ہیں۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے امام اہل حدیث نواب وحید الزمان خان صاحب جن کے بارے میں خود غیرمقلدین نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ عقائد میں پوری طرح سے سلفی تھے(تذکرہ النبلا فی تراجم العلماء ص 385) لکھتے ہیں:
” فص الصفات الفعلية حادث “ پس یہ صفات فعلیہ حادث ہیں
(ہدية المهدي ص 10)
رئیس ندوی جنہیں فرقہ اہلحدیث وکیل سلفیت کہتی ہے وحید الزمان کو امام اہل حدیث کہتے ہیں۔
دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
داؤد ارشد صاحب غیرمقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
” بلا شبہ یہ ہمارے اسلاف میں سے تھے“۔
(حدیث اور اہل تقلید ص 162)
اور غیرمقلدین اپنے آپ کو سلفی انہی کی طرف منسوب کر کے کہتے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و مسائل  بلکل ایک جیسے ہیں فرق اتنا ہے کہ  وحید الزمان نے کھل کر لکھے اور آج کا غیر مقلد تقیہ کرتا ہے۔
آج کل کے جاہل غیرمقلدین حضرات اپنے اس امام اہلحدیث   سے جان چھڑانے کیلئے  اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ  ہمار امام اہل حدیث بعد میں شیعہ ہو گیا تھا جب کہ خود ان کے اپنے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ وحید الزمان صاحب آخری دم تک اہل حدیث رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35 جنوری 2003 صفحہ 77)

بہرحال ہم ان کی تسلی کیلئے ان کے بڑے ابن تیمیہ کا  بھی عقیدہ پیش کرتے ہیں  جس کے یہ اندھے مقلد ہیں۔

نوٹ : حادث اسے کہتے ہیں جو عدم سے وجود میں آئے یعنی پہلےنہ ہو پہر موجود ہوجائے ، اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات و صفات دونوں قدیم و ازلی   ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ اس کی صفات میں سے کوئی صفت ایک زمانے میں نہیں ہو اور پھر بعد میں وجود میں آجائے ، اگر ہم نعوذ باللہ اللہ کی ذات
کے ساتھ قائم کسی صفت کو ایک زمانے اور وقت میں معدوم مان لیں ، اور کہیں کہ یہ عدم کے بعد وجود میں آیا ہے ، تو هم نے ایک خاص وقت میں اللہ کو اس صفت سے معطل اور خالی مان لیا ، اب اگر اس صفت کو هم کوئی بے فائدہ کہیں تو یہ بهی گمراهی ہے کہ ہم نے اللہ کی ذات میں فضول اور لہو چیزیں مان لیں یا بالفاظ دیگر اللہ کی کسی صفت کو بلا فائدہ کہہ دیا اور اگر ہم اس کو کمال کی صفت مانتے ہیں تو اس صفت کے وجود میں آنے سے پہلےہم نے اللہ کو کسی کمال سے خالی مان لیا حالانکہ اللہ کی ذات کسی بهی وقت کسی کمالی صفت سے محروم قرار نہیں دیا جاسکتا ، ورنہ وہ اللہ ہی نہ رہے گا ، ثابت ہو اکہ اللہ کی ذات اور صفات دونوں ازلی قدیم اور غیرمسبوق بالعدم ہیں ۔

ابن تیمیہ کے چند نصوص جس میں انہوں نے اللہ کی ذات میں حوادث کا قیام مانا ہے
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
فَإِنْ قُلْتُمْ لَنَا: قَدْ قُلْتُمْ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ بِالرَّبِّ. قَالُوا لَکمْ (4) : نَعَمْ، وَهَذَا قَوْلُنَا الَّذِی دَلَّ عَلَیہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ،
ترجمہ : اگر آپ ہمیں کہتےہیںکہ آپ نے اللہ کے ذات میں حوادث کا قیام مان لیا ، تو آپ کو وہ کہیں گے کہ ہاں یہ ہمارا قول ہے جس پر شرع اور عقل دلالت کرتا ہے

