Friday, 21 August 2015

قبر پر اذان کہنے کا جواز

قبر میں لہرائیں گے تاحشر چشمے نور کے
جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اﷲ ﷺ کی
قبر پر اذان

 اِیْذَانُ الْأَجْرِ فِیْ اَذَانِ الْقَبْرِ
سنِ تحریر۱۳۰۷ ہجری

تصنیف لطیف
اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت
شیخ الاسلام امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز

ناشر :بریلی پرنٹرز اینڈ پبلشرز، کراچی

نام کتاب: اِیْذَانُ الْأَجْرِ فِیْ اَذَانِ الْقَبْرِ
موضوع: دفن کے بعد قبر پر اذان کہنے کے جواز پر بحث
مصنف: اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ
تصحیح و ترتیب :  مولانا مفتی عبدالرحمن قادری
ناشر: بریلی پرنٹرزاینڈ پبلشرز
بتعاون: مکتبہ انوار القرآن،بزم رضا میمن مسجدمصلح الدین گارڈن
سن اشاعت: جنوری2011(صفرالمظفر 1432ہجری)
ہدیہ: …

٭٭٭
حرفِ آغاز

 اعلیٰ حضرت امام اہل سنت عظیم البرکت عظیم المرتبت پروانہ شمع رسالت مجددِ دین و ملت امام الشاہ محمد احمد رضا خان قادری بریلوی    علیہ رحمۃ القویّ چودہویں صدی ہجری کے عظیم محدث، محقق، مفسر و مجدد برحق ہیں۔ انکی علمی عظمت کو تمام جہان تسلیم کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہی نہیںبلکہ افریقہ، حرمین طیبین، سیلون، سیریا، مصر،افغانستان وغیرہ ممالک سے بھی دینی مسائل کے حل کیلئے آپکی خدمت میں سوالات بھیجے جاتے تھے تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اِن سوالات کے مدلل ومفصل جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں تحریر فرماتے تھے۔
 اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تصانیف میں علم و حکمت کے دریا موجزن ہیں۔آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتے دلائل و براہین کے انبار لگادیتے۔ آپ علیہ الرحمہ کے مجموعہ فتاوی کا نام بھی کس قدر پیارا ہے [ اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّۃُ فِی الْفَتَاوَی الرِّضَوِیَّۃِ] جس کا ترجمہ ہے [حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بخششیں فتاوی رضویہ میں ] رضا فائونڈیشن لاہور نے اب فقہ حنفی کے اس عظیم انسائیکلوپیڈیا کو عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق، عمدہ و خوبصورت انداز میں جدید ترتیب و تخریج اور عربی اور فارسی کی عبارات کا ترجمہ کرکے30جلدوں میں شائع کیا ہے جو علماء اور عوام کیلئے ایک عظیم خزانہ ہے۔
 اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے پاس ایک سوال یہ بھی آیا کہ مُردے کو دفن کرنے کے بعد جو اذان دی جاتی ہے از روئے شریعت جائز ہے یا نہیں ؟ اِس کے جواب میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے پندرہ دلائل اور اِکتالیس احادیث کے علاوہ فقہائے کرام کی معتبر کتب کے حوالوں سے ثابت کیا کہ قبر پر اذان دینا جائز ہے بعض لوگ بغیر کسی سند و حوالہ کے قبر پر اذان دینے کی مخالفت کرتے ہیں یہی نہیں بلکہ اِس کارخیر کو روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اِسے بدعت کہتے ہیں ایسے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے اِس رسالہ کے دلائل کافی ہیں ۔
سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ 
[ لوگوں میں بہتر وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں ]
 مُردے کو قبر پر دی جانے والی اذان سے فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں یہ اِس رسالہ سے ظاہر ہو کر سامنے آجاتا ہے ۔ہمیں قارئین سے توقع ہے کہ وہ اِسے انصاف کی نظروں سے دیکھیں گے اور اپنے کسی عزیز و اقرب کے انتقال کے موقع پر حتی المقدور اُسے نفع پہنچانے سے غفلت نہ برتیں گے ۔
 الحمدﷲبریلی پرنٹرز اینڈ پبلشرزاعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ رسالہ [ اِیْذَانُ الْأَجْرِ فِیْ اَذَانِ الْقَبْرِ]  مکتبہ انوار القرآنکے تعاون سے شائع کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے اگر آپ اس رسالہ کی ترتیب کمپوزنگ یا کتابت میں کسی قسم کی کوئی غلطی پائیں تو برائے مہربانی ادارہ کو مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اسے درست کیا جاسکے۔اﷲ تعالیٰ آپ کا ہمارا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
 والسلام
         بریلی پرنٹرز اینڈ پبلشرز
استفتاء
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دفن کے وقت جو قبر پر اذان کہی جاتی ہے۔ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟بینوا توجروا۔

فتویٰ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمO
 اَلْحَمْدُ اﷲِ الَّذِی جعل الاذان علم الایمان وسبب الامان وسکینۃ الجنان ومنفاۃ الاحزان ومرضاۃ الرحمن و الصلوٰۃ والسلام الاتمان الاکملان علٰی من رفع اﷲ ذکرہ واعظم قدرہ‘ فبذکرہ زان کل خطبۃ واذان وعلٰی اٰلِہٖ وصحبہٖ الذا کرین ایاہ مع ذکر مولاہ فی الحیٰوۃ والموت والوجدان والفوت وکل حین واٰن واشھد ان لا الہٰ الا اﷲ الحنان والمنان وان محمدًا عبدہ‘ ورسولہ سید الانس والجان صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعلیٰ اٰلہٖ وصحبہٖ المرضییّن لدیہ  ما اَذِن اُذُن لصوت اٰذان قال فقیر عبدالمصطفٰے اَحْمد رضا المحمّدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی سقاہ المجیب من کاس الحبیب عذبا وفراتا وجعلہ من الذین ھم اھل الایمان والصلوٰۃ والاذان احیآء وامواتا آمین الہ الحق آمین۔
 ترجمہ: تمام تعریفیں اس قدوس حق جل وعلا کے لئے جس نے اذان کو ایمان کی علامت، امن کا سبب دل کا اطمینان اور غموں کو دور کرنے اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا، کامل و اکمل صلوٰۃ و سلام اس ذات مقدس پر جن کے ذکر کو اﷲ تعالیٰ نے بلند فرمایا اور مرتبے کو عظمت بخشی چنانچہ آپ کے ذکر سے ہر خطبے اور اذان کو زینت بخشی اور آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر جو موت و حیات، کسی چیز کے مل جانے یا گم ہوجانے کے وقت اور ہر گھڑی ہر ساعت اپنے رب کریم کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ حنان و منان ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آقاو مولیٰ محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے مقرب ترین بندے اور رسول ہیں۔ جن و انس کے سردار ہیں۔ اﷲ تعالیٰ آپ پر آپ کی آل پاک پر صحابہ کرام پر اس وقت تک بارانِ رحمت فرمائے جب تک کان اذان کی آواز سنتے رہیں فقیر عبدالمصطفٰے احمد رضا محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی کہتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے حبیب کے پیالے سے ٹھنڈا میٹھا پانی پلائے اور اسے ان لوگوں سے کردے جو زندگی اور موت کی صورت میں ایمان نماز اور اذان والے ہیں۔ آمین۔

