Friday, 17 April 2015

رسول ﷺ سے مدد و شفاعت طلب کرنا قرآن و حدیث اور نام نھاد اھلحدیث ھم کریں گے بے نقاب ان جھوٹے قرآن و حدیث کے دعوے داروں کو ذرا وق نکال کر ضرور پڑھیئے جزاک اللہ خیرا


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہلحدیث حضرات کا دعویٰ کہ پورا قران ظاہر ہے
اہلحدیث حضرات یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ پورا قران ظاہر ہے اور اس کے کوئی مجازی معنی نہیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں ھم دیکھتے ھیں کہ اہلحدیث حضرات قران کی تمام آیات کو ان کے ظاہری معنوں میں لیتے ھیں۔ ان کی اس ظاہر پرستی کی کچھ مثالیں یہ ہیں:

ان کا یہ کہنا کہ اللہ کا جسم ہےمثلاً اللہ کے پاؤں، ہاتھ، آنکہیں اور چہرہ ہے اور روزِ قیامت وہ اپنا ایک پاؤں دوزخ میں ڈالے گا۔

یہ اللہ کی کرسی کو ظاہری معنی میں لیتے ہیں کہ اللہ ایک بہت بڑی کرسی پر جسمانی طور پر بیٹھا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ظاہر پرستی کی اسی بیماری کی وجہ سے بے پناہ فتنہ پیدا ہو رہا ہے اور یہ حضرات ہر کسی پر شرک، کفر اور بدعت کے فتوے لگا رہے ہیں۔

رسول (ﷺ) کی “شفاعت” کا مطلب کیا ہے؟

شفاعت کا لفظی اردو ترجمہ "سفارش" ہے۔

جبکہ شفاعت کا شرعی مطلب یہ ہے کہ رسول ﷺ ہمارے حق میں اللہ سے “دعا” فرمائیں۔ کسی دوسرے کے حق میں اللہ سے کی گئی اسی “دعا” کا نام شریعت میں “شفاعت کرنا” ہے۔
چنانچہ رسول (ﷺ) کی ہمارے حق میں کی گئی اس دعا و استغفار کا نام ہی شفاعت محمدی ہے۔

رسول ﷺ کیسے ہماری مدد کرتے ہیں؟
ایک نکتہ یہ یاد رکھئیے کہ جب ہم مسلمان “یا رسول اللہ مدد” کہتے تو اسکا مطلب سوائے اسکے اور کچھ نہیں ہوتا کہ رسول اللہ ص اپنی “شفاعت” کے ذریعے ہماری “مدد” فرمائیں۔ رسول ص کی یہ دعا/شفاعت ہر مشکل میں ہماری سب سے بڑی مددگار ہے۔

لہذا جب ہم مسلمان رسول (ﷺ) سے مدد مانگ رہے ہوتے ہیں تو اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کے برخلاف ہمارا عقیدہ ہوتا ہے:
1۔ رسول اللہ ص ظاہری طور پر ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے مشکلات حل کرنے کے لیے ظاہر نہیں ہوتے، بلکہ مدد کا مطلب اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) اپنی اُس شفاعت کے حق کے ذریعے ہماری مدد فرمائیں [یعنی ہمارے حق میں دعا و استغفار فرمائیں] کہ جسکا اللہ نے اُن سے عہد کر رکھا ہے۔
2۔ رسول اللہ کی یہ شفاعت اللہ کے احکام و مرضی کے تابع ہے اور عطائی ہے (ذاتی نہیں ہے)۔ یعنی اللہ نے شفاعت کے ذریعے مدد کرنے کا یہ حق صرف مسلمانوں کے لیے دے رکھا ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ رسول (ﷺ) کفار کے حق میں دعا و استغفار فرما کر اُن کی مدد نہیں کر سکتے (بلکہ کفار کے لیے صرف یہ دعا ہے کہ اللہ انہیں راہِ راست دکھائے)۔
مگر اہلحدیث حضرات اب بھی اگر اپنی ظاہر پرستی کی بیماری سے نہیں نکلتے اور انہیں مدد کا مطلب صرف یہی نظر آتا ہے کہ رسول ص ہاتھ میں تلوار لیکر نمودار ہوں گے اور ہماری مشکل دور کریں گے ۔۔۔ تو ہم اہلحدیث حضرات کی اس ظاہر پرستی کے مرض سے صرف اللہ ہی کی پناہ مانگتے رہیں گے۔
نوٹ: شفاعت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو کچھ اور بھی اختیارات دے رکھے ہیں مثلا آپ (ﷺ) کے تبرکات میں برکت ہونا وغیرہ اور یہ رسول ﷺ کی یہ برکت بھی مشکلات میں ہماری مددگار ہے۔

کیا یہ عقیدہ رکھنا شرک ہے کہ رسولﷺ بھی ہماری مدد فرما کر ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟
اہلحدیث حضرات کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نہ ہماری کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلمان رسول اللہ ﷺ سے مدد اور فائدہ طلب کرتا ہے تو وہ مشرک بن جائے گا۔ اور ثبوت کے طور پر وہ یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
القران 1:5) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اور اسی طرح یہ آیت
قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا
(القران 6:71) تو کیا ہم اللہ کے سوا ایسوں کو پکاریں جو کہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچا سکیں اور نہ کوئی نقصان۔

اہلحدیث حضرات کی اس تفسیر میں مندرجہ ذیل خامیاں ہیں:

یہ قران اور سنت کا صرف وہ حصہ لیتے ہیں جو کہ ان کے عقائد اور خواہشات کے مطابق ہوتا ہے جبکہ قران و سنت کا وہ حصہ جو کہ ان کی خواہشات کے خلاف جا رہا ہوتا ہے، اسے یہ صاف نظر انداز کر جاتے ہیں یا چھپا جاتے ہیں۔
در حقیقت ایسی اور بہت سی قرانی آیات اور احادیث ہیں جو کہ یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ایک مسلمان کو اللہ کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے (بلکہ ترغیب دی گئی ہے) کہ وہ رسول اللہ ﷺ اور اولیاء اللہ اور شعائر اللہ سے بھی مدد اور فائدہ طلب کریں۔

دوسرا یہ کہ اہلحدیث حضرات یہ یقین رکہتے ہیں کہ پورا قران صرف ظاہر ہے اور اس میں کوئی مجاز نہیں ہے۔ جب کی حقیقت یہ ہے کہ قران میں دونوں قسم کے ظاہری اور مجازی کلمات پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ان مقدس الفاظ کی تفسیر اس فرق کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کرنی پڑے گی۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو قران میں کئی جگہ تضاد پیدا ہو جائے گا۔

یہ بہت اہم ہے کہ ہم اوپر بیان کیے گئے ان دو نکات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ آئیے اس بات کو مزید اچھی طرح سمجھنے کے لیے قران سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔

موت کے وقت کون روحیں قبض کرتا ہے؟
آیت 39:42 میں اللہ کہہ رہا ہے کہ یہ وہ خود ہے جو کہ موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے۔
 اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا
(آیت 39:42) یہ اللہ ہے جو موت کے وقت (انسانوں) کی روحیں قبض کرتا ہے۔
مگر دوسری جگہ اللہ، اسی قران میں یہ فرما رہا ہے کہ یہ فرشتے ہیں جو کہ موت کے وقت روحیں قبض کرتے ہیں۔
 إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ
(آیت 4:97) اور جب فرشتے ان کی روحوں کو قبض کرتے ہیں اس حالت میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔۔۔۔
تو کیا یہ شرک ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ یہ فرشتے ہیں جو کہ ہماری روحوں کو قبض کرتے ہیں؟ یا پھر ہم یہ یقین کریں کہ معاذ اللہ قران میں تضاد ہے؟
یقیناً ایسا نہیں ہے۔ مگر اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل اصول کو یاد رکھنا پڑے گا۔
اصول:
یہ شرک ہے اور نہ ہی قران میں تضاد، بلکہ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ یہ وہ ہے جو کہ موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے تو اس میں فرشتے پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں اور وہ اللہ کی اجازت سے روحیں قبض کرتے ہیں۔
اسی طرح کا مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے مدد اور فائدہ طلب کرنا بھی ہے۔ قران کی کچھ آیات ہیں جن میں اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ مطلقاً معنوں میں اکیلا مددگار ہے اور یہ کہ وہ بطور مددگار کافی ہے۔ اہلحدیث حضرات صرف یہ آیات نقل کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مدد اور فائدہ طلب کرنا شرک ہے۔
مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ دوسری تمام قرانی آیات اور احادیث کو بالکل چھپا جاتےہیں یا پھر صاف نظر انداز کر جاتے ہیں جو کہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اولیاء اللہ اور شعائر اللہ سے مدد اور فائدہ طلب کریں اور یہ چیزیں اللہ کے حکم اور اجازت سے مسلمانوں کی مدد کر سکتی ہیں اور فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اور ان کے وسیلے سے مدد طلب کرنا حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی مدد طلب کرنا ہے۔
اور ان قرانی آیات و احادیث کو چھپانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ان کے عقائد (خود ساختہ توحید) کی بالکل ضد ہیں۔

کیا اللہ اکیلا ولی ہے اور کیا وہ بطور ولی کافی ہے اور کیا رسول ﷺ کو ولی ماننا شرک ہے؟
بیشک اللہ مطلقاً معنوں میں اکیلا ولی ہے اور بیشک وہ بطور ولی کافی ہے۔
 لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا
(القران 4:123) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔
اسی طرح یہ آیت:
 وَاللّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللّهِ وَلِيًّا
(القران 4:45) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور اللہ بطور ولی کافی ہے۔
مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کے ساتھ اس کا رسول بھی مسلمانوں کا ولی ہے اور وہ صالح مومنین بھی ولی ہیں جو کہ حالتِ رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں (اشارہ ہے مولا علی علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف جب انہوں نے حالتِ رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی زکوۃ میں دی تھی)۔
 إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(القران 5:55) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح آیت ملاحظہ فرمائیے:
وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
(القران 5:56) اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
تو ان آیات کی موجودگی میں کیا یہ کہنا اللہ کی ذات میں شرک ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ایمان والے بھی اللہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ولی ہیں؟
اور کیا ان کو ولی بنانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ بطور ولی کافی نہ تھا اور صرف اسی وجہ سے اللہ کو ضرورت پڑی کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ھمارا ولی قرار دے؟
اس سوال کا آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کے دعویٰ کے برخلاف کہ پورا قران ظاہر ہے، بیشک قران میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں جن کے مجازی معنی بھی ہیں اور اگر ان کو مجازی معنوں میں نہ سمجھا جائے تو یقیناً قران میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔
اصول:
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے اور بطور ولی کے کافی ہے، تو رسول ﷺ اور مومنین بھی مجازی طور پر اس میں شامل ہیں۔
اہلحدیث پالیسی:
آپ دیکھیں گے کہ اہلحدیث حضرات صرف وہ آیات نقل کر رہے ھوں گے جس میں اللہ کہہ رھا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے یا پھر یہ کہ وہ بطور ولی کے کافی ہے۔ اور یہ آیات نقل کرنے کا (اور دوسری آّیات کو چھپانے کا) مقصد یہ ہوتا ہے اہلحدیث حضرات یہ تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ شرک ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ولی بنایا جائے۔
بدقسمتی سے ھمارے وہ مسلمان بھائی اور بہنیں جو کہ قران پر اتنا عبور نہیں رکھتے، وہ اہلحدیث حضرات کے اس دھوکے کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں اور خیال کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ولی تو صرف اللہ ہے اور وہ مسلمان برادران جو کہ رسول کو بھی ولی بناتے ہیں، وہ شرک کر رہے ہیں۔

کیا علی ؑابن ابی طالب کو مولا کہنا شرک ہے؟
لوگ ھم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم علی ابن ابی طالب کو مولا کیوں کہتے ہیں۔ اور وہ اپنے اس اعتراض کی بنیاد یہ قرانی آیت قرار دیتے ہیں
لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا
(القران 4:123) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔
ہماری تو اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان حضرات کو توفیق عطا فرمائے کہ یہ لوگ قران اور احادیث کے دوسرے حصے کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس سے بھی ہدایت حاصل کریں۔
حقیقت میں علی ؑ کو مولا کہنا تو سنتِ رسول ہے جب آپ ﷺ نے غدیرِ خم کے مقام پر فرمایا تھا:
مَنْ كُنتُ مَولاهُ فعَلِيٌّ مَولاهُ
جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا
چنانچہ ھم تو صرف سنتِ رسول کی ادائیگی کر رہے ھوتے ہیں جب ہم علی ابن ابی طالب کو مولا کہتے ہیں۔ اور اگر یہ حضرات پھر بھی ہمیں مشرک بنانا چاہیں تو انصاف تو یہ ہے کہ یہ حضرات پہلے رسول اللہ ﷺ پر شرک کا فتویٰ جاری کریں(نعوذ بااللہ) کیونکہ یہ رسول ص خود ہیں جنہوں نے سب سے پہلے علی کو مومنین کا مولا قرار دیا تھا۔

