Monday 31 August 2015

غیر مقلد وھابیوں نام نہاد اھلحدیثوں کا تفصیلی تعارف حصّہ سوم

0 comments
غیر مقلدین کے فتوے

قارئین کرام!     نام نہاد اہل حدیث نے اجتہادی اختلاف کی بناء پر ائمہ مجتہدین پر امت میں پھوٹ ڈالنے کا ذمہ دار ٹہرایا ہے، اب ذرا خود ان کے مابین چند سنگین قسم کے اختلاف کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں اور پھر ان سے پوچھئے کہ جناب آپ کے ان اکابر میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اور کیا یہ حضرات امت میں پھوٹ ڈالنے کے مجرم نہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے دعویدار اختلاف کا شکار ہوگئے؟

 (۱) مردے سنتے ہیں یا نہیں؟

غیر مقلدین کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری دونوں مردوں کے سماع کے منکر ہیں، جبکہ علامہ وحید الزماں (غیر مقلدین کے مترجمِ اعظم) اپنےتمام نام نہاد اہل حدیثوں کا مذہب یہی سماع بتارہے ہیں۔

مولانا ثناء اللہ غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۲/۴۵ پر سماعِ موتیٰ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

د"جواب صورتِ مذکورہ کا یہ ہے کہ مردہ کلام نہیں سنتا اور نہ اس میں لیاقت سننے کی ہے، جیسا کہ اس پر قرآن مجید شاہد عدل ہے، اسی طرح کا جواب فتاویٰ نذیریہ:۱/۳۹۹ پر بھی ہےد"۔

علامہ وحید الزماں غیر مقلد نُزل الابرار:۱/۴ پر لکھتے ہیں: "ولو نادی الاموات عند قبورھم یمکن ان یسمعوا لان الاموات لھم سماع عند اصحابنا اھل الحدیث صرح بہ الشیخان "۔

ترجمہ: اگر مردوں کو ان کی قبروں کے پاس پکارے تو ان کا سننا ممکن ہے، کیونکہ ہمارے اصحاب کے ہاں ان کے لئے سماع ثابت ہے۔

(۲) مسلمان مردہ کی ہڈیاں قابلِ احترام ہیں یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد قبر سے ایک مردے کی ہڈیاں نکال کر اس کی جگہ دوسری میت دفن کرنے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس کے منکر ہیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاوی ثنائیہ:۲/۴۹ پر قبر میں مردہ کی ہڈی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:  "ایسی جگہ دفن کرنا منع نہیں،ہڈی نکال کر مردہ دفن کردیں "۔

ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالۂ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:د"مسلم مردہ کا احترام لازم ہے، لہٰذا مسلم کی ہڈیوں کو یوں ہی رہنے دیا جائے اور دوسری قبر بناکر دوسرے مردے کو دفن کردیںد"۔

(۳) امام کو رکوع میں پانے والا رکعت پانے والا ہے یا نہیں؟

مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد اس کو رکعت پانے والا نہیں سمجھتے۔

مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد فتاوی ستاریہ:۱/۵۲ پر لکھتے ہیں: د"ہاں مدرکِ رکوع، مدرکِ رکعت ہے، فریقِ اول (جو مدرکِ رکعت نہیں مانتے) نے قیام و فاتحہ کو ایسا مضبوط پکڑا ہے کہ وہ ہر حالت میں ان کی فرضیت کے قائل ہوتے ہیں، مدرک رکوع کی رکعت کو شمار نہیں کرتے، بلکہ جو احادیث اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ان کو ضعیف اور کمزور کہہ کر ٹال دیتے ہیں، لیکن میں اس امر کا قائل نہیں اور میرا ایمان تو یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میں نبیﷺ کے اقوال کے متضاد قرار دے کر دوسرے کو سرے سے اُڑاہی دوں، چنانچہ جو احادیث نبیﷺ سے اس بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیںد"۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۳۰ پر لکھتے ہیں: د"چونکہ بحکمقوموا للہ قانتین۔(قرآن) اور بحکم لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔(حدیث) قراءتِ فاتحہ ضروری ہے اور رکوع کی حالت میں دونوں چیزیں میسر نہیں ہوتیں، قائل کے پاس کوئی آیت یا حدیث ایسی ہو جس سے استثناء جائز ہوسکے تو ہم بخوشی اُسے سننے کو تیار ہیںد"۔

(۴) ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز کے درست ہونے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس پر شدت سے انکار کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۳۲ پر ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:  "حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ایک وقت آئے گا امام نماز کو خراب کریں گے، فرمایا: مسلمانوں میں ملتے رہنا، ان کی خرابی ان کی گردن پر ہوگی، تم علاحدہ نہ ہونا، اس حدیث ےس ثابت ہوتا ہے کہ حتی المقدور جماعت کے ساتھ مل کر ہی نماز پڑھنا چاہئے"۔

ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالہ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:د"نہیں نہیں! ہرگز ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہئےد"۔

(۵) عدت میں عورت کے ساتھ نکاح درست ہے یا نہیں

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک معتدہ کے ساتھ نکاح جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں نکاح صحیح نہیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد معتدہ بالزنا کے ساتھ نکاح کرنے والے کے متعلق جواب دیتے ہیں: د"صورتِ مرقومہ میں نکاح جائز ہے، حمل کے ظاہر ہونے سے یا اس کے اسقاط سے نکاح فسخ نہیں ہواد"۔

اسی جواب کے نیچے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی تعاقب کرتےہوئے فرماتے ہیں:  "بحکم و اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن.... الآیۃ۔ یہ عدت کے اندر نکاح کیا گیا جو ہرگز صحیح نہیں، پس دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۰۹)

(۶) بیمار پر بعد صحت روزہ رکھنا واجب ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک بیمار اگر فوت ہوگیا تو روزے معاف ہیں اور اگر صحتیاب ہوا تو روزہ کے علاوہ فدیہ بھی دے سکتا ہے، جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں موت کی صورت میں بھی بیماری کی وجہ سے چھوڑے گئے روزے معاف نہیں بلکہ موت کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا اور تندرست ہونے کی صورت میں فدیہ دینا جائز نہیں بلکہ بہر صورت روزہ ہی رکھے گا، ملاحظہ فرمائیں........

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"اگر لڑکا بیماری ہی میں مرگیا تو روزے معاف ہیں، اگر اچھا ہوکر اس نے روزے نہیں رکھے تو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیںد"۔

اور مسئلہ پر تعاقب کرتے ہوئے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد رقمطراز ہیں: د"صحیح نہیں ہے، بعد صحت روزے ہی رکھنے ہوں گے اور اگر قبل صحت مرجائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھےد"۔

(فتاوی ثنائیہ:۱/۶۵۸)

(۷) رخصتی سے پہلے شوہر فوت ہوجائے تو بیوی کو مہر آدھا ملے گا یا پورا؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک آدھا مہر ملے گا جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے نزدیک پورا مہر ملے گا، ملاحظہ فرمائی:

سوال: زید کی شادی ہندہ سے ایک سال کا عرصہ ہوا ہوئی تھی، لیکن رخصتی نہ ہوئی، زید کا انتقل ہوگیا، آیا ہندہ مہر کی مستحق ہے یا نہیں؟

جواب: (از مولانا ثناء اللہ) ہندہ نصف مہر کی مستحق ہے، بحکمِ قرآن مجید فنصف ما فرضتم۔

مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد جوابِ مذکور پر گرفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:د"یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ اس لئے کہ سوال میں متوفی عنہا کا ذکر ہے اور جواب میں مطلقہ کا، ملاحظہ ہو آیتِ محولہ بالا: و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم ... الآیۃ۔ لہٰذا صورتِ مرقومہ میں پورا مہر ملے گا، کما تقدم فی حدیثِ ابن مسعودؓ۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۱)

(۸) عورت ماہواری کےایام میں قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں؟

علامہ وحید الزماں صاحب غیر مقلد کے نزدیک حائضہ  کے لئے قرآن پڑھنا جائز نہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں کہ حائضہ قرآن کریم پڑھ سکتی ہے۔

علامہ وحید الزماں غیر مقلد فرماتے ہیں: یمنع صلوٰۃ و صوما ..... و قراءۃ القرآن و مسہ بلا غلاف۔

(کنز الحقائق:۱۵، ھکذا فی عرف الجادی:۸۵)

نیز نزل الابرار میں فرماتے ہیں: و یحرم علی ھؤلاء تلاوۃ القرآن بقصد التلاوۃ و لو دون آیۃ و قال بعض اصحابنا لا یحرم کذالک مس المصحف۔ (۱/۲۵)

یعنی حائضہ کے لئے مخصوص ایام میں قرآن کریم کو ہاتھ لگانا اور پڑھنا جائز نہیں۔

اس کے بر خلاف مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"حائضہ عورت عورت قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگاسکتی، زبان سے پڑھ سکتی ہے۔

(۹) جراب پر مسح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری غیر مقلد اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں، ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"پائتابہ (جراب) پر مسح کرنا آنحضرت ﷺسے ثابت ہے،(ترمذی) شیخ ابن تیمیہؒ نے فتاویٰ میں مفصل لکھا ہےد"۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۴۱)

مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد لکھتے ہیں: د"جرابوں پر مسح کرنے کامسئلہ معرکۃ الآراء ہے، مولانا نے جو لکھا ہے یہ بعض ائمہ شافعی و غیرہ کا مسلک ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی مسلک ہے، مگر یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ دلیل صحیح نہیں ہے، اس کے بعد مولانا ابوسعید غیر مقلد نے مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے جواب پر تفصیلاً رد کیا ہے، مولانا ابوسعید کے جواب کے بعد جامعِ فتاویٰ ثنائیہ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کا جواب نقل کیا ہے جو اسی مسئلہ میں انہوں نے دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔

الجواب:                                            المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علی جوزہ دلیل صحیح و کل ما تمسک بہ المجوزون ففیہ خدشۃ ظاھرۃ الی آخرہ ، کتبہ عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔

(دستخط) سید محمد نذیر حسین............

(فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۴۴۳)

یعنی جوراب پر مسح کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس کی دلیل صحیح نہیں ہے اور جائز کہنے والوں کی تمام دلیلوں میں واضح غلطی موجود ہے۔

(۱۰) جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"مگر زوال کے وقت جمعہ کے روز نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔

اور مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد جوابِ مذکور پر باحوالہ رد کرتےہوئے فرماتے ہیں: د"پس ثابت ہوا کہ زوال کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، خواہ یوم الجمعہ ہو یا کوئی اور یوم، اس لئے کہ منع کی حدیثیں صحیح ہیں اور جواز کی صحیح نہیں، صحیح کے مقابلہ میں غیر صحیح پر عمل باطل ہے۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۴۴)

پاؤں چوڑے کرنا

باجماعت نماز میں مقتدیوں کو صفیں درست رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے تاکہ درمیان میں دراڑیں نہ رہیں ۔ جن میں شیطان گھس کر نمازی کی نماز خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ احادیث میں پاؤں ، گھٹنے اور کندھے ملانے کا حکم ہے مگر غیر مقلدین حضرات کو صرف پاؤں ملانے کی فکر ہوتی ہے ۔ اگر ساتھ والا آدمی پاؤں کو ذرا ہٹالے تو یہ نماز کے بعد ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حالانکہ یہ کاروائی ان کے اپنے مسلک سے ناواقفیت کی بنا پر ہوتی ہے ۔

چنانچہ ان کے اپنے علماء نے یوں لکھا ہے ۔

اور بعض جاہل پاؤں خوب چوڑے کرتے رہتے ہیں اور کندھوں کا خیال ہی نہیں کرتے ۔ کندھوں کے اندازے سے پاؤں بلکل چوڑے نہ کرنا چاہے تاکہ پاؤں اور کندھے دونوں مل سکیں ۔

