ہم تک دین و شریعت کے احکام و مسائل پہنچنے کا واحد معتبر، اولین اور بنیادی ذریعہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں پھر ان سے آ گے امّت میں ان کو منتقل کرنے والے
محدّثین و فقہاءاور ائمّہ مجتہدین ہیں۔ ائمّہ مجتہدین کے ذریعے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دین، اس کا فہم اور نمونہ عمل امت میں منتقل کرنے کے سلسلے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سبیل المومنین فرمایا ہے۔ اگر اس واسطے کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو پھر دین و شریعت سے ہماری وابستگی ممکن ہی نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں سبیل المومنین انحراف پر جہنم کی وعید فرمائی ہے۔
دین سے محروم کرنے کی سازش:
شیطانیت؛آدم
علیہ السلام کی اولاد سے حسد اور یہودیت رسول اللہ ﷺ سے جلن کی وجہ سے یک
جان ہو کر آپ ﷺ کی امت ِ دعوت کو دینِ حق سے دور رکھنے اور امت اجابت یعنی
اہل ایمان کو اس سے منحرف کرنے میں کو شاں ہیں بعض گروہ شعوری و ارادی طور
پر اور بعض غیر ارادی طور پر اس سازش کا آ لہ کار بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ
سے اس امت میں مختلف فتنے وجود میں آ چکے ہیں۔
فتنوں کا اسا س اور اس کا دروازہ:
ان
فتنوں کی بنیاد سبائیت ہے جس نے یہودیت سے جنم لینے کے بعد عیسائیت کی
آبیاری اور مجوسیت کے پیوند سے رافضیت کی شکل اختیار کی۔ رافضیت نے ایک تو
خود کومختلف شاخوں میں تقسیم کر کے اپنا دائرہ کار وسیع کر دیا۔ دوسرے یہ
کہ امت مسلمہ میں انتشارو اختلاف کا سازشی جال پھیلا دیا، ان فتنوں کی
بنیاد اگر چہ رافضیت ہے مگر اس کا دروازہ غیر مقلّدیت ہے جسے امت کو گمراہ
کرنے کے لیے سبیل المونین سے قلبی، ذہنی، لسانی،یا عملی انحراف کی مختلف پر
کشش صورتوں سے مزیّن کیا گیا ہے،رافضیت اورغیر مقلّدیت دونوں کا ہدف دین
کی بنیادی اور واحد ذریعہ کی حیثیت رکھنے والی جماعت یعنی صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم ہیں۔
مگر
ظاہری فرق یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رافضیت کا براہِ راست ہدف
ہیں جبکہ غیر مقلدیت نے ان کو ائمہ مجتہدین اور ان کے فقہی مسلکوں کی
مخالفت کی آڑ میں نشانہ بنا رکھا ہے جس کا اندازہ ان کے اس بنیادی سوچ سے
کیا جاسکتا ہے کہ ان کو حدیث کے فہم اور اس پر عمل کے لیے ائمہ مجتہدین کی
تحقیق اور اجتہادی تطبیق و ترجیح قبول نہیں کیوں کہ اس کا انحصار صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال پر ہے اور ان کے نزدیک شریعت میں
صحابی رضی اللہ عنہ کا قول حجت نہیں۔
حقیقی اہل قرآن اور اہل حدیث:
غیر
مقلدین نے اپنا نام اہل حدیث رکھا ہوا ہے جو اس نام پر اسی طرح غاصبانہ
قبضہ ہے جس طرح منکرین حدیث لوگوں کو اپنے بے دینی کے بارے میں دھوکہ میں
رکھنے کے لیے اپنا گروہی نام اہل قرآن بتاتے ہیں حالانکہ حقیقت میں اہل
قرآن اور اہل حدیث تو وہ ائمہ کرام ہیں جو قرآن و حدیث ہمہ وقتی اور ہمہ
جہتی وابستگی اور اس کا صحیح فہم رکھتے ہیں اور انہوں نے امت کو فقہ کی
صورت میں قرآن و حدیث پر صحیح اور مطلوب عملی شکل یعنی سنت سے آ گاہ کیا ہے
یہی وجہ ہے کی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے امت کو گمراہی سے آ گاہ کرنے
کے لیے۔ فعلیکم بحدیثی کی بجائے، "فعلیکم بسنتی و سنت الخلفاءالرّاشدین
المھدیّین" (پس تم پر میری سنت اور خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم کی سنت لازم
ہے)اور نجات پانے والے گروہ کے لیے "ما انا علیہ واصحابی" (جو میرے اور
میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر ہیں )کے کلمات کہلوائے۔
غیر مقلدین کی دعوت اتحاد:
غیر
مقلدین امت میں اتحاد کے داعی ہیں اور اتحاد کے لیے ان کی دعوت یہ ہے کی
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فقہاءکے فہم کے بغیر حدیث کا مفہوم خود سمجھ
کر یا دوسرے لفظوں میں غیر مقلدین کے بیان کردہ مفہوم کو اپنے فہم کا حاصل
سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے مگر ان کی یہ دعوت نہ شرعا درست ہے نہ ہی عقل
سے مطابقت رکھتی ہے۔جب کسی بھی علم و فن میں اس علم و فن کے ماہرین کی
بجائے کسی اور پر اعتمادنہیں کیاجا سکتا تو پھر فہم و دین اور اس کی عملی
صورت یعنی شریعت جیسی سب سے قیمتیں متاع کو ماہر دین و شریعت کی بجائے ہر