الجواب
 بعض علمائے دین نے میت کو قبر میں اتارتے وقت اذان کہنے کو سنت فرمایا۔ امام ابن حجر مکی وعلامہ خیر الملۃ والدین رَملی استاذِ صاحب درمختار علیہم رحمۃ الغفار نے ان کا یہ قول نقل کیا۔ اما المکی ففی فتاواہ وفی شرح العباب وعارض واما الرملی ففی حاشیۃ البحرالرائق ومرض (ترجمہ: مکی نے اپنے فتاوٰی اور شرح العباب میں نقل کیا اور اس نے معارضہ کیا، رملی نے حاشیہ بحرالرائق میں نقل کیا اور اسے کمزور کہا)۔ حق یہ ہے کہ اذان مذکور فی السوال کا جواز یقینی ہے۔ ہرگز شرع مطہر سے اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں اور جس امر سے شرع منع نہ فرمائے اصلاً ممنوع نہیں ہوسکتا۔ قائلانِ جواز کے لئے اسی قدر کافی۔ جو مدعی ممانعت ہو دلائل شرعیہ سے اپنا دعویٰ ثابت کرے پھر بھی مقام تبرع میں آکر فقیر غفراﷲ تعالیٰ بدلائل کثیرہ اس کی اصل شرعِ مطہر سے نکال سکتا ہے جنہیں بقانون مناظرہ اسانید سوال تصور کیجئے فاقول وباﷲ التوفیق وبہٖ الوصول الٰی ذری التحقیق۔
 دلیل اول(1):
 وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوال نکیرین ہوتا ہے شیطانِ رجیم (اﷲ عزوجل صدقہ اپنے محبوب کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کا ہر مسلمان مردوزن کو حیات و ممات میں اس کے شرسے محفوظ رکھے) وہاں بھی خلل انداز ہوتا اور جواب میں بہکاتا ہے۔ والعیاذ بوجہ العزیز الکریم ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ امامِ ترمذی محمد بن علی نوادرالاصول میں امام اجل سفیانِ ثوری رحمۃ اﷲ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں ان المیت اذا سئل من ربک ترائٰ ی لہ الشیطٰن فی صورۃ فیشیرالٰی نفسہٖ انی اناربک فلھذاوردسوال التثبیتِ لہ حین یسئل یعنی جب مردے سے سوال ہوتا ہے کہ تیرارب کون ہے۔ شیطان اس پر ظاہر ہوتا ہے اور اپنی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں۔ اس لئے حکم آیا کہ میت کے لئے ثابت قدم رہنے کی دعا کریں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں۔ ویؤیدہ من الاخبار قول النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عند دفن المیت اللھم اجرہ من الشیطٰن فلولم یکن للشیطان ھناک سبیل ما دعٰی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بذلک یعنی وہ حدیثیں اس کی مؤید ہیں جن میں وارد کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میت کو دفن کرتے وقت دعا فرماتے الٰہی اسے شیطان سے بچا اگر وہاں شیطان کا کچھ دخل نہ ہوتا تو حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دعا کیوں فرماتے اور صحیح حدیثوں سے ثابت کہ اذان شیطان کو دفع کرتی ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہما میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اذا اذن المؤذن ادبر الشیطٰن ولہ حصاص ’’جب مؤذن اذان کہتا ہے۔ شیطان پیٹھ پھیر کر گوززناں بھاگتا ہے‘‘۔ صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے واضح کہ چھتیس میل تک بھاگ جاتا ہے اور خود حدیث میں حکم آیا کہ جب شیطان کا کھٹکا ہو، فوراً اذان اذاں کہو کہ وہ دفع ہوجائے گا۔ اخرجہ الامام ابوالقاسم سلیمٰن بن احمد الطبرانی فی اوسط معاجیمہٖ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہم نے اپنے رسالے ’’نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوبا‘‘ میں اس مطلب پر بہت احادیث نقل کیں اور جب ثابت ہولیا کہ وہ وقت عیاذًا باﷲ مداخلت شیطان لعین کا ہے اور ارشاد ہوا کہ شیطان اذان سے بھاگتا ہے اور ہمیں حکم آیا کہ اس کے دفع کو اذان کہو تو یہ اذان خاص حدیثوں سے مستنبط بلکہ عین ارشادِ شارع کے مطابق اور مسلمان بھائی کی عمدہ امداد واعانت ہوئی جس کی خوبیوں سے قرآن و حدیث مالامال۔
دلیل دوم(2):
 امام احمدو طبرانی و بیہقی حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی قال لما دفن سعد بن معاذ (زادفی روایۃ) وسوی علیہ سبح النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وسبح الناس مَعَہ طویلا ثم کبرو کبر الناس ثم قالوا یارسول اﷲ لم سبحت (زادفی روایۃ)ثم کبرت قال لقد تضایق علٰی ھذا الرجل الصالح قبرہ حتی فرج اﷲ تعالٰی عنہ‘  یعنی جب سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ دفن ہوچکے اور قبر درست کردی گئی نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دیر تک سبحان اﷲ، سبحان اﷲ فرماتے رہے اور صحابہ کرام بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے۔ پھر حضور اﷲ اکبر اﷲ اکبر فرماتے رہے اور صحابہ بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے، پھر صحابہ نے عرض کی یا رسول اﷲ حضور اول تسبیح پھر تکبیر کیوں فرماتے رہے؟ ارشاد فرمایا اس نیک مرد پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے وہ تکلیف اس سے دور کی اور قبر کشادہ فرمادی۔ علامہ طیبی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں۔ ای مازلت اکبر وتکبرون واسبح و تسبحون حتی فرجہ اﷲ یعنی حدیث کے معنی یہ ہیں کہ برابر میں اور تم اﷲ اکبر اﷲ اکبرسبحٰن اﷲ سبحٰن اﷲ کہتے رہے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اس تنگی سے انہیں نجات بخشی۔
