Monday, 31 August 2015

غیر مقلد نام نہاد اھلحدیث وھابی کون ہیں ؟ ضرور پڑھئیے

ہم تک دین و شریعت کے احکام و مسائل پہنچنے کا واحد معتبر، اولین اور بنیادی ذریعہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں پھر ان سے آ گے امّت میں ان کو منتقل کرنے والے

محدّثین و فقہاءاور ائمّہ مجتہدین ہیں۔ ائمّہ مجتہدین کے ذریعے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دین، اس کا فہم اور نمونہ عمل امت میں منتقل کرنے کے سلسلے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سبیل المومنین فرمایا ہے۔ اگر اس واسطے کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو پھر دین و شریعت سے ہماری وابستگی ممکن ہی نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں سبیل المومنین انحراف پر جہنم کی وعید فرمائی ہے۔

دین سے محروم کرنے کی سازش:

شیطانیت؛آدم علیہ السلام کی اولاد سے حسد اور یہودیت رسول اللہ ﷺ سے جلن کی وجہ سے یک جان ہو کر آپ ﷺ کی امت ِ دعوت کو دینِ حق سے دور رکھنے اور امت اجابت یعنی اہل ایمان کو اس سے منحرف کرنے میں کو شاں ہیں بعض گروہ شعوری و ارادی طور پر اور بعض غیر ارادی طور پر اس سازش کا آ لہ کار بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس امت میں مختلف فتنے وجود میں آ چکے ہیں۔

فتنوں کا اسا س اور اس کا دروازہ:

 ان فتنوں کی بنیاد سبائیت ہے جس نے یہودیت سے جنم لینے کے بعد عیسائیت کی آبیاری اور مجوسیت کے پیوند سے رافضیت کی شکل اختیار کی۔ رافضیت نے ایک تو خود کومختلف شاخوں میں تقسیم کر کے اپنا دائرہ کار وسیع کر دیا۔ دوسرے یہ کہ امت مسلمہ میں انتشارو اختلاف کا سازشی جال پھیلا دیا، ان فتنوں کی بنیاد اگر چہ رافضیت ہے مگر اس کا دروازہ غیر مقلّدیت ہے جسے امت کو گمراہ کرنے کے لیے سبیل المونین سے قلبی، ذہنی، لسانی،یا عملی انحراف کی مختلف پر کشش صورتوں سے مزیّن کیا گیا ہے،رافضیت اورغیر مقلّدیت دونوں کا ہدف دین کی بنیادی اور واحد ذریعہ کی حیثیت رکھنے والی جماعت یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔
مگر ظاہری فرق یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رافضیت کا براہِ راست ہدف ہیں جبکہ غیر مقلدیت نے ان کو ائمہ مجتہدین اور ان کے فقہی مسلکوں کی مخالفت کی آڑ میں نشانہ بنا رکھا ہے جس کا اندازہ ان کے اس بنیادی سوچ سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کو حدیث کے فہم اور اس پر عمل کے لیے ائمہ مجتہدین کی تحقیق اور اجتہادی تطبیق و ترجیح قبول نہیں کیوں کہ اس کا انحصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال پر ہے اور ان کے نزدیک شریعت میں صحابی رضی اللہ عنہ کا قول حجت نہیں۔                        

حقیقی اہل قرآن اور اہل حدیث:

غیر مقلدین نے اپنا نام اہل حدیث رکھا ہوا ہے جو اس نام پر اسی طرح غاصبانہ قبضہ ہے جس طرح منکرین حدیث لوگوں کو اپنے بے دینی کے بارے میں دھوکہ میں رکھنے کے لیے اپنا گروہی نام اہل قرآن بتاتے ہیں حالانکہ حقیقت میں اہل قرآن اور اہل حدیث تو وہ ائمہ کرام ہیں جو قرآن و حدیث ہمہ وقتی اور ہمہ جہتی وابستگی اور اس کا صحیح فہم رکھتے ہیں اور انہوں نے امت کو فقہ کی صورت میں قرآن و حدیث پر صحیح اور مطلوب عملی شکل یعنی سنت سے آ گاہ کیا ہے یہی وجہ ہے کی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے امت کو گمراہی سے آ گاہ کرنے کے لیے۔ فعلیکم بحدیثی کی بجائے، "فعلیکم بسنتی و سنت الخلفاءالرّاشدین المھدیّین" (پس تم پر میری سنت اور خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم کی سنت لازم ہے)اور نجات پانے والے گروہ کے لیے "ما انا علیہ واصحابی" (جو میرے اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر ہیں )کے کلمات کہلوائے۔

غیر مقلدین کی دعوت اتحاد:

غیر مقلدین امت میں اتحاد کے داعی ہیں اور اتحاد کے لیے ان کی دعوت یہ ہے کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فقہاءکے فہم کے بغیر حدیث کا مفہوم خود سمجھ کر یا دوسرے لفظوں میں غیر مقلدین کے بیان کردہ مفہوم کو اپنے فہم کا حاصل سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے مگر ان کی یہ دعوت نہ شرعا درست ہے نہ ہی عقل سے مطابقت رکھتی ہے۔جب کسی بھی علم و فن میں اس علم و فن کے ماہرین کی بجائے کسی اور پر اعتمادنہیں کیاجا سکتا تو پھر فہم و دین اور اس کی عملی صورت یعنی شریعت جیسی سب سے قیمتیں متاع کو ماہر دین و شریعت کی بجائے ہر غیر عالم، جاہل یا عام آدمی کے سپرد کیسے کیا جا سکتا ہے۔

قرآن و حدیث کی تشریح عام لوگوں کے سپرد کرنے کا نتیجہ:

اس وقت مجتہدین میں قرآن و حدیث کے غیر منصوص یعنی غیر واضح احکام میں اجتہادی اور ایسے منصوص احکام جن میں ایک سے زیادہ صورتوں والی ترجیحی اختلاف ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق مذموم نہیں بلکہ غلط ہونے کی صورت میں بھی ایک اجر کا موجب ہے اور اگر صحیح ہو تو اس پر دوہرا اجر ہے جبکہ عام آدمی اپنے فہم کے مطابق اگر صحیح بھی سمجھا ہو تو قابلِ گرفت ہے نیز یہ کہ مجتہدین میں واضح احکام میں کامل اتّفاق ہے لیکن اگر ہر آدمی کو اپنے فہم کے مطابق مفہوم متعیّن کرنے کی اجازت دے دی جائے تو نہ صرف غیر اختلافی واضح احکام و مسائل پر اتفاق کی صورت ختم ہو جائے گی بلکہ دین کے بنیادی اصولوں میں بھی اختلاف پیدا ہو جائے گا کیونکہ، ایک تو عام آدمی مجتہدین کے مقابلے میں کثیر ہیں دوسرے یہ کہ مجتہدین میں اجتہاد کی صلاحیت کے علاوہ ہدایت تقویٰ میں پختگی بنیادی شرط ہے اور ان کے اجتہاد کی اساس فکر آخرت ہوتی ہے۔جبکہ عوام میں فکر آخرت کی وہ پختہ کیفیت نہیں ہوتی۔ تیسرے یہ کہ مجتہدین و فقہاءکا اجتہاد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ماخوذ اصولوں کے دائرے میں ہوتا ہے جبکہ غیر مجتہدین کو ان اصولوں سے نہ تو کماحقہ آگاہی ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ ان کے استعمال و فہم کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے یہ اختلاف بھی لا محدود صورت اختیار کر لے گا اور دین عوام کا کھیل بن کر رہ جاے گا جیساکہ خود ان غیر مقلدین کے مابین اختلاف سے ظاہر ہے چنانچہ ان میں بھی کئی فرقے بن چکے ہیں جو ایک دوسرے کو غلط، گمراہ بلکہ کافر و مشرک تک کہتے ہیں۔

 غیر مقلدین کا مشن اور مقصود:

جب غیر مقلدین کے نزدیک مقلدین کی اکثریت تقلید کی وجہ سے مشرک، کافر یا کم از کم گمراہ، فاسق و فاجر ہے اور خود یہ گروہوں میں بٹے ہوے اور اختلافات کا شکار ہیں تو پھر یہ مقلدین کو کس بنیاد پر اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں، اگر اس دعوت کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ ان کا مقصود یہ ہے کہ مقلدین کوتقلید کی صورت میں سبیل المومنین سے جو وابستگی حاصل ہے انہیں اس سے نکال کر اپنا مقلّد یعنی اپنے جیسا نفسانی خواہش کا پیرو کار بنا دیا جائے۔

 غیر مقلدین کا تقلید کرنا :

یہ لوگ عموماََ بخاری شریف اور مسلم شریف پر عمل کے مدعی اور داعی ہیں اور دوسروں سے بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے فلاں عمل کی بخاری و مسلم میں حدیث دکھاؤ، جبکہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایااور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ حدیث صرف بخاری و مسلم میں ہے۔پھر یہ کہ بخاری و مسلم تمام احادیث کا مجموعہ نہیں بلکہ ان دونوںاماموں کا اپنا اپنا اجتہادی انتخاب ہے اور ان پر عمل کی دعوت بظاہر ان اماموں کی مگر در حقیقت اپنی تقلید کی دعوت ہے حالانکہ یہ کسی بھی امتی کی تقلید کو حرام اور شرک کہتے ہیں، اگر ائمّہ مجتہدین میں سے کسی امام رحمہ اللہ کی تقلید شرک ہے تو امام بخاری و امام مسلم رحمتہ اللہ علیہما بلکہ ان غیر مقلدین کی تقلید کیسے جائز ہو گی؟

غیر مقلدین کی غیر مقلد علماءکی تقلید :

نیز یہ کہ تقلید کو حرام اور شرک کہنے والے غیر مقلدین خود اپنے غیر مقلد علماءکی تقلید کرتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرّہ زندگی میں کرتے رہتے ہیں کہ جب کسی غیر مقلد کو کسی سوال کا جواب نہیں آتا یا اسے اس کے مسلکی عمل کے خلاف بخاری و مسلم کی کوئی حدیث دکھائی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں اپنے مسلک کے علماءسے پوچھ کر بتاؤں گا، یہ خود ان کے اپنے دعویٰ کے لحاظ سے بخاری و مسلم سے اعراض اور اپنے غیر مجتہد علماءکی تقلید نہیں تو اور کیا ہے؟

مقلد اور غیر مقلد کی تقلید کا فرق:

غرض یہ کہ خود غیر مقلدین بھی تقلید کرتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ہم قرونِ اولیٰ کے ان مجتہدین میں سے کسی مجتہد امام کی کرتے ہیں جن کے دینی فہم اور تقویٰ پر علماءِ امت کا اجماع ہے جبکہ یہ ا ن کی بجائے دورِحاضر کے اپنے غیر مجتہد،غیر مقلدعلماءکی تقلید کرتے ہیں جن کی اپنی علمی و تحقیقی صلاحیت اور صداقت و دیانت ثبوت کا محتاج ہے۔

غیر مقلد وھابیوں نام نہاد اھلحدیثوں کا تفصیلی تعارف حصّہ سوم

غیر مقلدین کے فتوے

قارئین کرام!     نام نہاد اہل حدیث نے اجتہادی اختلاف کی بناء پر ائمہ مجتہدین پر امت میں پھوٹ ڈالنے کا ذمہ دار ٹہرایا ہے، اب ذرا خود ان کے مابین چند سنگین قسم کے اختلاف کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں اور پھر ان سے پوچھئے کہ جناب آپ کے ان اکابر میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اور کیا یہ حضرات امت میں پھوٹ ڈالنے کے مجرم نہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے دعویدار اختلاف کا شکار ہوگئے؟

 (۱) مردے سنتے ہیں یا نہیں؟

غیر مقلدین کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری دونوں مردوں کے سماع کے منکر ہیں، جبکہ علامہ وحید الزماں (غیر مقلدین کے مترجمِ اعظم) اپنےتمام نام نہاد اہل حدیثوں کا مذہب یہی سماع بتارہے ہیں۔

مولانا ثناء اللہ غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۲/۴۵ پر سماعِ موتیٰ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

د"جواب صورتِ مذکورہ کا یہ ہے کہ مردہ کلام نہیں سنتا اور نہ اس میں لیاقت سننے کی ہے، جیسا کہ اس پر قرآن مجید شاہد عدل ہے، اسی طرح کا جواب فتاویٰ نذیریہ:۱/۳۹۹ پر بھی ہےد"۔

علامہ وحید الزماں غیر مقلد نُزل الابرار:۱/۴ پر لکھتے ہیں: "ولو نادی الاموات عند قبورھم یمکن ان یسمعوا لان الاموات لھم سماع عند اصحابنا اھل الحدیث صرح بہ الشیخان "۔

ترجمہ: اگر مردوں کو ان کی قبروں کے پاس پکارے تو ان کا سننا ممکن ہے، کیونکہ ہمارے اصحاب کے ہاں ان کے لئے سماع ثابت ہے۔

(۲) مسلمان مردہ کی ہڈیاں قابلِ احترام ہیں یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد قبر سے ایک مردے کی ہڈیاں نکال کر اس کی جگہ دوسری میت دفن کرنے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس کے منکر ہیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاوی ثنائیہ:۲/۴۹ پر قبر میں مردہ کی ہڈی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:  "ایسی جگہ دفن کرنا منع نہیں،ہڈی نکال کر مردہ دفن کردیں "۔

ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالۂ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:د"مسلم مردہ کا احترام لازم ہے، لہٰذا مسلم کی ہڈیوں کو یوں ہی رہنے دیا جائے اور دوسری قبر بناکر دوسرے مردے کو دفن کردیںد"۔

(۳) امام کو رکوع میں پانے والا رکعت پانے والا ہے یا نہیں؟

مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد اس کو رکعت پانے والا نہیں سمجھتے۔

مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد فتاوی ستاریہ:۱/۵۲ پر لکھتے ہیں: د"ہاں مدرکِ رکوع، مدرکِ رکعت ہے، فریقِ اول (جو مدرکِ رکعت نہیں مانتے) نے قیام و فاتحہ کو ایسا مضبوط پکڑا ہے کہ وہ ہر حالت میں ان کی فرضیت کے قائل ہوتے ہیں، مدرک رکوع کی رکعت کو شمار نہیں کرتے، بلکہ جو احادیث اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ان کو ضعیف اور کمزور کہہ کر ٹال دیتے ہیں، لیکن میں اس امر کا قائل نہیں اور میرا ایمان تو یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میں نبیﷺ کے اقوال کے متضاد قرار دے کر دوسرے کو سرے سے اُڑاہی دوں، چنانچہ جو احادیث نبیﷺ سے اس بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیںد"۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۳۰ پر لکھتے ہیں: د"چونکہ بحکمقوموا للہ قانتین۔(قرآن) اور بحکم لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔(حدیث) قراءتِ فاتحہ ضروری ہے اور رکوع کی حالت میں دونوں چیزیں میسر نہیں ہوتیں، قائل کے پاس کوئی آیت یا حدیث ایسی ہو جس سے استثناء جائز ہوسکے تو ہم بخوشی اُسے سننے کو تیار ہیںد"۔

(۴) ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز کے درست ہونے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس پر شدت سے انکار کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۳۲ پر ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:  "حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ایک وقت آئے گا امام نماز کو خراب کریں گے، فرمایا: مسلمانوں میں ملتے رہنا، ان کی خرابی ان کی گردن پر ہوگی، تم علاحدہ نہ ہونا، اس حدیث ےس ثابت ہوتا ہے کہ حتی المقدور جماعت کے ساتھ مل کر ہی نماز پڑھنا چاہئے"۔

ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالہ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:د"نہیں نہیں! ہرگز ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہئےد"۔

(۵) عدت میں عورت کے ساتھ نکاح درست ہے یا نہیں

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک معتدہ کے ساتھ نکاح جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں نکاح صحیح نہیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد معتدہ بالزنا کے ساتھ نکاح کرنے والے کے متعلق جواب دیتے ہیں: د"صورتِ مرقومہ میں نکاح جائز ہے، حمل کے ظاہر ہونے سے یا اس کے اسقاط سے نکاح فسخ نہیں ہواد"۔

اسی جواب کے نیچے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی تعاقب کرتےہوئے فرماتے ہیں:  "بحکم و اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن.... الآیۃ۔ یہ عدت کے اندر نکاح کیا گیا جو ہرگز صحیح نہیں، پس دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۰۹)

(۶) بیمار پر بعد صحت روزہ رکھنا واجب ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک بیمار اگر فوت ہوگیا تو روزے معاف ہیں اور اگر صحتیاب ہوا تو روزہ کے علاوہ فدیہ بھی دے سکتا ہے، جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں موت کی صورت میں بھی بیماری کی وجہ سے چھوڑے گئے روزے معاف نہیں بلکہ موت کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا اور تندرست ہونے کی صورت میں فدیہ دینا جائز نہیں بلکہ بہر صورت روزہ ہی رکھے گا، ملاحظہ فرمائیں........

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"اگر لڑکا بیماری ہی میں مرگیا تو روزے معاف ہیں، اگر اچھا ہوکر اس نے روزے نہیں رکھے تو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیںد"۔

اور مسئلہ پر تعاقب کرتے ہوئے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد رقمطراز ہیں: د"صحیح نہیں ہے، بعد صحت روزے ہی رکھنے ہوں گے اور اگر قبل صحت مرجائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھےد"۔

(فتاوی ثنائیہ:۱/۶۵۸)

(۷) رخصتی سے پہلے شوہر فوت ہوجائے تو بیوی کو مہر آدھا ملے گا یا پورا؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک آدھا مہر ملے گا جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے نزدیک پورا مہر ملے گا، ملاحظہ فرمائی:

سوال: زید کی شادی ہندہ سے ایک سال کا عرصہ ہوا ہوئی تھی، لیکن رخصتی نہ ہوئی، زید کا انتقل ہوگیا، آیا ہندہ مہر کی مستحق ہے یا نہیں؟

جواب: (از مولانا ثناء اللہ) ہندہ نصف مہر کی مستحق ہے، بحکمِ قرآن مجید فنصف ما فرضتم۔

مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد جوابِ مذکور پر گرفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:د"یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ اس لئے کہ سوال میں متوفی عنہا کا ذکر ہے اور جواب میں مطلقہ کا، ملاحظہ ہو آیتِ محولہ بالا: و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم ... الآیۃ۔ لہٰذا صورتِ مرقومہ میں پورا مہر ملے گا، کما تقدم فی حدیثِ ابن مسعودؓ۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۱)

(۸) عورت ماہواری کےایام میں قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں؟

علامہ وحید الزماں صاحب غیر مقلد کے نزدیک حائضہ  کے لئے قرآن پڑھنا جائز نہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں کہ حائضہ قرآن کریم پڑھ سکتی ہے۔

علامہ وحید الزماں غیر مقلد فرماتے ہیں: یمنع صلوٰۃ و صوما ..... و قراءۃ القرآن و مسہ بلا غلاف۔

(کنز الحقائق:۱۵، ھکذا فی عرف الجادی:۸۵)

نیز نزل الابرار میں فرماتے ہیں: و یحرم علی ھؤلاء تلاوۃ القرآن بقصد التلاوۃ و لو دون آیۃ و قال بعض اصحابنا لا یحرم کذالک مس المصحف۔ (۱/۲۵)

یعنی حائضہ کے لئے مخصوص ایام میں قرآن کریم کو ہاتھ لگانا اور پڑھنا جائز نہیں۔

اس کے بر خلاف مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"حائضہ عورت عورت قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگاسکتی، زبان سے پڑھ سکتی ہے۔

(۹) جراب پر مسح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری غیر مقلد اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں، ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"پائتابہ (جراب) پر مسح کرنا آنحضرت ﷺسے ثابت ہے،(ترمذی) شیخ ابن تیمیہؒ نے فتاویٰ میں مفصل لکھا ہےد"۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۴۱)

مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد لکھتے ہیں: د"جرابوں پر مسح کرنے کامسئلہ معرکۃ الآراء ہے، مولانا نے جو لکھا ہے یہ بعض ائمہ شافعی و غیرہ کا مسلک ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی مسلک ہے، مگر یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ دلیل صحیح نہیں ہے، اس کے بعد مولانا ابوسعید غیر مقلد نے مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے جواب پر تفصیلاً رد کیا ہے، مولانا ابوسعید کے جواب کے بعد جامعِ فتاویٰ ثنائیہ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کا جواب نقل کیا ہے جو اسی مسئلہ میں انہوں نے دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔

الجواب:                                            المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علی جوزہ دلیل صحیح و کل ما تمسک بہ المجوزون ففیہ خدشۃ ظاھرۃ الی آخرہ ، کتبہ عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔

(دستخط) سید محمد نذیر حسین............

(فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۴۴۳)

یعنی جوراب پر مسح کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس کی دلیل صحیح نہیں ہے اور جائز کہنے والوں کی تمام دلیلوں میں واضح غلطی موجود ہے۔

(۱۰) جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں۔

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"مگر زوال کے وقت جمعہ کے روز نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔

اور مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد جوابِ مذکور پر باحوالہ رد کرتےہوئے فرماتے ہیں: د"پس ثابت ہوا کہ زوال کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، خواہ یوم الجمعہ ہو یا کوئی اور یوم، اس لئے کہ منع کی حدیثیں صحیح ہیں اور جواز کی صحیح نہیں، صحیح کے مقابلہ میں غیر صحیح پر عمل باطل ہے۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۴۴)

پاؤں چوڑے کرنا

باجماعت نماز میں مقتدیوں کو صفیں درست رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے تاکہ درمیان میں دراڑیں نہ رہیں ۔ جن میں شیطان گھس کر نمازی کی نماز خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ احادیث میں پاؤں ، گھٹنے اور کندھے ملانے کا حکم ہے مگر غیر مقلدین حضرات کو صرف پاؤں ملانے کی فکر ہوتی ہے ۔ اگر ساتھ والا آدمی پاؤں کو ذرا ہٹالے تو یہ نماز کے بعد ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حالانکہ یہ کاروائی ان کے اپنے مسلک سے ناواقفیت کی بنا پر ہوتی ہے ۔

چنانچہ ان کے اپنے علماء نے یوں لکھا ہے ۔

اور بعض جاہل پاؤں خوب چوڑے کرتے رہتے ہیں اور کندھوں کا خیال ہی نہیں کرتے ۔ کندھوں کے اندازے سے پاؤں بلکل چوڑے نہ کرنا چاہے تاکہ پاؤں اور کندھے دونوں مل سکیں ۔

اور اس سے پہلے لکھا ہے :پس اس کو چاہیے کہ اپنا پاؤں اپنے کندھے کی سیدھ میں رکھے ۔

(فتاوٰی اہلحدیث ص ۱۹۹۔۲۰۰ ج۲ ۔ و فتاوٰی علمائے حدیث ص ۲۶۶ ج ۴ ، ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور ص ۶، ۲۸ مئی ۱۹۹۹)

جماعت ثانیہ

متششدد غیر مقلدین جماعت ہو چکنے کے بعد مسجد میں آئیں گے تو وہ اصرار کریں گے کہ ہم دوبارہ جماعت کر کے ہی نماز ادا کریں گے، حالانکہ احناف کے ہاں مسافروں کے علاوہ کسی کو ایسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانا درست نہیں ، جس کا امام اور نماز کے اوقات متعین ہوں۔

( شامی ص ۲۹۱ ج۱ و فتاوٰی رشیدیہ ۲۹۰ )

اب اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ حضرات یا تو اپنی کسی مسجد میں چلے جائیں یا مسجد سے باہر جماعت کرا لیں یا اپنے گھر تشریف لے جائیں وہاں جماعت کرا لیں ۔ جب یہ تمام متبادل صورتیں ان کے لیے موجود ہیں ۔ تو اس کے باوجود ان کا احناف کی مساجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا اصرار سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا ۔ ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بریلوی مکتب فکر کا کوئی آدمی کسی دیوبندی یا غیر مقلدین کی مسجد میں اذان سے پہلے یا بعد میں مروجہ صلٰوۃ و سلام یا میت کے لیے تیجہ وغیرہ کی رسم کے لئے اصرار کرے ۔ جیسے اس کا یہ اقدام درست نہیں ۔ اسی طرح احناف کی مساجد میں غیر مقلدین کا دوبارہ جماعت کا اصرار درست نہیں ۔ جبکہ ان کے اپنے علماء نے بھی دوبارہ جماعت کے بارہ میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان کی رو سے بھی ان حضرات کا اصرار صرف فساد کی نیت ہے اور کچھ نہیں ۔

چنانچہ ان کے ہفت روزہ میں پوچھے گے مسائل کے جوابات دینے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اسی میں ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ۔

اور دوسری جماعت کا اہتمام کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ۔ یہ محض ناگہانی ضرورت کی بنا پر ہے ۔

( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص۶ ۔ ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ )

اسی طرح ایک مضمون تعدد جماعت کی مضرتیں کے عنوان سے شائع ہوا اس میں بحث کا خلاصہ یوں پیش کیا گیا :

اس صورت میں باہر سے آنے والے مسافروں کی جماعت کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن مطلقا نہیں؛ کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مسجد میں ایک نماز کی متعدد جماعتوں کو دستورالعمل نہیں بنایا ۔

( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص ۲۰ - ۲۴ جمادی الاولٰی ۱۴۱۶ھ)

ہم نے پہلے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ کچھ عرصہ سے بڑے منظم انداز میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کی وجہ فقہ ہے ۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور بے بنیاد ہے ۔ نیز بعض مقامات میں غیر مقلدین حنفی شافعی اختلافات کا طعنہ دیکر بھی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ تو ہم نے ضروری سمجھا کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ جزوی مسائل میں اختلافات تو خود غیر مقلدین حضرات کے آپس میں بھی ہیں تو پھر ایسی طعنہ بازی ان کو کسی طور پر بھی زیب نہیں دیتی ۔

غیر مقلدین میں اختلافی صورت حال زیادہ پریشان کن ہے ۔ اس لئے کہ اختلافی مسائل کے حل اور عمل کے لئے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے کہ اگر حنفی شافعی وغیرہ مختلف مسالک کا اختلاف ہے تو ہر مسلک والا اپنے امام اور اپنے مسلک کے محققین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرے گا ۔ اور اگر کسی مسلک کے اپنے علماء کے درمیان مسائل میں اختلاف ہو مفتٰی بھا مسائل پر عمل کیا جائے گا ۔ اور غیر مفتٰی بھا کو ترک کردیا جائے گا ۔ اس لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے ۔ مگر غیر مقلدین ان اختلافی مسائل میں کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے کونسی صورت اور ضابطہ سے کام لیتے ہیں ؟؟؟ اس لئے کہ ان کے تمام علماء جنہوں نے مسائل بتائے ہیں وہ سب کے سب صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے کے دعویدار ہیں اور ہر مسلمان ان سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے والوں کے درمیان مسائل میں اختلاف کیوں ؟ کیا جن جن حضرات نے مسائل بتائے ہیں ان سب کے مسائل بر حق ہیں ؟

اگر ان میں سے بعض کے مسائل حق پر نہیں توغیر مقلدین کے وہ علماء جو دوسروں کی کتابوں میں خواہ مخواہ کیڑے نکالنے پر کمر بستہ ہیں کیا انہوں نے اپنے عوام کی سہولت کے لئے حق اور باطل مسائل کو جدا جدا کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے ؟ اور کیا نا حق مسائل بتانے والوں کے خلاف اپنے قلمی اور تقریری جہاد کا رخ موڑا ہے،اگر نہیں تو کیا اس کو مسلکی تعصب کے علاوہ کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے ؟

اکابرغیرمقلدین کاموقف اورموجودہ غیرمقلدین کاانحراف

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:

"پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں "۔

(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)

پھرآپ یہ بھی لکھتے ہیں:

"اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں "۔    

(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)

مولانا سیدعلی میاں ندویؒ کے والد مولانا سیدعبد الحیی مرحوم د"نزہتہ الخواطرد"کی آٹھویں جلد میں مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے ذکر میں لکھتے ہیں:

"وشدد النکیر علی مقلدی الائمۃ الاربعۃ لاسیما الاحناف وتعصب فی ذلک تعصباً غیرمحمود فثارت بہ الفتن وازدادت المخالفۃ بین الاحناف واھل الحدیث ورجعت المناظرہ الی المکابرۃ والمجادلۃ والمقاتلۃ لماکبرت سنہ ورای ان ھذہ المنازعۃ کانت سبباً لوھن الاسلام ورجع المسلمون الیٰ غایۃ من النکبۃ والمذلۃ رجع الی ماھواصلح لھم فی ھذہ الحالۃــــــ واماماکان علیہ من المعتقد والعمل فھو علی ماقال فی بعض الرسائل ان معتقدہ معتقد السلف الصالح مماورد بہ الاخبار وجاءفی صحاج الاخبار ولایخرج مماعلیہ اھل السنۃ والجماعۃ ومذہبہ فی الفروع مذہب اہل الحدیث التمسکین بظواھر النصوص "۔

(تقدمہ علی الاجوبۃ الفاضلۃ لاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ للشیخ عبدالفتاح ابی غذ:۸، مطبوع:بحلب)

ترجمہ: مولانا بٹالوی نے مقلدین ائمہ اربعہ خصوصاً احناف کے خلاف شدت اختیار کی اور اس میں ایسے تعصب سے چلے کہ اسے اچھا نہیں کہاجاسکتا؛ پس اس سے بھڑک اُٹھے اور احناف اور فرقہ اہلِ حدیث کے مابین مخالفت زیادہ ہوگئی مناظرے، مکابرہ، مجادلہ؛ بلکہ مقاتلہ تک پہنچے؛ پھرجب آپ بڑی عمرکو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ مقلدین سے یہ کھچاؤ ضعف اسلام کا سبب ہوگیا ہے اور مسلمان رسوائی اور بدبختی کے گڑھے میں جارہے ہیں، آپ پھر اس طرف لوٹے جومسلمانوں کے لئے اس حالت میں بہتر تھاــــــہاں جہاں تک آپ کے اعتقاد اور عمل کا تعلق ہے وہ اس پر تھے جیسا کہ آپ نے اپنے بعض رسالوں میں کہا ہے کہ ان کا اعتقاد سلف صالحین کا سا ہے جو اخبار اور صحیح احادیث میں آیا ہے اور وہ اس حد سے نہیں نکلیں گے جواہلِ السنۃ والجماعت کی راہ ہے، رہیں فروعات تواس میں وہ ان اہلِ حدیث کے طریقے پر رہیں گے جونصوص کے ظواہر سے تمسک کرتے ہیں۔

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی فکری کروٹ پرپوری جماعت اہلِ حدیث کی روش بدل جانی چاہیے تھی؛ لیکن افسوس کہ وہ لفظ حنفی اور شافعی وغیرہ سے اسی طرح سیخ پارہے کہ کسی درجہ میں وہ فقہ کے قریب آنے کے لئے تیار نہ ہوئے، یہ شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولانا محمدحسین بٹالوی کے مسلک کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی ایک لہر تھی جو جماعت کے بیشتر علماء کولے ڈوبی، بہت کم تھے جومعتدل مزاج رہے اور اہلِ السنۃ والجماعت کے دائرہ کے اندر رہے، غالباً سنہ۱۳۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ جماعت اہلِ حدیث کے اعیان وارکان  لاہور میں جمع ہوئے اور انجمن اہلِ حدیث کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر مولانا محمدحسین بٹالوی قرار پائے، مولانا بٹالوی مرزا غلام احمد قادیانی  کاحال دیکھ کر ضرور سمجھتے تھے کہ غیرمقلدین فقہ اور مقلدین سے جونفرت بڑھا رہے ہیں، اس سے اندیشہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت یہ لوگ (غیرمقلدین) پورے اسلام سے ہی منحرف نہ ہوجائیں، انہوں نے اہلِ حدیث کے ساتھ اپنے کوحنفی کہنے کی بھی راہ نکالی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:

"لاہور میں ایک مجلس اہلحدیث کے نام سے نامزد ہوکر قائم ہوئی ہے (یہ مجلس نامزد ہوکر قائم ہوئی تھی حکومت برطانیہ سے یہ نام اہلِ حدیث انہیں الاٹ کیا گیا ) صدر ہونے کی عزت اس ناچیز کوبخشی گئی ہے، اس میں یہ امربحث میں آیا تھا کہ اہلِ حدیث (جس کی طرف یہ انجمن منسوب ہوئی ہے) کی کیا تعریف ہے اور اہلِ حدیث سے کون شخص موسوم ہوسکتا ہے (جواس انجمن کے ارکان اور مجلس منتظمہ میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہو) اس کا تصفیہ رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد:۲۰ کے صفحہ نمبر۱۵۹ (جواہلِ حدیث کی قوم کا اور گورنمنٹ میں مہتمم ایڈوکیٹ Representative ریپریزنٹیٹیو ہے) کے اس بیان سے ہوگیا کہ اہلِ حدیث وہ ہے جواپنا دستور العمل والاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کوبنادے (احادیث کے ساتھ آثار سلفیہ کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ارشادات کوبھی اپنے لیے سمجھے) اور جب اس کے نزدیک ثابت ومحقق ہوجائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یااس سے قوی پایا نہیں جاتا تووہ ان احادیث وآثار پرعمل کرنے کومستعد ہوجاوے اور اس عمل سے اس کوکسی امام یامجتہدکا قول بلادلیل مانع نہ ہو"۔

ازآنجا کہ اس تعریف کی رُو سے بے تعصب ومنصف مزاج مقلدین مذاہب اربعہ حنفیہ وغیرہ جوعمل بالحدیث کوجائزرکھتے اور سعادت سمجھتے، تقلید مذہب ان کواس عمل بالحدیث سے مانع نہ ہوتی، داخل ہوسکتے ہیں، نظر برآں اس انجمن کے صدر خاکسار کی یہ رائے قرار پائی کہ اس انجمن کے نام میں ایسی تعمیم وتوسیع ہوجانی چاہیے کہ اس کا نام سنتے ہی وہ مقلدین جوعمل بالحدیث کوسعادت سمجھتے ہیں داخل سمجھے جائیں بناءً علیہ اس کے تجویز یہ ہوئی کہ لفظ انجمن اہلِ حدیث کے ساتھ بریکٹ میں حنفیہ وغیرہ بڑھادیا جائے۔

(ماہنامہ الہدی، بابت ماہ ذیقعدہ، سنہ۱۳۲۷ھ، باہتمام مولوی کریم بخش، مہتمم ومالک اسلامیہ اسٹیم پریس، لاہور)

پھرمولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی اپنی رائے ملاحظہ کیجئے:

"صدرانجمن خاکسار چونکہ باوجود اہلِ حدیث ہونے کے حنفی بھی کہلانا جائز رکھتا تھا؛ لہٰذا اس امر کا اظہار اپنے ماہوار رسالہ  اشاعۃ السنۃ اورد"سراج الاخبارد" کے ذریعہ کردیا، یہ امرہمارے رُوحانی فرزند (مولانا ثناء اللہ امرتسری جوان دنوں پرچہ اہلِ حدیث کے ایڈیٹر تھے) نوجوانوں کوجوصرف اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور وہ حنفی وغیرہ کہلانا پسند نہیں کرتے ناگوار گزرا اور انہوں نے خاکسار کے اس اظہار کے خلاف اپنے اخبار اہلِ حدیث میں یہ نوٹ شائع کرادیا....الخ "۔

مولانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا       ؎

کسی کا ہورہے کوئی نبی کے ہورہیں گے ہم

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اس کے جواب میں لکھا    ؎

نبی کے ہیں سبھی حنفی نہ مرزائی نہ چکڑالی
نہ معتزلی جوجاحظ کی کرتے ہیں شاگردی

لفظ اہلِ حدیث ماضی میں ایک علمی شان رکھتا تھا، فرقہ اہلِ حدیث میں جب جاہل بھی اہلِ حدیث کہلانے لگے توپوری کی پوری جماعت نت نئے اُٹھنے والے فتنوں کا دروازہ بن گئی، مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین بھی پہلے اہلِ حدیث بنے تھے (تاریخ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ:۶۹،۷۰، حرمین سے واپسی پر نورالدین نے وہابیت اختیار کی اور ترکِ تقلید پر وعظ کیئے اور عدم جوازِ تقلید پرکتابیں تصنیف کیں، بھیرہ میں ہیجانِ عظیم پیدا ہوگیاـــــ چودھری ظفراللہ خان قادیانی بھی اپنے دادا چودھری سکندرخان کے بارے میں لکھتے ہیں: د"جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے وہ اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھےد" تحدیثِ نعمت:۳) پھرمرزائی بنے۔

قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری کی رائے

ان خیالات سے متأثر ہوکر جماعت اہلِ حدیث کے مقتدر عالم قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری نے اپنی جماعت کوجھنجھوڑا اور کہا:

"اس زمانہ کے جھوٹے اہلِ حدیث مبتدعین، مخالفین، سلفِ صالحین جوحقیقت ماجاء بہ الرسول سے جاہل ہیں وہ اس صفت میں وارث اور خلیفہ ہوئے شیعہ وروافض کےـــــ جس طرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب ودہلیز کفرونفاق کے تھے اور مدخل ملاحدہ اور زنادقہ کا تھے؛ اسی طرح یہ جاہل، بدعتی اہلِ حدیث اس زمانہ میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے بعینہ مثل اہل التشیع کے"۔                     

(کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعۃ:۲۶۲)

اس عبارت سے واضح ہے کہ اَن پڑھ جاہلوں کا اہلِ حدیث کہلانا کس طرح آئیندہ دینی فتنوں کی اساس بنتا رہا ہے اور یہ بھی عیاں ہے کہ اس جماعت غیرمقلدین کے اعتدال پسند علماء کتنی دردمندی سے ترکِ تقلید کے کڑوے پھل چکھتے رہے ہیں اور ان کا ذائقہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے رہے ہیں، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اچھا کیا جواپے آپ کواہلِ حدیث حنفی کہنے لگے، یہ کسی نہ کسی دائرہ میں فقہ کی طرف لوٹنے کا ایک قدم تھا، اس پر دیگرعلماء فرقہ ہذا بہت سیخ پا ہوئے؛ تاہم مرزا غلام احمد کے انجام کا یہ ایک طبعی اثر تھا، جواس کے پرانے دوست مولانا محمدحسین صاحب پر اس تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہوا، مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:

"اربابِ فہم وذکاء اصحاب صدق وصفا کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ عرصہ سے جناب مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی نے اپنے آپ کواہلِ حدیث حنفی لکھا ہے، آپ کے اس لقب پرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار اہلِ حدیث نے ایک نوٹ لکھا ہے"۔

(الانصاف رفع الاختلاف:۱، مصنفہ مولانا عبدالحق، مطبوعہ سنہ۱۹۱۰ء رفاہِ عام اسٹیم پریس، لاہور)

اس سے واضح ہے کہ مولانا محمدحسین بٹالوی میں یہ تبدیلی بعد میں آئی، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی دینی تباہی آنکھوں سے دیکھی تھی۔

مولانا وحیدالزماں کی رائے

غیرمقلدین کا گروہ جواپنے تئیں اہلِ حدیث کہلاتے ہیں، اُنھوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلفِ صالحین اور صحابہؓ اور تابعین کی، قرآن کی تفسیر صرف لغت سے  اپنی من مانی کرلیتے ہیں، حدیث شریف میں جوتفسیر آچکی ہے اس کوبھی نہیں مانتے۔                          

(وحیداللغات ماوہشعب، حیات وحیدالزماں:۱۰۲)

مولانا عبدالعزیز سیکرٹری جمعیت مرکزیہ اہلِ حدیث ہند

اہلِ حدیث جواپنے ایمانیات وعقائد کی پختگی میں ضرب المثل تھے معتزلہ اور متکلمین کی شریعت کودوبارہ زندہ کرنے والے حضرات ہم میں پیدا ہوگئے او راُن کی حوصلہ افزائی کی گئی نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج جمعیت اہلِ حدیث ایک جسم بلاروح رہ گئی؛ بلکہ جسم کہتے ہوئے بھی قلم رُکتا ہے، آج ہم میں تفرق وتشتت کی یہ حالت ہے کہ شاید ہی کسی جماعت میں اس قدر اختلاف وافتراق ہو۔

(فیصلہ مکہ:۳،۲)

ترکِ تقلید کا یہ نتیجہ ان حضرات کے اپنے قلم سے آپ کے سامنے ہے، کاش کہ یہ حضرات مولانا محمدحسین بٹالوی کی بات مان لیتے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس وقت تواپنے استاد مولانا بٹالوی کی مخالفت کی؛ لیکن ترکِ فقہ کے نتیجہ میں جب ترکِ حدیث کی اُٹھتی ہوئی لہردیکھی تواُن کے ذہن نے بھی پھرپلٹا کھایا، مرزا غلام احمد کے ترکِ تقلید نے مولانا محمدحسین بٹالوی میں فکری تبدیلی پیدا کی تومولوی عبداللہ چکڑالوی کی تحریک ترکِ حدیث نے مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کوسوچنے پرمجبور کیا کہ ترکِ حدیث کی ان لہروں کا پسِ منظرکیا ہے؟ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری، مولوی عبداللہ چکڑالوی امام مسجد چینیاں والی لاہور کے بارے میں رقمطراز ہیں:

 "جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے احادیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا تووہ جمع وتدوینِ قرآن میں رخنے نکالنا شروع کردیں گے اور جب تک لوگوں کواس عیاری کا پتہ نہ چلے گا وہ عوام اور نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ودماغ کواتنا مسموم کرچکے ہوں گے کہ ان کا تدارک کسی سے نہ ہوسکے گا "۔ 
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۲۸۰)

غیر مقلد وھابیوں نام نہاد اھلحدیثوں کا تفصیلی تعارف حصّہ دوم


۲۸۔امام بخاری ؒ کے نزديک اگر میاں بیوی پہلے مسلمان نہ تھے اب ان میں بیوی پہلے مسلمان ہوگئی تو اسلام قبول کرتے ہی دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے گی (تیسیرالباری ج۷ص۱۹۹، فتح الباری ج۱۱ص۳۴۰) جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث)کے نزديک عورت کے اسلام قبول کرتے ہی ان کا نکاحی تعلق ختم نہیں ہوتا بلکہ عورت کی عدت ختم ہونے تک باقی رہتا ہے۔

(تیسیرالباری ج۷ص۱۹۹)

۲۹۔امام بخاری ؒ کے نزدیک تین طلاقیں اکٹھی دے یا جداجدا دے تو تینوں واقع ہوجاتی ہیں (فتح الباری ج۱۱ص۲۸۱،تیسیرالباری ج۷ص۱۷۲) جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزدیک اکٹھی دی ہوئی تین طلاقیں ايک ہوتیں ہیں

(فتاوی ثنائیہ ج۲ص۲۳۱، فتاوی نذیریہ ج۳ص۳۹)

۳۰۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک مصافحہ دونو ں ہاتھ سے کرنا چاہيے ( تیسیرالباری ج۸ص۱۷۹) جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک مصافحہ ايک ہاتھ سے کرنا چاہیئے

( فتاوی ثنائیہ ج۲ص۹۱,۹۵)

۳۱۔امام بخاری کے نزديک بچہ تھوڑابہت جتنا دودھ بھی کسی عورت کا پی لے تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے (فتح الباری ج۱۱ص۴۹)جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک ايک دوبار پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی

(تیسیرالباری ج۷ص۲۳، فتاوی اہل حدیث ج۳ص۱۸۰،فتاوی نذیریہ ج۳ص۱۵۲)

مذکورہ بالا مسائل کے رقم کرنے میں کہیں بھی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کیا گیا صرف وہ الفاظ مختصر نقل کئے گئے ہیں جو غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) نے اپنی کتب کے اندر لکھے ہیں۔

( "تیسیر الباری  " مشہور علامہ وحید الزماں کی بخاری کے شرح ہے،  "السراج الوہاج  " غیرمقلد عالم نواب صدیق حسن خان کی بخاری کی شرح ہے،  "مرعاة المفاتیح  " غیر مقلد عبیداﷲ مبارک پوری کی بخاری کی شرح ہے)

فتح الباری ابن حجر عسقلانی کی تحریر کردہ بخاری کی شرح ہے اور يہ چھٹی صدی ہجری کے دور سے تعلق رکھتے ہیں تب غیر مقلدیت کا نشان بھی نہ تھا۔ غیرمقلدین (فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کا جتنے مسائل میں امام بخاری سے اختلاف ہے ان میں سے چند کا خاکہ آپ کے سامنے پیش کیاگیا ہے اس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جو لوگ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام بخاری کے اختلافات کو پیش کر کے عوام الناس کے اذہان کر خراب کرتے ہیں وہ انصاف سے کام نہیں ليتے انہیں چاہيے کہ وہ امام بخاری سے اپنے اختلافات کوبھی ضرور بیان کیا کریں۔

غیر کی آنکھ کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر

اپنی آنکھ کا ديکھ غافل ذرا شہتیر بھی

غیر مقلدین کا بخاری و امام بخاری کے ساتھ سلوک

اس موقع پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قارئین کرام کی توجہ غیر مقلدین کے علماءکے ان بیانات کی طرف بھی کراتے چلیں جن میں امام بخاری سے عقیدت ومحبت کے علی الرغم بخاری شریف اور امام بخاری پر کىا حملے کئے گئے ہیں۔