سوال : یہاں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ ابن تیمیہ کا قول ہو ، کیونکہ انہوں نے کہا :قالوا لکم ۔ یعنی وہ لوگ آپ کو کہیں گے یعنی شیعہ وکرامیہ وغیرہ
جواب : محقق کتاب نے کہا ہے کہ ایک نسخے میں تو قالوا لکم : آیا ہے لیکن چار نسخوں میں "قلنا لکم " آیا ہے جیسا کہ اس نے چار نمبر تعلیق میں کها :(4) ب، ا، ن، م: قُلْنَا لَکمْ ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قول کو اپنانے والا ابن تیمیہ بهی ہے
علاوہ ازیں :آگے چل کر ابن تیمیہ نے اس قول کی حمایت کھل کر کی ہے جس سے کسی شک کی گنجائش هی نہیں رہتی ، بالفرض یہاں کرامیہ کی طرف بهی نسبت ہو لیکن چونکہ آگے ان کی حمایت کی ہے لهذا کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ انہوں نے کها ہے :
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
وَقَدْ أَخَذْنَا بِمَا فِی قَوْلِ کلٍّ مِنَ الطَّائِفَتَینِ مِنَ الصَّوَابِ، وَعَدَلْنَا عَمَّا یرُدُّہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ مِنْ قَوْلِ کلٍّ مِنْهُمَا.
فَإِذَا قَالُوا لَنَا: فَهَذَا یلْزَمُ (1) أَنْ تَکونَ الْحَوَادِثُ قَامَتْ بِهِ. قُلْنَا: وَمَنْ أَنْکرَ هَذَا قَبْلَکمْ مِنَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ؟ وَنُصُوصُ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ تَتَضَمَّنُ ذَلِک مَعَ صَرِیحِ الْعَقْلِ، وَہو قَوْلٌ لَازِمٌ لِجَمِیعِ الطَّوَائِفِ
ترجمہ : هم نے دونوں فریقوں کے قول میں جو صحیح تها اسے لے لیا اور دونوں کے اقوال میں سے جس کو شرع اور عقل رد کرتی ہے اس سے عدول کیا ، اگر ہمیں وہ کہیں کہ اس بات کے یہ لازم ہے کہ الله کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام ہو ، هم کہتےہیں کہ آپ سےپہلےسلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انکار کیا ہے ؟ جبکہ قران و سنت کے نصوص اور صریح عقل اس بات کو متضمن ہے [یعنی اس کی طرف اشارہ کرتی ہے ] اور یہ قول تمام فرقوں کو لازم ہوتا ہے

ایک جگہ ابن تیمیہ لکہتےہیں :

مجموع الفتاوى (16/ 382)
وَمَنْ قَالَ: إنَّ الْخَلْقَ حَادِثٌ کالهشامیة والکرَّامِیة قَالَ: نَحْنُ نَقُولُ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ.
یعنی ہشامیہ اور کرامیہ میں سے جو لوگ کہتےہیں کہ مخلوق حادث ہے وہ کہتےہیں کہ هم اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کے قائل ہیں
ابن تیمیہ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکہتےہیں
وَلَا دَلِیلَ عَلَى بُطْلَانِ ذَلِک. بَلْ الْعَقْلُ وَالنَّقْلُ وَالْکتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ یدُلُّ عَلَى تَحْقِیقِ ذَلِک کمَا قَدْ بُسِطَ فِی مَوْضِعِهِ.
یعنی اس بات کے بطلان پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقل اور نقل اور کتاب ، سنت اور اجماع سلف اس بات کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ یہ بات اپنے مقام پر تفصیل سے بیان کی گئی ہے

ابن تیمیہ واضح طور پر کهتا ہے کہ تمام حوادث سے اللہ کو پاک کهنا غلط ہے ۔
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
ثُمَّ إِنَّ کثِیرًا مِنْ نُفَاةِ الصِّفَاتِ - الْمُعْتَزِلَةِ وَغَیرِهِمْ - یجْعَلُونَ مِثْلَ هَذَا حُجَّةً فِی نَفْی قِیامِ الصِّفَاتِ، أَوْ قِیامِ الْحَوَادِثِ بِہ مُطْلَقًا، وَہو غَلَطٌ مِنْهُمْ،
ترجمہ : پہر معتزلہ وغیرہ جیسے بہت سے صفات کی نفی کرنے والوں نے یہ بات [اللہ کی ذات کے ساتھ ] صفات کے قیام یا اس کے ساتھ حوادث کے مطلقا قیام کی نفی کے لیے دلیل بنایا ہے جو ان کی غلطی ہے

