٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 99 ، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء
ولادتِ نبوی۱۲/ربیع الاوّل اوروفات ۲/ربیع الاوّل
ایک تحقیق
از: مولانامحمدشفیع قاسمی بھٹکلی
ناظم ادارہ رضیة الابرار،بھٹکل
قدیم زمانہ سے یہ بات مشہور ومعروف ہے کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پیرکے دن ۱۲/ربیع الاول کو ہوئی۔ اور ۱۲/ربیع الاوّل کو برصغیر میں حکومت کی طرف سے چھٹیاں بھی ہوتی ہیں؛ مگر افسوس کہ کچھ لوگ تاریخ ولادت کے بارے میں ایک مہم چلائے ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۱۲/ربیع الاول کو نہیں ہوئی؛ بلکہ آٹھ(۸)یانو(۹)کو ہوئی، اور کچھ مصنّفین کے اقوال دلیل میں پیش کرتے ہیں؛مگر سچ بات یہ ہے کہ جمہور علماء اہل السنة والجماعة کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش ۱۲/ ربیع الاول ہی ہے۔ سیکڑوں علماء کے اقوال کتابوں میں موجود ہیں۔ لہٰذاصحیح تاریخ ولادت کے متعلق علماء امت کے اقوال کا نقل کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
(۱)حضرت عبداللہ ابن عباس ص اور حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۱۲/ربیع الاول کو ہوئی۔
(۲) مشہورموٴرخ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں: وُلِدَ رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین لاثنتی عشرة (۱۲) لیلةً خَلَتْ مِنْ شَہْرِ ربیعِ الأول عامَ الفیل․(السیرة النبویة لابن ہشام۱/۲۸۴،تاریخ الطبری۲/۱۵۶، مستدرک حاکم۴۱۸۲، شعب الایمان للبیہقی ۱۳۲۴، الکامل فی التاریخ لابن الاثیر۱/۲۱۶)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی)میں ہوئی۔
(۳)مشہورموٴرخ ومحدث امام ابوحاتم ابن حبان(متوفی ۳۵۴ ہجری)لکھتے ہیں:
وُلِدَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عامَ الفیل یومَ الاثنین لاثنتی عشرة(۱۲) لیلةً مَضَتْ من شہر ربیعِ الأول․(السیرة لابن حبان۱/۳۳)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی)میں ہوئی۔
(۴)امام ابوالحسن ماوردی شافعی (متوفی ۴۵۰ ہجری)لکھتے ہیں:
وُلِدَ بعدَ خمسین یوماً من الفیل وبعدَ موتِ أبیہ فی یومِ الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول․(أعلام النبوة۱/۲۴۰)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اپنے والدکے انتقال کے بعد،اور واقعہ فیل کے پچاس دن بعد پیرکے دن ۱۲/ ربیع الاول کو ہوئی۔
(۵)علامہ قسطلانی(متوفی ۹۲۳ ہجری) لکھتے ہیں:
والمشہورُ أنہ وُلِدَ یومَ الاثنین ثانی عشر(۱۲) شہر ربیع الأول، وہو قول ابن إسحاق وغیرہ․(المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیة۱/۸۵)
ترجمہ: مشہورقول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ۱۲/ربیع الاول پیرکے دن ہوئی۔ اور یہی قول حضرت ابن اسحاق (تابعی) وغیرہ کا ہے۔
(۶)شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعی(متوفی ۹۳۰ ہجری)لکھتے ہیں:
قال علماء السیر: ولد النبیﷺ فی ربیع الأول یوم الاثنین بلا خلافٍ․ ثم قال الأکثرون: لیلة الثانی عشر(۱۲) منہ․(حدائق الأنوار ومطالع الأسرار۱/۱۰۵)
ترجمہ: علماء سیرت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کے مہینہ پیرکے دن ہوئی، اور جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کی تاریخ تھی۔
(۷)علامہ مناوی(متوفی۱۰۳۱ ہجری)لکھتے ہیں:
الأصحُّ أنہ وُلِدَ بمکةَ بالشَّعَبِ بعدَ فجرِ الاثنین ثانی عشر ربیع الاول عام الفیل․ (فیض القدیر۳/۵۷۳)
ترجمہ: صحیح بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول کی صبح شعب مکہ میں واقعہٴ فیل کے سال پیرکے دن پیدا ہوئے۔
(۸)علامہ ابوعبداللہ محمد زرقانی مالکی(متوفی۱۱۲۲ہجری) المواہب اللدنیة کی شرح میں لکھتے ہیں۔
(والشہور أنہ صلی اللہ علیہ وسلم وُلِدَ یومَ الاثنین ثانی عشر ربیع الاول، وہو قول محمد بن إسحاق) بن یسار إمام المغازی، وقول (غیرہ) قال ابن کثیر: وہو المشہور عند الجُمْہور، وبالغَ ابن الجوزی وابن الجزار فنقلاً فیہ الإجماعَ․ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیة۱/۲۴۸)
ترجمہ: مشہورقول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ(۱۲)ربیع الاول پیرکے دن ہوئی۔اور یہی قول مغازی اورسیرت کے امام حضرت محمدابن اسحاق بن یسار (تابعی)اور دیگر اہل علم کا ہے، علامہ ابن کثیرفرماتے ہیں جمہور کا یہی قول ہے، علامہ ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیاہے۔
(۹)حضرت مولانا اشرف علی تھانوی(متوفی۱۳۶۲ ہجری)لکھتے ہیں:
جمہورکے قول کے موافق بارہ(۱۲)ربیع الاول تاریخ ولادت شریفہ ہے۔ (ارشاد العباد فی عید المیلاد ،ص۵)
(۱۰)حضرت مولانا سیدسلیمان ندوی (متوفی ۱۳۷۳ ہجری)لکھتے ہیں:
پیدائش ۱۲/تاریخ، ربیع الاول کے مہینہ میں پیرکے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر(۵۷۱)برس بعد ہوئی۔سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی۔ (رحمت عالم ،ص ۱۵)
(۱۱)حضرت مفتی محمدشفیع دیوبندی (متوفی۱۳۹۶ہجری) صدرمفتی دارالعلوم دیوبند ومفتی اعظم پاکستان لکھتے ہیں:
الغرض جس سال اصحابِ فیل کا حملہ ہوا، اس کے ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ روز دوشنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد، لیل ونہار کے انقلاب کی اصل غرض، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کا فخر، کشتی نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز، ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروزِ عالم ہوتے ہیں۔(سیرت خاتم الانبیاء، ص۱۱)
(۱۲)مولاناسیدابوالاعلی مودودی (متوفی۱۳۹۹ ہجری)لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول میں ہوئی، ولادت پیر کے روزہوئی، یہ بات خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کے سوال پر بیان فرمائی،(صحیح مسلم بروایت قتادہ)، ربیع الاول کی تاریخ کون سی تھی؟ اس میں اختلاف ہے؛ لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ کا یہ قول نقل کیاہے کہ آپ ۱۲/ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے، اسی کی تصریح محمد بن اسحاق نے کی ہے، اور جمہور اہل علم میں یہی تاریخ مشہور ہے۔(سیرت سرور عالم،جلددوم،صفحہ ۹۳،۹۴)
(۱۳)حضرت مفتی محمودحسن گنگوہی (صدرمفتی دارالعلوم دیوبند) (متوفی۱۴۱۷ہجری) لکھتے ہیں:
حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ بنت وہب سے ہوئی، جوبنی زہرہ کے خاندان سے تھیں، اس مبارک ومسعود شادی کے بعد شہر مکہ میں حضرت آمنہ کے بطن سے دوشنبہ ۱۲/ربیع الاول مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ عیسوی کی صبح کے وقت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ظہور پذیر ہوئی۔ (گلدستہ سلام،ص۱۸)
(۱۴)حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی(متوفی۱۴۲۰ ہجری)لکھتے ہیں:
وَوُلِدَ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین الیومَ الثانی عشر من شہرِ ربیعِ الأول، عامَ الفیل أسعدَ یوم طلعت فیہ الشمس․(السیرة النبویة، ص۱۱۱)
(۱۵)فتاویٰ لجنہ دائمہ میں ہے:
وُلِدَ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین لاثنتی عشرة(۱۲) لیلةً مَضَتْ مِن شہرِ ربیعِ الاول عامَ الفیل․( فتاوی اللجنة الدائمة، فتوی رقم۳۴۷۴)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی) میں ہوئی۔
طوالت کے خوف سے صرف پندرہ علماء کے اقوال پر اکتفا کیاگیا ہے۔نو(۹)ربیع الاول کے قول کی تردیدمیں مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمدشفیع کی کتاب سیرت خاتم الانبیاء کے حاشیہ میں اس طرح لکھاہے:مشہور قول بارہویں(۱۲) تاریخ کاہے؛یہاں تک کہ ابن الجزارنے اس پر اجماع نقل کردیاہے، اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیاگیاہے، اور محمود پاشاعلی مصری نے جو نویں تاریخ کو بذریعہٴ حساب اختیار کیاہے، یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہِ اختلافِ مطابع ایسا اعتماد نہیں ہو سکتاہے کہ جمہور کی مخالفت اس بناء پر کی جائے۔(حاشیہ سیرت خاتم الانبیاء،ص۱۱)
محمودپاشاہ صاحب نے حساب سے ۹/ ربیع الاول، عام فیل کو پیرکادن قرار دیاہے، یہ صحیح نہیں معلوم ہوتاہے، ہمارے حساب سے ۱۲/ ربیع الاول، عام فیل مطابق ۲۳/اپریل ۵۷۱ عیسوی کو پیرکادن پڑتاہے۔ مولانامودودی نے لکھاہے کہ بعض اہلِ تحقیق نے اسے ۲۳/اپریل ۵۷۱/ کے مطابق قراردیاہے۔(سیرت سرورعالم،جلددوم،صفحہ ۹۴)