غیر عالم، جاہل یا عام آدمی کے سپرد کیسے کیا جا سکتا ہے۔
قرآن و حدیث کی تشریح عام لوگوں کے سپرد کرنے کا نتیجہ:
اس
وقت مجتہدین میں قرآن و حدیث کے غیر منصوص یعنی غیر واضح احکام میں
اجتہادی اور ایسے منصوص احکام جن میں ایک سے زیادہ صورتوں والی ترجیحی
اختلاف ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق مذموم نہیں بلکہ غلط
ہونے کی صورت میں بھی ایک اجر کا موجب ہے اور اگر صحیح ہو تو اس پر دوہرا
اجر ہے جبکہ عام آدمی اپنے فہم کے مطابق اگر صحیح بھی سمجھا ہو تو قابلِ
گرفت ہے نیز یہ کہ مجتہدین میں واضح احکام میں کامل اتّفاق ہے لیکن اگر ہر
آدمی کو اپنے فہم کے مطابق مفہوم متعیّن کرنے کی اجازت دے دی جائے تو نہ
صرف غیر اختلافی واضح احکام و مسائل پر اتفاق کی صورت ختم ہو جائے گی بلکہ
دین کے بنیادی اصولوں میں بھی اختلاف پیدا ہو جائے گا کیونکہ، ایک تو عام
آدمی مجتہدین کے مقابلے میں کثیر ہیں دوسرے یہ کہ مجتہدین میں اجتہاد کی
صلاحیت کے علاوہ ہدایت تقویٰ میں پختگی بنیادی شرط ہے اور ان کے اجتہاد کی
اساس فکر آخرت ہوتی ہے۔جبکہ عوام میں فکر آخرت کی وہ پختہ کیفیت نہیں ہوتی۔
تیسرے یہ کہ مجتہدین و فقہاءکا اجتہاد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ماخوذ
اصولوں کے دائرے میں ہوتا ہے جبکہ غیر مجتہدین کو ان اصولوں سے نہ تو
کماحقہ آگاہی ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ ان کے استعمال و فہم کی صلاحیت رکھتے
ہیں اس لیے یہ اختلاف بھی لا محدود صورت اختیار کر لے گا اور دین عوام کا
کھیل بن کر رہ جاے گا جیساکہ خود ان غیر مقلدین کے مابین اختلاف سے ظاہر ہے
چنانچہ ان میں بھی کئی فرقے بن چکے ہیں جو ایک دوسرے کو غلط، گمراہ بلکہ
کافر و مشرک تک کہتے ہیں۔
غیر مقلدین کا مشن اور مقصود:
جب
غیر مقلدین کے نزدیک مقلدین کی اکثریت تقلید کی وجہ سے مشرک، کافر یا کم
از کم گمراہ، فاسق و فاجر ہے اور خود یہ گروہوں میں بٹے ہوے اور اختلافات
کا شکار ہیں تو پھر یہ مقلدین کو کس بنیاد پر اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں،
اگر اس دعوت کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے
کہ ان کا مقصود یہ ہے کہ مقلدین کوتقلید کی صورت میں سبیل المومنین سے جو
وابستگی حاصل ہے انہیں اس سے نکال کر اپنا مقلّد یعنی اپنے جیسا نفسانی
خواہش کا پیرو کار بنا دیا جائے۔
غیر مقلدین کا تقلید کرنا :
یہ
لوگ عموماََ بخاری شریف اور مسلم شریف پر عمل کے مدعی اور داعی ہیں اور
دوسروں سے بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے فلاں عمل کی بخاری و مسلم میں
حدیث دکھاؤ، جبکہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایااور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کا یہ
فرمان ہے کہ حدیث صرف بخاری و مسلم میں ہے۔پھر یہ کہ بخاری و مسلم تمام
احادیث کا مجموعہ نہیں بلکہ ان دونوںاماموں کا اپنا اپنا اجتہادی انتخاب ہے
اور ان پر عمل کی دعوت بظاہر ان اماموں کی مگر در حقیقت اپنی تقلید کی
دعوت ہے حالانکہ یہ کسی بھی امتی کی تقلید کو حرام اور شرک کہتے ہیں، اگر
ائمّہ مجتہدین میں سے کسی امام رحمہ اللہ کی تقلید شرک ہے تو امام بخاری و
امام مسلم رحمتہ اللہ علیہما بلکہ ان غیر مقلدین کی تقلید کیسے جائز ہو گی؟
غیر مقلدین کی غیر مقلد علماءکی تقلید :
نیز
یہ کہ تقلید کو حرام اور شرک کہنے والے غیر مقلدین خود اپنے غیر مقلد
علماءکی تقلید کرتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں کرتے
رہتے ہیں کہ جب کسی غیر مقلد کو کسی سوال کا جواب نہیں آتا یا اسے اس کے
مسلکی عمل کے خلاف بخاری و مسلم کی کوئی حدیث دکھائی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے
کہ میں اپنے مسلک کے علماءسے پوچھ کر بتاؤں گا، یہ خود ان کے اپنے دعویٰ
کے لحاظ سے بخاری و مسلم سے اعراض اور اپنے غیر مجتہد علماءکی تقلید نہیں
تو اور کیا ہے؟
مقلد اور غیر مقلد کی تقلید کا فرق:
غرض
یہ کہ خود غیر مقلدین بھی تقلید کرتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ہم قرونِ اولیٰ
کے ان مجتہدین میں سے کسی مجتہد امام کی کرتے ہیں جن کے دینی فہم اور
تقویٰ پر علماءِ امت کا اجماع ہے جبکہ یہ ا ن کی بجائے دورِحاضر کے اپنے
غیر مجتہد،غیر مقلدعلماءکی تقلید کرتے ہیں جن کی اپنی علمی و تحقیقی صلاحیت
اور صداقت و دیانت ثبوت کا محتاج ہے۔
No comments:
Post a Comment