اور اس سے پہلے لکھا ہے :پس اس کو چاہیے کہ اپنا پاؤں اپنے کندھے کی سیدھ میں رکھے ۔

(فتاوٰی اہلحدیث ص ۱۹۹۔۲۰۰ ج۲ ۔ و فتاوٰی علمائے حدیث ص ۲۶۶ ج ۴ ، ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور ص ۶، ۲۸ مئی ۱۹۹۹)

جماعت ثانیہ

متششدد غیر مقلدین جماعت ہو چکنے کے بعد مسجد میں آئیں گے تو وہ اصرار کریں گے کہ ہم دوبارہ جماعت کر کے ہی نماز ادا کریں گے، حالانکہ احناف کے ہاں مسافروں کے علاوہ کسی کو ایسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانا درست نہیں ، جس کا امام اور نماز کے اوقات متعین ہوں۔

( شامی ص ۲۹۱ ج۱ و فتاوٰی رشیدیہ ۲۹۰ )

اب اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ حضرات یا تو اپنی کسی مسجد میں چلے جائیں یا مسجد سے باہر جماعت کرا لیں یا اپنے گھر تشریف لے جائیں وہاں جماعت کرا لیں ۔ جب یہ تمام متبادل صورتیں ان کے لیے موجود ہیں ۔ تو اس کے باوجود ان کا احناف کی مساجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا اصرار سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا ۔ ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بریلوی مکتب فکر کا کوئی آدمی کسی دیوبندی یا غیر مقلدین کی مسجد میں اذان سے پہلے یا بعد میں مروجہ صلٰوۃ و سلام یا میت کے لیے تیجہ وغیرہ کی رسم کے لئے اصرار کرے ۔ جیسے اس کا یہ اقدام درست نہیں ۔ اسی طرح احناف کی مساجد میں غیر مقلدین کا دوبارہ جماعت کا اصرار درست نہیں ۔ جبکہ ان کے اپنے علماء نے بھی دوبارہ جماعت کے بارہ میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان کی رو سے بھی ان حضرات کا اصرار صرف فساد کی نیت ہے اور کچھ نہیں ۔

چنانچہ ان کے ہفت روزہ میں پوچھے گے مسائل کے جوابات دینے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اسی میں ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ۔

اور دوسری جماعت کا اہتمام کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ۔ یہ محض ناگہانی ضرورت کی بنا پر ہے ۔

( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص۶ ۔ ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ )

اسی طرح ایک مضمون تعدد جماعت کی مضرتیں کے عنوان سے شائع ہوا اس میں بحث کا خلاصہ یوں پیش کیا گیا :

اس صورت میں باہر سے آنے والے مسافروں کی جماعت کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن مطلقا نہیں؛ کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مسجد میں ایک نماز کی متعدد جماعتوں کو دستورالعمل نہیں بنایا ۔

( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص ۲۰ - ۲۴ جمادی الاولٰی ۱۴۱۶ھ)

ہم نے پہلے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ کچھ عرصہ سے بڑے منظم انداز میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کی وجہ فقہ ہے ۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور بے بنیاد ہے ۔ نیز بعض مقامات میں غیر مقلدین حنفی شافعی اختلافات کا طعنہ دیکر بھی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ تو ہم نے ضروری سمجھا کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ جزوی مسائل میں اختلافات تو خود غیر مقلدین حضرات کے آپس میں بھی ہیں تو پھر ایسی طعنہ بازی ان کو کسی طور پر بھی زیب نہیں دیتی ۔

