Tuesday, 14 April 2015

غیرمقلدین کا تفصیلی تعارف

غیرمقلدین کا تفصیلی تعارف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہل حدیث کی ابتداء
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہندوستان میں جماعت اہلحدیث  "بہ اصطلاح جدید " کا قیام اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد شروع ہوا ہے، فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کے وقت ہندوستان کے کسی گوشہ میں فقہی اختلاف مسلک کی آواز نہ اُٹھی تھی، سب اہل سن و جماعت ایک ہی فقہی مسلک کے پیرو تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم اس عظیم علمی خدمت میں شریک تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
"خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے؛ چونکہ اکثر لوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کو پسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک یہ لوگ (ہندوستان کے مسلمان) مذہب حنفی پرقائم رہے اور ہیں اور اسی مذہب کے عالم اور فاضل اور قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے؛ یہاں تک کہ ایک جمِ غفیر نے مل کر فتاویٰ ہندیہ جمع کیا اور اس میں شاہ عبدالرحیم صاحب والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی بھی شریک تھے"۔
(ترجمانِ وہابیہ تصنیف نواب صدیق حسن خان مرحوم:۲۔)
عہد جدید کی اس آزادی میں تقلید کا بندٹوٹا اور پھردیکھتے دیکھتے کچھ لوگ مختلف کشتیوں میں بہہ نکلے اور تاریخ نے مسلمانوں کا وہی حال کیا جومنتشراقوام کا ہوتا ہے ۔
اہلحدیث ایک فرقہ کی صورت میں
ابتداء میں اس جماعت کے لوگ کہیں اہلحدیث کہیں محمدی اور کہیں موحد کہلاتے تھے، جماعت کسی ایک نام سے متعارف نہ تھی اُن کے مخالفین انہیں وہابی یاغیرمقلد کے نام سے موسوم کرتے تھے، مولانا محمدحسین بٹالوی صاحب نے انگریزی حکومت کودرخواست دی کہ اُن کے ہم خیال لوگوں کوسرکاری طور پر اہلحدیث کا نام دیا جائے، اس کے بعد اس اصطلاح جدید میں اہلحدیث سامنے آئے اور ہندوستان میں ترکِ تقلید کے عنوان سے ایک مستقل مکتبِ فکر کی بنیاد پڑگئی؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ برصغیر پاک وہند کے باہر اس نام سے (اہلحدیث باصطلاح جدید) اب تک کوئی فرقہ موجود نہیں ہے۔
ہندوستان کے مشہور عالمِ دین مولانا محمدشاہ صاحب شاہجہانپوری لکھتے ہیں:
"پچھلے زمانہ میں شاذ ونادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں توہوں؛ مگراس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے؛ بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں سے سنا ہے، اپنے آپ کوتووہ اہلحدیث یامحمدی یاموحد کہتے ہیں؛ مگرمخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یاوہابی یالامذہب لیا جاتا ہے"۔
(الارشاد الی سبیل الرشاد:۱۳)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک جماعت کسی ایک نام سے موسوم نہ تھی مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کی کوششوں سے یہ جماعت اہلحدیث (باصطلاح جدید) کے نام سے موسوم ہوئی، مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی لکھتے ہیں:
"مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی، لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔          
(سیرت ثنائی:۳۷۲)
سرچارلس ایچی سن صاحب جو اس وقت پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر تھے آپ کے خیرخواہ تھے؛ انہوں نے گورنمنٹ ہند کواس طرف توجہ دلاکر اس درخواست کومنظور کرایا اور پھرمولانا محمدحسین صاحب نے سیکریٹری گورنمنٹ کوجودرخواست دی اس کے آخری الفاظ یہ تھے:
"استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام اہلحدیث کا حکم پنجاب میں نافذ کیا جائے"۔
(اشاعۃ السنۃ:۱۱/ شمارہ نمبر:۲/ صفحہ نمبر:۲۶)
وہابی نام سے اختلاف کی وجہ
وہابی نام سے اس کی اسمی مناسبت کے سبب شیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی کے پیرو مرادلئے جاتے ہیں اور چونکہ یہ سب حضرات مقلد تھے اور امام احمدبن حنبل کی تقلید کرتے تھے اس لئے اہلحدیث جوترک تقلید کے عنوان سے جمہور اہلسنت سے علیحدہ سمجھے جاتے ہیں ،مقلدین کی طرف اپنی نسبت پسند نہ کرتے تھے، اس لئے وہ لفظ وہابی کواپنے لئے پسند نہ کرتے تھے، مقلدین سے غیرمقلدین کواصولی اختلاف رہا ہے، نواب صدیق حسن خان صاحب شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"سومذہب نجدی مذکور کا حنبلی تھا اور اس نے بوہروں اور بدوؤں پرچڑھائی کی تھی، اس مذہب (حنبلی مذہب) کی کتابیں ہندوستان میں رائج نہیں ہیں "۔   
(ترجمان وہابیہ:۱۱۵)
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی لکھا:
"محمدبن عبدالوہاب نجد میں پیدا ہوا تھا جومذہب حنبلی کا پیرو تھا، محمدبن عبدالوہاب مقلد تھا اور اہلحدیث کے نزدیک تقلید جائز نہیں، اہلحدیث کواس سے مسئلہ تقلید میں اختلاف تھا اور اب بھی ہے"۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۰۴)
موجودہ اہلحدیث اب شیخ کی مخالفت نہیں کرتے تاکہ سعودی عرب سے مالی امداد بند نہ ہوجائے، شیخ محمدبن عبدالوہاب خود لکھتے ہیں:
"ونحن ایضا فی الفروع علی مذہب الامام احمد بن حنبل ولاننکر علی من قلد الائمۃ الاربعۃ دون غیرھم لعدم ضبط مذاھب الغیر"۔            
(سیرۃ الشیخ محمدبن عبدالوہاب:۵۶)
ترجمہ:ہم فروعات میں امام احمد کے مذہب پرہیں اور مذاہب اربعہ میں سے کوئی کسی کی تقلید کرے ہم اس پرکوئی نکیر نہیں کرتے۔
یہ توشیخ کے الفاظ تھے، اب سوانح نگار کے الفاظ بھی سن لیجئے:
"وانھم الحنابلۃ متعصبون لمذھب الامام احمد فی فروعہ بکل اتباع المذاھب الاخریٰ فھم لایدعون لابالقول ولابالکتابۃ ان الشیخ اتی بمذھب جدید ولااخترع علماً غیرماکان عندالسلفد"۔           
(سیرۃ الشیخ محمدبن عبدالوہاب:۹۰)
ترجمہ:اور یہ سب حنبلی المذہب تھے امام احمد کے مذہب پرسختی سے کاربند تھے جیسے کہ دوسرے مذاہب کے پیرواپنے اپنے امام کے طریقے پرکاربند ہیں، زبانی اور تحریری انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ شیخ محمدبن عبدالوہاب کوئی نیا دین لائے اور انہوں نے کوئی نیا علم دریافت کیا جوپہلوں کے پاس نہ تھا۔
اکابرین غیر مقلدین اہل حدیث
میاں نذیر حسین صاحب دہلوی (بانی مسلک جنھیں جماعت شیخ الکل کہتی ہے)
آپ سنہ۱۲۲۰ھ کوموضع سورج گڑھ ضلع مونگیر (بہار) میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۳۲۰ھ میں سوسال کی عمرپاکروفات پائی، آپ کے استاد خسر مولانا عبدالخالق صاحب (متوفی:۱۲۶۱ھ) آپ کے سخت خلاف ہوگئے تھے، آپ پہلے رفع یدین نہ کرتے تھے؛ حالانکہ آپ حدیث پڑھ چکے تھے، سرسیداحمد خان سنہ۱۸۵۵ھ کی تحریک سے آپ نے رفع یدین شروع کی اور ایک مسلک کی بنیاد ڈالی، سرسیدایک خط میں لکھتے ہیں:
"جناب مولوی سیدنذیر حسین صاحب دہلوی کو میں نے ہی نیم چڑھا وہابی بنایا ہے، وہ نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے؛ مگراس کو د"سنت ہدیٰد"جانتے تھے میں نے عرض کیا کہ نہایت افسوس ہے کہ جس بات کوآپ نیک جانتے ہیں لوگوں کے خیال سے اس کونہیں کرتے، میرے پاس سے اُٹھ کرجامع مسجد میں نماز عصر پڑھنے گئے اور اس وقت سے رفع یدین کرنے لگے"۔
(موجِ کوثر:۵۱، مؤلفہ: شیخ محمداکرم صاحب)
پھرحکومت نے آپ کوشمس العلماء کا خطاب دے دیا، مولوی فضل حسین صاحب بہاری نے د"الحیاۃ بعدالمماۃد" کے نام سے ایک پرایک کتاب لکھی ہے، اس میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز سرکار آپ کے بارے میں کس طرح سوچتی تھی، کسے پتہ نہیں کہ سرسیداحمد خان کے حکومت سے کیا روابط تھے، ان کے کہنے سے رکوع کے وقت رفع یدین کرنا اور حکومت سے سنہ۱۸۹۷ء میں شمس العلماء کا خطاب پانا اس پورے پس منظر کوواضح کررہا ہے، رہی یہ بات کہ حضرت شاہ محمداسحاق نے پھرانہیں سندِحدیث کیوں دی؛ سویہ خود محل بحث ہے، مولوی فضل حسین بہاری لکھتے ہیں:
"آپ نے میاں صاحب کوصرف اطراف صحاح کی سند دی تھی، میاں صاحب نے استیعاباً نہ آپ سے صحاح ستہ پڑھیں نہ ان کی سند لی، میاں صاحب خود اس سند کوچپٹراس کہتے تھے"۔
(دیکھئے، الحیات بعدالممات:۶۸)
آپ مطلق تقلید کے قائل تھے، فقہ حنفی سے فتویٰ دینا جائز سمجھتے تھے، ائمہ کی شان میں گستاخ نہ تھے اور اس پہلو سے آپ کا احترام ہرحلقے میں موجود تھا، غیرمقلدحلقوں میں گستاخ اور تفرقہ انگیز انداز کے داعی عبدالحق بنارسی اور ابوالحسن محی الدین تھے، یہ دونوں نومسلم تھے، جومسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لیے داخل کئے گئے تھے، اصلاً یہ ہندو تھے، عبدالحق بنارسی کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے، میاں صاحب کے شاگرد قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی ان سے نقل کرتے ہیں، عبدالحق نے کہا:
"عائشہ علی سے لڑی اگرتوبہ نہ کی تومرتد مری "۔ (معاذ اللہ)
(کشف الحجاب:۴۲)
