Thursday 16 April 2015

آئیے ذرا غیر مقلد وھابیوں کے گھر کی تلاشی لیں ہم کریں گے بے نقاب ان جھوٹ کے علمبرداروں کو

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 (۱)عبداللہ روپڑی فتاوٰی اہلحدیث میں لکھتے ہیں:"دیوبندی اہلسنت ہیں
(جلد١صفحہ٦)
اور دوسرے موصوف عبداللہ بہاولپوری رسائل بہاولپوری میں لکھتے ہیں"حنفی عیسائیوں سے بھی بدتر ہیں"
(صفحہ٣)

(۲)مسٹر زبیر علی زئی زکوۃ کے سلسلے میں لکھتے ہیں،اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ تا ہم چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہذٰا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے،اونٹ،بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔واللہ اعلم
(فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم ص181)
مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد:اونٹ نر و مادہ ، گائے نر و مادہ ، بھیڑ نر و مادہ ، بکری نر و مادہ ۔ اس کی تفصیل بھی سورۃ الانعام میں موجود ہے اس بناءپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کیلئے انہی جانوروں میں سے انتخاب کیا جائے اور بھینس کی قربانی سے گریز کرنا چاہیے ۔
مولوی عبدالستار فتاوٰی ستاریہ میں لکھتے ہیں:"بھینس کی قربانی جائز ہے"
(جلد٢صفحہ١٥)
اور عبداللہ بہاولپوری لکھتے ہیں"بھینس کی قربانی نہیں ہوتی"
(رسائل بہاولپوری ،صفحہ١٢٧)
(۳)مولوی ابوالبرکات لکھتے ہے :"تہجد کیااذان نہیں ہے"
(فتاوٰی برکاتیہ صفحہ24)
 اکثر غیر مقلدین تہجد کی اذان کہتے ہیں اور بڑے زور سے ثابت کرتے ہیں -:
(۴)عبداللہ بہاولپوری لکھتے ہے:"ننگے سر نماز سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔جو ننگے سر نماز نہ پڑھے اسے دشمن رسول بنارہے ہیں"۔
(رسائل بہاولپوری،صفحہ 205)
اور فتاوٰی علمائے حدیث جلد 2 صفحہ 281 پر لکھا ہے:"ننگے سر نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ "نیز لکھتے ہیں"" کوئی حدیث مرفوع میری نظر سے نہیں گزری جس سے اس عادت کا جواز ثابت ہو۔"
(جلد4صفحہ287)
"ننگے سر نماز سنت اور مستحب بھی نہیں"
(صفحہ287)
"ننگے سر نماز بے عملی بھی ہے اور بدعملی بھی"
(صفحہ288)
"جہلاء ننگے سر نماز پڑھنے کو سنت سمجھتے ہیں"
(صفحہ288)
سید داؤد غزنوی کہتے ہیں :ننگے سر نماز مکروہ ہے رسم بد ہے ۔ نصارٰی کے ساتھ مشابہت ہے۔ نیز فرماتے ہیں منافق کے ساتھ مشابہت ہے۔
(صفحہ291)
(۵)صادق سیالکوٹی :صلوٰۃ الرسول صفحہ 79 پر جرابوں پر مسح کرنے کا باب قائم کرکے ثابت کرتے ہیں کہ "جرابوں پرمسح کرنا چاھئے"۔
اور عبدالرحمان مبارک پوری غیر مقلد کہتے ہیں
"خلاصہ کلام یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کے معاملہ میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملتی جس پر جرح نہ ہو۔"
(تحفۃ الاحوذی،جلد1،صفحہ102)(یعنی مسح سے متعلق سب احادیث مجروح ہیں)
مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:“تقلید مطلق اہلحدیث کا مذہب
(ثنائیہ،جلد1،صفحہ256)
مطلب یہ کہ خاص متعین عالم یا امام کی تقلید نہیں کرتے بلکہ جس کی چاہیں کرلیتے ہیں۔
اور صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں:“تقلید گمراہی ہے ۔ہلاکت ہے۔“
(سبیل الرسول،صفحہ166)
“تقلید ظلمت ہے“
(صفحہ153)
“تقلید آفت ہے“
(صفحہ157)
“تقلید بے علمی ہے“
(صفحہ 158)
(۶)صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں (صلوٰۃ الرسول):“رفع یدین شروع کردیں سنت موکدہ ہے۔“
(صفحہ205)
“حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رفع یدین کرتے تھے“
(صفحہ209)
“تین مقامات پر چھوڑنا اور پہلی بار کا رفع یدین لینا بے انصافی نہیں ہے“
(209)
اور فتاوٰی علماء الحدیث جلد 3،صفحہ160،161 میں لکھا ہے:“رفع یدین اور چھوڑنا دونوں ثابت ہیں۔“
پیر جھنڈا سندھی اور اس کے ماننے والے غیر مقلد قومہ میں یعنی رکوع سے اٹھ کرہاتھ باندھ لیتے ہیں ، پیر جھنڈہ کا بھائی اور دوسرے تمام غیر مقلدہاتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔
(۷)پرانے غیر مقلد سارے جنازہ بلند آواز سے پڑھتے تھے۔لیکن موجودہ غیر مقلدین اہلسنت کی طرح ، جنازہ آہستہ پڑھنے کے قائل ہورہے ہیں۔جسطرح خالد گرجاکھی نے لکھا ہے۔
“جنازہ میں سورت فاتحہ آہستہ پڑھنی چاھئے
(صلوٰۃ النبی،صفحہ394)
اورمبشر ربانی غیر مقلد لکھتا ہے:“دلائیل کی رو سے جنازہ کی قراءت سراً اولٰی اور بہتر ہے۔“
(احکام و مسائل،جلد1صفحہ223)
10۔غیرمقلدین کےضعیف دلائل
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایا ت کاجائزہ
اس ملک میں جس طر ح قرآن پا ک حنفی لے کر آئیں ہیں اسی طر ح نما ز نبوی بھی احناف کے ذریعہ پہنچی ہے جس طرح اس ملک میں قرآن پا ک قاری عا صم کو فیؒ کی قرات اور قاری حفص کو فی ؒکی روایت کے مطابق پہنچا اسی طر ح نما ز سیدنا امام اعظم ابو حنفیہ کوفی ؒکی تد وین کے مطا بق پہنچی ۔
جس طر ح بعض لو گ اس قرآن کے دشمن ہو گئے اور اس کے خلا ف شا ذ اور مجر وح بلکہ موضوع روایا ت تک پیش کر دیں اسی طر ح فر قہ غیر مقلدین نے بھی متو اتر نما ز کے خلا ف ضعیف اورمجروح روایات کو پیش کر نا اپنا دینی فر یضہ سمجھا ،جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ امت کا  " اتحاد " پا رہ پا رہ ہو گیا اور عوام میں دین بیزاری کا مہلک مر ض پیدا ہو گیا ۔
چنانچہ اس متو اترنما زکا مذاق اڑاتے ہو ئے ایک غیرمقلد مشہو ر معر وف عالمد"فیض عالم صدیقی  "اپنی کتاب "اختلا ف امت کا المیہ  "ص۷۸پر رقمطرا ز ہیں :
 "مردوں کو ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چاہییں۔ " (کتب فقہ )یہاں ایک لطیفہ یا د آگیا کہ خلفائے بنی عباس میں سے ہارون کا ایک نما زمیں ازار بند کھل گیا اوراس نے سینے سے ہا تھ نیچے کر کے ازار بند سنبھال لیا ،نما ز سے فر اغت کے بعد مقتدیوں نے حیرانی سے ہارون الرشید کے اس فعل کو دیکھا۔ قاضی ابو یوسف نے فتوی دے دیا کہ نا ف کے نیچے ہا تھ با ندھنا ہی صحیح ہے ۔ "
قارئین !اب ہم ان روایا ت کا تحقیقی علمی جا ئزہ لیتے ہیں جو اس متواتر نما ز کے خلا ف پیش کرتے ہیں:
 "اخبرنا ابو طاہر نا ابو بکر نا ابو مو سی نا مٔومل نا سفیا ن عن عاصم ابن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال  "صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ۔
صحیح ابن خزیمہ ج۱ ص۲۴۳
1 : اس روایت کے بارے میں فرقہ غیر مقلدین کے محقق علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں :
 "اسنادہ ضعیف  "اس کی سند ضعیف ہے ۔
(صحیح ابن خزیمہ ج۱ص۲۳۴حاشیہ ۴۷۹المکتب الاسلامی)
2 : فرقہ غیر مقلدین کے ایک اورعالم ابو عبد السلام عبد الرؤ ف بن عبدالحنا ن اپنی کتا ب  "القول المقبول فی شر ح وتعلیق صلوٰ ۃ الر سول  " میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
 "یہ سند ضعیف ہے کیونکہ مؤمل بن اسما عیل  " سیئی الحفظ  " ہے :جیسا کہ ابن حجرؒ نے تقریب میں (۲/۲۹۰)میں کہا ہے، ابو زرعہؒ نے کہاہے کہ  " یہ بہت غلطیا ں کر تا ہے، اما م بخاریؒ نے اسے " منکر الحدیث  " کہا ہے ،ذہبیؒ نے کہا ہے کہ  "یہ حا فظ عا لم ہے مگر غلطیاں کر تاہے ۔
(میزان ۴/۲۲۸،القول المقبول ۳۴۰)
تبصرہ:اما م بخاری ؒ فر ماتے ہیں:  "کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ۔ "(۳)
(میزان الا عتدال ج ۱ص۶)
جس کو میں  "منکر الحدیث  " کہہ دوں اس سے روایت حلا ل نہیں ہے ۔
گویا کہ اما م بخاری ؒ کے نزدیک (بقول فر قہ غیر مقلدین )یہ روایت بیان کرنا جا ئز نہیں پھر بھی اس روایت کو پیش کرنا بڑی جسا رت ہے اس کو فرقہ واریت کے سوا اور ہم کیا کہیں؟؟؟
3: مشہور غیر مقلد عالم علامہ مبا رکپوری اپنی کتاب  "ابکا ر المنن  " میں رقمطراز ہیں:  "جس روایت کے اندر" مؤمل  " ہو ،وہ ضعیف ہو تی ہے ۔
(ابکا ر المنن ص۱۰۹)
4: متعصب غیر مقلد زبیرعلی زئی نے بھی اس روایت کوضعیف تسلیم کیا ہے ؛چنانچہ وہ لکھتا ہے :
 "یہ روایت مؤمل کی وجہ سے ضعیف نہیں بلکہ  " سفیا ن الثوری  "کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
(نما زمیں ہاتھ باندھنے کا حکم اورمقام ص۲۰) "والحق ما شھدت بہ الا عدائ۔ "
نیز زبیر علی لکھتا ہے:   "لہٰذا سفیا ن ثوری ؒ (جو کہ ضعفا ء اور مجا ہیل سے تد لیس کر تے تھے)کی یہ معنعن (عن والی)روایت ضعیف ہے۔
(نورالعینین ص۱۲۷)
سینہ پر ہا تھ با ندھنے والی روایت میں بھی سفیان ثوری ؒ  "عن  "سے روایت کر رہے ہیں ،تو یہ بھی ضیعف ہوئی۔
اپنی دوسری کتا ب میں زبیرعلی زئی لکھتا ہے:
 "وا ضح رہے کہ ثقہ مد لس کی روایت بخاری ومسلم کے علاوہ  "عن  "کے ساتھ ہو، تو ضعیف ہو تی ہے۔
(تسھیل الوصول الی تخریج وتعلیق صلو ۃ الر سول ص ۲۱۰)
میری تمام غیر مقلدین سے گز ارش ہے کہ متواتر نماز کے خلاف اس ضعیف و مجروح روایت کو پیش کر نا چھوڑ دیں اگر کوئی صحیح حدیث ہے تو پیش فر مائیں ورنہ کہہ دیں کہ ہما را مقصد عمل بالحدیث نہیں بلکہ متو اتر نما زاور فقہ حنفی کی مخا لفت ہے اور بس۔
5 : فرقہ غیر مقلدین کے ایک اور مشہو ر عالم  " عبدا لرحمن خلیق  " اپنی کتا ب میں ایک حدیث پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :د"اس سند میں ایک راوی  " عا صم بن کلیب  "ہے ،با تفا ق کبا ر محدثین سخت درجہ کا ضعیف راوی ہے۔
(با رہ مسا ئل ص۳۸/۳۹)
سینہ پر ہاتھ با ندھنے والی روایت مذکو رہ میں بھی یہی " عا صم بن کلیب " ہے، جو کہ بقول غیر مقلدین سخت درجہ کا ضعیف راوی ہے۔
خلیق صاحب کو لکھنا چا ہیے تھا کہ یہ جب احناف کی دلیل میں آئے تو ضعیف ہوگا جب غیر مقلدین کی دلیل میں ہو تو ثقہ با تفا ق ہے تا کہ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاس…پر مکمل عمل ہو جا تا
11۔غیرمقلدین کے چیلنجس
اس ملک میں جس طرح قرآن او رنبیﷺ کی سنت اہل سنت  والجماعت احناف کے ذریعے پہنچے، اسی طرح نبی اکرمﷺ والی نماز بھی اس ملک میں احناف ہی لائے ان کی محنت سے کروڑوں لوگ مومن اورنمازی بنے اور نماز کےبارے میں تقریباً بارہ سو سال تک اس ملک میں کوئی جھگڑا نہ تھا، اس ملک میں تقریباً ایک ہزار سال تک فقہ حنفی بطور اسلامی  قانون نافذ  رہی جب انگریز ی حکومت قائم ہوئی تو ایک فرقہ غیرمقلدین کا پیدا ہوا جس نے اہل سنت  کے ایمان اورنماز کو غلط قرار دیا اوراس ملک میں پہلی مرتبہ مذہبی منافرت اور فتنہ کا بیج بویا،آئے دن مناظروں کے چیلنج شروع کردیے،اہل سنت والجماعت  دنیا بھر میں قادیانی فتنہ، رفض ،اہل شرک وبدعت اورمنکرین حدیث کے فتنوں کے تعاقب میں مصروف تھے کہ ان فتنوں سے اہل سنت کا ایمان محفوظ کیا جائے اور یہ فرقہ ان سب کو چھوڑ کر اہل سنت کو مناظروں کا چیلنج  دیتا تھا  ؛چنانچہ مجبوراً ان کے چیلنج کو قبول کرکے مناظرے کئے گئے ،مناظروں میں شکست کے بعد  پھر انعامی چیلنج کے اشتہاروں سے  عوام میں فتنہ پھیلانا  شروع کیا۔
ہندوستان میں فقہ حنفی والی حکومت ختم ہوئی اور انگریز کا دور آیا تو جہاد کو حرام قراردینے کے لئے مرزا قادیانی کو مسیح موعود کا دعوی  کرناپڑا اورمسیح کی کرسی خالی کرانے کے لئے اصلی مسیح علیہ السلام کی حیات کا انکار کردیا ،علمائے اسلام نے قرآن پاک کی کئی آیات اوراحادیث مشہورہ سے حیات مسیح کو ثابت کردیا جس کا جواب مرزا قادیانی کے پاس کوئی نہیں تھا اب اسے فکر ہوئی کہ یہ آیات اوراحادیث پڑھ کر لوگ میرے عقیدہ سے برگشتہ بھی ہوجائیں گے اورمجھے  قرآن اوراحادیث کا منکر بھی کہیں گے  اس کے بعد عام مسلمان میری بات بھی نہیں سنیں گے، اس نے سوچا کہ جس حربے  میں پہلے کفار نے معجزات کی عظمت کو کم کیا تھا  اورفرمائشی معجزہ نہ دکھائے جانے پر شور مچادیا تھا کہ کوئی معجزہ ہوا ہی نہیں میں بھی کوئی فرمائشی دلیل مانگ لوں  اور فرمائش پوری نہ ہونے پر یہی شور مچادوں گا  کہ قرآن وحدیث میں حیات مسیح پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں چنانچہ ایک عبارت اس نے خود بنائی کہ اگر کوئی شخص قرآن یا ایک ہی حدیث صحیح  میں یہ الفاظ دکھادے کہ عیسی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے،جس میں آسمان کا لفظ ہوتو  میں ہزار روپیہ انعام دوں گا وغیرہ،یہ چیلنج شائع ہونا تھا کہ مرزائیوں نے آسمان سرپر اٹھالیا کے مسلمانوں کے پاس قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہیں  مسلمان دلائل بیان کرنے لگتے توشور مچاتے کہ یہ الفاظ جن کا مطالبہ مرزا صاحب نے کیا ہے دکھادو اورایک ہزار روپیہ انعام لےلو اس دھوکے میں کتنے مرزائی مبتلا ہوگئے مرزا قادیانی نے جن آیات اوراحادیث متواترہ کا انکار کیاتھا وہ بات بھی دبادی کہ بس اورآیتوں حدیثوں کی ضرورت نہیں بس یہ الفاظ جن کا مطالبہ مرزا نے کیا ہے دکھادو۔
ملکہ وکٹوریہ کی نظر کرم سے ہندوستان میں فرقہ غیرمقلدین کا ظہور ہوا انہوں نے تقریر وتحریر کےذریعے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ ہمارا ہر ہر مسئلہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے اورحنفیوں کےمسائل قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ، جب میدان مناظرہ میں اترے تومعاملہ بالکل برعکس نظر آیا کہ اہل سنت والجماعت احناف توقرآن وحدیث سے دلائل پیش کرتے ہیں اور غیر مقلدوں کا دامن خالی ہے ،مثلاً اہل سنت قرآن وحدیث سے فقہ کی عظمت ثابت کرتے اور غیرمقلدین فقہ کی مذمت میں نہ قرآن سناتے نہ حدیث ،مسلمان اجماع کا حجت ہونا قرآن وحدیث سے ثابت کرتے یہ ایک آیت یا ایک حدیث بھی پیش نہ کرسکتے کہ امت کااجماع گمراہی پر ہوسکتا ہے اہل سنت قرآن وحدیث سے اجتہاد کا جواز ثابت کرتے یہ ایک آیت یا حدیث بھی پیش نہ کرسکتے کہ اجتہاد کرنا شیطان کاکام ہے،اہل سنت فقیہ ومجتہد کی طرف رجوع (تقلید)کا ثبوت قرآن وحدیث سے پش کرتے یہ اجتہادی  مسائل میں مجتہد کی تقلید کا شرک اورحرام ہونا نہ کسی آیت سے ثابت کرسکتے نہ کسی حدیث سے ،اہل سنت احادیث صحیحہ سے ثابت کرتے کہ مجتہد اپنے ہر اجتہاد میں ماجور ہوتا ہے لیکن یہ مجتہدین کےخلاف بدگمانی پھیلانے اوربدزبانی کرنے کاجواز نہ کسی آیت سے دکھاسکتے نہ حدیث سے ۔
چنانچہ کفار اورمرزا قادیانی کے تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئےغیرمقلدین نے اشتہارات کا سہارا لیا،اورجس وقت جنگ آزادی کی سزا میں مسلمان کالے پانی یاملک کی جیلوں میں قید تھے، مقدمات چل رہے تھے،  پھانسیوں کے حکم سنائے جارہے تھے اورمسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی سخت ضرورت تھی ،ایک انعامی چیلنج کا اشتہار نہ انگریزوں کے خلاف  نہ ہندؤوں کے خلاف نہ سکھوں کے خلاف بلکہ حنفیوں کے خلاف شائع کیا،دس سوالات کا انعامی چیلنج پورے ملک میں پھیلایا ہر گھر اورہر مسجد میں لڑائی شروع کرادی اب اگر علماء اہل سنت اپنے مسائل کے دلائل پر قرآن وحدیث سناتے توان کو بالکل نہ مانتے کہ ان آیات واحادیث میں ہمارے الفاظ نہیں ۔
مناظروں میں پے درپے شکست اورعدالت میں شدید ناکامی کےبعد ان کے بعض ذمہ دار لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے،امام احمد ؒنے فرمایا تھا کہ ہم نے اہل اسلا میں سے کسی کو نہیں سنا جو یہ کہتا ہو کہ جب امام جہر سے قرأ ت کرتا ہے اور مقتدی اس کے پیچھے قرات نہ کرے تومقتدی کی نماز باطل اورفاسد ہوجاتی ہے اور فرمایا کہ یہ آنحضرتﷺ ہیں اوریہ آپﷺ کے صحابہ اور تابعین ہیں اوریہ امام مالک ہیں اہل حجاز میں اوریہ امام ثوری ہیں اہل عراق میں اور یہ امام اوزاعی ہیں اہل شام میں اور یہ امام لیث بن سعد ہیں اہل مصر میں ان میں سے کسی نے یہ نہیں لکھا کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اوراس کا امام جہر قرات کرے اورمقتدی خود قرات نہ کرے تواس کی نماز باطل اورفاسد ہے (مغنی ابن قدامہ۱:۶۰۶) اب یہ فرقہ بھی ان ذلت آمیز شکستوں کے بعد اس پر آگیا چنانچہ ان کے محدث اعظم مولوی محمد گوندلوی اوران کے ذمہ دار شاگرد مولوی ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں امام بخاری سے لےکر تمام محققین علمائے اہل حدیث میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو فاتحہ نہ پڑھے وہ بے نماز ہے کافرہے
(توضیح الکلام۱:۵۱۷)
جب اس جماعت کےمحقق اور ذمہ دار حضرات نے ہھتیار ڈال دئے ہیں توان غیر محقق اور غیر ذمہ دار حضرات کو بھی اب یہ اشتعال انگیز کام ختم کردینا چاہئے تھا ۔
12۔فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث (غیر مقلدین) کے جھوٹ
غير مقلدوں  کےپاس نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کی نہ کوئی صحيح حديث ہے اور نہ ہی خيرالقرون (يعنی صحابہ تابعين تبع تابعين) کا عمل نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے کا موجود ہيں۔ صرف اورصرف جھوٹ ہيں۔
قرآن: الالعنت اﷲ علی الکاذبین
سنو اللہ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔
جھوٹ نمبر1: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات....بخاری ومسلم میں بکثرت ہیں۔
( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص443)
جھوٹ نمبر2: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ہے۔
(بلوغ المرام فتاویٰ ثنائیہ ص5۔ص593)
جھوٹ نمبر3: سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتلایا ہے۔
 ( ثنائیہ جلد1ص 457 نیز دلائل محمدی ص 110 حصہ دوم)
جھوٹ نمبر4: امام احمد نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھاکرتے تھے۔
یہ حدیث حسن ہے۔ صحیح بخاری میں بھی ایک ایسی ہی حدیث آتی ہے۔
واللہ اعلم ثنائيہ جلد 1ص 457
جھوٹ نمبر5: ابوداؤد میں طاؤس سے مرفوعاً آیا ہے سینے پر ہاتھ باندھنا،
 (مکمل نماز مولاناعبدالوہاب ص449)
جھو ٹ نمبر6: سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بااتفاق ائمہ محدثین صحیح ہیں۔
 (شرح وقایہ ص 93 حقیقة الفقہ ص250 ازیوسف جے پوری)
جھوٹ نمبر7: ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی حدیث نہیں ہے وہ قول علیؓ ہے۔
(شرح وقایہ ص 93حقیقة الفقہ ص 250)
جھوٹ نمبر8: حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ مجددی حنفی سینہ پر ہاتھ کی حدیث کو بہ سبب قوی ہونے کے ترجیح دیتے تھے اور سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔
(مقدمہ ہدایہ جلد1 ص 111،حقیقة الفقہ جلد1 ص251)
جھوٹ نمبر9: ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایات باتفاق ائمہ محدثین ضعیف ہیں۔
 (ہدایہ جلد۱ص 350حقیقة الفقہ ص 250)
جھوٹ نمبر10: قریباً اختلاف امت کا المیہ ص96 پر یہی جھوٹ ہے۔
جھوٹ نمبر11: خالد گرجاکھی صلوٰة النبی ص157 پر یہی جھوٹ منقول ہے
جھوٹ نمبر12:خلفاء بنی عباس میں سے ہارون کا نماز میں ازار بند کھل گیا۔ سینے سے ہاتھ نیچے کرکے ازار بند سنبھال لیا مقتدیوں نے حیرانی سے اس فعل کو دیکھا قاضی ابویوسف نے فتویٰ دیا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی صحیح ہے۔
( ہدایہ باب الصلوٰة اختلاف امت کاالمیہ ص78)
جھوٹ نمبر13: ابن مسعودکا قول زیرناف کا بالکل ضعیف ہے، میں نے راہ ہدایت کیسے پائی ص 18 ابونعمان بشیراحمد حالانکہ آپ سے کوئی قول منقول نہیں ہے۔
جھوٹ نمبر14: قرة العین میں نورحسین گرجاکھی نے حدیث وائل بن حجر نقل کرکے گیارہ کتب کے حوالے دئيے ہیں۔
جواب:۔حالانکہ ان میں سے ایک میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے۔
( ص 19)
جھوٹ نمبر15:مسلم کی سند ابن خزیمہ کے متن کے ساتھ ملادی۔ملاحظہ ہو۔
( فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص444)
اصل سند ابن خزیمہ جلد1 ص 243 پر ملاحظہ کریں۔ مسلم کی سند جلد1 ص 172 پر ملاحظہ کریں۔
جھوٹ نمبر16:حضرت ھلب کی روایت میں هذہ کو یدہ بنادیا۔
دین الحق محمدداؤد ارشد ص217”ویضع هذہ علی صدرہ“ اصل لفظ اسطرح ہے۔
( مسند احمد جلد۵ص ۶۲۲)
جھوٹ نمبر17:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا....سینے پر ہاتھ رکھتے تھے علامہ ترمذی نیموی حنفی نے اس کی سند کو حسن تسلیم کیا ہے۔
( دین الحق ص 218)
جواب: امام ترمذی نے سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت نقل ہی نہیں کی علامہ نیموی نے نقل کرکے سینہ کا لفظ غیرمحفوظ کہا ہے۔
( آثارالسنن 86)
جھوٹ نمبر18:تین چیزیں نبوة کی عادات سے ہیں یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہرگز نہیں۔
 (دین الحق ص222)
جھوٹ نمبر19:پھر سینے پر ہاتھ باندھ کردعا پڑھے۔
 (ترمذی جلد1 ص 119) صلوٰة المصطفیٰ محمد علی جانباز ص 274 شیخ الحدیث
جھوٹ نمبر20:وائلؓ بن حجر کی ابن خزیمہ والی روایت کی ابن حجر نے تصویب فرمائی ہے۔
(فتح الباری۔ بارہ مسائل ازقلم کلیم عبدالرحمن خلیق ص 53)
جھوٹ نمبر21:حدیث علیؓ کی وضع الایدی علی الایدی الخ۔ یہ روایت ابوداؤد کے نسخہ ابن اعرابی کے علاوہ دیگرنسخ میں ثابت نہیں ہے۔
(کتاب و سنت کے مطابق نماز ترجمہ مع اضافہ ڈاکٹرخالدظفراللہ ص59)
جواب:۔ابن داسہ کے نسخہ میں ہے ادلہ کاملہ شیخ الہندؒ
جھوٹ 22:تعجب ہے مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے بھی حسب عادة محض مسئلکی حمیت میں اس زیادة کوشامل متن کیا(تحت السرة) جیسا کہ المصنف مطبوعہ مکتبہ امدادیہ مکہ میں ہے۔
ارشادالحق ص229 تصنیف مولاناسرفراز احمد اپنی تصانیف کے آئینہ میں حالانکہ المصنف جلد2 ص 351 پر لفظ تحت السرة نہیں ہے۔
جھوٹ 23:وانحر کی تفسیر حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ اس سے مراد سینے پر ہاتھ باندھنا ہے ۔بائیں پر دایاں اسے امام حاکم لائے ہیں اور حسن کہا ہے۔
 ( دلائل محمدی ص111 حصہ دوم)
مصنفہ علامہ محمدجوناگڑھی حالانکہ حسن نہیں فرمایا۔
13۔غیرمقلد علماء کےآپسی اختلافات کی سرد جنگ
میاں نذیر حسین صاحب سے لے کر مولانا محمدحسین بٹالوی تک ہندوستان میں مطلق تقلید کا انکار کہیں نہ تھا، غیرمقلدین بھی صرف تقلید شخصی کے خلاف تھے اور جملہ موعدینِ ہند اجتہادی مسائل میں فقہ حنفی کا فیصلہ لیتے تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کے عہد سے غیرمقلدین مطلق تقلید کے انکار کے درپے ہوئے؛ پھرانہی کے عہد میں ترکِ تقلید کی فضا اپنی پوری بہار پر آئی، غیرمقلدین نہ صرف مقلدین سے برسرِپیکار ہوئے؛ بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہوگئے۔
قاضی عبدالاحد صاحب خانپوری نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف ایک کتاب لکھی اور اس کا نام  "کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعہ " رکھا اور اسے  "اظہارِ کفر ثناء اللہ بجمیع اصول آمنت اللہ " (دیکھئے: سیرت ثنائی:۳۷۲۔ ہندوستان میں پہلی اسلامی تحریک:۳۹، مؤلفہ:مسعود عالم ندوی) سے ملقب کیا کہ مولوی ثناء اللہ ایمان کی تمام بنیادوں کا منکر ہے۔
غزنوی حضرات نے مولانا ثناء اللہ کے خلاف اربعین لکھی اور اس پر چالیس کے قریب علماء اہلِ حدیث (باصطلاحِ جدید) نے دستخط کیے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کواہلِ حدیث سے خارج قرار دیا، مولانا ثناء اللہ صاحب نے  "مظالم روپڑی برمظلوم امرتسری "لکھ کر جماعت کی اندرونی حالت کو پوری طرح بے نقاب کیا۔                          
(مظالم روپڑی:۴۸، تالیف:مولانا ثناء اللہ امرتسری)
مولانا عبدالوہاب ملتانی کے خلاف بانوے علماء اہلِ حدیث نے دستخط کیے او رکہا کہ مدعی امامت (مولانا عبدالوہاب ملتانی) گمراہ ہے، اہلِ حدیث سے خارج ہے اور حدیثد"مَنْ لَمْ یَعْرِفْ امام زَمَانِہد" کونہیں سمجھا؛ پھرمولانا عبدالوہاب کے شاگرد خصوصی مولانا محمدجوناگڑھی نے مولانا عبداللہ روپڑی کے بارے میں لکھا ہے:
"یہ مولوی صاحب جھوٹے ہیں بدعقیدہ ہیں اسے علمِ دین سے بلکہ خود دین سے بھی مس نہیں اس کا وعظ ہرگز نہ سنو؛ بلکہ اگربس ہوتو وعظ کہنے بھی نہ دو، نہ اس کے پیچھے جمعہ جماعت پڑھو"۔
مولوی محمدیونس مدرسِ اوّل مدرسہ میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کے بارے میں فرمایا:
"شحص مذکور ملحد ہے  ایسے لوگوں سے قطع تعلق ضروری ہے"۔
ان حضرات کی یہ نبردآزمائی صرف اپنے علماء تک محدود نہ تھی، مولانا عبدالوہاب صاحب نے عوام اہلِ حدیث کوبھی اپنے اس فتوےٰ میں گھسیٹ لیا، مولانا عبدالجبار صاحب کھنڈیلوی، مولانا عبدالوہاب سے نقل کرتے ہیں:
 "جب تک مسلمان امام کونہیں مانتا اس کااسلام ہی معتبر نہیں  " (مقاصد الامامۃ:۱۶)  "کوئی کام نکاح ہو یاطلاق بغیر اجازتِ امامِ وقت جائز نہیں  "۔
(مقاصد الامامۃ:۱۶)
ان حضرات کے اخبار محمدی کی ایک سُرخی ملاحظہ ہو د"روپڑ کا خوفناک بھیڑیا "۔
(اخبار محمدی، دہلی، یکم جون سنہ۱۹۳۹ء)
ان کتابوں اور عنوانوں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ترکِ تقلید کے جوش میں یہ لوگ اپنے گھر میں کیسی خوفناک آگ سے دوچار تھے، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات اہلِ حدیث پران کے ہمنوا علماء انہیں سردارِ اہلِ حدیث کہتے تھے، مولانا عبداللہ روپڑی کوان کی یہ حیثیت پسند نہ تھی، آپ نے مولانا ثناء اللہ صاحب کومخاطب کرکے فرمایا:
"ٹھیلے تلے کتا چل رہا تھا وہ سمجھا کہ ٹھیلے کومیں کھینچ رہا ہوں تمہاری مثال یہ ہے"۔ 
(ثنائی نزاع، تالیف:عبداللہ روپڑی صاحب)
غیرمقلدین کی اس سرد جنگ سے یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ترکِ تقلید کی تحریک اس وقت کس مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی۔
14۔غیر مقلدین میں مسائل کے اختلاف کی مثالیں
غیر مقلد ین علماءاپنی تقاریر اور اپنے متعلقین کے ذریعہ سے اختلافی مسائل کو ہوا دینے اور عوم الناس کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کا اپنا مشغلہ اپنے روایتی انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں ،ایک مسئلہ الجھاتے ہیں اور جب اس کا جواب دیا جاتا ہے اور محسوس کرتے ہیں کہ اس سے آگے ہمارے لیے دشواری ہے ، اور ہماری عافیت اسی میں ہے کہ مزید اس میں نہ الجھا جائے  پھر کوئی دوسرا مسئلہ کھڑاکردیتے ہیں ۔
اب کچھ عرصہ سے یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ، اگر ائمہ کرام کی فقہ کو نہ مانا جائے اور صرف کتاب اللہ کو اور صحیح احادیث پر عمل کیا جائے تو امت میں اختلاف باقی نہ رہے گا ۔
یہی بات غیر مقلد علماء اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کبھید" ایک دین چار مذہبد" کے نام سے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ جس میں اس بات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں حنفی یہ کہتے ہیں شافعی یہ کہتے ہیں مالکی یہ کہتے ہیں ، تو ان تمام باتوں کو دین کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔
اور کبھی رسائل میں یوں لکھا جاتا ہے ۔ دراصل خرابی یہیں سے واقع ہوئی ہے کہ لوگوں نے قرآن و حدیث کو سرچشمہ شریعت تصور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ائمہ کے اقوال کو بھی شریعت کا درجہ دےدیا ۔ جس کی وجہ سے امت اختلاف کے بحر عمیق میں غرق ہو گئی ۔

(ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص۱۸ ۔ ۱۲نومبر ۱۹۹۳ء)
اور کبھی اختلافات سے نکلنے کی یہ صورت پیش کی جاتی ہے ۔ اب اس کا علاج یہی ہے کہ تقلید کی بندشوں سے آزاد ہوکر قرآن و حدیث کو سمجھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں ۔
( الاعتصام ص۱۹ ۔ ۱۲نومبر ۱۹۹۳ء)
ایسے بیانات سے سطحی قسم کے لوگ شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور امت میں وحدت کا عظیم الشان مقصد ذہن میں رکھنے کی وجہ اپنے علماء سے کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو امت کو وحدت میں لانے کے لیے فقہ کی قربانی دے دینی چاہیے ؟ ۔ ۔ ۔
مگر یہ محض دھوکہ ہے اور فقہ اسلامی کے خلاف زہر اگلنے ، فقہ سے متنفر کرنے اور قرآن و حدیث کے مبارک عنوان سے لوگوں کو مغالطہ دے کر اپنے مسلکی نظریات پھیلانے کی مکروہ سازش ہے ۔ اس لئے کہ اگر امت میں اختلاف کا سبب فقہ ہوتی تو فقہ کے تدوینی دور سے پہلے تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ جزوی مسائل میں اختلاف تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔ نیز ایسی صورت میں قرآن و حدیث پہ عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تو اختلاف نہ ہوتا ۔ حالانکہ آپ آئندہ سطور میں دیکھیں گے کہ یہ طبقہ نماز اور طہارت جیسے اہم مسائل میں بھی اپنے اتحاد کا ثبوت نہیں دے سکا ۔ جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اختلاف کا سبب فقہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔
جزوی مسائل میں اختلاف کا سبب
یہ بات کسی اور سے معلوم کرنے کی بجائے خود غیر مقلد عالم سے پوچھ لینی چاہیے کہ اختلاف کا سبب کیا ہے ؟ چناچہ غیر مقلد عالم   مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اختلاف صحابہ کرام کے ملکوں میں انتشارہونے سے پیدا ہوا ۔ حنفی طریقہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات پر مبنی ہے جس میں رفع یدین کا ذکر نہیں ۔
(فتاوی ثنائیہ ص ۶۳۳ ج۱ ،و فتاوی علمائے حدیث ص ۲۷۵ ج۴)
اس عبارت کو غور سے پڑھیں کہ ایک بڑے غیر مقلد عالم کیا فرما رہے ہیں ۔ ان کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اختلاف کا سبب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی مختلف روایات ہیں اور نماز کا حنفی طریقہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ہے ۔ یعنی اختلاف پہلے سے تھا اور ان اختلافی صورتوں میں سے ایک کو احناف نے اختیار کیا ہے ۔ تو اختلاف کا سبب ائمہ کرام کے اقوال اور ان کی فقہ تو نہ ہوئی ۔ اس لئے کہ اختلاف تو پہلے سے موجود تھا ۔
ائمہ مجتہدین کے اختلافات
حضرات صحابہ کرام سے جزوی مسائل میں اختلافات کی روایات موجود ہیں جن کی حضرات محدثین کرام باالخصوص امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ جیسے حضرات نے نشاندہی فرمائی ہے ۔ اس اختلاف کو امت کے لئے رحمت کہا جاتا ہے ۔ اسی لئے علمائے امت نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے مروی اختلافی روایات میں سے تحقیق کے بعد جس کو راجح سمجھے یا محققین کی تحقیق پر اعتماد کر کے جس روایت کے مطابق کوئی مسلمان عمل کرے گا وہ اس کے لئے نجات کا ذریعہ ہو گی ۔ اس اختلاف کی وجہ سے امت کے لئے کافی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔
اب صحابہ کرام کے بعد ائمہ مجتہدین کے اختلافات کی حیثیت کیا ہے ؟ اس بارے میں غیر مقلد عالم مولانا عبداللہ صاحب روپڑی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
ائمہ مجتہدین کا اختلاف قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ نے قیاس کو زیادہ دخل دیا اس لئے اہل الرائے کہلائے۔
(فتاوی اہل حدیث ۴۲ ج۱ )
غور فرمائیں کہ ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات کو قریب قریب صحابہ کے اختلاف کے کہا گیا ہے ۔ تو جس طرح صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پر طعن نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ائمہ اربعہ کے درمیان اختلافات  پربھی طعن نہیں کرنا چاہیے ۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور قیاس
بعض متششدد غیر مقلدین حضرات عوام الناس میں یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث کے خلاف اجتہاد اور قیاس کیا ہے؛ حالانکہ اس کی تردید خود غیر مقلد علماء کر چکے ہیں ؛ چناچہ غیر مقلد عالم شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا ابوالبرکات مرحوم شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے سوال ہوا : کیا امام ابو حنیفہ یا کسی اور مجتہد کو اس بنا پر لعنت اللہ کہنا جائز ہے کہ انہوں نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے ۔ وضاحت فرمائیں ؟
اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کسی امام نے بھی حدیث کے خلاف اجتہاد نہیں کیا ۔ حدیث کے خلاف اجتہاد اور پھر امام ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جو حدیث کے خلاف اجتہاد کرے وہ امام نہیں ہو سکتا ۔ نہ امام ابو حنیفہ نے حدیث کے خلاف اجتہاد کیا اور نہ ہی کسی اور امام نے  جس وقت حدیث نہیں ملتی اس وقت مجتہد اجتہاد کرتا ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قیاس پر عمل کرنے سے ضعیف حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے۔
( فتاوٰی برکاتیہ ص ۳۰۶ )
اسی طرح مولانا محمد عبداللہ روپڑی مرحوم نے لکھا ہے ۔ اہل سنت کے کسی فرقے کا یہ مذہب نہیں کہ روایت اوردرایت { یعنی قیاس } کا درجہ مساوی ہے بلکہ حنفیہ تو ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر آگے مثالیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں غرض ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں حنفیہ نے ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس ترک کردیا ہے ۔
)فتاوٰی اہلحدیث ص۱۴ ج۱ )
نیز ایک مقام میں فرماتے ہیں احناف دیوبندی اہلسنت میں شامل ہیں ۔
(فتاوٰی اہلحدیث ص۶ج۱)
اور ایک مقام میں حضرات صوفیاء کرام حضرت معین الدین چشتی ، حضرت نظام الدین اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بزرگوں کے حالات جو صحیح طور پر ہم کو پہنچے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے مسلک کے مطابق متبع سنت تھے ۔
(فتاوٰی ثنائیہ ص۱۵۱ ج ۱ )
ان عبارات سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو حدیث کے خلاف اجتہاد کیا ہے اور نہ ہی حدیث کے مقابل قیاس کو ترجیح دی ہے ۔ ہاں جہاں قیاس کی ضرورت تھی وہاں قیاس کیا ہے ۔ اور اس بارہ میں ان کی محنت دیگر ائمہ کہ بہ نسبت زیادہ نمایاں ہے ، مگر ہے قواعد و ضوابط کے مطابق ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کا عمل بھی اپنے اپنے مسلک کے مطابق سنت کے موافق ہے ۔
غیر مقلدین کے فتوے
قارئین کرام!     نام نہاد اہل حدیث نے اجتہادی اختلاف کی بناء پر ائمہ مجتہدین پر امت میں پھوٹ ڈالنے کا ذمہ دار ٹہرایا ہے، اب ذرا خود ان کے مابین چند سنگین قسم کے اختلاف کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں اور پھر ان سے پوچھئے کہ جناب آپ کے ان اکابر میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اور کیا یہ حضرات امت میں پھوٹ ڈالنے کے مجرم نہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے دعویدار اختلاف کا شکار ہوگئے؟
 (۱) مردے سنتے ہیں یا نہیں؟
غیر مقلدین کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری دونوں مردوں کے سماع کے منکر ہیں، جبکہ علامہ وحید الزماں (غیر مقلدین کے مترجمِ اعظم) اپنےتمام نام نہاد اہل حدیثوں کا مذہب یہی سماع بتارہے ہیں۔
مولانا ثناء اللہ غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۲/۴۵ پر سماعِ موتیٰ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
د"جواب صورتِ مذکورہ کا یہ ہے کہ مردہ کلام نہیں سنتا اور نہ اس میں لیاقت سننے کی ہے، جیسا کہ اس پر قرآن مجید شاہد عدل ہے، اسی طرح کا جواب فتاویٰ نذیریہ:۱/۳۹۹ پر بھی ہےد"۔
علامہ وحید الزماں غیر مقلد نُزل الابرار:۱/۴ پر لکھتے ہیں: "ولو نادی الاموات عند قبورھم یمکن ان یسمعوا لان الاموات لھم سماع عند اصحابنا اھل الحدیث صرح بہ الشیخان "۔
ترجمہ: اگر مردوں کو ان کی قبروں کے پاس پکارے تو ان کا سننا ممکن ہے، کیونکہ ہمارے اصحاب کے ہاں ان کے لئے سماع ثابت ہے۔
(۲) مسلمان مردہ کی ہڈیاں قابلِ احترام ہیں یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد قبر سے ایک مردے کی ہڈیاں نکال کر اس کی جگہ دوسری میت دفن کرنے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس کے منکر ہیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاوی ثنائیہ:۲/۴۹ پر قبر میں مردہ کی ہڈی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:  "ایسی جگہ دفن کرنا منع نہیں،ہڈی نکال کر مردہ دفن کردیں "۔
ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالۂ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:د"مسلم مردہ کا احترام لازم ہے، لہٰذا مسلم کی ہڈیوں کو یوں ہی رہنے دیا جائے اور دوسری قبر بناکر دوسرے مردے کو دفن کردیںد"۔
(۳) امام کو رکوع میں پانے والا رکعت پانے والا ہے یا نہیں؟
مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد اس کو رکعت پانے والا نہیں سمجھتے۔
مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد فتاوی ستاریہ:۱/۵۲ پر لکھتے ہیں: د"ہاں مدرکِ رکوع، مدرکِ رکعت ہے، فریقِ اول (جو مدرکِ رکعت نہیں مانتے) نے قیام و فاتحہ کو ایسا مضبوط پکڑا ہے کہ وہ ہر حالت میں ان کی فرضیت کے قائل ہوتے ہیں، مدرک رکوع کی رکعت کو شمار نہیں کرتے، بلکہ جو احادیث اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ان کو ضعیف اور کمزور کہہ کر ٹال دیتے ہیں، لیکن میں اس امر کا قائل نہیں اور میرا ایمان تو یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میں نبیﷺ کے اقوال کے متضاد قرار دے کر دوسرے کو سرے سے اُڑاہی دوں، چنانچہ جو احادیث نبیﷺ سے اس بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیںد"۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۳۰ پر لکھتے ہیں: د"چونکہ بحکمقوموا للہ قانتین۔(قرآن) اور بحکم لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔(حدیث) قراءتِ فاتحہ ضروری ہے اور رکوع کی حالت میں دونوں چیزیں میسر نہیں ہوتیں، قائل کے پاس کوئی آیت یا حدیث ایسی ہو جس سے استثناء جائز ہوسکے تو ہم بخوشی اُسے سننے کو تیار ہیںد"۔
(۴) ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز کے درست ہونے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس پر شدت سے انکار کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۳۲ پر ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:  "حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ایک وقت آئے گا امام نماز کو خراب کریں گے، فرمایا: مسلمانوں میں ملتے رہنا، ان کی خرابی ان کی گردن پر ہوگی، تم علاحدہ نہ ہونا، اس حدیث ےس ثابت ہوتا ہے کہ حتی المقدور جماعت کے ساتھ مل کر ہی نماز پڑھنا چاہئے"۔
ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالہ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:د"نہیں نہیں! ہرگز ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہئےد"۔
(۵) عدت میں عورت کے ساتھ نکاح درست ہے یا نہیں
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک معتدہ کے ساتھ نکاح جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں نکاح صحیح نہیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد معتدہ بالزنا کے ساتھ نکاح کرنے والے کے متعلق جواب دیتے ہیں: د"صورتِ مرقومہ میں نکاح جائز ہے، حمل کے ظاہر ہونے سے یا اس کے اسقاط سے نکاح فسخ نہیں ہواد"۔
اسی جواب کے نیچے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی تعاقب کرتےہوئے فرماتے ہیں:  "بحکم و اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن.... الآیۃ۔ یہ عدت کے اندر نکاح کیا گیا جو ہرگز صحیح نہیں، پس دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۰۹)
(۶) بیمار پر بعد صحت روزہ رکھنا واجب ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک بیمار اگر فوت ہوگیا تو روزے معاف ہیں اور اگر صحتیاب ہوا تو روزہ کے علاوہ فدیہ بھی دے سکتا ہے، جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں موت کی صورت میں بھی بیماری کی وجہ سے چھوڑے گئے روزے معاف نہیں بلکہ موت کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا اور تندرست ہونے کی صورت میں فدیہ دینا جائز نہیں بلکہ بہر صورت روزہ ہی رکھے گا، ملاحظہ فرمائیں........
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"اگر لڑکا بیماری ہی میں مرگیا تو روزے معاف ہیں، اگر اچھا ہوکر اس نے روزے نہیں رکھے تو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیںد"۔
اور مسئلہ پر تعاقب کرتے ہوئے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد رقمطراز ہیں: د"صحیح نہیں ہے، بعد صحت روزے ہی رکھنے ہوں گے اور اگر قبل صحت مرجائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھےد"۔
(فتاوی ثنائیہ:۱/۶۵۸)
(۷) رخصتی سے پہلے شوہر فوت ہوجائے تو بیوی کو مہر آدھا ملے گا یا پورا؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک آدھا مہر ملے گا جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے نزدیک پورا مہر ملے گا، ملاحظہ فرمائی:
سوال: زید کی شادی ہندہ سے ایک سال کا عرصہ ہوا ہوئی تھی، لیکن رخصتی نہ ہوئی، زید کا انتقل ہوگیا، آیا ہندہ مہر کی مستحق ہے یا نہیں؟
جواب: (از مولانا ثناء اللہ) ہندہ نصف مہر کی مستحق ہے، بحکمِ قرآن مجید فنصف ما فرضتم۔
مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد جوابِ مذکور پر گرفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:د"یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ اس لئے کہ سوال میں متوفی عنہا کا ذکر ہے اور جواب میں مطلقہ کا، ملاحظہ ہو آیتِ محولہ بالا: و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم ... الآیۃ۔ لہٰذا صورتِ مرقومہ میں پورا مہر ملے گا، کما تقدم فی حدیثِ ابن مسعودؓ۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۱)
(۸) عورت ماہواری کےایام میں قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں؟
علامہ وحید الزماں صاحب غیر مقلد کے نزدیک حائضہ  کے لئے قرآن پڑھنا جائز نہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں کہ حائضہ قرآن کریم پڑھ سکتی ہے۔
علامہ وحید الزماں غیر مقلد فرماتے ہیں: یمنع صلوٰۃ و صوما ..... و قراءۃ القرآن و مسہ بلا غلاف۔
(کنز الحقائق:۱۵، ھکذا فی عرف الجادی:۸۵)
نیز نزل الابرار میں فرماتے ہیں: و یحرم علی ھؤلاء تلاوۃ القرآن بقصد التلاوۃ و لو دون آیۃ و قال بعض اصحابنا لا یحرم کذالک مس المصحف۔ (۱/۲۵)
یعنی حائضہ کے لئے مخصوص ایام میں قرآن کریم کو ہاتھ لگانا اور پڑھنا جائز نہیں۔
اس کے بر خلاف مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"حائضہ عورت عورت قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگاسکتی، زبان سے پڑھ سکتی ہے۔
(۹) جراب پر مسح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری غیر مقلد اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"پائتابہ (جراب) پر مسح کرنا آنحضرت ﷺسے ثابت ہے،(ترمذی) شیخ ابن تیمیہؒ نے فتاویٰ میں مفصل لکھا ہےد"۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۴۱)
مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد لکھتے ہیں: د"جرابوں پر مسح کرنے کامسئلہ معرکۃ الآراء ہے، مولانا نے جو لکھا ہے یہ بعض ائمہ شافعی و غیرہ کا مسلک ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی مسلک ہے، مگر یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ دلیل صحیح نہیں ہے، اس کے بعد مولانا ابوسعید غیر مقلد نے مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے جواب پر تفصیلاً رد کیا ہے، مولانا ابوسعید کے جواب کے بعد جامعِ فتاویٰ ثنائیہ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کا جواب نقل کیا ہے جو اسی مسئلہ میں انہوں نے دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
الجواب:                                            المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علی جوزہ دلیل صحیح و کل ما تمسک بہ المجوزون ففیہ خدشۃ ظاھرۃ الی آخرہ ، کتبہ عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔
(دستخط) سید محمد نذیر حسین............
(فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۴۴۳)
یعنی جوراب پر مسح کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس کی دلیل صحیح نہیں ہے اور جائز کہنے والوں کی تمام دلیلوں میں واضح غلطی موجود ہے۔
(۱۰) جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"مگر زوال کے وقت جمعہ کے روز نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔
اور مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد جوابِ مذکور پر باحوالہ رد کرتےہوئے فرماتے ہیں: د"پس ثابت ہوا کہ زوال کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، خواہ یوم الجمعہ ہو یا کوئی اور یوم، اس لئے کہ منع کی حدیثیں صحیح ہیں اور جواز کی صحیح نہیں، صحیح کے مقابلہ میں غیر صحیح پر عمل باطل ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۴۴)
پاؤں چوڑے کرنا
باجماعت نماز میں مقتدیوں کو صفیں درست رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے تاکہ درمیان میں دراڑیں نہ رہیں ۔ جن میں شیطان گھس کر نمازی کی نماز خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ احادیث میں پاؤں ، گھٹنے اور کندھے ملانے کا حکم ہے مگر غیر مقلدین حضرات کو صرف پاؤں ملانے کی فکر ہوتی ہے ۔ اگر ساتھ والا آدمی پاؤں کو ذرا ہٹالے تو یہ نماز کے بعد ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حالانکہ یہ کاروائی ان کے اپنے مسلک سے ناواقفیت کی بنا پر ہوتی ہے ۔
چنانچہ ان کے اپنے علماء نے یوں لکھا ہے ۔
اور بعض جاہل پاؤں خوب چوڑے کرتے رہتے ہیں اور کندھوں کا خیال ہی نہیں کرتے ۔ کندھوں کے اندازے سے پاؤں بلکل چوڑے نہ کرنا چاہے تاکہ پاؤں اور کندھے دونوں مل سکیں ۔
اور اس سے پہلے لکھا ہے :پس اس کو چاہیے کہ اپنا پاؤں اپنے کندھے کی سیدھ میں رکھے ۔
(فتاوٰی اہلحدیث ص ۱۹۹۔۲۰۰ ج۲ ۔ و فتاوٰی علمائے حدیث ص ۲۶۶ ج ۴ ، ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور ص ۶، ۲۸ مئی ۱۹۹۹)
جماعت ثانیہ
متششدد غیر مقلدین جماعت ہو چکنے کے بعد مسجد میں آئیں گے تو وہ اصرار کریں گے کہ ہم دوبارہ جماعت کر کے ہی نماز ادا کریں گے، حالانکہ احناف کے ہاں مسافروں کے علاوہ کسی کو ایسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانا درست نہیں ، جس کا امام اور نماز کے اوقات متعین ہوں۔
( شامی ص ۲۹۱ ج۱ و فتاوٰی رشیدیہ ۲۹۰ )
اب اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ حضرات یا تو اپنی کسی مسجد میں چلے جائیں یا مسجد سے باہر جماعت کرا لیں یا اپنے گھر تشریف لے جائیں وہاں جماعت کرا لیں ۔ جب یہ تمام متبادل صورتیں ان کے لیے موجود ہیں ۔ تو اس کے باوجود ان کا احناف کی مساجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا اصرار سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا ۔ ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بریلوی مکتب فکر کا کوئی آدمی کسی دیوبندی یا غیر مقلدین کی مسجد میں اذان سے پہلے یا بعد میں مروجہ صلٰوۃ و سلام یا میت کے لیے تیجہ وغیرہ کی رسم کے لئے اصرار کرے ۔ جیسے اس کا یہ اقدام درست نہیں ۔ اسی طرح احناف کی مساجد میں غیر مقلدین کا دوبارہ جماعت کا اصرار درست نہیں ۔ جبکہ ان کے اپنے علماء نے بھی دوبارہ جماعت کے بارہ میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان کی رو سے بھی ان حضرات کا اصرار صرف فساد کی نیت ہے اور کچھ نہیں ۔
چنانچہ ان کے ہفت روزہ میں پوچھے گے مسائل کے جوابات دینے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اسی میں ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ۔