بخاری شریف آگ میں

(العیاذ باﷲ)

مشہور صحافی اختر کاشمیری اپنے سفر نامہ ءایران میں لکھتے ہیں۔

”اس سیشن کے آخری مقرر گوجوانوالہ کے اہل حدیث عالم مولانا بشیر الرحمن مستحسن تھے،مولانا مستحسن بڑی مستحب کی چیز ہیں علم محیط (اپنے موضوع پر، ناقل)جسم بسیط کے مالک، ان کا انداز تکلم جدت آلود اور گفتگو رف ہوتی ہے فرمانے لگے۔

”اب تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل قدر ضرور ہے قابل عمل نہیں، اختلاف ختم کرنا ضرور ہے مگر اختلاف ختم کرنے لئے اسباب اختلاف کو مٹانا ہوگا، فریقین کی جو کتب قابل اعتراض ہیں ان کی موجودگی اختلاف کی بھٹی کو تیز کر رہی ہے کیوں نہ ہم ان اسباب کو ہی ختم کر دیں؟ اگر آپ صدق دل سے اتحاد چاہتے ہیں تو ان تمام روایات کو جلانا ہوگاجو اىک دوسرے کی دل آزاری کاسبب ہیں ہم بخاری کو آگ میں ڈالتے ہیں، آپ اصول کافی کو نذر آتش کریں آپ اپنی فقہ صاف کریں ہم اپنی فقہ (محمدی۔ناقل) صا ف کر دىنگے“

علامہ و حید الزمان صاحب کی امام بخاریؒ پر تنقید

صحاح ستہ کے مترجم علامہ وحیدالزماں صاحب امام بخاریؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

امام جعفر صادق مشہور امام ہیں بارہ اماموں میں سے اور بڑے ثقہ اور فقیہ اور حافظ تھے، امام مالک اور امام ابوحنیفہ ؒ کے شیخ ہیں اور امام بخاری کو معلوم نہیں کیا شبہ ہوگیا کہ وہ اپنے صحیح میں ان سے روایت نہیں کرتے۔۔۔ اﷲ تعالیٰ بخاری پر رحم کر مروان اور عمران بن حطان اور کئی خوارج سے تو انہوں نے روایت کی اور امام جعفر صادق سے جو ابن رسول اﷲ ہیں ان کی روایت میں شبہ کرتے ہیں۔

(لغات الحدیث،۱:۶۲)

اىک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں:اور بخاری ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت  نہیں کی اور مروان وغیرہ سے روایت کی جو اعدائے اہل بىت علیہم السلام تھے۔

(لغات الحدیث،۲:۳۹)

نواب وحید الزماں صاحب کی بخاری شریف کے اىک راوی پر سخت تنقید

نواب صاحب بخاری شریف کے اىک راوی مروان بن الحکم پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں

”حضرت عثمان ؓ کو جو کچھ نقصان پہنچا وہ اسی کمبخت شریر النفس مروان کی بدولت خدا اس سے سمجھے(خدا اس سے بدلہ لے)

(لغات الحدیث،۲:۲۱۳)۔

بخار شریف حکىم فیض عالم کی نظر میں

امام بخاری ؒ نے واقعہ افک سے متعلق جو احادیث بخاری شریف میں ذکر کی ہیں ان کى تردید کرتے ہوئے حکىم فیض عالم لکھتے ہیں:

”ان محدثین، ان شارح حدیث، ان سیرت نویس اور ان مفسرین کی تقلیدی ذہنیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو اتنی بات کا تجزىہ یا تحقیق کرنے سے بھی عاری تھے کہ ىہ واقعہ سرے سے ہی غلط ہے، لیکن اس دینی وتحقیقی جرات کے فقدان نے ہزاروں المىه پیدا کىے اور پیدا ہوتے رہىں گے، ہمارے امام بخاری ؒ نے اس صحیح بخاری میں جو کچھ درج فرما دیا وہ صحیح اور لاریب ہے خواہ اس سے اﷲتعالیٰ کی الوہیت، انبیاءکرام کی عصمت، ازاوج مطہرات کی طہارت کی فضائے بسیط میں دھجیاں بکھرتی چلی جائىں، کیا ىہ امام بخاری کی اسی طرح تقلید جامدنہیں جس طرح مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں“

بخاری شریف میں موضوع روایت

حکىم فیض عالم حضرت عائشہ ؓ کی عمر کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”اب اىک طرف بخاری کی نوسال والی روایت ہے اور دوسری طرف اتنے قوی شواہد حقائق ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ نو سال والی روایت اىک موضوع قول ہے جسے ہم منسوب الی الصحابة کے سواکچھ نہیں کہہ سکتے“

بخاری شریف کے اىک مرکزی راوی پرحکیم فیض عالم کی جرح وتنقید

حکىم فیض عالم بخاری شریف کے اىک مرکزی راوی جلیل القدر تابعی اور حدیث کے مدون اول امام بن شہاب زہری ؒ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”ابن شہاب منافقین وکذابین کے دانستہ نہ سہی نادانستہ ہی سہی مستقل ایجنٹ تھے اکثر گمراہ کن خبیث اور مکذوبہ روایتیں انہیں کی طرف منسوب ہیں“

مزید لکھتے ہیں:

” ابن شہاب کے متعلق ىہ بھی منقول ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بھی وبلا واسطہ روایت کرتا تھا جو اس کی ولادت سے پہلے مر چکے تھے، مشہور شیعہ مولف شیخ عباس قمی کہتا ہے کہ ابن شہاب پہلے سنی تھا پھر شیعہ ہوگیا (تتمتہ المنتہیٰ ص۱۲۸) عین الغزال فی اسماءالرجال میں بھی ابن شہاب کو شیعہ کہا گیا ہے“

قارئیں کرام !! علامہ وحید الزماں صاحب اور حکیم فیض عالم کی امام بخاریؒ اور ابن شہاب زہریؒ پر اس شدید جرح کے بعد غیر مقلدین کو بخاری شریف پر سے اعتماد اٹھا لینا چاہىے اور بخاری شریف کی ان سىنکڑوں احادیث سے ہات دھو لینا چاہىے جن کی سند میں ابن شہاب ؒ موجود ہیں بالخصوص حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کی رفع یدین والی حدیث اور حضرت عبادةؓ کی قرات فاتحہ والی حدیث سے تو بالکل دستبردار ہو جانا چاہىے کىونکہ ان احادیث کی سند میں ىہی ابن شہاب ؒ موجود ہیں، دىکھئے غیر مقلدین کیا فیصلہ فرماتے ہیں؟۔

6۔غیرمقلدین کی احادیث میں بےاصولیاں

غیر مقلدین حضرات بخاری شریف کے معاملہ میں اس قدر غیر محتاط واقع ہوئے ہیں کہ بے دھڑک احادیث مبارکہ بخاری کی طرف منسوب کر دىتے ہیں حالانکہ وہ احادیث یا توسرے سے بخاری میں نہیں ہوتىں یا ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہوتیں، دو چار حوالے اس سلسلہ کے نذر قارئىن کىے جاتے ہیں۔

)غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب نے اپنی کتاب رسول اکرم کی نمازد" میں ص۴۸میں اىک حدیث درج  کی ہے

”عن عبداﷲ بن عمر قال رایت النبی ﷺافتح التکبیر فی الصلوة فرفع یددہ حین یکبر حتی یجعلھما حدو منکیبہ واذاکبر للرکوع فعل مثلہ و اذا قال سمع اﷲ لمن حمدہ فعل مثلہ و اذ اقال ربنا رلک الحمد فعل مثلہ ولا یفعل ذالک حین یسجد ولا حین یرفع راسہ من السجود“

(سنن کبری ج۲ص۶۸، ابو داود ج۱ ص ۱۶۳، صحیح بخاری ج۱ص ۱۰۲ الخ)“

ان الفاظ کے ساتھ ىہ حدیث بخاری شریف میں نہیں ہے، شاىد غیر مقلدین کہىں کہ الفاظ کے ساتھ نہ سہی معنا سہی تو ان کے ىہ بات بھی غلط ہے ىہ معنا بھی بخاری میں نہیں ہے اس لئے کہ حدیث سے چار جگہ رفع یدین ہو رہا ہے۔(۱)تکبیر تحریمہ کے وقت (۲)رکوع میں جاتے وقت (۳) سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے وقت (۴) اور ربنالک الحمد کہتے وقت جبکہ بخاری میں صرف تین جگہ رفع یدین کا ذکر ہے۔

(۲)غىر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل مفتی ابو البرکات احمد صاحب اىک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں

”صحیح بخاری میں آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے کہ تین رکعت کے ساتھ وتر نہ پڑھو، مغرب کے ساتھ مشابہت ہوگی“

ىہ حد یث بخاری تو دور رہی پوری صحاح ستہ میں نہیں،من ادعی فعلیہ البیان

(۳)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب تحریرفرماتے ہیں

”حالانکہ حضور نے ىہ بھی صاف صاف فرمایا ہے : افضل الاعمال الصلوة فی اول و قتھا (بخاری) افضل عمل نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا ہے“

ان الفاظ اور معنی کے ساتھ ىہ حدىث پوری بخاری میں کہیں نہیں ہے

(۴) حکیم صادق صاحب نے اىک حدیث ان الفاظ کے ساتھ درج کی ہے

”عن ابن عباس قال کان الطلاق علی عہد رسول اﷲ ﷺ وا بی بکر و سنتین من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة (صحیح بخاری)

رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں اور حضرت اوبکر ؓ کی پوری خلافت میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دو برس میں(بیکبارگی)تین طلاقیں اىک شمار کی جاتی تھی“

اور الفاظ کے ساتھ اس حدیث کا پوری بخاری میں کہیں نام ونشان نہیں ہے

(۵)حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ”صلوة الرسول “ ص۲۱۸ میں ”رکوع کی دعائیں“ کے تحت چوتھی دعا ىہ درج کی ہے۔

”سبحان اﷲ ذی الجبروت والملکوت والکبریاءوالعظمة“

اور حوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ ىہ حدیث نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔

(۶)حکیم صادی سیالکوٹی صاحب نے صلوة الرسول ص۱۵۳ پر” اذان کے جفت کلمات“ کا عنوان دے کر اذان کے کلمات ذکر کىے ہیں اورحوالہ بخاری و مسلم کا دیا ہے حالانکہ اذان کے ىہ کلمات نہ بخاری میں ہیں نہ مسلم میں۔

(۷) حکیم صاحب نے صلوة الرسول ص۱۵۴ پر”تکبیر کے طاق کلمات“ کا عنوان کے تحت تکبیر کے الفاظ درج کئے ہیں اور حوالہ بخاری ومسلم کا دیا ہے حالانکہ تکبیر کے ىہ الفاظ نہ بخاری میں ہىں نہ مسلم میں۔

(۸)حکىم صاحب صلوة الرسول ص۱۵۶ پر ”اذان کا طریقہ اور مسائل“ کی جلی سرخی قائم کر کے اس کے ذىل میں لکھتے ہیں

”حی علی الصلوة کہتے وقت دائیں طرف مریں اور حی علی فلاح کہتے وقتا بائیں مڑیں ولایستدر اور گھو میں نہیں یعنی دائیں اور بائیں طرف گردن موڑیں گھوم نہیں جانا چاہىے (بخاری ومسلم)

بخار ی شریف کے غلط حوالے

قارئین کرام!! غیر مقلدین حضرات جب کوئی عمل اختیار کرتے ہیں تو چاہے وہ غلط کیوں نہ ہو اس ثابت کرنے کے لئے غلط بیانی سے بھی گریز نہیں کرتے بلا حھجک بخاری کے غلط حوالے دےدىتے ہیں حالانکہ بخاری میں ان کو کوئی وجود نہیں ہوتا دو چار حوالے اس سلسلہ کے بھی نذر قارئین کىے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) مولانا ثناءاﷲ امرتسری صاحب تحریر فرماتے ہیں

”سینہ پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کی روایات بخاری ومسلم اور ان کی شروح میں بکثرت ہیں“

مولانا کی ىہ بات بالکل غلط ہے بخاری ومسلم میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایات تو درکنار اىک روایت بھی موجود نہیں۔

(۲)فتاوی علما حدیث میں اىک سوال کے جواب میں تحریر ہے۔

”جواب صریح حدیث سے صراحتاً ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، دعا ہونے کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا کر پڑھنا والیٰ ہے، رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے، بخاری شریف میں رکوع کے بعد ہے الخ“

غیر مقلد مفتی صاحب کا ىہ جواب بالکل غلط ہے، بخاری شریف پڑھ جائىے، پوری بخاری میں قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کا کہیں ذکر نہیں ملے گا، بلکہ اس کا الٹ یعنی رکوع میں جانے سے پہلے قنوت پڑھنے کا ذکر متعددمقامات پر ملے گا۔

7۔غیرمقلدین کےچٹ پٹے مسائل

۔عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ عیسی کی شکل میں ظاہر ہوا،غیرمقلد کہتے ہیں جس شکل میں چاہے ظاہر ہوسکتا ہے

(ہدیۃ المہدی)۔

۲۔اللہ آدم کی شکل کا ہے اس کی آنکھ ہاتھ ہھتیلی مٹھی انگلیاں پہنچا بازو سینہ پسلی پاؤں پنڈلی سب کچھ ہے

(ہدیۃ المہدی۱،۹)

۳۔حافظ عبداللہ روپڑی مسئلہ وحدۃالوجود کو حق مانتے ہیں

(فتاوی اہل حدیث۱:۱۵۰)

۴۔نواب صدیق حسن خان مسئلہ وحدۃالوجود کو حق مانتے ہیں

(ماثر صدیقی)

۵۔رام چندر کرشن جی لچھمن ،زراتشت مہاتما بدھ یہ سب انبیاء صالحین میں سے ہے ہم پر واجب ہے کہ سب رسولوں پر بلا تفریق ایمان رکھیں

(ہدیۃ المہدی۱:۲۴)

۶۔اہل حدیث شیعان علی ہیں۔

۷۔خلفائے راشدین کو گالیاں دینے سے آدمی کافر نہیں ہوتا

(نزل الابرار۲:۳۱۸)

۸۔خطبہ جمعہ میں خلفائے راشدین کےذکر کا التزام بدعت ہے

(ہدیۃ المہدی ۱:۱۱۰)

۹۔(صحابہ کرام میں سے)ولید(بن مغیرہ)معاویہ(بن سفیان)عمرو(بن عاص)مغیرہ(بن شعبہ) سمرہ (بن جندب)فاسق ہیں

(نزل الابرار۳:۹۴)

۱۰۔اصول میں یہ بات طے ہوگئی ہے کہ صحابہ کاقول حجت نہیں

(عرف الجادی:۱۰۱)

۱۱۔صحابہ کا اجتہاد امت میں سے کسی فرد پر بھی حجت نہیں

(عرف الجادی :۲۰۷)

۱۲۔اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں

(عرف الجادی:۳)

۱۳۔کافر کاذبیحہ حلال ہے اس کا کھانا جائز ہے

(عرف الجادی:۱۰)

۱۴۔اگر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی ہوتو بھی حلال ہے کھاتے وقت پڑھ لے

(عرف الجادی:۱۱)

۱۵۔بیک وقت چار عورتوں سےزائدنکاح جائز ہے

(عرف الجادی:۱۱۱)

۱۶۔اونچی قبروں کو زمین کے برابر کردینا واجب ہے چاہے نبی کی قبر ہویا ولی کی۔

(عرف الجادی:۶۰)

۱۷۔انبیاء اور اولیاء کی قبروں پر نہیں جانا چاہئے تاکہ امر جاہلیت رواج نہ پائے۔

(عرف الجادی:۸۵)

۱۸۔مال تجارت اور سونے چاندی کےزیورات میں زکوۃ واجب نہیں ہے

(بدورالاہلہ:۱۰۲)

۱۹۔مرزائی مسلمان ہیں

(مظالم روپڑی:۳۷)

۲۰۔مرزائی عورت سے نکاح جائز ہے

(اہل حدیث،۲نومبر۱۹۳۴ء)

۲۱۔مرزائی مسلمانوں کےساتھ قربانی میں حصہ دار بن جائے توسب کی قربانی  صحیح ہے

(فتاوی علمائے حدیث)

۲۲۔رسول اقدس ﷺ کی مزار مبارک کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ کاسفر کرنا جائز نہیں

(عرف الجادی:۲۵۷)

۲۳۔مؤذن کے لئے مرد ہونا شرط نہیں

(بدورالاہلہ:۳۸)

۲۴۔عامی کے لئے مجتہد یا مفتی کی تقلید ضروری ہے

(نزل الابرار۱:۷)

8۔مکے اور مدینے والوں سے نام نہاد اہلحدیثوں کے شدید اختلافات

آج کل غیر مقلد ین (اہلحدیثوں) نے اپنی غیر مقلدیت کی مردہ تحریک میں جان ڈالنے کےلئے حرمین شریفین مکے اور مدینے کی خدمت گزار حکومت اور سعودی ائمہ اور مشائخ کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا ہوا ہے کہ وہ لوگ بھی ہماری طرح اہلحدیث (غیر مقلد) ہیں اس لئے ہم اہل السنة الجماعة کے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکے کو بچانے کے لیئے اختصار سے مکے اور مدینے والوں کا مسلک اور غیر مقلد ین (اہلحدیثوں) کے مسلک کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں ۔ جس سے یہ بات روشنی کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ مکے اور مدینے والے غیر مقلدین (اہلحدیثوں کی طرح) نہیں ہیں بلکہ وہ اہل السنہ و الجماعة ہیں۔

(۱) مکے اور مدینے والے اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے قائل ہیں (مکے اور مدینے والوں کا مسلک )

غیر مقلدین اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے منکر ہیں ۔

(۲) مکے مدینے والے قیاس شرعی کے قائل ہیں ۔

غیر مقلدین قیاس شرعی کے منکر ہیں ۔

(۳) مکے مدینے والے اجتہاد ائمہ کے قائل ہیں ۔

غیر مقلدین اجتہاد ائمہ کے منکر ہیں ۔

(۴) مکے مدینے والوں کے نزدیک ہر ایک کو اجتہاد کا حق نہیں ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک ہر خواندہ نا خواندہ مسلمان کو اجتہاد کا حق ہے ۔

(۵) مکے مدینے والوں کے نزدیک غیر مجہتد کیلئے اجتہاد حرام ہے اور تقلید واجب ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک کسی بھی امام کی تقلید حرام اور شرک ہے ۔

(۶)مکے مدینے والے امام اہل سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد ہیں ۔

غیر مقلدین کے نزدیک کسی بھی امام کی تقلید حرام اور شرک ہے ۔

(۷) مکے مدینے والے فقہ کے قائل ہیں ۔

غیر مقلد ین فقہ کے منکر ہیں ۔

(۸)مکےمدینے والے اصول فقہ کے قائل ہیں ۔

غیر مقلدین اصول فقہ کے منکر ہیں ۔

(۹) مکے مدینے والے چاروں فقہ کو صراط مستقیم سمجھتے ہیں ۔

غیر مقلدین چاروں مکاتب کو صراط مستقیم سے منحرف چار خطوط یعنی چار شیطانی راستے قرار دیتےہیں ۔

(۱۰)مکے مدینے والے چاروں فقہ کو ائمہ اربعہ سے ثابت سمجھتے ہیں ۔

غیر مقلد ین کہتے ہیں کہ چاروں فقہ ائمہ اربعہ کے بعد ان کے شاگردوں نے ان کی طرف نسبت کر کے فقہ جعفریہ کی طرح جھوٹی بنالی ہے ۔

(۱۱) مکے مدینے والوں کے نزدیک تمام مقلدین حنفی، مالکی ، شافعی ، حنبلی سب فرقہ نا جیہ اہل السنة والجماعة ہیں ۔

غیرمقلدین کے نزدیک صرف اور صرف ان کی جماعت جنتی ہے باقی تمام مقلدین مشرک اور جہنمی ہیں۔

 (۱۲)مکےمدینے والوں کے نزدیک سنت رسولﷺ کی طرح سنت خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم دین و سنت کا حصہ ہے ۔

غیر مقلدین سنت خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم کے منکر ہیں ۔

 (۱۳) مکے مدینے والوں کی اہلحدیث کے نام سے کوئی جماعت نہیں ۔

غیر مقلدین اپنے آپ کو ہمیشہ اہلحدیث کہلواتے ہیں ۔

 (۱۴) مکے مدینے والوں کے نزدیک اہلحدیث کوئی مذہبی لقب نہیں بلکہ علمی لقب ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک اہلحدیث مذہبی لقب ہے یعنی اہلحدیث ہر وہ شخص ہے جو خواہ جاہل ہی کیوں نہ ہو ۔

 (۱۵) مکے مدینے والوں کے نزدیک روضہ رسول ﷺ پر پڑھا ہوا درود و سلام وہ خود سنتے ہیں ۔

غیر مقلدین صلوٰة سلام کے منکر ہیں ۔

 (۱۶) مکے مدینے والوں کے نزدیک روضہ رسول ﷺ کی حفاظت اور خدمت ضروری ہے ۔

غیر مقلدین کے نزیک روضہ رسول ﷺ شرک و بدت ہے اس کا گرانا واجب ہے ۔

 (۱۷) مکے مدینے والے ننگے سر نماز نہیں پڑہتے ، نماز میں تو کجا وہ بازار میں بھی ننگے سر نہیں گھومتے۔

غیر مقلدین ہمیشہ ننگے سر نماز پڑہتے ہیں اور اس کو سنت سمجھتے ہیں ۔

 (۱۸) مکے مدینے والے نماز میں سینے پر ہاتھ نہیں باندھتے ناف کے نیچے یا ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے ہیں ۔

غیر مقلدین ہمیشہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اور اپنے عمل کو سنت سمجھتے ہیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو خلاف سنت اور بیہودہ فعل سمجھتے ہیں

(۱۹) مکے مدینے والے امام نماز فجر ، مغرب، عشاءمیں سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ آواز بلند (جہر) نہیں پڑھتے اور نہ سنت سمجھتے ہیں ۔

غیر مقلدین ہمیشہ نماز فجر ، مغرب عشاءمیں بسم اللہ آواز بلند (جہر) سے پڑھتے ہیں  ۔

 (۲۔) مکے مدینے والوں کے نزدیک بغیر فاتح پڑھے امام کے ساتھ رکوع میں ملنے والی رکعت مکمل ہو جاتی ہے ۔

غیر مقلدین کے نزدیک بغیر فاتحہ کے رکوع پانے کے باوجود رکعت دوبارہ پڑھی جائے ۔

 (۲۱) مکے مدینے والے پہلی اور دوسری رکعت کے دو سجدوں کے بعد سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

غیر مقلدین دو سجدوں کے بعد بیٹھ کے پھر کھڑے ہوتے ہیں  ۔

 (۲۲) مکے مدینے والوں کے نزدیک مسنون تراویح بیس رکعت ہے اور بھی مکہ مدینے میں بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہے ۔

غیر مقلدین بیس رکعت سنت تراویح کو بدعت کہتے ہیں اور ہمیشہ آٹھ رکعت تراویح پڑھتے ہیں ۔

 (۲۳) مکے مدینے والے سبحان الاعلی کا جواب بلند آواز سے نہیں دیتے-

غیر مقلدین بلند آواز سے سبحان الاعلی کہ کر جواب دیتے ہیں-

(۲۴) مکے مدینے والے پہلی اور تیسری رکعت میں دو سجدوں کے بعد سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

غیر مقلدین دو سجدوں کے بعد بیٹھ کر پھر کھڑے ہوتے ہیں۔

(۲۵) مکے مدینے والے رمضان اور غیر رمضان میں صرف اور صرف تین (۳) رکعت وتر پڑھتے ہیں۔

غیر مقلدین رمضان میں تین (۳) رکعت وتر اور باقی مہینوں میں ایک (۱) رکعت وتر پڑھتے ہیں۔

(۲۶) مکے مدینے والے کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔

غیر مقلدین کے نزدیک بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز جنازہ باطل ہے۔

(۲۷) مکے مدینے والے نماز جنازہ اہل سنت والجمات حنفیوں کی طرح پست آواز سے پڑھتے ہیں۔

غیر مقلدین نماز جنازہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔

(۲۸) مکے مدینے والے سجدوں میں جاتے وقت گھٹنوں سے پہلے زمین پر ہاتھ نہیں رکھتے۔

غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت ہمیشہ گھٹنوں سے پہلے زمین پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اسے سنت سمجھتے ہیں۔.

