Wednesday 1 April 2015

عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا ( پارٹ 2 )

0 comments
عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا ( پارٹ 2 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زیارتِ مزاراتِ اولیاء و شہداء اور عرس

حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال سے ایک سال قبل ہمیں ساتھ لیا اور احد کے شہداء کے مزارات پر گئے۔ شارحین حدیث نے علی التحقیق لکھا ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال والے سال کا واقعہ ہے، چونکہ یہ حدیث آگے بھی بخاری میں روایت کی گئی ہے جس میں صحابی کہتے ہیں کہ منبر پر خطاب کرتے ہوئے یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری منظر تھا جو ہم نے دیکھا۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نماز پڑھی جیسے الوداع کرنے والا پڑھتا ہے۔ اس پر محدثین نے کہا کہ یہ آخری سال کا واقعہ ہے گویا اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے مزارات پر تشریف لائے شہدائے احد کو آٹھ سال بیت چکے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کو ساتھ لیا اور ایک پورا اجتماع شہدائے احد کی زیارت کے لئے گیا۔

لہٰذا اجتماعی طور پر مزارات کی زیارت کو جانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

آپ کے ساتھ سینکڑوں صحابہ تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب کیا۔

گویا سینکڑوں صحابہ کا اجتماع ہوا تو پھر مزار ولی اور مزار شہید پر سینکڑوں کا اجتماع اور زیارت کرنا یہ بھی سنت ہے اور اسی کو عرس کہتے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کا عرس منایا تھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے عرس کہاں سے ثابت ہے ؟ حدیث کا اگلا حصہ اس امر کو واضح کررہا ہے کہ جب آپ نے وہاں نماز پڑھ لی یا دعا فرما لی (شارحین حدیث کے ہاں دونوں معنیٰ آئے ہیں)

ثُمَّ انْصَرَفَ اِليَ الْمِنْبَر

 ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر پر قیام فرماکر خطاب کیا‘‘۔

چونکہ منبر پر کھڑے ہوکر خطاب کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی تعداد کثیر تھی کیونکہ اگر تعداد کم ہوتی تو منبر پر قیام فرما کر خطاب کی ضرورت و حاجت نہ تھی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھی اور ان تمام کو ساتھ لے کر مزارات شہدائے احد پر آئے۔ شہدائے احد کی قبور میں منبر کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ منبر ساتھ لے کر گئے تھے یا منگوایا گیا تھا۔ گویا جاتے ہوئے یہ ارادہ تھا کہ صرف زیارت ہی نہیں ہوگی بلکہ خطاب بھی ہوگا۔

معلوم ہوا جب مزار کی زیارت ہو، سینکڑوں کا اجتماع ہو، منبر لگے اور منبر پر خطاب ہو یہ تمام اجزاء مل جائیں تو اسی کو عرس کا نام دیا جاتا ہے۔

لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے قبل آداب سکھادیئے کہ شہداء، اولیاء، صالحین کے مزار پر جانا، ان کی اجتماعی زیارت کرنا، خطاب کرنا، ذکر و تذکیر اور وعظ و نصیحت کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

اس موقع پر خطاب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضائل اور مناقب بیان کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکام و شریعت میں سے کوئی مسئلہ بیان نہیں کیا بلکہ خطاب شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر تھا۔ فرمایا : لوگو! میں تم سے پہلے جارہا ہوں تاکہ آگے تمہاری بخشش کا انتظام کروں، میں وہاں تمہارا استقبال کروں گا۔

اِنِّيْ فَرَطٌ لَکُمْ وَفِيْ رَوايَة قَالَ حَيَاتِيْ خَيْرُلَّکُمْ وَمَمَاتِيْ خَيْرٌلَّکُمْ.

’’میں تمہاری خاطر آگے جانے والا ہوں اور ایک روایت میں ہے۔ میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میرا وصال (بھی ) تمہارے لیے بہتر ہے‘‘

یعنی میں تم میں تھا تب بھی تمہیں فیض دیتا رہا، اب آگے جارہا ہوں، وفات بھی تمہارے لئے باعث فیض ہوگی، تمہیں بخشوانے کا سامان کرنے جارہا ہوں۔

ربط بین الالفاظ کے ذریعے حدیث کو پڑھیں۔ پہلا جز یہ تھا کہ اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ اس میں اپنے وصال اور آخرت میں صحابہ و امت کی شفاعت کا اشارہ موجود ہے کہ تمہاری شفاعت کا بندوبست کرنے جارہا ہوں۔ اس کے بعد فرمایا وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اور یہ نہ سمجھنا کہ میں رخصت ہوگیا، نہیں میں پھر بھی تمہیں دیکھتا رہوں گا۔ تمہارے اوپر گواہ اور نگہبان رہوں گا۔ فَرَطٌ لَّکُمْ اور شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ کے درمیان ایک معنوی ربط ہے۔ فَرَطٌ لَّکُمْ وصال کی خبر دے رہا ہے اور شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اشارہ دے رہا ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھنا کہ اب میں نہیں رہا بلکہ میں تم پر نگہبان رہوں گا، تمہارے اعمال اور درود و سلام مجھ پر پیش ہوتے رہیں گے میں تمہارے اعمال نیک و بد سے خوش و غمزدہ ہوتا رہوں گا اور ہر لمحہ تم سے باخبر رہوں گا۔ پھر فرمایا : وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی اَلْاٰن. اس تیسرے جملے میں خوشخبری دی کہ ایک حوض، حوض کوثر ہے اور میں اس وقت اس حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ حوض، جنت میں ہے مگر اس کا ظہور قیامت کے دن ہوگا اور یہ حقائق غیبیہ میں سے ہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی سرزمین پر کھڑے ہوکر اسی لمحے اس حوض کوثر کا مشاہدہ بھی فرمارہے ہیں جو جنت میں ہے یا جو قیامت کے دن ظاہر ہونے والا ہے۔ گویا وہاں کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت بھی دیکھ رہے ہیں اور جس دن قیامت برپا ہوگی اس دن کا منظر بھی دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا :

وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِن الْاَرْض اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ.

’’اور زمین کے سب خزانوں کی ساری چابیاں مجھے عطا کردی گئی ہیں‘‘۔

’’مَفَاتِيْح‘‘ جمع منتہی الجموع ہے اور ’’خزائن‘‘ بھی جمع ہے۔ ’’مفاتیح‘‘ اور ’’خزائن‘‘ آپس میں مضاف اور مضاف الیہ ہیں، جب مضاف و مضاف الیہ دونوں جمع ہوں نیز مضاف جمع منتہی الجموع ہو یعنی جمع کی اضافت جمع پر ہو تو یہ استغراق کلی کا فائدہ دیتا ہے، کلیت پر دلالت کرتا ہے۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتا رہے ہیں کہ جتنی قِسموں کے خزانے ہیں اور ان کی جتنی چابیاں ہیں، رب نے مجھے عطا کردی ہیں۔ گویا خزانوں کے مالک بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور چابیوں کے مالک بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ.

’’اور غیب کی کنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اس کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں‘‘۔

الانعام، 6 : 59

غیروں کے لئے تالا ہوتا ہے اور اپنوں کے لئے چابیاں ہوتی ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی امت کے لئے اشارہ فرمادیا کہ زمین کے کل خزانوں کی کل چابیاں مجھے دی ہیں۔ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ ’’تم میرے قدموں سے جڑ جاؤ، جس کو طلب ہوگی، صدق کا تعلق ہوگا اس کو خزانوں سے بھردوں گا‘‘۔

مَفَاتِيْحَ الْاَرْض میں مستقبل میں فتوحات اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے نیز اس سے عرب کی سرزمین سے نکلنے والے تیل کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یہ بات بغیر دلیل کے نہیں ہے، امام حجر عسقلانی بھی اس بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہاں سرزمین عرب کے تیل و معدنیات کی طرف اشارہ ہے۔ تو پھر جو کچھ زمین سے نکلا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال قبل بیان فرما دیا اور اب جس جس وقت میں جو کچھ بھی ظاہر ہوگا اور جو جو اس سے بہرہ مند ہو گا اور نفع اٹھائے گا وہ سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہو گا۔ مانے یا نہ مانے یہ الگ بات ہے مگر ہر کوئی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہی کھائے گا۔
سوادِ اعظم پر شرک کے فتوے لگانے والوں کیلئے مقام غور !

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کی زیارت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آخری حصے میں فرمایا :

وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِی.

’’خدا کی قسم! مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کرو گے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو مشرک قرار دینے والے غور کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر شرک کا اتہام تہمت لگانے والوں کیلئے مقام غور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھائی کہ مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے۔

وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا.

’’بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ تم دنیا طلبی اور دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا کہ دنیا کی وجہ سے ہلاکت میں چلے جاؤ گے‘‘۔

یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے۔ بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے۔ اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی۔ ایک لمحہ کے لئے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے۔ مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