تقلید کیا ہے اور عام آدمی کےلیے تقلید کیوں ضروری ہے ؟
محترم قارئینِ کرام : تقلید کا مادہ "قلادہ" ہے ، باب تفعیل سے "قلدقلادۃ" کے معنیٰ ہار پہننے کے ہیں ؛ چنانچہ خود حدیث میں بھی "قلادہ" کا لفظ "ہار" کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، ام لمومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً ۔ (صحیح بخاری كِتَاب النِّكَاحِ بَاب اسْتِعَارَةِ الثِّيَابِ لِلْعَرُوسِ وَغَيْرِهَا حدیث نمبر ۴۷۶۶)
ترجمہ : انہوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار عاریۃً لیا تھا ۔
اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنیٰ دلیل کا مطالبہ کیے بغیر کسی امام مجتہد کی بات مان لینے اور اس پرعمل کے ہیں، قاضی محمد علی لکھتے ہیں : التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول اویفعل معتقدا للحقیقۃ من غیرنظرالی الدلیل ۔ (کشف اصطلاحات الفنون صفحہ ۱۱۷۸)
ترجمہ : تقلید کے معنیٰ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی قول و فعل میں دلیل طلب کیے بغیر اس کوحق سمجھتے ہوئے اتباع کرے ۔
صاحب مسلم الثبوت نے اس کو مزید وضاحت کے ساتھ لکھا ہے : التقليد العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي والمجتهد من مثله فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أوإلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لايجاف النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين ۔ (فواتح الرحموت علی المستصفی جلد ۲ صفحہ ۴۰۰)
ترجمہ : کسی غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل کرنے کا نام تقلید ہے ، جیسے عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے کے قول کوقبول کرلینا؛ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی اور قاضی کا عادل عوام کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے ، کیونکہ نص ان پر ایسا کرنا واجب قرار دیتی ہے ، مگر عرف اسی پر ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہوتا ہے ، امام الحرمین فرماتے ہیں کہ اکثر علماء اصول کا یہی مذہب ہے ۔
اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اصطلاحی طور پر تقلید کا مطلب یہ ہے کہ جس کا قول حجتِ شرعیہ نہیں ہےاس کے قول کومان لیاجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول حجتِ شرعیہ ہے ، اجماعِ امت بھی ایک مستقل حجت ہے ، اسی طرح قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ نصِ قرآنی "يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ" ۔ (المائدۃ:۹۵) ، کے تحت قاضی عادل گواہوں کی گواہی پرفیصلہ کرنے کا پابند ہے ۔
تقلید کی قسمیں : ⏬
تقلید کی دوقسمیں ہیں : (۱) تقلیدِ مطلق ۔ (۲) تقلیدِ شخصی ۔
تقلید مطلق سے مراد یہ ہے کہ مسائل و احکام کی تحقیق میں انسان کسی ایک فقیہ کا پابند ہو کر نہ رہ جائے ، بلکہ مختلف مسائل میں مختلف اصحاب علم سے فائدہ اٹھائے ، یہ تقلید ہرزمانہ میں ہوتی رہی ہے ، خود قرآن اس تقلید کا حکم دیتا ہے ارشادِ خداوندی ہے : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر ۵۹)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو ۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ" کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں ، اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں ، لیکن اکثر مفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں ، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے : أُولِي الْأَمْرِ، قال الفقہ والخیر ۔ (مستدرک جلد ۱ صفحہ ۱۲۳،چشتی)
ترجمہ : "أُولِي الْأَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں ۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے : أُولِي الْأَمْرِ، یعنی اھل الفقہ والدین ۔ (مستدرک جلد ۱ صفحہ ۱۲۳)
ترجمہ : "أُولِي الْأَمْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں ۔
تابعین میں ، جیسے عطاء ، حسن بصری علیہما الرحمہ سے بھی "أُولِي الْأَمْرِ" کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں ، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء ، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے ، احادیث تو اس پر کثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے ۔
تقلیدِ شخصی : ⏬
تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے ، یعنی کسی ناواقف کے کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسہ کرکے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں ، مشہور حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کودین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں : عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي ۔ (سنن ترمذی كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاب مَاجَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي، حدیث نمبر: ۱۲۴۹،چشتی)
ترجمہ : حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان سے پوچھا کہ لوگوں کے مسائل کوحل کیسے کرو گے ؟ انہوں نے کہا ، قرآن سے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اگرقرآن میں نہ ملے تو انہوں نے کہا : سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر پوچھا : اگرسنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ملے تو ، کیسے فیصلہ کرو گے ؟ توانہوں نے کہا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرونگا ۔
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مجتہد کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہ پائے تو اجتہاد کر سکتا ہے اور لوگوں کےلیے اس کی اتباع و تقلید ضروری ہوگی ، پس گویا اہلِ یمن کوحضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا ۔
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا : اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ۔ (سنن ترمذی كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كِلَيْهِمَا حدیث نمبر ۳۵۹۵،چشتی)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دین کے معاملہ میں میرے بعد تم لوگ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرو ۔
اس حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نامزد کر کے لوگوں کوحضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی اتباع و تقلید کا حکم فرمایا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں گو تقلید شخصی اس درجہ مروج نہیں تھی ، جیسی آج ہے ، لیکن اس کے باوجود لوگ بعض مواقع پر کسی ایک ہی صحابی کے قول پرعمل کرتے تھے اور انہیں کی اتباع و تقلید کو پسند کرتے تھے ۔ چنانچہ اہلِ مدینہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دیتے تھے ، اہلِ مکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو زیادہ قوی مانتے تھے ، تقلید شخصی کی ایک اور واضح مثال یہ ہے کہ تراویح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند ہی دن باجماعت ادا فرمائی تھی اور کتنی رکعت ادا فرمائی تھی ، پھر نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں باجماعت ادا کی اور نہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ادا کی گئی ، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رمضان کے مہینہ میں مسجد میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ لوگ تنہا تنہا تراویح کی نماز ادا کر رہے ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا ، لوگوں نے بلاچون و چرا اس کو مان لیا اور حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے لگے ۔
اب تقلیدِ مطلق کافی نہیں : ⏬
موجودہ دور میں اگر تقلیدِ مطلق کی اجازت دے دی جائے تو دین محض کھلونا بن کر رہ جائے گا اور اسلام کی شکل مسخ ہو کر رہ جائے گی ، اس لیے کہ ہر مجتہد کے یہاں نادر اور شاذ اقوال موجود ہیں جو خواہشاتِ نفس کےلیے مہمیز ہیں ، لوگ سہولت کےلیے اسی کو تلاش کرتے پھریں گے ، اس سے تحفظ کا واحد نسخہ تقلید شخصی ہے اور مصلحتِ دین کےلیے اس طرح کا لزوم کوئی نئی بات نہیں ، اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن لغتِ قریش پر اترا تھا ، کچھ دنوں کے بعد جب دوسرے قبیلے کے لوگ مسلمان ہونے لگے توصرف لغتِ قریش میں لوگوں کو دقت ہونے لگی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی سہولت کےلیے اللہ سے دعا فرمائی ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور قرآن کو سات لغات پر نازل کیا گیا اِرشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ ۔ (سنن ترمذی، كِتَاب الْقِرَاءَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاب مَاجَاءَ أَنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ حدیث نمبر ۲۸۶۷،چشتی)
ترجمہ : بلاشبہ یہ قرآن سات لغتوں پرنازل کیا گیا ہے ۔
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں جب عجم کی فتوحات ہوئیں اور قرآنِ کریم عجم میں آیا تو لغات کا تعدد جو آسانی کےلیے تھا وجہ اختلاف بن گیا، تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لغاتِ سبعہ کی بجائے صرف لغتِ قریش پر قرآن مجید کو جمع کرایا اور دوسری تمام لغات کو ممنوع قرار دیدیا ، نیز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو عام طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قبول کیا؛ ، یہی نوعیت آج تقلید مطلق اور تقلید شخصی کی ہے ، خیرالقرون میں خواہشات اور ہوا کا غلبہ نہیں تھا اس لیے اس زمانہ میں تقلید مطلق اور شخصی دونوں میں اختیار تھا ، جس کو چاہے اختیار کرے ؛، لیکن بعد کے حالات ایسے نہیں رہے اس لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہا کہ تقلیدشخصی کوضروری قرار دیا جائے ۔ (صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۷۴۶)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وبعد المأتین ظہر فیہم التمذہب للمجتھدین باعیانہم وقل من کان لایعتمد علی مذہب مجتہد بعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذالک الزمان ۔ (الانصاف صفحہ ۵۹)
ترجمہ : اور دوسری صدی کے بعد لوگوں میں متعین مجتہدین کا مذہب اختیار کرنا شروع ہوا اور ایسے لوگ بہت کم تھے جو متعین مجتہد کے مذہب پر اعتماد نہ کرتے ہوں اور اس زمانہ میں یہ واجب تھا ۔
اور یہ تقلید شخصی بھی اب ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کی تقلید میں منحصر ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کی اتباع کو سوادِ اعظم کی اتباع قرار دیا ہے : ولما اندرست المذاهب الحقة إلاهذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم ۔ (عقدالجید صفحہ ۳۸،چشتی)
ترجمہ : جب صرف چار مذاہب کے علاوہ دوسرے تمام مذاہب مٹ گئے تو ان مذاہبِ اربعہ کی اتباع کرنا سوادِ اعظم کی اتباع ہے اور ان مذاہب سے نکل جانا سوادِ اعظم سے نکل جانا ہے ۔
امام ابن ہمام نے ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کے علاوہ دوسرے فقہاء کے مذہب پرعمل نہ کرنے پراجماع نقل کیا ہے : انعقد الاجماع علی عدم العمل بالمذاہب ۔ (عقد الجید صحہ ۳۸)
ترجمہ : ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کے علاوہ دوسرے تمام مخالف مذاہب پر عمل نہ کرنے پر اجماع منعقد ہو چکا ہے ۔
امان ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : امافی زماننا فقال ائمتنا لایجوز تقلید غیرالائمۃ الاربع الشافعی ومالک وابی حنیفۃ واحمد بن حنبل ۔
ترجمہ : رہی ہمارے زمانے کی بات تو ہمارے ائمہ حضرات علیہم الرحمہ نے فرمایا کہ ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے ، امام شافعی ، امام مالک ، امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل علیہم الرحمہ ۔ شرح مسلم الثبوت میں لکھا ہے کہ ابنِ صلاح کی رائے بھی یہی ہے کہ ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید جائز نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment