Monday, 31 August 2015

غیر مقلد وھابیوں نام نہاد اھلحدیثوں کا تفصیلی تعارف حصّہ دوم


۲۸۔امام بخاری ؒ کے نزديک اگر میاں بیوی پہلے مسلمان نہ تھے اب ان میں بیوی پہلے مسلمان ہوگئی تو اسلام قبول کرتے ہی دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے گی (تیسیرالباری ج۷ص۱۹۹، فتح الباری ج۱۱ص۳۴۰) جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث)کے نزديک عورت کے اسلام قبول کرتے ہی ان کا نکاحی تعلق ختم نہیں ہوتا بلکہ عورت کی عدت ختم ہونے تک باقی رہتا ہے۔

(تیسیرالباری ج۷ص۱۹۹)

۲۹۔امام بخاری ؒ کے نزدیک تین طلاقیں اکٹھی دے یا جداجدا دے تو تینوں واقع ہوجاتی ہیں (فتح الباری ج۱۱ص۲۸۱،تیسیرالباری ج۷ص۱۷۲) جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزدیک اکٹھی دی ہوئی تین طلاقیں ايک ہوتیں ہیں

(فتاوی ثنائیہ ج۲ص۲۳۱، فتاوی نذیریہ ج۳ص۳۹)

۳۰۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک مصافحہ دونو ں ہاتھ سے کرنا چاہيے ( تیسیرالباری ج۸ص۱۷۹) جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک مصافحہ ايک ہاتھ سے کرنا چاہیئے

( فتاوی ثنائیہ ج۲ص۹۱,۹۵)

۳۱۔امام بخاری کے نزديک بچہ تھوڑابہت جتنا دودھ بھی کسی عورت کا پی لے تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے (فتح الباری ج۱۱ص۴۹)جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک ايک دوبار پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی

(تیسیرالباری ج۷ص۲۳، فتاوی اہل حدیث ج۳ص۱۸۰،فتاوی نذیریہ ج۳ص۱۵۲)

مذکورہ بالا مسائل کے رقم کرنے میں کہیں بھی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کیا گیا صرف وہ الفاظ مختصر نقل کئے گئے ہیں جو غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) نے اپنی کتب کے اندر لکھے ہیں۔

( "تیسیر الباری  " مشہور علامہ وحید الزماں کی بخاری کے شرح ہے،  "السراج الوہاج  " غیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان کی بخاری کی شرح ہے،  "مرعاة المفاتیح  " غیر مقلد عبیداﷲ مبارک پوری کی بخاری کی شرح ہے)

فتح الباری ابن حجر عسقلانی کی تحریر کردہ بخاری کی شرح ہے اور يہ چھٹی صدی ہجری کے دور سے تعلق رکھتے ہیں تب غیر مقلدیت کا نشان بھی نہ تھا۔ غیرمقلدین (فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کا جتنے مسائل میں امام بخاری سے اختلاف ہے ان میں سے چند کا خاکہ آپ کے سامنے پیش کیاگیا ہے اس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جو لوگ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام بخاری کے اختلافات کو پیش کر کے عوام الناس کے اذہان کر خراب کرتے ہیں وہ انصاف سے کام نہیں ليتے انہیں چاہيے کہ وہ امام بخاری سے اپنے اختلافات کوبھی ضرور بیان کیا کریں۔

غیر کی آنکھ کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر

اپنی آنکھ کا ديکھ غافل ذرا شہتیر بھی

غیر مقلدین کا بخاری و امام بخاری کے ساتھ سلوک

اس موقع پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قارئین کرام کی توجہ غیر مقلدین کے علماءکے ان بیانات کی طرف بھی کراتے چلیں جن میں امام بخاری سے عقیدت ومحبت کے علی الرغم بخاری شریف اور امام بخاری پر کىا حملے کئے گئے ہیں۔

بخاری شریف آگ میں

(العیاذ باﷲ)

مشہور صحافی اختر کاشمیری اپنے سفر نامہ ءایران میں لکھتے ہیں۔

”اس سیشن کے آخری مقرر گوجوانوالہ کے اہل حدیث عالم مولانا بشیر الرحمن مستحسن تھے،مولانا مستحسن بڑی مستحب کی چیز ہیں علم محیط (اپنے موضوع پر، ناقل)جسم بسیط کے مالک، ان کا انداز تکلم جدت آلود اور گفتگو رف ہوتی ہے فرمانے لگے۔

”اب تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل قدر ضرور ہے قابل عمل نہیں، اختلاف ختم کرنا ضرور ہے مگر اختلاف ختم کرنے لئے اسباب اختلاف کو مٹانا ہوگا، فریقین کی جو کتب قابل اعتراض ہیں ان کی موجودگی اختلاف کی بھٹی کو تیز کر رہی ہے کیوں نہ ہم ان اسباب کو ہی ختم کر دیں؟ اگر آپ صدق دل سے اتحاد چاہتے ہیں تو ان تمام روایات کو جلانا ہوگاجو اىک دوسرے کی دل آزاری کاسبب ہیں ہم بخاری کو آگ میں ڈالتے ہیں، آپ اصول کافی کو نذر آتش کریں آپ اپنی فقہ صاف کریں ہم اپنی فقہ (محمدی۔ناقل) صا ف کر دىنگے“

علامہ و حید الزمان صاحب کی امام بخاریؒ پر تنقید

صحاح ستہ کے مترجم علامہ وحیدالزماں صاحب امام بخاریؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

امام جعفر صادق مشہور امام ہیں بارہ اماموں میں سے اور بڑے ثقہ اور فقیہ اور حافظ تھے، امام مالک اور امام ابوحنیفہ ؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاری کو معلوم نہیں کیا شبہ ہوگیا کہ وہ اپنے صحیح میں ان سے روایت نہیں کرتے۔۔۔ اﷲ تعالیٰ بخاری پر رحم کر مروان اور عمران بن حطان اور کئی خوارج سے تو انہوں نے روایت کی اور امام جعفر صادق سے جو ابن رسول اﷲ ہیں ان کی روایت میں شبہ کرتے ہیں۔

(لغات الحدیث،۱:۶۲)

اىک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں:اور بخاری ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت  نہیں کی اور مروان وغیرہ سے روایت کی جو اعدائے اہل بىت علیہم السلام تھے۔

(لغات الحدیث،۲:۳۹)

نواب وحید الزماں صاحب کی بخاری شریف کے اىک راوی پر سخت تنقید

نواب صاحب بخاری شریف کے اىک راوی مروان بن الحکم پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں

”حضرت عثمان ؓ کو جو کچھ نقصان پہنچا وہ اسی کمبخت شریر النفس مروان کی بدولت خدا اس سے سمجھے(خدا اس سے بدلہ لے)

(لغات الحدیث،۲:۲۱۳)۔

بخار شریف حکىم فیض عالم کی نظر میں

امام بخاری ؒ نے واقعہ افک سے متعلق جو احادیث بخاری شریف میں ذکر کی ہیں ان کى تردید کرتے ہوئے حکىم فیض عالم لکھتے ہیں:

”ان محدثین، ان شارح حدیث، ان سیرت نویس اور ان مفسرین کی تقلیدی ذہنیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو اتنی بات کا تجزىہ یا تحقیق کرنے سے بھی عاری تھے کہ ىہ واقعہ سرے سے ہی غلط ہے، لیکن اس دینی وتحقیقی جرات کے فقدان نے ہزاروں المىه پیدا کىے اور پیدا ہوتے رہىں گے، ہمارے امام بخاری ؒ نے اس صحیح بخاری میں جو کچھ درج فرما دیا وہ صحیح اور لاریب ہے خواہ اس سے اﷲتعالیٰ کی الوہیت، انبیاءکرام کی عصمت، ازاوج مطہرات کی طہارت کی فضائے بسیط میں دھجیاں بکھرتی چلی جائىں، کیا ىہ امام بخاری کی اسی طرح تقلید جامدنہیں جس طرح مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں“

بخاری شریف میں موضوع روایت

حکىم فیض عالم حضرت عائشہ ؓ کی عمر کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”اب اىک طرف بخاری کی نوسال والی روایت ہے اور دوسری طرف اتنے قوی شواہد حقائق ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ نو سال والی روایت اىک موضوع قول ہے جسے ہم منسوب الی الصحابة کے سواکچھ نہیں کہہ سکتے“

بخاری شریف کے اىک مرکزی راوی پرحکیم فیض عالم کی جرح وتنقید

حکىم فیض عالم بخاری شریف کے اىک مرکزی راوی جلیل القدر تابعی اور حدیث کے مدون اول امام بن شہاب زہری ؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”ابن شہاب منافقین وکذابین کے دانستہ نہ سہی نادانستہ ہی سہی مستقل ایجنٹ تھے اکثر گمراہ کن خبیث اور مکذوبہ روایتیں انہیں کی طرف منسوب ہیں“

مزید لکھتے ہیں:

” ابن شہاب کے متعلق ىہ بھی منقول ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بھی وبلا واسطہ روایت کرتا تھا جو اس کی ولادت سے پہلے مر چکے تھے، مشہور شیعہ مولف شیخ عباس قمی کہتا ہے کہ ابن شہاب پہلے سنی تھا پھر شیعہ ہوگیا (تتمتہ المنتہیٰ ص۱۲۸) عین الغزال فی اسماءالرجال میں بھی ابن شہاب کو شیعہ کہا گیا ہے“

قارئیں کرام !! علامہ وحید الزماں صاحب اور حکیم فیض عالم کی امام بخاریؒ اور ابن شہاب زہریؒ پر اس شدید جرح کے بعد غیر مقلدین کو بخاری شریف پر سے اعتماد اٹھا لینا چاہىے اور بخاری شریف کی ان سىنکڑوں احادیث سے ہات دھو لینا چاہىے جن کی سند میں ابن شہاب ؒ موجود ہیں بالخصوص حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کی رفع یدین والی حدیث اور حضرت عبادةؓ کی قرات فاتحہ والی حدیث سے تو بالکل دستبردار ہو جانا چاہىے کىونکہ ان احادیث کی سند میں ىہی ابن شہاب ؒ موجود ہیں، دىکھئے غیر مقلدین کیا فیصلہ فرماتے ہیں؟۔

6۔غیرمقلدین کی احادیث میں بےاصولیاں

غیر مقلدین حضرات بخاری شریف کے معاملہ میں اس قدر غیر محتاط واقع ہوئے ہیں کہ بے دھڑک احادیث مبارکہ بخاری کی طرف منسوب کر دىتے ہیں حالانکہ وہ احادیث یا توسرے سے بخاری میں نہیں ہوتىں یا ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہوتیں، دو چار حوالے اس سلسلہ کے نذر قارئىن کىے جاتے ہیں۔

)غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب نے اپنی کتاب رسول اکرم کی نمازد" میں ص۴۸میں اىک حدیث درج  کی ہے

”عن عبداﷲ بن عمر قال رایت النبی ﷺافتح التکبیر فی الصلوة فرفع یددہ حین یکبر حتی یجعلھما حدو منکیبہ واذاکبر للرکوع فعل مثلہ و اذا قال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثلہ و اذ اقال ربنا رلک الحمد فعل مثلہ ولا یفعل ذالک حین یسجد ولا حین یرفع راسہ من السجود“

(سنن کبری ج۲ص۶۸، ابو داود ج۱ ص ۱۶۳، صحیح بخاری ج۱ص ۱۰۲ الخ)“

ان الفاظ کے ساتھ ىہ حدیث بخاری شریف میں نہیں ہے، شاىد غیر مقلدین کہىں کہ الفاظ کے ساتھ نہ سہی معنا سہی تو ان کے ىہ بات بھی غلط ہے ىہ معنا بھی بخاری میں نہیں ہے اس لئے کہ حدیث سے چار جگہ رفع یدین ہو رہا ہے۔(۱)تکبیر تحریمہ کے وقت (۲)رکوع میں جاتے وقت (۳) سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے وقت (۴) اور ربنالک الحمد کہتے وقت جبکہ بخاری میں صرف تین جگہ رفع یدین کا ذکر ہے۔

(۲)غىر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل مفتی ابو البرکات احمد صاحب اىک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں

”صحیح بخاری میں آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے کہ تین رکعت کے ساتھ وتر نہ پڑھو، مغرب کے ساتھ مشابہت ہوگی“

ىہ حد یث بخاری تو دور رہی پوری صحاح ستہ میں نہیں،من ادعی فعلیہ البیان

(۳)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب تحریرفرماتے ہیں

”حالانکہ حضور نے ىہ بھی صاف صاف فرمایا ہے : افضل الاعمال الصلوة فی اول و قتھا (بخاری) افضل عمل نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا ہے“

ان الفاظ اور معنی کے ساتھ ىہ حدىث پوری بخاری میں کہیں نہیں ہے

(۴) حکیم صادق صاحب نے اىک حدیث ان الفاظ کے ساتھ درج کی ہے

”عن ابن عباس قال کان الطلاق علی عہد رسول اﷲ ﷺ وا بی بکر و سنتین من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة (صحیح بخاری)

رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں اور حضرت اوبکر ؓ کی پوری خلافت میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دو برس میں(بیکبارگی)تین طلاقیں اىک شمار کی جاتی تھی“

اور الفاظ کے ساتھ اس حدیث کا پوری بخاری میں کہیں نام ونشان نہیں ہے

(۵)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ”صلوة الرسول “ ص۲۱۸ میں ”رکوع کی دعائیں“ کے تحت چوتھی دعا ىہ درج کی ہے۔

”سبحان اﷲ ذی الجبروت والملکوت والکبریاءوالعظمة“

اور حوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ ىہ حدیث نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔

(۶)حکیم صادی سیالکوٹی صاحب نے صلوة الرسول ص۱۵۳ پر” اذان کے جفت کلمات“ کا عنوان دے کر اذان کے کلمات ذکر کىے ہیں اورحوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ اذان کے ىہ کلمات نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔

(۷) حکیم صاحب نے صلوة الرسول ص۱۵۴ پر”تکبیر کے طاق کلمات“ کا عنوان کے تحت تکبیر کے الفاظ درج کئے ہیں اور حوالہ بخاری ومسلم کا دیا ہے حالانکہ تکبیر کے ىہ الفاظ نہ بخاری میں ہىں نہ مسلم میں۔

(۸)حکىم صاحب صلوة الرسول ص۱۵۶ پر ”اذان کا طریقہ اور مسائل“ کی جلی سرخی قائم کر کے اس کے ذىل میں لکھتے ہیں

”حی علی الصلوة کہتے وقت دائیں طرف مریں اور حی علی فلاح کہتے وقتا بائیں مڑیں ولایستدر اور گھو میں نہیں یعنی دائیں اور بائیں طرف گردن موڑیں گھوم نہیں جانا چاہىے (بخاری ومسلم)

بخار ی شریف کے غلط حوالے

قارئین کرام!! غیر مقلدین حضرات جب کوئی عمل اختیار کرتے ہیں تو چاہے وہ غلط کیوں نہ ہو اس ثابت کرنے کے لئے غلط بیانی سے بھی گریز نہیں کرتے بلا حھجک بخاری کے غلط حوالے دےدىتے ہیں حالانکہ بخاری میں ان کو کوئی وجود نہیں ہوتا دو چار حوالے اس سلسلہ کے بھی نذر قارئین کىے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) مولانا ثناءاﷲ امرتسری صاحب تحریر فرماتے ہیں

”سینہ پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کی روایات بخاری ومسلم اور ان کی شروح میں بکثرت ہیں“

مولانا کی ىہ بات بالکل غلط ہے بخاری ومسلم میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایات تو درکنار اىک روایت بھی موجود نہیں۔

(۲)فتاوی علما حدیث میں اىک سوال کے جواب میں تحریر ہے۔

”جواب صریح حدیث سے صراحتاً ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، دعا ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا والیٰ ہے، رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے، بخاری شریف میں رکوع کے بعد ہے الخ“

غیر مقلد مفتی صاحب کا ىہ جواب بالکل غلط ہے، بخاری شریف پڑھ جائىے، پوری بخاری میں قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کا کہیں ذکر نہیں ملے گا، بلکہ اس کا الٹ یعنی رکوع میں جانے سے پہلے قنوت پڑھنے کا ذکر متعددمقامات پر ملے گا۔

7۔غیرمقلدین کےچٹ پٹے مسائل

۔عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ عیسی کی شکل میں ظاہر ہوا،غیرمقلد کہتے ہیں جس شکل میں چاہے ظاہر ہوسکتا ہے

(ہدیۃ المہدی)۔

۲۔اللہ آدم کی شکل کا ہے اس کی آنکھ ہاتھ ہھتیلی مٹھی انگلیاں پہنچا بازو سینہ پسلی پاؤں پنڈلی سب کچھ ہے

(ہدیۃ المہدی۱،۹)

۳۔حافظ عبداللہ روپڑی مسئلہ وحدۃالوجود کو حق مانتے ہیں

(فتاوی اہل حدیث۱:۱۵۰)

۴۔نواب صدیق حسن خان مسئلہ وحدۃالوجود کو حق مانتے ہیں

(ماثر صدیقی)

۵۔رام چندر کرشن جی لچھمن ،زراتشت مہاتما بدھ یہ سب انبیاء صالحین میں سے ہے ہم پر واجب ہے کہ سب رسولوں پر بلا تفریق ایمان رکھیں

(ہدیۃ المہدی۱:۲۴)

۶۔اہل حدیث شیعان علی ہیں۔

۷۔خلفائے راشدین کو گالیاں دینے سے آدمی کافر نہیں ہوتا

(نزل الابرار۲:۳۱۸)

۸۔خطبہ جمعہ میں خلفائے راشدین کےذکر کا التزام بدعت ہے

(ہدیۃ المہدی ۱:۱۱۰)

۹۔(صحابہ کرام میں سے)ولید(بن مغیرہ)معاویہ(بن سفیان)عمرو(بن عاص)مغیرہ(بن شعبہ) سمرہ (بن جندب)فاسق ہیں

(نزل الابرار۳:۹۴)

۱۰۔اصول میں یہ بات طے ہوگئی ہے کہ صحابہ کاقول حجت نہیں

(عرف الجادی:۱۰۱)

۱۱۔صحابہ کا اجتہاد امت میں سے کسی فرد پر بھی حجت نہیں

(عرف الجادی :۲۰۷)

۱۲۔اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں

(عرف الجادی:۳)

۱۳۔کافر کاذبیحہ حلال ہے اس کا کھانا جائز ہے

(عرف الجادی:۱۰)

۱۴۔اگر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی ہوتو بھی حلال ہے کھاتے وقت پڑھ لے

(عرف الجادی:۱۱)

۱۵۔بیک وقت چار عورتوں سےزائدنکاح جائز ہے

(عرف الجادی:۱۱۱)

۱۶۔اونچی قبروں کو زمین کے برابر کردینا واجب ہے چاہے نبی کی قبر ہویا ولی کی۔

(عرف الجادی:۶۰)

۱۷۔انبیاء اور اولیاء کی قبروں پر نہیں جانا چاہئے تاکہ امر جاہلیت رواج نہ پائے۔

(عرف الجادی:۸۵)

۱۸۔مال تجارت اور سونے چاندی کےزیورات میں زکوۃ واجب نہیں ہے

(بدورالاہلہ:۱۰۲)

۱۹۔مرزائی مسلمان ہیں

(مظالم روپڑی:۳۷)

۲۰۔مرزائی عورت سے نکاح جائز ہے

(اہل حدیث،۲نومبر۱۹۳۴ء)

۲۱۔مرزائی مسلمانوں کےساتھ قربانی میں حصہ دار بن جائے توسب کی قربانی  صحیح ہے

(فتاوی علمائے حدیث)

۲۲۔رسول اقدس ﷺ کی مزار مبارک کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ کاسفر کرنا جائز نہیں

(عرف الجادی:۲۵۷)

۲۳۔مؤذن کے لئے مرد ہونا شرط نہیں

(بدورالاہلہ:۳۸)

۲۴۔عامی کے لئے مجتہد یا مفتی کی تقلید ضروری ہے

(نزل الابرار۱:۷)

8۔مکے اور مدینے والوں سے نام نہاد اہلحدیثوں کے شدید اختلافات

آج کل غیر مقلد ین (اہلحدیثوں) نے اپنی غیر مقلدیت کی مردہ تحریک میں جان ڈالنے کےلئے حرمین شریفین مکے اور مدینے کی خدمت گزار حکومت اور سعودی ائمہ اور مشائخ کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا ہوا ہے کہ وہ لوگ بھی ہماری طرح اہلحدیث (غیر مقلد) ہیں اس لئے ہم اہل السنة الجماعة کے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکے کو بچانے کے لیئے اختصار سے مکے اور مدینے والوں کا مسلک اور غیر مقلد ین (اہلحدیثوں) کے مسلک کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں ۔ جس سے یہ بات روشنی کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ مکے اور مدینے والے غیر مقلدین (اہلحدیثوں کی طرح) نہیں ہیں بلکہ وہ اہل السنہ و الجماعة ہیں۔

(۱) مکے اور مدینے والے اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے قائل ہیں (مکے اور مدینے والوں کا مسلک )

غیر مقلدین اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے منکر ہیں ۔

(۲) مکے مدینے والے قیاس شرعی کے قائل ہیں ۔

غیر مقلدین قیاس شرعی کے منکر ہیں ۔

(۳) مکے مدینے والے اجتہاد ائمہ کے قائل ہیں ۔

غیر مقلدین اجتہاد ائمہ کے منکر ہیں ۔

(۴) مکے مدینے والوں کے نزدیک ہر ایک کو اجتہاد کا حق نہیں ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک ہر خواندہ نا خواندہ مسلمان کو اجتہاد کا حق ہے ۔

(۵) مکے مدینے والوں کے نزدیک غیر مجہتد کیلئے اجتہاد حرام ہے اور تقلید واجب ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک کسی بھی امام کی تقلید حرام اور شرک ہے ۔

(۶)مکے مدینے والے امام اہل سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد ہیں ۔

غیر مقلدین کے نزدیک کسی بھی امام کی تقلید حرام اور شرک ہے ۔

(۷) مکے مدینے والے فقہ کے قائل ہیں ۔

غیر مقلد ین فقہ کے منکر ہیں ۔

(۸)مکےمدینے والے اصول فقہ کے قائل ہیں ۔

غیر مقلدین اصول فقہ کے منکر ہیں ۔

(۹) مکے مدینے والے چاروں فقہ کو صراط مستقیم سمجھتے ہیں ۔

غیر مقلدین چاروں مکاتب کو صراط مستقیم سے منحرف چار خطوط یعنی چار شیطانی راستے قرار دیتےہیں ۔

(۱۰)مکے مدینے والے چاروں فقہ کو ائمہ اربعہ سے ثابت سمجھتے ہیں ۔

غیر مقلد ین کہتے ہیں کہ چاروں فقہ ائمہ اربعہ کے بعد ان کے شاگردوں نے ان کی طرف نسبت کر کے فقہ جعفریہ کی طرح جھوٹی بنالی ہے ۔

(۱۱) مکے مدینے والوں کے نزدیک تمام مقلدین حنفی، مالکی ، شافعی ، حنبلی سب فرقہ نا جیہ اہل السنة والجماعة ہیں ۔

غیرمقلدین کے نزدیک صرف اور صرف ان کی جماعت جنتی ہے باقی تمام مقلدین مشرک اور جہنمی ہیں۔

 (۱۲)مکےمدینے والوں کے نزدیک سنت رسولﷺ کی طرح سنت خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم دین و سنت کا حصہ ہے ۔

غیر مقلدین سنت خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم کے منکر ہیں ۔

 (۱۳) مکے مدینے والوں کی اہلحدیث کے نام سے کوئی جماعت نہیں ۔

غیر مقلدین اپنے آپ کو ہمیشہ اہلحدیث کہلواتے ہیں ۔

 (۱۴) مکے مدینے والوں کے نزدیک اہلحدیث کوئی مذہبی لقب نہیں بلکہ علمی لقب ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک اہلحدیث مذہبی لقب ہے یعنی اہلحدیث ہر وہ شخص ہے جو خواہ جاہل ہی کیوں نہ ہو ۔

 (۱۵) مکے مدینے والوں کے نزدیک روضہ رسول ﷺ پر پڑھا ہوا درود و سلام وہ خود سنتے ہیں ۔

غیر مقلدین صلوٰة سلام کے منکر ہیں ۔

 (۱۶) مکے مدینے والوں کے نزدیک روضہ رسول ﷺ کی حفاظت اور خدمت ضروری ہے ۔

غیر مقلدین کے نزیک روضہ رسول ﷺ شرک و بدت ہے اس کا گرانا واجب ہے ۔

 (۱۷) مکے مدینے والے ننگے سر نماز نہیں پڑہتے ، نماز میں تو کجا وہ بازار میں بھی ننگے سر نہیں گھومتے۔

غیر مقلدین ہمیشہ ننگے سر نماز پڑہتے ہیں اور اس کو سنت سمجھتے ہیں ۔

 (۱۸) مکے مدینے والے نماز میں سینے پر ہاتھ نہیں باندھتے ناف کے نیچے یا ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے ہیں ۔

غیر مقلدین ہمیشہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اور اپنے عمل کو سنت سمجھتے ہیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو خلاف سنت اور بیہودہ فعل سمجھتے ہیں

(۱۹) مکے مدینے والے امام نماز فجر ، مغرب، عشاءمیں سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ آواز بلند (جہر) نہیں پڑھتے اور نہ سنت سمجھتے ہیں ۔

غیر مقلدین ہمیشہ نماز فجر ، مغرب عشاءمیں بسم اللہ آواز بلند (جہر) سے پڑھتے ہیں  ۔

 (۲۔) مکے مدینے والوں کے نزدیک بغیر فاتح پڑھے امام کے ساتھ رکوع میں ملنے والی رکعت مکمل ہو جاتی ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک بغیر فاتحہ کے رکوع پانے کے باوجود رکعت دوبارہ پڑھی جائے ۔

 (۲۱) مکے مدینے والے پہلی اور دوسری رکعت کے دو سجدوں کے بعد سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

غیر مقلدین دو سجدوں کے بعد بیٹھ کے پھر کھڑے ہوتے ہیں  ۔

 (۲۲) مکے مدینے والوں کے نزدیک مسنون تراویح بیس رکعت ہے اور بھی مکہ مدینے میں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہے ۔

غیر مقلدین بیس رکعت سنت تراویح کو بدعت کہتے ہیں اور ہمیشہ آٹھ رکعت تراویح پڑھتے ہیں ۔

 (۲۳) مکے مدینے والے سبحان الاعلی کا جواب بلند آواز سے نہیں دیتے-

غیر مقلدین بلند آواز سے سبحان الاعلی کہ کر جواب دیتے ہیں-

(۲۴) مکے مدینے والے پہلی اور تیسری رکعت میں دو سجدوں کے بعد سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

غیر مقلدین دو سجدوں کے بعد بیٹھ کر پھر کھڑے ہوتے ہیں۔

(۲۵) مکے مدینے والے رمضان اور غیر رمضان میں صرف اور صرف تین (۳) رکعت وتر پڑھتے ہیں۔

غیر مقلدین رمضان میں تین (۳) رکعت وتر اور باقی مہینوں میں ایک (۱) رکعت وتر پڑھتے ہیں۔

(۲۶) مکے مدینے والے کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔

غیر مقلدین کے نزدیک بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز جنازہ باطل ہے۔

(۲۷) مکے مدینے والے نماز جنازہ اہل سنت والجمات حنفیوں کی طرح پست آواز سے پڑھتے ہیں۔

غیر مقلدین نماز جنازہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔

(۲۸) مکے مدینے والے سجدوں میں جاتے وقت گھٹنوں سے پہلے زمین پر ہاتھ نہیں رکھتے۔

غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت ہمیشہ گھٹنوں سے پہلے زمین پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اسے سنت سمجھتے ہیں۔.

(۲۹) مکے مدینے والے جمعہ میں دو (۲) اذانوں کے قا‌‌‍ ئل ہیں۔

غیر مقلدین جمعہ میں صرف ایک (۱) اذان کے قائل ہیں۔

(۳۰) مکے مدینے والے جمعہ کے خطبے میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کے ذکر کو بیان کرنا فخر سمجھتے ہیں۔

غیر مقلدین جمعہ کے خطبے میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کے ذکر کو بیان کرنا بدعت سمجھتے ہیں۔

(۳۱) مکے مدینے والوں کے نزدیک ایک مجلس میں دی گئی تین(۳) طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اوربیوی شوہر پر حرام ہو جاتی ہے۔

غیر مقلدین ایک مجلس میں دی گئی تین(۳) طلاقیں ایک ہی شمار کرتے ہیں اور اوربیوی شوہر پر حلال سمجھتے ہیں۔

(۳۲) مکے مدینے والے تین(۳) طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کے قائل ہیں۔

غیر مقلدین والے تین(۳) طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کےمنکر ہیں۔

(۳۳) مکے مدینے والے ایصال ثواب کے قائل ہیں۔

غیر مقلدین والے ایصال ثواب کے منکر ہیں۔

(۳۴) مکے مدینے میں فقہی نظام رائج ہے۔

غیر مقلدین فقہی نظام کو کفر کے مترادف سمجھتے ہیں۔

9۔غیرمقلدین کی خانہ تلاشی

 (۱)عبداللہ روپڑی فتاوٰی اہلحدیث میں لکھتے ہیں:"دیوبندی اہلسنت ہیں

(جلد١صفحہ٦)

اور دوسرے موصوف عبداللہ بہاولپوری رسائل بہاولپوری میں لکھتے ہیں"حنفی عیسائیوں سے بھی بدتر ہیں"

(صفحہ٣)


(۲)مسٹر زبیر علی زئی زکوۃ کے سلسلے میں لکھتے ہیں،اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے،اونٹ،بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم

(فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم ص181)

مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد:اونٹ نر و مادہ ، گائے نر و مادہ ، بھیڑ نر و مادہ ، بکری نر و مادہ ۔ اس کی تفصیل بھی سورۃ الانعام میں موجود ہے اس بناءپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کیلئے انہی جانوروں میں سے انتخاب کیا جائے اور بھینس کی قربانی سے گریز کرنا چاہیے ۔

مولوی عبدالستار فتاوٰی ستاریہ میں لکھتے ہیں:"بھینس کی قربانی جائز ہے"

(جلد٢صفحہ١٥)

اور عبداللہ بہاولپوری لکھتے ہیں"بھینس کی قربانی نہیں ہوتی"

(رسائل بہاولپوری ،صفحہ١٢٧)

(۳)مولوی ابوالبرکات لکھتے ہے :"تہجد کیااذان نہیں ہے"

(فتاوٰی برکاتیہ صفحہ24)

 اکثر غیر مقلدین تہجد کی اذان کہتے ہیں اور بڑے زور سے ثابت کرتے ہیں -:

(۴)عبداللہ بہاولپوری لکھتے ہے:"ننگے سر نماز سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔جو ننگے سر نماز نہ پڑھے اسے دشمن رسول بنارہے ہیں"۔

(رسائل بہاولپوری،صفحہ 205)

اور فتاوٰی علمائے حدیث جلد 2 صفحہ 281 پر لکھا ہے:"ننگے سر نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ "نیز لکھتے ہیں"" کوئی حدیث مرفوع میری نظر سے نہیں گزری جس سے اس عادت کا جواز ثابت ہو۔"

(جلد4صفحہ287)

"ننگے سر نماز سنت اور مستحب بھی نہیں"

(صفحہ287)

"ننگے سر نماز بے عملی بھی ہے اور بدعملی بھی"

(صفحہ288)

"جہلاء ننگے سر نماز پڑھنے کو سنت سمجھتے ہیں"

(صفحہ288)

سید داؤد غزنوی کہتے ہیں :ننگے سر نماز مکروہ ہے رسم بد ہے ۔ نصارٰی کے ساتھ مشابہت ہے۔ نیز فرماتے ہیں منافق کے ساتھ مشابہت ہے۔

(صفحہ291)

(۵)صادق سیالکوٹی :صلوٰۃ الرسول صفحہ 79 پر جرابوں پر مسح کرنے کا باب قائم کرکے ثابت کرتے ہیں کہ "جرابوں پرمسح کرنا چاھئے"۔

اور عبدالرحمان مبارک پوری غیر مقلد کہتے ہیں

"خلاصہ کلام یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کے معاملہ میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملتی جس پر جرح نہ ہو۔"

(تحفۃ الاحوذی،جلد1،صفحہ102)(یعنی مسح سے متعلق سب احادیث مجروح ہیں)

مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:“تقلید مطلق اہلحدیث کا مذہب

(ثنائیہ،جلد1،صفحہ256)

مطلب یہ کہ خاص متعین عالم یا امام کی تقلید نہیں کرتے بلکہ جس کی چاہیں کرلیتے ہیں۔

اور صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں:“تقلید گمراہی ہے ۔ہلاکت ہے۔“

(سبیل الرسول،صفحہ166)

“تقلید ظلمت ہے“

(صفحہ153)

“تقلید آفت ہے“

(صفحہ157)

“تقلید بے علمی ہے“

(صفحہ 158)

(۶)صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں (صلوٰۃ الرسول):“رفع یدین شروع کردیں سنت موکدہ ہے۔“

(صفحہ205)

“حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رفع یدین کرتے تھے“

(صفحہ209)

“تین مقامات پر چھوڑنا اور پہلی بار کا رفع یدین لینا بے انصافی نہیں ہے“

(209)

اور فتاوٰی علماء الحدیث جلد 3،صفحہ160،161 میں لکھا ہے:“رفع یدین اور چھوڑنا دونوں ثابت ہیں۔“

پیر جھنڈا سندھی اور اس کے ماننے والے غیر مقلد قومہ میں یعنی رکوع سے اٹھ کرہاتھ باندھ لیتے ہیں ، پیر جھنڈہ کا بھائی اور دوسرے تمام غیر مقلدہاتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔

(۷)پرانے غیر مقلد سارے جنازہ بلند آواز سے پڑھتے تھے۔لیکن موجودہ غیر مقلدین اہلسنت کی طرح ، جنازہ آہستہ پڑھنے کے قائل ہورہے ہیں۔جسطرح خالد گرجاکھی نے لکھا ہے۔

“جنازہ میں سورت فاتحہ آہستہ پڑھنی چاھئے

(صلوٰۃ النبی،صفحہ394)

اورمبشر ربانی غیر مقلد لکھتا ہے:“دلائیل کی رو سے جنازہ کی قراءت سراً اولٰی اور بہتر ہے۔“

(احکام و مسائل،جلد1صفحہ223)

10۔غیرمقلدین کےضعیف دلائل

سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایا ت کاجائزہ

اس ملک میں جس طر ح قرآن پا ک حنفی لے کر آئیں ہیں اسی طر ح نما ز نبوی بھی احناف کے ذریعہ پہنچی ہے جس طرح اس ملک میں قرآن پا ک قاری عا صم کو فیؒ کی قرات اور قاری حفص کو فی ؒکی روایت کے مطابق پہنچا اسی طر ح نما ز سیدنا امام اعظم ابو حنفیہ کوفی ؒکی تد وین کے مطا بق پہنچی ۔

جس طر ح بعض لو گ اس قرآن کے دشمن ہو گئے اور اس کے خلا ف شا ذ اور مجر وح بلکہ موضوع روایا ت تک پیش کر دیں اسی طر ح فر قہ غیر مقلدین نے بھی متو اتر نما ز کے خلا ف ضعیف اورمجروح روایات کو پیش کر نا اپنا دینی فر یضہ سمجھا ،جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ امت کا  " اتحاد " پا رہ پا رہ ہو گیا اور عوام میں دین بیزاری کا مہلک مر ض پیدا ہو گیا ۔

چنانچہ اس متو اترنما زکا مذاق اڑاتے ہو ئے ایک غیرمقلد مشہو ر معر وف عالمد"فیض عالم صدیقی  "اپنی کتاب  "اختلا ف امت کا المیہ  "ص۷۸پر رقمطرا ز ہیں :

 "مردوں کو ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چاہییں۔ " (کتب فقہ )یہاں ایک لطیفہ یا د آگیا کہ خلفائے بنی عباس میں سے ہارون کا ایک نما زمیں ازار بند کھل گیا اوراس نے سینے سے ہا تھ نیچے کر کے ازار بند سنبھال لیا ،نما ز سے فر اغت کے بعد مقتدیوں نے حیرانی سے ہارون الرشید کے اس فعل کو دیکھا۔ قاضی ابو یوسف نے فتوی دے دیا کہ نا ف کے نیچے ہا تھ با ندھنا ہی صحیح ہے ۔ "

قارئین !اب ہم ان روایا ت کا تحقیقی علمی جا ئزہ لیتے ہیں جو اس متواتر نما ز کے خلا ف پیش کرتے ہیں:

 "اخبرنا ابو طاہر نا ابو بکر نا ابو مو سی نا مٔومل نا سفیا ن عن عاصم ابن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال  "صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ۔

صحیح ابن خزیمہ ج۱ ص۲۴۳

1 : اس روایت کے بارے میں فرقہ غیر مقلدین کے محقق علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں :

 "اسنادہ ضعیف  "اس کی سند ضعیف ہے ۔

(صحیح ابن خزیمہ ج۱ص۲۳۴حاشیہ ۴۷۹المکتب الاسلامی)

2 : فرقہ غیر مقلدین کے ایک اورعالم ابو عبد السلام عبد الرؤ ف بن عبدالحنا ن اپنی کتا ب  "القول المقبول فی شر ح وتعلیق صلوٰ ۃ الر سول  " میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :

 "یہ سند ضعیف ہے کیونکہ مؤمل بن اسما عیل  " سیئی الحفظ  " ہے :جیسا کہ ابن حجرؒ نے تقریب میں (۲/۲۹۰)میں کہا ہے، ابو زرعہؒ نے کہاہے کہ  " یہ بہت غلطیا ں کر تا ہے، اما م بخاریؒ نے اسے " منکر الحدیث  " کہا ہے ،ذہبیؒ نے کہا ہے کہ  "یہ حا فظ عا لم ہے مگر غلطیاں کر تاہے ۔

(میزان ۴/۲۲۸،القول المقبول ۳۴۰)

تبصرہ:اما م بخاری ؒ فر ماتے ہیں:  "کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ۔ "(۳)

(میزان الا عتدال ج ۱ص۶)

جس کو میں  "منکر الحدیث  " کہہ دوں اس سے روایت حلا ل نہیں ہے ۔

گویا کہ اما م بخاری ؒ کے نزدیک (بقول فر قہ غیر مقلدین )یہ روایت بیان کرنا جا ئز نہیں پھر بھی اس روایت کو پیش کرنا بڑی جسا رت ہے اس کو فرقہ واریت کے سوا اور ہم کیا کہیں؟؟؟

3: مشہور غیر مقلد عالم علامہ مبا رکپوری اپنی کتاب  "ابکا ر المنن  " میں رقمطراز ہیں:  "جس روایت کے اندر " مؤمل  " ہو ،وہ ضعیف ہو تی ہے ۔

(ابکا ر المنن ص۱۰۹)

4: متعصب غیر مقلد زبیرعلی زئی نے بھی اس روایت کوضعیف تسلیم کیا ہے ؛چنانچہ وہ لکھتا ہے :

 "یہ روایت مؤمل کی وجہ سے ضعیف نہیں بلکہ  " سفیا ن الثوری  "کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

(نما زمیں ہاتھ باندھنے کا حکم اورمقام ص۲۰) "والحق ما شھدت بہ الا عدائ۔ "

نیز زبیر علی لکھتا ہے:   "لہٰذا سفیا ن ثوری ؒ (جو کہ ضعفا ء اور مجا ہیل سے تد لیس کر تے تھے)کی یہ معنعن (عن والی)روایت ضعیف ہے۔

(نورالعینین ص۱۲۷)

سینہ پر ہا تھ با ندھنے والی روایت میں بھی سفیان ثوری ؒ  "عن  "سے روایت کر رہے ہیں ،تو یہ بھی ضیعف ہوئی۔

اپنی دوسری کتا ب میں زبیرعلی زئی لکھتا ہے:

 "وا ضح رہے کہ ثقہ مد لس کی روایت بخاری ومسلم کے علاوہ  "عن  "کے ساتھ ہو، تو ضعیف ہو تی ہے۔

(تسھیل الوصول الی تخریج وتعلیق صلو ۃ الر سول ص ۲۱۰)

میری تمام غیر مقلدین سے گز ارش ہے کہ متواتر نماز کے خلاف اس ضعیف و مجروح روایت کو پیش کر نا چھوڑ دیں اگر کوئی صحیح حدیث ہے تو پیش فر مائیں ورنہ کہہ دیں کہ ہما را مقصد عمل بالحدیث نہیں بلکہ متو اتر نما زاور فقہ حنفی کی مخا لفت ہے اور بس۔

5 : فرقہ غیر مقلدین کے ایک اور مشہو ر عالم  " عبدا لرحمن خلیق  " اپنی کتا ب میں ایک حدیث پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :د"اس سند میں ایک راوی  " عا صم بن کلیب  "ہے ،با تفا ق کبا ر محدثین سخت درجہ کا ضعیف راوی ہے۔

(با رہ مسا ئل ص۳۸/۳۹)

سینہ پر ہاتھ با ندھنے والی روایت مذکو رہ میں بھی یہی " عا صم بن کلیب " ہے، جو کہ بقول غیر مقلدین سخت درجہ کا ضعیف راوی ہے۔

خلیق صاحب کو لکھنا چا ہیے تھا کہ یہ جب احناف کی دلیل میں آئے تو ضعیف ہوگا جب غیر مقلدین کی دلیل میں ہو تو ثقہ با تفا ق ہے تا کہ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاس…پر مکمل عمل ہو جا تا

11۔غیرمقلدین کے چیلنجس

اس ملک میں جس طرح قرآن او رنبیﷺ کی سنت اہل سنت  والجماعت احناف کے ذریعے پہنچے، اسی طرح نبی اکرمﷺ والی نماز بھی اس ملک میں احناف ہی لائے ان کی محنت سے کروڑوں لوگ مومن اورنمازی بنے اور نماز کےبارے میں تقریباً بارہ سو سال تک اس ملک میں کوئی جھگڑا نہ تھا، اس ملک میں تقریباً ایک ہزار سال تک فقہ حنفی بطور اسلامی  قانون نافذ  رہی جب انگریز ی حکومت قائم ہوئی تو ایک فرقہ غیرمقلدین کا پیدا ہوا جس نے اہل سنت  کے ایمان اورنماز کو غلط قرار دیا اوراس ملک میں پہلی مرتبہ مذہبی منافرت اور فتنہ کا بیج بویا،آئے دن مناظروں کے چیلنج شروع کردیے،اہل سنت والجماعت  دنیا بھر میں قادیانی فتنہ، رفض ،اہل شرک وبدعت اورمنکرین حدیث کے فتنوں کے تعاقب میں مصروف تھے کہ ان فتنوں سے اہل سنت کا ایمان محفوظ کیا جائے اور یہ فرقہ ان سب کو چھوڑ کر اہل سنت کو مناظروں کا چیلنج  دیتا تھا  ؛چنانچہ مجبوراً ان کے چیلنج کو قبول کرکے مناظرے کئے گئے ،مناظروں میں شکست کے بعد  پھر انعامی چیلنج کے اشتہاروں سے  عوام میں فتنہ پھیلانا  شروع کیا۔

