Tuesday, 14 April 2015

سوال : بعض مانعین سبز عمامہ کہتے ہیں کہ حضرتِ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا میری امت کے ستر ہزار آدمی دجال کی پیروی کریں گے ان پر سیجان (یعنی سبز عمامے )ہو نگے ،اس کو شرح السنہ میں روایت کیا ہے ۔ (مشکوۃ المصابیح ، الفصل الثانی ، ج۳ ص۱۵۱۵ ، المکتب الاسلامی ،بیروت ) اس کا کیا جواب ہے ؟


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب :اس کے متعدد جوابات ہیں
 : پہلا جواب : مذکورہ روایت میں سیجان کا لفظ آیا جو کہ ساج کی جمع ہے اور ساج کا معنی سبزعمامہ ہرگز نہیں بلکہ کتبِ لغت میں ساج کے درج ذیل معانی لکھے ہیں :سیاہ رنگ کی چادر ،سبز رنگ کی چادر ،موٹا کپڑا ، تار کول سے سیاہ دھاگے سے بنا ہوا کپڑا ،گول چادر  ،ساکھو کا درخت اور مجازا مربع چورس چادر کو بھی ساج کہا جاتا ہے ۔ لسان العرب میں ہے ساج کی تصغیر سویج ہے اور اس کی جمع سیجان ہے ،ابنِ عربی نے کہا :سیجان کالی چادر کو کہتے ہیں اور اس کا واحد ساج ہے ، حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺجنگ میں ٹوپی پہنتے تھے  جو سبز سیجان کی بنی ہوئی تھی ۔ (لسان العرب فصل الشین  المعجمہ ،ج۲،ص۳۰۳،دارِصادر ،بیروت ) تاج العروس میں ہے :ساج سبز رنگ کی چادر کو کہا جاتا ہے  ،موٹے کپڑے کو بھی بولتے ہیں ،سیاہ رنگ کی چادر کو بھی کہتے ہیں اور ساج، تارکول والے سیاہ دھاگے سے بنے ہوئے کپڑے کو بھی کہا جاتا ہے اس کی وضاحت   حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روایت سے بھی ملتی ہے جس میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺجنگ میں ٹوپی پہنتے تھے  جو  سیجان کی بنی ہوئی تھی اور حدیث ابو ہریرہ میں ہے کہ اصحابِ دجال پر سیجان (چادریں )ہوں گی  (تاج العروس ،مادہ سوج ،ج۶ص ۵۰ دارلہدایہ) مزید تاج العروس میں لکھا ہے کہ :اور کہا گیا ہے کہ ساج گول چادر کو کہا جاتا ہے اور مجازی طور پر مربع (یعنی چورس چادر پر بھی ساج کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔میں کہتا ہوں اسی کے ساتھ  حدیث جابر کی تفسیر کی گئی ہے ۔(تاج العروس ،مادہ سوج ،ج۶ص۵۰دارلہدایہ)  منجد عربی ،اردو میں بھی ساج کا معنی ساکھو کا درخت اور کشادہ گول چادر لکھا ہے
 نوٹ : مذکورہ حوالہ جات میں سیجان کی تفسیر طیلسان سے کی گئی ہے اور طیلسان کا معنی المنجد میں  کالی چادر ، میلا کپڑا ، سبز چادر جسے علما ء مشائخ استعمال کرتے ہیں بیان کیا گیا ہے ۔ یونہی فرہنگ فارسی ، لغات کشوری وغیرہ میں  بھی طیلسان کا یہی معنی لکھا ہے 
دوسرا جواب اس حدیث میں جن ستر ہزار افراد کا تذکرہ ہے وہ  مسلمان نہیں بلکہ یہودی ہے  یعنی اس حدیث میں امت سے امتِ اجابت مراد نہیں بلکہ امت دعوت مراد ہے  ،جیسا کہ کہ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے ، فرمایا : اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے جن پر طیالس ہو گی ۔ (صحیح مسلم ،باب  فی بقیہ من احادیث  ا لدجال ،ج ۴ ص ۲۲۶۶ ،دارِ ا حیا ء التراث العربی ، بیروت ) ملا علی قاری سوال میں مذکور حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں : اس روایت میں  امتِ اجابت مراد نہیں بلکہ امتِ دعوت مراد ہے اور یہ بات ظاہر ہے جیسا کہ اصفہان کے یہودیوں والی روایت گذشتہ اوراق میں گزر چکی ۔ ( مرقاۃ   المفاتیح ، باب العلمات بین یدی الساعۃ ، ج۸ ،ص ۳۴۸۱ ،دار الفکر ،بیروت ) شیخ محقق حضرتِ شاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اس روایت کی شرح کرتے ہوئے اشعۃ اللمعات کی چوتھی جلد میں یہی ارشاد فرمایا ہے ۔لہذا اس روایت کو سبز عمامہ باندھنے والے مسلمان پر منطبق کرنا سراسر غلط ہے
تیسرا جواب : نیز مسلم شریف کی روایت سے یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ستر ہزار جو دجال کی پیر وی کریں گے ان کا تعلق اصفہان سے ہو گا نہ کہ پاکستان سے ۔
 چوتھا  جواب : سوال میں مذکور روایت موضوع و من گھڑت ہے اس روایت کی سند میں ایک راوی ابو ہارون العبدی ہے جس کا نام عمارہ بن جوین ہے ، اس پر محدثینِ کرام نے سخت جرح فرمائی ہے۔ امام ذہبی نے اس کے بارے میں ایک قول نقل کیا ہے کہ اکْذب من فرعون َ فرعون سے زیادہ جھوٹاتھا  چنانچہ فرماتے ہیں صالح بن محمد ابو علی سے ہارون العبد ی کے بارے میں سوال کیا گیا ،تو فرمایا :وہ فرعون سے زیادہ جھوٹا ہے ۔( میزان العتدال ،عمارۃ بن جو ین ، ج۳ ،ص ۱۷۴ ، دار المعرفہ ، بیروت ) مزید اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؛ حماد بن زید نے اس کی تکذیب کی ہے ، امام شعبہ نے فرمایا : ابو ہارون سے روایت کرنے سے بہتر ہے  کہ اپنی گردن کٹوادوں ۔ امام احمد نے فرمایا : یہ کوئی چیز نہیں ہے ، امام یحیی بن معین نے فرمایا : ضعیف ہے ، اس کی حدیث میں تصدیق نہیں کی جائے گی، امام نسائی نے فرمایا یہ متروک  الحدیث ہے ۔ مزید فرماتے ہیں : جو زجانی نے کہا : ابو ہارون کذاب اور مفتری ہے ۔ امام دار  ِ قظنی نے اس کے بارے میں فرمایا متلون المیزاج ہے ، خارجی اور شیعہ ہے ۔ ( میزان العتدال ،عمارۃ بن جو ین ، ج۳ ،ص۱۷۳ ، دار المعرفہ ، بیروت ) ابن  المدینی نے یحیی بن سعید سے نقل کیا ہے: امام شعبہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور ابنِ عون نے اس سے کوئی روایت نہیں لی یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو گئے (تہذیب التہذیب ،من اسمہ عمارہ ، ج ۷ ،ص ۴۱۲ ، مطبعہ ،دائر ۃ المعارف  النظامیہ ، ہند)امام ابنِ حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں : امام بخاری نے فرمایا :ابو ہارون کو امام یحیی قطان نے ترک کردیا   (تہذیب التہذیب ،من اسمہ عمارہ ، ج ۷ ،ص ۴۱۲ ، مطبعہ ،دائر ۃ المعارف  النظامیہ ، ہند) مزید اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : امام ابو زرعہ نے کہا کہ یہ ضعیٖف  الحدیث ہے ، امام ابو حاتم  نے کہا کہ ضعیف ہے بشر بن حرب سے زیادہ ضعیٖف ہے (تہذیب التہذیب ،من اسمہ عمارہ ، ج ۷ ،ص ۴۱۲ ، مطبعہ ،دائر ۃ المعارف  النظامیہ ، ہند) مزید نقل کرتے ہیں حماد بن زید سے مروی ہے کہ ابو ہارون کذاب ہے صبح کچھ ہوتا ہے شا م کو کچھ۔  (تہذیب التہذیب ،من اسمہ عمارہ ، ج ۷ ،ص ۴۱۲ ، مطبعہ ،دائر ۃ المعارف  النظامیہ ، ہند) وہابی محدث زبیر علی ترکی نے ابو ہارون کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ روی ضعیف ، متروک اور جھوٹا تھا لہذا (اسکی ) یہ روایت موضوع ہے (الحدیث  ، جنوری ۲۰۰۶ ص۱

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...