(۲۹) مکے مدینے والے جمعہ میں دو (۲) اذانوں کے قا‌‌‍ ئل ہیں۔

غیر مقلدین جمعہ میں صرف ایک (۱) اذان کے قائل ہیں۔

(۳۰) مکے مدینے والے جمعہ کے خطبے میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کے ذکر کو بیان کرنا فخر سمجھتے ہیں۔

غیر مقلدین جمعہ کے خطبے میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کے ذکر کو بیان کرنا بدعت سمجھتے ہیں۔

(۳۱) مکے مدینے والوں کے نزدیک ایک مجلس میں دی گئی تین(۳) طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اوربیوی شوہر پر حرام ہو جاتی ہے۔

غیر مقلدین ایک مجلس میں دی گئی تین(۳) طلاقیں ایک ہی شمار کرتے ہیں اور اوربیوی شوہر پر حلال سمجھتے ہیں۔

(۳۲) مکے مدینے والے تین(۳) طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کے قائل ہیں۔

غیر مقلدین والے تین(۳) طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کےمنکر ہیں۔

(۳۳) مکے مدینے والے ایصال ثواب کے قائل ہیں۔

غیر مقلدین والے ایصال ثواب کے منکر ہیں۔

(۳۴) مکے مدینے میں فقہی نظام رائج ہے۔

غیر مقلدین فقہی نظام کو کفر کے مترادف سمجھتے ہیں۔

9۔غیرمقلدین کی خانہ تلاشی

 (۱)عبداللہ روپڑی فتاوٰی اہلحدیث میں لکھتے ہیں:"دیوبندی اہلسنت ہیں

(جلد١صفحہ٦)

اور دوسرے موصوف عبداللہ بہاولپوری رسائل بہاولپوری میں لکھتے ہیں"حنفی عیسائیوں سے بھی بدتر ہیں"

(صفحہ٣)


(۲)مسٹر زبیر علی زئی زکوۃ کے سلسلے میں لکھتے ہیں،اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے،اونٹ،بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم

(فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم ص181)

مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد:اونٹ نر و مادہ ، گائے نر و مادہ ، بھیڑ نر و مادہ ، بکری نر و مادہ ۔ اس کی تفصیل بھی سورۃ الانعام میں موجود ہے اس بناءپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کیلئے انہی جانوروں میں سے انتخاب کیا جائے اور بھینس کی قربانی سے گریز کرنا چاہیے ۔

مولوی عبدالستار فتاوٰی ستاریہ میں لکھتے ہیں:"بھینس کی قربانی جائز ہے"

(جلد٢صفحہ١٥)

اور عبداللہ بہاولپوری لکھتے ہیں"بھینس کی قربانی نہیں ہوتی"

(رسائل بہاولپوری ،صفحہ١٢٧)

(۳)مولوی ابوالبرکات لکھتے ہے :"تہجد کیااذان نہیں ہے"

(فتاوٰی برکاتیہ صفحہ24)

 اکثر غیر مقلدین تہجد کی اذان کہتے ہیں اور بڑے زور سے ثابت کرتے ہیں -:

(۴)عبداللہ بہاولپوری لکھتے ہے:"ننگے سر نماز سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔جو ننگے سر نماز نہ پڑھے اسے دشمن رسول بنارہے ہیں"۔

(رسائل بہاولپوری،صفحہ 205)

اور فتاوٰی علمائے حدیث جلد 2 صفحہ 281 پر لکھا ہے:"ننگے سر نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ "نیز لکھتے ہیں"" کوئی حدیث مرفوع میری نظر سے نہیں گزری جس سے اس عادت کا جواز ثابت ہو۔"

(جلد4صفحہ287)

"ننگے سر نماز سنت اور مستحب بھی نہیں"

(صفحہ287)

"ننگے سر نماز بے عملی بھی ہے اور بدعملی بھی"

(صفحہ288)

"جہلاء ننگے سر نماز پڑھنے کو سنت سمجھتے ہیں"

(صفحہ288)

سید داؤد غزنوی کہتے ہیں :ننگے سر نماز مکروہ ہے رسم بد ہے ۔ نصارٰی کے ساتھ مشابہت ہے۔ نیز فرماتے ہیں منافق کے ساتھ مشابہت ہے۔

(صفحہ291)

(۵)صادق سیالکوٹی :صلوٰۃ الرسول صفحہ 79 پر جرابوں پر مسح کرنے کا باب قائم کرکے ثابت کرتے ہیں کہ "جرابوں پرمسح کرنا چاھئے"۔

اور عبدالرحمان مبارک پوری غیر مقلد کہتے ہیں

"خلاصہ کلام یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کے معاملہ میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملتی جس پر جرح نہ ہو۔"

(تحفۃ الاحوذی،جلد1،صفحہ102)(یعنی مسح سے متعلق سب احادیث مجروح ہیں)

مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:“تقلید مطلق اہلحدیث کا مذہب

(ثنائیہ،جلد1،صفحہ256)

مطلب یہ کہ خاص متعین عالم یا امام کی تقلید نہیں کرتے بلکہ جس کی چاہیں کرلیتے ہیں۔

اور صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں:“تقلید گمراہی ہے ۔ہلاکت ہے۔“

(سبیل الرسول،صفحہ166)

“تقلید ظلمت ہے“

(صفحہ153)

“تقلید آفت ہے“

(صفحہ157)

“تقلید بے علمی ہے“

(صفحہ 158)

(۶)صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں (صلوٰۃ الرسول):“رفع یدین شروع کردیں سنت موکدہ ہے۔“

(صفحہ205)

“حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رفع یدین کرتے تھے“

(صفحہ209)

“تین مقامات پر چھوڑنا اور پہلی بار کا رفع یدین لینا بے انصافی نہیں ہے“

(209)

اور فتاوٰی علماء الحدیث جلد 3،صفحہ160،161 میں لکھا ہے:“رفع یدین اور چھوڑنا دونوں ثابت ہیں۔“

پیر جھنڈا سندھی اور اس کے ماننے والے غیر مقلد قومہ میں یعنی رکوع سے اٹھ کرہاتھ باندھ لیتے ہیں ، پیر جھنڈہ کا بھائی اور دوسرے تمام غیر مقلدہاتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔

(۷)پرانے غیر مقلد سارے جنازہ بلند آواز سے پڑھتے تھے۔لیکن موجودہ غیر مقلدین اہلسنت کی طرح ، جنازہ آہستہ پڑھنے کے قائل ہورہے ہیں۔جسطرح خالد گرجاکھی نے لکھا ہے۔

“جنازہ میں سورت فاتحہ آہستہ پڑھنی چاھئے

(صلوٰۃ النبی،صفحہ394)

اورمبشر ربانی غیر مقلد لکھتا ہے:“دلائیل کی رو سے جنازہ کی قراءت سراً اولٰی اور بہتر ہے۔“

(احکام و مسائل،جلد1صفحہ223)

10۔غیرمقلدین کےضعیف دلائل

سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایا ت کاجائزہ

اس ملک میں جس طر ح قرآن پا ک حنفی لے کر آئیں ہیں اسی طر ح نما ز نبوی بھی احناف کے ذریعہ پہنچی ہے جس طرح اس ملک میں قرآن پا ک قاری عا صم کو فیؒ کی قرات اور قاری حفص کو فی ؒکی روایت کے مطابق پہنچا اسی طر ح نما ز سیدنا امام اعظم ابو حنفیہ کوفی ؒکی تد وین کے مطا بق پہنچی ۔

جس طر ح بعض لو گ اس قرآن کے دشمن ہو گئے اور اس کے خلا ف شا ذ اور مجر وح بلکہ موضوع روایا ت تک پیش کر دیں اسی طر ح فر قہ غیر مقلدین نے بھی متو اتر نما ز کے خلا ف ضعیف اورمجروح روایات کو پیش کر نا اپنا دینی فر یضہ سمجھا ،جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ امت کا  " اتحاد " پا رہ پا رہ ہو گیا اور عوام میں دین بیزاری کا مہلک مر ض پیدا ہو گیا ۔

چنانچہ اس متو اترنما زکا مذاق اڑاتے ہو ئے ایک غیرمقلد مشہو ر معر وف عالمد"فیض عالم صدیقی  "اپنی کتاب  "اختلا ف امت کا المیہ  "ص۷۸پر رقمطرا ز ہیں :

 "مردوں کو ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چاہییں۔ " (کتب فقہ )یہاں ایک لطیفہ یا د آگیا کہ خلفائے بنی عباس میں سے ہارون کا ایک نما زمیں ازار بند کھل گیا اوراس نے سینے سے ہا تھ نیچے کر کے ازار بند سنبھال لیا ،نما ز سے فر اغت کے بعد مقتدیوں نے حیرانی سے ہارون الرشید کے اس فعل کو دیکھا۔ قاضی ابو یوسف نے فتوی دے دیا کہ نا ف کے نیچے ہا تھ با ندھنا ہی صحیح ہے ۔ "

قارئین !اب ہم ان روایا ت کا تحقیقی علمی جا ئزہ لیتے ہیں جو اس متواتر نما ز کے خلا ف پیش کرتے ہیں:

 "اخبرنا ابو طاہر نا ابو بکر نا ابو مو سی نا مٔومل نا سفیا ن عن عاصم ابن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال  "صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ۔

صحیح ابن خزیمہ ج۱ ص۲۴۳

1 : اس روایت کے بارے میں فرقہ غیر مقلدین کے محقق علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں :

 "اسنادہ ضعیف  "اس کی سند ضعیف ہے ۔

(صحیح ابن خزیمہ ج۱ص۲۳۴حاشیہ ۴۷۹المکتب الاسلامی)

2 : فرقہ غیر مقلدین کے ایک اورعالم ابو عبد السلام عبد الرؤ ف بن عبدالحنا ن اپنی کتا ب  "القول المقبول فی شر ح وتعلیق صلوٰ ۃ الر سول  " میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :

 "یہ سند ضعیف ہے کیونکہ مؤمل بن اسما عیل  " سیئی الحفظ  " ہے :جیسا کہ ابن حجرؒ نے تقریب میں (۲/۲۹۰)میں کہا ہے، ابو زرعہؒ نے کہاہے کہ  " یہ بہت غلطیا ں کر تا ہے، اما م بخاریؒ نے اسے " منکر الحدیث  " کہا ہے ،ذہبیؒ نے کہا ہے کہ  "یہ حا فظ عا لم ہے مگر غلطیاں کر تاہے ۔

(میزان ۴/۲۲۸،القول المقبول ۳۴۰)

تبصرہ:اما م بخاری ؒ فر ماتے ہیں:  "کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ۔ "(۳)

(میزان الا عتدال ج ۱ص۶)

جس کو میں  "منکر الحدیث  " کہہ دوں اس سے روایت حلا ل نہیں ہے ۔

گویا کہ اما م بخاری ؒ کے نزدیک (بقول فر قہ غیر مقلدین )یہ روایت بیان کرنا جا ئز نہیں پھر بھی اس روایت کو پیش کرنا بڑی جسا رت ہے اس کو فرقہ واریت کے سوا اور ہم کیا کہیں؟؟؟

3: مشہور غیر مقلد عالم علامہ مبا رکپوری اپنی کتاب  "ابکا ر المنن  " میں رقمطراز ہیں:  "جس روایت کے اندر " مؤمل  " ہو ،وہ ضعیف ہو تی ہے ۔

(ابکا ر المنن ص۱۰۹)

4: متعصب غیر مقلد زبیرعلی زئی نے بھی اس روایت کوضعیف تسلیم کیا ہے ؛چنانچہ وہ لکھتا ہے :

 "یہ روایت مؤمل کی وجہ سے ضعیف نہیں بلکہ  " سفیا ن الثوری  "کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

(نما زمیں ہاتھ باندھنے کا حکم اورمقام ص۲۰) "والحق ما شھدت بہ الا عدائ۔ "

نیز زبیر علی لکھتا ہے:   "لہٰذا سفیا ن ثوری ؒ (جو کہ ضعفا ء اور مجا ہیل سے تد لیس کر تے تھے)کی یہ معنعن (عن والی)روایت ضعیف ہے۔

(نورالعینین ص۱۲۷)

سینہ پر ہا تھ با ندھنے والی روایت میں بھی سفیان ثوری ؒ  "عن  "سے روایت کر رہے ہیں ،تو یہ بھی ضیعف ہوئی۔

اپنی دوسری کتا ب میں زبیرعلی زئی لکھتا ہے:

 "وا ضح رہے کہ ثقہ مد لس کی روایت بخاری ومسلم کے علاوہ  "عن  "کے ساتھ ہو، تو ضعیف ہو تی ہے۔

(تسھیل الوصول الی تخریج وتعلیق صلو ۃ الر سول ص ۲۱۰)

میری تمام غیر مقلدین سے گز ارش ہے کہ متواتر نماز کے خلاف اس ضعیف و مجروح روایت کو پیش کر نا چھوڑ دیں اگر کوئی صحیح حدیث ہے تو پیش فر مائیں ورنہ کہہ دیں کہ ہما را مقصد عمل بالحدیث نہیں بلکہ متو اتر نما زاور فقہ حنفی کی مخا لفت ہے اور بس۔

5 : فرقہ غیر مقلدین کے ایک اور مشہو ر عالم  " عبدا لرحمن خلیق  " اپنی کتا ب میں ایک حدیث پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :د"اس سند میں ایک راوی  " عا صم بن کلیب  "ہے ،با تفا ق کبا ر محدثین سخت درجہ کا ضعیف راوی ہے۔

(با رہ مسا ئل ص۳۸/۳۹)

سینہ پر ہاتھ با ندھنے والی روایت مذکو رہ میں بھی یہی " عا صم بن کلیب " ہے، جو کہ بقول غیر مقلدین سخت درجہ کا ضعیف راوی ہے۔

خلیق صاحب کو لکھنا چا ہیے تھا کہ یہ جب احناف کی دلیل میں آئے تو ضعیف ہوگا جب غیر مقلدین کی دلیل میں ہو تو ثقہ با تفا ق ہے تا کہ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاس…پر مکمل عمل ہو جا تا

11۔غیرمقلدین کے چیلنجس

اس ملک میں جس طرح قرآن او رنبیﷺ کی سنت اہل سنت  والجماعت احناف کے ذریعے پہنچے، اسی طرح نبی اکرمﷺ والی نماز بھی اس ملک میں احناف ہی لائے ان کی محنت سے کروڑوں لوگ مومن اورنمازی بنے اور نماز کےبارے میں تقریباً بارہ سو سال تک اس ملک میں کوئی جھگڑا نہ تھا، اس ملک میں تقریباً ایک ہزار سال تک فقہ حنفی بطور اسلامی  قانون نافذ  رہی جب انگریز ی حکومت قائم ہوئی تو ایک فرقہ غیرمقلدین کا پیدا ہوا جس نے اہل سنت  کے ایمان اورنماز کو غلط قرار دیا اوراس ملک میں پہلی مرتبہ مذہبی منافرت اور فتنہ کا بیج بویا،آئے دن مناظروں کے چیلنج شروع کردیے،اہل سنت والجماعت  دنیا بھر میں قادیانی فتنہ، رفض ،اہل شرک وبدعت اورمنکرین حدیث کے فتنوں کے تعاقب میں مصروف تھے کہ ان فتنوں سے اہل سنت کا ایمان محفوظ کیا جائے اور یہ فرقہ ان سب کو چھوڑ کر اہل سنت کو مناظروں کا چیلنج  دیتا تھا  ؛چنانچہ مجبوراً ان کے چیلنج کو قبول کرکے مناظرے کئے گئے ،مناظروں میں شکست کے بعد  پھر انعامی چیلنج کے اشتہاروں سے  عوام میں فتنہ پھیلانا  شروع کیا۔

ہندوستان میں فقہ حنفی والی حکومت ختم ہوئی اور انگریز کا دور آیا تو جہاد کو حرام قراردینے کے لئے مرزا قادیانی کو مسیح موعود کا دعوی  کرناپڑا اورمسیح کی کرسی خالی کرانے کے لئے اصلی مسیح علیہ السلام کی حیات کا انکار کردیا ،علمائے اسلام نے قرآن پاک کی کئی آیات اوراحادیث مشہورہ سے حیات مسیح کو ثابت کردیا جس کا جواب مرزا قادیانی کے پاس کوئی نہیں تھا اب اسے فکر ہوئی کہ یہ آیات اوراحادیث پڑھ کر لوگ میرے عقیدہ سے برگشتہ بھی ہوجائیں گے اورمجھے  قرآن اوراحادیث کا منکر بھی کہیں گے  اس کے بعد عام مسلمان میری بات بھی نہیں سنیں گے، اس نے سوچا کہ جس حربے  میں پہلے کفار نے معجزات کی عظمت کو کم کیا تھا  اورفرمائشی معجزہ نہ دکھائے جانے پر شور مچادیا تھا کہ کوئی معجزہ ہوا ہی نہیں میں بھی کوئی فرمائشی دلیل مانگ لوں  اور فرمائش پوری نہ ہونے پر یہی شور مچادوں گا  کہ قرآن وحدیث میں حیات مسیح پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں چنانچہ ایک عبارت اس نے خود بنائی کہ اگر کوئی شخص قرآن یا ایک ہی حدیث صحیح  میں یہ الفاظ دکھادے کہ عیسی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے،جس میں آسمان کا لفظ ہوتو  میں ہزار روپیہ انعام دوں گا وغیرہ،یہ چیلنج شائع ہونا تھا کہ مرزائیوں نے آسمان سرپر اٹھالیا کے مسلمانوں کے پاس قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہیں  مسلمان دلائل بیان کرنے لگتے توشور مچاتے کہ یہ الفاظ جن کا مطالبہ مرزا صاحب نے کیا ہے دکھادو اورایک ہزار روپیہ انعام لےلو اس دھوکے میں کتنے مرزائی مبتلا ہوگئے مرزا قادیانی نے جن آیات اوراحادیث متواترہ کا انکار کیاتھا وہ بات بھی دبادی کہ بس اورآیتوں حدیثوں کی ضرورت نہیں بس یہ الفاظ جن کا مطالبہ مرزا نے کیا ہے دکھادو۔

ملکہ وکٹوریہ کی نظر کرم سے ہندوستان میں فرقہ غیرمقلدین کا ظہور ہوا انہوں نے تقریر وتحریر کےذریعے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ ہمارا ہر ہر مسئلہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے اورحنفیوں کےمسائل قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ، جب میدان مناظرہ میں اترے تومعاملہ بالکل برعکس نظر آیا کہ اہل سنت والجماعت احناف توقرآن وحدیث سے دلائل پیش کرتے ہیں اور غیر مقلدوں کا دامن خالی ہے ،مثلاً اہل سنت قرآن وحدیث سے فقہ کی عظمت ثابت کرتے اور غیرمقلدین فقہ کی مذمت میں نہ قرآن سناتے نہ حدیث ،مسلمان اجماع کا حجت ہونا قرآن وحدیث سے ثابت کرتے یہ ایک آیت یا ایک حدیث بھی پیش نہ کرسکتے کہ امت کااجماع گمراہی پر ہوسکتا ہے اہل سنت قرآن وحدیث سے اجتہاد کا جواز ثابت کرتے یہ ایک آیت یا حدیث بھی پیش نہ کرسکتے کہ اجتہاد کرنا شیطان کاکام ہے،اہل سنت فقیہ ومجتہد کی طرف رجوع (تقلید)کا ثبوت قرآن وحدیث سے پش کرتے یہ اجتہادی  مسائل میں مجتہد کی تقلید کا شرک اورحرام ہونا نہ کسی آیت سے ثابت کرسکتے نہ کسی حدیث سے ،اہل سنت احادیث صحیحہ سے ثابت کرتے کہ مجتہد اپنے ہر اجتہاد میں ماجور ہوتا ہے لیکن یہ مجتہدین کےخلاف بدگمانی پھیلانے اوربدزبانی کرنے کاجواز نہ کسی آیت سے دکھاسکتے نہ حدیث سے ۔

چنانچہ کفار اورمرزا قادیانی کے تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئےغیرمقلدین نے اشتہارات کا سہارا لیا،اورجس وقت جنگ آزادی کی سزا میں مسلمان کالے پانی یاملک کی جیلوں میں قید تھے، مقدمات چل رہے تھے،  پھانسیوں کے حکم سنائے جارہے تھے اورمسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی سخت ضرورت تھی ،ایک انعامی چیلنج کا اشتہار نہ انگریزوں کے خلاف  نہ ہندؤوں کے خلاف نہ سکھوں کے خلاف بلکہ حنفیوں کے خلاف شائع کیا،دس سوالات کا انعامی چیلنج پورے ملک میں پھیلایا ہر گھر اورہر مسجد میں لڑائی شروع کرادی اب اگر علماء اہل سنت اپنے مسائل کے دلائل پر قرآن وحدیث سناتے توان کو بالکل نہ مانتے کہ ان آیات واحادیث میں ہمارے الفاظ نہیں ۔

