Friday 17 April 2015

شان حضرت سیّدنا صدیق اکبر " ثانی اثنین " رضی اللہ عنہ

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن پاک کی سورہ توبہ کی آیہ 40 میں ارشاد باری تعالٰی ہے ۔۔

إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ ٱللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ ٱثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي ٱلْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلسُّفْلَىٰ وَكَلِمَةُ ٱللَّهِ هِيَ ٱلْعُلْيَا وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿۴۰﴾
ترجمہ : ۔
اگر تم رسول کی مدد نہ کی تو بیشک اللّٰہ ان کی مدد کرچکا ہے جب کافروں نے انکو بے وطن کردیا تھا در آں حالیکہ وہ دو میں سے دوسرے تھے جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے صاحب سے فرمارہے تھے غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے سو اللّٰہ نے ان پر طمانیت قلب نازل کی اور انکی ایسے لشکروں سے مدد فرمائی جنکو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کی بات کو نیچا کردیا اور اللّٰہ کا دین ہی بلند و بالا ہے، اور اللّٰہ بہت غلبہ والا بڑی حکمت والا ہے
تفسیر :-
صاحب تفسیر مظہری رقمطراز ہیں کہ :- یعنی اگر تم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ انکی تائید کرئے گا جیسا کہ اس نے اس وقت فرمائی تھی جب کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکالا تھا در آں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو میں سے دوسرے تھے ۔ثانی اثنین ، نصرہ کی ضمیر منصوب سے حال (واقع) ہونے کی وجہ سے منصوب ہے یعنی اللہ پاک نے مدد فرمائی در آں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ ساتھ صرف ایک شخص تھا اور وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور وہی دوسرے تھے ۔

صاحب تفسیر نعیمی رقمطراز ہیں کہ :- ثانی اثنین یہ فرمان عالی اخرجہ کی ضمیر سے حال ہے ثانی کے معنی ہیں دوسرا یعنی دو میں سے ایک نہ کہ دوسرے درجے والا اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اثنین سے مراد حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر دونوں ہیں یعنی حضور اس حال میں وہاں سے روانہ ہوئے تھے کہ جب آپ صرف دو ہی تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر ۔۔۔۔ اور پھر نکتہ کہ تحت رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔

اہم نکتہ :- جب عدد کہ اسم فاعل کی نسبت اپنے برابر والے عدد کی طرف ہوتو وہاں درجہ مراد نہیں ہوتا بلکہ اس میں سے ایک مراد ہوتا ہے جیسے ثانی اثنین ، ثالث ثلثہ، رابع اربعہ وغیرہ اور اگر اپنے سے اونچے والے عدد کی طرف نسبت ہو تو مراد درجہ ہوتا ہے جیسے رابع خمسہ یعنی پانچ میں سے چوتھا لہذا ثانی اثنین میں اگر حضور دو میں سے دوسرے ہوئے تو صدیق اکبر بھی دو میں سے دوسرے ہوئے ۔
تفسیر در منثور میں ہے کہ ۔۔۔

وأخرج ابن عدي وابن عساكر من طريق الزهري عن أنس رضي الله عنه " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لحسان رضي الله عنه: هل قلت في أبي بكر شيئاً؟ قال: نعم. قال: قل وأنا أسمع. فقال: "
وثاني اثنين في الغار المنيف وقد طاف العدوّ به إذ صاعد الجبلا
وكان حب رسول الله قد علموا من البرية لم يعدل به رجلا

" فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه، ثم قال: صدقت يا حسان، هو كما قلت ۔
مفھوم :-
ابن عدی اور ابن عساکر نے امام زھری کہ طریق سے عن انس رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم نے ابوبکر کی شان میں بھی کچھ کہا ہے ؟ انھوں نے عرض کی جی ہاں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو ہم سنیں گے ۔
تو انھوں نے عرض کی :

ثانی اثنین بلند غار میں تھے اور وہ پہاڑ میں اس حال میں چڑھے کہ دشمن ان کہ اردگرد گھوم رہا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے محبت تھی در ایں حالیکہ کوئی بھی انکا ہمسر نہیں ۔

پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے پھر فرمایا کہ تم نے سچ کہا اے حسان وہ (صدیق ) ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے کہا ۔۔

صاحب تفسیر کبیر امام رازی علیہ رحمہ رقمطراز ہیں کہ :-

أنه تعالى سماه { ثَانِيَ ٱثْنَيْنِ } فجعل ثاني محمد عليه السلام حال كونهما في الغار، والعلماء أثبتوا أنه رضي الله عنه كان ثاني محمد في أكثر المناصب الدينية، فإنه صلى الله عليه وسلم لما أرسل إلى الخلق وعرض الإسلام على أبي بكر آمن أبو بكر، ثم ذهب وعرض الإسلام على طلحة والزبير وعثمان بن عفان وجماعة آخرين من أجلة الصحابة رضي الله تعالى عنهم، والكل آمنوا على يديه، ثم إنه جاء بهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد أيام قلائل، فكان هو رضي الله عنه { ثَانِيَ ٱثْنَيْنِ } في الدعوة إلى الله وأيضاً كلما وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، كان أبو بكر رضي الله عنه يقف في خدمته ولا يفارقه، فكان ثاني اثنين في مجلسه، ولما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قام مقامه في إمامة الناس في الصلاة فكان ثاني اثنين، ولما توفي دفن بجنبه، فكان ثاني اثنين هناك أيضاً ۔ ۔ ۔ ۔
مفھوم :-
اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہ کو ثانی کا اسم عطا فرمایا اور آپ کو ثانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیا اس حال میں کہ آپ غار میں انکے ساتھ تھے اور علماء نے اس آیت سے ثابت کیا ہے کہ صدیق اکبر اکثر دینی مناصب میں ثانی رسول تھے جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھے اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے بلا تردد اسلام قبول کرلیا اور یوں پھر صدیق اکبر نے طلحة ،زبیر و عثمان بن عفان اور اجلہ صحابہ کی ایک عظیم جماعت کو اسلام کی دعوت دی اور ان سب نے بھی آپ رضی اللہ عنہ کہ ہاتھ پر اسلام قبول کیا اس طرح صدیق اکبر دعوت دینے میں حضور کہ ثانی ہوئے اسی طرح تمام غزوات میں شریک ہوئے اور ہمیشہ ساتھ رہے کبھی جدا نہ ہوئے سو اس طرح سے بھی حضور کہ ثانی اور اسی طرح جب حضور پرنور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو امامت کے لیے صدیق اکبر کو چنا سو مصلٰی رسول پر بھی آپ ہی ثانی قرار پائے اور جب وفات پائی صدیق اکبر نے تو انکا مدفن بھی حضور کہ پہلو میں بنا سو اس اعتبار سے بھی ثانی اثنین اسی طرح اور کئی مقامات پر بھی ۔ ۔
حضور ضیاء الامت پیر کرم شاہ صاحب الازہری رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر ضیاء القرآن میں اسی آیت یعنی ثانی اثنین کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔
اس آیت میں پاک میں ہجرت کا واقعہ ذکر کرکے بتلایا گیا کہ اگر تم اس کہ ہمراہ جہاد پر نہ گئے تو جس پروردگار نے اس نازک وقت میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت فرمائی تھی وہ اب بھی اسکا ناصر و معین ہے۔ہجرت کا مختصر واقعہ یوں ہے کہ کفار کی مجلس شورٰی نے اپنے اجلاس میں یہ طے کرلیا کہ آج رات تمام قبیلوں کا ایک ایک فرد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ گھر کا محاصرہ کرلے اور جب آپ باہر تشریف لانے لگیں تو تمام یکبارگی سے حملہ کرکے آپ کو شہید کردیں اسی رات کو اللہ پاک نے حکم دیا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم صدیق کو ساتھ لو اور آج مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو سدھارو ( وامرک ان تستصحب ابا بکر ۔شیعہ تفسیر امام حسن عسکری) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ کوئی تمہارا بال بیکا نہ کرسکے گا اور صبح لوگوں کی امانتیں جو ہمارے پاس ہیں انکو پہنچادینا اور پھر تم بھی مدینہ کا قصد کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو کفار محاصرہ کیے ہوئے تھے سورہ یسین کی ابتدائی آیات وجعلنا من بین ایدیھم سدا الخ تک پڑھ کر ان پر دم کیا ان پر غنودگی طاری ہوگئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بخیر و عافیت انکے نرغہ سے نکل کر صدیق کہ گھر کی طرف روانہ ہوگئے اور انکو ہمراہ لیکر مکہ سے نکلے اور کوہ ثور میں ایک غار میں آکر قیام فرمایا اس کا منہ بہت تنگ تھا صرف لیٹ کر ہی انسان اندر داخل ہوسکتا تھا حضرت صدیق پہلے خود اندر گئے غار کو تمام حس و خاشاک سے صاف کیا جتنے سوراخ تھے انکو بند کیا ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں اپنے پاؤں کی ایڑی رکھدی اور عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قدم رنجہ فرمائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے صدیق زانو پر سر مبارک رکھا اور استراحت فرما ہوگئے ۔ صدیق کہ بخت کی یاوری کا کیا کہنا بیتاب نگاہیں اور بے قرار دل اپنے محبوب کے روئے زیبا کے مشاہدہ میں مستغرق ہے نہ دل سیر ہوتا ہے نہ آنکھیں ۔ وہ حسن سرمدی وہ جمال حقیقی جسکی دل آویزیوں نے چشم فطرت کو تصویر حیرت بنا دیا تھا آج صدیق کے آغوش میں جلوہ فرما ہے ۔ اے بخت صدیق کی رفعتو تم پر یہ خاک پریشان قربان اور یہ قلب حزیں نثار ! اسی اثناء میں حضرت صدیق کی ایڑی میں سانپ نے ڈس لیا زہر سارے جسم میں سرایت کرگیا لیکن کیا مجال کہ پاؤں میں جنبش تک ہوئی ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اپنے یار غار کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی پھر جہاں سانپ نے ڈسا تھا وہاں اپنا لعاب دہن مبارک لگایا جس سے درد اور تکلیف کافور ہوگئی اہل مکہ تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھر رہے تھے ایک ماہر کھوجی کہ ہمراہ پاؤں کہ نشان دیکھتے دیکھتے غار کہ دہانے تک پہنچ گئے جب قدموں کی آہٹ سنائی دی تو حضرت صدیق نے جھک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کفار کی ایک جماعت غار کہ منہ پر کھڑی ہے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں خطرہ میں گھرا دیکھ کر بے چین ہوگئے اور عرض کی یارسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر انھوں نے ہمیں جھک کر دیکھا تو وہ ہمیں پا لیں گے حضور رحمت عالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا ابابکر ماطنک باثنین اللہ ثالثھما اے ابوبکر ان دو کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے کہ جن کا تیسرا اللہ پاک ہو ۔نبی کی قوت یقین ملاحظہ ہو یہ ہے توکل علی اللہ کا وہ مقام کہ جو شان رسالت کہ شایان ہے اس وقت اللہ نے اطمینان و تسکین کی ایک مخصوص کیفیت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہ صدقہ حضرت صدیق پر بھی اس کا ورود ہوا ۔جس سے انکی ہر طرح کی پریشانی دور ہوگئی حضور تین دن تک وہاں قیام فرما رہے حضرت اسماء رضی اللہ عنھا حضرت صدیق کی بڑی صاحبزادی آکر کھانا پہنچا جاتیں آپ کہ صاحبزاے ہر روز کی نئی خبریں دے جاتے ہیں اور آپ کا چرواہا عامر بن فہیرہ رات کو بکریوں کا ریوڑ لے آتا اور تازہ دودھ پیش کرتا حضرت صدیق کہ کنبے کا ایک ایک فرد بلکہ غلام تک اتنے مخلص اور قابل اعتماد تھے کہ کسی نے راز کو افشاء نہ کیا یہاں تک کہ گراں قدر انعام کا لالچ انکے غلام کو بھی نہ للچا سکا کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی جو سازش کی تھی اس طرح ناکام ہوئی اور اللہ کی بات جو ہمیشہ بلند رہتی ہے اس موقع پر بھی بلند ہوئی ۔

ان تمام تفاسیر سے ثابت ہوا کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید میں ثانی اثنین فرمایا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام میں کسی دوسرے کو ثانی رسول نہیں بتایا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی سب سے پہلے حج اسلام کا سردار’’امیر الحج‘‘ بنایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو سب سے آخری غزوہ تبوک میں سب سے بڑی فوج کا سپہ سالار بنایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی موجودگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام بنایا اور صحابہ میں صرف وہی ہیں جو خلیفہ رسول اللہ کے خطاب سے مخاطب ہوئے۔ دیگر خلفائے راشدین ’’امیر المؤمنین‘‘ کے لقب سے مخاطب کیے جاتے تھے۔ ان سب واقعات کی وجہ یہی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ’’صدیق‘‘ تھے اور صدیق ہی نبی اللہ سے قریب تر ہوتا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