Saturday 29 August 2015

مسئلہ حاضر و ناظر آیات قرآنیہ کی روشنی میں

0 comments

1) یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا مبشرا ونذیرا و داعیا اللہ باذنہ وسراجا منیرا (پارہ 22 سورہ 33 آیت 46)
اے غیب کی خبریں بتانے والے بیشک ہم نے تم کو بھیجا حاضر و ناظر اور خوشبخری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔“

شاہد کے معنٰی گواہ بھی ہو سکتے ہیں اور حاضر اور ناظر بھی، گواہ کو شاہد اس لئے کہتے ہیں کہ وہ موقعہ پر حاضر تھا۔ حضور علیہ السلام کو شاہد یا تو اس لئے فرمایا گیا کہ آپ دنیا میں عالم غیب کو دیکھ کر گواہی دے رہے ہیں ورنہ سارے انبیاء گواہ تھے یا اس لئے کہ قیامت میں تمام انبیاء کی عینی گواہی دیں گے یہ گواہی بغیر دیکھے ہوئے نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح آپ کا مبشر اور نذید اور داعی الی اللہ ہونا ہے کہ سارے پیغمبروں نے یہ کام کئے مگر سن کر، حضور علیہ السلام نے دیکھ کر۔ اسی لئے معراج صرف حضور کو ہوئی۔ سراج منیر آفتاب کو کہتے ہیں وہ بھی عالم میں ہر جگہ ہوتا ہے گھر گھر میں موجود۔ آپ بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ اس آیت کے ہر کلمہ سے حضور علیہ السلام کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہے۔

2) وکذالک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا (پارہ 2 سورہ 2 آیت 143)
“ اور بات یونہی ہے کہ ہم نے تم کو سب امتوں میں افضل کیا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان اور گواہ۔“

3) فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولاء شھیدا (پارہ 5 سورہ 4 آیت 41)
تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تم کو ان سب پر گواہ و نگہبان بناکر لائیں۔
ان آیتوں میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن دیگر انبیاء کرام کی امتیں عرض کریں گی کہ ہم تک تیرے پیغمبروں نے تیرے احکام نہ پہنچائے تھے۔ انبیائے کرام عرض کریں گے کہ ہم نے احکام پہنچا دئیے تھے اور اپنی گواہی کے لئے امت مصطفٰی علیہ السلام کو پیش کریں گے۔ ان کو گواہی پر اعتراض ہوگا کہ تم نے ان پیغمبروں کا زمانہ پایا۔ تم بغیر دیکھے کیسے گواہی دے رہے ہو ؟ یہ عرض کریں گے کہ ہم سے حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا تب حضور علیہ السلام کی گواہی کی جاویگی۔ آپ دو گواہیاں دیں گے ایک تو یہ نبیوں نے تبلیغ کی۔ دوسری یہ کہ میری امت والے قابل گواہی ہیں۔ بس مقدمہ ختم۔ انبیاء کرام کے حق میں ڈگری۔ اگر حضور علیہ السلام نے گذشتہ انبیاء کی تبلیغ اور آئندہ اپنی امت کے حالات کو خود چشم حق بین سے ملاحظہ نہ فرمایا تھا تو آپ کی گواہی پر جرح کیوں نہ ہوئی ؟ جیسی کہ امت کی گواہی پر جرح ہوئی تھی معلوم ہوا کہ یہ گواہی دیکھی ہوئی تھی اور پہلی سنی ہوئی۔ اس سے آپ کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہوا۔ اس آیت کی تحقیق ہم بحث علم غیب میں کر چکے ہیں۔

4) لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم (پارہ 11 سورہ 9 آیت 128 )
“بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔“
اس آیت سے تین طرح حضور علیہ السلام کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہے۔ ایک یہ کہ جآءکم میں قیامت تک کے مسلمانوں سے خطاب ہے کہ تم سب کے پاس حضور علیہ السلام تشریف لائے جس سے معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام ہر مسلمان کے پاس ہیں اور مسلمان تو عالم میں ہر جگہ ہیں تو حضور علیہ السلام بھی ہر جگہ موجود ہیں، دوم یہ فرمایا گیا من انفسکم تمہاری نفسوں میں سے ہے یعنی ان کا آنا تم میں ایسا ہے جیسے جان کا قالب میں آنا کہ قالب کی رگ رگ اور رونگٹے رونگٹے میں موجود اور ہر ایک سے خبردار رہتی ہے۔ ایسے ہی حضور علیہ السلام ہر مسلمان کے ہر فعل سے خبردار ہیں۔