کیا اللہ کے علاوہ کوئی ھماری شفاعت کر سکتا ہے؟
اللہ قران میں ایک جگہ فرما رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی شافع نہیں ہے:
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(القران 39 سورہ ، آیات 43 تا 44) کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شفاعت کرنے والے اختیار کر لیے ہیں۔ تو آپ کہہ دیجئیے کی ایسا کیوں ہے چاہے یہ کوئی اختیار نہ رکہتے ہوں اور نہ ھی کسی قسم کی عقل رکہتے ہوں۔ کہہ دیجئیے کی شفاعت کا کُل اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔۔۔
مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ کچھ اولیاء اللہ ایسے بھی ہیں کہ جن کے متعلق مسلمانوں کو اجازت ہے کہ ان سے شفاعت طلب کریں کیونکہ اللہ نے انہیں ھماری شفاعت کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
 لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا
(القران 19:87) کسی کے پاس شفاعت کا اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے کہ جنہوں نے خدائے رحمان سے شفاعت کا عہد لے رکہا ہے۔
اسی طرح یہ آیت مبارکہ دیکھیں:
 وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(القران 43:86) اور جنہیں یہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کے پاس شفاعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے جو حق بات کی گواہی دیتے ہیں اور اسے جانتے ہیں۔
تو کیا یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی مسلمانوں کی شفاعت کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی قران میں (معاذ اللہ) تضاد ہے؟
اصول:
جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ہمارا شافع ہے، تو اولیاء اللہ اس میں پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں جو کہ اللہ کے اذن اور حکم سے مسلمانوں کی شفاعت کریں گے۔
شفاعت کے معاملے میں بھی اہلحدیث حضرات وہی حربہ استعمال کرتے ہیں، یعنی صرف وہ آیات نقل کر رہے ہوتے ہیں جس میں اللہ کہہ رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی شفیع نہیں ہے، جبکہ ایسی تمام آیات اور احادیث کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس میں اللہ فرما رہا ہے کہ اس نے اولیاء اللہ اور فرشتوں کو بھی یہ اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی شفاعت کر سکیں۔

کیا رسول اللہ ﷺ اپنے فضل سے ہمیں غنی کر سکتے ہیں؟
آپ دیکہیں گے کہ اہلحدیث حضرات بہت زور و شور سے یہ آیات بیان کر رہے ہوں گے:
لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّن فَضْلِ اللَّهِ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
(القران 57:29) تاکہ اہلِ کتاب یہ بات جان لیں کہ ان کے پاس اللہ کے فضل پر کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ کہ فضل پورا کا پورا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔ بیشک اللہ فضلِ عظیم کا مالک ہے۔
یہ آیت بیان کر کے اہلحدیث حضرات ہمارا موازنہ کافروں اور اہلِ کتاب سے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم یہ یقین رکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی اپنے فضل سے ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
افسوس ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ قران اور احادیث کے دوسرے حصے کو یکسر نظر انداز کر جاتے ہیں۔ آئیے اسی قران کے دو مزید آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جنہیں اہلحدیث علماء بدقسمتی سے چھپانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں:
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ
(القران 9:59) اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی۔
تو کیا یہاں اللہ خود شرک کر رہا ہے یہ کہہ کر کہ رسول بھی ہمیں عطا کرتا ہے؟
يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا
(القران 9:74) یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ھے۔۔۔
فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول ﷺ بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ تو اب انصاف کا تقاضا ہے کہ اہلحدیث حضرات ہم پر شرک کے فتوے لگانے سے پہلے اللہ پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگائیں۔
مگر قران کے اس حصے سے ہدایت حاصل کرنے کی بجائے اہلحدیث علماء وہی پرانا حربہ استعمال کرتے ہیں کہ ان آیات کو عام مسلمانوں سے بالکل چھپا جاتے ہیں اور اس بات کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ ان آیات کو بیان کیا جائے۔
ہمیں امید ہے کہ ہمارے معزز پڑھنے والے اب اس ظاہر پرستی کے فتنے کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہوں گے۔

کیا اللہ بطور مددگار اکیلا اور کافی ہے؟
بیشک اللہ بطور مددگار اکیلا کافی ہے۔ مگر اہلحدیث حضرات ظاہر پرستی کی وجہ سے اس کا بھی غلط مطلب نکال رہے ہوتے ہیں۔ وھابی حضرات کا پورا زور ان آیات پر ہے:
 وَاللّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللّهِ وَلِيًّا وَكَفَى بِاللّهِ نَصِيرًا
(القران 4:45) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور بیشک اللہ بطور ولی بھی کافی ہے اور بطور مددگار بھی کافی ہے۔
اسی طرح یہ آیت ملاحظہ فرمائیں:.
 قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
(القران 33:17) ۔۔۔۔۔ اور اللہ کے سوا وہ کوئی ولی پائیں گے نہ کوئی مددگار
ہم یہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ہم اہلحدیث حضرات سے پورا اتفاق کرتے ہیں کہ بیشک اللہ بطور مددگار اکیلا ہے اور کافی ہے۔ مگر یہ کہنے کے بعد ہم اہلحدیث حضرات سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ بھی ہم سے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں یا نہیں کہ جب اللہ فرما رہا ہے کہ وہ بطور مددگار اکیلا ہے اور کافی ہے، تو رسول اللہ ﷺ، جبرئیل ؑ، اور صالح مومنین اور فرشتے اس میں پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں اور وہ بھی اللہ کے حکم اور اجازت سے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں۔
إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ
(القران 66:4) (اے نبی کی بیویو) اب تم توبہ کرو کہ تمہارے دل ٹیرھے ہو گئے ہیں ورنہ اگر تم اس (رسول) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یاد رکہو کہ اس (رسول) کا ولی اللہ ہے اور جبرئیل ہیں اور صالح مومنین اور فرشتے سب اس کے مددگار ہیں۔
کیا واقعی ہمیں یہ آیت ظاہری معنوں میں لینی چاہیے اور اس کا مطلب یہ لینا چاھیے کہ اللہ بطور مددگار اپنے حبیب ﷺ کے لیے کافی نہیں تھا، اسی لیے اپنے ساتھ جبرئیل اور دیگر فرشتوں اور مومنین کا بھی ذکر کر رہا ہے کہ وہ بھی اس کی مدد کریں گے؟
اور کیا یہ واقعی شرک ہے اگر ہم یہ مانیں کہ جبرئیل، صالح مومنین اور دیگر فرشتے بھی ہمارے مولا (سرپرست) اور مددگار ہیں؟
اگر اب بھی ہم اہلحدیث حضرات کی ظاہر پرستی کا اتباع کریں اور ان کی دی ہوئی شرک کی تعریف کو مانیں تو یقیناً ہمیں (معاذ اللہ) اللہ کو بھی مشرک قرار دینا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام مومنین کو بھی جو کہ پورے کے پورے قران پر یقین رکہتے ہیں اور اس کے کسی حصے کو اس وجہ سے نظر انداز نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ انکی خواہشات کے خلاف جا رہا ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ آیت دیکھیں:
 وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
(القران 4:75)۔۔۔۔۔ مرد، عورتیں اور بچے جو برابر دعا کرتے ہیں کہ اے رب ہمیں اس قریہ سے نجات دے دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی ولی بھیج اور اپنی طرف سے کوئی مددگار بھیج۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ بطور ولی اور مددگار کے کافی ہے تو پھر یہ لوگ کیوں اللہ سے کسی دوسرے شخص کو بطور ولی اور مددگار کے مانگ رہے ہیں؟
اور اگر اللہ خود اس دوسرے شخص کو ولایت اور مددگار (نصرت) کی صفات عطا کر رہا ہے تو پھر یہ کہنا کیوں شرک ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچا سکتا (چاہے وہ ولایت کی صورت میں ہو یا پھر نصرت و مدد کی صورت میں)۔
بیشک اللہ کے اذن سے اولیاء اللہ ہماری مدد کرتے ہیں اور اپنی شفاعت سے ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں۔
اور یاد رکہیے کہ اولیاء اللہ بیشک اللہ کے ساتھ ہمارے ولی اور مددگار ہیں (یعنی اس معاملے میں یہ اللہ کے سوا اور الگ نہیں ہیں بلکہ اللہ نے خود انہیں اس معاملے میں اپنے ساتھ رکھا ہے۔
اور مخالف جماعت شیطان اور اس کے اولیاء کا ہے۔ اور بیشک یہ اللہ کے سوا اور الگ ہیں اور اگر کوئی انہیں اپنا ولی اور مددگار بناتا ہے تو یقیناً یہ شرک ہے۔

کیا یوسف ؑ اس وقت مشرک بن گئے جب انہوں نے اپنے مصری مالک کو رب کہا؟
اگر اہلحدیث حضرات ابھی تک یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں تو وہ ہمیں بتائیں کہ پھر وہ نبی یوسف ؑ پر مشرک ہونے کا فتویٰ کیوں نہیں لگاتے جب یوسف ؑ نے اپنے مصری مالک کے لیےرب کا لفظ مجازی معنوں میں استعمال کیا؟
 وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
(القران 12:23) اور اس (زلیخا) نے ان سے اظہارِ محبت کیا کہ وہ اس کے گھر میں رہتے تھے اورکہنے لگی کی آؤ۔ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ وہ (تمہارا شوہر) میرا رب ہے اور اس نے مجھے اچھی طرح رکہا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ قران میں مجازی معنی آیات موجود نہیں ہیں؟
ہمارے لیے تو یہ بات صاف ہے کہ یوسف ؑ نے رب کا یہ استعمال مجازی معنوں میں کیا تھا۔ رب کے لغوی معنی پالنے والے کے ہیں ۔ اور چونکہ اس مصری شخص نے یوسف ؑ کو پال پوس کر بڑا کیا تھا اس لیے یوسف ؑ نے اس کے لیے مجازی معنوں میں رب کا استعمال کیا ہے۔یہ ایسا ہے جیسا کہ ہم اردو محاورے میں اکثر کہتے ہیں کہ “یہ شخص ہمارا مربی ہے”۔