اور دوسری جماعت کا اہتمام کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ۔ یہ محض ناگہانی ضرورت کی بنا پر ہے ۔
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص۶ ۔ ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ )
اسی طرح ایک مضمون تعدد جماعت کی مضرتیں کے عنوان سے شائع ہوا اس میں بحث کا خلاصہ یوں پیش کیا گیا :
اس صورت میں باہر سے آنے والے مسافروں کی جماعت کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن مطلقا نہیں؛ کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مسجد میں ایک نماز کی متعدد جماعتوں کو دستورالعمل نہیں بنایا ۔
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص ۲۰ - ۲۴ جمادی الاولٰی ۱۴۱۶ھ)
ہم نے پہلے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ کچھ عرصہ سے بڑے منظم انداز میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کی وجہ فقہ ہے ۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور بے بنیاد ہے ۔ نیز بعض مقامات میں غیر مقلدین حنفی شافعی اختلافات کا طعنہ دیکر بھی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ تو ہم نے ضروری سمجھا کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ جزوی مسائل میں اختلافات تو خود غیر مقلدین حضرات کے آپس میں بھی ہیں تو پھر ایسی طعنہ بازی ان کو کسی طور پر بھی زیب نہیں دیتی ۔
غیر مقلدین میں اختلافی صورت حال زیادہ پریشان کن ہے ۔ اس لئے کہ اختلافی مسائل کے حل اور عمل کے لئے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے کہ اگر حنفی شافعی وغیرہ مختلف مسالک کا اختلاف ہے تو ہر مسلک والا اپنے امام اور اپنے مسلک کے محققین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرے گا ۔ اور اگر کسی مسلک کے اپنے علماء کے درمیان مسائل میں اختلاف ہو مفتٰی بھا مسائل پر عمل کیا جائے گا ۔ اور غیر مفتٰی بھا کو ترک کردیا جائے گا ۔ اس لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے ۔ مگر غیر مقلدین ان اختلافی مسائل میں کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے کونسی صورت اور ضابطہ سے کام لیتے ہیں ؟؟؟ اس لئے کہ ان کے تمام علماء جنہوں نے مسائل بتائے ہیں وہ سب کے سب صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے کے دعویدار ہیں اور ہر مسلمان ان سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے والوں کے درمیان مسائل میں اختلاف کیوں ؟ کیا جن جن حضرات نے مسائل بتائے ہیں ان سب کے مسائل بر حق ہیں ؟
اگر ان میں سے بعض کے مسائل حق پر نہیں توغیر مقلدین کے وہ علماء جو دوسروں کی کتابوں میں خواہ مخواہ کیڑے نکالنے پر کمر بستہ ہیں کیا انہوں نے اپنے عوام کی سہولت کے لئے حق اور باطل مسائل کو جدا جدا کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے ؟ اور کیا نا حق مسائل بتانے والوں کے خلاف اپنے قلمی اور تقریری جہاد کا رخ موڑا ہے،اگر نہیں تو کیا اس کو مسلکی تعصب کے علاوہ کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے ؟
اکابرغیرمقلدین کاموقف اورموجودہ غیرمقلدین کاانحراف
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:
"پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں "۔
(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)
پھرآپ یہ بھی لکھتے ہیں:
"اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں "۔    
(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)
مولانا سیدعلی میاں ندویؒ کے والد مولانا سیدعبد الحیی مرحوم د"نزہتہ الخواطرد"کی آٹھویں جلد میں مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے ذکر میں لکھتے ہیں:
"وشدد النکیر علی مقلدی الائمۃ الاربعۃ لاسیما الاحناف وتعصب فی ذلک تعصباً غیرمحمود فثارت بہ الفتن وازدادت المخالفۃ بین الاحناف واھل الحدیث ورجعت المناظرہ الی المکابرۃ والمجادلۃ والمقاتلۃ لماکبرت سنہ ورای ان ھذہ المنازعۃ کانت سبباً لوھن الاسلام ورجع المسلمون الیٰ غایۃ من النکبۃ والمذلۃ رجع الی ماھواصلح لھم فی ھذہ الحالۃــــــ واماماکان علیہ من المعتقد والعمل فھو علی ماقال فی بعض الرسائل ان معتقدہ معتقد السلف الصالح مماورد بہ الاخبار وجاءفی صحاج الاخبار ولایخرج مماعلیہ اھل السنۃ والجماعۃ ومذہبہ فی الفروع مذہب اہل الحدیث التمسکین بظواھر النصوص"۔
(تقدمہ علی الاجوبۃ الفاضلۃ لاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ للشیخ عبدالفتاح ابی غذ:۸، مطبوع:بحلب)
ترجمہ: مولانا بٹالوی نے مقلدین ائمہ اربعہ خصوصاً احناف کے خلاف شدت اختیار کی اور اس میں ایسے تعصب سے چلے کہ اسے اچھا نہیں کہاجاسکتا؛ پس اس سے بھڑک اُٹھے اور احناف اور فرقہ اہلِ حدیث کے مابین مخالفت زیادہ ہوگئی مناظرے، مکابرہ، مجادلہ؛ بلکہ مقاتلہ تک پہنچے؛ پھرجب آپ بڑی عمرکو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ مقلدین سے یہ کھچاؤ ضعف اسلام کا سبب ہوگیا ہے اور مسلمان رسوائی اور بدبختی کے گڑھے میں جارہے ہیں، آپ پھر اس طرف لوٹے جومسلمانوں کے لئے اس حالت میں بہتر تھاــــــہاں جہاں تک آپ کے اعتقاد اور عمل کا تعلق ہے وہ اس پر تھے جیسا کہ آپ نے اپنے بعض رسالوں میں کہا ہے کہ ان کا اعتقاد سلف صالحین کا سا ہے جو اخبار اور صحیح احادیث میں آیا ہے اور وہ اس حد سے نہیں نکلیں گے جواہلِ السنۃ والجماعت کی راہ ہے، رہیں فروعات تواس میں وہ ان اہلِ حدیث کے طریقے پر رہیں گے جونصوص کے ظواہر سے تمسک کرتے ہیں۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی فکری کروٹ پرپوری جماعت اہلِ حدیث کی روش بدل جانی چاہیے تھی؛ لیکن افسوس کہ وہ لفظ حنفی اور شافعی وغیرہ سے اسی طرح سیخ پارہے کہ کسی درجہ میں وہ فقہ کے قریب آنے کے لئے تیار نہ ہوئے، یہ شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولانا محمدحسین بٹالوی کے مسلک کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی ایک لہر تھی جو جماعت کے بیشتر علماء کولے ڈوبی، بہت کم تھے جومعتدل مزاج رہے اور اہلِ السنۃ والجماعت کے دائرہ کے اندر رہے، غالباً سنہ۱۳۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ جماعت اہلِ حدیث کے اعیان وارکان  لاہور میں جمع ہوئے اور انجمن اہلِ حدیث کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر مولانا محمدحسین بٹالوی قرار پائے، مولانا بٹالوی مرزا غلام احمد قادیانی  کاحال دیکھ کر ضرور سمجھتے تھے کہ غیرمقلدین فقہ اور مقلدین سے جونفرت بڑھا رہے ہیں، اس سے اندیشہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت یہ لوگ (غیرمقلدین) پورے اسلام سے ہی منحرف نہ ہوجائیں، انہوں نے اہلِ حدیث کے ساتھ اپنے کوحنفی کہنے کی بھی راہ نکالی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:
"لاہور میں ایک مجلس اہلحدیث کے نام سے نامزد ہوکر قائم ہوئی ہے (یہ مجلس نامزد ہوکر قائم ہوئی تھی حکومت برطانیہ سے یہ نام اہلِ حدیث انہیں الاٹ کیا گیا ) صدر ہونے کی عزت اس ناچیز کوبخشی گئی ہے، اس میں یہ امربحث میں آیا تھا کہ اہلِ حدیث (جس کی طرف یہ انجمن منسوب ہوئی ہے) کی کیا تعریف ہے اور اہلِ حدیث سے کون شخص موسوم ہوسکتا ہے (جواس انجمن کے ارکان اور مجلس منتظمہ میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہو) اس کا تصفیہ رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد:۲۰کے صفحہ نمبر۱۵۹ (جواہلِ حدیث کی قوم کا اور گورنمنٹ میںمہتمم ایڈوکیٹ Representative ریپریزنٹیٹیو ہے) کے اس بیان سے ہوگیا کہ اہلِ حدیث وہ ہے جواپنا دستور العمل والاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کوبنادے (احادیث کے ساتھ آثار سلفیہ کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ارشادات کوبھی اپنے لیے سمجھے) اور جب اس کے نزدیک ثابت ومحقق ہوجائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یااس سے قوی پایا نہیں جاتا تووہ ان احادیث وآثار پرعمل کرنے کومستعد ہوجاوے اور اس عمل سے اس کوکسی امام یامجتہدکا قول بلادلیل مانع نہ ہو"۔
ازآنجا کہ اس تعریف کی رُو سے بے تعصب ومنصف مزاج مقلدین مذاہب اربعہ حنفیہ وغیرہ جوعمل بالحدیث کوجائزرکھتے اور سعادت سمجھتے، تقلید مذہب ان کواس عمل بالحدیث سے مانع نہ ہوتی، داخل ہوسکتے ہیں، نظر برآں اس انجمن کے صدر خاکسار کی یہ رائے قرار پائی کہ اس انجمن کے نام میں ایسی تعمیم وتوسیع ہوجانی چاہیے کہ اس کا نام سنتے ہی وہ مقلدین جوعمل بالحدیث کوسعادت سمجھتے ہیں داخل سمجھے جائیں بناءً علیہ اس کے تجویز یہ ہوئی کہ لفظ انجمن اہلِ حدیث کے ساتھ بریکٹ میں حنفیہ وغیرہ بڑھادیا جائے۔
(ماہنامہ الہدی، بابت ماہ ذیقعدہ، سنہ۱۳۲۷ھ، باہتمام مولوی کریم بخش، مہتمم ومالک اسلامیہ اسٹیم پریس، لاہور)
پھرمولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی اپنی رائے ملاحظہ کیجئے:
"صدرانجمن خاکسار چونکہ باوجود اہلِ حدیث ہونے کے حنفی بھی کہلانا جائز رکھتا تھا؛ لہٰذا اس امر کا اظہار اپنے ماہوار رسالہ  اشاعۃ السنۃ اورد"سراج الاخبارد" کے ذریعہ کردیا، یہ امرہمارے رُوحانی فرزند (مولانا ثناء اللہ امرتسری جوان دنوں پرچہ اہلِ حدیث کے ایڈیٹر تھے) نوجوانوں کوجوصرف اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور وہ حنفی وغیرہ کہلانا پسند نہیں کرتے ناگوار گزرا اور انہوں نے خاکسار کے اس اظہار کے خلاف اپنے اخبار اہلِ حدیث میں یہ نوٹ شائع کرادیا....الخ "۔
مولانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا       ؎
کسی کا ہورہے کوئی نبی کے ہورہیں گے ہم

مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اس کے جواب میں لکھا    ؎
نبی کے ہیں سبھی حنفی نہ مرزائی نہ چکڑالی
نہ معتزلی جوجاحظ کی کرتے ہیں شاگردی
لفظ اہلِ حدیث ماضی میں ایک علمی شان رکھتا تھا، فرقہ اہلِ حدیث میں جب جاہل بھی اہلِ حدیث کہلانے لگے توپوری کی پوری جماعت نت نئے اُٹھنے والے فتنوں کا دروازہ بن گئی، مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین بھی پہلے اہلِ حدیث بنے تھے (تاریخ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ:۶۹،۷۰، حرمین سے واپسی پر نورالدین نے وہابیت اختیار کی اور ترکِ تقلید پروعظ کیئے اور عدم جوازِ تقلید پرکتابیں تصنیف کیں، بھیرہ میں ہیجانِ عظیم پیدا ہوگیاـــــ چودھری ظفراللہ خان قادیانی بھی اپنے دادا چودھری سکندرخان کے بارے میں لکھتے ہیں: د"جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے وہ اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھےد" تحدیثِ نعمت:۳) پھرمرزائی بنے۔
قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری کی رائے
ان خیالات سے متأثر ہوکر جماعت اہلِ حدیث کے مقتدر عالم قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری نے اپنی جماعت کوجھنجھوڑا اور کہا:
"اس زمانہ کے جھوٹے اہلِ حدیث مبتدعین، مخالفین، سلفِ صالحین جوحقیقت ماجاء بہ الرسول سے جاہل ہیں وہ اس صفت میں وارث اور خلیفہ ہوئے شیعہ وروافض کےـــــ جس طرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب ودہلیز کفرونفاق کے تھے اور مدخل ملاحدہ اور زنادقہ کا تھے؛ اسی طرح یہ جاہل، بدعتی اہلِ حدیث اس زمانہ میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے بعینہ مثل اہل التشیع کے"۔                     
(کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعۃ:۲۶۲)
اس عبارت سے واضح ہے کہ اَن پڑھ جاہلوں کا اہلِ حدیث کہلانا کس طرح آئیندہ دینی فتنوں کی اساس بنتا رہا ہے اور یہ بھی عیاں ہے کہ اس جماعت غیرمقلدین کے اعتدال پسند علماء کتنی دردمندی سے ترکِ تقلید کے کڑوے پھل چکھتے رہے ہیں اور ان کا ذائقہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے رہے ہیں، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے اچھا کیا جواپے آپ کواہلِ حدیث حنفی کہنے لگے، یہ کسی نہ کسی دائرہ میں فقہ کی طرف لوٹنے کا ایک قدم تھا، اس پر دیگرعلماء فرقہ ہذا بہت سیخ پا ہوئے؛ تاہم مرزا غلام احمد کے انجام کا یہ ایک طبعی اثر تھا، جواس کے پرانے دوست مولانا محمدحسین صاحب پر اس تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہوا، مشہور غیرمقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:
"اربابِ فہم وذکاء اصحاب صدق وصفا کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ عرصہ سے جناب مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی نے اپنے آپ کواہلِ حدیث حنفی لکھا ہے، آپ کے اس لقب پرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار اہلِ حدیث نے ایک نوٹ لکھا ہے"۔
(الانصاف رفع الاختلاف:۱، مصنفہ مولانا عبدالحق، مطبوعہ سنہ۱۹۱۰ء رفاہِ عام اسٹیم پریس، لاہور)
اس سے واضح ہے کہ مولانا محمدحسین بٹالوی میں یہ تبدیلی بعد میں آئی، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی دینی تباہی آنکھوں سے دیکھی تھی۔
مولانا وحیدالزماں کی رائے
غیرمقلدین کا گروہ جواپنے تئیں اہلِ حدیث کہلاتے ہیں، اُنھوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلفِ صالحین اور صحابہؓ اور تابعین کی، قرآن کی تفسیر صرف لغت سے  اپنی من مانی کرلیتے ہیں، حدیث شریف میں جوتفسیر آچکی ہے اس کوبھی نہیں مانتے۔                          
(وحیداللغات ماوہشعب، حیات وحیدالزماں:۱۰۲)
مولانا عبدالعزیز سیکرٹری جمعیت مرکزیہ اہلِ حدیث ہند
اہلِ حدیث جواپنے ایمانیات وعقائد کی پختگی میں ضرب المثل تھے معتزلہ اور متکلمین کی شریعت کودوبارہ زندہ کرنے والے حضرات ہم میں پیدا ہوگئے او راُن کی حوصلہ افزائی کی گئی نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج جمعیت اہلِ حدیث ایک جسم بلاروح رہ گئی؛ بلکہ جسم کہتے ہوئے بھی قلم رُکتا ہے، آج ہم میں تفرق وتشتت کی یہ حالت ہے کہ شاید ہی کسی جماعت میں اس قدر اختلاف وافتراق ہو۔
(فیصلہ مکہ:۳،۲)
ترکِ تقلید کا یہ نتیجہ ان حضرات کے اپنے قلم سے آپ کے سامنے ہے، کاش کہ یہ حضرات مولانا محمدحسین بٹالوی کی بات مان لیتے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس وقت تواپنے استاد مولانا بٹالوی کی مخالفت کی؛ لیکن ترکِ فقہ کے نتیجہ میں جب ترکِ حدیث کی اُٹھتی ہوئی لہردیکھی تواُن کے ذہن نے بھی پھرپلٹا کھایا، مرزا غلام احمد کے ترکِ تقلید نے مولانا محمدحسین بٹالوی میں فکری تبدیلی پیدا کی تومولوی عبداللہ چکڑالوی کی تحریک ترکِ حدیث نے مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کوسوچنے پرمجبور کیا کہ ترکِ حدیث کی ان لہروں کا پسِ منظرکیا ہے؟ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری، مولوی عبداللہ چکڑالوی امام مسجد چینیاں والی لاہور کے بارے میں رقمطراز ہیں:
 "جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے احادیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا تووہ جمع وتدوینِ قرآن میں رخنے نکالنا شروع کردیں گے اور جب تک لوگوں کواس عیاری کا پتہ نہ چلے گا وہ عوام اور نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ودماغ کواتنا مسموم کرچکے ہوں گے کہ ان کا تدارک کسی سے نہ ہوسکے گا "۔                
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۲۸۰)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