آنکھوں میں ہیں لیکن مثل نظر یوں دل میں ہیں جیسے جسم میں جاں
ہیں مجھ میں وہ لیکن مجھ سے نہاں اس شان کی جلوہ نمائی ہے !
اگر آیت کے صرف یہ معنی ہوتے کہ وہ تم میں سے ایک انسان ہیں تو منکم کافی تھا من انفسکم کیوں ارشاد ہوا ؟ تیسرے یہ کہ فرمایا گیا عزیز علیہ ما عنتم ان پر تمہارا مقشت میں پڑنا گراں ہے جس سے معلوم ہوا کہ ہماری راحت و تکلیف کی ہر وقت حضور کو خبر ہے تب ہی تو ہماری تکلیف سے قلب مبارک کو تکلیف ہوتی ہے ورنہ اگر ہماری خبر ہی نہ ہو تو تکلیف کیسی ؟ یہ کلمہ بھی حقیقت میں انفسکم کا بیان ہے کہ جس طرح جسم کے کسی عضو کو دکھ ہو تو روح کو تکلیف اسی طرح تم کو دکھ ہو تو آقا کو گرانی اس کرم کے قربان۔ صلی اللہ علیہ وسلم

5) ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاءوک فاستغفراللہ وستغفرلھم الرسول لوجدواللہ توابا رحیما (پارہ 5 سورہ 4 آیت 64)
“اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرما دیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔“

اس سے معلوم ہوا کہ گنہگاروں کی بخشش کی سبیل صرف یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شفاعت مانگیں۔ اور حضور کرم کریمانہ سے شفاعت فرما دیں۔ اور یہ تو مطلب ہو سکتا نہیں کہ مدینہ پاک میں حاضر ہوں۔ ورنہ پھر ہم فقیر پردیسی گنہگاروں کی مغفرت کی کیا سبیل ہو گی۔ اور مالدار بھی عمر میں ایک دو بار ہی پہنچتے ہیں اور گناہ دن رات کرتے ہیں۔ لٰہذا تکلیف ما فوق الطاقت ہو گی لٰہذا مطلب یہ ہوا کہ وہ تو تمہارے پاس موجود ہیں تم غائب ہو تم بھی حاضر ہو جاؤ کہ ادھر متوجہ ہو جاؤ۔

یار نزدیک تر از من بمن است
دین عجب بیں کہ من ازوئے دورم
معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام ہر جگہ حاضر ہیں۔

6) وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین پھر فرماتا ہے۔ ورحمتی وسعت کل شئی
“اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کیلئے اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے۔“

معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام جہانوں کے لئے رحمت ہیں اور رحمت جہانوں کو محیط۔ لٰہذا حضور علیہ السلام جہانوں کو محیط، خیال رہے کہ رب کی شان ہے رب العلمین۔ حبیب کی شان ہے رحمۃ اللعلمین معلوم ہوا کہ اللہ جس کا رب ہے۔ حضور علیہ السلام اس کے لئے رحمت۔

7) ما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم (پارہ 9 سورہ 8 آیت 33)
“اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔“
یعنی عذاب الٰہی اس لئے نہیں آتا کہ ان میں آپ موجود ہیں اور عام عذاب تو قیامت تک کسی جگہ بھی نہ آوے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام قیامت تک ہر جگہ موجود ہیں۔ بلکہ روح البیان میں فرمایا ہے کہ حضور علیہ السلام ہر سعید وشقی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کا ذکر تیسری فصل میں آتا ہے۔
رب تعالٰی فرماتا ہے۔
واعلموا ان فیکم رسول اللہ “جان لو کہ تم سب میں رسول اللہ تشریف فرما ہیں۔“
یہ تمام صحابہ کرام سے خطاب ہے، اور صحابہ کرام تو مختلف جگہ رہتے تھے معلوم ہوا کہ حضور سب جگہ ان کے پاس ہیں۔

8 ) وکذالک نری ابراھیم ملکوت السموت والارض (پارہ7 سورہ6 آیت 75)
“اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں۔ ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی۔“
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رب نے تمام عالم بچشم سر ملاحظہ کرادیا۔ حضور علیہ السلام کا درجہ ان سے اعلٰی ہے لٰہذا ضروری ہے کہ آپ نے بھی عالم کو مشاہدہ فرمایا ہو۔ اس آیت کی تحقیق بحث علم غیب میں گزر گئی۔

9) الم تر کیف فعل ربک باصحب الفیل (پارہ 30 سورہ 105 آیت 1)
“اے محبوب کیا تم نے دیکھا کہ تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا۔“

10) الم ترکیف فعل ربک بعاد (پارہ 30 سورہ 89 آیت 6)
“کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا۔“
قوم عاد اور اصحاب فیل کا واقعہ ولادت پاک سے پہلے کا ہے مگر فرمایا جاتا ہے الم تر کیا آپ نے نہ دیکھا یعنی دیکھا ہے اگر کوئی کہے کہ قرآن کریم کفار کے بارے میں فرماتا ہے۔
الم یرواکم اھلکنا ممن قبلھم من قرن (پارہ 7 سورہ 6 آیت 6)
“کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دیں۔“
کفار نے اپنے سے پہلے کفار کو ہلاک ہوتے نہ دیکھا تھا۔ مگر فرمایا گیا کہ کیا نہ دیکھا انہوں نے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ان کفار کے اجڑے ہوئے ملک اور تباہ شدہ مکانات کا دیکھنا مراد ہے اور چونکہ کفار مکہ اپنے سفروں میں ان مقامات سے گزرتے تھے اس لئے فرمایا گیا کہ یہ لوگ ان چیزوں کو دیکھ کر عبرت کیوں نہیں پکڑتے۔ حضور علیہ السلام نے نہ تو ظاہر میں دنیا کی سیاحت فرمائی اور نہ قوم عاد وغیرہ کے اجڑے ہوئے ملکوں کو بظاہر دیکھا۔ اس لئے ماننا ہوگا کہ یہاں نور نبوت سے دیکھنا مراد ہے۔