غیر مقلدین میں اختلافی صورت حال زیادہ پریشان کن ہے ۔ اس لئے کہ اختلافی مسائل کے حل اور عمل کے لئے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے کہ اگر حنفی شافعی وغیرہ مختلف مسالک کا اختلاف ہے تو ہر مسلک والا اپنے امام اور اپنے مسلک کے محققین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرے گا ۔ اور اگر کسی مسلک کے اپنے علماء کے درمیان مسائل میں اختلاف ہو مفتٰی بھا مسائل پر عمل کیا جائے گا ۔ اور غیر مفتٰی بھا کو ترک کردیا جائے گا ۔ اس لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے ۔ مگر غیر مقلدین ان اختلافی مسائل میں کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے کونسی صورت اور ضابطہ سے کام لیتے ہیں ؟؟؟ اس لئے کہ ان کے تمام علماء جنہوں نے مسائل بتائے ہیں وہ سب کے سب صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے کے دعویدار ہیں اور ہر مسلمان ان سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے والوں کے درمیان مسائل میں اختلاف کیوں ؟ کیا جن جن حضرات نے مسائل بتائے ہیں ان سب کے مسائل بر حق ہیں ؟

اگر ان میں سے بعض کے مسائل حق پر نہیں توغیر مقلدین کے وہ علماء جو دوسروں کی کتابوں میں خواہ مخواہ کیڑے نکالنے پر کمر بستہ ہیں کیا انہوں نے اپنے عوام کی سہولت کے لئے حق اور باطل مسائل کو جدا جدا کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے ؟ اور کیا نا حق مسائل بتانے والوں کے خلاف اپنے قلمی اور تقریری جہاد کا رخ موڑا ہے،اگر نہیں تو کیا اس کو مسلکی تعصب کے علاوہ کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے ؟

اکابرغیرمقلدین کاموقف اورموجودہ غیرمقلدین کاانحراف

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:

"پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں "۔

(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)

پھرآپ یہ بھی لکھتے ہیں:

"اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں "۔    

(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)

مولانا سیدعلی میاں ندویؒ کے والد مولانا سیدعبد الحیی مرحوم د"نزہتہ الخواطرد"کی آٹھویں جلد میں مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے ذکر میں لکھتے ہیں:

"وشدد النکیر علی مقلدی الائمۃ الاربعۃ لاسیما الاحناف وتعصب فی ذلک تعصباً غیرمحمود فثارت بہ الفتن وازدادت المخالفۃ بین الاحناف واھل الحدیث ورجعت المناظرہ الی المکابرۃ والمجادلۃ والمقاتلۃ لماکبرت سنہ ورای ان ھذہ المنازعۃ کانت سبباً لوھن الاسلام ورجع المسلمون الیٰ غایۃ من النکبۃ والمذلۃ رجع الی ماھواصلح لھم فی ھذہ الحالۃــــــ واماماکان علیہ من المعتقد والعمل فھو علی ماقال فی بعض الرسائل ان معتقدہ معتقد السلف الصالح مماورد بہ الاخبار وجاءفی صحاج الاخبار ولایخرج مماعلیہ اھل السنۃ والجماعۃ ومذہبہ فی الفروع مذہب اہل الحدیث التمسکین بظواھر النصوص "۔

(تقدمہ علی الاجوبۃ الفاضلۃ لاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ للشیخ عبدالفتاح ابی غذ:۸، مطبوع:بحلب)

ترجمہ: مولانا بٹالوی نے مقلدین ائمہ اربعہ خصوصاً احناف کے خلاف شدت اختیار کی اور اس میں ایسے تعصب سے چلے کہ اسے اچھا نہیں کہاجاسکتا؛ پس اس سے بھڑک اُٹھے اور احناف اور فرقہ اہلِ حدیث کے مابین مخالفت زیادہ ہوگئی مناظرے، مکابرہ، مجادلہ؛ بلکہ مقاتلہ تک پہنچے؛ پھرجب آپ بڑی عمرکو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ مقلدین سے یہ کھچاؤ ضعف اسلام کا سبب ہوگیا ہے اور مسلمان رسوائی اور بدبختی کے گڑھے میں جارہے ہیں، آپ پھر اس طرف لوٹے جومسلمانوں کے لئے اس حالت میں بہتر تھاــــــہاں جہاں تک آپ کے اعتقاد اور عمل کا تعلق ہے وہ اس پر تھے جیسا کہ آپ نے اپنے بعض رسالوں میں کہا ہے کہ ان کا اعتقاد سلف صالحین کا سا ہے جو اخبار اور صحیح احادیث میں آیا ہے اور وہ اس حد سے نہیں نکلیں گے جواہلِ السنۃ والجماعت کی راہ ہے، رہیں فروعات تواس میں وہ ان اہلِ حدیث کے طریقے پر رہیں گے جونصوص کے ظواہر سے تمسک کرتے ہیں۔

