Sunday 30 August 2015

تقلید کیا ہے اور عام آدمی کےلیئے تقلید کیوں ضروری ہے ؟

0 comments
تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے، باب تفعیل سے "قلدقلادۃ" کے معنی ہارپہننے کے ہیں؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنی میں استعمال ہوا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

"اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً"۔

(بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا،حدیث نمبر:۴۷۶۶، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:انہوں نے حضرت اسماءؓ سے ہار عاریۃً لیا تھا۔

اصولین کے نزدیک تقلیدکے اصطلاحی معنی دلیل کا مطالبہ کئے بغیر کسی امام مجتہد کی بات مان لینے اور اس پرعمل کے ہیں، قاضی محمدعلی لکھتے ہیں:

"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول اویفعل معتقدا للحقیقۃ من غیرنظرالی الدلیل"۔           

  (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)

ترجمہ:تقلیدکے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی قول وفعل میں دلیل طلب کیئے بغیر اس کوحق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔

صاحب مسلم الثبوت نے اس کومزید وضاحت کے ساتھ لکھا ہے:

"التقليد العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي والمجتهد من مثله فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أوإلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لايجاف النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين"۔               

   (فواتح الرحموت، علیالمستصفی:۲/۴۰۰)

ترجمہ:کسی غیرکے قول پربغیر حجت کے عمل کرنے کا نام تقلید ہے، جیسے عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے کے قول کوقبول کرلینا؛ پس حضوراکرم  اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادل عوام کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے؛ کیونکہ نص ان پرایسا کرنا واجب قرار دیتی ہے؛ مگرعرف اسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہوتا ہے، امام الحرمین فرماتے ہیں کہ اکثر علماء اصول کا یہی مذہب ہے۔

اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اصطلاحی طور پر تقلید کا مطلب یہ ہے کہ جس کا قول حجتِ شرعیہ نہیں ہےاس کے قول کومان لیاجائے رسول اللہ  کا قول حجتِ شرعیہ ہے، اجماعِ امت بھی ایک مستقل حجت ہے؛ اسی طرح قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ نصِ قرآنی "يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ" (المائدۃ:۹۵) کے تحت قاضی عادل گواہوں کی گواہی پرفیصلہ کرنے  کا پابند ہے۔
تقلید کی قسمیں
تقلید کی دوقسمیں ہیں: (۱)تقلیدِ مطلق (۲)تقلیدِ شخصی۔
تقلید مطلق سے مراد یہ ہے کہ مسائل واحکام کی تحقیق میں انسان کسی ایک فقیہ کا پابند ہوکر نہ رہ جائے؛ بلکہ مختلف مسائل میں مختلف اصحاب علم سے فائدہ اٹھائے، یہ تقلید ہرزمانہ میں ہوتی رہی ہے، خود قرآن اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"۔        

  (النساء:۵۹)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ  کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسول  کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ" کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابرکا قول نقل کیا ہے:

"أُولِي الْأَمْرِ، قال الفقہ والخیر"۔     

      (مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔

ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:

"أُولِي الْأَمْرِ، یعنی اھل الفقہ والدین"۔             

(مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔

تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "أُولِي الْأَمْرِ" کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔
تقلیدِ شخصی
تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف کے کسی متعین شخص کے علم وکمال پربھروسہ کرکے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پرعمل کرنے کوتقلید شخصی کہتے ہیں، مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ  نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کویمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کودین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:

"عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي"۔

(ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:۱۲۴۹، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:حضرت معاذؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ  نے معاذ رضی اللہ عنہ کویمن کاگورنربناکربھیجا توان سے پوچھا کہ لوگوں کے مسائل کوحل کیسے کروگے؟ انہوں نے کہا، قرآن سے، آپ نے پوچھا؛ اگرقرآن میں نہ ملے توانہوں نے کہا: سنتِ رسول  سے، آپ  نے پھرپوچھا: اگرسنتِ رسول  میں نہ ملے تو، کیسے فیصلہ کروگے؟ توانہوں نے کہا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرونگا۔

یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرمجتہد کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ پائے تواجتہاد کرسکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع وتقلید ضروری ہوگی؛ پس گویا اہلِ یمن کوحضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا، ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

"اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ"۔

(ترمذی،كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ  ،بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كِلَيْهِمَا،حدیث نمبر:۳۵۹۵، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:حضور  نے فرمایا کہ دین کے معاملہ میں میرے بعد تم لوگ حضرت ابوبکرؓاور عمررضی اللہ عنہم کی اقتداء کرو۔

اس حدیث پاک میں آپ  نے نامزد کرکے لوگوں کوحضرت ابوبکروحضرت عمر رضی اللہ عنہم اجمعین کی اتباع وتقلید کا حکم فرمایا، صحابہؓ کے عہد میں گوتقلید شخصی اس درجہ مروج نہیں تھی، جیسی آج ہے؛ لیکن اس کے باوجود لوگ بعض مواقع پرکسی ایک ہی صحابی کے قول پرعمل کرتے تھے اور انہیں کی اتباع وتقلید کوپسند کرتے تھے؛ چنانچہ اہلِ مدینہ زیدبن ثابتؓ کے قول کوترجیح دیتے تھے، اہلِ مکہ حضرت ابن عباسؓ کے قول کوزیادہ قوی مانتے تھے، تقلید شخصی کی ایک اور واضح مثال یہ ہے کہ تراویح کی نماز آپ نے چند ہی دن باجماوعت ادا فرمائی تھی اور کتنی رکعت ادا فرمائی تھی اس میں بھی اختلاف ہے؛ پھرنہ آپ  نے زندگی میں باجماعت ادا کی اور نہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں ادا کی گئی، ایک مرتبہ حضرتِ عمرؓ رمضان کے مہینہ میں مسجد میں تشریف لے گئے تودیکھا کہ لوگ تنہا تنہا تراویح کی نماز ادا کررہے ہیں، حضرت عمرؓ نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کوایک امام کے پیچھے جمع کردیا، لوگوں نے بلاچون وچرا اس کومان لیا اور حضرت ابی ابن کعبؓ کے پیچھے نماز پڑھنے لگے۔
اب تقلیدِ مطلق کافی نہیں
موجودہ دور میں اگرتقلیدِ مطلق کی اجازت دیدی جائے تودین محض کھلونا بن کررہ جائے گا اور اسلام کی شکل مسخ ہوکر رہ جائے گی، اس لیے کہ ہرمجتہدکے یہاں نادر اور شاذ اقوال موجود ہیں جوخواہشاتِ نفس کے لیے مہمیز ہیں، لوگ سہولت کے لیے اسی کو تلاش کرتے پھریں گے، اس سے تحفظ کا واحد نسخہ تقلید شخصی ہے اور مصلحتِ دین کے لیے اس طرح کا لزوم کوئی نئی بات نہیں، اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ رسول اللہ پرقرآن لغتِ قریش پراترا تھا، کچھ دنوں کے بعد جب دوسرے قبیلے کے لوگ مسلمان ہونے لگے توصرف لغتِ قریش میں لوگوں کودقت ہونے لگی، اب آپ  نے لوگوں کی سہولت کے لیے اللہ سے دعا فرمائی، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کوقبول فرمایا اور قرآن کوسات لغات پرنازل کیا گیا، اِرشاد نبوی  ہے:

"إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ"۔

(ترمذی،كِتَاب الْقِرَاءَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ أَنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ ،حدیث نمبر:۲۸۶۷، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:بلاشبہ یہ قرآن سات لغتوں پرنازل کیا گیا ہے۔

لیکن رسول اللہ  کے بعد عہد صحابہؓ میں جب عجم کی فتوحات ہوئیں اور قرآنِ کریم عجم میں آیا تولغات کا تعدد جوآسانی کے لیے تھا وجہ اختلاف بن گیا؛ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے لغاتِ سبعہ کی بجائے صرف لغتِ قریش پرقرآن مجید کوجمع کرایا اور دوسری تمام لغات کوممنوع قرار دیدیا؛ نیز حضرت عثمانؓ کے اس فعل کوعام طور پر صحابہؓ نے قبول کیا؛ یہی نوعیت آج تقلید مطلق اور تقلید شخصی کی ہے، خیرالقرون میں خواہشات اور ہوا کا غلبہ نہیں تھا؛ اس لیے اس زمانہ میں تقلید مطلق اور شخصی دونوں میں اختیار تھا، جس کوچاہے اختیار کرے؛ لیکن بعد کے حالات ایسے نہیں رہے اس لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہا کہ تقلیدشخصی کوضروری قرار دیا جائے۔  

(بخاری:۲/۷۴۶)

چنانچہ محدث الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں:

"وبعد المأتین ظہر فیہم التمذہب للمجتھدین باعیانہم وقل من کان لایعتمد علی مذہب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان"۔             

  (انصاف:۵۹)

ترجمہ:اوردوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہدین کا مذہب اختیار کرنا شروع ہوا اور ایسے لوگ بہت کم تھے جومتعین مجتہد کے مذہب پراعتماد نہ کرتے ہوں اور اس زمانہ میں یہ واجب تھا۔

اور یہ تقلید شخصی بھی اب ائمہ اربعہ کی تقلید میں منحصر ہے، حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ائمہ اربعہ کی اتباع کوسوادِ اعظم کی اتباع قرار دیا ہے:

"ولما اندرست المذاهب الحقة إلاهذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم"۔                      

   (عقدالجید:۳۸)

ترجمہ:جب صرف چارمذاہب کے علاوہ دوسرے تمام مذاہب مٹ گئے توان مذاہب اربعہ کی اتباع کرنا سوادِ اعظم کی اتباع ہے اور ان مذاہب سے نکل جانا سوادِ اعظم سے نکل جانا ہے۔

علامہ ابن ہمام نے ائمہ اربعہ کے علاوہ دوسرے فقہاء کے مذہب پرعمل نہ کرنے پراجماع نقل کیا ہے:

"انعقد الاجماع علی عدم العمل بالمذاہب"۔              

    (عقد الجید:۳۸)

ترجمہ:ائمہ اربعہ کے علاوہ دوسرے تمام مخالف مذاہب پرعمل نہ کرنے پراجماع منعقد ہوچکا ہے۔

ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:

"امافی زماننا فقال ائمتنا لایجوز تقلید غیرالائمۃ الاربع الشافعی ومالک وابی حنیفۃ واحمد بن حنبل"۔

ترجمہ:رہی ہمارے زمانے کی بات توہمارے ائمہ حضرات نے فرمایا کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ۔

شرح مسلم الثبوت میں لکھا ہے کہ ابنِ صلاح کی رائے بھی یہی ہے کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید جائز نہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