ہندوستان میں فقہ حنفی والی حکومت ختم ہوئی اور انگریز کا دور آیا تو جہاد کو حرام قراردینے کے لئے مرزا قادیانی کو مسیح موعود کا دعوی  کرناپڑا اورمسیح کی کرسی خالی کرانے کے لئے اصلی مسیح علیہ السلام کی حیات کا انکار کردیا ،علمائے اسلام نے قرآن پاک کی کئی آیات اوراحادیث مشہورہ سے حیات مسیح کو ثابت کردیا جس کا جواب مرزا قادیانی کے پاس کوئی نہیں تھا اب اسے فکر ہوئی کہ یہ آیات اوراحادیث پڑھ کر لوگ میرے عقیدہ سے برگشتہ بھی ہوجائیں گے اورمجھے  قرآن اوراحادیث کا منکر بھی کہیں گے  اس کے بعد عام مسلمان میری بات بھی نہیں سنیں گے، اس نے سوچا کہ جس حربے  میں پہلے کفار نے معجزات کی عظمت کو کم کیا تھا  اورفرمائشی معجزہ نہ دکھائے جانے پر شور مچادیا تھا کہ کوئی معجزہ ہوا ہی نہیں میں بھی کوئی فرمائشی دلیل مانگ لوں  اور فرمائش پوری نہ ہونے پر یہی شور مچادوں گا  کہ قرآن وحدیث میں حیات مسیح پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں چنانچہ ایک عبارت اس نے خود بنائی کہ اگر کوئی شخص قرآن یا ایک ہی حدیث صحیح  میں یہ الفاظ دکھادے کہ عیسی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے،جس میں آسمان کا لفظ ہوتو  میں ہزار روپیہ انعام دوں گا وغیرہ،یہ چیلنج شائع ہونا تھا کہ مرزائیوں نے آسمان سرپر اٹھالیا کے مسلمانوں کے پاس قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہیں  مسلمان دلائل بیان کرنے لگتے توشور مچاتے کہ یہ الفاظ جن کا مطالبہ مرزا صاحب نے کیا ہے دکھادو اورایک ہزار روپیہ انعام لےلو اس دھوکے میں کتنے مرزائی مبتلا ہوگئے مرزا قادیانی نے جن آیات اوراحادیث متواترہ کا انکار کیاتھا وہ بات بھی دبادی کہ بس اورآیتوں حدیثوں کی ضرورت نہیں بس یہ الفاظ جن کا مطالبہ مرزا نے کیا ہے دکھادو۔

ملکہ وکٹوریہ کی نظر کرم سے ہندوستان میں فرقہ غیرمقلدین کا ظہور ہوا انہوں نے تقریر وتحریر کےذریعے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ ہمارا ہر ہر مسئلہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے اورحنفیوں کےمسائل قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ، جب میدان مناظرہ میں اترے تومعاملہ بالکل برعکس نظر آیا کہ اہل سنت والجماعت احناف توقرآن وحدیث سے دلائل پیش کرتے ہیں اور غیر مقلدوں کا دامن خالی ہے ،مثلاً اہل سنت قرآن وحدیث سے فقہ کی عظمت ثابت کرتے اور غیرمقلدین فقہ کی مذمت میں نہ قرآن سناتے نہ حدیث ،مسلمان اجماع کا حجت ہونا قرآن وحدیث سے ثابت کرتے یہ ایک آیت یا ایک حدیث بھی پیش نہ کرسکتے کہ امت کااجماع گمراہی پر ہوسکتا ہے اہل سنت قرآن وحدیث سے اجتہاد کا جواز ثابت کرتے یہ ایک آیت یا حدیث بھی پیش نہ کرسکتے کہ اجتہاد کرنا شیطان کاکام ہے،اہل سنت فقیہ ومجتہد کی طرف رجوع (تقلید)کا ثبوت قرآن وحدیث سے پش کرتے یہ اجتہادی  مسائل میں مجتہد کی تقلید کا شرک اورحرام ہونا نہ کسی آیت سے ثابت کرسکتے نہ کسی حدیث سے ،اہل سنت احادیث صحیحہ سے ثابت کرتے کہ مجتہد اپنے ہر اجتہاد میں ماجور ہوتا ہے لیکن یہ مجتہدین کےخلاف بدگمانی پھیلانے اوربدزبانی کرنے کاجواز نہ کسی آیت سے دکھاسکتے نہ حدیث سے ۔

چنانچہ کفار اورمرزا قادیانی کے تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئےغیرمقلدین نے اشتہارات کا سہارا لیا،اورجس وقت جنگ آزادی کی سزا میں مسلمان کالے پانی یاملک کی جیلوں میں قید تھے، مقدمات چل رہے تھے،  پھانسیوں کے حکم سنائے جارہے تھے اورمسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی سخت ضرورت تھی ،ایک انعامی چیلنج کا اشتہار نہ انگریزوں کے خلاف  نہ ہندؤوں کے خلاف نہ سکھوں کے خلاف بلکہ حنفیوں کے خلاف شائع کیا،دس سوالات کا انعامی چیلنج پورے ملک میں پھیلایا ہر گھر اورہر مسجد میں لڑائی شروع کرادی اب اگر علماء اہل سنت اپنے مسائل کے دلائل پر قرآن وحدیث سناتے توان کو بالکل نہ مانتے کہ ان آیات واحادیث میں ہمارے الفاظ نہیں ۔

مناظروں میں پے درپے شکست اورعدالت میں شدید ناکامی کےبعد ان کے بعض ذمہ دار لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے،امام احمد ؒنے فرمایا تھا کہ ہم نے اہل اسلا میں سے کسی کو نہیں سنا جو یہ کہتا ہو کہ جب امام جہر سے قرأ ت کرتا ہے اور مقتدی اس کے پیچھے قرات نہ کرے تومقتدی کی نماز باطل اورفاسد ہوجاتی ہے اور فرمایا کہ یہ آنحضرتﷺ ہیں اوریہ آپﷺ کے صحابہ اور تابعین ہیں اوریہ امام مالک ہیں اہل حجاز میں اوریہ امام ثوری ہیں اہل عراق میں اور یہ امام اوزاعی ہیں اہل شام میں اور یہ امام لیث بن سعد ہیں اہل مصر میں ان میں سے کسی نے یہ نہیں لکھا کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اوراس کا امام جہر قرات کرے اورمقتدی خود قرات نہ کرے تواس کی نماز باطل اورفاسد ہے (مغنی ابن قدامہ۱:۶۰۶) اب یہ فرقہ بھی ان ذلت آمیز شکستوں کے بعد اس پر آگیا چنانچہ ان کے محدث اعظم مولوی محمد گوندلوی اوران کے ذمہ دار شاگرد مولوی ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں امام بخاری سے لےکر تمام محققین علمائے اہل حدیث میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو فاتحہ نہ پڑھے وہ بے نماز ہے کافرہے

(توضیح الکلام۱:۵۱۷)

جب اس جماعت کےمحقق اور ذمہ دار حضرات نے ہھتیار ڈال دئے ہیں توان غیر محقق اور غیر ذمہ دار حضرات کو بھی اب یہ اشتعال انگیز کام ختم کردینا چاہئے تھا ۔

12۔فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث (غیر مقلدین) کے جھوٹ

غير مقلدوں  کےپاس نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کی نہ کوئی صحيح حديث ہے اور نہ ہی خيرالقرون (يعنی صحابہ تابعين تبع تابعين) کا عمل نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کا موجود ہيں۔ صرف اورصرف جھوٹ ہيں۔

قرآن: الالعنت اﷲ علی الکاذبین

سنو اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔

جھوٹ نمبر1: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات....بخاری ومسلم میں بکثرت ہیں۔

( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص443)

جھوٹ نمبر2: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ہے۔

(بلوغ المرام فتاویٰ ثنائیہ ص5۔ص593)

جھوٹ نمبر3: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتلایا ہے۔

 ( ثنائیہ جلد1ص 457 نیز دلائل محمدی ص 110 حصہ دوم)

جھوٹ نمبر4: امام احمد نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھاکرتے تھے۔

یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح بخاری میں بھی ایک ایسی ہی حدیث آتی ہے۔

واللہ اعلم ثنائيہ جلد 1ص 457

جھوٹ نمبر5: ابوداؤد میں طاؤس سے مرفوعاً آیا ہے سینے پر ہاتھ باندھنا،

 (مکمل نماز مولاناعبدالوہاب ص449)

جھو ٹ نمبر6: سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بااتفاق ائمہ محدثین صحیح ہیں۔

 (شرح وقایہ ص 93 حقیقة الفقہ ص250 ازیوسف جے پوری)

جھوٹ نمبر7: ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی حدیث نہیں ہے وہ قول علیؓ ہے۔

(شرح وقایہ ص 93حقیقة الفقہ ص 250)

جھوٹ نمبر8: حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ مجددی حنفی سینہ پر ہاتھ کی حدیث کو بہ سبب قوی ہونے کے ترجیح دیتے تھے اور سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔

(مقدمہ ہدایہ جلد1 ص 111،حقیقة الفقہ جلد1 ص251)

جھوٹ نمبر9: ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایات باتفاق ائمہ محدثین ضعیف ہیں۔

 (ہدایہ جلد۱ص 350حقیقة الفقہ ص 250)

جھوٹ نمبر10: قریباً اختلاف امت کا المیہ ص96 پر یہی جھوٹ ہے۔

جھوٹ نمبر11: خالد گرجاکھی صلوٰة النبی ص157 پر یہی جھوٹ منقول ہے

جھوٹ نمبر12:خلفاء بنی عباس میں سے ہارون کا نماز میں ازار بند کھل گیا۔ سینے سے ہاتھ نیچے کرکے ازار بند سنبھال لیا مقتدیوں نے حیرانی سے اس فعل کو دیکھا قاضی ابویوسف نے فتویٰ دیا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی صحیح ہے۔

( ہدایہ باب الصلوٰة اختلاف امت کاالمیہ ص78)

جھوٹ نمبر13: ابن مسعودکا قول زیرناف کا بالکل ضعیف ہے، میں نے راہ ہدایت کیسے پائی ص 18 ابونعمان بشیراحمد حالانکہ آپ سے کوئی قول منقول نہیں ہے۔

جھوٹ نمبر14: قرة العین میں نورحسین گرجاکھی نے حدیث وائل بن حجر نقل کرکے گیارہ کتب کے حوالے دئيے ہیں۔

جواب:۔حالانکہ ان میں سے ایک میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے۔

( ص 19)

جھوٹ نمبر15:مسلم کی سند ابن خزیمہ کے متن کے ساتھ ملادی۔ملاحظہ ہو۔

( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص444)

اصل سند ابن خزیمہ جلد1 ص 243 پر ملاحظہ کریں۔ مسلم کی سند جلد1 ص 172 پر ملاحظہ کریں۔

جھوٹ نمبر16:حضرت ھلب کی روایت میں هذہ کو یدہ بنادیا۔

دین الحق محمدداؤد ارشد ص217”ویضع هذہ علی صدرہ“ اصل لفظ اسطرح ہے۔

( مسند احمد جلد۵ص ۶۲۲)

جھوٹ نمبر17:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا....سینے پر ہاتھ رکھتے تھے علامہ ترمذی نیموی حنفی نے اس کی سند کو حسن تسلیم کیا ہے۔

( دین الحق ص 218)

جواب: امام ترمذی نے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت نقل ہی نہیں کی علامہ نیموی نے نقل کرکے سینہ کا لفظ غیرمحفوظ کہا ہے۔

( آثارالسنن 86)

جھوٹ نمبر18:تین چیزیں نبوة کی عادات سے ہیں یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہرگز نہیں۔

 (دین الحق ص222)

جھوٹ نمبر19:پھر سینے پر ہاتھ باندھ کردعا پڑھے۔

 (ترمذی جلد1 ص 119) صلوٰة المصطفیٰ محمد علی جانباز ص 274 شیخ الحدیث

جھوٹ نمبر20:وائلؓ بن حجر کی ابن خزیمہ والی روایت کی ابن حجر نے تصویب فرمائی ہے۔

(فتح الباری۔ بارہ مسائل ازقلم کلیم عبدالرحمن خلیق ص 53)

جھوٹ نمبر21:حدیث علیؓ کی وضع الایدی علی الایدی الخ۔ یہ روایت ابوداؤد کے نسخہ ابن اعرابی کے علاوہ دیگرنسخ میں ثابت نہیں ہے۔

(کتاب و سنت کے مطابق نماز ترجمہ مع اضافہ ڈاکٹرخالدظفراللہ ص59)

جواب:۔ابن داسہ کے نسخہ میں ہے ادلہ کاملہ شیخ الہندؒ

جھوٹ 22:تعجب ہے مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے بھی حسب عادة محض مسئلکی حمیت میں اس زیادة کوشامل متن کیا(تحت السرة) جیسا کہ المصنف مطبوعہ مکتبہ امدادیہ مکہ میں ہے۔

ارشادالحق ص229 تصنیف مولاناسرفراز احمد اپنی تصانیف کے آئینہ میں حالانکہ المصنف جلد2 ص 351 پر لفظ تحت السرة نہیں ہے۔

جھوٹ 23:وانحر کی تفسیر حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ اس سے مراد سینے پر ہاتھ باندھنا ہے ۔بائیں پر دایاں اسے امام حاکم لائے ہیں اور حسن کہا ہے۔

 ( دلائل محمدی ص111 حصہ دوم)

مصنفہ علامہ محمدجوناگڑھی حالانکہ حسن نہیں فرمایا۔

13۔غیرمقلد علماء کےآپسی اختلافات کی سرد جنگ

میاں نذیر حسین صاحب سے لے کر مولانا محمدحسین بٹالوی تک ہندوستان میں مطلق تقلید کا انکار کہیں نہ تھا، غیرمقلدین بھی صرف تقلید شخصی کے خلاف تھے اور جملہ موعدینِ ہند اجتہادی مسائل میں فقہ حنفی کا فیصلہ لیتے تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کے عہد سے غیرمقلدین مطلق تقلید کے انکار کے درپے ہوئے؛ پھرانہی کے عہد میں ترکِ تقلید کی فضا اپنی پوری بہار پر آئی، غیرمقلدین نہ صرف مقلدین سے برسرِپیکار ہوئے؛ بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہوگئے۔

قاضی عبدالاحد صاحب خانپوری نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف ایک کتاب لکھی اور اس کا نام  "کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعہ " رکھا اور اسے  "اظہارِ کفر ثناء اللہ بجمیع اصول آمنت اللہ " (دیکھئے: سیرت ثنائی:۳۷۲۔ ہندوستان میں پہلی اسلامی تحریک:۳۹، مؤلفہ:مسعود عالم ندوی) سے ملقب کیا کہ مولوی ثناء اللہ ایمان کی تمام بنیادوں کا منکر ہے۔

غزنوی حضرات نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف اربعین لکھی اور اس پر چالیس کے قریب علماء اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید) نے دستخط کیے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کواہلِ حدیث سے خارج قرار دیا، مولانا ثناء اللہ صاحب نے  "مظالم روپڑی برمظلوم امرتسری "لکھ کر جماعت کی اندرونی حالت کو پوری طرح بے نقاب کیا۔                          

(مظالم روپڑی:۴۸، تالیف:مولانا ثناء اللہ امرتسری)

مولانا عبدالوہاب ملتانی کے خلاف بانوے علماء اہلِ حدیث نے دستخط کیے او رکہا کہ مدعی امامت (مولانا عبدالوہاب ملتانی) گمراہ ہے، اہلِ حدیث سے خارج ہے اور حدیثد"مَنْ لَمْ یَعْرِفْ امام زَمَانِہد" کونہیں سمجھا؛ پھرمولانا عبدالوہاب کے شاگرد خصوصی مولانا محمدجوناگڑھی نے مولانا عبداللہ روپڑی کے بارے میں لکھا ہے:

"یہ مولوی صاحب جھوٹے ہیں بدعقیدہ ہیں اسے علمِ دین سے بلکہ خود دین سے بھی مس نہیں اس کا وعظ ہرگز نہ سنو؛ بلکہ اگربس ہوتو وعظ کہنے بھی نہ دو، نہ اس کے پیچھے جمعہ جماعت پڑھو"۔

مولوی محمدیونس مدرسِ اوّل مدرسہ میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کے بارے میں فرمایا:

"شحص مذکور ملحد ہے  ایسے لوگوں سے قطع تعلق ضروری ہے"۔

ان حضرات کی یہ نبردآزمائی صرف اپنے علماء تک محدود نہ تھی، مولانا عبدالوہاب صاحب نے عوام اہلِ حدیث کوبھی اپنے اس فتوےٰ میں گھسیٹ لیا، مولانا عبدالجبار صاحب کھنڈیلوی، مولانا عبدالوہاب سے نقل کرتے ہیں:

 "جب تک مسلمان امام کونہیں مانتا اس کااسلام ہی معتبر نہیں  " (مقاصد الامامۃ:۱۶)  "کوئی کام نکاح ہو یاطلاق بغیر اجازتِ امامِ وقت جائز نہیں  "۔

(مقاصد الامامۃ:۱۶)

ان حضرات کے اخبار محمدی کی ایک سُرخی ملاحظہ ہو د"روپڑ کا خوفناک بھیڑیا "۔

(اخبار محمدی، دہلی، یکم جون سنہ۱۹۳۹ء)

ان کتابوں اور عنوانوں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ترکِ تقلید کے جوش میں یہ لوگ اپنے گھر میں کیسی خوفناک آگ سے دوچار تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات اہلِ حدیث پران کے ہمنوا علماء انہیں سردارِ اہلِ حدیث کہتے تھے، مولانا عبداللہ روپڑی کوان کی یہ حیثیت پسند نہ تھی، آپ نے مولانا ثناء اللہ صاحب کومخاطب کرکے فرمایا:

"ٹھیلے تلے کتا چل رہا تھا وہ سمجھا کہ ٹھیلے کومیں کھینچ رہا ہوں تمہاری مثال یہ ہے"۔ 

(ثنائی نزاع، تالیف:عبداللہ روپڑی صاحب)

غیرمقلدین کی اس سرد جنگ سے یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ترکِ تقلید کی تحریک اس وقت کس مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی۔

14۔غیر مقلدین میں مسائل کے اختلاف کی مثالیں

غیر مقلد ین علماءاپنی تقاریر اور اپنے متعلقین کے ذریعہ سے اختلافی مسائل کو ہوا دینے اور عوم الناس کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کا اپنا مشغلہ اپنے روایتی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں ،ایک مسئلہ الجھاتے ہیں اور جب اس کا جواب دیا جاتا ہے اور محسوس کرتے ہیں کہ اس سے آگے ہمارے لیے دشواری ہے ، اور ہماری عافیت اسی میں ہے کہ مزید اس میں نہ الجھا جائے  پھر کوئی دوسرا مسئلہ کھڑاکردیتے ہیں ۔

اب کچھ عرصہ سے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ، اگر ائمہ کرام کی فقہ کو نہ مانا جائے اور صرف کتاب اللہ کو اور صحیح احادیث پر عمل کیا جائے تو امت میں اختلاف باقی نہ رہے گا ۔

یہی بات غیر مقلد علماء اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھید" ایک دین چار مذہبد" کے نام سے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ جس میں اس بات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں حنفی یہ کہتے ہیں شافعی یہ کہتے ہیں مالکی یہ کہتے ہیں ، تو ان تمام باتوں کو دین کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔

اور کبھی رسائل میں یوں لکھا جاتا ہے ۔ دراصل خرابی یہیں سے واقع ہوئی ہے کہ لوگوں نے قرآن و حدیث کو سرچشمہ شریعت تصور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ائمہ کے اقوال کو بھی شریعت کا درجہ دےدیا ۔ جس کی وجہ سے امت اختلاف کے بحر عمیق میں غرق ہو گئی ۔


(ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص۱۸ ۔ ۱۲نومبر ۱۹۹۳ء)

اور کبھی اختلافات سے نکلنے کی یہ صورت پیش کی جاتی ہے ۔ اب اس کا علاج یہی ہے کہ تقلید کی بندشوں سے آزاد ہوکر قرآن و حدیث کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں ۔

( الاعتصام ص۱۹ ۔ ۱۲نومبر ۱۹۹۳ء)

ایسے بیانات سے سطحی قسم کے لوگ شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور امت میں وحدت کا عظیم الشان مقصد ذہن میں رکھنے کی وجہ اپنے علماء سے کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو امت کو وحدت میں لانے کے لیے فقہ کی قربانی دے دینی چاہیے ؟ ۔ ۔ ۔

مگر یہ محض دھوکہ ہے اور فقہ اسلامی کے خلاف زہر اگلنے ، فقہ سے متنفر کرنے اور قرآن و حدیث کے مبارک عنوان سے لوگوں کو مغالطہ دے کر اپنے مسلکی نظریات پھیلانے کی مکروہ سازش ہے ۔ اس لئے کہ اگر امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہوتی تو فقہ کے تدوینی دور سے پہلے تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ جزوی مسائل میں اختلاف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ نیز ایسی صورت میں قرآن و حدیث پہ عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ آپ آئندہ سطور میں دیکھیں گے کہ یہ طبقہ نماز اور طہارت جیسے اہم مسائل میں بھی اپنے اتحاد کا ثبوت نہیں دے سکا ۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف کا سبب فقہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔

جزوی مسائل میں اختلاف کا سبب

یہ بات کسی اور سے معلوم کرنے کی بجائے خود غیر مقلد عالم سے پوچھ لینی چاہیے کہ اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ چناچہ غیر مقلد عالم   مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اختلاف صحابہ کرام کے ملکوں میں انتشارہونے سے پیدا ہوا ۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات پر مبنی ہے جس میں رفع یدین کا ذکر نہیں ۔

(فتاوی ثنائیہ ص ۶۳۳ ج۱ ،و فتاوی علمائے حدیث ص ۲۷۵ ج۴)

اس عبارت کو غور سے پڑھیں کہ ایک بڑے غیر مقلد عالم کیا فرما رہے ہیں ۔ ان کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کا سبب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی مختلف روایات ہیں اور نماز کا حنفی طریقہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ہے ۔ یعنی اختلاف پہلے سے تھا اور ان اختلافی صورتوں میں سے ایک کو احناف نے اختیار کیا ہے ۔ تو اختلاف کا سبب ائمہ کرام کے اقوال اور ان کی فقہ تو نہ ہوئی ۔ اس لئے کہ اختلاف تو پہلے سے موجود تھا ۔

ائمہ مجتہدین کے اختلافات

حضرات صحابہ کرام سے جزوی مسائل میں اختلافات کی روایات موجود ہیں جن کی حضرات محدثین کرام باالخصوص امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات نے نشاندہی فرمائی ہے ۔ اس اختلاف کو امت کے لئے رحمت کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے علمائے امت نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے مروی اختلافی روایات میں سے تحقیق کے بعد جس کو راجح سمجھے یا محققین کی تحقیق پر اعتماد کر کے جس روایت کے مطابق کوئی مسلمان عمل کرے گا وہ اس کے لئے نجات کا ذریعہ ہو گی ۔ اس اختلاف کی وجہ سے امت کے لئے کافی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔

اب صحابہ کرام کے بعد ائمہ مجتہدین کے اختلافات کی حیثیت کیا ہے ؟ اس بارے میں غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ صاحب روپڑی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :

ائمہ مجتہدین کا اختلاف قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ نے قیاس کو زیادہ دخل دیا اس لئے اہل الرائے کہلائے۔

(فتاوی اہل حدیث ۴۲ ج۱ )

غور فرمائیں کہ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات کو قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے کہا گیا ہے ۔ تو جس طرح صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پر طعن نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات  پربھی طعن نہیں کرنا چاہیے ۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور قیاس

بعض متششدد غیر مقلدین حضرات عوام الناس میں یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث کے خلاف اجتہاد اور قیاس کیا ہے؛ حالانکہ اس کی تردید خود غیر مقلد علماء کر چکے ہیں ؛ چناچہ غیر مقلد عالم شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا ابوالبرکات مرحوم شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے سوال ہوا : کیا امام ابو حنیفہ یا کسی اور مجتہد کو اس بنا پر لعنت اللہ کہنا جائز ہے کہ انہوں نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے ۔ وضاحت فرمائیں ؟

اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کسی امام نے بھی حدیث کے خلاف اجتہاد نہیں کیا ۔ حدیث کے خلاف اجتہاد اور پھر امام ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جو حدیث کے خلاف اجتہاد کرے وہ امام نہیں ہو سکتا ۔ نہ امام ابو حنیفہ نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا اور نہ ہی کسی اور امام نے  جس وقت حدیث نہیں ملتی اس وقت مجتہد اجتہاد کرتا ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قیاس پر عمل کرنے سے ضعیف حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے۔

( فتاوٰی برکاتیہ ص ۳۰۶ )

اسی طرح مولانا محمد عبداللہ روپڑی مرحوم نے لکھا ہے ۔ اہل سنت کے کسی فرقے کا یہ مذہب نہیں کہ روایت اوردرایت { یعنی قیاس } کا درجہ مساوی ہے بلکہ حنفیہ تو ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر آگے مثالیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں غرض ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں حنفیہ نے ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس ترک کردیا ہے ۔

)فتاوٰی اہلحدیث ص۱۴ ج۱ )

نیز ایک مقام میں فرماتے ہیں احناف دیوبندی اہلسنت میں شامل ہیں ۔

(فتاوٰی اہلحدیث ص۶ج۱)

اور ایک مقام میں حضرات صوفیاء کرام حضرت معین الدین چشتی ، حضرت نظام الدین اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بزرگوں کے حالات جو صحیح طور پر ہم کو پہنچے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے مسلک کے مطابق متبع سنت تھے ۔

(فتاوٰی ثنائیہ ص۱۵۱ ج ۱ )

ان عبارات سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے اور نہ ہی حدیث کے مقابل قیاس کو ترجیح دی ہے ۔ ہاں جہاں قیاس کی ضرورت تھی وہاں قیاس کیا ہے ۔ اور اس بارہ میں ان کی محنت دیگر ائمہ کہ بہ نسبت زیادہ نمایاں ہے ، مگر ہے قواعد و ضوابط کے مطابق ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کا عمل بھی اپنے اپنے مسلک کے مطابق سنت کے موافق ہے ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...