مناظروں میں پے درپے شکست اورعدالت میں شدید ناکامی کےبعد ان کے بعض ذمہ دار لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے،امام احمد ؒنے فرمایا تھا کہ ہم نے اہل اسلا میں سے کسی کو نہیں سنا جو یہ کہتا ہو کہ جب امام جہر سے قرأ ت کرتا ہے اور مقتدی اس کے پیچھے قرات نہ کرے تومقتدی کی نماز باطل اورفاسد ہوجاتی ہے اور فرمایا کہ یہ آنحضرتﷺ ہیں اوریہ آپﷺ کے صحابہ اور تابعین ہیں اوریہ امام مالک ہیں اہل حجاز میں اوریہ امام ثوری ہیں اہل عراق میں اور یہ امام اوزاعی ہیں اہل شام میں اور یہ امام لیث بن سعد ہیں اہل مصر میں ان میں سے کسی نے یہ نہیں لکھا کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اوراس کا امام جہر قرات کرے اورمقتدی خود قرات نہ کرے تواس کی نماز باطل اورفاسد ہے (مغنی ابن قدامہ۱:۶۰۶) اب یہ فرقہ بھی ان ذلت آمیز شکستوں کے بعد اس پر آگیا چنانچہ ان کے محدث اعظم مولوی محمد گوندلوی اوران کے ذمہ دار شاگرد مولوی ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں امام بخاری سے لےکر تمام محققین علمائے اہل حدیث میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو فاتحہ نہ پڑھے وہ بے نماز ہے کافرہے

(توضیح الکلام۱:۵۱۷)

جب اس جماعت کےمحقق اور ذمہ دار حضرات نے ہھتیار ڈال دئے ہیں توان غیر محقق اور غیر ذمہ دار حضرات کو بھی اب یہ اشتعال انگیز کام ختم کردینا چاہئے تھا ۔

12۔فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث (غیر مقلدین) کے جھوٹ

غير مقلدوں  کےپاس نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کی نہ کوئی صحيح حديث ہے اور نہ ہی خيرالقرون (يعنی صحابہ تابعين تبع تابعين) کا عمل نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کا موجود ہيں۔ صرف اورصرف جھوٹ ہيں۔

قرآن: الالعنت اﷲ علی الکاذبین

سنو اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔

جھوٹ نمبر1: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات....بخاری ومسلم میں بکثرت ہیں۔

( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص443)

جھوٹ نمبر2: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ہے۔

(بلوغ المرام فتاویٰ ثنائیہ ص5۔ص593)

جھوٹ نمبر3: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتلایا ہے۔

 ( ثنائیہ جلد1ص 457 نیز دلائل محمدی ص 110 حصہ دوم)

جھوٹ نمبر4: امام احمد نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھاکرتے تھے۔

یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح بخاری میں بھی ایک ایسی ہی حدیث آتی ہے۔

واللہ اعلم ثنائيہ جلد 1ص 457

جھوٹ نمبر5: ابوداؤد میں طاؤس سے مرفوعاً آیا ہے سینے پر ہاتھ باندھنا،

 (مکمل نماز مولاناعبدالوہاب ص449)

جھو ٹ نمبر6: سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بااتفاق ائمہ محدثین صحیح ہیں۔

 (شرح وقایہ ص 93 حقیقة الفقہ ص250 ازیوسف جے پوری)

جھوٹ نمبر7: ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی حدیث نہیں ہے وہ قول علیؓ ہے۔

(شرح وقایہ ص 93حقیقة الفقہ ص 250)

جھوٹ نمبر8: حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ مجددی حنفی سینہ پر ہاتھ کی حدیث کو بہ سبب قوی ہونے کے ترجیح دیتے تھے اور سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔

(مقدمہ ہدایہ جلد1 ص 111،حقیقة الفقہ جلد1 ص251)

جھوٹ نمبر9: ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایات باتفاق ائمہ محدثین ضعیف ہیں۔

 (ہدایہ جلد۱ص 350حقیقة الفقہ ص 250)

جھوٹ نمبر10: قریباً اختلاف امت کا المیہ ص96 پر یہی جھوٹ ہے۔

جھوٹ نمبر11: خالد گرجاکھی صلوٰة النبی ص157 پر یہی جھوٹ منقول ہے

جھوٹ نمبر12:خلفاء بنی عباس میں سے ہارون کا نماز میں ازار بند کھل گیا۔ سینے سے ہاتھ نیچے کرکے ازار بند سنبھال لیا مقتدیوں نے حیرانی سے اس فعل کو دیکھا قاضی ابویوسف نے فتویٰ دیا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی صحیح ہے۔

( ہدایہ باب الصلوٰة اختلاف امت کاالمیہ ص78)

جھوٹ نمبر13: ابن مسعودکا قول زیرناف کا بالکل ضعیف ہے، میں نے راہ ہدایت کیسے پائی ص 18 ابونعمان بشیراحمد حالانکہ آپ سے کوئی قول منقول نہیں ہے۔

جھوٹ نمبر14: قرة العین میں نورحسین گرجاکھی نے حدیث وائل بن حجر نقل کرکے گیارہ کتب کے حوالے دئيے ہیں۔

جواب:۔حالانکہ ان میں سے ایک میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے۔

( ص 19)

جھوٹ نمبر15:مسلم کی سند ابن خزیمہ کے متن کے ساتھ ملادی۔ملاحظہ ہو۔

( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص444)

اصل سند ابن خزیمہ جلد1 ص 243 پر ملاحظہ کریں۔ مسلم کی سند جلد1 ص 172 پر ملاحظہ کریں۔

جھوٹ نمبر16:حضرت ھلب کی روایت میں هذہ کو یدہ بنادیا۔

دین الحق محمدداؤد ارشد ص217”ویضع هذہ علی صدرہ“ اصل لفظ اسطرح ہے۔

( مسند احمد جلد۵ص ۶۲۲)

جھوٹ نمبر17:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا....سینے پر ہاتھ رکھتے تھے علامہ ترمذی نیموی حنفی نے اس کی سند کو حسن تسلیم کیا ہے۔

( دین الحق ص 218)

جواب: امام ترمذی نے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت نقل ہی نہیں کی علامہ نیموی نے نقل کرکے سینہ کا لفظ غیرمحفوظ کہا ہے۔

( آثارالسنن 86)

جھوٹ نمبر18:تین چیزیں نبوة کی عادات سے ہیں یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہرگز نہیں۔

 (دین الحق ص222)

جھوٹ نمبر19:پھر سینے پر ہاتھ باندھ کردعا پڑھے۔

 (ترمذی جلد1 ص 119) صلوٰة المصطفیٰ محمد علی جانباز ص 274 شیخ الحدیث

جھوٹ نمبر20:وائلؓ بن حجر کی ابن خزیمہ والی روایت کی ابن حجر نے تصویب فرمائی ہے۔

(فتح الباری۔ بارہ مسائل ازقلم کلیم عبدالرحمن خلیق ص 53)

جھوٹ نمبر21:حدیث علیؓ کی وضع الایدی علی الایدی الخ۔ یہ روایت ابوداؤد کے نسخہ ابن اعرابی کے علاوہ دیگرنسخ میں ثابت نہیں ہے۔

(کتاب و سنت کے مطابق نماز ترجمہ مع اضافہ ڈاکٹرخالدظفراللہ ص59)

جواب:۔ابن داسہ کے نسخہ میں ہے ادلہ کاملہ شیخ الہندؒ

جھوٹ 22:تعجب ہے مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے بھی حسب عادة محض مسئلکی حمیت میں اس زیادة کوشامل متن کیا(تحت السرة) جیسا کہ المصنف مطبوعہ مکتبہ امدادیہ مکہ میں ہے۔

ارشادالحق ص229 تصنیف مولاناسرفراز احمد اپنی تصانیف کے آئینہ میں حالانکہ المصنف جلد2 ص 351 پر لفظ تحت السرة نہیں ہے۔

جھوٹ 23:وانحر کی تفسیر حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ اس سے مراد سینے پر ہاتھ باندھنا ہے ۔بائیں پر دایاں اسے امام حاکم لائے ہیں اور حسن کہا ہے۔

 ( دلائل محمدی ص111 حصہ دوم)

مصنفہ علامہ محمدجوناگڑھی حالانکہ حسن نہیں فرمایا۔

13۔غیرمقلد علماء کےآپسی اختلافات کی سرد جنگ

میاں نذیر حسین صاحب سے لے کر مولانا محمدحسین بٹالوی تک ہندوستان میں مطلق تقلید کا انکار کہیں نہ تھا، غیرمقلدین بھی صرف تقلید شخصی کے خلاف تھے اور جملہ موعدینِ ہند اجتہادی مسائل میں فقہ حنفی کا فیصلہ لیتے تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کے عہد سے غیرمقلدین مطلق تقلید کے انکار کے درپے ہوئے؛ پھرانہی کے عہد میں ترکِ تقلید کی فضا اپنی پوری بہار پر آئی، غیرمقلدین نہ صرف مقلدین سے برسرِپیکار ہوئے؛ بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہوگئے۔

قاضی عبدالاحد صاحب خانپوری نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف ایک کتاب لکھی اور اس کا نام  "کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعہ " رکھا اور اسے  "اظہارِ کفر ثناء اللہ بجمیع اصول آمنت اللہ " (دیکھئے: سیرت ثنائی:۳۷۲۔ ہندوستان میں پہلی اسلامی تحریک:۳۹، مؤلفہ:مسعود عالم ندوی) سے ملقب کیا کہ مولوی ثناء اللہ ایمان کی تمام بنیادوں کا منکر ہے۔

غزنوی حضرات نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف اربعین لکھی اور اس پر چالیس کے قریب علماء اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید) نے دستخط کیے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کواہلِ حدیث سے خارج قرار دیا، مولانا ثناء اللہ صاحب نے  "مظالم روپڑی برمظلوم امرتسری "لکھ کر جماعت کی اندرونی حالت کو پوری طرح بے نقاب کیا۔                          

(مظالم روپڑی:۴۸، تالیف:مولانا ثناء اللہ امرتسری)

مولانا عبدالوہاب ملتانی کے خلاف بانوے علماء اہلِ حدیث نے دستخط کیے او رکہا کہ مدعی امامت (مولانا عبدالوہاب ملتانی) گمراہ ہے، اہلِ حدیث سے خارج ہے اور حدیثد"مَنْ لَمْ یَعْرِفْ امام زَمَانِہد" کونہیں سمجھا؛ پھرمولانا عبدالوہاب کے شاگرد خصوصی مولانا محمدجوناگڑھی نے مولانا عبداللہ روپڑی کے بارے میں لکھا ہے:

"یہ مولوی صاحب جھوٹے ہیں بدعقیدہ ہیں اسے علمِ دین سے بلکہ خود دین سے بھی مس نہیں اس کا وعظ ہرگز نہ سنو؛ بلکہ اگربس ہوتو وعظ کہنے بھی نہ دو، نہ اس کے پیچھے جمعہ جماعت پڑھو"۔

مولوی محمدیونس مدرسِ اوّل مدرسہ میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کے بارے میں فرمایا:

"شحص مذکور ملحد ہے  ایسے لوگوں سے قطع تعلق ضروری ہے"۔

ان حضرات کی یہ نبردآزمائی صرف اپنے علماء تک محدود نہ تھی، مولانا عبدالوہاب صاحب نے عوام اہلِ حدیث کوبھی اپنے اس فتوےٰ میں گھسیٹ لیا، مولانا عبدالجبار صاحب کھنڈیلوی، مولانا عبدالوہاب سے نقل کرتے ہیں:

 "جب تک مسلمان امام کونہیں مانتا اس کااسلام ہی معتبر نہیں  " (مقاصد الامامۃ:۱۶)  "کوئی کام نکاح ہو یاطلاق بغیر اجازتِ امامِ وقت جائز نہیں  "۔

(مقاصد الامامۃ:۱۶)

ان حضرات کے اخبار محمدی کی ایک سُرخی ملاحظہ ہو د"روپڑ کا خوفناک بھیڑیا "۔

(اخبار محمدی، دہلی، یکم جون سنہ۱۹۳۹ء)

ان کتابوں اور عنوانوں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ترکِ تقلید کے جوش میں یہ لوگ اپنے گھر میں کیسی خوفناک آگ سے دوچار تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات اہلِ حدیث پران کے ہمنوا علماء انہیں سردارِ اہلِ حدیث کہتے تھے، مولانا عبداللہ روپڑی کوان کی یہ حیثیت پسند نہ تھی، آپ نے مولانا ثناء اللہ صاحب کومخاطب کرکے فرمایا:

"ٹھیلے تلے کتا چل رہا تھا وہ سمجھا کہ ٹھیلے کومیں کھینچ رہا ہوں تمہاری مثال یہ ہے"۔ 

(ثنائی نزاع، تالیف:عبداللہ روپڑی صاحب)

غیرمقلدین کی اس سرد جنگ سے یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ترکِ تقلید کی تحریک اس وقت کس مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی۔

14۔غیر مقلدین میں مسائل کے اختلاف کی مثالیں

غیر مقلد ین علماءاپنی تقاریر اور اپنے متعلقین کے ذریعہ سے اختلافی مسائل کو ہوا دینے اور عوم الناس کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کا اپنا مشغلہ اپنے روایتی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں ،ایک مسئلہ الجھاتے ہیں اور جب اس کا جواب دیا جاتا ہے اور محسوس کرتے ہیں کہ اس سے آگے ہمارے لیے دشواری ہے ، اور ہماری عافیت اسی میں ہے کہ مزید اس میں نہ الجھا جائے  پھر کوئی دوسرا مسئلہ کھڑاکردیتے ہیں ۔

اب کچھ عرصہ سے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ، اگر ائمہ کرام کی فقہ کو نہ مانا جائے اور صرف کتاب اللہ کو اور صحیح احادیث پر عمل کیا جائے تو امت میں اختلاف باقی نہ رہے گا ۔

یہی بات غیر مقلد علماء اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھید" ایک دین چار مذہبد" کے نام سے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ جس میں اس بات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں حنفی یہ کہتے ہیں شافعی یہ کہتے ہیں مالکی یہ کہتے ہیں ، تو ان تمام باتوں کو دین کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔

اور کبھی رسائل میں یوں لکھا جاتا ہے ۔ دراصل خرابی یہیں سے واقع ہوئی ہے کہ لوگوں نے قرآن و حدیث کو سرچشمہ شریعت تصور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ائمہ کے اقوال کو بھی شریعت کا درجہ دےدیا ۔ جس کی وجہ سے امت اختلاف کے بحر عمیق میں غرق ہو گئی ۔


(ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص۱۸ ۔ ۱۲نومبر ۱۹۹۳ء)

اور کبھی اختلافات سے نکلنے کی یہ صورت پیش کی جاتی ہے ۔ اب اس کا علاج یہی ہے کہ تقلید کی بندشوں سے آزاد ہوکر قرآن و حدیث کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں ۔

( الاعتصام ص۱۹ ۔ ۱۲نومبر ۱۹۹۳ء)

ایسے بیانات سے سطحی قسم کے لوگ شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور امت میں وحدت کا عظیم الشان مقصد ذہن میں رکھنے کی وجہ اپنے علماء سے کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو امت کو وحدت میں لانے کے لیے فقہ کی قربانی دے دینی چاہیے ؟ ۔ ۔ ۔

مگر یہ محض دھوکہ ہے اور فقہ اسلامی کے خلاف زہر اگلنے ، فقہ سے متنفر کرنے اور قرآن و حدیث کے مبارک عنوان سے لوگوں کو مغالطہ دے کر اپنے مسلکی نظریات پھیلانے کی مکروہ سازش ہے ۔ اس لئے کہ اگر امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہوتی تو فقہ کے تدوینی دور سے پہلے تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ جزوی مسائل میں اختلاف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ نیز ایسی صورت میں قرآن و حدیث پہ عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ آپ آئندہ سطور میں دیکھیں گے کہ یہ طبقہ نماز اور طہارت جیسے اہم مسائل میں بھی اپنے اتحاد کا ثبوت نہیں دے سکا ۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف کا سبب فقہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔

جزوی مسائل میں اختلاف کا سبب

یہ بات کسی اور سے معلوم کرنے کی بجائے خود غیر مقلد عالم سے پوچھ لینی چاہیے کہ اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ چناچہ غیر مقلد عالم   مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اختلاف صحابہ کرام کے ملکوں میں انتشارہونے سے پیدا ہوا ۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات پر مبنی ہے جس میں رفع یدین کا ذکر نہیں ۔

(فتاوی ثنائیہ ص ۶۳۳ ج۱ ،و فتاوی علمائے حدیث ص ۲۷۵ ج۴)

اس عبارت کو غور سے پڑھیں کہ ایک بڑے غیر مقلد عالم کیا فرما رہے ہیں ۔ ان کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کا سبب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی مختلف روایات ہیں اور نماز کا حنفی طریقہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ہے ۔ یعنی اختلاف پہلے سے تھا اور ان اختلافی صورتوں میں سے ایک کو احناف نے اختیار کیا ہے ۔ تو اختلاف کا سبب ائمہ کرام کے اقوال اور ان کی فقہ تو نہ ہوئی ۔ اس لئے کہ اختلاف تو پہلے سے موجود تھا ۔

ائمہ مجتہدین کے اختلافات

حضرات صحابہ کرام سے جزوی مسائل میں اختلافات کی روایات موجود ہیں جن کی حضرات محدثین کرام باالخصوص امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات نے نشاندہی فرمائی ہے ۔ اس اختلاف کو امت کے لئے رحمت کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے علمائے امت نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے مروی اختلافی روایات میں سے تحقیق کے بعد جس کو راجح سمجھے یا محققین کی تحقیق پر اعتماد کر کے جس روایت کے مطابق کوئی مسلمان عمل کرے گا وہ اس کے لئے نجات کا ذریعہ ہو گی ۔ اس اختلاف کی وجہ سے امت کے لئے کافی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔

اب صحابہ کرام کے بعد ائمہ مجتہدین کے اختلافات کی حیثیت کیا ہے ؟ اس بارے میں غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ صاحب روپڑی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :

ائمہ مجتہدین کا اختلاف قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ نے قیاس کو زیادہ دخل دیا اس لئے اہل الرائے کہلائے۔

(فتاوی اہل حدیث ۴۲ ج۱ )

غور فرمائیں کہ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات کو قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے کہا گیا ہے ۔ تو جس طرح صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پر طعن نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات  پربھی طعن نہیں کرنا چاہیے ۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور قیاس

بعض متششدد غیر مقلدین حضرات عوام الناس میں یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث کے خلاف اجتہاد اور قیاس کیا ہے؛ حالانکہ اس کی تردید خود غیر مقلد علماء کر چکے ہیں ؛ چناچہ غیر مقلد عالم شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا ابوالبرکات مرحوم شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے سوال ہوا : کیا امام ابو حنیفہ یا کسی اور مجتہد کو اس بنا پر لعنت اللہ کہنا جائز ہے کہ انہوں نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے ۔ وضاحت فرمائیں ؟

اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کسی امام نے بھی حدیث کے خلاف اجتہاد نہیں کیا ۔ حدیث کے خلاف اجتہاد اور پھر امام ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جو حدیث کے خلاف اجتہاد کرے وہ امام نہیں ہو سکتا ۔ نہ امام ابو حنیفہ نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا اور نہ ہی کسی اور امام نے  جس وقت حدیث نہیں ملتی اس وقت مجتہد اجتہاد کرتا ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قیاس پر عمل کرنے سے ضعیف حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے۔

( فتاوٰی برکاتیہ ص ۳۰۶ )

اسی طرح مولانا محمد عبداللہ روپڑی مرحوم نے لکھا ہے ۔ اہل سنت کے کسی فرقے کا یہ مذہب نہیں کہ روایت اوردرایت { یعنی قیاس } کا درجہ مساوی ہے بلکہ حنفیہ تو ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر آگے مثالیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں غرض ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں حنفیہ نے ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس ترک کردیا ہے ۔

)فتاوٰی اہلحدیث ص۱۴ ج۱ )

نیز ایک مقام میں فرماتے ہیں احناف دیوبندی اہلسنت میں شامل ہیں ۔

(فتاوٰی اہلحدیث ص۶ج۱)

اور ایک مقام میں حضرات صوفیاء کرام حضرت معین الدین چشتی ، حضرت نظام الدین اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بزرگوں کے حالات جو صحیح طور پر ہم کو پہنچے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے مسلک کے مطابق متبع سنت تھے ۔

(فتاوٰی ثنائیہ ص۱۵۱ ج ۱ )

ان عبارات سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے اور نہ ہی حدیث کے مقابل قیاس کو ترجیح دی ہے ۔ ہاں جہاں قیاس کی ضرورت تھی وہاں قیاس کیا ہے ۔ اور اس بارہ میں ان کی محنت دیگر ائمہ کہ بہ نسبت زیادہ نمایاں ہے ، مگر ہے قواعد و ضوابط کے مطابق ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کا عمل بھی اپنے اپنے مسلک کے مطابق سنت کے موافق ہے ۔

غیر مقلد وھابیوں نام نہاد اھلحدیثوں کا تفصیلی تعارف حصّہ اوّل

اہل حدیثوں کی ابتداء

ہندوستان میں جماعت اہلحدیث  "بہ اصطلاح جدید " کا قیام اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد شروع ہوا ہے، فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کے وقت ہندوستان کے کسی گوشہ میں فقہی اختلاف مسلک کی آواز نہ اُٹھی تھی، سب اہل السنۃ والجماعت ایک ہی فقہی مسلک کے پیرو تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم اس عظیم علمی خدمت میں شریک تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:

"خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے؛ چونکہ اکثرلوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کوپسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک یہ لوگ (ہندوستان کے مسلمان) مذہب حنفی پرقائم رہے اور ہیں اور اسی مذہب کے عالم اور فاضل اور قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے؛ یہاں تک کہ ایک جمِ غفیر نے مل کر فتاویٰ ہندیہ جمع کیا اور اس میں شاہ عبدالرحیم صاحب والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی بھی شریک تھے"۔

(ترجمانِ وہابیہ تصنیف نواب صدیق حسن خان مرحوم:۲۔)

عہد جدید کی اس آزادی میں تقلید کا بندٹوٹا اور پھردیکھتے دیکھتے کچھ لوگ مختلف کشتیوں میں بہہ نکلے اور تاریخ نے مسلمانوں کا وہی حال کیا جومنتشراقوام کا ہوتا ہے ۔

اہلحدیث ایک فرقہ کی صورت میں

ابتداء میں اس جماعت کے لوگ کہیں اہلحدیث کہیں محمدی اور کہیں موحد کہلاتے تھے، جماعت کسی ایک نام سے متعارف نہ تھی اُن کے مخالفین انہیں وہابی یاغیرمقلد کے نام سے موسوم کرتے تھے، مولانا محمدحسین بٹالوی صاحب نے انگریزی حکومت کودرخواست دی کہ اُن کے ہم خیال لوگوں کوسرکاری طور پر اہلحدیث کا نام دیا جائے، اس کے بعد اس اصطلاح جدید میں اہلحدیث سامنے آئے اور ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے ایک مستقل مکتبِ فکر کی بنیاد پڑگئی؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ برصغیر پاک وہند کے باہر اس نام سے (اہلحدیث باصطلاح جدید) اب تک کوئی فرقہ موجود نہیں ہے۔

ہندوستان کے مشہور عالمِ دین مولانا محمدشاہ صاحب شاہجہانپوری لکھتے ہیں:

"پچھلے زمانہ میں شاذ ونادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں توہوں؛ مگراس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے؛ بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں سے سنا ہے، اپنے آپ کوتووہ اہلحدیث یامحمدی یاموحد کہتے ہیں؛ مگرمخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یاوہابی یالامذہب لیا جاتا ہے"۔

(الارشاد الی سبیل الرشاد:۱۳)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک جماعت کسی ایک نام سے موسوم نہ تھی مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی کوششوں سے یہ جماعت اہلحدیث (باصطلاح جدید) کے نام سے موسوم ہوئی، مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی لکھتے ہیں:

"مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی، لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔          

(سیرت ثنائی:۳۷۲)

سرچارلس ایچی سن صاحب جو اس وقت پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر تھے آپ کے خیرخواہ تھے؛ انہوں نے گورنمنٹ ہند کواس طرف توجہ دلاکر اس درخواست کومنظور کرایا اور پھرمولانا محمدحسین صاحب نے سیکریٹری گورنمنٹ کوجودرخواست دی اس کے آخری الفاظ یہ تھے:

"استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام اہلحدیث کا حکم پنجاب میں نافذ کیا جائے"۔

(اشاعۃ السنۃ:۱۱/ شمارہ نمبر:۲/ صفحہ نمبر:۲۶)

وہابی نام سے اختلاف کی وجہ

وہابی نام سے اس کی اسمی مناسبت کے سبب شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی کے پیرو مرادلئے جاتے ہیں اور چونکہ یہ سب حضرات مقلد تھے اور امام احمدبن حنبل کی تقلید کرتے تھے اس لئے اہلحدیث جوترک تقلید کے عنوان سے جمہور اہلسنت سے علیحدہ سمجھے جاتے ہیں ،مقلدین کی طرف اپنی نسبت پسند نہ کرتے تھے، اس لئے وہ لفظ وہابی کواپنے لئے پسند نہ کرتے تھے، مقلدین سے غیرمقلدین کواصولی اختلاف رہا ہے، نواب صدیق حسن خان صاحب شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"سومذہب نجدی مذکور کا حنبلی تھا اور اس نے بوہروں اور بدوؤں پرچڑھائی کی تھی، اس مذہب (حنبلی مذہب) کی کتابیں ہندوستان میں رائج نہیں ہیں "۔   

(ترجمان وہابیہ:۱۱۵)

مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی لکھا:

"محمدبن عبدالوہاب نجد میں پیدا ہوا تھا جومذہب حنبلی کا پیرو تھا، محمدبن عبدالوہاب مقلد تھا اور اہلحدیث کے نزدیک تقلید جائز نہیں، اہلحدیث کواس سے مسئلہ تقلید میں اختلاف تھا اور اب بھی ہے"۔

(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۰۴)

موجودہ اہلحدیث اب شیخ کی مخالفت نہیں کرتے تاکہ سعودی عرب سے مالی امداد بند نہ ہوجائے، شیخ محمدبن عبدالوہاب خود لکھتے ہیں:

"ونحن ایضا فی الفروع علی مذہب الامام احمد بن حنبل ولاننکر علی من قلد الائمۃ الاربعۃ دون غیرھم لعدم ضبط مذاھب الغیر"۔            

(سیرۃ الشیخ محمدبن عبدالوہاب:۵۶)

ترجمہ:ہم فروعات میں امام احمد کے مذہب پرہیں اور مذاہب اربعہ میں سے کوئی کسی کی تقلید کرے ہم اس پرکوئی نکیر نہیں کرتے۔

یہ توشیخ کے الفاظ تھے، اب سوانح نگار کے الفاظ بھی سن لیجئے:

"وانھم الحنابلۃ متعصبون لمذھب الامام احمد فی فروعہ بکل اتباع المذاھب الاخریٰ فھم لایدعون لابالقول ولابالکتابۃ ان الشیخ اتی بمذھب جدید ولااخترع علماً غیرماکان عندالسلفد"۔           

(سیرۃ الشیخ محمدبن عبدالوہاب:۹۰)

ترجمہ:اور یہ سب حنبلی المذہب تھے امام احمد کے مذہب پرسختی سے کاربند تھے جیسے کہ دوسرے مذاہب کے پیرواپنے اپنے امام کے طریقے پرکاربند ہیں، زبانی اور تحریری انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ شیخ محمدبن عبدالوہاب کوئی نیا دین لائے اور انہوں نے کوئی نیا علم دریافت کیا جوپہلوں کے پاس نہ تھا۔

اکابرین غیر مقلدین اہل حدیث

میاں نذیر حسین صاحب دہلوی (بانی مسلک جنھیں جماعت شیخ الکل کہتی ہے)

آپ سنہ۱۲۲۰ھ کوموضع سورج گڑھ ضلع مونگیر (بہار) میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۳۲۰ھ میں سوسال کی عمرپاکروفات پائی، آپ کے استاد خسر مولانا عبدالخالق صاحب (متوفی:۱۲۶۱ھ) آپ کے سخت خلاف ہوگئے تھے، آپ پہلے رفع یدین نہ کرتے تھے؛ حالانکہ آپ حدیث پڑھ چکے تھے، سرسیداحمد خان سنہ۱۸۵۵ھ کی تحریک سے آپ نے رفع یدین شروع کی اور ایک مسلک کی بنیاد ڈالی، سرسیدایک خط میں لکھتے ہیں:

"جناب مولوی سیدنذیر حسین صاحب دہلوی کو میں نے ہی نیم چڑھا وہابی بنایا ہے، وہ نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے؛ مگراس کو د"سنت ہدیٰد"جانتے تھے میں نے عرض کیا کہ نہایت افسوس ہے کہ جس بات کوآپ نیک جانتے ہیں لوگوں کے خیال سے اس کونہیں کرتے، میرے پاس سے اُٹھ کرجامع مسجد میں نماز عصر پڑھنے گئے اور اس وقت سے رفع یدین کرنے لگے"۔

(موجِ کوثر:۵۱، مؤلفہ: شیخ محمداکرم صاحب)

پھرحکومت نے آپ کوشمس العلماء کا خطاب دے دیا، مولوی فضل حسین صاحب بہاری نے د"الحیاۃ بعدالمماۃد" کے نام سے ایک پرایک کتاب لکھی ہے، اس میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز سرکار آپ کے بارے میں کس طرح سوچتی تھی، کسے پتہ نہیں کہ سرسیداحمد خان کے حکومت سے کیا روابط تھے، ان کے کہنے سے رکوع کے وقت رفع یدین کرنا اور حکومت سے سنہ۱۸۹۷ء میں شمس العلماء کا خطاب پانا اس پورے پس منظر کوواضح کررہا ہے، رہی یہ بات کہ حضرت شاہ محمداسحاق نے پھرانہیں سندِحدیث کیوں دی؛ سویہ خود محل بحث ہے، مولوی فضل حسین بہاری لکھتے ہیں:

"آپ نے میاں صاحب کوصرف اطراف صحاح کی سند دی تھی، میاں صاحب نے استیعاباً نہ آپ سے صحاح ستہ پڑھیں نہ ان کی سند لی، میاں صاحب خود اس سند کوچپٹراس کہتے تھے"۔

(دیکھئے، الحیات بعدالممات:۶۸)

آپ مطلق تقلید کے قائل تھے، فقہ حنفی سے فتویٰ دینا جائز سمجھتے تھے، ائمہ کی شان میں گستاخ نہ تھے اور اس پہلو سے آپ کا احترام ہرحلقے میں موجود تھا، غیرمقلدحلقوں میں گستاخ اور تفرقہ انگیز انداز کے داعی عبدالحق بنارسی اور ابوالحسن محی الدین تھے، یہ دونوں نومسلم تھے، جومسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے داخل کئے گئے تھے، اصلاً یہ ہندو تھے، عبدالحق بنارسی کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے، میاں صاحب کے شاگرد قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی ان سے نقل کرتے ہیں، عبدالحق نے کہا:

"عائشہ علی سے لڑی اگرتوبہ نہ کی تومرتد مری "۔ (معاذ اللہ)

(کشف الحجاب:۴۲)

زبان اور زندقہ دونوں ملاحظہ ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے شیعہ بھی ترک تقلید کی اس تحریک کے پیچھے بڑی سرگرمی سے کام کررہے تھے اور اہلِ سنت نہ جانتے تھے کہ ان کے حلقوں میں آزاد خیالی کی ہوا کہاں سے تیز کی جارہی ہے، ابوالحسن محی الدین جس نے د"الظفرالمبین " لکھ کراس آگ کواور بھڑکایا اس کا اصل نام ہری چند تھا، یہ دیوان چند قوم کتھری سکنہ علی پور ضلع گوجرانوالہ کا بیٹا تھا، اس کے اثرات اب تک علی پور چھٹہ میں موجود ہیں، وہاں منکرینِ حدیث کافی تعداد میں پیدا ہوچکے ہیں اور ترکِ تقلید کی یہ روش اب انہیں کفر کی سرحد کے بہت قریب لاچکی ہے، تفسیرالقرآن بالقرآن وہیں لکھی گئی ہے، جس پرمؤلف کا نام نہیں ہے۔

نواب صدیق حسن خان صاحبؒ

میاں نذیرحسین صاحب کے بعد جماعت کے بڑے بزرگ جناب نواب صدیق حسن صاحب سمجھے جاتے ہیں، سنہ۱۲۵۰ھ میں بانس بریلی میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۳۰۷ھ میں وفات پائی، آپ کی وفات کے وقت میاں نذیر حسین صاحب زندہ تھے، نواب صاحب مفتی صدرالدین صاحب دہلوی، تلمیذ حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز کے شاگرد تھے، ان کے ذریعہ ہندوستان میں ترکِ تقلید کی ہوا بڑی تیزی سے چلی؛ ملکہ بھوپال شاہ جہاں بیگم سے آپ کی شادی ہوئی تھی، اس دولت کی بدولت آپ کومسلک کی اشاعت اور علمی خدمات کا خوب موقع ملا، آپ امت کے کثیرالتصنیف علماء میں شمار ہوتے ہیں، آپ اپنے آپ کوموحد اور اپنے گروہ کوموحدین ہند کہتے تھے، جماعت کے لفظ اہلحدیث کا تعین اس وقت تک نہ ہوا تھا، ریاست بھوپال سے تعلق کی وجہ سے آپ چاہتے تھے کہ موحدین ہند ہراس تحریک سے نفرت کریں جوانگریزوں کے خلاف ہو؛ چنانچہ مجاہدینِ بالاکوٹ جن کی قیادت حضرت سیداحمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید نے کی تھی، آپ نے ان سے ان الفاظ میں لاتعلقی ظاہر کی ہے:

"گورنمنٹِ ہند کے دیگر فرقِ اسلام نے یہ دلنشین کردیا ہے کہ فرقہ موحدین ہند مثل دہابیان ملک ہزارہ ایک بدخواہ فرقہ ہے اور یہ لوگ (موحدینِ ہند) ویسے ہی دشمن وفسادی ملک گورنمنٹ برٹش ہند کے ہیں، جیسے کہ دیگرشریر اقوام سرحدی (مجاہدین بالاکوٹ وغیرہ) بمقابلہ حکومت ہند سوچا کرتے تھے"۔                         

(ترجمان وہابیہ:۶۱)

لفظ وہابی کے بارے میں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ

ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ  "لڑنے والوں " کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام  "موحدین ہند" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:

"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہو"۔               

(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)

موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔

نواب صاحب کی جماعتی فکر

ترکِ تقلید کی فضا ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ آپ شیخ عبدالوہاب نجدی اور ان کے پیروؤں کے بھی سخت خلاف تھے، لفظ وہابی سے سخت نفرت تھی، انگریزوں کوبار بار یاد دلاتے کہ ہم وہابی نہیں ہیں اور وہابیوں سے ہمار کوئی تعلق نہیں ہے۔                    

(دیکھئے، ترجمان وہابیہ:۲۸)

نجد کے شیخ محمدبن عبدالوہاب اور عرب کے وہابی امام احمد کے مقلد ہیں اور ہم غیرمقلد ہیں۔

وقت کی سیاسی فضا میں مسلمانوں میں آزادی پیدا کرنے کی ان خدمات کے باعث آپ کی انگریزی سرکار میں بہت قدر ومنزلت تھی، آپ کوایک لاکھ چوبیس ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ ملتا تھا (الحطہ:۱۵۱) آپ کی صاحبزادی شمس الامراء کوبھی حکومت سے باون لاکھ کی جاگیر ملی تھی (دیکھئے:ماثرصدیقی:۱/۴۷، مولانا حسن علی) اِن مراعات کے ہوتے ہوئے ان کی وفاداری کسی پہلو سے بھی محل شبہ میں نہ تھی۔





موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت

نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:

"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیں "۔         

(الحطہ:۱۵۱)

نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:

"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھے"۔

(مأثرصدیقی:۱/۳)

پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی

مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:

"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔                      

  (مآثرصدیقی:۱/۳)

یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔

مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔

پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔

مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری

مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:

"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھی "۔

(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")

اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔

مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی

آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:

"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹ "۔

مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔

(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")

مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء

کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔

آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)

آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔

(مادہ عثم)

حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔         

(مادہ عجز)

حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔

(مادہ عجز)

پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہامحرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔

غیر مقلدین کی چند صاف صاف باتیں

1۔غیر مقلدین کے عقائد ونظریات

عقائد اعمال کی روح اور جان ہوتے ہیں اگر عقائد صحیح ہوں تو اعمال بھی صحیح ہوتے ہیں اوراگر عقائد خراب ہوجائیں توان کی خرابی تمام اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے خواہ وہ کتنے ہی اخلاص وللہیت اورسنت کےمطابق ادا کئے گئے ہوں اسی لئے قرآن وحدیث میں عقائد کی تصحیح پر بہت زور دیاگیاہے۔

موجودہ دور میں غیر مقلدین حضرات اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحیح العقائد موحد اور حق پرست سمجھتے ہیں اوراپنے سوا سب کو فاسد العقائد مشرک اورگمراہ سمجھتے ہیں ذیل میں غیر مقلدین کےاکابر واصاغر کےچند عقائد ونظریات پیش کئے جاتے ہیں جس سے ایک توغیرمقلدین کےقول وفعل کےتضاد کاکچھ اندازہ ہوسکے گا دوسرے حق وباطل میں بھی امتیاز ہوگا اور معلوم ہوگا کہ توحید کےیہ نام نہاد علمبردار خود کتنے پانی میں ہیں۔

اﷲ تعالی کے بارے میں غیرمقلدین کےعقائد

۱۔خدا عرش پربیٹھا ہے اورعرش اس کا مکان ہے(یعنی اﷲ ہر جگہ موجود نہیں۔ معاذاﷲ)

(رسالة الاختواءعلی مسلة الاستواء ھدیة المھدی ص۹)

۲۔ اﷲ تعالی کا چہرہ،آنکھ،ہاتھ،ہتھیلی،مٹھی، انگلیاں، کلائی،بازو، سینہ،پہلو، کمر،پاؤں، ٹانگ اور سایہ اس کی شان کے مطابق ہیں۔

(ھدیة المہدی ص۹)       

۳۔اﷲ تعالی جس صورت (انسان،چرند، پرند،جانور وغیرہ ) میں چاہے ظاہر ہو سکتا ہے۔

(ھدیة المہدی ص۹)

۴۔مذاق اور ٹھٹھہ کرنا اﷲ تعالی کی صفت ہے ۔

(ھدیة المہدی ص۹)

انبیاءعلیہم السلام کے بارے میں غیرمقلدین کےعقائد

۵۔عصمت مطلقہ (معصوم ہونا) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطے ثابت نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم آپ علیہ السلام کی بعض خطاؤں پر اعتراض نہ کرتے۔

(تحقیق الکلام فی مسلة البیعہ والہام ص۴۴,۴۵)

۶۔ائمہ رحمہ اﷲ و صحابہ رضی اﷲ عنہم تو کجا خود رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی رائے سے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں۔

(طریق محمدی ص۵۷)

۷۔رام چندر، کرشن جی، لچھمن جو ہندووں میں ہیں اور زرتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوشس اور مہاتما بدھ جو چین وجاپان میں ہیں اور سقراط وفیثا غورث جو یونان میں ہیں ہم پر واجب ہے کہ ان تمام انبیاء و رسل پر ایمان لائیں۔

(العیاذ باﷲ)

(ھدیةالمہدی ص۸۵)

۸۔ انبیاءعلیہم السلام سے احکام میں دین میں بھول چوک ہو سکتی ہے۔

(ردتقلید بکتاب الجید ص ۱۳)

خلفائے راشدین ؓکے بار ے میں غیرمقلدین کےنظریات

۹۔خطبہ جمعہ میں خلفاء الراشدین کا ذکر کرنا بدعت ہے۔

(ھدیة المہدی ص۱۱۰)

۱۰۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ ثانی مقرر کرنا اصل اسلام کے خلاف تھا۔

(طریق محمدی ص۸۳)

۱۱۔فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے صاف صاف موٹے مسائل میں غلطی کی۔

(طریق محمدی ص۵۴)

۱۲۔ روز مرہ کے مسائل حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے مخفی رہے ۔

(طریق محمدی ص۵۵)

۱۳۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا فتوی حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔

 (تیسیر الباری ص۱۶۹جلد۷)

۱۴۔ہم نے عمررضی اﷲ عنہ کا کلمہ نہیں پڑھا جو ان کی بات مانیں۔

(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۵۲)

۱۵۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے بہت سے مسائل حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھے ۔

(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۵۲)

۱۶۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ کا فعل نہ قابل حجت ہے نہ واجب العمل۔

(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۵۲)

۱۷۔متعہ سے اگر حضرت عمررضی اﷲ عنہ منع نہ کرتے تو کوئی زانی نہ ہوتا۔

(لغات الحدیث جلد۴ص۱۸۶)

۱۸۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ کا فتوی حجت نہیں۔

(فتاوی ستاریہ جلد۲ص۶۵)

۱۹۔اجتہاد عمررضی اﷲ عنہ حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔

(تیسیر الباری جلد۷ص۱۷۰)

۲۰۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا عمل قابل حجت نہیں۔

(فتاوی ثنائیہ جلد ۲ص۲۳۳)

۲۱۔ اذان عثمانی رضی اﷲ عنہ بدعت ہے اور کسی طرح جائز نہیں۔

( فتاوی ستاریہ جلد۳ص۸۵,۸۶,۸۷)

۲۲۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خودساختہ خلافت کا چار، پانچ سالہ دور امت کےلئے عذاب خداوندی تھا ۔

(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)

۲۳۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد امت نے سکھ کا سانس لیا۔

(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)

۲۴۔ آپ رضی اﷲ عنہ دنیائے سبائيت ( شیعت) کے منتخب خلیفہ تھے۔

(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)

۲۵۔ نبی علیہ السلام کی زندگی ہی میں آپ (علی رضی اﷲعنہ) حصول خلافت کے خیال کو اپنے دل میں پروان چڑھانے میں مشغول تھے۔

(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)

۲۶۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا تین طلاقوں کو تین کہنے کا فیصلہ غصہ کی بنیاد تھا ۔

(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص۱۰۳)

۲۷۔ خلفاء الراشدین نے قرآن و سنت کے خلاف فیصلے دئيے اور امت نے اس کو رد کر دیا۔

(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص۱۰۷)

۲۸۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔

(تنویر آلافاق ص۱۰۸)

۲۹۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سمجھ معتبر نہیں۔

(شمع محمدی ص۱۹)

صحابہ کرام ؓکے بارے میں غیرمقلدین کےنظریات

۳۰۔حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ کے مناقب بیان کرنا جائز نہیں ہیں۔

(لغات الحدیث جلد۲ص۳۶)

۳۱۔معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ شریر تھے ۔

(لغات الحدیث جلد ۲ص۳۶)

۳۲۔اسلام کا سارا کام معاويہ رضی اﷲ عنہ نے خراب کیا۔

(لغات الحدیث جلد۳ص۱۰۴)

۳۳۔حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا قول حجت نہیں۔

(تیسیر الباری جلد۷ص۱۶۵)

۳۴۔ بعض صحابہ مشت زنی کرتے تھے ۔

(عرف الجادی ص۲۰۷)

۳۵۔ صحابی رضی اﷲ عنہم کا قول حجت نہیں ہے ۔

(فتاوی نذیریہ جلد۱ص۳۴۰)

۳۶۔موقوفات (اقوال و افعال) صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔

(رسالہ عبد المنان ص۱۴-۸۱-۸۴-۸۵-۵۹)

۳۷۔صحابہ رضی اﷲ عنہم کی درایت (سمجھ)معتبر نہیں۔

(تحفۃ الاحوذی جلد۲ص۴۴، شمع محمدی ص۱۹)

۳۸۔ بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم فاسق تھے۔

(نزل الابرار جلد۳ص۹۴)

۳۹۔متاخرین علماءصحابہ رضی اﷲ عنہم سے افضل ہو سکتے ہیں

(ھدیة المہدی ص۹۰)

۴۰۔صحابہ رضی اﷲ عنہم اور فقہا رحمہ اﷲ کے اقوال گمراہ کن ہیں۔

(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۴۷)

۴۱۔اقوال صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔

(عرف الجادی ص۴۴-۵۸-۸۰-۱۰۱-۲۰۷)

۴۲۔صحابہ رضی اﷲ عنہم کی فہم معتبر نہیں۔

(الروضة الندیہ ص۹۸)

۴۳۔حضرت مغیرہ رضی اﷲ عنہ کی۳/۴ دیانتداری کوچ کر گئی ۔

(لغات الحدیث جلد۳ص۱۶۰)

قادیانیوں سے متعلق غیرمقلدین کےعقائد

مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:

مرزائیوں کا سب سے زیادہ مخالف میں ہوں مگر نقطۂ محمدیت کی وجہ سے میں ان کو بھی اس میں شامل سمجھتا ہوں(اخبار اہل حدیث امرتسر۱۶اپریل۱۹۱۵ء بحوالہ ترک تقلید کےبھیانک نتائج)

مرزائن سے نکاح جائز ہے(اخبار اہل حدیث امرتسر۲نومبر۱۹۳۳ء بحوالہ ترک تقلید کےبھینک نتائج)

میرا مذہب اورعمل ہے کہ ہر کلمہ گو کےپیچھے(نماز میں)اقتدا جائز ہے چاہے وہ شیعہ ہو یامرزائی(اخبار اہل حدیث ۱۲اپریل ۱۹۱۵ءفتوی امام ربانی ص۵۰)

2۔غیرمقلدین کےکارنامے

 جب انگریز کے منحوس قدم یہاں آئے تو یورپ سے ذہنی آوارگی  مادر پدرآزادی اور دینی بے راہ روی کی سوغات ساتھ لائے ،مذہبی آزادی اورمذہبی  تحقیق کےخوش نما اور دلفریب عنوانوں سے مسلمانوں میں افتراق کی مہم شروع کی گئی، تحقیق اور ریسرچ کےنام سے متواتر قران پاک کے بارے میں شبہات ڈالےگئے ،متروک اور شاذ قراتوں کو متواتر قران سے ٹکرادیاگیا،انگریز کے زیر سایہ پادریوں نے اس مہم کاآغاز کیااور روافض نے اس کو کمال تک پہنچادیا،  رسول اقدسﷺ  کی متواتر سنت کےخلاف پادری فانڈر نے میزان الحق میں اور پھر پادری عماد الدین نے جو آواز تحقیق الایمان میں اٹھائی اس کو سرسید احمد خان  غیرمقلد لےاڑے،پھر اسلم جیراجپوری سابق غیر مقلد اورغلام احمد پرویز سابق غیر مقلد  نے اس تحریک کو پروان چڑھایا،قرآن وسنت پر حملوں کےبعد  اب فقہ  اسلامی کی باری تھی جس کے ذریعہ احکام نبویﷺ عموماً اور نماز نبویﷺ خصوصاً تواتر علمی کےساتھ امت میں پھیلی ہوئی تھی یہ نماز  جس طرح ایک بہت بڑی  روحانی عبادت ہے اسی طرح مسلمانوں میں اتحاد ویک جہتی کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،مسلمان  نماز کے لئے پانچ وقت مسجد میں جمع ہوتے ہیں افتراق پسند حکومت برطانیہ کو جس کی پالیسی ہی یہ تھی  کہ لڑاؤ اور حکومت کرو مسلمانوں کا اتحاد کیسے پسند آتا ،آخر ایک فرقہ ایسا پیدا کیاگیا جو اس متواتر نماز کو غلط کہے نمازیوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرے متروک شاذ اور مرجوع روایات کو متواتر نماز سے ٹکرادے اور جوحشر پادری فانڈر نے قرآن کا کیا تھاوہی حشر نماز کا ہوجائے چنانچہ اس سلسلہ میں  حکومت برطانیہ  نے وکیل اہل حدیث ہند کو جاگیر دی آپ نے ایک رسالہ جہاد کےخلاف لکھا جس کا نام الاقتصاد فی مسائل الجہاد ہے اور رسائل اہل حدیث جلد اول میں چھپ چکا ہے اس میں سارا زور لگایاگیا کہ انگریز کےخلاف  جہاد حرام ہے اور ایک اشتہار اہل سنت کی متواتر نماز کےخلاف شائع کیا اور اس متواتر نماز کو غلط قرار دیا اور شہرشہر گاؤں گاؤں تقسیم کرکے ہر مسجد کو میدان جنگ بنادیا اس فرقہ کی کارکردگی کاخلاصہ دوہی کام تھے انگریز کےخلاف جہاد حرام اور مسلمانوں کی مساجد میں فساد فرض۔

3۔نماز سےمتعلق غیر مقلدین سے کچھ سوالات

غیر مقلدین کا دعوی ہے کہ ہماری نماز کا ہر ہر مسئلہ حدیث صحیح صریح متفق علیہ غیر معارض سے ثابت ہے جس میں قیاس اور اجتہاد کا کوئی دخل نہیں اس لیے وہ مندرجہ ذیل مسائل  کی احادیث صحیحہ صریحہ متفق علیہ غیر معارضہ پیش فرمائیں:

(۱)نماز میں نیت فرض ہے یا واجب یا سنت

(۲)تکبیر تحریمہ کا فرض ہونا

(۳)اکیلے نمازی اور مقتدی کا ہمیشہ تکبیر تحریمہ آہستہ کہنا

(۴)نماز میں ثناء کا سنت موکدہ ہونا

(۵)امام کا ہمیشہ ثناء اہستہ پڑھنا جب کہ حضرت عمر نے امام بن کر ثنا اونچی آواز سے پڑھی

(۶)مقتدی کا ثنا ہمیشہ اہستہ آواز سے پڑھنا جب کے نسائی میں مقتدی کا حضورﷺ کے پیچھے ثنا بلندآواز سے پڑھنا ثابت ہے

(۷)اکیلے نمازی کا ثنا ہمیشہ اہستہ آواز سے پڑھنا

(۸)ثنا کے بعد تعوذ کی ترتیب

(۹)تعوذ کا سنت ہونا

(۱۰)امام مقتدی اور منفرد سب کا تعوذ اہستہ آواز سے پڑھنا

(۱۱)تحریمہ کے وقت ہاتھ ہمیشہ کاندھوں تک اٹھانا

(۱۲)قیام کا فرض ہونا صرف فرائض میں

(۱۳)سنت ونفل میں قیام کا سنت ہونا

(۱۴)قیام میں ہاتھ ہمیشہ سینے پر باندھنا

(۱۵)نوافل میں بیٹھ کر ہاتھ سینہ پر باندھنا

(۱۶)تعوذ کے بعد تسمیہ کی ترتیب

(۱۷)بسم اللہ کا سنت مؤکدہ ہونا اکیلے نمازی کا ہمیشہ تسمیہ اہستہ پڑھنا

(۱۸)مقتدی کا ہمیشہ تسمیہ اہستہ پڑھنا

(۱۹)امام کا ہمیشہ تسمیہ بلند سے پڑھنا

 (۲۰)سورہ فاتحہ کا اکیلے نمازی پر فرض ہونا

(۲۱)سورہ فاتحہ کا امام پر فرض ہونا

(۲۲)سورہ فاتحہ کا مقتدی پر فرض ہونا اور اکیلے نمازی کا  سورۂ فاتحہ اہستہ پڑھنا

(۲۳)بعض مقتدیوں کا فاتحہ امام کی فاتحہ سے پہلے پڑھنا

(۲۴)امام کا گیارہ رکعتوں میں فاتحہ اہستہ پڑھنا

(۲۵)بعض مقتدیوں کا امام کی سورۃ کے ختم کے بعد فاتحہ پڑھنا

(۲۶)امام کا چھ رکعتوں میں فاتحہ بلند آواز سے پڑھنا

(۲۷)فاتحہ کے بعد اٰمین کا سنت مؤکدہ ہونا

(۲۸)اکیلے نمازی کا ہمیشہ اہستہ آواز سے اٰمین کہنا

(۲۹)مقتدی کا ہمیشہ گیارہ رکعتوں میں اٰ مین اہستہ کہنا

(۳۰)جہری  رکعتوں میں جو مقتدی امام کی سورت کے وقت ملے اس اپنی فاتحہ کے بعد ہمیشہ آہستہ  آمین کہنا

(۳۱)جہری رکعتوں کو جو مقتدی امام کے بعد پوری کرےان ہمیشہ اہستہ اٰ مین کہنا

(۳۲)جو مقتدی جہری رکعت میں امام کی فاتحہ کے آخر میں ملے اس کا اپنی فاتحہ  کے درمیان اونچی آواز سے اور اپنی فاتحہ کے بعد  زیادہ اہستہ آواز سے اٰ مین کہنا

(۳۳)امام کا گیارہ رکعتوں میں ہمیشہ زیادہ  اہستہ آواز سے آمین کہنا

(۳۴)امام کا چھ رکعتوں میں ہمیشہ بلند آواز سے آمین کہنا

(۳۵)آمین کے بعد اکیلے نمازی پر  زائد قرآن کا فرض نہ ہونا نہ واجب بلکہ صرف سنت ہونا

(۳۶)امام پر بھی سورت کا لازم نہ ہونا

(۳۷)مقتدی پر ہر نماز میں قرآن پاک کی ۱۱۳ سورتوں میں سے کچھ پڑھنا حرام ہونا

(۳۸)رکوع سے پہلے تکبیر کاسنت   مؤکدہ ہونا

(۳۹)تکبیر کب شروع کرے اور کہاں ختم کرے

(۴۰)رکوع سے پہلے ہمیشہ بغیر تکبیر کے رفع یدین کرنا

(۴۱)اس تکبیر کا اکیلے اور مقتدی کا آہستہ کہنا

(۴۲)رکوع کا فرض ہونا

(۴۳)رکوع میں تسبیحات کا سنت مؤکدہ ہونا

(۴۴)ان تسبیحات کا اہستہ کہنا جب کہ نسائی میں حضور اکرمﷺ کا اونچی آواز سے پڑھنا ثابت ہے

(۴۵)رکوع سے کھڑے ہوکر ہاتھ لٹکانا

(۴۶)رکوع کے بعد قومہ میں سمع اللہ لمن حمدہ امام کا بلند آواز سے اور منفرد کو آہستہ آواز سے کہنا

(۴۷)سمع اللہ کے بعدربنا لک الحمد مقتدی اور منفرد کوآہستہ آواز سے کہنا

(۴۸)سجدوں کی طرف جھکتے وقت تکبیر کا سنت موکدہ ہونا

(۴۹)اکیلے اور مقتدی کا اس تکبیر کو اہستہ آواز سے کہنا

(۵۰)سجدوں سے پہلے بعد اور درمیان میں  رفع یدین  کا منسوخ ہونا

(۵۱)سجدوں میں تسبیحات کا سنت مؤکدہ ہونا

(۵۲) امام منفرد اور مقتدی سب کا ان تسبیحات کو آہستہ پڑھنا جبکہ نسائی  میں اونچا پڑھنا ثابت ہے

(۵۳)دونوں سجدوں کے درمیان دائیاں پاؤں کھڑا کرکے بائیں پاؤں پر بیٹھنا اور ہاتھ گٹنوں پر رکھنا

(۵۴)دونوں سجدوں کے درمیان کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرنا

(۵۵)دونوں سجدوں کے درمیان دعا کا سنت مؤکدہ ہونا

(۵۶)امام مقتدی اور منفرد کا ہمیشہ اس دعا کو آہستہ آواز سے پڑھنا

(۵۷)دونوں سجدوں میں جاتے اور اٹھتے وقت تکبیر ا ت کاسنت مؤکدہ ہونا

(۵۸)اکیلے اور مقتدی کا ہمیشہ ان تکبیرات کوآہستہ أواز سے کہنا

(۵۹)جو شخص سجدوں سے پہلے  اور بعد میں رفع یدین کرے اس کی نمازکا باطلہونا

(۶۰)جو شخص جلسہ استراحت نہ کرے اس کی نماز کا باطل ہونا

(۶۱)جلسے استراحت کا بھی ذکرالہی سے خالی ہونا،اس سے اٹھتے وقت بھی کوئی ذکر کا  نہ ہونا

(۶۲)رکوع کے بعد دعائے قنوت میں دعا کی طرح ہاتھ اٹھاکردعا مانگنا اور پھر منہ پرہاتھ پھیرنا

(۶۳)التحیات ہر دو رکعت کے بعد فرض ہے یا واجب یا سنت

(۶۴)اکیلے مقتدی اور امام کا ہمیشہ التحیات آہستہ پڑھنا جب کے نسائی میں جہر کا ثبوت ہہے

(۶۵)التحیات کے بعد درود کس قعدہ میں فرض ہے اور کس قعدہ میں حرام ہے

(۶۶)درود کا امام مقتدی اور منفرد کا ہمیشہ آہستہ پڑھنا جبکہ نسائی میں جہر کا ثبوت ہے

(۶۷)درود کے بعد دعا فرض ہے یا واجب یا سنت

(۶۸)یہ دعا امام مقتدی اور منفرد ہمیشہ آہستہ پڑھتے ہیں جب کہ نسائی میں جہر ثابت ہے

(۶۹)دعا کے بعد دونوں طرف سلام فرض ہے یا واجب یا سنت

(۷۰)امام کا بلند آواز سے سلام  کہنا اور منفرد ومقتدی کا  ہمیشہ آہستہ آواز سے سلام کہنا

(۷۱)آپﷺ نے ایک آدمی کو نماز سکھائی فرمایا قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہہ  پھر کچھ قرآن پڑھ پھر سکون سے رکوع کر پھر سکون سے قومہ کر پھر اطمینان سے سجدے کر اور سجدوں کے درمیان آرام سے بیٹھ جب اس طرح نماز پڑھی تو نماز پوری ہوگئی(نسائی)اس میں تکبیرات ،تسبیحات ،فاتحہ،اٰمین وغیرہ کا تذکرہ نہیں ہے کیا آپ ایسی نماز کو مکمل صحیح مانتے ہیں یا فرمان رسولﷺ کے منکر ہیں۔

 (۷۲)نماز سنت نفل اور قضا کی نیت الگ الگ دل میں کیسی کرنی چاہیے مکمل نیت بتائیں اور جس حدیث میں دل کی مکمل نیت ہو وہ بھی تحریر کریں

(المسائل  ابن حجر حنبلی،متحدہ امارات السعودیہ العربیہ،۲۸ ربیع الثانی،۱۴۱۴ھ)

۔غیرمقلدین کےشرمناک مسائل

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیر مقلدین (جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں) کا وجود انگریز دور سے پہلے نہ تھا۔ انگریز کے دور سے پہلے پورے ہندوستان میں نہ ان کی کوئی مسجد تھی، نہ مدرسہ اورنہ کوئی کتاب۔ انگریز نے ہندوستان میں قدم جمایا تو اپنا اولین حریف علماءدیوبند کو پایا۔ یہی وہ علماءتھے جنہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور ہزاروں مسلمانوں کو انگریز کے خلاف میدان جہاد میں لا کھڑا کیا ، غیر مقلدین  نے انگریز کے خلاف جہاد کو حرام قرار دیا اور مسلمانوں میں تفرقہ اور انتشار پھیلایا اور آج تک اپنی اسی روش پر قائم ہیں۔

فقہ حنفی جو تقریبا ً بارہ لاکھ مسائل کا مجموعہ ہے اس عظیم الشان فقہ کے چند ایک مسائل پر اعتراض کرتے ہوئے غیر مقلدین عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے اور غیر مقلدعوام کی زبان پر یہ تو ایک چلتا ہوا جملہ ہے کہ “فقہ حنفی میں فلاں فلاں گندہ اورحیاءسوز مسئلہ ہے” اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ عوام کو آگاہ کیا جائے کہ خود غیر مقلدین کی مستند کتابوں میں کیا کیا گندے اور حیا سوز مسائل بھرے پڑے ہیں۔ افسوس کہ غیر مقلد علماءنے یہ مسائل قرآن وحدیث کا نا م لے کر بیان کئے ہیں۔ آپ یقین کریں جتنے حیاءسوز مسائل غیر مقلدین نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے منسوب کئے ہیں کسی ہندو ، سکھ یایہودی نے بھی اپنے مذہبی پیشوا سے منسوب نہیں کیے ہوں گے۔ غیر مقلدین تقیہ کر کے ان مسائل کو چھپاتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ فقہ حنفی پر خواہ مخواہ کے اعتراض کیے جائیں تاکہ ان کے اپنے مسائل عوام سے پوشیدہ رہیں۔

آپ یہ مسائل پڑھیں گے تو ہو سکتا ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگائیں اور توبہ توبہ کریں۔ کوئی شاید یہ بھی کہے کہ ایسی کتاب لکھنے کی کیا ضرورت تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس تیزی سے اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر مقلدین اپنا لٹریچر پھیلا رہے ہیں حقیقت کو آشکار کرنا ہماری مجبوری ہے۔ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ غیر مقلدین کو ہدایت عطا فرمائیں اور امت کو اس فتنے سے بچائیں۔ آمین

مشہور غیر مقلد عالم نواب نور الحسن خان لکھتے ہیں:

منی ہر چند پاک ہے (عرف الجادی ۔ ص۱۰)

اور معروف غیر مقلد عالم علامہ وحید الزماں خان لکھتے ہیں:

منی خواہ گاڑھی ہو یا پتلی ، خشک ہو یا تر ہر حال میں پاک ہے۔

(نزل الابرار ۔ ج۱ص۴۹)

اور نامور غیر مقلد عالم مولانا ابو الحسن محی الدین لکھتے ہیں:

منی پاک ہے اور ایک قول میں کھانے کی بھی اجازت ہے

( فقہ محمدیہ ۔ ج۱ص ۴۶)

مشہور غیر مقلد عالم علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں :

عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے

(کنزالحقائق س۱۶)

 معروف غیر مقلد عالم نوب نورالحسن خان لکھتے ہیں:

نماز میں جس کی شرمگاہ سب کے سامنے نمایاں رہی اس کی نماز صحیح ہے۔

(عرف الجادی ۔ص۲۲)

مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں :

عورت تنہا بالکل ننگی نماز پڑھ سکتی ہے۔ عورت دوسری عورتوں کے ساتھ سب ننگی نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے۔ میاں بیوی دونوں اکٹھے مادر زاد ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے۔ عورت اپنے باپ ، بیٹے ، بھائی ، چچا ، ماموں سب کے ساتھ مادر زاد ننگی نماز پڑھے تو نماز صحیح ہے“۔

(بدورالاہلہ ۔ ص۳۹)

یہ نہ سمجھیں کہ یہ مجبوری کے مسائل ہوں گے۔ علامہ وحید الزماں وضاحت فرماتے ہیں ”کپڑے پاس ہوتے ہوئے بھی ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے“۔

( نزل الابرار۔ ج۱ ص۶۵)

معروف غیر مقلدعالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:

”شرمگاہ کے اندر جھانکنے کے مکروہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں“۔

( بدورالاہلہ۔ص۱۷۵)

آگے لکھتے ہیں:

رانوں میں صحبت کرنا اور دبر (پیچھے کے راستے ) میں صحبت کرنا جائز ہے کوئی شک نہیں بلکہ یہ سنت سے ثابت ہے ۔

 (معاذاللہ ۔ استغفراللہ)

(بدورالاہلہ۔ص۱۷۵)

اور مشہور غیر مقلدعالم علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:

بیویو ں اور لونڈیوں کے غیر فطری مقام کے استعمال پر انکار جائز نہیں

(ہدیہ المہدی ج۱ ۔ ص۱۱۸)

آگے لکھتے ہیں:

دبر (پیچھے کے راستے ) میں صحبت کرنے سے غسل بھی واجب نہیں ہو تا

(نزل الابرار۔ ج۱ص۲۴)

علامہ وحید الزما ں نے ایک عجیب وغریب مسئلہ غیر مقلدین کے لیے یہ بھی بیان کیا کہ :

خود اپنا آلہءتناسل اپنی ہی دبر میں داخل کیا تو غسل واجب نہیں ۔

(نزل الابرار۔ ج۱ص۲۴)

علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:

متعہ کی اباحت (جائز ہونا) قرآن کی قطعی آیات سے ثابت ہے۔

(نزل الابر ار ۔ ج۲ ص۳۳)

معروف غیر مقلدعالم نواب نور الحسن خان لکھتے ہیں:

جن کو زنا پر مجبور کیا جائے اس کو زنا کرنا جائز ہے اور کوئی حد واجب نہیں۔ عورت کی مجبوری تو ظاہر ہے۔ مرد بھی اگر کہے کہ میرا ارادہ نہ تھا مگر مجھے قوت شہوت نے مجبور کیا تو مان لیا جائے گااگر چہ ارادہ زنا کا نہ ہو۔

(عرف الجادی ۔ ص۲۰۶)

مشہور غیر مقلدعالم نواب نورالحسن لکھتے ہیں:

ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ کی قبل ودبر (یعنی اگلی اور پچھلی شرمگاہ) کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔

(عرف الجادی۔ص۵۲)

علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:

جائز ہے کہ عورت غیر مرد کو اپنا دودھ چھاتیوں سے پلائے اگرچہ وہ مرد داڑھی والا ہو تا کہ ایک دوسرے کو دیکھنا جائز ہو جائے۔

(نزل الابرار ج۲ص۷۷)

نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:

چار کی کوئی حد نہیں (غیر مقلدمرد) جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔

(ظفرالامانی۔ ص۱۴۱)

نواب نورالحسن خان لکھتے ہیں:

اگر کسی عورت سے زید نے زنا کیا اور اسی زنا سے لڑکی پیدا ہوئی تو زید خود اپنی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے۔

(عرف الجادی۔ ص۱۰۹)

مشہور غیر مقلدعالم نواب نور الحسن خان لکھتے ہیں:

اگر گنا ہ سے بچنا مشکل ہو تو مشت زنی واجب ہے۔

(عرف الجادی ۔ ص۲۰۷)

 اور بعض صحابہ ؓ بھی مشت زنی کیا کرتے تھے۔“(معاذاللہ )

(عرف الجادی ۔ ص۲۰۷)

علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:

اگر بیٹے نے ایک عورت سے زنا کیا تو یہ عورت باپ کے لیے حلال ہے۔اسی طرح اس کے برعکس بھی ہے۔

(نزل الابرار ۔ ج ۱ص۲۸)

علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:

اگر کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا، خواہ زنا کرنے والا بالغ ہو یا نابالغ یا قریب البلوغ ، تو وہ اپنے خاوند پر حرام نہیں ہوئی۔

 (نزل الابرار ج۲ ص۲۸)

علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:

 ایک عورت سے تین باری باری صحبت کرتے رہے اور ان تینوں کی صحبت سے لڑکا پیدا ہوا تو لڑکے پر قرعہ اندازی ہو گی۔ جس کے نام قرعہ نکل آیا اس کو بیٹا مل جائے گا۔اور باقی دو کو یہ بیٹا لینے والا دو تہائی دیت دے گا۔

(نزل الابرار۔ ج۲ص۷۵)

