Monday, 31 January 2022

حضرت مولا علی کے امام ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما

حضرت مولا علی کے امام ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما


محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے مرتبے اور ابوبکر کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا : ابوبکر کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کونماز پڑھاؤ آپ نے مجھے نماز پڑھا نے کا حکم نہیں دیا ۔ لہٰذا رسول اللہ صلی الله عليه و آلہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر کیوں نہ راضی ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حدیث:۴٣)(الریاض النضرۃ جلد ١ صفحہ ٨١)


حضرت سیدنا علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر باقاعدہ مسجد میں لوگوں کے سامنے بیعت کی تھی ۔ بخاری شریف میں آتا ہے : فقال علی لابی بکر موعدک العشية للبيعة فلما صلی ابو بکر الظهر رقی المنبر فتشهد فسر بذالک المسلمون وقالوا اصبت ۔ (شرح، بخاری، 906)

ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا میں پچھلے پہر آپ کے پاس بیعت کے لیے حاضر ہوں گا ، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر ادا کی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے ، توحید و رسالت کی گواہی دی ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال، بیعت میں تاخیر اور آپ کی معذرت تاخیر بیان فرمائی ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے توحید و رسالت کی گواہی دی اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ اس پر سارے مسلمان خوش ہوئے اور کہا اے علی (رضی اللہ عنہ) آپ نے بہت اچھا کیا ۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ ان کی امامت پر راضی تھے ۔


شیعہ عالم سلیم بن قیس لکھتا ہے : علی علیہ السلام نے فرمایا حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی تو خالد بن ولید نے میرے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی جبکہ وہ تلوار لٹکائے ہوئے تھے ۔ (کتاب سلیم بن قیس صفحہ ۲۲۸)


شیعہ عالم طبرسی لکھتا ہے : پھر علی علیہ السلام نماز کےلیے تیار ہوئے اور مسجد میں آئے اور ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی اور خالد بن ولید نے ان کے پہلو میں نماز ادا کی ۔ (الاحتجاج جلد ۱ صفحہ ۱۲۶)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پانچوں نمازیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ادا کیا کرتے تھے تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر راضی و متفق اور ان سے محبت و الفت رکھتے ہیں ۔ (الاحتجاج للطبرسی صفحہ نمبر ۵۳)(کتاب سلیم بن قیس صفحہ نمبر ۲۵۳،چشتی)(مرآۃ العقول للمجلسی صفحہ ۲۸۸ ط ایران)


شیعہ عالم طوسی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی نماز کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے : بظاہر وہ (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) مسلمان ہی لگتے تھے ۔ (تلخیص الشافی صفحہ نمبر ۳۵۴ مطبوعہ ایران)


شیخ طوسی لکھتا ہے : یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہی ظاہری بات ہے ۔ (تلخیص الشافی : ۳۵۴، طبع ایران)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون صفحہ 150)


نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی ۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ دوسری جلد صفحہ 8 مطبوعہ مصر،چشتی)


حضرت علی نے ہرگز حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہما) کی بیعت نہ کی کا جواب


شیعہ حضرات کا اعتراض : ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرگز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟ جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں : فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ۔ (اثبات الوصیة: ١٤٦؛ الشّافی ٣: ٢٤٤)


اس کے باوجو د بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع واتفاق کہتے ہیں ؟ اور پھر اس حدیث : علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار ۔ (مستدرک حاکم ٣: ١٢٥؛ جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ،ح٣٧١٤؛مناقب خوارزمی :١٧٦،ح ٢١٤؛فرائد السّمطین ١: ١٧٧،ح ١٤٠؛ شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣)


علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھرجائیں ۔ (رضی اللہ عنہ)


اس اعتراض کا جواب : یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کردیتے ہیں ۔


بیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سے مضمون نمبر 1 میں ہم دے چکے ہیں لیکن یہ بلکل ہی سفید جہوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی اس کا صحیح روایت سے ثبوت : امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔

ترجمہ : تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔


سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا ۔


عن حبيب ابن أبي ثابت قال كان علي في بيته إذ أتى فقيل له قد جلس أبو بكر للبيعة فخرج في قميص ما عليه إزار ولا رداء عجلا كراهية أن يبطئ عنها حتى بايعه ثم جلس إليه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس ۔

ترجمہ : حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ ابوبکر رضہ مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فورن اتھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر رضہ کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے ۔ (تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ نمبر 448،چشتی)


اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا جھوٹ ہے ۔


باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکھتے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کو جاننی چاہئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں شیر و شکر تھے ۔


شیعو اپنے گریبان میں جھانکو : اب یہ شیعہ ہین کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق رضی اللہ عنہ کو حق نہیں مانتے جسے علی رضی اللہ عنہ حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمداللہ ہمیشہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے ۔ اور حق سے دستبردار ہوجاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے ۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکہنے والوں پر ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں

ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں

محترم قارئینِ کرام : ہِمتِ اُو کِشتِ ملت را چو اَبر ثانی اسلام و غار و بدر و قبر آن امن الناس برمولائے ما آن کلیمِ اول سینائے ما ۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذاتِ اقدس مسلمانوں کےلیے ابرِ بہار کی طرح ہے ، آپ اسلام لانے میں،غار میں،بدر میں اور قبر میں ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں ۔ آپ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مُحسنِ اعظم ہیں اور آپ ہی ہم راز مصطفی ہیں : ⬇


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی صحبت اور مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ ابوبکر ہے اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے میں کسی کو خلیل (گہرا دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت قائم ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 591 حدیث نمبر 3904)


عن أبي هريرة قال : قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما نفعني مال أحد قطّ ما نفعني مال أبي بکر ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661)(ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328)(نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478)(ابن منده، الإيمان، 2 : 795)(خطيب بغداد، تاريخ بغداد، 8 : 21)


عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال قطّ ما نفعني مال أبي بکر‘‘ قال فبکٰي أبوبکر وقال : هل أنا و مالي إلّا لک يا رسول ﷲ ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کبھی کسی مال نے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے مُجھے فائدہ پہنچایا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کی : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اور میرا مال صرف آپ کےلیے ہی ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، 1 : 36، رقم : 94)(احمد بن حنبل، المسند، 2 : 253، رقم : 7439)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 273، رقم : 6858)(ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 577، رقم : 1229)(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 31927)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 65، رقم : 25)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 353، رقم : 511)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 393، رقم : 595)(هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2166)(کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 16)(ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 249)(طحاوي، شرح معاني الآثار، 4 : 158)(قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 3 : 349)(مناوي، فيض القدير، 5 : 503)(محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 16)(خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 363، رقم : 5525)


عن ابن عبّاس خرج رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد ﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : ’’إنّه ليس أحد أمنّ عليّ في نفسه وماله من أبي بکرابن أبي قحافة ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے ۔ ﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر اپنی جان و مال (قربان کرنے) کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں ۔ (بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455)(احمدبن حنبل، المسند، 1 : 270، رقم : 2432)(ابن حبان، 15 : 275، رقم : 6860)(ابويعلي، المسند، 4 : 457، رقم : 2584)(نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8102)(نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 1)(احمد بن حنبل، فصائل الصحابه، 1 : 152، رقم : 134)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 97، رقم : 67،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 11 : 338، رقم : 11938)(ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 228)(محب طبري، الرياض النضره، 2 : 13)


عن أبي سعيد قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : إنّ أمنّ النّاس عليّ في ماله وصحبته أبو بکر ۔

ترجمہ : حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا احسان ہے ، مال کا بھی اور ہم نشینی کا بھی ۔ (مسلم الصحيح 4 : 1854، کتاب فضائل الصحابة رقم : 2382)(بخاري الصحيح، 1 : 177، کتاب الصلاة، رقم : 454)(بخاري، الصحيح، 3 : 1337، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3454)(بخاري، الصحيح، 3 : 1417، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3691)(ترمذي، السنن، 5 : 608، کتاب المناقب، رقم : 3660)(احمدبن حنبل، المسند، 3 : 18، رقم : 11150)(ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 348، رقم : 3126)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 6861)(نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8103)(نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 2)(ابن عبد البر، التمهيد، 20 : 112،چشتی)(ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 967)(ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 243)(ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 227)(بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 120، رقم : 58)(محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 14)(حماد بن اسحاق، ترکة النبي، 1 : 51)


عن ابن المسيب قال : قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما مال رجل من المسلمين أنفع من مال أبي بکر قال و کان رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقضي في مال أبي بکر کما يقضي في مال نفسه ۔

ترجمہ : ابن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں سے کسی شخص کے مال نے مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے زیادہ نفع نہیں پہنچایا ۔ اور راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں ۔ (خيثمه، من حديث خيثمه، 1 : 130،چشتی)(معمر بن راشد، الجامع، 11 : 228)(مناوي، فيض القدير، 4 : 18)(مناوي، فيض القدير، 5 : 503)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 72)(محب طبري، الرياض النضره، 2 : 17)


عن ابن عمر قال اسلم أبوبکر يوم اسلم و في منزله أربعون الف درهم فخرج إلي المدينة من مکة في الهجرة و ماله غير خمسة آلاف کل ذلک ينفق في الرقاب و العون علي الإسلام ۔

ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو اس وقت انکے پاس گھر میں چالیس ہزار (40000) درہم موجود تھے ، لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف پانچ ہزار (5000) درہم رہ گئے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔ (ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68)(مناوي، فيض القدير، 4 : 18)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 171)(ابن عبدالبر نے ’الاستیعاب (3 : 966) ، میں ہشام بن عروہ سے باختلاف لفظ روایت کیا ہے ۔ نووی نے ’تہذیب الاسماء (2 : 480)‘ میں ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے ۔ محب طبری، الریاض النضرہ، 2 : 21 (ھشام بن عروہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے ۔


عن زيد بن اسلم قال کان ابوبکر معروفا بالتجارة لقد بعث النبي صلي الله عليه وآله وسلم و عنده أربعون ألف درهم فکان يعتق منها و يقوي المسلمين حتي قدم المدينة القدرة آلاف درهم ثم کان يفعل فيها ما کان يفعل بمکة ۔

ترجمہ : حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق مشہور تاجر تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے آپ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کو تقویت پہنچاتے تھے یہانتک کہ آپ ہجرت کرکے ہزاروں دراہم کے ساتھ مدینہ طیبہ آگئے ۔ یہاں بھی آپ مکہ معظمہ کی طرح دل کھول کر اسلام پر خرچ کرتے رہے ۔ (ابن سعد الطبقات الکبري، 3 : 172)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 172)(الترتب الاداريه، 2 : 24)


عن أبي هريرة قال : قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر فانّ له عندنا يدا يکافئه ﷲ به يوم القيامة ۔

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے۔ بیشک اُن کے ہمارے اوپر احسان ہیں جن کا بدلہ ﷲ رب العزت قیامت کے دن چُکائے گا ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661)(ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328)(نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478)(محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 18)(عسقلاني فتح الباري، 7 : 13)


عن علي قال قال رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رحم ﷲ أبابکر زوجني ابنته و حملني إلي دارالهجرة و أعتق بلا لا من ما له ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے انہوں نے مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ، مجھے اٹھا کر دارالہجرت (مدینہ) لے گئے اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 633، رقم : 3714)(ابويعلي، المسند، 1 : 418، رقم : 550)(بزار، المسند، 3 : 52)(طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 95، رقم : 5906)(ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 577، رقم : 1232)(قيسراني، تذکرة الحفاظ، 3 : 844)(ذهبي، سير أعلام النبلاء، 15 : 278)(مزي، تهذيب الکمال، 10 : 402

9. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 243)


عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عباء ة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ ﷲد يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول ﷲ : يا أبابکر! إنّ ﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کُھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’ﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تم اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! ﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا ؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں ۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں ۔ (ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250)(ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105)(ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308)(محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20)(خطيب بغدادي، موضح أدهام الجمع والتفريق، 2 : 441)(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 30 January 2022

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کی سزا و شرعی حکم

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کی سزا و شرعی حکم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مَنْ سَبَّ الاَنَبِیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِی جُلِدَ ۔

ترجمہ : جس نے کسی نبی کو گالی دی اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے کسی صحابی کو گالی دی ، اسے کوڑے مارے جائیں گے ۔ (المعجم الصغیر طبرانی مترجم اردو حدیث نمبر 928،چشتی)،(الصارم المسلول صفحہ نمبر 92)،(احکام اہل الذمہ لابن قیم 1؍275)،(کتاب الشفاء جلد دوئم صفحہ نمبر 223)


حضرت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس اُمّت میں سب سے افضل ہیں ۔ ان کے گستاخ کو توبہ نصیب نہیں ہوگی ، میں اُن کے گستاخ سے بری الذمہ ہوں ۔ (کنزُ العُمّال عربی الجزء الثالث عشر صفحہ نمبر 8 مطبوعہ مؤسسۃ الرّسالہ)،(کنزُ العُمّال مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 17 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)


امام عاصم الاحوال رحمة اللہ علیہ (المتوفی : ١٤٢ھ) جو مدائن شہر کے قاضی بھی رہے ہیں وہ فرماتے ہیں : میرے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو گالی دی تھی ، میں نے اسے دس کوڑے لگائے ، اس نے دوبارہ گالی دی میں نے دس کوڑے مزید لگائے ، پھر وہ دوبارہ ایسا کرتا رہا حتی کہ میں نے اسے ستر کوڑے مارے ۔ (العلل و معرفة الرجال لأحمد : ٤٢٨/١ ح : ٩٤٨ وسندہ صحيح)


إبراهيم بن میسرہ بیان کرتے ہیں : میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی انسان کو مارا ہو سوائے ایک شخص کے جس نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالی دی تو انہوں نے اسے کوڑے لگائے ۔ (شرح إعتقاد أهل السنة للالكائي : 2385 وسنده حسن)


ابو الفتوح عز الدين (المتوفی : ٦٥٣ھ) جو کہ سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی اولاد میں سے تھے انہوں نے ایک رافضی النّجيب يَحْيَى بْن أحمد الحلي ابن العُود کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے کی وجہ سے گدھے پر بٹھا کر حلب شہر کا چکر لگوایا تھا ۔ (تاریخ الإسلام للذهبي : ٧٤٩/١٤)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پوتے سیدنا ابراہیم بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں : میرے ایامِ شباب میں میرے پاس مغیرہ بن سعید آیا ، میں چونکہ جوانی میں شکل و صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت مشابہت رکھتا تھا، تو اس نے میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رشتہ داری ، آپ سے مشابہت اور میرے متعلق اپنی خواہشات کا اظہار کیا، پھر اس نے سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا تذکرہ کیا تو ان پر لعنت کی اور اعلان براءت کیا ، میں نے کہا : اے اللہ کے دشمن! میرے سامنے تو ایسا کرتا ہے ؟ فرماتے ہیں : میں نے بڑی مضبوطی سے اس کا گلہ دبا دیا ۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا : گلہ دبانے کا مطلب کہ آپ نے اسے باتوں سے چپ کرا دیا ؟ فرمایا : نہیں بلکہ میں نے اس کا گلہ اتنی مضبوطی سے دبایا کہ اس کی زبان باہر نکل آئی تھی ۔ (كتاب الضعفاء للعقیلی : ١٧٩/٤ وسندہ صحیح)(ميزان الاعتدال للذهبي و نسبه البعض الي الحسن بن الحسن بن علي رحمة اللہ علیہ انظر تاريخ الإسلام و سير أعلام النبلاء للذهبي)


یاد رہے کہ یہ وہی مغیرہ بن سعید ہے ، جو نہایت برے عقائد و نظریات کا مالک تھا ، امام ذہبی رحمة اللہ علیہ اس کا نام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : لعنہ اللہ ۔ (تاریخ الإسلام للذهبي : ٣١٧/٣)


امام ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس مغیرہ بن سعید سے بڑا لعنتی پورے کوفے میں نہیں تھا ۔ (الكامل في ضعفاء الرجال : ٧٣/٨)


حافظ ابن حزم نے بھی اس کے متعلق کہا : لَعنه الله ۔ (الفصل فی الملل والأهواء و النحل : ١٤١/٤)


محترم قارئینِ کرام : صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث ِقدسی میں ارشاد ِ الہٰی ہے : مَنْ عَادَى لِى وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ الخ ۔۔۔

ترجمہ :  جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرے تومیں اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرتاہوں ۔ (صحیح بخاری شریف ،کتاب الرقاق باب التواضع حدیث نمبر 6502)


اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا ولی کون ہوسکتا ہے ؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حب علی رضی اللہ عنہ والے دل میں بغض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت تو صحابہ و ال رسول رضی اللہ عنہم کا غلام بننے کا درس دیتی ہے ۔ اور ان لوگوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے جوکہ اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں لیکن اپنے دلوں میں منکرین صحابہ کیلئے محبت بھی رکھتے ہیں ۔ کہیں منکرین صحابہ کی نحوست تمہیں بھی برباد نا کر دے اور جسطرح بغض صحابہ رضی اللہ عنہم کے سبب اللہ نے ن سے توبہ کی توفیق سلب کرلی تمھارے ساتھ بھی یہی معاملہ نا ہو ۔


صحیح بخاری ومسلم شریف میں ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یوں ہے ’’میرے صحابہ کو گالیاں مت دو ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،تم میں سے اگر کوئی شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی راہ ِ للہ خرچ کردے تو میرے صحابہ کے ایک مٹھی دانے صدقہ کرنے بلکہ اس سے آدھے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا ‘‘ طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں ، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ۔


نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔

ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470،شتی)(والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161،چشتی)


 نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔

ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)


غرض آیات ِ قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔


فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)


ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)


حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)


فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)


حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)


درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔(درمختار)


علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴،چشتی)


جس نے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر ، مرتد اور فاسق کہہ کر گالی دی ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین کو کافر یا فاسق کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُسے قرآن اور حدیث میں شک ہے ، ناقلین پر افتراء پردازی کا مطلب ہے کہ منقول (قرآن وسنت) بھی جھوٹا ہے ، جب کہ قرآن نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اللہ اُن سے راضی ہوچکا ہے ۔ قرآن اور احادیث کے نصوص سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر قطعی دلالت کرتا ہے ۔ (الرد علی الرافضۃ: ۱۹) ، تو جس نے قطعیت کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔


صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذاء پہنچانا ہے ، اس لئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خواص ، محبوب اور ساتھی تھے ، اور کسی کے محبوب و خواص کو گالی دینے پر اُسے تکلیف پہنچے گی ہی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف دینا کفر ہے ۔


علامہ ابن تیمیہ نے اس قسم کا حکم بیان کیا ہے : جو اپنے گمان میں اس قدر تجاوز کرجائے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے انتقال کے بعد چند صحابۂ کرام کو چھوڑ کر سب مرتد ہوگئے تھے ، یا ان کی اکثریت فاسق ہوگئی تھی ، تو ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں ، اس لئے کہ اس نے قرآن کے نصوص کو جھٹلایا ، جو ان کی فضیلت میں کئی جگہ واردہیں ، جیسے اللہ کا اُن سے راضی ہوجانا ، اُن کی مدح و ثناء بیان کرنا ، تو ایسے لوگوں کے کافر ہونے میں جو شک کرے وہ خود کافر ہے ۔ ابن تیمیہ نے آگے لکھا : کہ ایسے لوگوں کا یہ کفر دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں لازما جانا جائے ۔ (الصارم المسلول: ۵۸۶)


امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : کہ علماء کا اختلاف بعض صحابہ کو گالی دینے کے سلسلے میں ہے کہ وہ کافر ہے یا نہیں ؟ لیکن تمام صحابہ کو گالی دینے والایقیناًکافر ہے ۔(الصواعق المحرقۃ: ۳۷۹)


مذکورہ دلائل کی توضیح کے ساتھ یہاں بعض علماء کے دوسرے تفصیلی دلائل بیان کئے جارہے ہیں :


سورۂ فتح کی آخری آیت (محمد رسول اللہ والذین معہ ۔۔الی ۔۔لیغیظ بہم الکفار) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جو صحابہ سے بغض رکھے وہ کافر ہے ، ایسے لوگوں سے صحابہ خود بغض رکھتے تھے ، اور صحابہ جس سے نفرت کریں ، وہ کافر ہے ، امام شافعی اور دوسرے علماء کا بھی یہی موقف ہے ۔ (الصواعق المحرقۃ،ص: ۳۱۷،چشتی)


امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبے ایک شخص کو دُرّے لگائے جس نے اُن کو ابو بکر رضی اللہ عنہ پر فوقیت دی تھی،اور پھر عمر نے فرمایا تھا : ’’ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں ، فلاں فلاں چیزوں میں ۔۔۔‘‘ پھر کہا : جو اس کے خلاف کہے گا ، اُس پر ہم حد نافذ کریں گے جیسا کہ اُس جھوٹے کو دُرّے لگائے گئے ۔ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۳۰۰)


اسی طرح امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ کو کوئی بھی ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت نہ دے ، ورنہ میں اُس پر افتراء پردازی کی حد نافذ کروں گا ۔ (فضائل الصحابۃ للامام أحمد: ۱؍۸۳)


جب دو خلیفۂ راشد عمر و علی رضی اللہ عنہما اُن لوگوں پر افتراء پردازی کی حد نافذ کرنے کا عزم کرتے ہیں جوعلی کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم پر ترجیح دیتے ہیں یا جو عمر کو ابو بکر پر فوقیت دیتے ہیں ۔ حا لانکہ محض افضلیت کو اوپر نیچے کرنے میں نہ کوئی عیب ہے اور نہ ہی گالی ۔ تو اندازہ لگائیں کہ گالی کی سزا ان دونوں کے نزدیک کتنی بھاری رہی ہوگی ۔ (الصارم المسلول،ص:۵۸۶)


حضرت سحنون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جس نے ابوبکر ، عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے بارے یہ کہا : کہ وہ لوگ گمراہی اور کفر کی راہ پر تھے ، وہ واجب القتل ہے ، ان کے علاوہ اگر دوسرے صحابہ کو بھی گالی دی گئی تو اُسے سخت سزا دی جائے گی ۔ (الشفاء للقاضی عیاض ۲؍۱۱۰۹)


ہشام بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام مالک  کو یہ کہتے ہوئے سناجو ابو بکر و عمر کو گالی دے اُسے قتل کردیا جائے گا ، جو ام المؤمنین عائشہ کو گالی دے ، وہ بھی واجب القتل ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے ( یعظکم اللہ أن تعودوا لمثلہ ، أبدا ان کنتم مؤمنین) ، (النور:۱۷) اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا ، اگر تم سچے مؤمن ہو ۔ تو جس نے عائشہ کو متہم کیا ، اُس نے قرآن کی خلاف ورزی کی ، اور قرآن کی خلاف ورزی کرنے والا قتل کردیا جائے گا ۔ (الصواعق المحرقۃ، صفحہ نمبر ۳۸۴،چشتی)


امام ہیثمی لکھتے ہیں : جو لوگ ابو بکر اور ان کے ہمراہی کو کافر قرار دیتے ہیں ، جن کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنت کی بشارت دی ہے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۳۸۵)


 علامہ خرشی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : جس نے حضرت عائشہ پر ایسی تہمت لگائی ، جس سے اللہ نے ان کی برأت فرمائی ہے ، یا جو لوگ ابوبکر کی صحابیت ، یا عشرۂ مبشرہ کے اسلام ، یا تمام صحابہ کے اسلام کا انکار کرے یا خلفائے اربعہ میں سے کسی تکفیرکرے تو وہ کافر ہے ۔ (الخرشی علیٰ مختصر خلیل:۸؍۷۴)


خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ علماء لکھتے ہیں : وہ شخص کافر ہے جو عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کی تکفیر کرے ، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تمام ازواج مطہرات کا احترام اور ان سے محبت واجب ہے ، جو شخص ان میں سے کسی کی بھی تکفیر کرے ، اُسے کافر قرار دیا جائیگا ۔ (الفرق بین الفرق،ص: ۳۶۰)


قاضی عیاض کہتے ہیں : صحابہ میں کسی کو بھی گالی دینا گناہ کبیرہ ہے ، گالی دینے والے کو قتل کے علاوہ دوسری سزائیں دی جائیں گی ، یہی میرا اور جمہور علماء کا مسلک ہے ۔ (مسلم بشرح النووی۱۶؍۹۳،چشتی)


عبد الملک بن حبیب کہتے ہیں : ’’کوئی غالی شیعہ عثمان سے بغض اور برأت کا اظہار کرے ، اُسے سخت سزادی جائے گی ، اور وہ اگر ابوبکر و عمر سے نفرت و عداوت کا اظہار کرے تو اُس پر سزا بڑھادی جائے گی ، اُس کی پٹائی ڈبل کی جائے گی ، اور اُسے تا حیات جیل میں رکھا جائے گا ۔ (الشفاء:۲؍۱۱۰۸)


فضیلت کے حاملین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے والا کافر ہے ، اور جن کے بارے میں متواتر نص وارد نہیں ہیں ، جمہور علماء ان کو کافر قرار نہیں دیتے ، ہاں اگر کوئی صحابیت کو طعن و تشنیع کرے تو وہ کافر ہے ۔


شرفِ صحابیت کا  لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے


صحابیت کا عظیم  اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ  وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں  کیونکہ  کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔ صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار  ہے  مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ  بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)


سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت  کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔

ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر  اور انصار  جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی  اور وہ اللہسے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)


علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں :  وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے  مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیرالبحر المحیط،ج 5،ص96، تحت الآیۃ المذکورۃ)


یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ  کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔


ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ تعالٰی عنہم) کے بارے میں اللہ  سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 ، حدیث:3888)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

پہلے جامعُ القرآن حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

 پہلے جامعُ القرآن حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف پارچوں سے نقل کرکے ایک جگہ (کاغذ) پر یکجا کیا گیا ۔ یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا اور ہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی ۔ اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا ۔ (وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی) ۔ دورِ صدیقی رضی اللہ عنہ میں قرآنِ کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا ، کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات سے قرآنِ مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے ۔


عن عبيد بن السّبّاق : أنّ زيد بن ثابت رضي الله عنه قال : أرسل إليّ أبو بکر، مقتل أهل اليمامة، فإذا عمر بن الخطّاب عنده قال أبوبکر رضي الله عنه : إنّ عمر أتاني، فقال : إنّ القتل قد استحرّ يوم اليمامة بقرّآء القراٰن، و إنّي أخشٰي أن يّستحرّالقتل با لقرّاء با لمواطن فيذهب کثير من القراٰن وإنّي أرٰي أن تامر بجمع القراٰن. قلت لعمر : ’’کيف تفعل شيئا لّم يفعله رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟‘‘ قال عمر : ’’هٰذا و ﷲ خير‘‘ فلم يزل عمر يرا جعني حتّي شرح ﷲ صدري لذٰلک، ورأيت في ذٰلک الّذي رأي عمر. قال زيد : قال أبوبکر : ’’إنّک رجل شابّ عاقل لا نتّهمک، وقد کنت تکتب الوحي لرسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فتتبّع القراٰن فاجمعه.‘‘ فوﷲ لو کلّفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ ممّا أمرني به من جمع القراٰن. قلت : کيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : ’’هو وﷲ خير‘‘. فلم يزل أبوبکر يراجعني حتّي شرح ﷲ صدري للّذي شرح له صدر أبي بکر وعمر رضي ﷲ عنهما، فتتبّعت القراٰن أجمعه من العسب و اللّخاف وصدور الرّجال، حتّي وجدتّ اٰخر سورة التّوبة مع أبي خزيمة الانصاريّ، لم أجدها مع أحد غيره : ’’لقد جآء کم رسول من انفسکم عزيز عليه ما عنتّم. حتّي خاتمة براءة‘‘. فکانت الصّحف عند أبي بکر حتّي توفّاه ﷲ، ثمّ عند عمر حياته، ثمّ عند حفصة بنت عمر رضي ﷲ عنهما ۔

ترجمہ : حضرت عبید بن السباق سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جب کہ یمامہ والوں (اہل یمامہ) سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اُن کے پاس تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگِ یمامہ میں کتنے ہی قرآن مجید کے قراء شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ قاریوں کے مختلف مقامات پر شہید ہو جانے کے باعث قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ قرآن کریم کے جمع کرنے کا حکم فرمائیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کروں جو خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ﷲ رب العزت کی قسم! یہ پھر بھی خیر ہے۔‘‘ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اس بارے مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے اس بارے میں میرا سینہ کھول دیا۔ اور اس معاملے میں میری رائے بھی وہی ہو گئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی ( میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہو گیا)۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا کہ تم نوجوان اور صاحبِ عقل و دانش ہو اور تمہاری قرآن فہمی پر بھی کسی کو کلام نہیں اور تم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے وحی الٰہی بھی لکھا کرتے تھے۔ پس سعی بلیغ کے ساتھ قرآن مجید کو جمع کر دو۔ پس ﷲ رب العزت کی قسم! اگر وہ مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لئے جمع قرآن کے اِس حکم سے زیادہ ثقیل (بھاری) نہ ہوتا۔ میں نے عرض کی : ’’آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو خود رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ؟‘‘۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’یہ کام، ﷲ رب العزت کی قسم! بہت بہتر ہے‘‘۔ پس حضرت ابوبکر صدیق برابر مجھ سے بحث فرماتے رہے یہاں تک کہ ﷲ رب العزت نے میرا سینہ اُس کام کے لئے کھول دیا جس کے لئے اُس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ پس میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کر کے جمع کیا یہاں تک کہ سورۃ توبہ کا آخری حصہ میں نے حضرت ابو خزیمہ الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پایا جو ان کے سوا کسی اور کے ہاں سے نہیں پایا تھا۔ یعنی ’’لقد جآء کم رسول سے لے کر سورۃ البراءۃ کے اختتام تک ۔ (یقیناً تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ عظمتوں والے رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں گزرتا ہے) پس یہ صحیفے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا پھر یہ حضرت عمر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام تک رہے۔ پھر یہ قرآن مجید کے نسخے حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی ﷲ عنہا کے پاس رہے ۔ (بخاري، الصحيح، 4 : 1907، کتاب فضائل القرآن، رقم : 4701)(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب تفسير القرآن، رقم : 3103)(احمد، المسند، 1 : 13، رقم : 86)(نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 7995)(ابو يعلي، المسند، 1 : 66، رقم : 64،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 5 : 146، رقم : 4901)(ابن حبان، الصحيح، 10 : 364، رقم : 4507)


عن علي قال ان اعظم أجرا في المصاحف ابوبکر الصديق کان أول من جمع القرآن بين اللوحين 

ترجمہ : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا : قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع کیا ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 354، رقم : 513)(ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 148، رقم : 30229)(خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 135)(ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 193)(ابن منده، شروط لأئمة، 1 : 26)


عن صعصعة قال اول من جمع القرآن ابوبکر ۔

ترجمہ : صعصعہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے قرآن جمع کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 259، رقم : 35866،چشتی)


عن الليث بن سعد قال اول من جمع القرآن ابوبکر و کتبه زيد بن ثابت ۔

ترجمہ : لیث بن سعد سے روایت ہے کہ قرآن کو سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس کی کتابت کی ۔ (عون المعبود، 10 : 20)


عہد صدیقی رضی اللہ عنہم میں قرآن مجید ایک مصحف میں بشکلِ کتاب مرتب نہیں ہوا تھا، بلکہ مختلف چیزوں سے صحیفوں (کتابچوں/ اوراق) میں لکھ لیا گیا تھا ۔ حدیث نبوی میں ان کو “صحف” (صحیفوں) کا نام دیا گیا ہے اور حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ کی تشریح کے مطابق وہ منتشر اوراق (الاوراق المجردۃ) تھے ۔ مصحف اور صحف کا فرق بتاتے ہوئے حافظ موصوف نے لکھا ہے کہ مصحف تو سورتوں کی ترتیب کے مطابق اور بشکل کتاب ہوتا ہے ، جب کہ صحف منتشر اوراق ہیں جن میں سورتیں ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دی گئی تھیں۔ یہی صحف صدیقی ہیں ۔ (فتح الباری، 9/24)


ان کو صحف صدیقی رضی اللہ عنہ کہنا اس لیے بھی مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے حکم سے قرآن کریم کو اوراق و قراطیس میں جمع کرکے محفوظ کر دیا گیا تھا ۔ بعض روایات میں ان کو صحیفہ بھی کہا گیا ہے ، لیکن واحد بول کر جمع مراد لی گئی ہے ۔ دوسری تاریخی اور واقعاتی سند یہ ہے کہ انہی “صحف صدیقی” کی بنا پر حضرت عثمان بن عفان اموی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں مصحف اور مصاحف تیار کیے گئے تھے ، جن کی تعداد مختلف روایات میں مختلف آئی ہیں ، لیکن سات مصاحف کی روایت کو سب سے معتبر کہا گیا ہے۔ ان مصاحف کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نامِ نامی سے موسوم کر کے “مصاحف عثمانی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔


پسِ منظر حدیث کی روشنی میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرض الوصال کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کے ظاہری وصال مبارک کے بعد ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکےاس دوران پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے ، جس میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز ۷۰/ اور ایک قول کے مطابق ۷۰۰/ تک لگایا گیا ہے ۔ (تفسیرقرطبی:۱/۳۷، عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳)


دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید ہوئے ۔ (مناہل العرفان:۱۷۹)


اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تشویش لاحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں : جنگِ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلایا میں پہنچا تو وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے ، حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ عمررضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں ، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چلاجائے گا؛ اس لیے عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی اللہ عنہٗ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمررضی اللہ عنہٗ کی ہے، زید کہتے ہیں: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ نے مجھ سے فرمایا : تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتبِ وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو! حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا، بنسبت اس کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم دیا ہے، یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا : بخدا یہ تو اچھا ہی کام ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ اس بارے میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ وعمر رضی اللہ عنہٗ کی طرح اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کےلیے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تلاش کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں ۔ “لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وفٌ رَحِیْمٌ” ۔ (التوبۃ:۱۲۸) “ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں”۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۴۹۸۶)


یہ حدیث حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ وہی ان صحیفوں کے کاتب بھی ہیں جن میں مختلف چیزوں سے قرآنی آیات اور سورتیں جمع کر کے لکھی گئیں تھیں ۔ ممکن ہے کہ مذکورہ حدیث میں سورت توبہ کی آخری آیت والا حصہ پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس کیوں نہ ملی ؟ ہم اس کی یہاں مختصر وضاحت کردیتے ہیں کہ حضرت زید کا مقصد یہ بتانا نہیں تھا کہ یہ آیت کسی کو یاد بھی نہیں تھی بلکہ یہ کہ یہ آیت حضرت خزیمہ کے علاوہ کسی اور صحابی کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی ۔ (تفسیر الاتقان ،ج۱،ص۱۰۱)


دوسرے سینکڑوں حفاظ کے علاوہ خود حضرت زید رضی اللہ عنہم بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اس کو صحابہ کے پاس تلاش بھی کیا ۔ اس ضمن میں صحابہ کی تلاش تائید وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ و حافظے کے علاوہ لکھے ہوئے سے بھی اس کی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری سے مل گئی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ، سورئہ براءة کی آخری آیات باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے علاوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ، لیکن اس وقت تک اُنہیں درج نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی (حضرت خزیمہ رضی الہ عنہ) کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ تدوین کے سلسلے میں کس قدر احتیاط کا اہتمام کیا گیا ۔


پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جا چکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔ علامہ سیوطی ابو عبداللہ محاسبی کی کتاب ”فہم السنن” کے حوالے سے لکھتے ہیں :

”قرآن کی کتابت کوئی نئی چیز نہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں ، شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو، ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ) نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے ۔ (البرہان جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۳۸)۔(الاتقان،ج۱،ص۱۰۱)


وکان القرآنُ فیہا مُنْتَشِراً فَجَمَعَہا جامعٌ و رَبَطَہَا بخیطٍ ۔ (تفسیر الاتقان ۱/۸۳)

ترجمہ : اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں ؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا ، اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی ۔


جمعِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ زید خود حافظ قرآن تھے ؛ لہٰذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا ؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لیے گئے تھے حضرت زید رضی اللہ عنہٗ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرما سکتے تھے ؛ لیکن انہوں نے احتیاط کے پیشِ نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا ؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ نے انہیں یکجا فرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے ؛ چنانچہ یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری:۹/۱۷،چشتی)(علوم القرآن:۱۸۳)(تفسیر الاتقان:۱۲۸)


اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ خود نگرانی فرماتے رہے اور انہیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے ؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی بطورِ معاون کے حضرت زید کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۲۹)(فتح الباری:۹/۱۹)


اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور زید رضی اللہ عنہٗ کو یہ حکم بھی فرما دیا تھا : کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ جاؤ ؛ پھر جو شخص بھی تمہارے پاس قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے آئے اس کو صحیفوں میں لکھ لو ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۲۸،چشتی)(فتح الباری:۹/۱۷)


الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی اللہ عنہٗ چار طریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے : ⬇

(۱) سب سے پہلے اپنے حافظہ سے اس کی تصدیق کرتے تھے ۔

(۲) پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی اس کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے ۔

(۳) کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دو قابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ، امام سیوطی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ (تفسیر الاتقان ۱/۱۲۸،۱۲۹) ۔ امام سیوطی رحمة اللہ علیہ کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی ہوتی ہے ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۱۰)

(۴) اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا، جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیار کررکھے تھے، امام ابوشامہ فرماتے ہیں: “کہ اس طریقِ کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی ۔ (تفسیر الاتقان:۱/۱۲۸)


جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا ، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ : اس کو کیا نام دیا جائے ؟ چنانچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا نام ”سِفْر“ رکھا ؛ لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا ، اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے صحابہٴ کرام کا اتفاق ہو گیا ۔ (تفسیر الاتقان ۱/۷۷)


دوسرے صحابہ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا ؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں : ⬇


(۱) اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں ؛ لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی ۔ (فتح الباری ۹/۲۲)

(۲) اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو ۔

(۳) اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تلاش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند کیا گیا ۔

(۴) یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا ۔ (مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷،چشتی)

( ۵) اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے ؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے ۔

( ۶) اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا ۔ (تدوین قرآن ص۴۰)


حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہٗ وغیرہ نے قرآن کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے ۔ (فتح الباری:۹/۱۵، الاتقان:۱/۱۲۸) ۔ اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے ؛ لیکن وہ ان کی اپنی انفرادی کوشش تھی ، ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے ، اس کے علاوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے حاصل نہ تھی ؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنہوں نے پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ”قرآن عظیم” کا تیار کروایا اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے قرآن کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ پر رحم فرمائے ؛ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا ۔ (فتح الباری:۹/۱۵)


قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا ، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا ، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا ۔ (صحیح بخاری۲/۷۴۶) ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے ۔ (صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶، رقم:۴۹۸۷) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday, 29 January 2022

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں وضع کردہ روایات

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں وضع کردہ روایات

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : محبت کے پیمانے بیشتر چھلکتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ۔ جب تک عقیدت پر بصیرت غالب نہ ہو محبت کا رشتہ سنبھلتا نہیں ہے ”حبک الشئ یعمی ویعصم” تیرا کسی چیز کو محبت کرنا تجھے اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے ۔ رافضیوں و نیم رافضیوں نے بغیر بصیرت کے بغیر سوچے سمجھے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے نام نہاد محبت کے جوش میں کئی جھوٹے فضائل گھڑ لیے ہیں ۔ محبت کو تسکین اس وقت تک نہیں ہوتی  جب تک  رافضی و نیم رافضی کوئی نئی سے نئی بات گھڑ کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں مبالغہ نہ کریں ۔

اگر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہ جمع ہو جاتے تو اللہ جہنم کو بناتا ہی نا ۔ یہ روایت اکثر روافض و نیم روافض تفضیلیوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور بعض اہلسنت کے لبادے میں چھپے ہوئے نیم رافضی بھی بیان کرتے ہیں مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کی فضیلت میں جو غُلُو پر مبنی ہے ۔ اس روایت کی تحقیق پیشِ خدمت ہے ۔

امام دیلمی علیہ الرحمہ (متوفی 509ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا : عن ابْن عَبَّاس لَو اجْتمع النَّاس على حب عَليّ بن أبي طَالب لما خلق الله تَعَالَى النَّار ۔ (الفردوس بمأثور الخطاب 3/373،چشتی)

مسند الفردوس کے نسخہ میں اسناد حذف ہیں اس کو امام دیلمی سے باسند امام جلال الدین سیوطی علیہما الرحمہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا اسی طرح خوارزمی نے بھی اس کو باسند نقل کیا ہے ۔

الديلمي أخبرنا أبي أخبرنا أبو طالب الحسيني حدثنا أحمد بن محمد بن عمر الفقيه الطبري حدثنا أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيباني حدثنا ناصر بن الحسن بن علي حدثنا محمد بن منصور عن عيسى بن طاهر اليربوعي حدثنا أبو معاوية عن ليث عن طاوس عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو اجتمع الناس على حب علي بن أبي طالب لما خلق الله النار ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگر لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی محبت پر جمع ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ جہنم کو پیدا نہ کرتا ۔ (الزيادات على الموضوعات 1/260،چشتی)(المناقب للخوارزمي 1/68 :- 39)

یہ روایت عندالتحقیق منگھڑت ہے اس کی سند میں درج ذیل علتیں ہیں ۔

شهردار بن شيرويه بن فناخسرو مجہول ہے ۔

أبو طالب الحسيني المحسن بن الحسين بن أبي عبد الله محمد المعروف بابن النصيبي یہ مجہول الحال ہے ۔

أبو المفضل محمد بن عبد الله الشيباني یہ احادیث گھڑنے والا راوی ہے اور اس سند میں آفت یہی راوی ہے ۔

اس راوی کـے حـوالـے سـے ائـمـہ کا کـلام : ⬇

① امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبی علیہ الرحمہ امام خطیب بغدادی علیہ الرحمہ کا کلام اس کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : محدثین نے امام الدارقطنی علیہ الرحمہ کو منتخب کرکے اس کی روایات کو لکھا پھر جب اس کا جھوٹا ہونا واضح ہوگیا تو انہوں نے اس کی روایات کو پھاڑ دیا اور ان کو باطل کرار دیا اور کہا کہ یہ روافض کے لیے احادیث گھڑتا ہے ۔

قال الخطيب : كتبوا عنه بانتخاب الدارقطني، ثم بأن كذبه فمزقوا حديثه، وكان يعد يضع الأحاديث للرافضة ۔ (ميزان الاعتدال رقم : 7802،چشتی)

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے عبيد الله بن أحمد الأزهري کا قول اس کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ دجال اور کذاب راوی ہے ۔ اور حمزة بن محمد بن طاهر کا قول نقل کیا کہ انہوں نے کہا یہ احادیث گھڑنے والا ہے ۔ (لسان الميزان 5/231،چشتی)

امام ابن عراقی علیہ الرحمہ اس کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ یہ احادیث گھڑنے والا دجال ہے ۔

محمد بن عبد الله بن المطلب أبو الفضل الشيباني الكوفي عن البغوي وابن جرير دجال يضع الحديث ۔ (تنزيه الشريعة المرفوعة رقم 166)

کیونکہ یہ واضح ہو گیا کہ اس نے سند کو گڑھا ہے لہٰذا اور علتیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ورنہ اور علتیں بھی ہیں سند میں باقی شیعہ حضرات کی کتب میں یہ روایت کثرت سے موجود ہے ہم نے ثابت کیا کہ یہ روایت اہلسنت کے نزدیک من گھڑت ہے ۔

روافض کا ایک کذب : جہاں حضرت علی ہونگے وہاں قرآن ہوگا اور جہاں قرآن ہوگا وہاں مولا علی رضی اللہ عنہ ہونگے ۔ ایک کذب اور باطل روایت ہے : امام حاکم رحمہ اللہ مستدرک میں ایک روایت لاتے ہیں : أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله الحفيد، ثنا أحمد بن محمد بن نصر، ثنا عمرو بن طلحة القناد، الثقة المأمون، ثنا علي بن هاشم بن البريد، عن أبيه قال: حدثني أبو سعيد التيمي، عن أبي ثابت، مولى أبي ذر قال:كنت مع علي رضي الله عنه يوم الجمل، فلما رأيت عائشة واقفة دخلني بعض ما يدخل الناس، فكشف الله عني ذلك عند صلاة الظهر، فقاتلت مع أمير المؤمنين، فلما فرغ ذهبت إلى المدينة فأتيت أم سلمة فقلت: إني والله ما جئت أسأل طعاما ولا شرابا ولكني مولى لأبي ذر، فقالت: مرحبا فقصصت عليها قصتي، فقالت: أين كنت حين طارت القلوب مطائرها؟ قلت: إلى حيث كشف الله ذلك عني عند زوال الشمس، قال: أحسنت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : علي مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض ۔ هذا حديث صحيح الإسناد وأبو سعيد التيمي هو عقيصاء ثقة مأمون، ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4628 – صحيح

امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور امام ذھبی بھی موافقت کرتے ہیں
(نوٹ: امام ذھبی کے منہج پر بھی یہ روایت باطل ثابت کرینگے )

اس روایت کو امام طبرانی بھی اپنی معجم میں روایتے کرتے ہیں : حدثنا عباد بن عيسى الجعفي الكوفي، حدثنا محمد بن عثمان بن أبي البهلول الكوفي، حدثنا صالح بن أبي الأسود، عن هاشم بن بريد، عن أبي سعيد التيمي بلخ۔۔
اس روایت کا مرکزی راوی ھاشم بن برید ہے جس سے امام حاکم اور امام طبرانی یہ روایت نقل کرتے ہیں ۔ اور ہاشم بن برید سے اسکا بیٹا بیان کرتا ہے جسکی سند مستدرک اور تاریخ بغداد میں ہے مگر یہی رافضی کی روایت تاریخ بغداد میں یوں ہے کہ جدھر علی ہونگے حق ادھر ہوگا اور جہاں حق ہوگا وہاں علی ہوگا ۔

(یہ رافضی کبھی مولا علی کو قرآن کے ساتھ کبھی حق کے الفاظ کے ساتھ بیان کرتا ہے)

اور دوسری سند میں ہاشم بن برید سے صالح بن الاوسود بیان کرتا ہے

ھاشم بن برید کے بارے محدثین کی آراء درج ذیل ہے :
۱۔ امام بخاری سے : هاشم بن البريد كوفي. سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري هاشم بن البريد وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما.
امام بخاری فرماتے ہیں کہ ھاشم بن بریدہ اور اسکا بیٹا دونوں غالی اور برے مذہب والے(رافضی) تھے
۔ (تاریخ الکبیر)

۲ ۔ امام ابن عدی کہتے ہیں : وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه.
اس کی روایت زیادہ نہیں ہیں اسکو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اسکے بیٹے کو بھی اور میں اس کی کوئی منکر روایت پر مطلع نہین ہو سکا لیکن اس کی روایات میں جو نکارت ہے وہ اس کے بیٹے کی وجہ سے ہے ۔(الکامل فی الضعفاء)

۳ ۔ امام الجوزجانی سے
88 – هاشم بن البريد

89 – وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما

ھاشم بن برید اور اسکا بیٹا علی بن شاہم یہ غالی اور برے مذہب والے(رافضی) تھے

(أحوال الرجال الجوزجاني، أبو إسحاق )

۴۔ امام عجلی

کہتے ہیں ثقہ تھا لیکن شیعہ تھا

1713- هاشم بن البريد5: “كوفي”، ثقة، وكان يتشيع.(العجلی ثقات)

۵۔ امام احمد بن حنبل
نا عبد الرحمن انا محمد ابن حمويه [بن الحسن – 1] قال سمعت أبا طالب أحمد بن حميد قال قال احمد ابن حنبل: هاشم بن البريد لا بأس به.
ھاشم بن برید میں کوئی حرج نہیں

نا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال: هاشم بن البريد ثقة.

امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ھاشم بن برید ثقہ ہے
(الجرح والتعدیل )

۶۔ امام ذھبی
6710 – د س ق / هَاشم بن الْبَرِيد صَدُوق يترفض

ھاشم بن بریدہ سچا تھا لیکن رافضی تھا
(المغنی فی الضعفٓاء امام ذھبی)

اور میزان الاعتدال میں فرماتے
9181 – هاشم بن البريد [د، س، ق] أبو على.

عن زيد بن علي، ومسلم البطين.
وعنه ابنه، والخريبي، وجماعة.
وثقه ابن معين وغيره، إلا أنه يترفض.
وقال أحمد: لا بأس به.
ثقہ ہے ابن معین کہتے ہیں لیکن یہ رافضی تھا ۔ (میزان الاعتدال )

اور دیون میں فرماتے ہیں کہ سچا تھا مگر شیعت میں غالی تھا

4440 – هاشم بن البريد الكوفي: صدوق غال في التشيع. -د، س، ق-
(دیوان الضعفاء، الذھبی)

امام دارقطنی
266 – سَمِعت أَبَا الْحسن يَقُول هَاشم بن الْبَرِيد ثِقَة مَأْمُون

267 – وَهُوَ أَبُو عَليّ بن هَاشم بن الشَّهِيد كَذَّاب

ھاشم بن برید ثقہ مامون ہیں

یہ والد ہے علی بن ہاشم کے جو کذاب تھا

(سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني)

اسکے بیٹے علی بن ھاشم کے بارے محدثین کی رائے
امام احمد :

3225 – علي بن هاشم ما به بأس

اس میں کوئی حرج نہیں

(العلل ومعرفة الرجال)

امام بخاری

علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما.

امام بخاری فرماتے ہیں علی بن ھاشم غالی اور برے مذہب والا(رافضی) تھا

امام ابن عدی :
۲ ۔ امام ابن عدی کہتے ہیں :

وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه.
اس کی(علی بن ھاشم کے باپ) روایت زیادہ نہیں ہیں اسکو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اس کے بیتے کو بھی اور میں اس کی کوئی منکر روایت پر مطلع نہین ہو سکتا لیکن اسکی روایات میں جو نکارت ہے وہ اس کے بیٹے کی وجہ سے ہے ۔ (الکامل فی الضعفاء)

امام دارقطنی :
267 – وَهُوَ أَبُو عَليّ بن هَاشم بن الشَّهِيد كَذَّاب
جو والد ہے ابو علی بن ھاشم جو کذاب ہے ۔ (سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني)

علی بن مدینی ، ابن معین اور ابو زرعہ کہتے ہیں ثقہ و صدوق ہے اور ابی حاتم کہتے ہیں شیعہ ہے اسکی روایت لکھی جائے گی (شواہد میں ) ہے
سمعت يحيى بن معين يقول علي بن هاشم بن البريد ثقة،.

نا عبد الرحمن نا محمد بن أحمد بن البراء قال قال علي بن المديني علي بن هاشم بن البريد كان صدوقا

، نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن علي بن هاشم بن البريد فقال كان يتشيع يكتب حديثه،

نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن على ابن هاشم بن البريد فقال صدوق.(الجرح والتعدیل )

ابن حبان : علی بن ھاشم كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
علی بن ھاشم غالی شیعہ تھا یعنی رافضی اور یہ مشاہیر سے مناکیر بیان کرتا تھا ۔ (المجروحین بن حبان )

امام ذھبی میزان میں اس راوی کے بارے میں تفصیل لکھتے ہیں :
5960 – على بن هاشم [م، عو] بن البريد، أبو الحسن الكوفي الخزاز، مولى قريش.

عن هشام بن عروة، وجماعة.

وعنه أحمد، وابنا أبي شيبة، وخلق.

وثقة ابن معين، وغيره.

وقال أبو داود: ثبت يتشيع.

وقال البخاري: كان هو وأبوه غاليين في مذهبهما.

وقال ابن حبان: غال في التشيع.

روى المناكير عن المشاهير.

قلت: ولغلوه ترك البخاري إخراج حديثه، فإنه يتجنب الرافضة كثيرا، كأنه يخاف من تدينهم بالتقية ولانراه يتجنب القدرية ولا الخوارج ولا الجهمية، فإنهم على بدعهم يلزمون الصدق، وعلى بن هاشم، قال أحمد: سمعت منه مجلسا واحدا.

قلت: ومات قديما في سنة إحدى وثمانين ومائة (1) ، فلعله أقدم مشيخة الامام أحمد وفاة.

قال جعفر بن ابان: سمعت ابن نمير يقول: على بن هاشم كان مفرطا في التشيع منكر الحديث.

قال ابن حبان: حدثنا مكحول، سمعت جعفرا بهذا.

قال أبو زرعة: صدوق.

وقال النسائي: ليس به بأس.

یہ قریش کا آزاد کردہ غلام تھا اس نے ہشام بن عرہ اور ایک جماعت سے روایت بیان کی ہیں جبکہ اس سے امام احمد ، ابو شیبہ کے دونوں بیٹوں اور ایک مخلوق نے روایت کیا ہے

یحییٰ بن معنی اور دیگر حضرات نے اسکو ثقہ قرار دیا ہے امام ابی داود کہتے ہیں یہ ثبت ہے اور اس میں تشیع پایا جاتا تھا

امام بخاری کہتے ہیں یہ اور اسکا والد اپنے مسلک میں غالی (یعنی رافضی اور داعی) تھے ابن حبان کہتے ہیں یہ شیعت میں غالی (یعنی رافضی و داعی) تھے

اس نے مشہور راویوں کے حوالے سے منکر روایات بیان کی ہیں

امام ذھبی پھر اپنا تبصرہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛

میں کہتاہوں : اس غلو کی وجہ سے امام بخاری نے اس سے حدیث نقل کرنا پسند نہیں کیا

(اس کی وجہ کیا ہے امام ذھبی اہل سنت کا منہج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں)

کیونکہ امام بخاری رافضیوں سے بہت زیادہ اجتناب کرتے تھے ، انہین انکے مسلک میں تقیہ (جھوٹ کو عبادت سمجھ کے بولنا ) کا بہت اندیشہ ہوتا تھا

ہم نے انہیں (امام بخاری) کو نہیں دیکھا کہ انہوں نے قدریوں ، یا خارجیوں یا جہمیوں سے اجتناب کیا ہو ، لیکن انکی بدعت کے باجوود یہ سچ بولتے ہیں اور اسکو اختیار کرتے ہیں

(یہ وہ اہلسنت کا منہج ہے کہ رافضی راوی جتنہ بھی ثقہ ہو صدوق ہو چونکہ رافضی جھوٹ بولنے اور کذب بیانی کرنے میں کوئی غلط محسوس نہین کرتے تو انکے تفرد کو انکے مذہب کے موافق روایت میں ہمیشہ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا)

علی بن ہاشم کے بارے امام احمد کہتے ہیں میں نے ان سے ایک محفل میں سماع کیا

میں (ذھبی) کہتا ہوں اسکا انتقال بہت پہلے 181ھ میں ہو گیا تھا ، شاید یہ وفات کے اعتبار سے امام احمد کا سب سے مقدم شیخ ہے

جعبر بن ابان ار ابن نمیر کہتے ہیں سنا ہے علی بن ہاشم نامی راوی تشیع میں افارق کا شکار تھا منکر الھدیث تھا ،

ابن حبان کہتے ہیں : مکحول نے ہمیں حدیث بیان کی ہے میں نے جعتکر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے

امام ابو زرعہ کہتے ہیں یہ صدوق ہے ، نسائی کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (میزان الاعتدال)

یہ ہے وہ اہلسنت کا منہج جس سے عام لوگ نہ واقف ہوتے ہیں اور شعیہ یا رافضی کی فقط توثیق دیکھ کر اسکی ہر روایت اندھا دھند قبول کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ چونکہ رافضی بدعت کبریٰ کے مرتکب ہوتے ہیں اور رافضی ہمیشہ سچ بولے ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ امام اس کی حدیث میں توثیق کر بھی دیتےہیں تو یہ روافض ایسی روایات مشہور محدثین سے بیان کر دیتے ہیں جو منکرات میں سے ہوتی ہین جس کو کذب پر محمول کیا جاتا ہے

اس لیے امام ذھبی میزان الاعتدال میں شیعہ اور رافضی کا فرق اور اور کے بارے میں اہلسنت کا منہج واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : آخر بدعتی کی توثیق ہی کیوں جائز ہوئی ؟ حالانکہ توثیق کی تعریف میں عدات اور اتفاق آتا ہے تو کوئی بدعتی عادل کیس ہو سکتا ہے ؟

امام ذھبی یہ اعتراض نقل کرکے اسکا جواب یوں دیتے ہیں ؛

بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہے

۱۔بدعت صغریٰ

۲۔ بدعت کبریٰ

بدعت صغریٰ جیسے غالی شیعہ ہونا یا غلو اور تحریکے کے شیعہ ہونا یہ قسم میں تو بہت سے تابعین اور تابع تابعین میں تھی باجود یہ کہ وہ دیندار متقی اور صادت تھے لہذا ایسوں کی حدیث بھی رد کر دی جائے تو حدیث کا ذخیرہ احادیث کا ایک برا حصہ ضائع ہو جائے گا

