Sunday 30 August 2015

فضائل و مسائل اور ایّام قربانی حصّہ دوم

0 comments
شرائط قربانی
قربانی کے واجب ہونے کی چار شرطیں ہیں:
(1) مسلمان ہونا: کافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ حوالہ
مِنْهَا الْإِسْلَامُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْكَافِرِ لِأَنَّهَا قُرْبَةٌ وَالْكَافِرُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْقُرَبِ (بدائع الصنائع فَصْل فِي شَرَائِطِ وُجُوبِ فِي الْأُضْحِيَّةَ: ۲۵۰/۱۰)عن أَنَس  أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمسلمينَ (بخاري بَاب زَكَاةِ الْغَنَمِ ۱۳۶۲)۔

(2) آزاد ہونا: غلام پر قربانی واجب نہیں۔ حوالہ
وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْعَبْدِ وَإِنْ كَانَ مَأْذُونًا فِي التِّجَارَةِ أَوْ مُكَاتَبًا ؛ لِأَنَّهُ حَقٌّ مَالِيٌّ مُتَعَلِّقٌ بِمِلْكِ الْمَالِ وَلِهَذَا لَا تَجِبُ عَلَيْهِ زَكَاةٌ وَلَا صَدَقَةُ الْفِطْرِ (بدائع الصنائع فَصْل فِي شَرَائِطِ وُجُوبِ فِي الْأُضْحِيَّةَ: ۲۵۱/۱۰)عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :لَيْسَ فِي مَالِ الْعَبْدِ زَكَاةٌ. (مصنف ابن ابي شيبة فِي مَالِ الْعَبْدِ ، مَنْ قَالَ لَيْسَ فِيهِ زَكَاةٌ ۱۶۱/۳) 

(3) مقیم ہونا: مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ حوالہ
 عن إبراهيم قال رخص للحاج والمسافر في أن لا يضحي (مصنف عبد الرزاق باب الضحايا ۳۸۲/۴)
مسافر پر قربانی واجب نہیں:
عَنْ عَلِیٍّ قَالَ لَیْسَ عَلَی الْمُسَافَرِ اُضْحِیَۃٌ۔(محلیٰ بالآثار ج6 ص37 کتاب الاضاحی )
[نصب الراية (الزيلعي) - الصفحة أو الرقم: 4/211]
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسافر پر قربانی (واجب)نہیں۔

(4) مال دار ہونا: فقیر پر قربانی واجب نہیں ہے۔  حوالہ
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا(ابن ماجه بَاب الْأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لَا ۳۱۱۴)

مسئلہ: قربانی کے واجب ہونے کے لئے نصاب پر مکمل سال کا گذرنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ قربانی اس وقت واجب ہوتی ہے جبکہ مسلمان عیدالاضحی کے دن اپنی ضروریات اصلیہ کے علاوہ مقدار نصاب کا مالک ہو۔ حوالہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا (مسند احمد مسند أبي هريرة رضي الله عنه ۸۲۵۶)مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی گنجائش رکھتے ہوئے قربانی نہ کرنے والے پرغصہ ہوئے اور اس میں حولانِ حول کا کوئی تذکرہ نہ فرمایا؛ اسی وجہ سے فقہاء کرام اس کی شرط نہیں لگاتے ہیں۔  ( فَتَجِبُ ) التَّضْحِيَةُ : أَيْ إرَاقَةُ الدَّمِ مِنْ النَّعَمِ عَمَلًا لَا اعْتِقَادًا بِقُدْرَةٍ مُمْكِنَةٍ هِيَ مَا يَجِبُ بِمُجَرَّدِ التَّمَكُّنِ مِنْ الْفِعْلِ ؛ فَلَا يُشْتَرَطُ بَقَاؤُهَا لِبَقَاءِ الْوُجُوبِ لِأَنَّهَا شَرْطٌ مَحْضٌ لَا مُيَسَّرَةٌ ، هِيَ مَا يَجِبُ بَعْدَ التَّمَكُّنِ بِصِفَةِ الْيُسْر (رد المحتار كِتَابُ الْأُضْحِيَّةَ:۲۱۴/۲۶)۔

قربانی کے تین دن ہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَلْاَیَّامُ الْمَعْلُوْمَات … فَالْمَعْلُوْمَاتُ یَوْمُ النَّحْرِ وَیَوْمَانِ بَعْدَہٗ
(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج6 ص261)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:’’ ایام معلومات۔چنانچہ ایام معلوم یوم نحر (دسویں ذی الحجہ)اور اس کے بعد دو دن (11،12ذی الحجہ) ہیں۔‘‘

عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : " الأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الأَضْحَى " . وحَدَّثَنِي ، عَنْ مَالِكٍ ، أَنَّهُ بَلَغَهُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، مِثْلُ ذَلِكَ .
[موطأ مالك رواية يحيى الليثي    » كِتَابُ الضَّحَايَا    » بَابُ الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ المَرْأَةِ ، ... رقم الحديث: 1020، السنن الكبرى للبيهقي    » كِتَابُ الضَّحَايَا    » بَابُ مَنْ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمُ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ ... رقم الحديث: 17718]
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح [تخريج مشكاة المصابيح (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 1418]
حضرت حضرت عبدالله بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ : "قربانی دو دن بعد (بھی) ہے قربانی والے دن کے"، امام مالک رح فرماتے ہیں کہ بیشک اس جیسا قول حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے بھی پہنچا ہے، کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کہتے تھے :"قربانی دو دن بعد (بھی) ہے قربانی والے دن کے".

وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ مَالِكًا ، حَدَّثَهُ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : " النَّحْرُ يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ " .[أحكام القرآن الكريم للطحاوي    » كِتَابُ الْحَجُّ وَالْمَنَاسِكَ    » تأويل قَوْلِهِ تَعَالَى : /30 وَاذْكُرُوا اللَّهَ ... رقم الحديث: 1165]
حضرت عبدالله بن عمر رض (سورة البقرة آية 203 کی تفسیر) فرماتے ہیں کہ "ایام_معلومات؛ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے دو (11، 12 ذی الحجہ) دن ہیں.

عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ " .
[أحكام القرآن الكريم للطحاوي    » كِتَابُ الْحَجُّ وَالْمَنَاسِكَ    » تأويل قَوْلِهِ تَعَالَى : /30 وَاذْكُرُوا اللَّهَ ... رقم الحديث: 1162 (ج2ص205)]
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’کہ قربانی تین دن ہے۔‘‘

3) عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ اَلذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ۔
[السنن الكبرى للبيهقي    » كِتَابُ الضَّحَايَا    » بَابُ مَنْ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمُ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ ... رقم الحديث: 18663 (ج9ص297)]
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’قربانی(دسویں ذی الحجہ یعنی عید کے دن کے) بعدصرف دو دن ہے ۔‘‘
عَنْ أَنَسٍ , قَالَ : " الذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ يَوْمَيْنِ " .
[أمالي ابن بشران    » الْمَجْلِسُ السِّتُّونَ وَالسِّتُّ مِائَةِ فِي ذِي ... رقم الحديث: 440
أمالي ابن بشران 6    » الْمَجْلِسُ السَّادِسُ وَالسِّتُّونَ وَالسِّتُّ مِائَةٍ ... رقم الحديث: 53
أمالي ابن بشران ( مجالس أخرى )    » الذبح بعد النحر يومين ... رقم الحديث: 424]


4) عن ابن عبَّاسٍ رضي اللَّهُ تعالى عنهُما قال الأضحَى يومانِ بعدَ يومِ النَّحرِ.
[عمدة القاري (العيني) - الصفحة أو الرقم: 21/220 - خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد]

قربانی کے تین دن کے متعلق غیر مقلدین کا فیصلہ:
جناب زبیر علی زئی(غیر مقلد) لکھتے ہیں:’’ قول راجح میں قربانی تین ہیں۔‘‘
( مقالات علی زئی ج2 ص219 الحدیث44 ص6تا11)
نیز لکھتے ہیں: ’’سیدنا علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ )اور جمہور صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم ) کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں ایک عید الاضحی اور دو دن بعد میں تو ہماری تحقیق میں راجح ہے اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔ ‘‘
(فتاوی علی زئی ج2 ص181)
مولوی عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں:’’ تین دن قربانی کے قائلین کا مذہب راجح اور قرین صواب ہے۔‘‘
(قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص 137)

أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ
(يعني تشریق کے سارے دن قربانی کے ہیں) یہ روایت موضوع (منگھڑت) اور کذب (جھوٹی) ہے.
[العلل لابن أبي حاتم : رقم الحديث: 831 ، رقم الحديث: 1571]

عید کے چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں:
مولوی محمد فاروق( غیر مقلد) لکھتے ہیں
بعض لوگ قصداً قربانی میں تاخیر کر کے تیرہ ذوالحجہ کو ذبح کرتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دن بھی ایام قربانی میں شامل ہے اور اس دن لوگوں نے قربانی ترک کر دی ہے لہٰذا ہم یہ عمل سنت متروکہ کہ احیاء کی خاطر کرتے ہیں لیکن چوتھے دن قربانی کرنا سنت سے ثابت ہی نہیں تو متروکہ سنت کیسے ہوئی ؟بلکہ ایام قربانی تین دن (10،11،12 ذوالحجہ) ہیں ، تیرہ ذوالحجہ کا دن ایام قربانی میں شامل ہی نہیں۔
( قربانی اور عقیقہ کے مسائل ص141)
قربانی کا نصاب:
ہر اس شخص پر قربانی واجب ہے جس پر صدقۃ الفطر واجب ہے۔
(فتاوی عالمگیری ج5ص360)
ذبح کون کرے؟
قربانی کے جانور کو مسلمان ذبح کرے گا۔
(فتاوی شامی ج9 ص474)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