علامہ وحیدالزماں لکھتے ہیں:

 غیر مقلدین کے لیے ) بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج(شرمگاہ) تنگ ہو اور جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو۔

(لغات الحدیث پ۶ ص۴۲۸)

غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں:

عورت کو زیر ناف بال استرے سے صاف کرنے چاہئیں۔ اُکھاڑنے سے محل (شرمگاہ کا مقام) ڈھیلا ہو جاتا ہے۔

 فتاویٰ نذیریہ۔ ج۲ص۵۲۶)

معروف غیر مقلد عالم علامہ وحید الزماں غیر مقلد عورتوں کو حیض سے پاک ہونے کا طریقہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

عورت جب حیض سے پاک ہو تو دیوار کے ساتھ پیٹ لگا کر کھڑی ہو جائے اور ایک ٹانگ اس طرح اُٹھائے جیسے کتا پیشاب کرتے وقت اُٹھاتا ہے۔ اور روئی کے گالے فرج (شرمگاہ) کے اندر بھرے۔ پھر ان کو نکالے۔ اس طرح وہ پوری پاک ہو گی۔

(لغات الحدیث)

معروف غیر مقلد عالم مولوی ابو الحسن محی الدین لکھتے ہیں:

حائضہ حیض سے پاک ہو کر غسل کر لے پھر روئی کی دھجی کے ساتھ خوشبو لگا کر شرمگاہ کے اندر رکھ لے۔

(فقہ محمدیہ۔ ج۱ص۳۲)

علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:

خنزیر پاک ہے ۔ خنزیر کی ہڈی ، پٹھے ، کھر ، سینگ اور تھوتھنی سب پاک ہیں۔

(کنزالحقائق۔ ص۱۳)

علامہ صدیق حسن خان لکھتے ہیں:

خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں۔

(بدور الاہلہ۔ ص۱۶)

علامہ وحید الزماں خان لکھتے ہیں:

لوگوں نے کتے اور خنزیر اور ان کے جھوٹے کے متعلق اختلاف کیا ۔ زیادہ راجح یہ ہے کہ ان کا جھوٹا پاک ہے۔ ایسے لوگوں نے کتے کے پیشاب ، پاخانے کے متعلق اختلاف کیا ہے ۔ حق بات یہ ہے کہ ان کے ناپاک ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔

(نزل الابرار۔ ج۱ص۵۰)

معروف غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:

گدھی ، کتیا اور سورنی کا دودھ پاک ہے۔

(بدورالاہلہ ۔ ص۱۸)

مفتی عبدالستار دہلوی امام فرقہ غربائے اہل حدیث فرماتے ہیں:

حلال جانوروں کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہے ۔ جس کپڑے پر لگا ہو اس سے نماز پڑھنی درست ہے ۔ نیز بطور ادویات کے استعمال کرنا درست ہے۔

(فتاویٰ ستاریہ ۔ ج۱ ص۱۰۵)

نواب نورالحسن خان لکھتے ہیں:

گھوڑا حلال ہے۔

(عرف الجادی ۔ ص ۲۳۶)

مفتی عبدالستار صاحب لکھتے ہیں:

 گھوڑے کی قربانی کرنا بھی ثابت بلکہ ضروری ہے۔

(فتاویٰ ستاریہ۔ ج۱ص ۱۴۷-۱۵۲)

نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:

گوہ (چھپکلی نماایک جانور) حلال ہے۔

(عرف الجادی۔ ص۲۳۶)

نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:

خار پشت (کانٹوں والا چوہا) کھانا حلال ہے۔

(عرف الجادی ۔ ص۲۳۶)

نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:

بحری مردہ حلال ہے۔ (عرف الجادی ۔ ص ۲۳۶) یعنی مینڈک ، خنزیر ، کچھوا ، کیکڑا، سانپ ، انسان وغیر ہ۔

نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:

خشکی کے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خون نہیں۔ (بدورالاہلہ ۔ ص ۳۴۸) یعنی کیڑے ، مکوڑے، مکھی ، مچھر ، چھپکلی وغیرہ ۔

غیر مقلدین کے بدنصیب فرقے نے اپنی جنسی آگ بجھانے کے لیے قرآن پاک جیسی مقدس کتاب کو بھی نہ بخشا۔ معروف غیر مقلد عالم اور غیر مقلدین کے محدثِ ذی شان حافظ عبداللہ روپڑی نے قرآن کے معارف بیان کرتے ہوئے عورت اور مرد کی شرمگاہوں کی ہیئت اور مرد وزن کے جنسی ملاپ کی کیفیت جیسی خرافات بیان کر کے اپنے نامۂ اعمال کی سیاہی میں اضافہ کیا ہے ۔ آئیے ان کے معارف کے کچھ نمونے دیکھیں۔

غیر مقلدین کے محدثِ اعظم عبداللہ روپڑی فرماتے ہیں:

رحم کی شکل تقریباصراحی کی ہے ۔ رحم کی گردن عموماً چھ انگل سے گیارہ انگل اس عورت کی ہوتی ہے ۔ ہم بستری کے وقت قضیب ( آلہءمرد ) گردنِ رحم میں داخل ہوتی ہے اور اس راستے منی رحم میں پہنچتی ہے۔ اگر گردنِ رحم اور قضیب لمبائی میں برابر ہوں تو منی وسط (گہرائی) رحم میں پہنچ جاتی ہے ورنہ ورے رہتی ہے۔

(تنظیم ۔ یکم مئی ۱۹۳۲، ص ۶، کالم نمبر ۱)

حافظ عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں:

اور بعض دفعہ مرد کی منی زیادہ دفق (زور) کے ساتھ نکلے تو یہ بھی ایک ذریعہ وسط میں پہنچنے کا ہے۔ مگر یہ طاقت اور قوتِ مردمی پر موقوف ہے۔  (حوالہ بالا )

حافظ عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں:

رحم ، مثانہ (پیشاب کی تھیلی) اور رودہ مستقیم (پاخانہ نکلنے کی انتڑی ) کے درمیان پٹھے کی طرح سفید رنگ کا گردن والا ایک عضو ہے جس کی شکل قریب قریب الٹی صراحی کی بتلایا کرتے ہیں مگر پورا نقشہ اس کا قدرت نے خود مرد کے اند رکھا ہے ۔ مرد اپنی آلت (آلہءتناسل ) کو اُٹھا کر پیڑو کے ساتھ لگا لے تو آلت مع خصیتین رحم کا پورا نقشہ ہے۔(حوالہ بالا )

غیرمقلدین کے محدث روپڑی صاحب لکھتے ہیں :

آلت (آلہ ءتناسل ) بمنزلہ گردن رحم کے ہے اور خصیتین بمنزلہ پچھلے رحم کے ہیں ۔ پچھلا حصہ رحم کا ناف کے قریب سے شروع ہوتا ہے اور گردن رحم کی عورت کی شرمگاہ میں واقع ہوتی ہے۔ جیسے ایک آستین دوسرے آستین میں ہو۔ گردنِ رحم پر زائد گوشت لگا ہوتا ہے ۔ اس کو رحم کا منہ کہتے ہیں اور یہ منہ ہمیشہ بند رہتا ہے ۔ ہم بستری کے وقت آلت کے اندر جانے سے کھلتا ہے یا جب بچہ پیدا ہوتا ہے۔ قدرت نے رحم کے منہ میں خصوصیت کے ساتھ لذت کا احساس رکھا ہے۔ اگر آلت اس کو چھوئے تو مرد وعورت دونوں محظوظ ہوتے ہیں، خاص کر جب آلت اور گردنِ رحم کی لمبائی یکساں ہو تو یہ مرد وعورت کی کمال محبت اور زیادتی لذت اور قرار حمل کا ذریعہ ہے۔ رحم منی کا شائق ہے۔ اس لیے ہم بستری کے وقت رحم کی جسم گردن کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ گردن رحم کی عموماً چھ انگشت اسی عورت کی ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ گیارہ انگشت ہوتی ہے۔“ (حوالہ ءبالا )

حافظ روپڑی لکھتے ہیں:

منہ رحم کا عورت کی شرمگاہ میں پیشاب کے سوراخ سے ایک انگلی سے کچھ کم پیچھے ہوتا ہے۔“ (حوالہ بالا )

حافظ روپڑی غیر مقلد اندر کی پوری کہانی سے واقف ہیں۔ لکھتے ہیں:

اور گردن رحم کی کسی عورت میں دائیں جانب اور کسی میں بائیں جانب مائل ہوتی ہے۔ رحم کے باہر کی طرف اگرچہ ایسی نرم نہیں ہوتی لیکن باطن اس کا نہایت نرم ، چکن دار ہوتا ہے تاکہ آلت کے دخول کے وقت دونوں محظوظ ہوں ۔ نیز ربڑ کی طرح کھینچنے سے کھنچ جاتا ہے تا کہ جتنی آلت داخل ہو اتنا ہی بڑھتا جائے ۔ کنوراری عورتوں میں رحم کے منہ پر کچھ رگیں سی تنی ہوتی ہیں جو پہلی صحبت میں پھٹ جاتی ہے ۔ اس کو ازالہ ٔبکارت کہتے ہیں۔“

(تنظیم اہل حدیث روپڑی ، یکم جون ۱۹۳۲۔ ص۳، کالم نمبر ۳ )

غیر مقلدین کے محدث اعظم حافظ عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں:

اور ہم بستری کی بہتر صورت یہ ہے کہ عورت چت لیٹی ہو اور مرد اوپر ہو ۔ عورت کی رانیں اُٹھا کر بہت سی چھیڑ چھاڑ کے بعدجب عورت کی آنکھوں کی رنگت بدل جائے اور اس کی طبیعت میں کمال جوش آجائے اور مرد کو اپنی جانب کھینچے تو اس وقت دخول کرے۔ اس سے مرد عورت کا پانی اکٹھے نکل کر عموماً حمل قرار پاتا ہے۔“

(بحوالہ ءاخبارِ محمدی ، ۱۵جنوری ۱۹۳۹ء، ص ۱۳، کالم نمبر ۳)

قارئین ۔یہ تھے حافظ عبداللہ روپڑی کے قرانی معارف۔ معروف غیر مقلد عالم مولانا محمد جونا گڑھی نے بھی یہ معارف اپنے ”اخبار محمدی“ میں نقل کئے اور عنوان دیا ”عبداللہ روپڑی ، ایڈیٹر تنظیم کے معارف قرآنی ، اسے کوک شاستر کہیں یا لذت النساءیا ترغیب بدکاری؟“

ان معارف قرآنی پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالم شیخ محمد جونا گڑھی ، غیر مقلدین کے مفسر قرآن اور محدثِ ذی شان حافظ عبداللہ روپڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:

د"روپڑی نے معارف قرآنی بیان کرتے ہوئے رنڈیوں اور بھڑووں کا ارمان پورا کیا اور تماش بینوں کے تمام ہتھکنڈے ادا کئے۔د"

(اخبار محمدی ، ۱۵ اپریل ۱۹۳۹، ص ۱۳ )

قارئین محمد جونا گڑھی صاحب کی ”مہذب “ زبان کا نمونہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔ افسوس کہ آج سعودیہ میں جو اردو ترجمہ قرآن تقسیم ہو رہا ہے وہ انہیں محمد جونا گڑھی کا ہے ۔ کاش سعودی حکومت کسی متقی عالم کا ترجمہ قرآن شائع کرنے کا اہتمام کرتی۔

اختتامیہ :

قارئین یہ تو تھے بطور نمونہ غیر مقلدین کی چند کتابوں کے چند حوالے ۔ ورنہ اگر آپ غیر مقلدین کی کتابوں کو اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو بے شمار حیا سوز اور گندے مسائل ملیں گے ۔ اور وہ بھی قرآن وحدیث کے نام پر ۔ آخر میں ہم قارئین سے پوچھتے ہیں کہ جتنے گندے اور حیا باختہ مسائل غیر مقلدین نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے منسوب کئے ہیں کیاکسی ہندو ، سکھ ، یہودی یا قادیانی نے بھی اپنے مذہبی پیشواؤں سے منسوب کیے ہیں ؟ یا غیر مقلدین ان سب پر سبقت لے گئے ہیں۔

آخر میں ہم اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ غیر مقلدین کو ہدایت کی دولت سے نوازیں اور امت کواس فتنے سے محفوظ رکھیں (آمین )

۔غیرمقلدین کابخاری شریف ومسلم شریف پر کتنا عمل کتنا فریب

صبح وشام بخاری کی رٹ لگانے والا فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث( غیر مقلدین) کے سامنےبخاری شریف پیش کی جاتی ہیں تو غیرمقلدین کو بخار ہو جاتا ہے۔

ہر شخص جانتا ہے کہ غیرمقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) بخار ی شریف اور امام بخاری ؒ کی ذات کو ہر مسئلے میں جو از بنا کر سادہ لوح طبقہ کو گمراہ کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں ہر وہ شخص جو صبح و شام بخاری بخاری کی رٹ لگائے پھرتا ہے کیا وہ خود بخاری شریف کی روایات اور خود امام بخاری ؒ سے ان کے بارے میں اتفاق بھی کرتا ہے یا نہیں، يہ سوال یقینا قابل غور ہے ،ذیل میں چند مسائل ذکر کئے جا رہے ہیں جن پر غیرمقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) اور امام بخاری ؒ میں اختلاف ہے

۱۔پیشاب و پاخانہ کی حالت میں میدان میں قبلہ رو منہ یا پیٹھ کرنا درست نہیں اور عمارت میں درست ہے، امام بخاری ؒ نے اسے اختیار کیا ہے (تیسرالباری ج۱ص۱۸) جبکہ غیر مقلدین کے ہاں دونوں جگہ منع ہے۔

 (نواب صدیق حسن خان نے مسلم کی شرح السراج الوہاج ج ۱ص۱۰۳۱میں اور عبد اﷲ مبارک پوری نے مرعاة المفاتیح ج ۱ص۴۱۱ )

۲۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک کتے کا جھوٹا پاک ہے

 (تیسیر الباری ج۱ ص۱۳۴، فتح الباری ج۱ص۲۸۳)

جبکہ غیر مقلدین کے نزديک کتے کا جھوٹا ناپاک ہے

(فتاوی علمائے اہل حدیث ج۱ص۲۱،۲۳۸)

۳۔امام بخاری ؒ کے نزديک جماع کے وقت انزال نہ ہوتو ایسی حالت میں غسل کر لے تو زیادہ احتیاط ہے؛ لیکن وضو بھی کافی ہے

 (تیسیر الباری ج۱ص۱۳۹)

جبکہ غیر مقلدین کے ہاں اس حالت میں غسل واجب ہے

(السراج الوہاج ج۱ص۱۲۴،تحفہ الاحوذی ج۱ص۱۱۱،فتاوی اہلحدیث ج۱ص۲۵۶)

۴۔ امام بخاری ؒ کے نزدک منی نجس ہے

 (تیسیر الباری ج۱ص۱۷۰)

 جبکہ نواب صدیق حسن خان کے نزديک منی پاک ہے مگر جب خشک ہوتو کھرچ دینا اور تر ہو تو دھولینا چاہيے

(السراج الوہاج ج۱ص۱۴۲)

۵۔ امام بخاری ؒ کے نزديک چوہا اگر گھی میں گر جائے تو اس جگہ کو اور آس پاس والی جگہ کوپھینک دو اور باقی کھاؤ (تیسیر الباری ج۱ص۱۷۳) جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث)کے ہاں چوہا اگرگرم گھی میں گرجائے تو اس کے نزديک نہ جاؤ

(فتاوی علمائے اہلحدیث ج۱ص۲۴)

۶۔۔امام بخاری ؒ کے نزديک غسل جنابت میں ناک میں پانی ڈالنا اور کلی کرنا واجب نہیں ہے(تیسیرالباری ج ۱ص۱۸۸)جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزدیک واجب ہے۔

(تحفہ الاحوذی ج۱ص۴۰، مرعاة المفاتیح ج۱ص۴۵۴، السراج الوہاج ج۱ص۱۱۱)

۷۔امام بخاری ؒ کے نزديک افضل يہ ہے کہ وضو اورغسل میں بدن کپڑے سے نہ پونچھے (تیسیر الباری ج۱ص۱۹۸) جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے ہاں پونچھنا اور نہ پونچھنا دونوں برابر ہیں۔

۸۔ امام بخاری ؒ کے نزديک جنبی اورحائضہ دونوں کو قرآن پڑھنا درست ہے (تیسیر الباری ج۱ص۲۱۶)جبکہ غیرمقلدیں ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے ہاں حرام ہے(تحفہ الاحوذی ج۱ص۱۲۴،فتاوی اہلحدیث ج۱ص۲۶۳، فتاوی علمائے اہلحدیث ج۱ص۵۴)

۹۔امام بخاری ؒ کے نزديک قرآن کو بے وضو ہاتھ لگانا درست ہے جبکہ غیرمقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے ہاں درست نہیں

(مرعاة المفاتیح ج۱ص۵۲۲)

۱۰۔امام بخاری کے نزديک ذَکر اور دبر کا چھپانا واجب ہے (فتح الباری ج۲ص۲۲)جبکہ غیرمقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک ناف سے لےکر گھٹنے تک کا حصہ پردہ ہے

(السراج الوہاج ج۱ص۱۲۸)

۱۱۔امام بخاری ؒ کے نزديک اونٹوں کے باڑہ میں نماز پڑھنا درست ہے جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک حرام ہے

( تیسیر الباری ج۱ص۳۰۴)

۱۲۔امام بخاری ؒ کے نزديک مسجد میں محراب بنانا سنت نہیں ہے(تیسیرالباری ج۱ص۳۴۲،۳۴۳) جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کی سبھی مساجد میں محراب اور منبر چونے اینٹ سے بنائے جاتے ہیں۔

۱۳۔ امام بخاریؒ کے نزديک نمازی کے آگے سے  ہر جگہ گذرنا منع ہے (تیسیرالباری ج۱ص۳۴۴) جبکہ غیرمقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک بیت اﷲ میں نمازی کے آگے سے گذرنا درست ہے

(فتاوی اہل حدیث ج۲ص۱۱۷)

۱۴۔امام بخاری ؒ کے روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کو ہاتھ لگ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی(تیسیر الباری ج۱ص۲۵۵) جبکہ غیرمقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کہ ہاں وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

۱۵۔امام بخاری ؒ کے نزديک سو کر اٹھنے والے کی نماز قضا نہیں جبکہ غیرمقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک وہ نماز ادا ہے جب وہ جاگا یا اس کو یا دآئی

(تیسیرالباری ج ۱ ص۲۹۸)

۱۶۔اگر امام بیماری کے وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو امام بخاری ؒ کے نزديک قدرت رکھنے والے مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں (فتح الباری ج ۲ص۲۹۸) جبکہ غیر مقلدین کے نزديک امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نمازپڑھیں۔

۱۷۔امام بخاری ؒ کے نزديک عالم امامت کا زیادہ حقدار ہے (تیسیر الباری ج۱ص۴۴۷) جبکہ غیرمقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک قاری زیادہ حق دار ہے

( تحفہ الاحوذی ج۱ص۱۹۷)

۱۸۔امام بخاری ؒ کے نزديک جمعہ کے دن غسل کرنا سنت ہے (تیسیرالباری ج۱ص۷)جبکہ غیرمقلدین کے نزديک واجب ہے

(تیسیر الباری ج ۱ ص۲، السراج الوہاج ج۱ص۲۵۳)

۱۹۔ امام بخاری ؒ کے نزديک تہجد اور وتر دو علیحدہ نمازیں ہے (فتح الباری ج۱ص۱۳۰)جبکہ غیر مقلدین کے نزديک تراویح،تہجد اور صلوة اللیل ايک ہی ہیں۔

(تیسیر الباری ج۲ص۷۶)

۲۰۔ امام بخاری ؒ کے نزديک جنازہ کی میت اور امام مرد اور عورت دونوں کی میت میں کمرکے مقابل کھڑا ہو(تیسیر الباری ج۲ص۲۹۲) جبکہ غیرمقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث)کے نزديک امام عورت کی کمر اور مرد کے سر کے مقابل کھڑا ہو ۔

(تیسیرالباری ج۲ص۲۹۱، فتاوی علمائے اہلحدیث ص۲)

۲۱۔امام بخاری ؒ کے نزدیک مشرکین کی نابالغ اولاد اگر مر جائے تو وہ جنتی ہے (تیسیرالباری ج۲ص۳۳۱)جبکہ غیرمقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث)کے نزديک دوزخی ہے

(تیسیرالباری ج۲ص ۳۱۰)

۲۲۔امام بخاری ؒ رمضان المبارک میں دن میں ايک قرآن ختم کیا کرتے تھے (مقدمہ فتح الباری ج۲ص۲۵۲، مقدمہ تیسیر الباری ج۳ص۱۳۶)جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث)کے نزديک تین دن سے جلد ختم کرنا مکروہ ہے

(تیسیرالباری ج۶ص۵۳۵)

۲۳۔بخاری کی روایت میں وتروں سمیت تہجد کی تیرہ رکعتیں بھی ثابت ہیں (فتح الباری ج۳ص۱۳۶، تیسیرالباری ج ۲ص۲۰۳) جبکہ غیرمقلدین کے نزدیک رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ کا ثبوت نہیں ہے

( عرف الجادی ص۳۳)

۲۴۔امام بخاری ؒ کے نزدیک حالت احرام میں عقد کرنا درست ہے (تیسیر الباری ج۳ص۴۲) جبکہ غیر مقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزدیک حالت احرام میں نکاح درست نہیں

(تحفہ الاحوذی ج۲ص۸۸، السراج الوہاج ج۱ص۵۲۶-۲۷)

۲۵۔امام بخاری ؒ کے نزديک مکہ اور اردگر کی بستیوں کوام القری کہتے ہیں جبکہ غیر مقلدین ( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث)کے نزديک ام القری صرف مکہ ہی ہے

(تیسیر الباری ج۶ص۲۹۳)

۲۶۔امام بخاری ؒ کے نزدیک بسم اﷲ ہر سورة کا جز نہیں (فتح الباری ج۱۰ص۳۴۳،تیسیرالباری ج۶ص۴۷۰)جبکہ غیرمقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزدیک بسم اﷲ ہر سورة کاحصہ ہے۔

(السراج الوہاج، ج۱ص۱۹۲، عرف الجادی ص۲۶، فتاوی علمائے اہلحدیث ج۲ص۱۱۰)

۲۷۔امام بخاری ؒ کے نزدیک حیض میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے (تیسیرالباری ج۷ص۲۳۶)جبکہ غیرمقلدین( فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث) کے نزديک نہیں ہوتی

(تیسیرالباری ج۷ص۱۶۴)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...