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی فکری کروٹ پرپوری جماعت اہلِ حدیث کی روش بدل جانی چاہیے تھی؛ لیکن افسوس کہ وہ لفظ حنفی اور شافعی وغیرہ سے اسی طرح سیخ پارہے کہ کسی درجہ میں وہ فقہ کے قریب آنے کے لئے تیار نہ ہوئے، یہ شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولانا محمدحسین بٹالوی کے مسلک کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی ایک لہر تھی جو جماعت کے بیشتر علماء کولے ڈوبی، بہت کم تھے جومعتدل مزاج رہے اور اہلِ السنۃ والجماعت کے دائرہ کے اندر رہے، غالباً سنہ۱۳۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ جماعت اہلِ حدیث کے اعیان وارکان  لاہور میں جمع ہوئے اور انجمن اہلِ حدیث کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر مولانا محمدحسین بٹالوی قرار پائے، مولانا بٹالوی مرزا غلام احمد قادیانی  کاحال دیکھ کر ضرور سمجھتے تھے کہ غیرمقلدین فقہ اور مقلدین سے جونفرت بڑھا رہے ہیں، اس سے اندیشہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت یہ لوگ (غیرمقلدین) پورے اسلام سے ہی منحرف نہ ہوجائیں، انہوں نے اہلِ حدیث کے ساتھ اپنے کوحنفی کہنے کی بھی راہ نکالی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:

"لاہور میں ایک مجلس اہلحدیث کے نام سے نامزد ہوکر قائم ہوئی ہے (یہ مجلس نامزد ہوکر قائم ہوئی تھی حکومت برطانیہ سے یہ نام اہلِ حدیث انہیں الاٹ کیا گیا ) صدر ہونے کی عزت اس ناچیز کوبخشی گئی ہے، اس میں یہ امربحث میں آیا تھا کہ اہلِ حدیث (جس کی طرف یہ انجمن منسوب ہوئی ہے) کی کیا تعریف ہے اور اہلِ حدیث سے کون شخص موسوم ہوسکتا ہے (جواس انجمن کے ارکان اور مجلس منتظمہ میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہو) اس کا تصفیہ رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد:۲۰ کے صفحہ نمبر۱۵۹ (جواہلِ حدیث کی قوم کا اور گورنمنٹ میں مہتمم ایڈوکیٹ Representative ریپریزنٹیٹیو ہے) کے اس بیان سے ہوگیا کہ اہلِ حدیث وہ ہے جواپنا دستور العمل والاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کوبنادے (احادیث کے ساتھ آثار سلفیہ کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ارشادات کوبھی اپنے لیے سمجھے) اور جب اس کے نزدیک ثابت ومحقق ہوجائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یااس سے قوی پایا نہیں جاتا تووہ ان احادیث وآثار پرعمل کرنے کومستعد ہوجاوے اور اس عمل سے اس کوکسی امام یامجتہدکا قول بلادلیل مانع نہ ہو"۔

ازآنجا کہ اس تعریف کی رُو سے بے تعصب ومنصف مزاج مقلدین مذاہب اربعہ حنفیہ وغیرہ جوعمل بالحدیث کوجائزرکھتے اور سعادت سمجھتے، تقلید مذہب ان کواس عمل بالحدیث سے مانع نہ ہوتی، داخل ہوسکتے ہیں، نظر برآں اس انجمن کے صدر خاکسار کی یہ رائے قرار پائی کہ اس انجمن کے نام میں ایسی تعمیم وتوسیع ہوجانی چاہیے کہ اس کا نام سنتے ہی وہ مقلدین جوعمل بالحدیث کوسعادت سمجھتے ہیں داخل سمجھے جائیں بناءً علیہ اس کے تجویز یہ ہوئی کہ لفظ انجمن اہلِ حدیث کے ساتھ بریکٹ میں حنفیہ وغیرہ بڑھادیا جائے۔