مولانا مودودی کی کوشش کہ اس آیت کا مطلب تبدیل کر دیا جائے تاکہ یہ اہلحدیث عقائد سے مطابقت پا سکے
جنابِ یوسف ؑ کا اپنے مصری مالک کورب کہنا اہلحدیث حضرات کے عقائد پر اتنی بڑی ضرب ہے کہ جسے وہ کبھی ہضم نہیں کر سکتے۔
مولانا مودودی (علیہ رحمہ) پاکستان کے مشہور اہلحدیث عالم ہیں (اگرچہ کہ وہ اپنے آپ کو اہلحدیث کہلواتے نہیں ہیں، مگر توسل اور شفاعت کے معاملے میں مکمل اہلحدیث عقائد رکھتے ہیں) اور ان کی تفہیم القران تفسیر کے موضوع پر بہترین تفسیر مانی جاتی ہے اور دیو بندی اور سلفی (اہلحدیث) حلقوں میں بہت مقبول ہے۔ مگر جب یوسف ؑ کی اس آیت کا معاملہ آیا، تو مولانا مودودی بھی اسے ہضم نہیں کر سکے اور انہوں نے بھرپور طریقے سے کوشش کی کہ اس آیت کی معنوی تحریف کر دی جائے تا کہ یہ اہلحدیث عقاٰئد کے مطابق ہو جائے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ مولانا صاحب کیا لکھ رہے ہیں:
عام طور پر مفسرین نے (غلطی کی ہے اور) اس سے مراد یہ لیا ہے کہ یوسف ؑ نےرب کا یہ لفظ اپنے مصری آقا کے لیے استعمال کیا ہے کہ وہ کس طرح اس کی بیوی سے زنا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ان کی وفاداری کے خلاف ہو گا۔ مگر یہ انبیاء سے مناسبت نہیں رکہتا کہ وہ دوسروں کی خاطر گناہ کریں، بلکہ وہ گناہ نہیں کرتے تو صرف اللہ کی خاطر نہیں کرتے۔ اور قران میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی رسول نے کبھی بھی رب کا لفظ اللہ کے سوا کسی اور کے لیے استعمال کیا ہو۔
یہ مولانا مودودی جیسے عالم کی طرف سے ایک انتہائی بودا بہانہ ہے۔ قران اس معاملے میں اتنا واضح ہے کہ اس صدی تک کوئی ایسا عالم نہیں گذرا جس نے اس آیت کو ایسے سمجھا ہو جیسا کہ مودودی صاحب اسکا مطلب نکالنا چاہ رہے ہیں۔
حتیٰ کہ سعودی عرب کے چھپے ہوئے اردو قران (جو کہ پاکستان میں مفت تقسیم ہو رہا ہے) کی تفسیر میں بھی اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ یوسف ؑ نے رب کا یہ لفظ اپنے مصری آقا کے لیے استعمال کیا ہے۔
اسی طرح فتح جالندھری صاحب کا اردو ترجمہ دیکھ لیں تو اس میں بھی انہوں نے بھی صاف یہی لکھا ہے کہ رب کا لفظ یوسف(علیہ السلام) نے اپنے مصری آقا کے لیے استعمال کیا ہے۔
اسی سورۃ میں حضرت یوسف(علیہ السلام) مصر کے بادشاہ کے لیے بھی رب کا لفظ استعمال کر رہے ہیں:
(القران 12:42) وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا، اس سے کہا کہ اپنے رب (یعنی بادشاہ) سے میرا ذکر بھی کرنا۔ لیکن شیطان نے اس کو اپنے رب (بادشاہ) سے (یوسف) کا ذکر بھلا دیا۔
(اسی طرح اسی سورۃ یوسف کی آیت نمبر 50 بھی دیکھیئے جہاں یوسفؑ اس مصری بادشاہ کو دوبارہ رب کہہ رہے ہیں)
مولانا مودودی کی تفہیم القران کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مولانا صاحب وسیلے اور شفاعت کے معاملے میں سعودی عرب کے علماء سے بھی زیادہ انتہا پرست ہیں اور یہ بات ان کی تفسیر میں کئی مقامات پر عیاں ہے۔
مثلاً آیت 20:96 کہہ رہی ہے کہ اس مٹی میں برکت پیدا ہو گئی تھی کہ جہاں سے جنابِ جبرئیل ؑ کا گذر ہوا تھا۔ سعودی عرب کے چھپے ہوئے قران میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے اگرچہ کہ یہ بات ان کے عقائد کے خلاف ہی جاتی ہے۔ مگر مولانا مودودی اپنی تفہیم القران میں بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس آیت کا مطلب تبدیل کر سکیں اور انہوں نے اس مٹی میں برکت ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

قران میں مجازی معنوں والی آیات کی کچھ اور مثالیں
اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔
 فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
(القران 27:40) ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے
لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول ﷺ کے لیے بھی فرما رہا ہے:
 إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم
(القران 69:40) بیشک یہ (قران) ایک کریم رسول کا قول ہے۔
جب ہم اللہ کے لیےکریم استعمال کرتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جبکہ جب ہم نبیِ کریم کہتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے (معاذ اللہ) خود شرک کر رہا ہے۔
اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:
 إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز
(القران 22:74) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول ﷺ بھی قوت والا ہے
 ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ
(القران 81:20) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔
کیا اللہ یہاں یہ کہہ کر شرک کر رہا ہے کہ رسول بھی قوت والا ہے؟ اہلحدیث حضرات کو دعوتِ فکر ہے کہ وہ اپنے رویے پر نظرِ ثانی فرمائیں۔

رؤوف اور رحیم
یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:
 إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 2:143) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔
مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسولﷺ کے لیے فرما رہا ہے:
 لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
(القران 9:128) لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔
اور در حقیقت قران میں کئی اور مقامات پر اللہ اپنے نیک بندوں کی اسطرح کی عزت افزائی کر رہا ہے کہ انہیں اپنی صفات والے ناموں کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ مثلاً:
عالم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر اسمعیل ؑ کو بھی عالم کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔
حلیم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر ابراہیم ؑ اور اسمعیل ؑ کو بھی حلیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
شکور:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر نوح ؑ کو بھی شکور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
بر:
یہ اللہ کی صفت مگر عیسیٰ ؑ اور یحییٰ ؑ کو بھی بر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
نتیجہ:
اللہ نے اپنی صفات کو اپنے نیک بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے یہ نیک بندے ان صفات میں اللہ کے شریک بن گئے ہیں۔ بیشک یہ ان صفات کے حقیقی معنوں میں مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں اپنی ان صفات کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔
اہلحدیث حضرات ان قرانی آیات کو محض اپنے ظن اور قیاس کی بنیاد پر رد نہیں کر سکتے۔
جب ہم اللہ کوکریم کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور جب ہم رسول اللہ ﷺ کوکریم کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیں اس کی تاویل مجازی معنوں میں کرنی پڑتی ہے۔
اور اگر اہلحدیث حضرات اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں، تو یقیناً یہ حضرات تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بھی مشرک بنا دیں گے۔

خاص صفات بمقابلہ عام صفات
اور یہ جاننے کے لیے کہ توحید کیا ہے اور شرک کیا ہے، یہ بہت اہم ہے کہ ہم اللہ کی خاص صفات اورعام صفات کا فرق سمجھیں۔
خاص صفات وہ ہیں جنہیں اللہ نے صرف اپنے لیے مخصوص رکہا ہے۔ مثلاًمعبود صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے ( اور شعائر اللہ کے لیے صرف تعظیم ہے مگر کوئی عبادت نہیں ہے)۔
شریعت بنانا صرف اللہ کا کام ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کوئی چھوٹا سا قانون بھی بنا کر حلال چیزوں کو حرام کرتا پھرے۔
پوری کی پوری سورۃ اخلاص اللہ کے انہیخاص صفات سے بھری ہوئی ہے:
 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
کہہ دو اللہ ایک ہے
(یہ صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے اور اگر اللہ چاہتا تو کئی محمدﷺ پیدا کر دیتا)
اللَّهُ الصَّمَدُ
وہ بے نیاز ہے
(مگر محمد ﷺ بے نیاز نہیں ہیں بلکہ انہیں اللہ کی ضرورت ہے)
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
نہ وہ کسی کا باپ ہے اور کسی کا بیٹا
(مگر محمدﷺ کا باپ بھی تھا اور اولاد بھی)
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے
(مگر محمد ﷺ اللہ کے ہمسر نہیں ہیں)
تو محترم برادران:

یہ توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول ﷺ کریم ہیں۔

اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے غنی کرتے ہیں۔

اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ بھی ہمارے ولی ہیں۔

اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنی شفاعت کے ذریعے ہماری مدد کرتے ہیں اور ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان کی شفاعت ہماری مغفرت کا باعث ہو گی۔

اگر اہلحدیث حضرات اب بھی اپنی ظاہر پرستی کے باعث ان خاص اور عام صفات کا فرق نہ سمجھ پائیں، تو یقیناً یہ تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بھی مشرک بنا دیں گے۔

اہلحدیث بمقابلہ جہمیہ
سعودیہ کا مشہور اہلحدیث عالمابو منتصر اپنی کتاببدعت کا فتنہ میں لکھتا ہے:
جہمیہ لوگوں کی وہ جماعت ہے جو اللہ کی صفات کا انکار اپنی عقل اور دلائل کی بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ اللہ کو انسان جیسا بنا دیں گے۔
مگر جب ہم آج کے اہلحدیث حضرات کو دیکہتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ:
اہلحدیث لوگوں کا وہ گروہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی صفات کا انکار اس بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح یہ رسول ﷺ کو اللہ جیسا بنا دیں گے۔

لاحول واللہ قوۃ

کیا یہ شرک ہے اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسولﷺ بھی ہماری مدد کر کے ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟
بدقسمتی سے ظاہر پرستی کی بیماری نے اہلحدیث حضرات کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ شرک کے نام پر اسلامی شریعت میں بہت سی تبدیلیاں کریں۔ مثلاً ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی اجازت سے مسلمانوں کی مدد کر سکتے ہیں (اپنی شفاعت کے ذریعے) اور مسلمانوں کو یقیناً فائدہ (نفع) پہنچا سکتے ہیں۔
مگر اہلحدیث حضرات کے نزدیک یہ سب کچھ شرک کے سوا کچھ اور نہیں اور یہ رسول اللہ ﷺ کی عبادت کرنا ہے اور انہیں اللہ کا شریک بنا دینا ہے۔ اور ثبوت کے طور پر وہ یہ قرانی آیت بڑے زور و شور سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر چسپاں کرنے کو کوشش کرتے ہیں:
 قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا
(القران 6:71) کہو کہ کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکاریں جو کہ ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان؟
(نوٹ: یہ آیات اصل میں کفار اور ان کے بتوں کے لیے ہیں جنہیں اہلحدیث حضرات مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں)
انصار ڈاٹ آرگ کے سلفی عالم دین خضر صاحب لکھتے ہیں:
 یہ چیز یاد رہے کہ کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کو کسی قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا فائدہ، چاہے اس انسان کر رتبہ اللہ کے ہاں کتنا ہی بڑا ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ صرف اللہ کی ذات ہی ہے جو کہ ہمیں نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اور ابو امینہ بلال فلپس مشہور اہلحدیث عالم ہیں اور وہ توحیدِ عبادت کے نام پر اہلحدیث عقائد کو یون بیان کرتے ہیں:
توحیدِ عبادت کا اقرار اس بات کو لازمی بناتا ہے کہ ہم ہر قسم کی شفاعت کا انکار کریں۔۔۔۔۔ اور اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے:
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ
(القران 21:66) (ابراہیم نے کہا) تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ ہی نقصان؟
پھر وہی مسئلہ کہ یہ وہ قرانی آیات ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کے لیے نازل ہوئیں ہیں، مگر اہلحدیث حضرات اسے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالانکہ قران کی کئی اور آیات ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی بے تحاشہ احادیث ہیں جو بلا شک و شبہ یہ ثابت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیشک مسلمانوں کو نفع پہنچا سکتے ہیں (یعنی اللہ نے مسلمانوں کے لیے رسول کو عام اجازت دی ہے کہ وہ ان کی شفاعت کے ذریعے مدد کر سکتے ہیں، جبکہ کفار کے لیے رسول اللہ ﷺ کو سختی سے ممانعت ہےکہ وہ ان کے لیے استغفار کریں اور نہ شفاعت کے ذریعے فائدہ پہنچائیں۔
انشاء اللہ اگلے باب میں ہم یہ آیات اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کریں گے جس میں اللہ نے رسول ﷺ کو کفار کی شفاعت کے ذریعے مدد کرنے اور انہیں فائدہ پہنچانے سے منع فرمایا ہے۔)
مگر اہلحدیث حضرات اپنے ظاہر پرستی پر مبنی عقائد کے دفاع کی خاطر ان دوسری تمام آیات (جو واقعی رسول ﷺ اور مسلمانوں کے لیے ہیں) کو مکمل طور پر چھپا جاتے ہیں اور نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس بات کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں کہ ان آیات سے بھی ہدایت حاصل کریں۔
آئیے قران اور سنت سے اس معاملے میں اور رہنمائی حاصل کریں:

ام المومنین جناب عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں
 صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء
حدثنا ‏ ‏يحيى بن يحيى ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏خالد بن عبد الله ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الملك ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏مولى ‏ ‏أسماء بنت أبي بكر ‏ ‏وكان خال ولد ‏‏ عطاء ‏ ‏قال ‏ ‏أرسلتني ‏ ‏أسماء ‏ ‏إلى ‏ ‏عبد الله بن عمر ‏ ‏فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏ ‏وميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏وصوم رجب كله فقال لي ‏ ‏عبد الله ‏ ‏أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏
فإني سمعت ‏‏ عمر بن الخطاب ‏ ‏يقول سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏إنما يلبس الحرير من ‏ ‏لا خلاق له ‏ ‏فخفت أن يكون ‏ ‏العلم ‏ ‏منه وأما ‏ ‏ميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏فهذه ‏ ‏ميثرة ‏ ‏عبد الله ‏ ‏فإذا هي ‏ ‏أرجوان ‏ ‏فرجعت إلى ‏ ‏أسماء ‏ ‏فخبرتها فقالت هذه ‏‏ جبة ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فأخرجت إلي ‏‏ جبة ‏ ‏طيالسة ‏ ‏كسروانية ‏ ‏لها ‏ ‏لبنة ‏ ‏ديباج ‏ ‏وفرجيها مكفوفين ‏ ‏بالديباج ‏ ‏فقالت هذه كانت عند ‏ ‏عائشة ‏ ‏حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يلبسها فنحن نغسلها للمرضى ‏ ‏يستشفى بها
ترجمہ
حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جنابِ عائشہ اور ان کی صحابیہ بہن (ابو بکر کی بیٹی) اسماء بنت ابی بکر کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک طرف، آپ ﷺ کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)

