Monday 6 April 2015

موبائل کمپنیوں کے فری پیکج برائے رات و دیگر اھم باتیں فوائد و نقصانات

0 comments
آج  سائنس و ٹیکنا لوجی نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں بے شمار ایجادات کا جس طرح نفوذ ہو گیا ہے، اس بنا پر کچھ ایسی فضا بن گئی ہے کہ  یہ  محسوس ہوتا ہے کہ  آپ کو اگر زندگی گزارنی ہے اور کام کرنا ہے تو آپ کے چاروں جانب  یہ چیزیں لازمی موجود ہوں ۔ جدیدایجادات  میں سے بہت سی کے معاشرتی اور معاشی اثرات اتنے  قبیح ہیں کہ مسلم معاشرے تو کجاغیر مسلم معاشرے کے شریف النفس لوگ بھی پریشان ہیں۔ ان میں سے ایک  کیبل  اور موبائل فون ہے ، کیبل  کا حقیقی فاعدہ تو کچھ نہیں، لیکن موبائل  کے فواعد سے سب  واقف ہیں،  اس نے ہمارے  زندگی میں بہت سی جگہوں پر آسانیاں پیدا کیں ہیں۔ لیکن ان  کے رائج  غیر معتدل استعمال نے ہمارے معاشرے کو گندگی کے جس راستے  پر ڈال دیا ہے اس کا انجام ایٹم بم سے بھی تباہ کن ہے۔ اہل نظر دیکھ رہے ہیں کہ یہ  کیبل ٹی وی چینل اور موبائل  نے آہستہ آہستہ خیر وشر کے پیمانےکس طرح بدل ڈالے ہیں،  موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے ایک نئی زبان ، نئی تہذیب ، خبیث رویے ،گناہ گار طرزِ گفتگو، بے ہودہ اشارے، کنارے اور جملے ایجاد کیے گئے ہیں اور  زبان، وبیان کی نزاکت اور لطافت کو اور طرز گفتگو سے نفاست ، طہارت ، شرافت کو بالکل رخصت کر دیا  گیاہے اور  سہولت کے نام پر زبان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے ۔ ان  ایجادات نے ہر شخص کو بخوشی آمادہ کر دیا کہ وہ ہمہ وقت دنیا کے آفات وآلام سے پُرہنگاموں، شوں شور، شور وشغب، سازشوں، دنیا پرستی، لذت طلبی، موج مستی، زرپرستی، شہوت انگیزی سے اپنی زندگی کا رشتہ خلوت وجلوت میں مسلسل جوڑے رکھے،  موبائل کی گھنٹیوں اور موسیقی نے تو  خانہ کعبہ، مسجد نبوی، مساجد، خانقاہوں کی پر سکون فضا کو بھی نہیں چھوڑا ۔اب تو  اس کے لغو اثرات مذہبی لوگوں پر بھی اس قدر حاوی ہو گئے ہیں کہ وہ ان مقدس مقامات کی طرف باربار  آنے کے باوجود اپنے فون کی گھنٹی بندکرنا بھو ل جاتے ہیں، جب لوگ دنیا جہاں کے بکھیڑوں سے خود کو نکال کر  رب کے ساتھ ہم کلام ہوئے  ہوتے ہیں فون کی گھنٹی ان مقدس لمحات کو پرزہ پرزہ کر دیتی ہے اور اب تو لوگ فون آجائے تو  مسجد چھوڑ کر   باہر آ کر  گپیں لگانے لگ جاتے ہیں، پھر ہنستے مسکراتے مسجد میں دوبارہ داخل ہوتے نظر ہیں اور   ان کے چہرے پر   خانہ خدا میں گانے بجنے پر ندامت  کے آثار تک نہیں ہوتے  ۔ ۔

