Sunday, 30 August 2015

تقلید شخصی اور اس کی شرعی حیثیت

ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے طریقہ پر احکامِ شرعیہ بجا لاناتقلیدِ شخصی کہلاتاہے، مثلاً امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ یا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں سے کسی کے طریقے پر عمل کرنا۔
تقلید شخصی کی شرعی حیثیت میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرَفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِمْ.
’’امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔‘‘
شاه ولی اﷲ، عقد الجيد، 1 : 31
اسی طرح تقلید شخصی کو لازم کرنے کی ایک واضح نظیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمعِ قرآن کا واقعہ ہے، جب انہوں نے قرآنِ حکیم کا ایک رسم الخط متعین کر دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے پہلے قرآنِ حکیم کو کسی بھی رسم الخط کے مطابق لکھا جا سکتا تھا کیونکہ مختلف نسخوں میں سورتوں کی ترتیب بھی مختلف تھی اور اس ترتیب کے مطابق قرآنِ حکیم لکھنا جائز تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت کی اجتماعی مصلحت کے پیشِ نظر اس اجازت کو ختم فرما کر قرآن کریم کے ایک رسم الخط اور ایک ترتِیب کو متعین کر کے امت کو اس پر متفق و متحد کر دیا اور امت میں اسی کی اتباع پر اجماع ہوگیا۔
 بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، 4 : 1908، رقم : 4702

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...