۲۔ بدعت کبریٰ

جسیے کہ رافضی ہونا اور رفض میں غالی ہونا ہے

حضرت شیخین کی شان میں گستاخی کرنا اور اس پر دوسروں کو ابھارنا (یعنی داعی ہونا ) اس قسم والے کی روایت قابل احتجاج نہیں نہ ہی اس کی وئی عزت و تکریم ہے اس قسم میں اب مجھے کوئی نہیں یاد ہو صادق اور مومون ہو (جس کی روایت اسکے مذہب کی تائید میں بھی قبول کر لی جائے) کیونکہ انکا شعار جھوٹ بولنا تقیہ کرنا اور معاملات میں نفاق کا مظاہرہ کرنا ہے لہذا جس کا یہ حال ہو ایسے کی روایت بھلا قبول کیسے کی جائے گی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی  (میزان الاعتدال صفحہ 6،چشتی)

اور امام ابن حجر عسقلانی مذید تصریح کرتے ہوئے تہذیب التہذیب میں اس بات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : عرف میں متقدمین میں تشیع سے مراد شیخین کو دیگر صحابہ پر فضیلت دینے کے ساتھ مولا علی کو حضرت عثمان غنی پر فضیلت ماننے کو کہا جاتا ہے اگرچہ حجرت علی اپنی جنگوں میں مصیب اورانکا مخلاف خطا پر تھا بعض کا نظریہ بھی ہے کہ حضرت علی رسول کے بعد سب سے افضل ہے اس طرح کا اعتقاد رکھنے والا متقی دیندار ہو اور سچا ہو تو محض اس وجہ سے اسکی روایت ترک نہیں ہوگی جبکہ وہ اپے اعتقاد کاداعی (یعنی غالی رافضی ) نہ ہو ، جبکہ عرف متاخرین میں تشیع سے مراد محض رفض ہے لہذا غالی رافضی ک روایت قبول نہیں نہ ہی اسکے لیے کسی کرامت ہے ۔ (تہذیب التہذیب جلد ۱ صفحہ ۹۳)

یعنی جو روایات میں رافضی و غالی اور داعی ہو اسکی روایت قبول نہیں ہوگی جس میں شیعت کی تقویت ہو یا اہل بیت کے فضائل میں روایت ہو
اور شیعہ کی روایت جو اسکے مذہب کے علاوہ ہوگی وہ قبول ہوگی ۔

اس منہج کو لوگ سمجھ نہیں سکتے اسی طرح امام ذھبی سے تلخیص میں بہت جگہوں پر تسامح ہوئے ہیں جن روایت کی تصحیح کی ہے بعد والی کتب میں انہی روایا ت جرح کی ہے یا ان روایات کے راویان پر جرح شدید کی ہے تو تسامح کو دلیل بناناکم علموں کا شیوہ ہے روایات کو رجال کی معرفت پر ہی پرکھا جاتا ہے جو کہ انہی محدثین کا منہج ہے اور لوگ کنفیوز رہتے ہیں کہ ایسی راویوں کا کیا فیصلہ ہوگا تو یہ راویان عمومی روایتوں میں تو حجت ہو سکتے ہیں لیکن اہل بیت کی شان میں شیعہ کو چھوڑ کر رافضی اور دااعی اور خاص کر صاحب منکرات رافضی راویان کی روایت کذب ہوتی ہیں اور جیسا کہ

امام ابن عدی

امام بن نمیر

امام ابن حبان

علی بن ھاشم منکر الحدیث اور مشہور راویان سے منکرات بیان کرتا تھا

تو ایسے راوی کی تفرد پر روایت جو اہل بیت کی شان میں ہو وہ ضرور گھڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ یہ باقی معملات میں تو ثقہ ہوتے ہیں لیکن اہل بیت کی شان میں غلو کرنا اور کذب بیانی کو تقیہ سمجھتے ہوئے جائز سمجھتے ہیں جو کہ انکا مذہب ہے

یہی وجہ ہے امام بخاری ایسوں کی روایت سے اجتناب کرتے اور قدریوں خارجیوں کی روایت لے لیتے کیونکہ وہ جھوٹ کو ہر حال میں گناہ سمجھتے تھے
اور اسی طرح امام اہل سنت شاہ امام احمد رضاء بریلوی محدث ہند فتاویٰ رضویہ میں حدیث موضوع کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؛

(١٢) یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہموعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہہوں،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون۔ت)

اقول : انصافًا یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبنالعاص رضی الله تعالٰی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نےفضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی الله تعالٰی عنہم میں قریب تین لاکھحدیثوں کے وضع کیں”کمانص علیہ الحافظ ابویعلی والحافظ الخلیلی فی الارشاد”(جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظخلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔ت)

یونہی نواصب نے مناقب امیر معٰویہ رضی الله تعالٰیعنہ میں حدیثیں گھڑیں کماارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ت)

تو یہ روایت منہج محدثین اور امام احمد رضاء کی تصریح کے مطابق کذب پر محمول ہے
علی بن ھاشم منکر الحدیث ، اور کثرت سے مناکیر مشاہیر سے بیان کرنے والا تھا
اور جو طبرانی کی روایت ہے اس میں ہاشم بن برید رافضی سے یہی روایت

صالح بن الاسود الکوفی منکر الحدیث ہے

2815 – صَالح بن ابي الاسود الْكُوفِي الحناط

عَن الاعمش مُنكر الحَدِيث

(میزان الاعتدال)

اس روایت کے کذب پر دوسری دلیل صریح یہ ہے کہ کبھی یہ بیان کرتا ہے کہ جہاں علی ہوگا وہاں حق ہوگا اور کبھی بیان کرتا ہے جہاں علی ہوگا وہی قرآن ہوگا
قرآن تو ہر صحابی کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔۔ البتہ حق کسی صحابی کے ساتھ صحیح اجتیہاد میں ہوتا ہے کسی کے ساتھ نہیں ہوتا عرفی طور پر تو اجتیہادی خطاء ہوتی ہے ۔۔۔۔ یہ فرق ہے اہلسنت اور روافض میں اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے جس طرف علی ہونگے قرآن اس طرف مڑج جائے گا ۔۔ معاذاللہ اور پھر ہے کہ چونکہ قرآن اس طرف ہو چکا ہے یعنی مولا علی کی طرف تو قرآن وہی ہے جہاں مولا علی ہیں یہ ہے اس روایت کا لب لباب ۔ تو یہ رافضی کے کذب کی صریح دلیل ہے ۔ اس روایت کو بیان کرنا جائز نہیں اور یہ روافض کا تیار کردہ تحفہ ہے ۔ (ماخوذ فتاویٰ رضویہ جلد پنجم)

شیعہ “کتب احادیث” عام کتب احادیث سے مختلف ہیں ۔عام مسلمانوں میں سیاست اور ان سے ملحق چند اور کتابیں ہیں جو شارحین حدیث کے ہاں اپنی جگہ مستند سمجھی جاتی ہیں ، جیسے المصنف عبد الرزاق المصنف لابن ابی شیبہ،  موطا امام مالک،  موطا امام محمد،  مسند امام دارمی،  مسند امام احمد،  مسند ابی داود ، مسند ابی یعلی،  مسند ابی عوانہ،  شرح مشکل الآثار شرح معنی الاثار،  سنن کبریٰ ، معجم طبرانی ، مستدرک امام حاکم کو جمہور اہل اسلام  کے نزدیک اسلام کا دوسرا علمی ماخذ سمجھتے ہیں ۔

وہ کئی احادیث و سنت انہیں کتب حدیث سے کشید کرتے ہیں لیکن ۔ کسی بھی حدیث کو قبول کرنے سے پہلے  صحیح، ضعیف، ناسخ  ومنسوخ  اور خاص و عام کے تمام فاصلے دیکھے جاتے ہیں ۔

موضوع روایات کو سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں اہل علم کے معیار و ثبوت کے سارے پیمانے آزمائے جاتے ہیں اور جھوٹ سورج کی طرح نمایاں ہوجاتا ہے ۔ ان کے برعکس ۔ شیعہ کی کتب حدیث ان کے اصول اربعہ ہیں ان کتابوں کے جمہور اہل اسلام کسی طرح ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ وہ انہیں کسی درجہ میں مستند سمجھتے ہیں ۔

شیعہ کی کتب مدتوں معرض خفا میں رہیں یہ اپنے مصنفین تک متواتر نہیں پہنچتیں ۔ لیکن اہل سنت کی کتب وہ ہیں جو مصنفین سے لے کر اب تک پوری شہرت سے مروی ہوتی آرہی ہیں ۔ گو ان میں بھی ہر درجہ کی احادیث روایات ہوئی ہیں لیکن ان کے وسیع علم رجال نے اس باب میں امت کی بہت رہنمائی کی ہے ۔

اہلسنت اپنی ابتدائی تاریخ میں بہت روادار رہے ان کا ذھن کسی طور پر فرقہ وارانہ نہ تھا ۔ شیعہ ابتدا سے ہی اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے کٹا ہوا یا ہٹا ہوا سمجھتے تھے اور ان میں سے بعض اپنے آپ کو اہل سنت میں ملا کر رکھتے تھے اور ایسا بھی بہت ہوا کہ بعض اہلسنت روایات کو ان کی روایات کردہ حدیثوں میں ملا کر اسی سند سے آگے بھی روایت کر دیتے تھے ۔

ان کی ایسی روایات ہمارے ہاں بھی نچلے درجے کی کتب حدیث میں اور کتب تاریخ میں ملتی ہیں جنہیں یہ مؤلفین از راه تساہل یا بناء تغافل ذکر کر گئے ۔

موضوع حدیث کو جانتے ہوئے آگے بیان کرنا شرعا حرام ہے اور ایسے شخص کے ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے جو جان بوجھ کر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پر افتراء باندھے ہاں اس کے موضوع ہونے کے اظہار کی غرض سے اسے کوئی روایت کرے تو یہ بے شک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اس طرح نہ ہوگا صرف ایک غیر دانشمندانہ تساہل ہوگا جن حضرات سے یہ غیر دانستہ غلطی ہوئی ہم ان کے لئے اللہ رب العزت کے حضور معافی کی درخواست کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں ۔

اہل سنت کی بلند پایاں کتب حدیث میں جس طرح حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب کے ابواب باندھے ہیں حضرت عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے فضائل بھی اسی طرح ان میں مروی ہیں ان میں فضائل صحابہ اور فضائل اہلبیت دونوں ،  موجود ہیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت مذکور ہے تو حضرت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی منقبت بھی ان میں مروی ہے ۔

خلقت انا وعلی من نور وکنا علی یمین العرش ان یخلق آدم بالفی عام ۔
ترجمہ : میں اور علی ایک نور سے پیدا کیے گیے اور ہم آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے عرش کے دائیں جانب نشین تھے ۔

رافضی عقیدہ : اس حدیث سے شیعہ رافضی نے یہ عقیدہ بنایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نور ہونے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیضان کا کوئی دخل نہیں ہے حضرت علی پہلے سے نوری ہیں آپ نے تعلیم وتزکیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہیں پایا بلکہ پہلے سے ہی برابر کے نور چلے آ رہے ہیں ۔دنیا علم میں یہ آفت جعفر بن احمد بن علی المعروف بابن علی العلاء سے آئی ۔ ابن عدی کہتے ہیں یہ حدیثیں گھڑتا تھا ۔

کنا نتھمہ بوضعھا بل نتیقن ذلک رافضیا وذکرہ ابن یونس ۔ فقل کان رافضیا یضع الحدیث ۔
ترجمہ : ہم اس پر وضع حدیث کا الزام رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ رافضی تھا ابن یونس نے بھی اس کو رافضی کہا ہے اور حدیث گھڑنے والا دیکھا آپ نے اس نے ایک ہی حدیث ایسی گھڑی کے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مرید اور شاگرد کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برابر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو منبع نور قرار دیا ۔ (میزان الاعتدال ج٢/١٢۴)

استغفراللہ العظیم

ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعامة حدیثة موضوعة کان قلیل الحیاء دعاویہ علی قوم لم یلحقھم ۔ فی وضع مثل ھذا الحدیث الرکیکہ وفیہ مالا یشبہ کلام رسول اللہ عندہ عن یحیی بن بکیر احادیث مستقیمة ولکن یشبہ بھا بتلک الاباطیل ۔
ترجمہ : اور اس کی روایات زیادہ تر موضوع ہوتی ہیں جن لوگوں سے اس کی ملاقات تک نہ تھی ان سے روایت کرتے ہیں اور اس قسم کی کمزور احادیث وضع کرنے میں اور وہ روایات لانے میں جو کلام نبوت سے ہرگز دکھائی نہ دیتی ،  یہ شخص کم حیا کرتا تھا اس کے پاس درست احادیث بھی موجود تھیں لیکن ان میں بھی وہ اس طرح کے جھوٹ ملا دیتا تھا ۔ (لسان المیزان جلد 2 صفحہ 109)

نور کے بعد ایک مٹی سے پیدا ہونے کی روایت بھی ملاحظہ کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : خلقت انا ہارون عمران یحی بن زکریا و علی بن ابی طالب من طینة واحدة ۔
ترجمہ : میں حضرت ہارون حضرت عمران حضرت یحیی بن زکریا اور حضرت علی بن ابی طالب ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں ۔

رافضی عقیدہ : پنجتن ایک ہی مٹی سے بنے اور مٹی نے نور کا نام پایا ۔

اہلسنت کے لٹریچر میں یہ آفت محمد بن خلف المروزی سے آئی ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ہذا موضوع ۔ (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 135 موضوعات ابن جوزی جلد 1 صفحہ 229)

حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ اسے ان الفاظ میں لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ موضوع ہے : خلافت انا وہارون و یحیی وعلی مین طنة واحدة ھذا موضوع ۔
ترجمہ : میں اور ہارون اور یحییٰ اور علی ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے یہاں حضرت عمران کو نکال دیا گیا ہے دروغ گورا حافظ نباشد ۔ وقال دارالقطنی متروک ۔ (لسان المیزان جلد 5 صفحہ 157)

من لم یقل علی خیر الناس فقد کفر ۔
ترجمہ : جو شخص یہ نہ کہے کہ علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے اچھے ہیں وہ کفر کر چکا ۔

یہ آفت محمد ابن کثیر سے آئی ہے ۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ شیعہ تھا ۔ (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 310،چشتی)

قاضی نور اللہ شوستری کہتا ہے شیعی بودن اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندار ۔

امام بخاری علیہ الرحمہ کہتے ہیں کوفی منکرالحدیث تھا اور امام علی ابن مدینی کہتے ہیں کتبنا عنہ عجائب وخططت علی حدیثہ وکذبہ یحیی بن معین ۔
ترجمہ : ہم نے اس سے عجیب عجیب روایات لکھیں اور اس کی روایات کو نشان ضد کرتے رہے اسے یحیی ابن معین میں جھوٹا ٹھہرایا ہے ۔ (لسان المیزان جلد ٣/ ٣۵٢،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں کہا میں صدیق اکبر ہوں معاذاللہ کیا آپ ایسی بات کہہ سکتے تھے ہرگز نہیں اپنے آپ کو بڑا کہنا اللہ والوں کے عادت نہیں ہے بہرحال روایت یہ ہے : انا عبداللہ واخو رسول اللہ و وانا الصدیق الاکبر لایقولھا بعدی الا کاذب صلیت قبل الناس سبع سنین ۔
ترجمہ : میں اللہ کا بندہ ہوں میں رسول اللہ کا بھائی ہوں میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد جو شخص بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر کہے وہ جھوٹا ہوگا میں دوسرے لوگوں سے سات سال پہلے اسلام لایا ۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کے اسلام لانے کے بعد سات سال تک کوئی مسلمان نہ ہوا سات سال صرف آپ اکیلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت پر ہیں ۔ سوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بواتعجبیت ۔

اس کے دو راوی قابل نظر ہیں

عباد بن عبداللہ الاسدی الکوفی ۔

زید بن وہاب الجہنی ابو سلیمان الکوفی ۔

عن زازان عن سلمان قال رائت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرب فخذ علی ابن ابی طالب وصدرہ سمعتہ یقول محبک محبی ومحبی محب اللہ و مبغضک مبغضی و مبغضی مبغضب اللہ ۔
ترجمہ : حضرت سلمان کہتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ران اور سینے پر ایک ضرب سی لگائی اور میں نے آپ کو انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تیرا محب میرا محب ہے اور میرا محب اللہ کا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے اور مجھ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھنے والا ہے ۔

احادیث میں یہ آفت عمرو بن خالد سے آئی ہے ۔

امام احمد علیہ الرحمہ کہتے ہیں یہ کذاب ہے ۔

یحیی بن معین بھی کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ۔

ابو حاتم کہتے ہیں متروک الحدیث اور زاہب الحدیث ہے ۔

اسحاق بن راھویہ اور ابو ذرعہ کہتے ہیں کان یضع الحدیث ۔

قال وکیع کان جارنا فطہرنا منہ علی کزب فانتقل ورماہ ابن العرقی بالکزب ۔ وہ احادیث وضع کرتا تھا وکیع کہتے ہیں وہ ہمارے پڑوس میں رہتا تھا پھر ہم اس کے کذب کو پا گئے تو وہاں سے چلا گیا ۔ (تہذیب جلد 8 صفحہ 37)

ابن العراقی نے اس کے کذب ہونے کی نشاندہی کی ہے ۔

عن انس مرفوعا ان اخی و وزیری وخلیفتی فی اہل و خیر من اترک من بعدی علی ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میرا بھائی میرا وزیر اور میرا میرے گھر میں جانشین اور میرے بعد سب سے بہتر آدمی علی ہے اس نے خلیفتی فی اھلی کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھروں تک جانشین رکھا اور آپ سے امت کے خلافت کی یکسر نفی کر دی ۔

احادیث میں یہ عافت مطر بن میمون اسکاف سے آئی ہے ۔

امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 442)

امام بخاری ابو حاتم اور امام نسائی علیہم الرحمہ کہتے ہیں یہ شخص منکر حدیث تھا کرنل جوزی نے اس روایت کو موضوعات میں لکھا ہے ۔

عن انس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم النظر الی وجہ علی عبادہ ۔
ترجمہ : انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے ۔ (المستدرک ج ١/ ١۴١۔ ۴٢)

راوی حدیث یہاں یہ واضح نہیں کر سکا کہ عبادت کس کی ہو گی ۔ اللہ تعالی کی یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ۔ یہ روایت مطر ابن میمون کی خدمت کا نتیجہ اور فکر ہے ۔ امام ذہبی رحمة اللہ علیہ اس حدیث اور محدث کے بارے میں لکھتے ہیں : کلاہما موضوعان ۔ حدیث بھی اور بیان کرنے والا بھی ۔ دونوں ہی موضوع ہیں ۔ (میزان الاعتدال ج6/442)

مطربن میمون نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے یہ روایت بھی گھڑی ہے : قال کنت عنہ النی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرای علیا مقبلا فقل انس ھذا حجتی علی امتی یوم القیامة ۔
ترجمہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آتے ہوئے دیکھا اور فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ میری امت پر یہ شخص اللہ کی طرف سے حجت ہوگا قیامت کے دن ۔
حافظ عباس کی اس روایت کو بھی باطل ٹھہراتے ہیں ۔ (میزان الاعتدال ج6/442)

مطر بن میمون کی ایک اور کارروائی : عن انس قال کنت جالس مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من ھذا قلت ھذا علی ابن ابی طالب یا انس انا وھذا حجة علی خلقہ اخرجہ ابن عدی الکامل ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ ادھر آۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے انس یہ کون ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ علی بن ابی طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس میں اور یہ مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں

مطر ابن میمون کی ایک اور واردات

عن انس مرفوعا علی اخی وصاحبی وابن عمی وخیر من اترک بعدی یقضی دینی وینجز موعدی میزان الاعتدال ج6۔446
ترجمہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا علی میرا بھائی ہے علی میرا صحابی ہے علی میرے چچا کا بیٹا ہے اور جو بھی میرے بعد رہیں گے ان میں خیر الناس ہے میرے قرض یہی اتارے گا اور میرے عہد یہی پورا کرے گا ۔

عن ابن عباس عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال یا ام سلمة ان علیا لحمہ لحمی وھو بمنزلة ھارون بن موسی منی غیر انی لانبی بعدی اخرجہ عقیلی فی الضعفاء ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے روایت کی کہ اے ام سلمہ علی رضی اللہ عنہ کا چمڑہ میرا چمڑا ہے وہ بمنزلہ ھارون کے موسی کے لیےتھا میرے لیے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے عقیلی نے اس کو کتاب الضعفاء میں زکر کیا ہے ۔

اس میں آفت داہر بن یحیی الزاری کی طرف سے آئی ہے ۔

امام زہبی علیہ الرحمہ اس کے بارے لکھتے ہیں : رافضی بغیض لایتابع علی بلایاہ ۔ (میزان الاعتدال ج٣ حرف دال)

لیکن اس روایت کا دوسرا حصہ

ھو بمنزلة ھارون من موسی

یہ صحیح ہے اخرجہ البخاری

اکثر شیعہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اول بھی ثابت کرتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح کیسے ہوئے ؟

اولکم وردا علی الحوض اولکم اسلاماعلی ابن ابی طالب
رواہ ابن عدی الکامل ۔
ترجمہ : تم میں سب سے پہلے حوض پر وہ وارد ہو گا جو سب سے پہلے اسلام لایا اور وہ علی ابن ابی طالب ہے ۔

اس روایت میں عبدالرحمن ابن قیس الزعفرانی صاحبِ سازش ہے ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : کذبہ ابن مھدی وابو زرعة قال البخاری ذہب حدیثہ وقال احمد لم یکن شئی واخرجہ الحاکم حدیثا منکراً ۔ (میزان الاعتدال جلد ۴/ ٣٠٩،چشتی)

عبدالرحمان ابن مھدی اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ وہ چھوٹا تھا اس کی حدیث قبول کے لائق نہیں ۔

احمد کہتے ہیں وہ کوئی شئی ما تھا حاکم کہتے ہیں وہ منکر الحدیث تھا حاکم نے سہل انگاری سے اسے صحیح کہ دیا تو امام ذہبی نے اس کا تعاقب کیا ہے اور فرمایا ۔

لیس بصیحح قال ابو زرعة عبدالرحمان بن قیس کزاب ۔

یہ روایت صحیح نہیں ہے اس کا راوی عبدالرحمان ابن قیس کذاب ہے ۔

وصی وموضع سری وخلیفتی فی اھلی خیر من اخلف بعدی علی ۔
تجمہ : میرا وصی میرا رازدان میرا خلیفہ مرے اہل میں جن لوگوں کو میں پیچھے چھوڑ رہا ہوں ان میں سب سے بہتر علی ہے ۔

عبداللہ ابن داہر شعبی کی سند سے ایک روایت یہ بھی ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا

ھذا اول من آمن بی واول من یصافخی یوم القیامۃ وھو فاروق والباطل وھو یعسوب ھذہ الامۃ بین الحق و الباطل وھو یعسوب المومنین المال یعسوب الظلمة وھو الصدیق الاکبروھو خلیفتی من بعدی ۔
ترجمہ : یہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور یہ پہلا شخص ہے جو مجھ سے قیامت کے دن مصافحہ کرے گا یہ فاروق ہے جو میری امت میں حق اور باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے یہ مومنین کا سردار ہیں یعنی صدیق اکبر ہے جو میرے بعد خلیفہ ہوگا ۔

اس پر امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فھذا باطل لم اراحدا ذکرا داھراً ولاابن ابی حاتم وانما البلاء من ابنہ عبداللہ فانہ متروک ۔
ترجمہ : یہ روایت باطل ہے اور میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے داہر کا نام لیا ہو ابی حاتم کہتے ہیں کہ اس کا بیٹا متروک ہے ۔ (میزان الاعتدال جلد ٣/ ۴۴)

روی ابو داود الرھاوی انہ سمع شریکا یقول علی خیر البشرفمن ابی فقد کفر ۔ (اخرجہ الخطیب فی التاریخ ج۴/ ۴٢١)(ابن جوزی موضوعات ج١/ ٣٧٨)

امام ذہبی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : قلت بعض الکذابین یرویہ مرفوعا ۔ میں کہتا ہوں بعض کذاب اس کو مرفوع بھی روایت کرتے ہیں ۔ (میزان الاعتدال ج ٣/ ٣٧۴،چشتی)

Tuesday, 25 January 2022

نام و نسب اور القابات حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

 نام و نسب اور القابات حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ 

محترم قارئین کرام : امیرُ المؤمنین حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبد اللہ ، کنیت ”ابو بکر“ جبکہ لقب” صدّیق“ و” عَتِیْق“ ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ عامُ الفیل کے دو سال اور چند ماہ بعد مکۂ مکرمہ میں  پیدا ہوئے ۔ (تاریخ ابنِ عساکر جلد 30 صفحہ 446)


ثَانِیَ اثْنَیْنِ : اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہ کےلیےقرآنِ مجید میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ”ثَانِیَ اثْنَیْنِ ۔ (دو میں سے دوسرا) فرمایا ۔ (پارہ نمبر 10 سورہ التوبۃ آیت نمبر 40)

یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا ۔


رفیقِ ہجرت : جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  مکّۂ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضی اللہ عنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیقِ ہجرت تھے ۔


یارِ غار : اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضی اللہ عنہ ہی رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار رہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ نمبر 46،چشتی)


نام و نسب : آپ کا اسم گرامی عبداللہ ۔ لقب ، صدیق و عتیق اور کنیت ابوبکر ہے ۔


آ پ کے والد بزرگوار کا اسم مبارک : عثمان بن عامر اور کنیت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ ہے ۔ اور والدہ ماجدہ کا نام سلمی بنت صخر اور کنیت ام الخیر رضی اللہ عنہا ہے ۔ (سیرت خلفائے راشدین صفحہ نمبر 5)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نسب


والدماجد کی طرف سے شجرہ نسب یہ ہے : عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئ قرشی تیمی ۔


والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے : عبد اللہ بن سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئی ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 90،چشتی)


مرہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان چھ واسطے ہیں ۔ یوں ہی مرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بھی چھ واسطے ہیں ۔ اس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مرہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے ۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دو لقب "صدیق و عتیق" مشہور ہیں ۔ آئیے ان دونوں لقب سے مشہور ہونے کی وجہ جانتے ہیں ۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو عتیق کہے جانے کی وجہ ۔ آپ کے عتیق کہے جانے کی یہ وجہیں بیان کی جاتی ہیں :


(1) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا : ھذا عتيق الله من النار ۔ یہ من جانب اللہ جہنم کی آگ سے آزاد ہیں ۔ اس وجہ سے آپ کا لقب عتیق مشہور ہو گیا ۔ (الطبقات الكبرى جلد 3 صفحہ 90)


(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں : ایک دن میں اپنے گھر میں موجود تھی ،باہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے ، میرے اور صحابہ کے درمیان پردہ حائل تھا ۔اچانک ابو بکر حاضر خدمت ہوۓ ، آپ نے دیکھ کر فرمایا : من سره أن ينظر الی عتيق من النار ، فلينظر إلى أبي بكر ۔ جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا پسند کرے وہ ابوبکر کی زیارت کرے ۔ (تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 7،چشتی)

 

(3) تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ "عتیق" بمعنی حسین جمیل ہے ۔ اور چوں کہ آپ بہت حسین و جمیل تھے ، اس لیے آپ کو "عتیق" کہا جانے لگا ۔


علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے حسن و جمال کی وجہ سے آ پ کا لقب "عتیق" رکھا ۔ (صفة الصفوه جلد 1 صفحہ 123)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو "صدیق" کہے جانے کی وجہ ۔ آپ کا سب سے مشہور لقب "صدیق" ہے اس کی کئی وجہیں بیان کی جاتی ہیں : 


(1) حافظ ابن عبدالبر اس کی ایک وجہ یوں بیان کرتے ہیں : لبداره إلي تصديق رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في كل ماجاءبه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ آ پ نے ہر معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کر نے میں پہل کی اس لیے آ پ کا لقب صدیق رکھا گیا ۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 94،چشتی)


(2) ایک دوسری وجہ یہ ذکر کی گئی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا : اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کرو گے ؟ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس کی سیر کر آ ۓ ہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے کہا :  بے شک آ پ نے سچ فرمایا ہے ۔ میں تو صبح و شام اس سے بھی اہم اور مشکل امور کی تصدیق کرتا ہوں ۔ اس واقعہ سے آ پ کا لقب صدیق مشہور ہو گیا ۔ (تاریخ الخلفا صفحہ 29 )


(3) ابن سعد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ کے غلام ابو وہب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ "جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج سے واپسی پر وادی طوی پہنچے ، تو آپ نے جبرئیل امین سے فرمایا : میری قوم اس واقعہ کی تصدیق نہیں کر ے گی ۔ جبرئیل امین نے کہا :

يصدقك ابوبکروھو الصدیق ۔ ابو بکر آپ کی تصدیق کریں گے ، اور وہ صدیق ہیں ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3  صفحہ 90،چشتی)


صادق کالغوی معنی ہے ’’سچا‘‘۔اورصادق اس شخص کو کہتے ہیں جوبات جیسی ہو ویسے ہی زبان سےبیان کردے ۔ (التعریفات،ص۹۵)


صدیق اکبر صادق وحکیم ہیں


شیخ اکبرحضرت سیدنا محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اگر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے۔ وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں ، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم ۔ (الفتوحات المکیۃ،الباب الثالث والسبعون،ج۳،ص۴۴،فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۸۰)


صدیق کسے کہتے ہیں ؟


(1) صدیق اسے کہتے ہیں جوزبان سے کہی ہوئی بات کو دل اور اپنے عمل سے مؤکد کر دے۔ (التعریفات،ص۹۵) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو صدیق اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فقط زبان کے نہیں بلکہ قلب وعمل کے بھی صدیق تھے۔


(2) صدیق اسے بھی کہتے ہیں جوتصدیق کرنے میں مبالغہ کرے،جب اس کے سامنے کوئی چیز بیان کی جائے تواوّلا ہی اس کی تصدیق کردے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی ایسے ہی تھے کہ اوّلا ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم  کی ہربات کی تصدیق کردیاکرتے تھے ۔


(3) حکیم الامت مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’صدیق وہ کہ جیسا وہ کہہ دے بات ویسی ہی ہوجائے۔ اسی لیے تو حضرت سیدنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے ساتھ جودوقیدی تھے ان میں سے شاہی ساقی یعنی بادشاہ کو شراب پلانے والے نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو صدیق کہا کیونکہ اس نے دیکھا کہ جو آپ نے کہا تھا وہ ہی ہوا ، عرض کیا: یُوْسُفُ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ ۔حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سیدنا مالک بن سنان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق جو کہا تھا وہ ہی ہوا کہ وہ شہید ہونے کے بعد زندہ ہو کر آئے ۔  (مرآۃ المناجیح،   ج۸،ص۱۶۲،چشتی)


صدیقیت کسے کہتے ہیں ؟


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’صدیقیت ایک مرتبہ تلو نبوت ہے کہ اس کے اور نبوت کے بیچ میں کوئی مرتبہ نہیں مگر ایک مقام ادق واخفی کہ نصیبہ حضرت صدیق اکبر اکرم واتقی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہہے تو اجناس وانواع واصناف فضائل وکمالات وبلندی درجات میں خصائص و ملزومات نبوت کے سوا صدیقین ہر عطیہ بہیہ کے لائق واہل ہیں اگرچہ باہم ان میں تفاوت و تفاضل کثیرو وافر ہو ۔ (فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۷۸،چشتی)


صدیق اکبر کسے کہتے ہیں ؟


 آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ہرمعاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ فرمایا حتی کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کہ جن کو اس وقت کسی کی عقل نےتسلیم نہیں کیا ان میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فوراً تصدیق فرمائی ۔ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کی ویسی کسی نے نہ کی اس لیے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو’’ صدیق اکبر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ، جلد۱۵، ص۶۸۰پرارشاد فرماتے ہیں :’’سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اکبر ہیں اور سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ صدیق اصغر، صدیق اکبر کا مقام اعلی صدیقیت سے بلند و بالا ہے ۔‘‘ نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں ہے:’’سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی تخصیص اس لئے کہ وہ صدیق اکبر ہیں جو تمام لوگوں میں آگے ہیں کیونکہ انہوں نے جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی تصدیق کی وہ کسی کو حاصل نہیں اور یونہی سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام صدیق اصغر ہے جو ہرگز کفر سے ملتبس نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے غیر ﷲ کو سجدہ کیا باوجود یکہ وہ نابالغ تھے ۔ (نسیم الریاض فی شرح الشفا، القسم الاول، فی ثناء اللہ۔۔۔الخ، الفصل الاول، ج۱، ص۲۳۴،چشتی)


لقب  ’’حَلِیْم  ‘‘( بُرْدبَار)


صدیق اکبر آسمانوں میں حلیم


حضرت سیدناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سیدنا جبریل امین اللہ 1 کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورایک کونے میں بیٹھ گئے، کافی دیر تک وہیں بیٹھے رہے اچانک وہاں سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہگزرے توجبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم ! یہ ابو قحافہ کے بیٹے ہیں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : ’’اے جبریل! کیا آپ لوگ بھی انہیں پہچانتے ہو ؟‘‘ عرض کیا: ’’اس رب کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے ! ابوبکر زمین کی نسبت آسمانوں میں زیادہ مشہور ہیں ، اور آسمانوں میں ان کا نام ’’حلیم‘‘ ہے ۔ (الریاض النضرۃ،  ج۱، ص۸۲)


لقب ’’اَوَّاہٌ‘‘ (کثیرُ الدعا ، عاجزی کرنے والے)


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نہایت ہی عاجزی کرنے والے اور کثیر الدعا تھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کئی مخصوص دعائیں بھی منقول ہیں ، حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ’’ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی انہیں صفات کی بنا پر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہک ا لقب ’’اَوَّاہٌ‘‘کثیر الدعا ، عاجزی کرنے والاپڑگیا ۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۳، ص۸۵،چشتی)


صدیقِ اکبر کون ؟ مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں


محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی کہتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں ، تو گذارش ہے کہ یہ ان کا اپنا قول ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا فرمان نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنے بعد کا کہا ہے ، پہلے کی بات نہیں کی ۔ انہیں بھی پتہ تھا کہ مجھ سے پہلے بھی صدیق ہے ۔ اس لیے آپ کا یہ قول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد کا تھا ، نہ کہ ان کی صدیقیت کی نفی تھی ۔ اس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ انہیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے خود صدیق کا لقب عطا فرمایا ہے ۔


رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی بھی یہ قولِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ پیش کرتے ہیں ۔ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر قرار دیتے ہیں اور دلیل میں ایک منکر اور باطل روایت پیش کرتے ہیں روایت یہ ہے :عباد بن عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ أانَا عَبْدُ اللَّهِ و اأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأانَا الصِّدِّيقُ الأَكْبَرُ لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إلَّا کَذَّابٌ صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِ سِنِينَ .

ترجمہ : عباد بن عبد اللہ سے روایت ہے جس نے کہا : علی علیہ السلام نے فرمایا : میں اللہ کا بندہ ہوں اور میں اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی ۔ (سنن ابن ماجة ، ج1 ، ص 44)(البداية والنهاية ، ج3 ، ص 26)(المستدرک ، حاکم نيشابوري ، ج3 ، ص 112،چشتی)(تلخيص المستدرک)(تاريخ طبري ، ج2 ، ص 56)(الکامل ، ابن الاثير ، ج2 ، ص 57)(فرائد السمطين ، حمويني ، ج 1 ص 248)(الخصائص ، نسائي ، ص 46)(تذكرة الخواص ، ابن جوزي ، ص 108)


اس روایت کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا یہ منکر ہے ، قال عليُّ بنُ أبي طالبٍ : ( ( أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلَّا كاذبٌ ، صلَّيت قبل النَّاسِ سبعَ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن الجوزي | المصدر : موضوعات ابن الجوزي ۔ (الصفحة أو الرقم: 2/98 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)


قال عليُّ رضي اللهُ عنه : أنا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ, لا يقولها بعدي إلا كاذبٌ ، صليتُ قبل الناسِ سبعَ سنين . وفي روايةٍ له : ولقد أسلمتُ قبل الناسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبد الله الأسدي المحدث : (منهاج السنة الصفحة أو الرقم : 7/443 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)


عن عَلِيٍّ يقولُ أنا عَبدُ اللَّهِ وأَخو رَسولِهِ وأَنا الصِّدِّيقُ الأكْبَرُ لا يقولُها بعْدِي إلا كاذِبٌ مُفتِرٍ صَلَّيتُ قبلَ النَّاسِ بسبعِ سنينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : ابن كثير | المصدر : البداية والنهاية الصفحة أو الرقم: 3/25 | خلاصة حكم المحدث : منكر)


أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِ اللهِ, أنا الصديقُ الأكبرُ, لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ, صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين . الراوي : - | المحدث : الشوكاني | المصدر : الفوائد المجموعة الصفحة أو الرقم: 343 | خلاصة حكم المحدث : في إسناده عباد بن عبد الله الأسدي, وهو المتهم بوضعه،چشتی)


قال عَلِيٌّ أنَا عبدُ اللهِ ، وأخو رسولِ اللهِ ، وأنا الصِّدِّيقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كاذبٌ ، آمنتُ قبل الناسِ سبعَ سِنِينَ ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الضعيفة الصفحة أو الرقم: 4947 | خلاصة حكم المحدث : موضوع)


عن عليٍّ قال : أنا عبدُ اللهِ وأخو رسولِه صلى اللهُ عليه وسلم ، وأنا الصديقُ الأكبرُ ، لا يقولُها بعدي إلا كذابٌ ، صليتُ قبل الناسِ بسبعِ سنين ۔ الراوي : عباد بن عبدالله الأسدي | المحدث : الألباني | المصدر : ضعيف ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 24 | خلاصة حكم المحدث : باطل)(الدرر السنية - الموسوعة الحديثية،چشتی)


اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ :


(1) یہ باطل قول ہے اس میں عباد بن عبد اللہ کذاب راوی ہے ۔


(2) یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث رسول نہیں ہے اور ان کا اپنا قول بھ باطل اور منکر ہے ۔


افسوس کہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضیوں نے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر ثابت کرنے کی کوشش ہے لیکن وہ بھی ان کے ایک باطل اور منکر غیر ثابت قول کے ساتھ ۔ اندازہ لگایا آپ نے کہ کس طرح غلط کو صحیح کہ رہے ہیں یہ رافضی شیعہ اور تقیہ (یعنی جھوٹ) کی آڑ میں چھپے رافضی حضرات ۔


بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم صدیق اکبر ہیں ، اور بزعم خویش یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ آقائے کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے  مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو *صدیق اکبر* اور *فاروق اعظم* کا لقب اپنی زبان رسالت سے عطا کیا ہے ۔ اور علمائے اہل سنت پہ یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے مولائے کائنات کی شان میں وارد اس فرمان کو - کہ صدیق اکبر مولا علی ہیں - چھپایا اور اپنی کتابوں میں جگہ نہ دی ۔

ان کا مذکورہ دعویٰ ہی کئی جہتوں سے قابل گرفت ہے لیکن ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں اور جس حدیث کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے اس کی اسنادی حیثیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔

چوں کہ اس بات کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس کے ذریعے افضلیت عمرین کو ختم کرکے مولائے کائنات کو سب سے افضل قرار دینا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم افضلیت پر ہونے والے حملے کا دفاع کریں ۔

وہ حدیث یہ ہے : "[عن أبي ذر الغفاري:] سمعتُ النَّبيَّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم يقولُ لعليِّ بنِ أبي طالبٍ: أنت أوَّلُ من آمن بي، وأنت أوَّلُ من يصافحُني يومَ القيامةِ، وأنت الصِّدِّيقُ الأكبرُ، وأنت الفاروقُ، وتُفرِّقُ بين الحقِّ والباطلِ، وأنت يعسوبُ المؤمنين، والمالُ يعسوبُ الكافرين"* ۔

مذکورہ بالا حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے ایک تفضیلیت زدہ شخص نے اس کی کل ٦/ اسناد ذکر کی ہیں ۔ ١۔ حضرت ابوذر غفاری ٢۔ حضرت سلمان فارسی ٣۔ابو لیلیٰ غفاری ٤۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ٥۔ مولائے کائنات حضرت علی ( ان کے الفاظ یہ ہیں : بعض سندیں خاص اہل بیت علیہم السلام کی سندیں ہیں اور وہ مولائے کائنات سے خود اس فرمان کو روایت کرتے ہیں اور مولا علی ان روایات کو خود نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم سے بیان کرتے ہیں) ۔ ٦۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہم ۔

مذکورہ حدیث ان چھ راویوں سے مروی ہے، ہر ایک کی روایت پر محدثین و ائمۂ جرح و تعدیل نے کہا فرمایا ہے؛ ملاحظہ فرمائیں :

*١۔ عن ابی ذر الغفاری رضی اللہ عنہ*

ابن جوزی : "موضوع" (موضوعات ابن جوزی ١٠٢/٢)

امام ذہبی : "فیہ محمد بن عبید واہ، و علی بن ھاشم شیعی و عباد رافضی" (ترتیب الموضوعات ص١٠٠)


*١/٢۔ عن ابی ذر الغفاری و سلیمان الفارسی*

امام ابن کثیر : " منکرا جدا" ( جامع المسانید و السنن ٤٣٨٦)

امام ہیثمی : " فیہ عمرو بن سعید المصری و ھو ضعیف" (مجمع الزوائد ١٠٥/٩)

امام ابن حجر عسقلانی :" اسنادہ واھی ، و محمد متھم، و عباد من کبار الروافض، و ان کان صدوقا فی الحدیث" ( مختصر البزار ٣٠١/٣)

شوکانی : " فیہ عمر بن سعید المصری و فیہ ضعف" ( در السحابۃ ١٤٠)


یہ استنادی حیثیت تھی پہلے اور دوسرے طریق کی ۔ اب تیسرے طریق کو ملاحظہ کیجیے __


*٣۔ أبو لیلیٰ الغفاری رضی اللہ عنہ*


ابن عبد البر :" فیہ اسحاق بن بشر ممن لایحتج بنقلہ اذا انفرد لضعفہ و نکارۃ حدیثہ" ( الستیعاب ٣٠٧/٤)


*٤۔ عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما*


عقیلی : " فیہ داھر بن یحییٰ الرازی کان ممن یغلو فی الروافض لایتابع علیہ حدیثہ" ( الضعفاء الکبیر ٢/ ٤٧)

ابن عدی : " فیہ عبد اللہ بن یحییٰ بن داھر عامۃ ما یرویہ فی فضائل علی و ھو متھم" ( ٥/ ٣٧٩)

ابن جوزی : " موضوع" (موضوعات ابن جوزی ٢/ ١٠٣)

امام ذہبی : " فیہ عبد اللہ بن داھر من غلاۃ القوم و ضعفائھم "( ترتیب الموضوعات ١٠٠)

ایضا قال : قد اغنی اللہ علیاََ أن تقرر مناقبہ بالأکاذیب و الاباطیل" ( میزان الإعتدال ٢/ ٤١٦)

" باطل" ( میزان الإعتدال ٢/ ٣،چشتی)


*٥۔ عن علی کرم اللہ وجہہ الکریم*


الجورقانی :" حبۃ لایساوی حبۃ کان غالباََ فی التشیع واھیا فی الحدیث" (الأباطیل و المناکیر ١/٢٩٤)

قال ایضاََ : " باطل " ( الأباطیل و المناکیر ٢٩٣)

ابن عساکر :" لا یتابع علیہ و لا یعرف سماع سلیمان بن معاذۃ" ( تاریخ دمشق ٤٢/ ٣٣)

ابن جوزی : " لا یصح" (العلل المتناھیۃ ٢/٩٤٤)

قال ایضاََ :" موضوع " (موضوعات ابن جوزی ٩٩/٢)

ابن تیمیۃ :" موضوع" (منہاج السنۃ ٣٦٨/٢)

امام ذہبی : " کذب علیٰ علیٍ"( میزان الإعتدال ٢/ ٣٦٨)


*٦۔ عن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ*

مذکورہ حدیث آپ سے مروی تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملی ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔


اس پوری تفصیل کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل نہیں کہ اس کو بیان کیا جائے اور یہی وجہ بنی کہ علمائے اہل سنت نے اس کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی بلکہ مولائے کائنات کی شان میں وارد صحیح اور قابل بیان احادیث خوب نقل کیں جن کو پڑھ کر مولائے کائنات کی فضیلت و عظمت اور رفعت شان کا اعتراف ہر صاحب فہم کرے گا ۔ اور کئی علما نے لکھا کہ اس حدیث کا ایک راوی غالی رافضی ہے اور یہ بات بھی علما نے لکھی ہے کہ رافضیوں نے مولائے کائنات اور اہل بیت نبوت کی شان میں تین لاکھ حدیثیں گڑھی ہیں (معاذ اللہ) ۔ کیا بعید کہ ان تین لاکھ میں سے یہ بھی ایک ہو ۔ اور اس کو ایسے ہی لوگ بیان کرتے ہیں جن کی نگاہ میں سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی افضلیت کھٹکتی ہے ۔ اور اس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ ہمارے علما نے مولائے کائنات کی شان بیان کرنے میں کوتاہی کی ہے (معاذ اللہ رب العالمین) اور پھر لوگ علمائے اہل سنت سے دور ہوں گے اور رافضیت کے قریب ہوں گے ۔ اللہ کی پناہ اللہ ایسے لوگوں سے سنی مسلمانوں کی حفاظت فرما ۔ آمین ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 33)

ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔


وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے ۔ اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے 5 قول درج ذیل ہیں :


حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ہے اور اسے لے کر تشریف لانے والے سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہی ہیں کہ اسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مخلوق تک پہنچایا ۔


صدق سے مراد قرآنِ پاک ہے،اسے لانے والے جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں ۔


حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ سچ لے کر تشریف لانے والے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور ا س کی تصدیق کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مومنین مراد ہیں ۔ سچ لے کر تشریف لانے والے اور تصدیق کرنے والے سے ایک پوری جماعت مراد ہے ، تشریف لانے والے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی ۔ ( خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۴/۵۵-۵۶، تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۹/۴۵۲، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۱۰۳۸،چشتی)


امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أن المراد شخص واحد فالذی جاء بالصدق محمد ، والذی صدق بہ ہو أبو بکر ، وہذا القول مروی عن علی بن أبی طالب علیہ السلام وجماعۃ من المفسرین رضی اللہ عنہم ۔

ترجمہ : اس سے مراد ایک ہی ہستی ہیں ، تو جو سچی بات لے کر آئے وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہ روایت حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہے ۔ (التفسیر الکبیر،چشتی)(الدر المنثور، روح البیان، سورۃالزمر۔ 33)


حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں


عن عروة بن عبد الله قال سألت أبا جعفر محمد بن علي عليهما السلام عن حلية السيوف فقال لا بأس به قد حلى أبو بكر الصديق رضي الله عنه سيفه، قلت فتقول الصديق؟ قال: فوثب وثبة واستقبل القبلة وقال : نعم الصديق نعم الصديق نعم الصديق، فمن لم يقل له الصديق فلا صدق الله له قولا في الدنيا ولا في الآخرة​ ۔

ترجمہ : عروه بن عبدالله سے روایت ہے حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ تلواروں کو زیور لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب دیا : اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کو زیور لگایا ہوا تھا۔ عرض کیا : کیا آپ بھی ان کو صدیق کہتے ہیں۔ اس پر حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھل پڑے اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا : ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ، ہاں وہ صدیق ہیں ۔ جو ان کو صدیق نہیں کہتا اللہ اس کے کسی قول کو نہ دنیا میں سچا کرے نہ آخرت میں ۔​ (كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج ۳ - ص ۳۶۰) ۔۔۔ ​(سوچ منکر رافضی سوچ تیرا انجام کیا ہوگا ؟؟؟؟؟)


آپ کے القاب مبارکہ میں صدیق بہت مشہور ہے ، کیونکہ یہ مبارک لقب آپ کو کسی مخلوق نے نہیں دیا ، بلکہ خالق کائنات نے عطا فرمایا ، جیسا کہ سنن دیلمی میں حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یَا أَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمَّاکَ الصَّدِّیقَ ۔

ترجمہ : اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام صدیق رکھا ہے ۔ (کنز العمال ، حرف الفاء ، فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:32615،چشتی)


ابھی آپ نے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت کا تذکرہ سنا ، اب آئیے امام الاولیاء کی زبان فیض ترجمان سے سماعت فرمائیے ! حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا : لَاَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اسْمَ اَبِی بَکْرٍ مِنَ السَّمَاءِ ’’ الصِّدِّیقَ‘‘۔

ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام ’’ صدیق‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ، ج ،13،ص52)


آپ کو صدیق کے مبارک لقب سے اس لئے بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ آپ نے بلا کسی تامل سب سے پہلے معجزۂ معراج کی برملا تصدیق کی ، جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاء میں روایت ہے : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت جاء المشرکون إلی أبی بکر فقالوا ہل لک إلی صاحبک یزعم أنہ أسری بہ اللیلۃ إلی بیت المقدس قال أو قال ذلک؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إنی لأصدقہ بأبعد من ذلک بخبر السماء غدوۃ وروحۃ فلذلک سمی الصدیق ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے "راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآئے ہیں "ابوبکر صدیق نے کہا : "بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں "۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ص،11،چشتی)


اسی طرح مختلف مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی فضیلت کا اظہار فرمایا ، اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اتھاہ وارفتگی اور اٹوٹ وابستگی کی بنیاد پر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے درمیان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر اعتبار سے افضل ومقدم اور اولی وبہترجانتے اور مانتے تھے ۔


صدیق اکبر صادق وحکیم ہیں شیخ اکبرحضرت سیدنا محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اگر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس موطن میں تشریف نہ رکھتے ہوں اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مقام پر صدیق قیام کریں گے کہ وہاں صدیق سے اعلی کوئی نہیں جو انہیں اس سے روکے۔ وہ اس وقت کے صادق و حکیم ہیں ، اور جو ان کے سوا ہیں سب ان کے زیر حکم ۔ (الفتوحات المکیۃ،الباب الثالث والسبعون ،ج۳،ص۴۴،چشتی)(فتاوی رضویہ، ج۱۵، ص۶۸۰)


قرآن مجید میں بھی صدیق کا لفظ ، انبیاء علیہم السّلام ، اولیاء اور صالحین کے لیے استعمال ہوا ہے : يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ (سورہ يُوْسُف ، 12 : 46)

ترجمہ : (وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا) اے یوسف، اے صدقِ مجسّم! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائے ۔


وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 41)

ترجمہ : اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔


وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ۔ (سورہ مَرْيَم ، 19 : 56)

ترجمہ : اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے ۔


مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ۔ (سورہ الْمَآئِدَة ، 5 : 75)

ترجمہ : مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں (یعنی خدا یا خدا کا بیٹا اور شریک نہیں ہیں)، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں ، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ (اس کے باوجود) وہ کس طرح (حق سے) پھرے جارہے ہیں ۔


وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ۔ (سورہ الْحَدِيْد ، 57 : 19)

ترجمہ : اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر بھی کئی صدیق ہیں ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے صدیق ہیں ۔ الصدیقون جمع کا صیغہ ہمیں بتا رہا ہے کہ بہت سارے صدیق ہیں تو پتہ چلا کہ صدیقین کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ میں صدیق اکبر ہوں اور اگر میرے بعد کسی نے اس کا دعویٰ کیا تو وہ کذاب ہے ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے ۔ اس میں لڑائی جھگڑا والی بات بھی نہیں ہے ۔


صدیق اکبر کا گستاخ بندر بن گیا


حضرت امام مستغفری رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ثقات سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ تین آدمی ایک ساتھ یمن جارہے تھے ہمارا ایک ساتھی جو کوفی تھا وہ حضرت سیدناابوبکر صدیق وحضرت سیدناعمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی شان میں بدزبانی کر رہا تھا ، ہم لوگ اس کو بار بار منع کرتے تھے مگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا تھا ، جب ہم لوگ یمن کے قریب پہنچ گئے اور ہم نے اس کو نماز فجر کے لیے جگایا ،تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی یہ خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے سرہانے تشریف فرما ہوئے اورمجھے فرمایا کہ’’ اے فاسق!خداوند تعالیٰ نے تجھ کو ذلیل وخوار فرمادیا اورتو اسی منزل میں مسخ ہوجائے گا۔‘‘اس کے بعد فوراً ہی اس کے دونوں پاؤں بندر جیسے ہوگئے اورتھوڑی ہی دیر میں اس کی صورت بالکل ہی بند رجیسی ہوگئی ۔ ہم لوگوں نے نماز فجر کے بعد اس کو پکڑ کر اونٹ کے پالان کے اوپر رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا اوروہاں سے روانہ ہوئے ۔ غروب آفتاب کے وقت جب ہم ایک جنگل میں پہنچے تو چند بندروہاں جمع تھے۔ جب اس نے بندروں کے غول کو دیکھا تو رسی تڑوا کر یہ اونٹ کے پالان سے کود پڑا اوربندروں کے غول میں شامل ہوگیا۔ ہم لوگ حیران ہوکر تھوڑی دیروہاں ٹھہر گئے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بندروں کا غول اس کے ساتھ کس طرح پیش آتاہے تو ہم نے یہ دیکھا کہ یہ بندروں کے پاس بیٹھا ہوا ہم لوگوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھتا تھا اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ گھڑی بھر کے بعد جب سب بندروہاں سے دوسری طرف جانے لگے تویہ بھی ان بندروں کے ساتھ چلاگیا ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد و دلایلی الخ صفحہ ۲۰۳،چشتی)


صدیق اکبر کاگستاخ خنزیر بن گیا


اسی طرح حضرت امام مستغفری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ علیہ نے ایک مرد صالح سے نقل کیا ہے کہ کوفہ کا ایک شخص جو حضرات سیدناابوبکر وعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو برا بھلا کہا کرتا تھا ہر چند ہم لوگوں نے اس کو منع کیا مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، تنگ آکر ہم لوگوں نے اس کو کہہ دیا کہ تم ہمارے قافلہ سے الگ ہوکر سفر کرو۔ چنانچہ وہ ہم لوگوں سے الگ ہوگیا جب ہم لوگ منزل مقصود پر پہنچ گئے اورکام پورا کر کے وطن کی واپسی کا قصد کیا تو اس شخص کا غلام ہم لوگوں سے ملا، جب ہم نے اس سے کہا کہ’’ کیا تم اورتمہارا مولیٰ ہمارے قافلے کے ساتھ وطن جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘ یہ سن کر غلام نے کہا کہ ’’میرے مولیٰ کا حال تو بہت ہی برا ہے، ذراآپ لوگ میرے ساتھ چل کر اس کا حال دیکھ لیجئے ۔ ‘‘غلام ہم لوگوں کو ساتھ لے کر ایک مکان میں پہنچا وہ شخص اداس ہوکر ہم لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ پر تو بہت بڑی افتادپڑگئی ۔ پھر اس نے اپنی آستین سے دونوں ہاتھوں کو نکال کر دکھایا تو ہم لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے دونوں ہاتھ خنزیر کے ہاتھوں کی طرح ہوگئے تھے ۔ آخر ہم لوگوں نے اس پر ترس کھا کر اپنے قافلہ میں شامل کرلیا لیکن دوران سفر ایک جگہ چند خنزیروں کا ایک جھنڈ نظرآیا اور یہ شخص بالکل ہی ناگاہاں مسخ ہوکر آدمی سے خنزیربن گیا اورخنزیروں کے ساتھ مل کر دوڑنے بھاگنے لگا مجبوراً ہم لوگ اس کے غلام اورسامان کو اپنے ساتھ کوفہ تک لائے ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۴،چشتی)


صدیق اکبر کاگستاخ کتا بن گیا


ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے منقول ہے کہ میں نے ملک شام میں ایک ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جس نے نماز کے بعد حضرت سیدنا ابوبکروعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں بددعا کی۔ جب دوسرے سال میں نے اسی مسجد میں نماز پڑھی تو نماز کے بعد امام نے حضرت سیدنا ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں بہترین دعا مانگی ، میں نے نمازیوں سے پوچھا کہ تمہارے پرانے امام کا کیا ہوا ؟ تولوگوں نے کہا کہ :’’ آپ ہمارے ساتھ چل کر اس کو دیکھ لیجئے ۔‘‘ میں جب ان لوگوں کے ساتھ ایک مکان میں پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی کہ ایک کتا بیٹھا ہوا ہے اوراس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم وہی امام ہو جوحضرات شیخین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے لئے بددعا کیا کرتا تھا ؟ ‘‘تو اس نے سرہلا کر جواب دیا کہ’’ ہاں ۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس د ربیان شواھد ودلایلی...الخ، ۲۰۶)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...