(ماہنامہ الہدی، بابت ماہ ذیقعدہ، سنہ۱۳۲۷ھ، باہتمام مولوی کریم بخش، مہتمم ومالک اسلامیہ اسٹیم پریس، لاہور)

پھرمولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی اپنی رائے ملاحظہ کیجئے:

"صدرانجمن خاکسار چونکہ باوجود اہلِ حدیث ہونے کے حنفی بھی کہلانا جائز رکھتا تھا؛ لہٰذا اس امر کا اظہار اپنے ماہوار رسالہ  اشاعۃ السنۃ اورد"سراج الاخبارد" کے ذریعہ کردیا، یہ امرہمارے رُوحانی فرزند (مولانا ثناء اللہ امرتسری جوان دنوں پرچہ اہلِ حدیث کے ایڈیٹر تھے) نوجوانوں کوجوصرف اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور وہ حنفی وغیرہ کہلانا پسند نہیں کرتے ناگوار گزرا اور انہوں نے خاکسار کے اس اظہار کے خلاف اپنے اخبار اہلِ حدیث میں یہ نوٹ شائع کرادیا....الخ "۔

مولانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا       ؎

کسی کا ہورہے کوئی نبی کے ہورہیں گے ہم

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اس کے جواب میں لکھا    ؎

نبی کے ہیں سبھی حنفی نہ مرزائی نہ چکڑالی
نہ معتزلی جوجاحظ کی کرتے ہیں شاگردی

لفظ اہلِ حدیث ماضی میں ایک علمی شان رکھتا تھا، فرقہ اہلِ حدیث میں جب جاہل بھی اہلِ حدیث کہلانے لگے توپوری کی پوری جماعت نت نئے اُٹھنے والے فتنوں کا دروازہ بن گئی، مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین بھی پہلے اہلِ حدیث بنے تھے (تاریخ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ:۶۹،۷۰، حرمین سے واپسی پر نورالدین نے وہابیت اختیار کی اور ترکِ تقلید پر وعظ کیئے اور عدم جوازِ تقلید پرکتابیں تصنیف کیں، بھیرہ میں ہیجانِ عظیم پیدا ہوگیاـــــ چودھری ظفراللہ خان قادیانی بھی اپنے دادا چودھری سکندرخان کے بارے میں لکھتے ہیں: د"جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے وہ اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھےد" تحدیثِ نعمت:۳) پھرمرزائی بنے۔

قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری کی رائے

ان خیالات سے متأثر ہوکر جماعت اہلِ حدیث کے مقتدر عالم قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری نے اپنی جماعت کوجھنجھوڑا اور کہا:

"اس زمانہ کے جھوٹے اہلِ حدیث مبتدعین، مخالفین، سلفِ صالحین جوحقیقت ماجاء بہ الرسول سے جاہل ہیں وہ اس صفت میں وارث اور خلیفہ ہوئے شیعہ وروافض کےـــــ جس طرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب ودہلیز کفرونفاق کے تھے اور مدخل ملاحدہ اور زنادقہ کا تھے؛ اسی طرح یہ جاہل، بدعتی اہلِ حدیث اس زمانہ میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے بعینہ مثل اہل التشیع کے"۔                     

(کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعۃ:۲۶۲)

اس عبارت سے واضح ہے کہ اَن پڑھ جاہلوں کا اہلِ حدیث کہلانا کس طرح آئیندہ دینی فتنوں کی اساس بنتا رہا ہے اور یہ بھی عیاں ہے کہ اس جماعت غیرمقلدین کے اعتدال پسند علماء کتنی دردمندی سے ترکِ تقلید کے کڑوے پھل چکھتے رہے ہیں اور ان کا ذائقہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے رہے ہیں، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اچھا کیا جواپے آپ کواہلِ حدیث حنفی کہنے لگے، یہ کسی نہ کسی دائرہ میں فقہ کی طرف لوٹنے کا ایک قدم تھا، اس پر دیگرعلماء فرقہ ہذا بہت سیخ پا ہوئے؛ تاہم مرزا غلام احمد کے انجام کا یہ ایک طبعی اثر تھا، جواس کے پرانے دوست مولانا محمدحسین صاحب پر اس تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہوا، مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:

"اربابِ فہم وذکاء اصحاب صدق وصفا کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ عرصہ سے جناب مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی نے اپنے آپ کواہلِ حدیث حنفی لکھا ہے، آپ کے اس لقب پرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار اہلِ حدیث نے ایک نوٹ لکھا ہے"۔

(الانصاف رفع الاختلاف:۱، مصنفہ مولانا عبدالحق، مطبوعہ سنہ۱۹۱۰ء رفاہِ عام اسٹیم پریس، لاہور)

اس سے واضح ہے کہ مولانا محمدحسین بٹالوی میں یہ تبدیلی بعد میں آئی، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی دینی تباہی آنکھوں سے دیکھی تھی۔

مولانا وحیدالزماں کی رائے

غیرمقلدین کا گروہ جواپنے تئیں اہلِ حدیث کہلاتے ہیں، اُنھوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلفِ صالحین اور صحابہؓ اور تابعین کی، قرآن کی تفسیر صرف لغت سے  اپنی من مانی کرلیتے ہیں، حدیث شریف میں جوتفسیر آچکی ہے اس کوبھی نہیں مانتے۔                          

(وحیداللغات ماوہشعب، حیات وحیدالزماں:۱۰۲)

مولانا عبدالعزیز سیکرٹری جمعیت مرکزیہ اہلِ حدیث ہند

اہلِ حدیث جواپنے ایمانیات وعقائد کی پختگی میں ضرب المثل تھے معتزلہ اور متکلمین کی شریعت کودوبارہ زندہ کرنے والے حضرات ہم میں پیدا ہوگئے او راُن کی حوصلہ افزائی کی گئی نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج جمعیت اہلِ حدیث ایک جسم بلاروح رہ گئی؛ بلکہ جسم کہتے ہوئے بھی قلم رُکتا ہے، آج ہم میں تفرق وتشتت کی یہ حالت ہے کہ شاید ہی کسی جماعت میں اس قدر اختلاف وافتراق ہو۔

(فیصلہ مکہ:۳،۲)

ترکِ تقلید کا یہ نتیجہ ان حضرات کے اپنے قلم سے آپ کے سامنے ہے، کاش کہ یہ حضرات مولانا محمدحسین بٹالوی کی بات مان لیتے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس وقت تواپنے استاد مولانا بٹالوی کی مخالفت کی؛ لیکن ترکِ فقہ کے نتیجہ میں جب ترکِ حدیث کی اُٹھتی ہوئی لہردیکھی تواُن کے ذہن نے بھی پھرپلٹا کھایا، مرزا غلام احمد کے ترکِ تقلید نے مولانا محمدحسین بٹالوی میں فکری تبدیلی پیدا کی تومولوی عبداللہ چکڑالوی کی تحریک ترکِ حدیث نے مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کوسوچنے پرمجبور کیا کہ ترکِ حدیث کی ان لہروں کا پسِ منظرکیا ہے؟ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری، مولوی عبداللہ چکڑالوی امام مسجد چینیاں والی لاہور کے بارے میں رقمطراز ہیں:

 "جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے احادیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا تووہ جمع وتدوینِ قرآن میں رخنے نکالنا شروع کردیں گے اور جب تک لوگوں کواس عیاری کا پتہ نہ چلے گا وہ عوام اور نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ودماغ کواتنا مسموم کرچکے ہوں گے کہ ان کا تدارک کسی سے نہ ہوسکے گا "۔ 
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۲۸۰)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