کیا ام المومنین عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ ﷺ کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا؟

اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی؟

خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ ﷺ کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟

انتہائی اہم اصول: ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت
اگرچہ کی جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول ﷺ کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول اہلحدیث حضرات) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں:
ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول ﷺ کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا۔

عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے۔

اسی لئے رسول ﷺ نے فرمایا:
 اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
مگر اہلحدیث حضرات نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ:
اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے

اہلحدیث حضرات کی دوہرے معیار (ڈبل سٹینڈرڈ):
اگرچہ کہ اہلحدیث حضرات میں انتہا درجہ کی ظاہر پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے، مگر پھر بھی جبابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر کے معاملے میں وہ اس قابل ہیں کہ اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی ان کی باطنی نیتوں کو سمجھ سکیں۔ مگر جب ہمارا معاملہ آتا ہے اور ہم رسولﷺ سے مجازی معنوں میں مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفاعت کے ذریعے ہماری مدد کریں (اور حقیقی معنوں میں ہم اللہ سے ہی مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں) تو یہی اہلحدیث حضرات ایسی کسی باطنی نیت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام آیات ہم پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کے لیے نازل ہوئی ہیں۔
اور اگر اب بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں، تو پھر وہ ان آیات کو جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر پر چسپاں کیوں نہیں کرتے؟ مثلاً یہ آیت کہ:
 إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تچھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اور اسی طرح قران کو وہ تمام آیات بھی ان پر چسپاں کیوں نہیں کرتے جس میں اللہ فرما رہا ہےکہ اللہ کے سوا کوئی انہیں نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ
(القران 21:66) (ابراہیم نے) کہا،تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں کسی قسم کا فائدے پہنچا سکیں اور نہ نقصان؟
اگر یہ ڈبل سٹینڈرڈ اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

قران کے مطابق، انبیاء ؑ کی استعمال کردہ چیزیں ہمارے لیے تبرکات ہیں اور اللہ کے اذن سے ہماری مدد کر سکتی ہیں اور فائدہ پہنچا سکتی ہیں
اللہ تعالیٰ قران میں جنابِ یوسف ؑ کی قمیض کا ذکر کر رہا ہے کہ اس میں برکت تھی اور یہ طاقت تھی کہ اندھی آنکہوں کو ان کی بینائی لوٹا سکیں۔ قران کہہ رہا ہے:
اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَـذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
(القران 12، آیات 93 تا 96) (یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا) کہ میری اس قمیض کے ساتھ واپس جاؤ اور اس کو میرے والد کے چہرے پر ڈال دینا اور وہ پھر سے صاف دیکہنے لگے گا۔۔۔۔۔۔۔ تو انہوں نے وہ قمیض اس کے چہرے پر ڈال دی اور فوراً ہی اسے (یعقوب کو) صاف نظر آنے لگا.
اس آیت کو سامنے رکہتے ہوئے ہم اہلحدیث حضرات سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں:

کبا اب بھی کوئی قران کی اس گواہی کا انکار کر سکتا ہے اور دعویٰ کر سکتا ہےکہ یہ اللہ کی صفات میں شرک ہے اگر ہم یہ کہیں کہ یوسف ؑ کی قمیض میں یہ طاقت تھی کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے؟

اور کیا جنابِ یعقوب ؑ نے شرک کیا جب آپ نے یوسف ؑ کی قمیض سے فائدہ (مدد) طلب کیا، بجائے اس کےکہ اللہ سے براہ ِراست مدد اور فائدہ طلب کرتے؟

ام المومنین ام سلمہ (ر) نظرِ بد اور بیماری کے خلاف رسول اللہ ﷺ کے بالوں سے مدد (فائدہ) طلب کرتی تھیں
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے سلیمان بن عبدااللہ وہب سے کہا مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالی پانی کی دے کر بھجوایا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں۔ یہ پیالی چاندی کی تھی۔ اس میں آنحضرتﷺ کے کچھ بال ڈال دئے گئے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا کنگھال (برتن) پانی کا بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا (اور بی بی ام سلمہ رسول ﷺ کے بالوں سے مس کیا ہوا پانی اس میں ڈال دیتیں)۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے
۔  صحیح بخاری، کتاب اللباس، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان

کیا اب بھی کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھنا شرک ہے کہ رسول اللہ ﷺ خدا کی اجازت سے ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟

کیا ام سلمہ (ر) اس وجہ سے مشرکہ بن گئیں (نعوذ باللہ) کہ انہوں نے بجائے اللہ سے براہ ِراست شفا مانگنے کے رسول ﷺ کے بالوں سے شفا طلب کرنی شروع کر دی؟ اور کیا مدینے کے تمام صحابہ اور تابعین بھی مشرک ہو گئے کہ بیماری اور نظر بد میں اللہ کو براہ ِراست بھول کر ام سلمہ (ر) کی طرف بھاگے چلے جاتے تھے کہ رسول ﷺ کے بالوں کی برکت سے شفا حاصل کریں؟

حضرت علی کا رسولﷺ کے لعاب دہن سے درد سے نجات پانا
 ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے انہوں نے ابو حازم سے کہا مجھ کو سہل بن سعد نے خبر دی کہ آنحضرت ﷺ نے خیبر کے دن یوں فرمایا میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح کرا دے گا۔ وہ اللہ اور رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ آپﷺ کا یہ فرمانا سن کر لوگ رات بھر کھسر پھسر کرتے رہے کہ دیکھئے جھنڈا کس کو ملتا ہے۔ صبح ہوتے ہی سب لوگ ّآنحضرت ﷺ کے پاس آئے۔ ہر ایک کو امید تھی شائد جھنڈا مجھ کو ملے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ان کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ان کو بلا بھیجو۔ لوگ ان کو لے آئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعابِ دہن لگا دیا اور ان کے لئے دعا کی۔ پھر وہ تو ایسے تندردست ہوئے جیسے کوئی شکوہ ہی نہ تھا۔
  صحیح بخاری، کتاب المغازی، ترجمہ از اہلحدیث علامہ، مولانا وحید الزمان خان

صحابی سلمہ کے زخم کا رسولﷺ کے لعاب دہن سے مندمل ہونا
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے انہوں نے کہا میں نے سلمہ بن اکوع کی پنڈلی میں ایک ضرب کا نشان دیکھا۔ میں نے پوچھا ابو مسلم (سلمہ کی کنیت) یہ نشان کیسا ہے، انہوں نے کہا یہ مار مجھے خیبر کے دن لگی تھی۔ لوگ کہنے لگے سلمہ مارے گئے (ایسی سخت مار لگی) پھر میں آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے تین بار اس پر پھونک مار دی۔ مجھے (اُس دن کے بعد سے) آج تک کوئی تکلیف اس مار (ضرب) کی نہیں ہوئی۔
 صحیح بخاری، کتاب المغازی، ج 2 ص 664 ، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان خان

آل موسیٰ اور آلِ ہارون کے تبرکات سے حصولِ برکت اور جنگوں میں فتح پانا
اللہ قران میں فرماتا ہے:
 وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(القران 2:248)"اور ان کے پیغمبرعلیہ السّلام نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میں پروردگار کی طرف سے سامانِ سکون اور آل موسی ٰعلیہ السّلام اور آل ہارون علیہ السّلام کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے. اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لئے تمہارےُ پروردگار کی نشانی ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو"
یہ وہی سکینہ ہے جو کہ اللہ نے جنگ بدر میں براہ ِراست مومنین کے دلوں میں اتاری تھی۔ مگر یہاں اللہ بنی اسرائیل کے دلوں پر براہ ِراست نازل کرنے کی بجائے انہیں حکم دے رہا ہے کہ وہ اسے اس صندوق کے وسلیے سے حاصل کریں۔
اس تابوتِ سکینہ میں جنابِ موسیٰ (علیہ السلام) اور جنابِ ہارون(علیہ السلام) کے تبرکات تھے جیسے عصا، عمامہ، اور نعلین شریف وغیرہ۔ اور بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ جنگ کے دوران اس تابوتِ سکینہ کو اپنے سامنے رکھیں تاکہ اس کی برکت و وسیلے سے دشمنوں پر فتح پا سکیں (دیکھیں تفسیر ابن کثیر، تفسیر طبری و قرطبی وغیرہ)
اس واضح ثبوت کے باوجود اہلحدیث حضرات ہیں کہ یہ دعویٰ کیے جا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری مدد کر سکتے ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں۔

حضرت عائشہ کا رسولﷺ کے ہاتھوں کو ان کی بیماری اور درد سے نجات کے لیے استعمال
 مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرتﷺ مرض الموت میں معوذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ جب آپﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو میں پڑھ کر آپ ﷺ پر پھونکتی اور آپﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم پر پھیراتی برکت کے لئے، معمر نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیر لے۔
 صحیح بخاری، کتاب الطب، ج 3 ص 338۔339 ، ترجمہ از اہلحدیث عالم مولانا وحید الزمان خان صاحب
 ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا مجھ سے عبد ربہ بن سعید نے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرت ﷺ بیمار کے لئے (کلمے کی انگلی زمین پر لگا کر) فرماتے بسم اللہ یہ ہماری زمین (مدینہ) کی مٹی ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ (ہمارے مالک کے حکم سے) چنگا (تندرست) کر دے گی۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان خان صاحب

ان جگہوں کا بابرکت ہونا کہ جہاں سے انبیاء کا گذر ہو جاتا ہے
اللہ قران میں سامری کا واقعہ بیان کر رہا ہے کہ جبکہ اس نے وہ مٹی اٹھا لی تھی کہ جہاں سے حضرت جبرئیل(علیہ السلام) کے گھوڑے کا گذر ہوا تھا۔ اور اس نے جب یہ بابرکت مٹی اپنے بنائے ہوئے گائے کے گوسالہ میں ڈالی، تو اس کے اثر سے وہ گوسالہ بولنے لگا۔
اللہ قران میں فرما رہا ہے:
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے کہا کہ میں نے وہ دیکھا ہے جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا ہے تو میں نے نمائندہ پروردگار کے نشانِ قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھالی اور اس کو گوسالہ کے اندر ڈال دیا اور مجھے میرے نفس نے اسی طرح سمجھایا تھا (القران 20:96)
نوٹ:
قران کی تمام تفاسیر اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں نمائندہ پروردگار سے مراد جبرئیل امین(علیہ السلام) ہیں۔ (دیکھئیے تفسیر ابن کثیر و طبری وغیرہ)
یہ بات بھی آپ لوگ ذہنوں میں رکھیے کہ مولانا مودودی نے پہلی صدی سے لیکر اس چودھویں صدی تک کے تمام مفسرین کے برخلاف اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ اس مٹی میں کوئی برکت وغیرہ تھی۔(کیونکہ یہ بات انکے سلفی عقائد کے خلاف جا رہی ہے) مگر اس معاملے میں قران اور احادیث اسقدر واضح ہیں کہ حتیٰ کہ سعودی عرب کے اردو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ شائع ہونے والے قران میں بھی اہلحدیث عالم نے یہ مانا ہے کہ اس مٹی میں حضرت جبرئیل(علیہ السلام) کے گذر جانے کہ وجہ سے برکت پیدا ہو گئی تھی۔

نابینا صحابی کا اُس جگہ سے برکت حاصل کرنا جہاں رسولﷺ نے نماز ادا کی تھی
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے کہا مجھ سے عقیل بن خالد نے انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا مجھ سے محمود بن ربیع انصاری نے بیان کیا کہ حضرت عتبان بن مالک رسولﷺ کے صحابہ میں سے تھے اور ان انصاری لوگوں میں جو بدر کی لڑائی میں حاضر تھے۔ وہ آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میری بینائی بگڑی معلوم ہوتی ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں۔ جب مینہ برستا ہو اور وہ نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے بیچ میں ہے تو میں ان کی مسجد میں نہیں جا سکتا کہ ان کے ساتھ نماز پڑھوں۔ میں چاہتا ہوں یا رسول اللہ! آپ میرے پاس تشریف لائیے اور میرے گھر میں نماز پڑھ دیجئے کہ میں اس جگہ کو نماز گاہ بنا لوں۔ راوی نے کہا آنحضرتﷺ نے عتبان سےفرمایا اچھا میں ایسا کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ عتبان نے کہا پھر (دوسرے دن) صبح کو آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق دونوں مل کر دن چڑھے میرے پاس آئے۔ آنحضرتﷺ نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی۔ آپﷺ اندر آئے اور ابھی بیٹھے بھی نہیں کہ آپﷺ نے فرمایا تو اپنے گھر میں کس جگہ پسند کرتا ہے میں وہاں نماز پڑھوں؟ عتبان نے کہا میں نے آپﷺ کو گھر کا ایک کونہ بتا دیا تو آپﷺ کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا۔ ہم بھی کھڑے ہوئے اور صف باندھی۔ آپﷺ نے دو رکعات (نفل) پڑھ کر سلام پھیرا اور ہم نے کچھ حلیم تیار کر کے آپﷺ کو روک لیا (جانے نہ دیا)
 صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان خان

مقامِ ابراہیم میں برکت
اسی طرح اللہ قران میں اس جگہ کا ذکر کر رہا ہے کہ جہاں حضرت ابراہیم(علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر کعبہ کی دیوار تعمیر کی تھی۔
 فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں مقام ابراہیم علیہ السّلام ہے اور جو اس میں داخل ہوجائے گا وہ محفوظ ہو جائے گا (القران 3:97)

وہ چشمہ کہ جہاں حضرت صالح کی اونٹنی نے پانی پیا تھا
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا کہا ہم سے انس بن عیاض نے انہوں نے عبید اللہ عمری سے انہوں نے نافع سے ان سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا لوگ (غزوہ تبوک میں) آنحضرتﷺ کے ساتھ حجر میں جا کر اترے۔ وہاں کے کنویں سے مشکیں بھریں آٹا گوندھا، آنحضرتﷺ نے یہ حکم دیا کہ پانی (جو مشکوں میں تھا) بہا ڈالیں اور آٹا جو اس سے گوندھا تھا، وہ اونٹوں کو کھلا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کنویں کا پانی لو جس کا پانی حضرت صالح(علیہ السلام) کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔ عبید اللہ کے ساتھ اس حدیث کو اسامہ نے بھی نافع سے روایت کیا ہے۔
 صحیح بخاری، کتاب بدءالخلق، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان خان صاحب

حضرت انس کا رسولﷺ کے بال کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہونا
ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس نے فرمایا:
یہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا ایک بال مبارک ہے ۔ پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہی میں نے وہ بال ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔
حوالہ: الاصابہ فی تمیز الصحابہ71:1

عبد اللہ ابن عمر کا رسولﷺ کے منبر سے برکت حاصل کرنا
قاضی عیاض بیان کرتے ہیں:
اور عبداللہ ابن عمر کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ، جہاں رسولﷺ تشریف فرما ہوتے تھے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔
حوالہ: الشفاء620:2

رسولﷺ کی پہنی ہوئی چادر کو حصولِ برکت کے لیے اپنا کفن بنانا
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا کہا ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے سہل بن سعد ساعدی سے کہ ایک عورت آنحضرتﷺ کے پاس آئی اور ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپﷺ کے لئے تحفہ لائی۔ تم جانتے ہو چادر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا شملہ، سہل نے کہا ہاں شملہ۔ خیر وہ کہنے لگی یہ میں نے اپنےہاتھ سے بنی ہے اور میں اس لئے لائی ہوں کہ آپﷺ اس کو پہنیں۔ آنحضرتﷺ کو چادر کی اس وقت احتیاج تھی۔ آپﷺ نے لے لی۔ باہر نکلے تو اسی کی تہ بند باندھے ہوئے ایک شخص (عبدالرحمن بن عوف) کہنے لگے کیا عمدہ چادر ہے۔ یہ مجھ کو عنایت کیجیئے۔ لوگوں نے عبد الرحمن سے کہا تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم جانتے ہو کہ آنحضرتﷺ کو چادر کی ضرورت تھی۔ آپﷺ نے اس کو پہن لیا پھر تم نے کیسے مانگی؟ تم یہ بھی جانتے ہو کہ آپﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن نے کہا خدا کی قسم! میں نے پہننے کے لئے نہیں مانگی بلکہ میں (نے اس لئے مانگی کہ) اس کو اپنا کفن کروں گا۔ سہل نے کہا پھر وہ ان کے کفن میں شریک ہوئی
 صحیح بخاری، کتاب الجنائز، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان خان صاحب
اسی طرح کی ایک حدیث یہ بھی ہے کہہ:
جب شیرِ خدا مولا علی (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول ﷺ نے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقع آیا تو رسول ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔

المعجم لاکیبر للطبرانی 24:2

الاستیعاب ابن عبد البر 282:4

اسد الغابہ 213:7

الاصابہ فہ تمیز الصحابہ 380:4

صحابہ کرام کا نبی اکرمﷺ کے لعابِ دہن اور وضو کے پانی کو بطورِ تبرکات استعمال
سن 6 ہجری میں رسولﷺ صحابہ کے ساتھ حج کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف تشریف لے گڑے تو راستے میں مشرکین نے ان کو روک لیا۔ آپﷺ چونکہ حج کے ارادے سے نکلے تھے اسلئے آپﷺ نے لڑائی کا عندیہ ظاہر نہیں کیا اور دو طرفہ سفارتی مذاکرات جاری ہوئے۔ جب عروہ بن مسعود (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے) سفیر بن کر آئے تو انہوں نے واپس جا کر مشرکین سے یہ کہا:
اے قوم! اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے ہاں بھی گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اسحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسی محمدﷺ کے اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے جب کبھی لعاب دہن پہینکا ہے تو ہو آپﷺ کے اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب ہو وضو فرماتے ہیں تو وہ ان کے وضو کے پانی کے حصول کے لیے باہم جھگڑنے کہ نوبت تک پہنچ جاتی ہے۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں پست کر لیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے پس تم اسے قبول کر لو۔
 صحیح بخاری، کتاب الشروط، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان خان
حضرت حجاج بن حسان بیان کرتے ہیں:
ہم حضرت انس کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کہ تین مادہ گوہ اور لوہے کا ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ اور حضرت انس کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور رسول ﷺ پر درود پڑھا۔
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔

مسند احمد بن حنبل 187:3

البدایہ و النہایہ 370:4

حضرت ابو بردہ روایت کرتے ہیں:
مجھے عبد اللہ بن سلام نے کہا: کہا میں آپ کو اس پیالے میں پانی نہ پلاؤں جس میں نبی ﷺ نے پانی نوش فرمایا تھا؟
صحیح بخاری 842:2
حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں:
رسول ایک دن اپنے صحابہ کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا کہ مجھے پانی پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں پانی پلایا۔ ابو حازم نے کہا: سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اورا ہم نے بھی اس میں پانی پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبد العزیز نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل نے ہی پیالہ ان کو دے دیا اور ابو بکر ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ اس نے کہا: اے سہل، ہمیں پانی پلاؤ۔
صحیح مسلم، کتاب الاشربہ

رسولﷺ کی کلی کے پانی سے حصولِ برکت
حضرت ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں:
میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا جب آپﷺ جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس آیا اور بولا: اے محمد! کیا آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپﷺ نے اسے فرمایا: خوش ہو جاؤ۔ وہ بولا:آپﷺ نے بہت دفعہ کہا ہے کہ خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر رسولﷺ غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم نے خوشخبری کو قبول کیا۔ پھر آپﷺ نے ایک پیالہ پانی کا منگوایا اور دونوں ہاتھ اور چہرہ دھوئے اور اس میں کلی کی۔ پھر فرمایا کی اسے پی جاؤ اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپﷺ نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی: اپنی ماں کے لیے بھی اپنے برتنوں میں سے بچاؤ۔ پس انہوں نے ان کے لیے بھی کچھ پانی رکھ لیا۔
 صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 721، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور
 صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 722، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور

رسول اللہ ﷺ کا نوزائیدہ بچوں کے منہ میں برکت کے لئے اپنا لعابِ دہن دینا
حضرت اسماء بنت ابو بکر بیان کرتی ہیں:
میں مکہ میں ہی عبداللہ بن زبیر سے حاملہ ہو گئی تھی۔ حمل کے دن پورے ہونے کو تھے کہ میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئی۔ میں پبا میں اتری اور قباء میں یہ میرا بچہ (عباللہ بن زبیر) پیدا ہوا۔ پھر میں اسے رسولﷺ کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپﷺ کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپﷺ نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچے کے منہ مین لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپﷺ کا لعاب تھا۔ پھر آپﷺ نے اس کے تالو میں کھجور لگا دی اور اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔
 صحیح مسلم، کتاب الاداب، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ اشرفیہ، لاہور
تقریباً 100 کے قریب انصار اور مہاجرین کے نام اسناد کے ساتھ کتابوں میں موجود ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لعابِ دہن سے برکت حاصل کی۔
کیا اب بھی کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مدد اور فائدہ طلب کرنا شرک ہے اور وہی عمل ہے جو کی کفار اپنے بتوں سے مدد اور فائدہ مانگتے ہوئے کیا کرتے تھے؟

رسولﷺ کے موئے مبارک سے حصولِ برکت
حضرت انس سے روایت ہے:
جب رسول ﷺحج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے سر کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا۔ اس نے بال مبارک مونڈھ دیے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت طلحہ کو بلایا اور وہ بال ان کو دے دیے ۔ اس کے بعد حجام کے سامنے دوسری جانب فرمائی۔ اس نے ادھر کے بال بھی مونڈھ دیے۔ رسول ﷺ نے وہ بال حضرت ابو طلحہ کو دیے اور فرمایا کہ یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔
 صحیح مسلم، کتاب، کتاب الحج ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ اشرفیہ لاہور
حضرت انس سے مروی ہے:
میں نے رسول ﷺ کو دیکھا کہ حجام رسول ﷺ کے سر مبارک کی حجامت بنا رہا ہے اور صحابہ کرام رسول ﷺ کے گرد حلقہ باندحے ہوئے کھڑے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسول ﷺ کا جو بال بھی گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔

صحیح مسلم 256:2

مسند احمد بن حنبل 137:3

ابن سیرین بیان کرتے ہیں:
میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس بنی اکرم ﷺ کے بال مبارک ہیں جن کو میں نے انس یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر ان میں ایک بال میرے پاس ہو تو وہ بال مجھے ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے زیادہ محبوب ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الوضو

حضورﷺ کے پسینہ مبارک سے فائدہ و برکت حاصل کرنا
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کیا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نےکہا مجھ سے میرے والد نے انہوں نے ثمامہ سے انہوں نے انس سے، کہ ام سلیم (ان کی والدہ) آنحضرتﷺ کے لئے ایک چمڑا بچھاتیں۔ آپﷺ اسی چمڑے پر ان کے پاس دن کو سو رہتے۔ جب آپﷺ سو جاتے تو ام سلیم کیا کرتیں، آپﷺ کے بدن کا پسینہ اور بالوں کو لیکر ایک شیشی میں ڈالتیں اور خوشبو میں ملا لیتیں (برکت کے لئے)۔ آپﷺ سوتے رہتے، ثمامہ کہتے ہیں جب حضرت انس مرنے لگے تو انہوں نے وصیت کی اُن کے کفن پر وہی خوشبو لگائی جائے، آخر وہی خوشبو اُن کے کفن پر لگائی گئی۔
 صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان
اسی طرح کی دوسری روایت ہے:
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ رسولﷺ کو پسینہ آیا اور میری والدہ ایک شیشی لیکر آئیں اور آپﷺ کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرمﷺ بیدار ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: اے ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کی: یہ آپﷺ کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے۔
صحیح مسلم جلد2، صفحہ 258

صحابی کا حضورﷺ کے عصا مبارک کو قبر میں حصولِ برکت کے لیے ساتھ رکھ کر دفن ہونا
مسند احمد بن حنبل، جلد 3
قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ اَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، اَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ، سَمِعَهُ مِنْ، رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّ قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَانِي فَقَالَ اَفْلَحَ الْوَجْهُ قَالَ قُلْتُ قَتَلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ ثُمَّ قَامَ مَعِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ فِي بَيْتِهِ فَاَعْطَانِي عَصًا فَقَالَ اَمْسِكْ هَذِهِ عِنْدَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ اُنَيْسٍ قَالَ فَخَرَجْتُ بِهَا عَلَى النَّاسِ فَقَالُوا مَا هَذِهِ الْعَصَا قَالَ قُلْتُ اَعْطَانِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاَمَرَنِي اَنْ اَمْسِكَهَا قَالُوا اَوَلَا تَرْجِعُ اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْاَلَهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ فَرَجَعْتُ اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ اَعْطَيْتَنِي هَذِهِ الْعَصَا قَالَ ايَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِنَّ اَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُونَ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَرَنَهَا عَبْدُ اللَّهِ بِسَيْفِهِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّى اِذَا مَاتَ اَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهُ فِي كَفَنِهِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِيعًا
عبداللہ بن انیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
جب میں نبیﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو نبیﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: کامیاب ہونے والا چہرہ۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان) کو قتل کر دیا ہے۔ تو اس پر رسولﷺ نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ پھر رسولﷺ میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا: اے عبداللہ! اسے اپنے پاس رکھ۔ تو جب میں یہ عصا لیکر لوگوں کے سامنے نکلا تو انہوں نے کہا کہ یہ عصا کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ مجھے رسولﷺ نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھوں۔ تو لوگوں نے مجھے کہا: کہا تم اسے رسولﷺ کو واپس نہیں کرو گے، تم اس کے متعلق رسولﷺ سے پوچھو؟ تو عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ عصا مبارک آپ نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہو گی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ عبداللہ نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہو گیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو میرے کفن میں رکھ دیا جائے۔ تو جب ان کا انتقال ہوا تو ہم نے ان کو اکھٹے دفن کر دیا۔
انس بن مالک سے ایک اور روایت ہے:
 البدایہ وا لنہایہ
حدثنا ابو شيبة ابراهيم بن عبد الله بن محمد، ثنا مخول بن ابراهيم، ثنا اسرائيل عن عاصم، عن محمد بن سيرين، عن انس بن مالك انه كانت عنده عصية لرسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم فمات فدفنت معه بين جنبه وبين قميصه‏
کہ ان کے پاس رسولﷺ کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ چھڑی ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔

رسولﷺ کے ہاتھ اور پاؤں کو چوم کر صحابہ کا برکت حاصل کرنا
انس بن مالک روایت کرتے ہیں:
اللہ کے رسولﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدام مدینہ اپنے پانی سے بھرے ہوئے برتن لے کر آتے۔ آپﷺ ہر پانی لانے والے کر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات یہ واقعہ موسم سرما کی صبح میں ہوتا اور آپﷺ اپنا ہاتھ اس میں ڈبو دیتے
صحیح مسلم جلد 2، صفحہ 356
عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں:
وہ کچھ اور صحابہ کے ساتھ ایک دفعہ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ پھر جب پشیمان ہوئے تو پھر واپس مدینے جانے کا عزم کیا اور رسولﷺ کے پاس آ کر کہنے لگے: یا رسول اللہﷺ ہم بھاگنے والوں میں سے ہیں۔ رسولﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
نہیں تم پھر لڑائی میں آنے والے ہو۔ عبداللہ ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر ہم آپﷺ کے نزدیک گئے اور آپﷺکا ہاتھ مبارک چوما۔

سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد

سنن ابن ماجہ 271

جامع الترمذی 205:1

امِ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع۔۔۔ جو وفدِ عبد القیس کے رکن تھے۔۔۔۔ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا:
جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور اللہ کے پیارے رسولﷺ کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے۔
سنن ابو داؤد، کتاب الادب
امام بخاری نے یہ روایت ام ابان سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے کہ ان کے دادا وازع بن عمر نے کہا:
ہم مدینے پہنچے تو کہا گیا: وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں۔ پس ہم نے آپﷺ کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑے اور انہیں چوما۔
الادب المفرد 339 رقم 975
صفوان بن عسال روایت کرتے ہیں:
 یہودیوں کے ایک وفد نے نبیﷺ کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کا بوسہ لیا۔

سنن ابن ماجہ 271

جامع الترمذی 98:2

مصنف ابن ابی شیبہ 562:8

مسند احمد بن حنبل 239:4

المستدرک الحاکم 9:1

امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔

اہلحدیث حضرات اور توہینِ حجر الاسود
اہلحدیث حضرات اس ایک واقعہ کا بہت پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب نے حجر الاسود کو مخاطب کر کے کہا کہ:
تو صرف ایک پتھر ہے اور مجھے پتا ہے کہ تجھ میں نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے چوم رہے ہیں، تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔
صحیح بخاری، کتاب الحجر
بدقسمتی سے اہلحدیث حضرات اس واقعے کا صرف پہلا حصہ بیان کرتے ہیں اور دوسرے حصے کو مکمل ہڑپ کر جاتے ہیں کیونکہ وہ انکے خود ساختہ عقائد کے خلاف جا رہا ہے۔
پورا واقعہ یوں ہے:
حضرت عمر ابن الخطاب جب کعبہ کی زیارت کو گئے تو حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا: تم کچھ (نفع یا نقصان) نہیں کر سکتے ہو، مگر میں تمہیں صرف اس لئے چومتا ہوں تاکہ رسول ﷺ کی سنت کی پیروی کر سکوں۔
علی (ابن ابی طالب) نے (حضرت عمر ابن خطاب کی یہ بات) سن کر کہا: میں نے رسول ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ حجرِ اسود قیامت کے روز لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ [یہ حدیث الترمذی، النسائی، البیہقی، الطبرانی اور امام بخاری کی تاریخ میں نقل ہوئی ہے]۔ یہ سن کر حضرت عمر ابن خطاب نے علی ابن ابی طالب کا شکریہ ادا کیا۔
ماخذ:  Religion reformers in Islam
[نوٹ: اہلحدیث حضرات یہ بہانہ کرتے ہیں امام بخاری نے اپنی صحیح میں صرف اس روایت کا پہلا حصہ ذکر کیا ہے۔ مگر انکی یہ دلیل کیونکر قابل قبول ہو سکتی ہے جب امام بخاری نے بذات خود اپنی تاریخ میں یہ مکمل واقع نقل فرمایا ہے]
چنانچہ علی ؑابن ابی طالب نے یہ بات واضح کر دی کہ شعائر اللہ کی تعظیم کرنے سے وہ ہمیں نفع پہنچائیں گے اور ان کی بے حرمتی نقصان کا باعث ہے۔ اور رسول ص کی مکمل حدیث پتا چلتے ہیں حضرت عمر ابن الخطاب نے بلا دیر اور چوں چرا کیے اسے قبول فرما لیا۔ مگر اگر کسی نے اپنے خود ساختہ عقائد کو تقویت دینے کے لیے اس حدیث رسول سے منہ موڑے رکھا ہے، تو وہ یہ اہلحدیث حضرات ہیں۔
یہ حضرات آج بھی اس مکمل روایت کوچھپا جاتے ہیں، اور اگر کوئی اسے مکمل بیان کر بھی دے، تو بہانے بنا کر اسے جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان بہانوں پر آگے تفصیل سے روشنی ڈالیں گے، لیکن پہلے آپ کی خدمت میں اس روایت کے چند اور ورژن پیشِ خدمت ہیں۔
یہی حدیث شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنی کتاب "غنیۃ الطالبین" میں یوں نقل کی ہے:
ابو سعید خدری کہتے ہیں: میں حضرت عمر ابن خطاب کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں آپ کے ساتھ حج کو گیا۔حضرت عمر ابن خطاب مسجد میں آئے اور حجر اسود کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور پھر حجر اسود سے مخاطب ہو کر کہا کہ تو ہر صورت میں پتھر ہے اور تو نہ کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ضرر۔ اگر میں نے رسول ص ﷺ کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے ہرگز نہ چومتا۔ حضرت علیؑ نے فرمایا: ایسا نہ کہیے، یہ پتھر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نفع بھی، مگر نفع اور نقصان اللہ کے حکم سے ہے۔ اگر آپ نے قران پڑھا ہوتا اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اُس کو سمجھا ہوتا تو ایسا نہ فرماتے۔ حضرت عمر ابن خطاب نے کہا اے ابوالحسن، آپ ہی فرمائیے کہ قران میں اس کی کیا تعریف ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا تو انہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا اور اس کے بعد اس پتھر کو بلایا اور اس صحیفے کو اس کے پیٹ میں بطور امانت کے رکھ دیا۔ پس یہ وہی پتھر اس جگہ اللہ کا امین ہے تاکہ قیامت کے دن یہ گواہی دے کہ وعدہ وفا ہوا یا نہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر ابن خطاب نے کہا: اے ابوالحسن، آپ کے سینے کو اللہ نے علم اور اسرار کا خزینہ بنا دیا ہے۔
غنیۃ الطالبین، عبدالقادر جیلانی، صفحہ 534، مطبوعہ مکتبِ ابراہیمیہ، لاہور، پاکستان
متقی الہندی نے یہی روایت تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ اپنی حدیث کی کتاب "کنزالاعمال" میں یوں نقل کی ہے۔
12521- عن أبي سعيد الخدري قال: حججنا مع عمر بن الخطاب، فلما دخل الطواف استقبل الحجر فقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك، ثم قبله، فقال علي بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين إنه يضر وينفع، قال: بم؟ قال: بكتاب الله عز وجل قال: وأين ذلك من كتاب الله؟ قال: قال الله تعالى: { وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم} إلى قوله: بلى، خلق الله آدم ومسح على ظهره فقررهم بأنه الرب وأنهم العبيد وأخذ عهودهم ومواثيقهم وكتب ذلك في رق (في رق: والرق بالفتح: الجلد يكتب فيه والكسر لغة قليلة فيه وقرأ بها بعضهم في قوله تعالى: "في رق منشور".انتهى.(1/321) المصباح المنير. ب) وكان لهذا الحجر عينان ولسانان فقال: افتح فاك ففتح فاه، فألقمه ذلك الرق، فقال: اشهد لمن وافاك بالموافاة يوم القيامة وإني أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يؤتى يوم القيامة بالحجر الأسود وله لسان ذلق يشهد لمن استلمه بالتوحيد فهو يا أمير المؤمنين يضر وينفع، فقال عمر: أعوذ بالله أن أعيش في قوم لست فيهم يا أبا الحسن.
ابو سعید خدری کہتے ہیں:
ہم نے حضرت عمر ابن خطاب کے ساتھ حج کیا۔ چنانچہ جب وہ طواف کرنے لگے تو حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا:
“میں جانتا ہوں کہ تم صرف ایک پتھر ہو جو کہ نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اور اگر میں نے رسول ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا، تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔"
علی (ابن طالب) نے (حضرت عمر کو) کہا: "یہ (پتھر) نفع بھی پہنچا سکتا ہے اورنقصان بھی۔"حضرت عمر (ابن خطاب) نے پوچھا: “وہ کیسے"، اس پر علی نے جواب دیا: “کتاب اللہ کی رو سے۔" حضرت عمر نے کہا: “پھر آپ مجھے بھی یہ بات قران میں دکھائیے۔" علی نے کہا کہ اللہ قران میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا تو انہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا۔ اور اس پتھر کے دو لب اور دو آنکھیں تھیں، چنانچہ اللہ کے حکم سے اس نے اپنا منہ کھولا اور یہ صحیفہ اس میں رکھ دیا اور اس سے کہا کہ میرے عبادت گذاروں کو جو حج پورا کرنے آئیں، اُن کو اس بات کی گواہی دینا۔
اور میں رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائے گا، اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو کہ اُن لوگوں کی شہادت دے گی جو توحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھر نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔" یہ سن کر حضرت عمر نے کہا۔ "اعوذ باللہ کہ مجھے لوگوں میں ایسے رہنا پڑے کہ جن میں اے ابوالحسن (علی) آپ نہ موجود ہوں۔"

متقی الہندی، کنزالاعمال، فی فضائل مکہ (المحدث سوفٹ ویئر میں اس حدیث کا نمبر 12521 ہے