اہم بات یہ ہے کہ اس حادثے کا اثر صرف  عوام پر ہی نہیں ہوا  بلکہ  ان  خبیث شیطانوں نے   بڑے بڑے مذہبی لوگوں کو بھی  خاموشی سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔ پہلے دور میں شریف گھرانوں کی لڑکیاں گھروں سے کم باہر نکلتی تھیں اس لیے ان کا کسی شر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی نہیں ہوتا تھا آج ان  موبائل کی کال، ایس ایم ایس کے ذریعےاور فلموں ڈراموں کے ذریعے  غیر لوگ ان کے کمروں میں داخل ہوگئے ہیں،   موبائل  نے انکی  خلوت تک گناہ کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔یہ لوگ جب چاہیں ان سے ہر طرح کی باتیں کرسکتے اور انہیں ڈسٹرب کرسکتے ہیں،  اچھے اچھے شریف گھرانوں کے لڑکیاں، لڑکے خلوت جلوت میں  غیر محرموں سے فون پر باتیں اور  میسج کرتے  نظر آتے ہیں۔ وہ لمحات جو ان کے عبادت ، خدمت، آرام میں گزرتے تھے آج  ان  خرافات اور گناہوں کی نظر ہیں  ،  ماں باپ موبائل فون کی آفتوں سے ناواقف ہیں یا بہت سادہ لوح ہیں، اس کے نتیجے میں ایک عجیب نسل پروان چڑھ رہی ہے ،لڑکے لڑکیوں کو آوارگی، آبروباختگی سکھانے کے لیے راتوں کو سستے سے سستے پیکج فراہم کیے گئے  ہیں اور  سونے جاگنے کے اوقات کو زیر وزبر کر دیا گیا  ہے ،  کم عمر لڑکے اور لڑکیاں اسکول، کالج، یونیورسٹی میں ہمہ وقت موبائل فون پر گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، اور انکے   یہ محض انجوائے کرنے کے سلسلے رفتہ رفتہ ناجائز جنسی تعلق میں تبدیل ہو کر  بہت جگہوں پر حرامی نسلوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، اس وجہ سے  نجی ہسپتالوں  میں ناجائز حمل کو گرانے کا وسیع کاروبار  بھی عروج پر ہے، جہاں کالجوں کی لڑکیاں اپنے کالج کے لباس میں اسقاط حمل کے لیے قطار لگاتی ہیں اور اپنے زیورات بُندے چوڑیاں دے کر اس گناہ کی قیمت ادا کرتی ہیں او رپھر گھر جاکر والدین سے تھانوں میں ان چیزوں کی  چوری کی رپورٹ لکھواتی ہیں، دوسری  طرف  اس نشے کی خاطر بچیاں ، بچے ماں باپ کے پیسے چراتے ہیں، امیر رشتہ داروں کے گھر میں چوریاں کرتے ہیں، دوستوں کا مال چوری کرتے ہیں اوراگر یہ راستے بند ہو جائیں تو اپنی عزت کا سودا کرنے پر بخوبی آمادہ ہو جاتے ہیں ۔۔

حقیقت میں  یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ پوری پلاننگ کے ساتھ تہذیبی  گندگی کے اس  طوفان کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا  ہے جو خاموشی کیساتھ  شیطانیت کو ہر طرف  غالب کرتا جارہا ہے۔شاید یہی وجہ ان  کے کم قیمت اور آسان حصول کی بھی ہے ،  چند سال پہلے کیبل ٹی وی چینل چند شہروں تک محدود تھے اور ‘شوقین’ لوگ ڈش انٹینا استعمال کرتے تھے ، اب اس کے جال کو دوردراز کے دیہاتوں تک پھیلا دیا گیا ہے اور انتہائی غریب آدمی  بھی روز ایک فلم دیکھ کر سوتا ہے۔ یہی حال موبائل کا بھی ہے  کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے شہر سے امریکا چند منٹ کا فون چھ سو روپے میں ہوتاتھا ،اب صرف دس روپے میں ہو رہا ہے، چند برس پہلے کراچی چند منٹ کی کال چالیس روپے میں ہوتی تھی، اب دو سو روپے میں آپ پانچ ہزار منٹ بات کرسکتے ہیں ۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں آٹھ کروڑ موبائل فون زیر استعمال ہیں۔ پاکستان  اس وقت موبائل فون  کی  دنیا کی  بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے ، قیمتی قومی زر مبادلہ کو صرف بولو، بولتے رہو، جوچاہے بولو، کہو اور خوب کہو ، دل کھول کر بولو جیسے احمقانہ فلسفے کے فروغ کی خاطر تباہ کیا جارہا ہے ، وہ لوگ جن کے گھروں میں پیٹ بھر کر کھانامیسر نہیں ہے وہ بھی مسابقت کی دوڑ میں شرکت کے لیے اشتہارات سے  متاثر ہو کر موبائل فون خرید رہے ہیں اوراپنے پاؤں اپنی چادر سے باہر نکال رہے ہیں ۔موبائل اور کیبل کمپنیوں نے نے صرف چند  ہزار افراد کو روز گار فراہم کیا ، لیکن اربوں روپے کا زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کیا اور پاکستان کی مذہبی، تہذیبی ،اخلاقی ،اسلامی اقدار کو چند سالوں میں اس طرح تہس نہس کر دیا کہ اب کھربوں روپے خرچ کرکے بھی ان اقدار روایات رویوں کی بحالی ممکن نہیں۔
سب سے  بڑا المیہ  اور نقصان یہ ہورہا ہے کہ  ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ابھی تک ان  کی تباہی کو سمجھ ہی نہیں رہا کہ ان دونوں چیزوں  نے فرد، معیشت، معاشرت، اخلاقیات، ایمانیات کو کس طرح خاموشی سے تباہ کردیا ہے اور تباہی کے دہانے پر لے کر جارہا ہے ، ، ہم اس بارے  سوچنے، اسکو محسوس کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کررہے۔ ہم  نے بخوشی موبائل  اور کیبل کمپنیوں کو اپنی متاع ، معیشت، اوقات، خلوت، جلوت، غیرت آبرو لوٹنے کی غیر مشروط اجازت دے رکھی ہے ۔

میری اس ساری بحث کا مقصد  ہرگزیہ نہیں کہ میں جدید ٹیکنالوجی کے خلاف ہوں اور اسکو چھوڑنے کا کہہ رہا ہوں ،  میں تو اس کے رائج استعمال کی حدود پر بات کررہا ہوں، ضرورت بلکہ اشد ضرورت اس کی ہے کہ ہم  اس معاملے کو سنجیدگی سے  لیں اور اپنی نسل کو بچانے کے لیے کچھ سنجیدہ ایکشن لیں ۔ یہ بات بظاہر مشکل لگتی ہے لیکن  ان چیزوں  کے نتائج ایسے تباہ کن ہیں کہ  اگر ہمیں اس  آگ  سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانا ہے تو ہمیں لازمی کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑے گی۔ کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔
1.    بیس سال سے کم عمر لڑکے ، لڑکیوں  کو موبائل کی مکمل سہولت نہ دی جائے بلکہ اشد ضرورت (مثلا کہیں  سفر پر جائیں  وغیرہ ) کے وقت  مہیا کیا جائے۔ بڑے  بچے ،بچیوں کی مصروفیت ، سوسائٹی  کو چیک کیا جائے اور ان چیزوں کے استعمال میں انہیں حدود کا پابند بنایا جائے  ،مثلا رات   کو سونے کے متعین ٹائم کے بعد ان کے فون بند ہونے چاہیے  وغیرہ وغیرہ۔
2.    گھر میں عورتوں کی ضرورت کے لیے شیئرڈ موبائل رکھا جائے جسے ضرورت کے ٹائم سب استعمال کریں، اس سے وہ غیر معلوم کالوں کی چھیڑ خانی سے بھی بچی رہیں گیں اور ان کا ٹائم بھی فاعدہ مند کاموں میں لگے گا۔
3.    گھر  میں  اگر ٹی وی رکھنا ضروری ہے تو اس کو ایسے کمرے میں رکھا جائے  جہاں سب کا آنا جانا لگا رہتا ہو۔ انٹرنیٹ کے استعمال کے غلط استعمال کو بھی اسی طریقے سے روکا جاسکتا ہے۔
4.    اگر آپ بھائی ہیں تو اپنی بہنوں پر،، اگر بہن ہیں تو  چھوٹے بھائیوں پر، اگر ماں یا باپ ہیں تو اولاد پر نظررکھیں ، اپنا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے انکی  تربیت کریں اور اپنی اگلی نسلوں کو ذہنی اور فکری سطح پر اس قدر مضبوط سوچ دیں کہ وہ اپنے ارد گرد موجوداعتقاد، فکر او رعمل کے فتنوں اور حربوں کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ خود کو ان سے بچاتے ہوئے اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں بھی اس حقیقی اور مضبوط فکر کو منتقل کر سکیں۔ جو چیزیں شریعتِ مطہّرہ نے حرام قرار دی ہیں، ان کی حرمت کودل و جان سے حرام سمجھیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتیں بلکہ ان کے اثرات و رذائل سے نئی نسل کو بھی آگاہ کریں۔

امام شاطبی نے الموافقات میں لکھا ہے کہ شریعت کو دین، عقل، نفس، مال اور نسل کی حفاظت مطلوب ہے۔ ہمارا موبائل فون  اور ٹی وی ان سب کا دشمن ہے، اس کے کچھ فوری فائدے اپنی جگہ ہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ فوائد  اگر نہ بتائیں جائیں  تو انہیں خریدے  کون ؟ ، مزید فائدے تو شراب اورسود میں بھی ہیں، اس کا ذکر قرآن نے واضح الفاظ میں کیا ہے او رکہا ہے کہ اس کے نقصانات اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں، ؟ شر میں بھی بہت سے فائدے ہوتے ہیں لیکن اسلام میں کسی چیز کو قبول یارد کرنے کا اصول فائدہ نہیں، مقاصد شریعہ کا حصول ہے۔ جو شے اس مقصد سے مطابقت رکھے وہ ٹھیک ہے۔
 کیا کیبل ، ڈش اور  موبائل فون مقاصد شریعت کے لیے ساز گار ماحول فراہم کر رہا ہے؟
 کیا اس کے استعمال سے ہمارے دین، عقل ، نفس ، مال اور نسل کی حفاظت ممکن ہے؟
 اگر مقاصد شریعت کی حفاظت اس فون اور کیبل  کے استعمال سے ممکن نہیں ہے تو  ہم  کیوں محض چند غیر ضروری فواعد کے لیے اپنی نسلوں کی تباہی کی قربانی دینے پر تلے بیٹھے ہیں  ؟
 ہمیں اپنی اولاد  بھائیوں اور بہنوں پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے  انہی کی بہتری کے لیے انہیں  چیک کرنا  اور پابند بنانا ہوگا ورنہ ٹیکنا لوجی اور ترقی کے اس سیلاب میں وہ  یونہی بہتے چلے گے اور ہم نے اس کے آگے مضبوط فکر اور یقین کا بند نہ باندھا  تو ہم انکی تباہی کے بڑے ذمہ دار ہونگے اور پھر  ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