 اقول اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خود حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے میت پر آسانی کے لئے بعد دفن کے قبر پر اﷲ اکبر، اﷲ اکبر بار بار فرمایا ہے۔ اور یہی کلمہ مبارکہ اذان میں چھ بار ہے تو عین سنت ہوا۔ غایت یہ کہ اذان میں اس کے ساتھ اور کلمات طیبات زائد ہیں سو ان کی زیادت نہ معاذ اﷲ مضر، نہ اس امر مسنون کے منافی بلکہ زیادہ مفید ومؤید مقصود ہے کہ رحمت الٰہی اتارنے کے لئے ذکرِ خدا کرنا تھا، دیکھو یہ بعینہٖ وہ مسلک نفیس ہے جو دربارہ تلبیہ اجلہ صحابۂ عظام مثل حضرت امیر المومنین عمر و حضرت عبداﷲ بن عمر و حضرت عبداﷲ بن مسعود وحضرت امام حسن مجتبیٰ و غیرہم رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین کو ملحوظ ہوا اور ہمارے ائمہ کرام نے اختیار فرمایا۔ ہدایہ میں ہے۔ لا ینبغی ان یخل بشیٔ من ھذہ الکلمات لا نہ ھو المنقول فلا ینقص عنہ ولوزاد فیھا جازلان المقصود الثنائُ واظہار العبودیۃ فلا یمنع من الزیادۃ علیہ (۱ھ) ملخصاًیعنی ان کلمات میں کمی نہ چاہیئے کہ یہی نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں تو ان سے گھٹائے نہیں اور اگر بڑھائے تو جائز ہے کہ مقصود اﷲ تعالیٰ کی تعریف اور اپنی بندگی کا ظاہر کرنا ہے تو اور کلمے زیادہ کرنے سے ممانعت نہیں۔ فقیر غفراﷲ تعالیٰ لہ نے اپنے رسالہ ’’صفائح للجین فی کون التصافح بکفی الیدین(۱۳۰۶)‘‘وغیرہا رسائل میں اس مطلب کی قدرے تفصیل کی۔
دلیل سوم(3):
 بالاتفاق سنت اور حدیثوں سے ثابت اور فقہ میں مثبت کہ میت کے پاس حالت نزع میں کلمۂ طیبہ لا الہ الا اﷲ کہتے رہیں کہ اسے سن کر یاد ہو۔ حدیث متواتر میں ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں لقِّنواموتاکم لا الہ الا اﷲ اپنے مردوں کو لا الٰہ الا اﷲ سکھائو رو اہ احمد ومسلم و ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجہ عن ابی سعید الخدری وابن ماجہ کمسلم عن ابی ھریرۃ وکالنسائی عن ام المومنین عائشۃ رضی اﷲ عنہم اب جو نزع میں ہے وہ مجازاً مردہ ہے اور اسے کلمہ سکھانے کی حاجت کہ بحول اﷲ تعالیٰ خاتمہ اسی پاک کلمے پر ہو اور شیطانِ لعین کے بہلانے میں نہ آئے اور جو دفن ہو چکا حقیقۃً مردہ ہے اور اسے بھی کلمہ پاک سکھانے کی حاجت کہ بعون اﷲ تعالیٰ جواب یاد ہوجائے اور شیطانِ رجیم کے بہکانے میں نہ آئے اور بے شک اذان میں یہی کلمہ لا الٰہ الا اﷲ تین جگہ موجود بلکہ اس کے تمام کلمات جوابِ نکیرین بتاتے ہیں۔ ان کے سوال تین ہیں من ربک تیرا رب کون ہے؟ ما دینک تیرا دین کیا ہے؟ ما کنت تقول فی ھذا الرجل تو اس مرد یعنی نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اب اذان کی ابتداء میں اﷲ اکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبر اشھدان لا الٰہ الا اﷲ  اشھدان لا الٰہ الا اﷲاور آخر میں اﷲ اکبر اﷲ  اکبر لا الٰہ الا اﷲ سوال من ربک کا جواب سکھائیں گے ان کے سننے سے یاد آئے گا کہ میرارب اﷲ ہے اور اشھد ان محمدًا رسول اﷲ اشھد ان محمدًا رسول اﷲ سوال ماکنت تقول فی ھٰذا الرجل کا جواب تعلیم کریں گے کہ میں انہیں اﷲ کا رسول جانتا تھا اور حی علیٰ الصلٰوۃ حی علی الفلاح جواب مادینک کی طرف اشارہ کریں گے۔ کہ میرا دین وہ تھا جس میں نماز رکن و ستون ہے کہ الصلٰوۃ عماد الدین تو بعد دفن اذان دینا عین ارشاد کی تعلیم ہے جو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث صحیح متواتر مذکورمیں فرمایا۔ اب یہ کلام سماعِ موتیٰ اور تلقین اموات کی طرف منجر ہوگا۔فقیر غفراﷲ تعالیٰ خاص اس مسئلہ میں کتاب مبسوط مسمّٰی بہ ’’حیات الموات فی بیان سماع الاموات(۱۳۰۵)‘‘ تحریر کرچکا جس میں پچھتر حدیثوں اور پونے چارسواقوال ائمہ دین و علمائے کاملین و خود بزرگانِ منکرین سے ثابت کیا کہ مردوں کا سننا، دیکھنا، سمجھنا قطعاً حق ہے اور اس پر اہلسنّت وجماعت کا اجماع قائم اور اس کا انکار نہ کریگا مگر غبی جاہل یا معاندِ مبطل اور اسی کی چند فصول میں بحث تلقین بھی صاف کردی۔ یہاں اس کے اعادہ کی حاجت نہیں۔
دلیل چہارم(4):
 ابویعلیٰ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں اطفؤا الحریق بالتکبیر ’’آگ کو تکبیر سے بجھائو‘‘۔ ابن عدی حضرت عبداﷲ بن عباس وہ اور ابن السنی و ابن عساکر حضرت عبداﷲ بن عمروبن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے راوی حضور پرنور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں اذارأیتم الحریق فکبروافانہ یطفیٔ النارً جب آگ دیکھو اﷲ اکبر اﷲ اکبر کی بکثرت تکرار کرو وہ آگ کو بجھادیتا ہے۔ علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں فکبرواای قولوا اﷲ اکبر اﷲ اکبر وکرروہ کثیراً (یعنی ’’فکبروا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اﷲ اکبر اﷲاکبر کثرت کے ساتھ بار بار کہو)۔ مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری اس حدیث کی شرح میں کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبر کے پاس دیر تک اﷲ اکبر اﷲ اکبر فرماتے رہے، لکھتے ہیں التکبیر علٰی ہذا لاطفاء الغضب الالھی ولھذا ورد استحباب التکبیر عند رؤیۃ الحریق ’’اب یہ اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہنا غضبِ الٰہی کے بجھانے کو ہے ولہٰذا آگ لگی دیکھ کر دیر تک تکبیر مستحب ٹھہری‘‘۔
 وسیلۃ النجاۃ میں حیرۃ الفقہ سے منقول ہے’’حکمت درتکبیر آنست براہل گورستان کہ رسول علیہ السلام فرمودہ است اذارأیتم الحریق فکبروا چوںآتش درجائے افتد وازدست شمابرنیاید کہ بنشانید تکبیر بگوید کہ آتش بہ برکت آں تکبیر فرونشیندچوں عذابِ قبربآتش است ودست شمابآں نمیرسد تکبیر باید گفت تامردگاں از آتشِ دوزخ خلاص یانبد‘‘(یعنی اہل قبرستان پر تکبیر کہنے میں حکمت یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اذا رأیتم الحریق فکبروا یعنی جب تم کسی جگہ آگ بھڑکتی ہوئی دیکھو اور تم اسے بجھانے کی طاقت نہ رکھتے ہو، تو تکبیر کہو کہ اس تکبیر کی برکت سے وہ آگ ٹھنڈی پڑجائے گی چونکہ عذاب قبر بھی آگ کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے تم اپنے ہاتھ سے بجھانے کی طاقت نہیں رکھتے لہٰذا اﷲ کا نام لو تاکہ فوت ہونے والے لوگ دوزخ کی آگ سے خلاصی پائیں گے)۔ یہاں سے بھی ثابت کہ قبر مسلم پر تکبیر کہنا فردسنت ہے تو یہ اذان بھی قطعاً سنت پر مشتمل اور زیادات مفیدہ کا مانعِ سنیت نہ ہونا تقریر دلیل دوم سے ظاہر ہے۔
دلیل پنجم(5):
 ابن ماجہ و بیہقی سعید بن مسیب سے راوی قال حضرت ابن عمر فی جنازۃ فلما وضعھافی اللحد قال بسم اﷲ وفی سبیل اﷲ فلما اخذفی تسویۃ اللحد قال اللھم اجرھا من الشیطٰن ومن عذاب القبر ثم قال سمعتہ من رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ھذا مختصر یعنی میں حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا۔حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اسے لحد میں رکھا کہا۔ بسم اﷲ وفی سبیل اﷲ، جب لحد برابر کرنے لگے کہا الٰہی اسے شیطان سے بچا اور عذاب قبر سے امان دے پھر فرما یا میںنے اسے رسول اللہ ﷺسے سنا۔ امام تر مذی حکیم قدس سرہ الکریم بسند جید عمرو بن مرۃ تا بعی سے روایت کرتے ہیں۔کا نو یستحبون اذاوضع المیت فی اللحد ان یقولوا اللھم اعذہ من الشیطن الرجیم یعنی صحابہ کرام یا تا بعین عظام مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو لحد میں رکھا جائے تو دعا کریں الٰہی اسے شیطان رجیم سے پناہ دے ۔ابن ابی شیبہ استاذ امام بخاری ومسلم اپنے مصنف میں خثیمہ سے راوی کا نو یستحبون اذاد فنو االمیت ان یقولو ا بسم اﷲ و فی سبیل اﷲ وعلیٰ ملۃ رسول اﷲ اللھم اجرہ من عذاب القبر و عذاب النا ر و من شر شیطان الرجیم ’’مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو دفن کریں یو ں کہیں اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ ﷺ کی ملت پر ، الٰہی اسے عذاب قبر وعذاب ِدوزخ و شیطان ملعون کے شرسے پناہ بخش۔ ان حدیثوں سے جس طرح یہ ثابت ہو اکہ اس وقت عیاذا با اللہ شیطان رجیم کا دخل ہوتا ہے یو نہی یہ بھی واضح ہو اکہ اس کے دفع کی تد بیر سنت ہے کہ دعا نہیں مگر ایک تدبیر اور احادیث سابقہ دلیل اول سے واضح کہ اذان دفع شیطان کی ایک عمدہ تدبیر ہے تو یہ بھی مقصودشارع کے مطابق اور اپنی نظیر شرعی سے موافق ہوئی۔
دلیل ششم(6):
 ابو داؤد و حاکم وبیہقی امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کان النبی  صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذافرغ من دفن المیت وقف علیہ قال استغفروا لاخیکم وسلوا لہ بالتثبت فانہ الان یسئال یعنی ’’حضوراقدس ﷺجب دفن میت سے فارغ ہو تے قبر پر وقوف فرماتے اور ارشاد کرتے اپنے بھائی کیلئے استغفار کر و اور اس کے لیے جواب نکیر ین میں ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو کہ اب اس سے سوال ہو گا‘‘۔ سعید بن منصور اپنے سنن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی قال کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقف علی القبر بعد ماسوی علیہ فیقول اللھم نزل بک صا حبناو خلف الد نیا خلف ظھر ہ اللھم ثبت عند المسئلۃ نطقہ ولا تبتلہ فی قبر ہ بما لا طاقۃ لہ بہ یعنی ’’جب مردہ دفن ہو کر قبر درست ہو جاتی تو حضورسید عالم ﷺقبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتے الٰہی ہمار ا ساتھی تیرا مہمان ہو ا اور دنیا اپنے پس پشت چھوڑ آیا ۔الٰہی سوال کے وقت اسکی زبان درست رکھ اور قبر میں اس پروہ بلا نہ ڈال جس کی اسے طاقت نہ ہو‘‘ ۔
 ان حدیثوں اور احادیثِ دلیل پنجم و غیرہ سے ثا بت کہ دفن کے بعد دعا سنت ہے۔ امام محمد بن علی حکیم تر مذی قدس سرہ دعا بعد دفن کی حکمت میں فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ بجماعت مسلمین ایک لشکر تھا کہ آستا نۂ شا ہی پر میت کی شفاعت وعذر خواہی کیلئے حاضر ہوا اوراب قبر پر کھڑے ہو کر دعا یہ اس لشکر کی مدد ہے کہ یہ وقت میت کی مشغولی کا ہے اسے اس نئی جگہ کا ہو ل اور نکیرین کا سوال پیش آنے والا ہے ، نقلہ المولی جلال الملۃ والدین السیو طی رحمہ اﷲ تعالیٰ فی شرح الصد ور اور میں گمان نہیں کرتا کہ یہاں استحباب دعا کا عالم میں کوئی عالم منکر ہو ۔
 امام آجری فرماتے ہیں یستحب الو قوف بعد الدفن قلیلا و الدعا ء للمیت ’’مستحب ہے کہ دفن کے بعد کچھ دیر کھڑے رہیں او رمیت کیلئے دعا کریں‘‘۔ اسی طرح اذکارامام نووی و جوہرہ نیرہ ودر مختار وفتاوی عالمگیر یہ و غیرہا اسفار میں ہے طرفہ یہ کہ امام ثانی منکرین مولوی اسحق صاحب دہلوی نے مائۃ مسائل میں اسی سوال کے جواب میں کہ بعد دفن قبر پر اذان کیسی ہے؟فتح القدیر وبحر الرائق و نہر الفائق و فتاوی عالمگیریہ سے نقل کیا کہ قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا سنت سے ثابت ہے او ربراہ بزرگی اتنا نہ جانا کہ اذان خود دعا بلکہ بہترین دعا سے ہے کہ وہ ذکرالٰہی ہے اور ہر ذکر الٰہی دعا تو وہ بھی اسی سنت ثابتہ کی ایک فرد ہو ئی پھر سنیت مطلق سے کراہت فرد پر استدلال عجب تما شا ہے ۔ مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری مرقاۃ شرح مشکوۃمیں فرماتے ہیں کل دعا ذکرٌوکل ذکر دعائٌ ہر دعا ذکر ہے او رہر ذکر دعا ہے۔ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں افضل الد عا ء الحمد اﷲ سب دعا ؤں سے افضل دعا الحمد للہ ہے‘‘اخرجہ التر مذی و حسنہ والنسا ئی وابن ماجۃ وابن حبان والحا کم و صححہ عن جا بر بن عبد اﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
 صحیحین میں ہے ایک سفر میں لو گوں نے بآواز بلند اللہ اکبر اللہ اکبر کہنا شروع کیا نبی ﷺنے فرمایا اے لو گواپنی جانوں پر نرمی کر و انکم لا تد عون اصم ولاغائباً انکم تد عون سمیعاً بصیراً  ’’تم کسی بہرے یا غائب سے دعا نہیں کرتے سمیع بصیر سے دعا کرتے ہو‘‘۔ دیکھو حضور اقدس ﷺاللہ تعالیٰ کی تعریف اور خاص کلمہ اللہ اکبر کو دعا فرما یا تو اذان کے بھی ایک دعا اور فرد مسنون ہو نے میں کیا شک رہا۔
دلیل ہفتم(7):
 یہ تو واضح ہو لیا کہ بعد دفن میت کے لیے دعا سنت ہے ۔ا ور علماء فرماتے ہیں آداب دعا سے ہے کہ اس سے پہلے کو ئی عمل صالح کرے ۔امام شمس الدین محمد بن الجزری کی حصن حصین شریف میں ہے اداب الدعا منھا تقد یم عمل صالح و ذکرہ عندہ الشدۃ (یعنی آداب دعا میں سے ہے کہ اس سے پہلے عمل صالح ہو اور ذکر الٰہی مشکل وقت میں ضرور کرنا چاہیئے)۔ علامہ علی قاری حرز ثمین میں فرماتے ہیں یہ ادب حدیث ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ ابو داؤد و تر مذی و نسائی وا بن ماجہ وابن حبان نے رو ایت کی ثابت ہے اور شک نہیں کہ اذان بھی عمل صالح ہے تو دعا پر اس کی تقدیم مطابق مقصودِ سنت ہو ئی ۔
دلیل ہشتم(8):
 رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں ثنتان لا ترد ان الدعاء عند النداء وعند الباس ’’دو دعائیںرد نہیں ہو تیں ایک اذان کے وقت اور ایک جہاد میں جب کفار سے لڑائی شروع ہو‘‘۔ اخرجہ ابو داؤد وابن حبان والحاکم بسند صحیح عن سھل بن سعد السا عدی رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور فرماتے ہیںحضور ﷺاذانادی المنا دی فتحت ابواب السمآ ء واستجیب الدعآء جب اذان دینے والا اذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دعا قبول ہو تی ہے ۔ اخرجہ ابو یعلی والحا کم عن ابی اما مۃ البا ھلی و ابو داؤد الطیالسی وابو یعلی والضیاء فی المختارۃ بسند حسن عن انس ابن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہما ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ اذان اسباب اجابت دعا سے ہے۔اور یہاں دعا شارع جل و علا کو مقصود تو اس کے اسباب اجابت کی تحصیل قطعا ًمحمود ۔
دلیل نہم(9):
 حضور سید عالم ﷺفرماتے ہیں ۔یغفر للمؤذن منتھٰی اذانہ و یستغفر لہ کل رطب یا بس سمعہ اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے مؤذن کیلئے اتنی ہی وسیع مغفرت آتی ہے اور جس ترو خشک چیز کو اس کی آوا ز پہنچتی ہے اذان دینے والے کیلئے استغفار کرتی ہے۔ اخرجہ الا مام احمد بسند صحیح واللفظ لہ و البزار والطبرانی فی الکبیر عن عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنھما و نحوہ عند احمد وابی داؤد والنسائی و ابن ماجۃ وابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ و صدر ہ عندا حمد و النسائی بسندحسن جید عن البرآء بن عازب و الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃولہ فی الا وسط عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہم یہ پانچ حدیثیں ارشاد فرماتی ہیں کہ اذان باعث مغفرت ہے اور بیشک مغفور کی دعا زیادہ قابل قبول و اقرب با جابت ہے اور خود حدیث میں دارد کہ مغفوروں سے دعا منگو انی چا ہیئے۔ امام احمد مسند میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی حضور اقدس ﷺفرماتے ہیں اذ القیت الحاج فسلم علیہ و صا فحہ و مرہ ان یستغفر لک قبل ان یدخل بیتہ فا نہ مغفور لہ ’’جب تو حاجی سے ملے اسے سلام کراور مصا فحہ کر اور قبل اس کے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اس سے اپنے لئے استغفار کر ا کہ وہ مغفورہے‘‘۔ پس اگر اہل اسلام بعد دفن میت اپنے میں کسی بندہ صالح سے اذان کہلوئیں تا کہ بحکم احادیث صحیحہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی مغفرت ہو پھر میت کیلئے دعا کرے کہ مغفور کی دعا میں زیادہ رجائے اجابت ہو تو کیا گناہ ہوابلکہ عین مقا صد شرع سے مطابق ہوا۔
دلیل دہم(10):
 اذان ذکر الٰہی ہے اور ذکر الٰہی دا فع عذاب۔ رسول اﷲﷺفرماتے ہیں مامن شیٔ انجٰی من عذا ب اﷲ من ذکراﷲکو ئی چیز ذکر خد اسے زیادہ عذاب خدا سے نجات بخشنے والی نہیں رواہ الامام احمد عن معاذ بن جبل وا بن ابی الدنیا وا لبیھقی عن ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور خود اذان کی نسبت وارِد جہاں کہی جاتی ہے وہ جگہ اس دن عذاب سے مامون ہو جاتی ہے۔
 طبرانی معا جیم ثلاثہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی حضور اقدس ﷺفرماتے ہیں اذااذن فی قریۃ امنھا اﷲ من عذابہ فی ذلک الیوم و شاھدہ عندہ فی الکبیر من حدیث معقل بن یسا رٍ رضی اﷲ تعالٰی عنہ (یعنی جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اﷲ تعالیٰ اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہے اور اس کی شاہد وہ روایت ہے جو معجم کبیر میں حضرت معقل بن یسار رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے)  اور بے شک اپنے بھائی مسلمان کیلئے ایسا عمل کرنا جو عذاب سے منجی ہو شارع جل و علاکو محبوب و مرغوب ، مولانا علی قا ری رحمہ الباری شرح عین العلم میں قبر کے پاس قرآن پڑھنے اور تسبیح و دعا ئے رحمت و مغفرت کرنے کی وصیت فرماکر لکھتے ہیں ۔فان الاذکار کلھا نافعۃ لہ فی تلک الدار ’’کہ ذکر جس قد رہیں سب میت کو قبرمیں نفع بخشتے ہیں۔ امام بدرالدین محمودعینی شرح صحیح بخاری میں زیر باب ’’مو عظۃ المحدث عند القبر‘‘ فرماتے ہیں! واما مصلحۃ المیت فمثل مااذا اجتمواعندہ لقر اء ۃ القرآن والذکرفان المیت یتنفع بہ۔ میت کے لیے اس میں مصلحت ہے کہ مسلمان اس کی قبر کے پاس جمع ہو کر قرآن پڑھیں ذکر کریں کہ میت کو ا س سے نفع ہو تا ہے ۔
یارب مگر اذان ذکر محبوب نہیں یا مسلمان بھائی کو نفع ملنا شرعا ً مرغوب نہیں۔
دلیل یازد ہم(11):
 اذان ذکر مصطفی ﷺہے اور ذکر مصطفی ﷺباعث نزول رحمت، اولاً حضو رکاذکر عین ذکر خدا ہے امام ابن عطا پھر امام قاضی عیاض و غیر ہماائمہ کرام تفسیر قولہ تعالیٰ ورفعنالک ذکرک میں فرماتے ہیں جعلتک ذکر ا ًمن ذکری فمن ذکرک فقد ذکرنی میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یا دکیا ۔ جو تمہارا ذکر کرے وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور ذکرالٰہی بلا شبہ رحمت اترنے کا باعث ۔ سید عالم ﷺصحیح حدیث میں ذکر کرنے والوں کی نسبت فرماتے ہیں حفتھم الملا ٓ ئکۃ و غشیتھم الرحمۃ ونزلت علیھم السکینۃ ’’انہیں ملائکہ گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ اور چین اتر تا ہے رواہ مسلم والتر مذی عن ابی ھر یرۃ وابی سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنھما۔ ثانیاًہر محبوبِ خدا کا ذکر محلِ نزولِ رحمت ہے۔امام سفین بن عیینیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃنیکوں کے ذکر کے وقت رحمت الٰہی اترتی ہے۔ ابو جعفر بن حمد ان نے ابو عمرو بن نجید سے اسے بیان کر کے فرمایافرسول اﷲ صلی اﷲ  تعالیٰ علیہ وسلم رأس الصالحین’’تو رسول ﷺتو سب صالحین کے سردار ہیں، پس بلاشبہ جہاں اذان ہوگی رحمت الٰہی اترے گی اور بھائی مسلمان کیلئے وہ فعل جو باعث نزول رحمت ہو شرع کو پسند ہے نہ کہ ممنوع۔
دلیل دوازدہم(12):
 خود ظاہر او رحدیثوں سے بھی ثابت کہ مردے کو اس نئے مکان تنگ و تار میں سخت وحشت اور گھبراہٹ ہوتی ہے۔الاما رحم ربی ان ربی غفور رحیم(مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے یقیناً میرا رب بخشش فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے) اور اذان د افع دحشت وبا عث اطمینانِ خاطر ہے کہ وہ ذکر خدا ہے او راللہ عزوجل فرماتا ہے۔ الا بذ کر اﷲ تطمئن القلوب ’’سن لو خدا کے ذکر سے چین پاتے ہیں دل‘‘ ۔ ابو نعیم وابن عسا کر حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی حضور سرور عالم ﷺفرماتے ہیں نزل اٰدَم بالھند فاستوحش فنزل جبر ئیل علیہ الصلٰوۃ والسلام فنادی بالا ذان(الحدیث) یعنی ’’جب آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام جنت سے ہند و ستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہو ئی تو جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اتر کر اذان دی‘‘۔ پھر ہم اس غریب کی تسکین خاطر و دفع تو حش کو اذان دیں تو کیا براکریں ۔ حاشا بلکہ مسلمان خصوصاً ایسے بیکس کی اعانت حضرت حق عزوجل کو نہایت پسند ہے حضور سید عالم ﷺفرماتے ہیں اﷲ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخیہ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی مسلمان کی مدد میں ہے۔رواہ مسلم و ابو داؤد و الترمذی وابن ماجۃ والحاکم عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور فرماتے ہیں ﷺمن کان فی حاجۃ اخیہ کان اﷲ فی حاجۃ و من فرج عن مسلم کربۃً فرج اﷲعنہ بھا کربۃً کرب یو م القیٰمۃ جو اپنے بھائی مسلمان کے کام میں ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت رو ائی میں ہو۔ اور جو کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ اس کے عو ض قیامت کی مصیبتوں سے ایک مصیبت اس پر سے دور فرمائے۔ رواہ الیشخان وا بو داؤد عن ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما۔
دلیل سیز دہم(13):
 مسند الفر دوس میں حضرت جناب امیر المومنین مولیٰ المسلمین سید نا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الا سنٰے سے مروی قال رأَنِی النبی  صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حز یناً فقال یا ابن ابی طالب انی اراک حزیناً فمر بعض اھلک یؤ ذن فی اذنک فانہ درئٌ للھَمِّ یعنی ’’مجھے حضو رسید عالم ﷺنے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا اے علی! میں تجھے غمگین پا تا ہوں۔ اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے۔ اذان غم و پریشانی کی دافع ہے‘‘ ۔ مولیٰ علی اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا فجربتہ فوجدتہ کذالک ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ذکرہ ابن حجر کمافی المرقاۃ اور خود معلوم اور حدیثوں سے بھی ثابت کہ میت اس و قت کیسے حزن و غم کی حالت میں ہوتا ہے ۔ مگر وہ خاص عباد اللہ اکابر اولیا ء اللہ جو مر گ کو دیکھ کر مرحبا بحبیب جآء علیٰ فاقۃٍ (خوش آمدید اس محبوب کو جو بہت دیر سے آیا)فرماتے ہیں تو اس کے دفع غم والم کے لیے اگر اذان سنا ئی جائے کیا معذورِ شرعی لازم آئے حاشااللہ! بلکہ مسلمان کا دل خوش کرنے کے برابر اللہ عزوجل کو فرائض کے بعد کو ئی عمل محبو ب نہیں۔ طبرانی معجم کبیر، معجم اوسط میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی حضور پر نورﷺ فرماتے ہیں ان احب الا عمال الٰی اﷲ تعالیٰ بعد الفر ائض ادخال السرور علی المسلمبے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرضوں کے بعد سب اعمال سے زیادہ مسلمان کا خوش کرنا ہے۔ انہیں دونوں میں حضرت امام ابن الا مام سید نا حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی حضور سید عالم ﷺفرماتے ہیں ان من مو جبات المغفرۃ ادخالک السرور علیٰ اخیک المسلم بے شک موجبات مغفرت سے ہے تیرا اپنے بھائی مسلمان کو خوش کرنا۔
دلیل چہا درہم(14):
 قال اﷲ تعالیٰ یآیُّھا الذین اٰمنوا اذکروا اﷲ ذکراً کثیراً اے ایمان والو اللہ کا ذکر کروبکثرت ذکر کرنا ، حضو راقدسﷺ فرماتے ہیں اکثرو اذکر اﷲحتی یقولوا مجنونٌ۔’’اللہ کا ذکر اس درجہ بکثرت کرو کہ لوگ مجنون بتائیں۔ اخرجہ احمد وابویعلی وابن حبان والحا کم و البیھقی عن ابی سعید الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ صححہ الحاکم و حسنہ الحا فظ ابن حجر اور فرماتے ہیںصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اذکر اﷲ عند کل شجروحجر ہر سنگ و شجر کے پاس اللہ کا ذکر کر اخرجہ الامام احمد فی کتا ب الزھد و الطبرانی فی الکبیر عن معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
 عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:لم یفرض اﷲ علٰی عبادہ فریصۃًالا جعل لھا حد امعلو ماً ثم عذر اھلھا فی حال العذ ر غیر الذکر فانہ لم یجعل لہ حداً انتھی الیہ ولم یعذر احد اً فی ترکہ الا مغلو با علیٰ عقلہٖ و امر ھم بہ فی الا حوال کلھا’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کوئی فرض مقرر نہ فرمایا مگر یہ کہ اس کے لئے ایک حد معین کر دی۔ پھر عذر کی حالت میں لو گو ں کو اس سے معذور رکھا۔ سوا ذکر کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے کو ئی حد مقرر نہ رکھی جس پر انتہا ہواور نہ کسی کو ا س کے ترک میں معذور رکھا مگر وہ جس کی عقل سلامت نہ رہے اور بندوں کو تمام احوال میں ذکر کا حکم دیا۔ ان کے شاگرد امام مجا ہد فرماتے ہیں۔الذ کر الکثیر ان لا یتناھی ابداً’’ذکر کثیر یہ ہے کہ کبھی ختم نہ ہو ۔ ذکر ھمافی المعا لم وغیرہا تو ذکر الٰہی ہمیشہ ہر جگہ محبوب و مر عو ب و مطلوب و مند وب ہے جس سے ہر گز مما نعت نہیں ہو سکتی۔ جب تک خصوصیت خاصہ کو ئی شرعی نہ آئی ہو اور اذان بھی قطعاً ذکر خدا ہے۔پھر خدا جانے کہ ذکر خدا سے ممانعت کی وجہ کیا ہے۔ہمیں حکم ہے کہ ہم ہر سنگ و درخت کے پاس ذکر الٰہی کریں۔قبرِ مومن کے پتھر کیا اس حکم سے خارج ہیں۔خصو صاً بعد دفن ذکر خدا کرنا تو خود حدیثوں سے ثابت او ر بہ تصر یح ائمہ دین مستحب و لہٰذا امام اجل ابو سلیمان خطا بی دربارئہ تلقین فرماتے ہیں لا نجدلہ‘ حدیثا مشھوراً ولا باس بہ اذلیس فیہ الا ذکر اﷲ تعالٰی الٰی قولہ و کل ذلک حسنٌ۔’’ہم اس میں کو ئی حدیث مشہور نہیں پاتے او را س میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ اس میں نہیں ہے مگر خدا کا ذکر اور یہ سب کچھ محمود ہے۔
دلیل پانز دہم(15):