اس سے بهی واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ حوادث کے مطلقا قیام کو غلط کهتا ہے دراصل ابن تیمیہ بعض حوادث کو اللہ کی ذات کا کمال کهتا ہے اس لیے ان سے اللہ کی ذات کو خالی قرار دینا ان کے ہاں غلط
ہے
جیسا کہ انہوں نے کها :
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
وَلَا یجِبُ إِذَا نَفَیتَ عَنْہ النَّقَائِصَ وَالْعُیوبَ أَنْ ینْتَفِی عَنْہ مَا ہو مِنْ صِفَاتِ الْکمَالِ وَنُعُوتِ الْجَلَالِ]
ترجمہ : جب آپ نے اللہ سے نقائص اور عیوب نفی کردیے تو اس سے کساتھ ضروری نہیں کہ اس سے وہ چیزیں بهی منفی کی جائیں جو کمال اور جلال کی صفات میں سے ہیں[یعنی وہ حوادث جو بقول ابن تیمیه کمال و جلال کے صفات ہیں کیونکہ بات حوادث هی کے بیان کے معرض میں ہورهی ہے ]
امام ابوالمظفر الاسفرائینی فرماتے ہیں:
"ومما ابتدعوه- أی الکرَّامیة- من الضلالات مما لم یتجاسر على إطلاقہ قبلهم واحد من الأمم لعلمهم بافتضاحہ ہو قولهم: بأن معبودهم محل الحوادث
تحدث فی ذاتہ أقوالہ وإرادتہ وإدراکہ للمسموعات والمبصرات، وسموا ذلک سمعًا وتبصرًا، [ التبصیر فی الدین (ص/ 66- 67]
یعنی کرامیہ نے جن گمراهیوں کو ایجاد کیا جن پر ان سےپہلےعلی الاطلاق کسی نے بهی اس کی قباحت اور رسوائی کو جاننے کی وجہ سے جراءت نہیںوہ ان [کرامیہ ] کا یہ قول ہے که: ان کا معبود حوادث
کا محل ہے اس کے ذات میں اس کے اقوال ، ارادات اور اس کا مسموع اور دیکهی جانے والی چیزوں کا اادراک حادث [پیدا ] ہوتے ہیں،

معلوم ہوا یہ قول ابن تیمیہ نے کرامیہ کی اتباع میں کها ہے
اس کی تصریح اور اعتراف ملک عبدالعزیز یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل رسالے البیهقی و موقفہ من الالهیات کے مولف سلفی عالم ڈاکٹر احمد الغامدی نے بهی کی ہے چنانچہ لکهتا ہے :
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهذا الرأی الذی اختارہ ابن تیمیة وذکر أنہ مذهب السلف وأنہ الحق الذی یؤیدہ الدلیل الشرعی والعقلی ہو بعینہ رأى الکرامیة
یعنی ابن تیمیہ نے یہ جو رائے اختیار کیا ہے اور اس نے بتایا کہ یہ سلف کا مذهب ہے اور یہی وہ حق بات ہے جس کی شرعی و عقلی دلیل تائید کررهی ہے ،، تو یہ "بعینہ کرامیہ کی رائے ہے "

خود یہی ڈاکٹر غامدی جو امام بیهقی رحمہ اللہ کو کلام اللہ کے مسئلے میں بهی سلف کا مخالف کہلاتا ہے اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کو حق جانتا ہے [نعوذباللہ ]
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهکذا یتضح لنا أن القول بحلول الحوادث بذات اللہ تعالى بمعنى أنہ یتکلم متى شاء ویفعل ما یرید ہو الرأی الصحیح بدلالة العقل والنقل
ترجمہ :اس طرح همارے سامنے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کا قول ، اس معنی سے کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے یهی صحیح رائے ہے عقل اور نقل کی دلالت سے ان حضرات کو اللہ کی ذات میں حوادث کا حلول صحیح عقیدہ اس بنا پر لگتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ کو حادث کہتےہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے تو گویا اس کلام کے ذریعے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز حلول ہوگئی جوپہلےنہیں تهی حالانکہ اگر اہل سنت کی طرح اللہ کے کلام کو قدیم اور ازلی مانتے اور یہ مانتے کہ اللہ نے قران پر جو تکلم کیا اور اسی طرح موسی علی یبینا و علیہ السلام کے ساتھ جو تکلم کیا یہ سب اپنے اسی ازلی قدیم صفت سے کیا اور اس کلام سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز پیدا نہیں ہوئی تو یقینا اس شنیع اور باطل قول کا محتاج نہ ہوتے ، دوسری طرف اس سے بهی زیادہ ضعیف دلیل اللہ تعالی کے افعال سے پکڑا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے افعال جیسے کسی کو پیدا کرنا رزق دینا ، وغیرہ یہ سب اللہ کی ذات میں پیدا نہیںہوتے بلکہ اللہ اپنے قدیم صفت سے ان افعال کو مخلوق میں کرتا اور پیدا کرتا ہے بہرحال اس بات کی طرف کوئی بهی اشارہ کسی عقلی یا نقلی دلیل میں نہیں کہ اللہ تعالی کا کلام یا اس کے افعال سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز
[حوادث ] حلول ہوجاتے ہیں /

ابن تیمیہ اور امام احمد علیہ الرّحمہ کے عقیدے میں نمایاں فرق 

فائدہ :یہاں ایک فائدے کی خاطر ابن تیمیہ اور امام احمد کے عقیدے میں فرق بتاتے ہیں کہ امام احمد ؒ قران کو اللہ تعالی کا ازلی کلام کہتےہیں کیونکہ قران کو امام احمد اللہ کا علم کہتے ہیں جس طرح ایسا کوئی وقت نہیں تها جب اللہ علم سے معطل ہو اسی طرح ایسا وقت بهی نہیں تها جب قران نہ تها ، جبکہ ابن تیمیہ کا عقیدہ اس سے الگ ہے چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہیں ۔
ابن تیمیہ اپنے مجموع الرسائل میں لکھتےہیں
وإذا کان اللہ قد تکلم بالقرآن بمشیئة کان
القرآن کلامہ وکان منزلا منہ غیر مخلوق ولم یکن مع ذلک أزلیا قدیما بقدم  الله"ا.هـ[ "مجموع الرسائل" (1/380):
قران اللہ کا کلام ہے اور اسی سے نازل ہوا ہے مخلوق نہیں ہے ، اور اللہ کے ساتھ اس کی قدم کی طرح قدیم نہیں ہے ،
دوسری طرف حافظ ابن کثیر ؒ نے البدایہ والنهایہ میں امام احمد ؒ کے خلق القران کے مسئلے پر مناظرہ نقل کیا ہے اس میں امام احمد کے الفاظ پر غور کریں تو واضح طور پر وہ قران کو اللہ کا علم
اور ازلی قدیم قرار دے رہے ہیں ۔ البدایة والنهایة ط هجر (14/ 399)
فَقَالَ لِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا تَقُولُ فِی الْقُرْآنِ؟ فَلَمْ أُجِبْهُ، فَقَالَ الْمُعْتَصِمُ: أَجِبْهُ. فَقُلْتُ: مَا تَقُولُ فِی الْعِلْمِ؟ فَسَکتَ، فَقُلْتُ:
الْقُرْآنُ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عِلْمَ اللَّہ مَخْلُوقٌ فَقَدْ کفَرَ بِاللَّهِ. فَسَکتَ، فَقَالُوا فِیمَا بَینَهُمْ:
یا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، کفَّرَک وَکفَّرَنَا. فَلَمْ یلْتَفِتْ إِلَى ذَلِک، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: کانَ اللَّہ وَلَا قُرْآنَ؟ فَقُلْتُ: کانَ اللَّہ وَلَا
عِلْمَ؟ فَسَکتَ