11) قرآن کریم جگہ جگہ اذا فرماتا ہے۔ واذا قال ربک للملئکتہ جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا واذا قال موسٰی لقومہ جبکہ موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا وغیرہ وغیرہ اس جگہ مفسرین مخذوف نکالتے ہیں اذکر یعنی اس واقعہ کو یاد کرو۔ اور یاد وہ چیز دلائی جاتی ہے جو پہلے سے دیکھی بھالی ہو ادھر توجہ نہ ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام گذشتہ واقعات حضور کے دیکھے ہوئے ہیں۔ روح البیان نے لکھا ہے کہ حضرت آدم کے سارے واقعات حضور علیہ السلام مشاہدہ فرما رہے تھے اس کا ذکر آگے آتا ہے، اگر کوئی کہے کہ بنی اسرائیل سے بھی خطاب ہے واذ انجینا کم من ال فرعون اس وقت کو یاد کرو۔ جبکہ ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی تھی۔ حضور علیہ السلام کے زمانہ کے یہودی اس زمانہ میں کہاں تھے مگر مفسرین یہاں بھی اذکروا مخذوف نکالتے ہیں۔ جواب دیا جاویگا کہ ان بنی اسرائیل کو تاریخی واقعات معلوم تھے۔ کتب تورایخ پڑھی تھی۔ اس طرف ان کو متوجہ کیا گیا۔ حضور علیہ السلام نے نہ کسی سے پڑھا نہ کتب تاریخ کا مطالعہ فرمایا اور نہ کسی مورخ کی صحبت میں رہے نہ تعلیم یافتہ قوم میں پرورش پائی اب آپ کو بجز نور نبوت علم کا ذریعہ کیا تھا۔

12) النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم “نبی مسلمانوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔“
مولوی قاسم صاحب بانی مدرسہ دیوبند تحذیرالناس صفحہ 10 میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اولٰی کے معنی قریب تر ہیں۔ تو آیت کے معنی ہوئے نبی مسلمانوں سے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہیں سب سے زیادہ قریب ہم سے ہماری جان اور جان سے بھی قریب نبی علیہ السلام ہیں اور زیادہ قریب چیز بھی چھپی رہتی ہے۔ اسی زیادتی قرب کی وجہ سے آنکھ سے نظر نہیں آتے۔

تنبیہہ :۔ اس جگہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تم مقلد ہو اور مقلد کو آیات و احادیث سے دلیل لینا جائز نہیں وہ تو قول امام پیش کرے۔ لٰہذا تم صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے قول ہی پیش کر سکتے ہو اس کا جواب چند طرح سے ہے۔ ایک یہ کہ آپ خود حاضر و ناظر نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس بارے میں امام صاحب کا قول پیش کریں۔ دوسرے یہ کہ ہم تقلید کی بحث میں عرض کر چکے ہیں کہ مسئلہ عقائد میں تقلید نہیں ہوتی۔ بلکہ مسائل فقہیہ اجتہادیہ میں ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ عقیدہ کا ہے۔ تیسرے یہ کہ صریح آیات و احادیث سے مقلد بھی استدلال کر سکتا ہے۔ ہاں ان سے مسائل کا استنباط نہیں کر سکتا۔
طحاوی میں ہے۔
وما فھم الاحکام من نحو الظاھر وانص والمفسر فلیس مختصابہ (ای بالمجتھد) بل بقدر علیہ العلماء الاعم
“جو احکام ظاہر نص و مفسر سے سمجھے جاویں۔ وہ مجتہد سے خاص نہیں۔ بلکہ اس پر عام علماء قادر ہیں۔“
مسلم الثبوت میں ہے۔
وایضا شاع وذاع احتجاجھم سلفا وخلفا بالعمومات من غیر نکیر
نیز عام آیات سے دلیل پکڑنا ناخلف و سلف میں بغیر کسی انکار کے شائع ہے۔
قرآن بھی فرماتا ہے فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون اگر تم نہ جانتے ہو تو ذکر والوں سے پوچھو۔ اجتہادی مسائل ہم نہیں جانتے ان میں آئمہ کی تقلید کرتے ہیں اور صریح آیات کا ترجمہ جانتے ہیں اس میں تقلید نہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