 امام اجل ابو زکریا نووی شارح صحیح مسلم کتاب الا ذ کا میں فرماتے ہیں یستحبُّ ان یقعد عند القبر بعد الفراغ ساعۃ قدرما ینحر جزور ویقسم لحمہا ویشتغل القا عدون بتلاوۃ القرآن والد عآء للمیّت والو عظ والحکا یا ت لاھل الخیر وا لصا لحین مستحب یہ ہے کہ دفن سے فارغ ہو کر ایک سا عت قبر کے پاس بیٹھیں اتنی دیر کہ ایک اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گو شت تقسیم ہو اور بیٹھنے والے قرآن مجید کی تلاوت اور میت کے لئے دعا اور وعظ و نصیحت اور نیک بندوں کے ذکر و حکا یت میں مشغول رہیں۔شیخ محقق مو لانا عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ لمعات شرح مشکوٰۃمیں زیر حدیث امیر المومنین عثمان غنی اللہ تعالیٰ عنہ کہ فقیر نے دلیل ششم ذکر فرماتے ہیں قد سمعت عن بعض العلمآء انہ یستحب ذکر مسئلۃ من المسا ئل الفقھیۃ ’’یعنی بتحقیق میں نے بعض علما ء سے سنا کہ دفن کے بعد قبر کے پاس کسی مسئلہ فقہ کا ذکر مستحب ہے‘‘۔ اشعۃ اللعمات شرح فارسی مشکوٰۃ میں اس کی وجہ بیان فرماتے ہیں’’کہ باعث نزول رحمت است ‘‘ (نزول رحمت کا باعث ہے) اور فرماتے ہیں’’مناسب حال ذکر مسئلہ فرائض است ‘‘(ذکر مسئلہ فرائض مناسب حال ہے)اور فرماتے ہیں کہ اگر ’’ختم قرآن کنند ادلیٰ وافضل باشد‘‘(اگر قرآن پاک ختم کریں تو یہ اولیٰ اور بہتر ہے)۔ جب علماء کرام نے حکا یت اہل خیرو تذکرہ صالحین وختم قرآن و بیا ن مسئلہ فقہیہ و ذکرِ فرائض کو مستحب ٹھہرا یا حا لا نکہ ا ن میں بالحضوص کو ئی حدیث وارد نہیں بلکہ وجہ صرف وہی کہ میت کو نزول رحمت کی حاجت اور اِن امور میں ا مید نزول رحمت تو اذان کہ بشہادت احادیث مو جب نزول رحمت و دفع عذاب ہے کیو نکر جائز بلکہ مستحب نہ ہوگی۔

بحمداﷲ:
 یہ پندرہ دلیلیں ہیں کہ چند سا عت میں فیض قدیر سے قلب فقیر پر فا ئض ہو ئیں ناظر منصف جا نے گا کہ ان میں کثرت تو محض استخراج فقیر ہیں اور باقی کے بعض مقد مات اگرچہ بعض اجلہ علما ئے اہل سنت و جماعت رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام میں مذ کور مگر فقیر غفر اللہ تعالیٰ لہ نے تکمیل تر تیب و تسجیل تقریب سے ہر مقد مہ منفردہ کو دلیل کامل اور ہر مذکو رضمنی کو مقصود مستقل کردیا و الحمد ﷲ رب العالمین بایں ہمہ ع
لاشک ان الفضل للمتقد م
 ہم پر ان اکابر کا شکر واجب جنہوں نے اپنی تلاش و کوشش سے بہت کچھ متفرق کو یکجا کردیا اور اس دشوار کام کو ہم پر آسا ن کردیا۔جزاھم اﷲ عنا و عن الا سلام و السنۃ خیر جزا ء وشکر مسا عیھم الجملۃ فی حمایۃ الملۃ الغراء ونکا یۃ الفتنۃ العورآء و ھنأھم بفضل رسول نفی علی حمید رضی یوم القضا وصلی اﷲ  تعالٰی علیٰ سیدنا ومولا نا محمد والہ وصحبہ الا طا ئب الکرماء آمین۔
تنبیھات جلیلہ
تنبیہ اول:
 ہمارے کلام پر مطلع ہو نے والا عظمت رحمت الٰہی پر نظر کرے کہ اذان میں انشا ء اللہ الرحمن اس میت اور ان احیا ء کے لئے کتنے منا فع ہیں سات فا ئدے میت کیلئے
(۱)… بحولہٖ تعالیٰ شیطان رجیم کے شرسے پناہ۔
(۲)… بد ولت تکبیر عذاب نارسے امان۔
 (۳)… جواب سوالات کا یاد آجانا۔
(۴)… ذکر اذان کے باعث عذاب قبر سے نجات پانا۔
(۵)… بہ برکت ذکر مصطفی ﷺنزول رحمت۔
(۶)… بدولت اذان دفع و حشت۔
 (۷)… زوال غم حصول سرورو فرحت ۔اور پندرہ احیا ء کیلئے، سات تو یہی سات منا فع اپنے بھا ئی مسلمان کو پہنچانا۔ کہ ہر نفع رسانی جدا حسنہ ہے او رہر حسنہ کم از کم دس نیکیاں ۔ پھر نفع رسانی مسلم کی منفعتیں خدا ہی جا نتا ہے۔
( ۸)… میت کیلئے تدبیردفع شیطان سے اتباع سنت۔
(۹)… تد بیر آسا نیٔ جواب سے اتبا ع سنت۔
(۱۰)… دعا ء عند ا لقبرسے اتباع سنت۔
(۱۱)… بقصد نفع میت قبر کے پاس تکبیر یں کہہ کر اتباع سنت۔
(۱۲)… مطلق ذکر کے فوائد ملنا جن سے قرآن وحدیث مالامال۔
(۱۳)… ذکر مصطفی ﷺکے سبب رحمتیں پانا۔
(۱۴)… مطلق دعا کے فوائد ہاتھ آنا جسے حدیث میں مغز عبادت فرمایا۔
(۱۵)… مطلق اذان کے برکات ملنا جن میں منتہائے آواز تک مغفرت اور ہر ترو خشک کی استغفا رو شہادت اور دلوں کو صبر و سکون وراحت ہے۔ اورلطف یہ کہ اذان میں اصل کلمے سات ہی ہیں۔
 اﷲ اکبر اشھد ان لا الہ الا ﷲ اشھد ان محمد اً رسول اﷲ حی الصلٰوۃ حی علیٰ الفلاح اﷲ اکبر لا الہ الاﷲ اور مکر رات کو گنئے تو پندرہ ہو تے ہیں میت کے لیے وہ سات فائدے اورا حیا ء کیلئے پندرہ انہی سات اور پندرہ کے برکات ہیں۔ والحمد اللہ رب العالمین !تعجب کرتا ہوںکہ حضرات مانعین نے میت و احیا ء کو ان فو ائد جلیلہ سے محروم رکھنے میں کیا نفع سمجھا ہے؟ ہمیں تو مصطفی ﷺنے یہ ارشاد فرما یا ہے۔من استطا ع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ’’تم میں سے جس سے ہو سکے اپنے بھائی مسلمان کو نفع پہنچا ئے لاز م اور مناسب ہے کہ پہنچا ئے ۔ رواہ احمدو مسلم عن جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنھما ۔پھر خدا جانے اس اجازت کلی کے بعد جب تک خاص جذئیہ کی شرع میں نہی نہ ہو مما نعت کہاں سے کی جاتی ہے واللہ المو افق۔
تنبیہ دوم:
 حدیث میں ہے نبی ﷺفرماتے ہیں نیۃ المو منین خیر من عملہ ’’مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے رواہ البیھقی عن انس وا لطبرا نی فی الکبر عن سھل بن سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنھما اور بے شک جو علم نیت جا نتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لیے کئی کئی نیکیاں کر سکتا ہے مثلاًجب نماز کیلئے مسجد کو چلا اور صرف یہی قصد ہے کہ نماز پڑھوں گا تو بے شک اس کا یہ چلنا محمود ہر قدم پر ایک نیکی لکھیں گے اور دو سرے پر گناہ محوکریں گے۔ مگر عالم نیت اس ایک ہی فعل میں کئی نیتیں کرسکتا ہے ۔
(۱)… اصل مقصودیعنی نماز کو جا تا ہوں۔
(۲)… خانہ خدا کی زیارت کروںگا۔
(۳)… شعارِ اسلام ظاہر کرتا ہوں۔
(۴)… داعی اللہ کی اجابت کرتا ہوں۔
(۵)… تحیۃ المسجد پڑھنے جاتا ہوں۔
(۶)… مسجد سے خس وخا شاک و غیرہ دو ر کروں گا۔
(۷)… اعتکاف کرنے جاتا ہوں کہ مذہب مفتی بہ پرا عتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں۔ اور ایک سا عت کا بھی ہو سکتا ہے جب سے دا خل ہو با ہر آنے تک اعتکاف کی نیت کرلے انتظار نما ز و ادائے نماز کے ساتھ اعتکاف کا بھی ثواب پا ئے گا۔
(۸)… امر الٰہی خذوا زینتکم عند کل مسجد(جب مسجد میں جائو) کے امتثال کو جاتا ہوں۔