بعضوں نے البدایة والنہایة کے حوالہ سے ۸/ربیع الاول کو راجح لکھاہے۔شایدبدایة میں پوری بحث پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ملی، اسی بدایة میں: قیل لثنتی عشرةَ․․․․․․․ وَہٰذا ہو المشہورُ عندَ الجمہورلکھاہوا ہے۔ اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ بارہ(۱۲)ربیع الاول کا قول جمہور کا قول ہے۔رہا روایت میں الثامن عشر کا لفظ ، بارہ ربیع الاول کے مخالف لوگوں کی مہربانی یاکتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے کہ مصنف ۱۲/ربیع الاول کے قول کی دلیل میں یہ روایت نقل کررہے ہیں، ۱۲/ ربیع الاول کے قول میں ۱۸/کی روایت نقل کرنا مصنف کے مدعا کے خلاف ہے، نیز مصنف نے اپنی دوسری کتاب السیرة النبویة میں اسی روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے۔ عَنْ جَابِرٍ وَابنِ عباسٍ أنَّہُمَا قالَا: وُلِدَ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم عامَ الفیل یومَ الاثنین الثانی عَشَرَ من شہرِ ربیعِ الاول۔۔۔۔نیزالبدایة والنہایہ کے مکتبہ المعارف بیروت سے شائع ہونے والے نسخہ کے حاشیہ میں اس طرح لکھا ہے:کذا رأیتہ الثامن عشر، والصوابہ الثانی عشر۔لہٰذا اہل علم حضرات سے گذارش ہے کہ کسی ایک کتاب کو دیکھ کر فیصلہ نہ کریں؛ بلکہ دوسری کتابوں سے بھی تحقیق کریں۔آج کل حدیث کی کتابوں میں تحریف وتبدیل کا سلسلہ جاری ہے۔شاملہ کے ایک نسخہ میں حدیث کے الفاظ دوسرے شاملہ کے الفاظ سے مختلف یا حذف ہیں۔ہمارے خیال میں جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے، اس وقت مکہ میں ۱۲/ ربیع الاول کی تاریخ تھی، اور دوسرے علاقوں میں دوسری تاریخ تھی،کیونکہ قمری تاریخ ،مختلف ممالک میں مختلف ہوتی ہے۔غرض جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اس وقت مکہ میں ۱۲/ ربیع الاول کی تاریخ تھی۔لہٰذا صحیح،مشہور اور راجح قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۱۲/ ربیع الاول ہی کو ہوئی۔
رہا ۱۲/ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہناکسی طرح صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیرکے دن ہوئی، اور صحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی(۸۱)دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔اس حساب سے ۱۲/ربیع الاول کو پیرکادن کسی طرح نہیں پڑتاہے،لہٰذا علامہ ابن حجرعسقلانی ہی کی رائے کو ماننا پڑے گا کہ آپ کی وفات دو(۲)ربیع الاول بروزپیر کو ہوئی۔
علامہ سہیلی(متوفی۵۸۱ھ)نے روض الانف میں، علامہ تقی الدین ابن تیمیہ(متوفی ۷۲۸ھ) نے منہاج السنة میں، علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی میں یکم/ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعی (متوفی۹۳۰ہجری) نے حدائق الانوارمیں، مفتی محمد شفیع دیوبندی(مفتی اعظم پاکستان )نے سیرت خاتم الانبیاء میں، میاں عابداحمد نے شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں دوم ربیع الاول لکھاہے، سیرت خاتم الانبیاء کے حاشیہ میں لکھاہے۔ تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہواان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع الاول روز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجرنے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے ۲ کا ۱۲ بن گیا۔ حافظ مغلطائینے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم
بارہ ربیع الاول ۱۱ ہجری کوپیرکادن کسی حساب سے نہیں پڑتا، اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یکم / یادوم ربیع الاول بروز پیر کو صحیح معلوم ہوتی ہے۔اوریہ تاریخ۲۸/ مئی ۶۳۲ عیسوی ہوتی ہے۔جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوااس وقت مدینہ میں دوم/ربیع الاول۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲ عیسوی پیرکادن تھا اور دوسرے علاقوں میں یکم /ربیع الاول ۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲عیسوی پیرکا دن ہوگا۔ اس حساب سے یکم/اور دوم ربیع الاول کا اختلاف ختم ہوگا۔غرض ہرجگہ پرپیرکادن تھااور ۲۸/مئی ۶۳۲عیسوی کی تاریخ تھی، ہجری تاریخ مختلف ملک میں مختلف ہوسکتی ہے۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب․
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment