عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا ( پارٹ 3 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عدم شرک ، دنیا پرستی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کے لئے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام کے لئے ہے۔ اگر جمیع امت کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ اور اگر صرف صحابہ کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کے لئے ہے۔ پس معنی یہ ہوگا کہ اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے۔ میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کردیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی۔ اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوگی۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں۔ تو پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے۔
آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی۔ لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے۔
آپ لوگوں کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرمادیا۔ لہٰذا امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہئے۔
اہل ایمان کے مزارات پر پھول چڑھانا اور چراغاں کرنا
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ہر چیز اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہے :
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًاo
’’کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بے شک وہ بڑا بردبار بڑا بخشنے والا ہے‘‘۔
بنی اسرائیل 17 : 44
معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اپنی زبان اور حال کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی پاکی بولتی ہے ہاں مگر ہر چیز کی تسبیح کو ہر ایک نہیں سمجھتا۔ اہل ایمان کی قبروں پر جو سبزہ گھاس وغیرہ ہے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتا ہے اور اس کا ثواب قبر والے کو پہنچتا ہے نیک ہے تو اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں گناہگار ہے تو اس کی مغفرت ہوتی ہے اور عذاب میں تخفیف کا باعث ہے۔ قبروں اور مزارات پر لوگ پھول چڑھاتے ہیں اس کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ سبزہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر و تہلیل کرے گا اور اہل قبور کو اس کا ثواب ملتا رہے گا جب تک ہرا ہے۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِیرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا.
’’حضرت ابن عباس ضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ فرمایا کہ ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ ایک پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کیے۔ پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں کیا؟ فرمایا کہ شاید ان کے عذاب میں تخفیف رہے جب تک یہ سوکھ نہ جائیں‘‘۔
بخاری، الصحیح، 1 : 458، رقم : 1295
شرح حدیث
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
أن المعنی فيه أنه يسبح مادام رطبا فيحصل التخفيف ببرکة التسبيح وعلی هذا فيطرد في کل ما فيه رطوبة من الأشجار وغيرها وکذلک فيما فيه برکة کالذکر وتلاوة القرآن من باب الأولی.
’’مطلب یہ کہ جب تک ٹہنیاں (پھول، پتیاں، گھاس) سر سبز رہیں گی، ان کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں کمی ہوگی بنابریں درخت وغیرہ جس جس چیز میں تری ہے (گھاس، پھول وغیرہ) یونہی بابرکت چیز جیسے ذکر، تلاوت قرآن کریم، بطریق اولیٰ باعث برکت و تخفیف ہیں، وھو اولی ان ینتفع من غیرہ اس حدیث پاک کا زیادہ حق ہے کہ بجائے کسی اور کے اس کی پیروی کی جائے‘‘۔
عسقلانی، فتح الباری، 1 : 320، دار المعرفۃ بیروت
دیو بندی عالم شیخ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں :
في ((الدر المختار)) اِنَّ اِنباتَ الشجرةِ مُسْتَحبٌّ ۔ ۔ ۔ وفي ((العالمگیریۃ)) أنَّ اِلقاءَ الرياحين أيضًا مُفِيْد.
’’در مختار میں ہے قبر پر درخت لگانا مستحب ہے۔۔۔ اور فتاوی عالمگیری میں قبر پر پھول چڑھانا، ڈالنا بھی ہے‘‘
انور شاہ کشمیری، فیض الباری شرح صحیح بخاری، 3 : 72، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment