Monday, 20 April 2015

سوال نمبر 5: چاروں ائمہ یعنی امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالی علیہ اجمعین نے بھی اس تقلید کے بارے میں کچھ ارشاد فرمایا ہے یا نہیں ؟ اور اگر فرمایا ہے تو کیا ؟ ہم نے سنا ہے کہ چاروں ائمہ تقلید کو حرام فرمایا کرتے تھے ؟


٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
جواب : چاروں ائمہ نے جو اپنی فقہ مرتب کروائی ، ہر مسئلہ دلیل سے مرتب کروایا ۔ مرتب کروانے کا مقصد اس پر عمل کرانا تھا تو گویا ہر مسئلہ دعوت تقلید ہے ۔ اس لئے جب ان کی یہ فقہ متواتر ہے تو دعوت تقلید بھی ان سے متواتر ثابت ہے ۔ الکفایه کتاب الصوم میں صراحۃ بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے عامی کے لئے تقلید کا وجوب ثابت ہے ۔ ہاں ان ائمہ نے یہ فرمایا :: جو شخص خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے اس پر اجتہاد واجب ، تقلید حرام ہے ۔ جو خطاب انہوں نے مجتہدین کو کیا تھا ان کو عوام پر چسپاں کرنا یحرفون اکلم عن مواضعه کی بدترین مثال ہے ۔ ہمارے ہاں مجتہد پر اجتہاد واحب ، غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعزیر واجب ہے ۔

دائرہ اجتہاد و تقلید :

تقلید کا تعلق چونکہ اجتہادی مسائل سے ہے ، اس لئے اجتہاد کا دائرہ کار کا پتہ چلنے سے تقلید کی ضرورت بھی واضح ہوتی ہے ۔

رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے 9ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ فرمایا تو پوچھا : اے معاذ : فیصلہ کیسے کروگے ؟ تو انہوں نے عرض کیا : کتاب اللہ سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فان لم تجد فیه عرض کیا : بسنة رسول الله ۔ فرمایا فان لم تجد فیه عرض کیا : اجتهد برأیی و لا آلو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ألحمد لله الذی وفق رسول رسول الله لما یرضی به رسول الله
 ( ابوداؤد ، ترمذی )

اس سے معلوم ہوا کہ جو مسئلہ اور حکم کتاب و سنت میں صراحۃ نہ ملے وہاں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وضاحت یوں ہے کہ

مسائل فرعیہ کی دو قسمیں ہیں : منصوصہ ، غیر منصوصہ ۔

پھر منصوصہ کی دو قسمیں ہیں : متعارضہ ، غیر متعارضہ ۔

پھر غیر متعارضہ کی دو قسمیں ہیں : محکمہ ، محتملہ ۔

1: مسائل منصوصہ ، غیر متعارضہ محکمہ میں نہ اجتہاد کی ضرورت نہ تقلید کی ۔ جیسے پانچ نمازوں کی فرضیت ، نصاب زکوۃ وغیرہ ۔

2: مسائل منصوصہ متعارضہ میں رفع تعارض کرکے مجتہد راجح نص پر عمل کرتا ہے اور مقلد بھی اس کی راہنمائی میں راجح نص پر عمل کرتا ہے جیسے قرأت خلف الامام ، ترك رفع یدین وغیرہ ۔

3: مسائل منصوصہ متحملہ میں مجتہد اپنے اجتہاد سے راجح احتمال کی تلاش کرتا ہے اور اس نص کے راجح احتمال پر عمل کرتا ہے اور مقلد اسکی راہنمائی میں اس نص کے راجح احتمال پر عمل کرتا ہے جیسے احکام فرض ، سنت ، واجب وغیرہ ۔

4: مسائل غیر منصوصہ میں مجتہد منصوص مسائل میں کوئی علت تلاش کرتا ہے ۔ وہی علت جن غیر منصوص مسائل میں پائی جاتی ہے تو وہی حکم اس میں جاری کرتا ہے اور مقلد مجتہد کی راہنمائی میں اسی حکم پر عمل کرتا ہے جس کی بنیاد مجتہد نے کتاب و سنت کی بنیاد پر رکھی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مجتہد اپنی اجتہادی بصیرت سے کتاب و سنت کے منصوص اور علت سے ثابت مسائل پر عمل کرتا ہے اور مقلد بھی اس کی راہنمائی میں کتاب و سنت ہی کے مسائل پر عمل کرتا ہے اس لئے ان اجتہادی مسائل میں مجتہد پر اجتہاد واجب ہے۔ جو اجتہاد کی اہلیت نہ رکھے اس پر تقلید واجب ہے ، اس لئے اسے مقلد کہتے ہیں اور جو نہ خود اجتہاد کرسکے اور نہ مجتہد کی تقلید کرے اسے غیرمقلد کہتے ہیں ، اس پر تعزیر واجب ہے ۔

تمہید : دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر آخر خیرالقرون تک اہل سنت والجماعت میں مجتہدین اجتہاد کرتے تھے اور غیر مجتہدین ان کی تقلید کرتے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور تابعین و تبع تابعین کرام رحمہ اللہ میں سے ایک نام بھی پیش نہیں کیا جاسکتا جو نہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو اور نہ تقلیدآ کتاب و سنت پر عمل کرتا ہو اور اپنے کو غیرمقلد کہتا ہو ۔ ہم فی حوالہ سو روپے انعام دیں گے ۔ خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی ضرورت نہ رہی اس لئے سب اہل سنت ائمہ اربعہ رحمہ اللہ میں سے کسی کی تقلید کرتے تھے ۔ اس لئے چار ہی قسم کی کتابیں ملتی ہیں : طبقات حنفیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات حنابلہ۔

جس طرح ملکہ وکٹوریہ کے دور سے پہلے طبقات مرزائیہ نام کا ذکر کہیں نہیں ملتا اس لئے کہ مرزائیوں کا وجود ہی نہیں تھا ، اسی طرح طبقات غیرمقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث یا مؤرخ کی لکھی ہوئی ملکہ وکٹوریہ سے پہلے کہیں نہیں پائی گئی کیونکہ غیرمقلدین کا فرقہ کہیں نہیں تھا ۔

نوٹ :تقلید کی تعریف میں الدلیل کا لفظ آتا ہے ، اس سے وہ خاص دلیل مراد ہوتی ہے جو بوقت اجتہاد مجتہد کے پیش نظر تھی اور دلیل تفصیلی اسے کہتے ہیں جو منع اور نقص سے ثابت ہو ۔

تقلید : مجتہد نے جو مسئلہ کتاب و سنت سے نکالا ، اس سے اس کی خاص دلیل تفصیلی کا مطالبہ کئے بغیر اس بادلیل مسئلہ کو بلامطالبہ دلیل ماننا اور مجتہد کی راہنمائی میں کتاب و سنت پر عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔

نوٹ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں پورے یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی ہوتی تھی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ کے دور میں سب لوگ اپنے شہر کے مجتہد مفتی کی تقلید شخصی کرتے تھے۔

چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ میں غیرمقلدیت کا نام و نشان تک نہ تھا اس لئے غیرمقلدین کے بدعتی ہونے میں کوئی شک نہیں ۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...