ابو الحسن القطان نے الطوالات میں۔

حاکم نے اپنی کتاب "المستدرک"، جلد 1، صفحہ 457 پر۔

اہلحدیث حضرات کے اس حدیث پر اعتراضات
چونکہ ایک طرف یہ حدیث اہلحدیث حضرات کے عقائد کا مکمل قلع قمع کر رہی ہے اس لئے اُن کے لئے لازمی تھا کہ کسی نہ کسی بہانے اس حدیث کا انکار کریں۔
اور کسی بھی حدیث کو جھٹلانے کا سب سے بہتر ہتھیار انکے پاس یہ ہے کہ اُس کے متن کو دیکھنے کے بجائے، اُس کے سلسلہ رواۃ میں شک پیدا کر کے اُسے ضعیف قرار دے دیا جائے۔
اس روایت کے ساتھ بھی انہوں نے یہی حشر کرنا چاہا ہے۔ اور اُنکا پورا استدلال یہ ہے کہ الذھبی نے یہ روایت حاکم سے نقل کی ہے اور پھر اس کے ایک راوی "ابی ہارون" کو ساقط قرار دیا ہے۔
جواب 1:
کیا اہلحدیث حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ رسول ﷺ نے پوری امت کو ایک بیکار اور مشرکانہ فعل میں مبتلا کر دیا ہے؟
رسول ص ﷺ کی اپنی زندگی میں ہزاروں واقعات ایسے ہیں، جو کہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ہر وہ چیز جو کہ اولیاء اللہ سے مس ہو، وہ بابرکت ہو جاتی ہے۔
پچھلے ابواب میں ہم نے تفصیل سے وہ احادیث نقل کی ہیں کہ جن میں صحابہ کرام پوری زندگی رسول ﷺ کے تبرکات سے نفع اور برکت حاصل کرتے رہے مثلاً آپ ﷺ کے بال، ناخن، عصا، قمیض، لعاب دہن، وضو کا پانی۔۔۔۔۔

یاد کریں وہ حدیث جب ام المومنین جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر بیماروں کو شفا دینے کے لئے رسول ﷺ کا کمبل پانی میں بھگو کر دیتی تھیں۔

اور یاد کریں وہ حدیث کہ ام المومنین ام سلمہ (ر) نطرِ بد اور بیماری کے خلاف رسول ﷺ کے بالوں کو پانی میں بھگو کر دیتی تھیں۔

اور یاد کریں وہ حدیث کہ جب رسول ﷺ نے مولا علی ؑ اور صحابی سلمہ کو اپنے لعاب دہن سے نفع پہنچایا۔۔۔۔۔۔

اسی طرح کیا اہلحدیث حضرات نے قران نہیں پڑھا جس میں صاف لکھا ہے کہ آلِ موسیٰ و آلِ ہارون کے تبرکات میں وہ برکت تھی کہ جس کی وجہ سے اُس صندق کو اللہ نے تابوتِ سکینہ قرار دے دیا۔

اور وہ مٹی جہاں سے حضرت جبرئیل ؑ کا گذر ہو گیا (بلکہ جہاں اُن کے گھوڑے کا پاؤں پڑا)، وہ مٹی اتنی بابرکت ہو گئی کہ اُس کے اثر سے گوسالہ بولنے لگا۔

اور یوسف ؑ کی قمیض میں وہ برکت تھی کہ جس نے گئی ہوئی بینائی کو لوٹا دیا۔۔۔۔

حضرت عمر ابن خطاب نے قران و حدیث رسول سامنے آتے ہی حق کو بلا تردد کے قبول کر لیا، لیکن حیرت تو اہلحدیث حضرات پر ہے جو اب تک یہی ایمان لائے بیٹھے ہیں کہ حجر اسود کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور جو ایسا اعتقاد رکھے، وہ مشرک ہے۔
تو جناب، حجر اسود تو اللہ کی وہ نشانی ہے کہ جسے ہزاروں انبیاء نے لاتعداد بار چوما ہے۔ اب پتا نہیں کہ اسے انبیاء کے چومنے سے برکت ملی، یا انبیاء کو اسے چومنے سے برکت ملی، مگر وہ شخص جاہلِ مطلق ہے جو اب بھی اس کو نفع و نقصان کا حامل نہ سمجھے، چاہے وہ مدینہ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا مفتیِ اعظم ہی کیوں نہ ہو۔
اور جو علی ابن ابی طالب ؑ نے فرمایا:
 ۔۔۔۔حضرت علیؑ نے فرمایا: ایسا نہ کہیے، یہ پتھر نقصان بھی پہنچا سکتا ہے اور نفع بھی، مگر نفع اور نقصان اللہ کے حکم سے ہے۔۔۔۔ (غنیۃ الطالبین، عبدالقادر جیلانی)
تو باخدا بس یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ بیشک اولیاء اللہ مسلمانوں کو اللہ کے حکم و اجازت سے نفع پہنچا سکتے ہیں اور بیشک نفع و نقصان اللہ کے حکم سے ہی ہے۔
جواب 2:
ہمیں پتا ہے کہ اب بھی اہلحدیث حضرات بھاگنے کے چکر میں رہتے ہیں اور یہ سب ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ تو اِن کی خدمت میں یہ ایک حدیث اور پیش کر کے اپنی طرف سے ہم اتمام حجت کرتے ہیں:
113 - باب مَا جَاءَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ
976 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْحَجَرِ ‏"‏ وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ ‏" قَالَ اَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
قتیبہ نے جریر سے، اُس نے ابن خثیم سے، اُس نے سعید بن جبیر سے، اُس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ نے حجر الاسود کے متعلق فرمایا:
خدا کی قسم، اللہ اس (حجر اسود) کو روزِ قیامت آنکھیں عطا کرے گا جو انہیں دیکھیں گی، اور زبان عطا کرے گا جو اُن کے حق میں شہادت دیں گی جنھوں نے اُس کے ساتھ صحیح سلوک کیا ہے۔
ابو عیسی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے
حوالہ:   سنن ترمذی، کتاب الحج
اگر کوئی اب بھی نہ مانے اور حجر اسود کو نفع و نقصان نہ پہنچانے والا عام پتھر سمجھے، تو جان لیجئے کہ اللہ نے اُس کے دلوں پر تالا ڈال دیا ہے اور اس شخص کو ہدایت نہیں کی جاسکتی۔

اللہ سے براہ راست مانگنا یا پھر رسول ﷺ کے وسیلے اللہ سے مانگنا؟
اہلحدیث حضرات کا رسول ﷺ کے وسیلے سے مانگنے سے انکار کرنا
اہلحدیث حضرات کا خود ساختہ عقیدہ یہ ہے کہ انسان اللہ سے صرف اور صرف براہ راست طلب کر سکتا ہے۔ اور اگر کوئی مسلمان اللہ کو رسول ﷺ کے وسیلے سے طلب کرتا ہے تو یہ حضرات فوراً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ:

کیا اللہ (نعوذ باللہ) بہرا ہے جو وہ ہمیں براہِ راست نہیں سن سکتا ہے؟

اور کیا اللہ (نعوذ باللہ) اندھا ہے جو وہ ہمیں براہ راست نہیں دیکھ سکتا ہے؟

اور پھر قران کی وہ آیت نقل کرتے ہیں جس میں اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
(القران 50:16) (اللہ کہہ رہا ہے) اور ہم اس (انسان) کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
اور دوسری یہ آیت پیش کرتے ہیں:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
(القران 2:186) جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو بیشک میں ان کے بہت قریب ہوں۔ میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔
اِن آیات کو بنیاد بنا کر اہلحدیث حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے اور بندے کے درمیان رابطہ کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔۔۔۔ تو پھر کسی دوسرے کی طرف کیوں دیکھا جائے؟؟
ہمارا جواب:
اہلحدیث حضرات قران و حدیث کے صرف ایک حصے کو لیکر اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور دوسرے حصے کو انہوں نے مکمل طور پر ٹھکرایا ہوا ہے اور کسی طرح راضی نہیں ہیں کہ اُس سے بھی ہدایت حاصل کریں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قران و سنت اس حوالے سے کیا کہہ رہے ہیں۔

اللہ اپنے رسول ﷺ کو اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان شامل کرنا چاہتا ہے، جبکہ اہلحدیث رسول ﷺ کو درمیان سے نکال دینا چاہتے ہیں
اللہ تعالیٰ قران میں فرماتا ہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
(القران 6:64) اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو اگر وہ آپ کے پاس آ جاتے اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور پھر رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔
تمام مفسرین (بشمول اہلحدیث) اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کچھ صحابہ نے بہت ہی سنگین غلطی کی تھی۔ بعد میں انہیں اپنی اس غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے چاہا کہ اس کی توبہ کریں۔
اور انہوں نے اللہ اسے براہ راست اپنے گناہ کی توبہ چاہی، مگر اللہ نے انہیں معاف نہیں کیا بلکہ غور سے دیکھیں کہ اللہ انہیں کیا جواب دے رہا ہے:

اللہ نے ان کی معافی کی براہِ راست درخواست کر رد کر دیا۔

اور پھر اللہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پہلے رسول ﷺ کے پاس جائیں اور پھر اللہ سے استغفار کریں۔

اور آخری شرط یہ رکھی کہ وہ رسول ﷺ سے بھی درخواست کریں کہ وہ بھی اللہ سے اُن کے لیے معافی کی درخواست طلب کریں (یعنی ان کے لیے استغفار کریں)۔

اللہ نے اُن صحابہ کو بتا دیا اگر وہ ان تین مراحل پر عمل کریں گے (یعنی رسول ﷺ کو بھی اپنی توبہ کی درخواست میں شامل کریں گے) تو صرف اور صرف اس کے بعد ہی وہ اللہ کو بہت بخشنے والا اور مہربان پائیں گے۔
اب اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات اٹھتے ہیں:

توبہ اور معاف کر دینے کا یہ معاملہ اللہ اور اُن صحابہ کے درمیان تھا (یعنی غلطی صحابہ نے کی، اور معاف کرنے والا اللہ ہے)۔
تو پھر اللہ نے رسول ﷺ کو (کہ جن کی حیثیت اس معاملے میں 3rd Party کی ہے) اس میں اس حد تک کیوں شامل کیا کہ صرف اُن کی شمولیت کے بعد ہی معافی ملے گی؟

کیا اللہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی کو معاف کرنے کے لیے رسول ﷺ کی استغار پر انحصار کرے؟ کیا وہ رسول ﷺ کو شامل کیے بغیر معاف کرنے کی طاقت نہیں رکھتا؟
اگر رکھتا ہے (اور یقیناً رکھتا ہے) تو پھر اِن صحابہ نے براہ راست اللہ سے معافی کیوں نہ مانگ لی اور اللہ نے انہیں براہِ راست ہی معاف کیوں نہیں کر دیا؟

اللہ اپنے رسول ﷺ سےکہہ رہا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے استغفار کریں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ اپنے رسول ﷺ پر یہ زائد ذمہ داری کیوں لگا رہا ہے؟ یعنی یہ غلطی رسول ﷺ نے تو نہیں کی تھی، تو پھر رسول ﷺ پر دوسروں کے گناہوں کے استغفار کا یہ زائد بوجھ کیوں؟