(۹)… جو و ہاں علم والا ملے گا اس سے مسائل پوچھوں گا، دین کی باتیں سیکھوں گا۔
(۱۰)… جاہلوں کو مسئلے بتاؤں گا، دین سکھا ؤنگا ۔
(۱۱)… جو علم میں میرے بر ابرہو گا اس سے علم کی تکرار کروںگا۔
(۱۲)… علماء کی زیارت۔
(۱۳)… نیک مسلمانوںکادیدار۔
(۱۴)… دوستوں سے ملاقات۔
(۱۵)… مسلما نوں سے میل۔
(۱۶)… جو رشتہ دا ر ملیں گے ان سے بکشادہ پیشیانی مل کر صلہ ٔ رحم۔
(۱۷)… اہل اسلام کو سلام۔
(۱۸)… مسلمانوں سے مصافحہ کروں گا۔
(۱۹)… ان کے سلام کا جواب دو ں گا۔
(۲۰)… نماز جماعت میں مسلمانوں کی برکتیں حاصل کرونگا۔
(۲۱،۲۲)…مسجد میں جاتے نکلتے حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر سلام عرض کروں گا۔بسم اﷲ الحمد اﷲ والسلام علی رسول اﷲ۔
(۲۳، ۲۴) …دخول و خرو ج میں حضور و آل حضور وازواج حضور پر درود بھیجوں گا کہ اللھم صل علی سیدنا محمدوعلیٰ ال سید نا محمدوعلی ازواج سیدنا محمد ۔
(۲۵)… بیمار کی مزاج پرسی کروں گا۔
(۲۶)…اگر کوئی غمی والا ملا تعزیت کروں گا۔
(۲۷)… جس مسلمان کو چھینک آئی اور اس نے الحمد اﷲ کہا اسے ’’یرحمک اﷲ‘‘ کہوں گا۔
(۲۸،۲۹)…امر با لمعرف و نہی عن المنکرکروں گا۔
(۳۰)… نما زیوں کے وضو کو پانی دوں گا۔
(۳۱،۳۲)… خود مؤذن ہے یا مسجد میں کوئی مؤذن مقرر نہیں تو نیت کرے کہ اذان و اقامت کہوں گا۔اب اگر یہ کہنے نہ پا یا۔ دوسرے نے کہہ دی تا ہم اپنی نیت پر اذان و اقامت کا ثواب پا چکا   فقد و قع اجرہ علی اﷲ(اﷲ تعالیٰ اسے اجر عطا فرمائے گا)۔
(۳۳)…جو راستہ بھو لا ہو گا راستہ بتا ؤں گا۔
(۳۴)…اندھے کی دستگیری کروں گا ۔
(۳۵)… جنازہ ملا تو نما ز پڑھوں گا۔
(۳۶)…موقع پا یا تو ساتھ دفن تک جاؤں گا ۔
(۳۷)…دو مسلمانوں میں نزع ہو ئی توحتی الو سع صلح کراؤں گا۔
 (۳۸،۳۹)…مسجد میں جاتے وقت داہنے اور نکلتے وقت بائیں پاؤں کی تقدیم سے اتباع سنت کروں گا۔
(۴۰)… راہ میں لکھا ہوا کا غذ پاؤں گا اٹھا کر ادب سے رکھ دوں گا۔
 الٰی غیر ذالک من نیات کثیرۃ تو دیکھئے جواِن ارادوں کے ساتھ گھر سے مسجد کو چلا وہ صرف حسنہ نماز کیلئے نہیں جا تا بلکہ ان چالیس حسنات کیلئے جاتا ہے تو گو یا اس کا یہ چلنا چا لیس طرف چلنا ہے اور ہر قدم چا لیس قدم ۔پہلے اگر ہر قدم ایک نیکی تھی اب چالیس نیکیاں ہونگی۔ اسی طرح قبر پر اذان دینے والے کو چا ہیئے کہ ان پندرہ نیتوں کا تفصیلی قصد کرے تاکہ ہر نیت پر جدا گا نہ ثواب پا ئے اور ان کے ساتھ یہ بھی ارادہ ہو کہ مجھے میت کیلئے دعا کا حکم ہے۔ اس کی اجابت کا سبب حاصل کرتا ہوں اور اس سے پہلے عمل صالح کو تقدیم چا ہیئے یہ ادب دعا بجا لا تا ہوں ۔الٰی غیر ذالک مما یستخرجہ العا رف النبیل واﷲا لھا دی الٰی سوآء السبیل بہت لوگ اذان تو دیتے ہیں مگر ان منا فع دینیا ت سے غافل ہیں۔ وہ جو کچھ نیت کر تے ہیں اسی قدر پا ئیں گے۔ فانما الا عمال با لنیا ت و انمالکل امریئٍ مانویٰ۔
تنبیہ سوم
 جہال منکر ین یہاں اعتراض کرتے ہیں کہ اذان تو اعلام نماز کے لیے یہاں کو نسی  نماز ہو گی جس کیلئے اذان کہی جاتی ہے مگر یہ ان کی جہا لت انہیں کو زیب دیتی ہے وہ نہیں جا نتے کہ نماز میں کیا کیا اغراض و منا فع ہیں اور شرع مطہر نے نماز کے سوا کن کن مواضع میں اذان مستحب فرمائی ہے ازانجملہ گو ش مغموم میں اور دفع و حشت کو کہنا تو یہیں گذرا اور بچے کے کان میں اذان دینا سنا ہی ہو گا۔ ان کے سوا اور بہت مواقع ہیں جن کی تفصیل ہم نے اپنے رسالہ’’نسیم صبا‘‘ میں ذکر کی۔
تنبیہ چہارم:
 شرع مطہرکی اصل کلی ہے کہ جو امر مقا صد شرع سے مطا بق ہو محمود ہے اور جو مخالف ہو مردود اور حکم مطلق اس کے تمام افراد میں جاری و ساری جب تک کسی خاص خصوصیت سے نہی شرعی وارد نہ ہو تو بعد ثبوت حسن مطلق حسن مقیدپر کسی دلیل کی حاجت نہیں بلکہ حسن مطلق ہی اس پر دلیل قا طع اور بقا عدہ منا ظرہ اثبات ممانعت ذمہ مانع ، معہذا اصل اشیاء میں اباحت تو قائل جواز متمسک بااصل ہے کہ اصلاً دلیل کی حاجت نہیں رکھتا ۔ اجازت خصوصیت کو اجازت خاصہ وارِد ہو نے پر مو قوف جا ننا اور منع خصو صیت کیلئے منع خاص وارد ہو نے کی ضرور ت نہ ما نتا صرف تحکم و زبر دستی ہی نہیںبلکہ دائرہ عقل و نقل سے خروج او رمطمورہ سفہ و جہل میں کامل و لوج ہے (یعنی بے وقوفی اور جہالت کے گڑھے میں مکمل طور پر داخل ہونا ہے)۔علما ئے سنت شکر اللہ تعالیٰ مسا عیہم الجمیلۃ ان سب مبا حث کو اعلیٰ درجہ پر طے فر ما چکے ۔ ان تمام اصو ل جلیلہ رفیعہ و دیگر قواعد نا فعہ بدیعہ کی تنقیح با لغ و تحقیق بازغ حضرت ختام المحققین امام المد ققین حجۃ اللہ فی الا رضین معجزہ من معجزات سید المر سلین صلوات اللہ وسلامہ علیہ و علے آلہٖ ٖواصحابہ اجمعین سید العلما ء سند الکملا ء تا ج الا فضل سراج الا ماثل حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہ ورزقنابرہ نے کتاب مستطاب ’’اصول الر شاد لقمع مبانی الفسا د‘‘و کتاب لاجواب ’’اذاقۃ الا ثام لما نعی عمل المو لد و القیام‘‘ و غیرہا میں افادہ فرمائی اور فقیر نے بھی بقدر حاجت اپنے رسالہ ’’اقا مۃ القیا مۃ علی طا عن القیام لنبی تھامۃ‘‘ ورسالہ ’’منیر العین فی حکم تقبیل الا بھا مین‘‘ورسالہ ’’نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الو با‘‘ و غیرہا تصانیف میں ذکر کی یہاں ان مباحث کے ایراد سے تطویل کی ضرورت نہیں حضرات مخالفین باآنکہ ہزار ہا بار گھر تک پہنچ چکے اگر پھر ہمت فر مائینگے انشا ء اللہ العزیز وہ جواب با صواب پائیں گے جسکے انوار باہرہ ولمعات قا ہرہ کے حضور با طل کی آنکھیں جھپکیں اور اس کی سہا نی روشنیوں، دلکشا تجلیوں سے حق صواب کے نورانی چہرے دمکیں وبا اﷲ التو فیق وہو المعین و الحمد ﷲ رب العلمین وا لصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المر سلین محمد والہ و صحبہ اجمعین امین امین بر حمتک یاارحم الراحمین۔ الحمد للہ کہ یہ رسالہ آخرمحرم ۱۳۰۷ھ؁ سے دو جلسوں میں تمام ہو۔ و اﷲ سبحنہ وتعالیٰ اعلمہ وعلمہ جل مجدہ اتم و احکم۔
کتبہ
عبد ہ المذنب احمد رضا البریلوی
عفی عنہ بمحمدن المصطفٰی النبی الامی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
محمد ی سنی حنفی قادری عبد المصطفیٰ احمد رضا خان

تمت بالخیر ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...