اس عبارت میں مناظرہ کرنے والے نے قران کے مخلوق ہونے پر یہ دلیل پکڑی کہ اللہ موجود تها لیکن قران نہ تها ، اس کا جواب امام احمد نے یہ دیا کہ "کیا اللہ موجود تها اور اس کا علم نہ تها " ، یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ موجود ہو اور بلاعلم کے ہو اور چونکہ امام احمد ؒ نے ان سے کها تها کہ القران من علم اللہ ، کہ قران اللہ کے علم سے ہے ، تو لهذا یہ بات واضح ہوگئی کہ قران ازلی قدیم ہے کیونکه یہ اللہ کا علم ہے اور اللہ بلاعلم کبھی بهی نہیں تها
اس کے برعکس امام ابن تیمیہ قران کو ازلی نہیںکہتے،،
ابن تیمیہ ایک جگہ لکھتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 383)
والکرَّامِیة یسَمُّونَ مَا قَامَ بِہ " حَادِثًا " وَلَا یسَمُّونَہ " مُحْدَثًا
کہ کرامیہ فرقہ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم چیزوں کو "حادث " تو کہتے ہیں لیکن "محدث " نہیں کہتے
آگے لکہتےہیں: مجموع الفتاوى (16/ 383)
وَأَمَّا غَیرُ الکرَّامِیة مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِیثِ وَالسُّنَّةِ وَالْکلَامِ فَیسَمُّونَ ذَلِک " مُحْدَثًا " کمَا قَالَ {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ}
یعنی کرامیہ کے علاوہ علم حدیث ، سنت اور علم کلام کے ائمہ اس کو محدث بهی کہتےہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا : مایاتیهم من ذکر من ربهم محدث اب یہاں صفات باری تعالی کو محدث کهنا ائمہ سنت کا قول ٹہرایا جبکہ هم نے نقل کیا ہے کہ امام احمد ؒ کی مخالفت کرنے والے معتزلہ هی "قران کو محدث " کہتےتھے اور اسی آیت سے حجت پکڑتے تھے ۔
امام ذهبی ؒ نے العلو میں نقل کیا ہے [ جس سے غیرمقلدین بہت استدلال کرتے ہیں اور روایات نقل کرتے ہیں]
العلو للعلی الغفار (ص: 150)
قَالَ ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا مُحَمَّد بن الْفضل بن مُوسَى حَدثنَا أَبُو مُحَمَّد الْمروزِی قَالَ سَمِعت الْحَارِث بن عُمَیر وَہو مَعَ فُضَیل بن عِیاض یقُول من زعم أَن الْقُرْآن مُحدث فقد کفر وَمن زعم أَنہ لَیسَ من علم اللہ فَہو زندیق یعنی جس نے قران کو محدث کها وہ کافر ہے اور جس نے یہ خیال کیا یہ اللہ کے علم میں سے نہیں ہے وہ زندیق ہے
اسی طرح امام ذهبی ؒ نے یہ بهی نقل کیا ہے :
العلو للعلی الغفار (ص: 169)
ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا أَبُو هَارُون مُحَمَّد بن خلف الجزار سَمِعت هِشَام بن عبید اللہ یقُول الْقُرْآن کلَام اللہ غیر مَخْلُوق
فَقَالَ لَہ رجل أَلَیسَ اللہ تَعَالَى یقُول {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ من رَبهم مُحدث} فَقَالَ مُحدث إِلَینَا وَلَیسَ عِنْد اللہ بمحدث //
قلت لِأَنَّہ من علمہ وَعلمہ قدیم فَعلم عبادہ مِنْهُ
یعنی هشام بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ قران اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے ، کسی نے کہا کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ "ما یاتیهم من ذکر من ربهم محدث "
[پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے : کہ ان کے پاس اپنے رب کی طرف
سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اس کو سنتے ہیں کهیلتے ہوئے ] ۔۔۔یعنی اللہ نے اس کو نئ چیز کہا ہے ،تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ہماری طرف نئی ہے اللہ کے هاں نئی نہیں ہے
امام ذهبی ؒ فرماتے ہیں: میں کهتا ہوں کہ یہ بات اس لیے ہے کہ قران اللہ کے علم سے ہے اور اللہ کا علم قدیم ہے ،

یہاں امام ذهبی کا بهی ابن تیمیہ سے اختلاف ہوا ، امام ذهبی قرآن کو اللہ کے علم سے سمجهتے ہیں جو کہ ازلی ہے جبکہ ابن تیمیہ کا قول گزر چکا جو قران کو اللہ کے ساتھ ازلی قدیم نہیں مانتے بلکہ حادث مانتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...