یاد رکھیں کہ اہلحدیث حضرات کا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ اس معاملے میں رسول ﷺ کو اس لیے شامل کیا گیا کیونکہ اُن صحابہ (یا صحابی) نے رسول ﷺ کے فیصلے کو نہیں مانا تھا اور اس لیے انہیں حکم دیا گیا کہ وہ رسول ﷺ کے پاس جائیں۔
مگر یہ محض ایک بہانہ ہے۔ اگر اُن صحابہ (یا صحابی) نے رسول ﷺ کے فیصلے کو نہیں مانا تھا تو انکو (یا اُس صحابی کو) رسول ﷺ سے معافی مانگنی چاھیئے تھی اور رسول ﷺ کو چاہئے تھا کہ انہیں معاف کر دیں۔
مگر یہاں تو اللہ اپنے رسول ﷺ سے کہہ رہا ہے کہ رسول ﷺ خود معاف کر دینے کی بجائے اُن صحابہ (یا صحابی) کے لیے اللہ سے استغفار کریں اور خود معاف کر دینے میں اور اللہ سے استغفار کرنے میں بہت فرق ہے جو اہلحدیث حضرات اپنے بھونڈے عقائد کی وجہ سے نہیں دیکھ پا رہے۔
اور اِن کے اس بہانے کا پول اس بات سے بھی کھل جاتا ہے کہ یہ واحد جگہ نہیں ہے جب اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی امت کے گنہگاروں کے لیے استغفار کریں، بلکہ قران میں اللہ بار بار یہ فریضہ اپنے رسول ﷺ کے سپرد کر رہا ہے کہ وہ اپنی امت کے لیے استغفار کریں۔
(القران 3:159) ۔۔۔۔۔(اے رسول) ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو۔۔۔۔
(القران 9:80 تا 9:84) آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں -اگر ستر ّمرتبہ بھی استغفار کریں گے تو خدا انہیں بخشنے والا نہیں ہے اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کا انکار کیا ہے اور خدا فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہوئیے
یہ آیت کفار کے لئے ہے کہ اے رسول ﷺ آپ ان کے لئے دعا کریں یا نہ کریں، اللہ انہیں بخشنے والا نہیں۔ مگر اہلحدیث حضرات اس آیت کو مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہوتے ہیں۔
(القران 4:106 اور 4:107) اور اللہ سے (ان لوگوں کے لئے) استغفار کیجئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ اور خبردار جو لوگ خود اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے دفاع نہ کیجئے گا کہ خدا خیانت کار مجرموں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے
(القران 9:103) پیغمبر آپ ان کے اموال میں سے زکوۃ لے لیجئے کہ اس کے ذریعہ یہ پاک و پاکیزہ ہوجائیں اور انہیں دعائیں دیجئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین قلب کا باعث ہوگی
(القران 9:113) نبی اور صاحبانِ ایمان کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے حق میں استغفار کریں
(القران 24:62) وہی اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں لہذا جب آپ سے کسی خاص حالت کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ جس کو چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے حق میں اللہ سے استغفار بھی کریں کہ اللہ بڑا غفور اور رحیم ہے
(القران 47:19) تو یہ سمجھ لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور اپنے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کرتے رہو کہ اللہ تمہارے چلنے پھرنے اور ٹہرنے سے خوب باخبر ہے
(القران 60:12) تو آپ ان سے بیعت کا معاملہ کرلیں اور ان کے حق میں استغفار کریں
(القران 63:5 اور 63:6) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے حق میں استغفار کریں گے تو سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بنا پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں۔ ان کے لئے سب برابر ہے چاہے آپ استغفار کریں یا نہ کریں خدا انہیں بخشنے والا نہیں ہے۔
بیشک اللہ کو اس بات میں رسول ﷺ کے استغفار کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کو بخشے۔ مگر اللہ پھر بھی قران میں بار بار رسول ﷺ کو استغفار کرنے کا حکم اسی لیے دے رہا ہے کہ ہم سمجھیں کہ رسول ﷺ کو اپنا وسیلہ بنانا ہماری دعاؤوں کی قبولیت کے لیے کتنا اہم ہے۔
کئی سو احادیث موجود ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ صحابہ براہ راست اللہ سے مانگنے کے بجائے، رسول ﷺ کے وسلیے سے مانگا کرتے تھے
پچھلے باب میں ہم نے ایسی بے تحاشہ احادیث بیان کیں ہیں۔ اس لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے ہم یہاں صرف دو احادیث نقل کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں:
صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء 3855
حدثنا ‏ ‏يحيى بن يحيى ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏خالد بن عبد الله ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الملك ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏مولى ‏ ‏أسماء بنت أبي بكر ‏ ‏وكان خال ولد ‏‏ عطاء ‏ ‏قال ‏ ‏أرسلتني ‏ ‏أسماء ‏ ‏إلى ‏ ‏عبد الله بن عمر ‏ ‏فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏ ‏وميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏وصوم رجب كله فقال لي ‏ ‏عبد الله ‏ ‏أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من ‏ ‏العلم ‏ ‏في الثوب ‏ فإني سمعت ‏‏ عمر بن الخطاب ‏ ‏يقول سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏إنما يلبس الحرير من ‏ ‏لا خلاق له ‏ ‏فخفت أن يكون ‏ ‏العلم ‏ ‏منه وأما ‏ ‏ميثرة ‏ ‏الأرجوان ‏ ‏فهذه ‏ ‏ميثرة ‏ ‏عبد الله ‏ ‏فإذا هي ‏ ‏أرجوان ‏ ‏فرجعت إلى ‏ ‏أسماء ‏ ‏فخبرتها فقالت هذه ‏‏ جبة ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فأخرجت إلي ‏‏ جبة ‏ ‏طيالسة ‏ ‏كسروانية ‏ ‏لها ‏ ‏لبنة ‏ ‏ديباج ‏ ‏وفرجيها مكفوفين ‏ ‏بالديباج ‏ ‏فقالت هذه كانت عند ‏ ‏عائشة ‏ ‏حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يلبسها فنحن نغسلها للمرضى ‏ ‏يستشفى بها
ترجمہ:
حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس کے ذریعے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔
اب ذرا ان حقائق پر توجہ فرمائیے:

بیشک اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ مگر پھر حضرت عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے بجائے اس کُرتے کے براہِ راست اللہ سے کیوں نہیں شفا مانگ لی؟

کیا یہ دونوں خواتین یہ سمجھتی تھیں کہ اللہ (نعوذ بااللہ)بہرا ہے اور وہ اُن کی پکار کو براہِ راست سننے سے قاصر ہے؟

اسی طرح ام المومنین حضرت سلمہ (ر) سے روایت ہے :
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے سلیمان بن عبدااللہ وہب سے کہا مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالی پانی کی دے کر بھجوایا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں۔ یہ پیالی چاندی کی تھی۔ اس میں آنحضرتﷺ کے کچھ بال ڈال دئے گئے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا کنگھال (برتن) پانی کا بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے۔
  صحیح بخاری، کتاب اللباس، ج 3 ص 399 ، ترجمہ از اہلحدیث عالم، مولانا وحید الزمان
اب ہم اپنی طرف سے مزید کوئی تبصرہ نہیں پیش کر رہے۔ مگر پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ اُن تمام احادیث کو پڑھیں جو کہ پچھلے ابواب میں گذر چکی ہیں جو یہ بیان کر رہی ہیں کہ صحابہ کرام رسول ﷺ کے وسلیے سے مانگا کرتے تھے۔

چیلنج کہ رسول ص ﷺ اہلحدیث نہیں تھے
اوپر بیان کی گئی آیات کی وجہ سے یہ صحابہ کرام کی مستقل عادت تھی کہ وہ رسول ﷺ کے پاس آتے تھے اور آپ ﷺ سے اپنے لیے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے۔
یہ ہمارا چیلنج ہے کہ رسول ﷺ اہلحدیث نہیں تھے ورنہ بجائے صحابہ کے لیے دعا کرنے کے وہ ان سے کہتے:

مجھے اپنے اور اللہ کے درمیان کیوں ایسے وسیلہ بناتے ہو جیسا کہ کفار اپنے بتوں کو وسیلہ بنایا کرتے تھے؟

اور تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ مجھ سے درخواست کرو کہ میں تمہاری درخواست اللہ تک پہنچاؤں کیونکہ اللہ ہر ہر بندے کی پکار کو خود سن سکتا ہے کیونکہ وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

میرے پاس سے چلے جاؤ اور جا کر اللہ سے براہ راست دعا مانگ لو۔

مگر ان تمام باتوں کے برعکس، رسول تو صحابہ کی مزید حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ آ آ کر اُن ﷺ سے اپنے حق میں دعا کروایا کریں۔

حضرت موسی علیہ السلام بھی اہلحدیث نہیں تھے
اللہ قران میں فرماتا ہے:
وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
(القران 7:160) اور (ہم نے) موسٰی علیہ السلام کی طرف وحی کی جب ان کی قوم نے پانی مانگا کہ زمین پر عصا ماردو -انہوں نے عصا ماراتو بارہ چشمے جاری ہوگئے ۔ ۔ ۔ ا اور ہم نے ان کے سروں پر ابر کا سایہ کیااور ان پر من و سلوٰی جیسی نعمت نازل کی
تو جب قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے پانی مانگا تو کیا آپ(علیہ السلام) نے اپنی امت کو یہ کہا کہ:

اے قوم والو! تم اللہ کی بجائے مجھ سے پانی مانگ کر مشرک ہو گئے ہو۔ اور تمہیں چاہئے تھا کہ اللہ سے براہِ راست پانی مانگتے۔

اور پھر اللہ اس مشرکانہ فعل پر کیوں خاموش رہتا ہے اور ان کو اس پر ڈراتا دھمکاتا کیوں نہیں ہے؟ بلکہ اس کے برعکس اللہ اُن پر من و سلویٰ نازل فرماتا ہے اور اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔

نبی یعقوب علیہ السلام بھی اہلحدیث نہیں تھے
اللہ قران میں فرما رہا ہے:
قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ
قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(القران 12:97 اور 12:98) ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے

اگر نبی یعقوب علیہ السلام اہلحدیث ہوتے تو وہ اپنے بیٹوں کو کہتے کہ وہ اُن کے پاس کیوں آئیں ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ جا کر اللہ سے براہِ راست اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔

اور اللہ بھی اہلحدیث نہیں ہے کیونکہ اگر وہ اہلحدیث ہوتا تو بجائے معاف کرنے کے حضرت یعقوب(علیہ السلام) اور اُن کے بیٹوں سے دگنا ناراض ہو جاتا کہ گناہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ شرک بھی کر رہے ہیں۔

اہلحدیث عقیدہ بالمقابل مسلم عقیدہ
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ بیشک اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے، اور اس کی قدرت میں تمام تر طاقت ہے کہ وہ ہماری پکار کو براہِ راست سنے اور ہماری دعاؤوں کو قبول کرے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر اللہ سے براہ راست مانگا جائے اور بیشک یہ عین حلال عمل ہے اور مانگنے کی کوئی بھی صورت ہو، ہم اصل میں اللہ سے ہی مانگ رہے ہوتے ہیں۔
مگر ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اگر رسول ﷺ کی شفاعت (یعنی دعا) بھی ہماری دعاؤوں میں شامل ہو جائے تو یہ اللہ سے مانگنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اور اسکا مکمل ثبوت قران اور حدیث میں موجود ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اللہ ہماری دعاؤوں کو اُس وقت بھی سنتا ہے جب ہم اپنے گھروں میں دعا کرتے ہیں۔ مگر اگر یہی دعا ہم خانہ کعبہ میں جا کر کریں تو مسجد الحرام کی برکت بھی ہماری دعاؤوں میں شامل ہو جاتی ہے اور ہماری دعاؤوں کے قبول ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اگر اہلحدیث حضرات شرک کے نام پر آج اس بہترین اور حلال عمل کو حرام کر کے نئی شریعت جاری کرنا چاہتے ہیں، تو ہم اس گمراہ کُن بدعت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
یہ اللہ کا اپنے رسول ﷺ سے وعدہ ہے کہ اُس نے اپنے ساتھ ساتھ محمد ﷺ کا ذکر بھی بلند کیا ہے۔ چنانچہ قران میں اللہ فرماتا ہے:
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
(القران 94:4) (اے رسول) ہم نے تمہارا ذکر بلند کیا ہے
اہلحدیث حضرات کے رویے کے برعکس (یعنی جب وہ قران و سنت کے اِس ایک حصے کو ٹھکرا دیتے ہیں کیونکہ یہ انکے خود ساختہ عقائد کے خلاف جاتا ہے)، ہم دین کے معاملے میں اپنی عقل سے کسی چیز کو حرام نہیں قرار دیتے، بلکہ پورے قران اور پوری سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور رسولﷺ کے جس ذکر کو یہ کم کرنا چاہتے ہیں، اللہ نے توفیق عطا فرمائی تو ہم اسے کم نہ ہونے دیں گے۔ انشاء اللہ۔
چنانچہ ہم شرک اور بدعت کے نام پر کسی ایسی چیز کو حرام نہیں کرتے جو کہ اللہ نے ہمارے لئے حلال قرار دی ہے۔ اللہ قران میں فرماتا ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِي لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
(القران 7:32) پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسکی دی ہوئی پوری ہدایت پر عمل کریں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو صرف اس لئے نہ حرام قرار دیں کیونکہ وہ ہماری خواہشات کے خلاف جاتی ہیں۔

2 comments:

  1. سرجی آپ کی مھنت کو سلام مگر طاھر قادری صاحب شفاعت کے علاوہ بھی انبیاؑ سے مدد کو جایز کحتے ھے کیا ٹھیک ھے

    ReplyDelete

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...