Wednesday 1 April 2015

عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا ( پارٹ 4 )

0 comments
عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا ( پارٹ 4 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیوبندی عالم شیخ رشید احمد گنگوھی کا مؤقف درج زیل ہے :

ابن عابدین (شامی) نے فرمایا ہری جڑی بوٹیاں اور گھاس قبر سے کاٹنا مکروہ ہے خشک جائز ہے جیسا کہ البحر و الدرر اور شرح المنیہ میں ہے۔ الامداد میں اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب تک گھاس، پھول، پتے، ٹہنی سر سبز رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے اس سے میت مانوس ہوگا اور رحمت نازل ہوگی۔ اس کی دلیل وہ حدیث پاک ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سبز ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور جن دو قبروں کو عذاب ہو رہا تھا ایک ایک ٹہنی ان پر رکھ دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب تک یہ خشک نہ ہونگی ان کی تسبیح کی برکت سے ان کے عذاب میں کمی رہے گی کیونکہ خشک کی تسبیح سے زیادہ کامل سرسبز کی تسبیح ہوتی ہے کہ ہری ٹہنی کی ایک خاص قسم کی زندگی ہے۔ اس ارشاد پاک کی پیروی کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قبروں پر پھول، گھاس، اور سر سبز ٹہنیاں رکھنا مستحب ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے یہ جو ہمارے زمانہ میں قبروں پر تروتازہ خوشبودار پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا کہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے اپنی قبر میں دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔

رشيد أحمد گنگوهی، لامع الدراری علی جامع البخاری، 4 : 380، المکتبة الإمدادية، باب العمرة. مکة المکرمة

ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور امام طحاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں فرمایا ہے :

أفتی بعض الأئمة من متأخري أصحابنا بأن ما اعتيد من وضع الريحان والجريد سنة لهذا الحديث.

’’ہمارے متاخرین ائمہ احناف نے فتوی دیا کہ قبروں پر جو پھول اور ٹہنیاں رکھنے کا دستور ہے اس حدیث پاک کی رو سے سنت ہے‘‘.

1۔ ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 2 : 53، دار الکتب العلمیۃ لبنان۔ بیروت

2۔ طحاوی، حاشیۃ علی مراقي الفلاح، 1 : 415، المطبۃ الکبری الامیریۃ ببولاق مصر

امام طحاوی مذکورہ عبارت کے ساتھ مزید اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وإذا کان يرجی التخفيف عن الميت بتسبيح الجريدة فتلاوة القرآن أعظم برکة.

’’اورجب ٹہنیوں کی تسبیح کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف کی امید ہے تو تلاوت قرآن کی برکت تو اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے‘‘۔

ایضاً

امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں :

وذهب المحققون من المفسرين وغير هم إلی أنه علی عمومه... استحب العلماء قرأة القرآن عند القبر لهذا الحديث لأنه إذا کان يرجی التخفيف يتسبيح الجريد فبتلاوة القرآن أولی.

’’محققین، مفسرین اور دیگر ائمہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث پاک عام ہے۔ ۔ ۔ علماء نے اس حدیث پاک کی روشنی میں قبر کے پاس تلاوت قرآن کو مستحب کہا ہے اس لیے کہ جب ٹہنی کی تسبیح سے تخفیف کی امید ہوسکتی ہے تو تلاوت قرآن سے بطریق اولیٰ امید کی جا سکتی ہے‘‘۔

نووی، شرح صحیح مسلم، 3 : 202، دار اِحیاء التراث العربي بیروت

فقہائے کرام

وضع الورود و الرياحين علی القبور حسن وإن تصدق بقيمة الورد کان أحسن.

گلاب کے یا دوسرے پھول قبروں پر رکھنا اچھا ہے اور ان پھولوں کی قیمت صدقہ کرنا زیادہ اچھا ہے‘‘۔

الشیخ نظام وجماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ، 5 : 351، دار الفکر

یہ حقیقت تو بے غبار ہوگئی اور حق بات روشن ہوگئی کہ مسلمانوں کی قبروں پر پھول رکھنا، پتے، ٹہنیاں اور گھاس اگانا، رکھنا مسنون ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے اور اس کی جو وجہ بتائی کہ صاحب قبر کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور یہ عمل عام ہے قیامت تک اس کو نسخ نہیں کیا جا سکتا، کوئی کلمہ گو اس کا انکار نہیں کر سکتا اور مزید کسی کی تائید کی ضرورت نہیں تاہم، ہم نے تبرعاً اکابر ائمہ اہل سنت کے اقوال پیش کر دئیے ہیں۔ اب بھی کوئی نہ سمجھے یا نہ سمجھنا چاہے تو اس کو اﷲ ہی سمجھائے۔ اہل ایمان کو اطمینان ہونا چاہیے کہ ان کا یہ عمل سنت نبوی ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