زبان اور زندقہ دونوں ملاحظہ ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے شیعہ بھی ترک تقلید کی اس تحریک کے پیچھے بڑی سرگرمی سے کام کررہے تھے اور اہلِ سنت نہ جانتے تھے کہ ان کے حلقوں میں آزاد خیالی کی ہوا کہاں سے تیز کی جارہی ہے، ابوالحسن محی الدین جس نے د"الظفرالمبین " لکھ کراس آگ کواور بھڑکایا اس کا اصل نام ہری چند تھا، یہ دیوان چند قوم کتھری سکنہ علی پور ضلع گوجرانوالہ کا بیٹا تھا، اس کے اثرات اب تک علی پور چھٹہ میں موجود ہیں، وہاں منکرینِ حدیث کافی تعداد میں پیدا ہوچکے ہیں اور ترکِ تقلید کی یہ روش اب انہیں کفر کی سرحد کے بہت قریب لاچکی ہے، تفسیرالقرآن بالقرآن وہیں لکھی گئی ہے، جس پرمؤلف کا نام نہیں ہے۔
نواب صدیق حسن خان صاحبؒ
میاں نذیرحسین صاحب کے بعد جماعت کے بڑے بزرگ جناب نواب صدیق حسن صاحب سمجھے جاتے ہیں، سنہ۱۲۵۰ھ میں بانس بریلی میں پیدا ہوئے اور سنہ۱۳۰۷ھ میں وفات پائی، آپ کی وفات کے وقت میاں نذیر حسین صاحب زندہ تھے، نواب صاحب مفتی صدرالدین صاحب دہلوی، تلمیذ حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز کے شاگرد تھے، ان کے ذریعہ ہندوستان میں ترکِ تقلید کی ہوا بڑی تیزی سے چلی؛ ملکہ بھوپال شاہ جہاں بیگم سے آپ کی شادی ہوئی تھی، اس دولت کی بدولت آپ کومسلک کی اشاعت اور علمی خدمات کا خوب موقع ملا، آپ امت کے کثیرالتصنیف علماء میں شمار ہوتے ہیں، آپ اپنے آپ کوموحد اور اپنے گروہ کوموحدین ہند کہتے تھے، جماعت کے لفظ اہلحدیث کا تعین اس وقت تک نہ ہوا تھا، ریاست بھوپال سے تعلق کی وجہ سے آپ چاہتے تھے کہ موحدین ہند ہراس تحریک سے نفرت کریں جوانگریزوں کے خلاف ہو؛ چنانچہ مجاہدینِ بالاکوٹ جن کی قیادت حضرت سیداحمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید نے کی تھی، آپ نے ان سے ان الفاظ میں لاتعلقی ظاہر کی ہے:
"گورنمنٹِ ہند کے دیگر فرقِ اسلام نے یہ دلنشین کردیا ہے کہ فرقہ موحدین ہند مثل دہابیان ملک ہزارہ ایک بدخواہ فرقہ ہے اور یہ لوگ (موحدینِ ہند) ویسے ہی دشمن وفسادی ملک گورنمنٹ برٹش ہند کے ہیں، جیسے کہ دیگرشریر اقوام سرحدی (مجاہدین بالاکوٹ وغیرہ) بمقابلہ حکومت ہند سوچا کرتے تھے"۔                         
(ترجمان وہابیہ:۶۱)
لفظ وہابی کے بارے میں انگریزوں اور نواب صاحب کی ایک سوچ
ملحوظ رہے کہ نواب صاحب نے وہابی کا لفظ  "لڑنے والوں " کے لئے اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں انگریز اسے مجاہدین پرلانا چاہتے تھے اور اپنے لئے ان سے متمائز نام  "موحدین ہند" اختیار کیا ہے؛ نیزاس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ جماعت صرف ہندوستان میں ہے اور ہندوستان سے باہر ان دنوں ترکِ تقلید کے عنوان سے کوئی مکتبِ فکرموجود نہ تھا، لفٹینٹ گورنرنے جب یہ درخواست منظور کرلی کہ غیرمقلدین کووہابی نہ کہا جائے تواس میں صراحت کی کہ یہ لوگ وہابیان ملک ہزارہ (مولانا اسماعیل شہید وغیرہم) سے نفرت رکھتے ہیں؛ چنانچہ نواب صاحب لکھتے ہیں:
"چنانچہ لفٹینٹ گورنرصاحب بہادر موصوف نے اس درخواست کومنظور کیا اورپھرایک اشتہار اس مضمون کا دیا گیا کہ موحدینِ ہند پرشبہ بدخواہی گورنمنٹ عامہ نہ ہو، خصوصاً جولوگ کہ وہابیانِ ملک ہزارہ سے نفرت رکھتے ہوں اور گورنمنٹ ہند کے خیرخواہ ہیں ایسے موحدین مخاطب بہ وہابی نہ ہو"۔               
(ترجمانِ وہابیہ:۶۲)
موحدینِ ہند اس وقت تک صرف اس درجہ تک پہنچے تھے کہ لفظ وہابی اُن پرنہ بولا جائے اور مولانا اسماعیل شہیدؒ سے ان کا کوئی تعلق ظاہر نہ ہو؛ لیکن ابھی تک یہ مرحلہ باقی تھا کہ حکومت سے اپنے لئے سرکاری سطح پر لفظ اہلِ حدیث خاص کرالیا جائے اور لفظ وہابی سرکاری طور پر بھی کاغذات سے نکال دیا جائے، یہ خدمت مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے سرانجام دی۔
نواب صاحب کی جماعتی فکر
ترکِ تقلید کی فضا ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ آپ شیخ عبدالوہاب نجدی اور ان کے پیروؤں کے بھی سخت خلاف تھے، لفظ وہابی سے سخت نفرت تھی، انگریزوں کوبار بار یاد دلاتے کہ ہم وہابی نہیں ہیں اور وہابیوں سے ہمار کوئی تعلق نہیں ہے۔                    
(دیکھئے، ترجمان وہابیہ:۲۸)
نجد کے شیخ محمدبن عبدالوہاب اور عرب کے وہابی امام احمد کے مقلد ہیں اور ہم غیرمقلد ہیں۔
وقت کی سیاسی فضا میں مسلمانوں میں آزادی پیدا کرنے کی ان خدمات کے باعث آپ کی انگریزی سرکار میں بہت قدر ومنزلت تھی، آپ کوایک لاکھ چوبیس ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ ملتا تھا (الحطہ:۱۵۱) آپ کی صاحبزادی شمس الامراء کوبھی حکومت سے باون لاکھ کی جاگیر ملی تھی (دیکھئے:ماثرصدیقی:۱/۴۷، مولانا حسن علی) اِن مراعات کے ہوتے ہوئے ان کی وفاداری کسی پہلو سے بھی محل شبہ میں نہ تھی۔

موحدین ہند کی علمی اور عملی حالت
نواب صاحب کے عہد میں غیرمقلدین اہلحدیث کے نام سے موسوم نہ تھے، ترکِ تقلید کی فضا خاصی معروف ہوچکی تھی اور یہ لوگ موحدینِ ہند کہلاتے تھے، یہ لوگ کس علمی اور عملی حالت میں تھے، اسے خود نواب صاحب سے سنیئے:
"یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہلِ سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے، حدیث پرعمل کرنے کی بجائے زبانی جمع وخرچ اور سنت کی اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پراکتفا کرتے ہیں اور اس کوعین دین تصور کرتے ہیں "۔         
(الحطہ:۱۵۱)
نواب صاحب نے معاملات کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عبادات میں ان لوگوں نے آمین بالجہر اور رفع الیدین وغیرہ کی کچھ روایات ضروریاد کی ہوتی ہیں، سواس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ فنِ حدیث سے کچھ آشنا ہیں، نواب صاحب عبادات میں بھی ان غیرمقلدین سے چنداں موافق نہ تھے، آپ کے صاحبزادہ حسن علی لکھتے ہیں:
"آپ حنفی نماز کوہمیشہ اقرب الی السنۃ فرماتے رہتے تھے"۔
(مأثرصدیقی:۱/۳)
پیش نظر رہے کہ عبدالحق بنارسی اور میاں نذیر حسین صاحب کے دور تک یہ حضرات اہلحدیث (اصطلاحِ جدید) میں معروف نہ تھے نہ اس وقت تک یہ اصطلاح باضابطہ طور پرقائم ہوئی تھی، ابھی یہ حضرات ترکِ تقلید کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یاموحدین ہند کے نام سے ؟۔
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی
مولانا بٹالوی سنہ۱۲۵۲ھ میں پیدا ہوئے، آپ اور نواب صدیق حسن خاں صاحب ہم اُستاد تھے، مولانا بٹالوی کے استاد بھی مفتی صدرالدین صاحب دہلوی تھے، آپ نے حدیث میاں نذیرحسین صاحب دہلوی سے پڑھی، آپ مولانا عبدالمجید صاحب سوہدروی کا یہ بیان پہلے سن آئے ہیں:
"لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اورکاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کواہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔                      
  (مآثرصدیقی:۱/۳)
یہیں سے جماعت اہل حدیث ایک مستقل مکتبِ فکر کے طور پراُبھرتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اس فرقے کا مولدومسکن ہندوستان سے باہر کہیں نہیں ملتا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات اہلِ حدیث کہلانے سے پہلے موحدین ہند کہلاتے تھے؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ان دنوں یہ فرقہ اہلِ حدیث کے عنوان سے مشہور نہ تھا اور اس کے تمام علماءتقریباًانہی بزرگوں کے شاگرد اور شاگرد درشاگردہیں جنھیں جماعت کے موسسین کے طور پر ہم ذکر کرآئے ہیں، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی، مولانا سلامت اللہ جیراجپوری، مولانا عبدالوہاب ملتانی (بانی فرقہ امامیہ اہلِ حدیث) اور حافظ محمدلکھوی، حاظ غلام رسول قلعہ یہان سنگھ والے سب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کے ہی شاگرد تھے؛ البتہ غزنی سے چند ایسے اور بزرگ ضرور تشریف لائے جواسمکتبِ فکر میں نئے شامل ہوئے اور پھراپنی محنت وخدمت سے پنجاب میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرے، یہ گروہ غزنوی نام سے معروف ہے۔
مولانا عبداللہ غزنوی میاں صاحب سے حدیث پڑھ کرواپس غزنی چلے گئے، وہاں مسلمانوں کوترکِ تقلید کی دعوت دی، ان کی یہ تحریک وہاں مسلمانوں کی وحدتِ ملی کوتوڑنے کاموجب سمجھی گئی اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس کے پیچھے انگریزوں کی افغانستان پرقبضہ کرنے کی سازش کارفرما نہ ہو اس پرحکومتِ افغانستان نے انہیں ملک سے نکال دیا اور یہ حضرات ہندوستان آگئے، ہندوستان میں ان دنوں مولانا محمدحسین بٹالوی غیرمقلدین کے مذہبی ایڈوکیٹ تھے، آپ جہاد کے خلاف رسالہ د"الاقتصادد" لکھ کرانگریزوں کومطمئن کرچکے تھے اور پھرانہیں سرکارِانگلشیہ سے ایک وسیع جاگیر بھی ملی تھی؛ سوہندوستان میں غیرمقلد ہوکر رہنا اب ان حضرات کے لئے چنداں مشکل نہ تھا؛ یہاں کے غیرمقلدوں نے ان علمائے غزنی کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔
پنجاب میں غزنوی علماء کی آمد
مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے عہد میں پنجاب میں غزنوی علماء کی آمدہوئی، حضرت مولانا عبداللہ غزنوی افغانستان سے جلاوطن ہوئے تھے، ان حضرات کارحجان ترکِ تقلید کی طرف تھا، انہیں یہاں بنابنایا میدان مل گیا، ہندوستان کے دیگر اہلِ حدیث حضرات سے اُن کا ایک موضوع میں اختلاف رہا، یہ حضرات تصوف اور بیعت وسلوک کے قائل تھے، مولانا عبدالجبار غزنوی نے د"اثبات الالہام والبیعۃد" کے نام سے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی، مولانا عبداللہ غزنوی کے دوبیٹے مولانا عبدالجبار اور مولانا عبدالواحد تھے، مولانا عبدالجبار کے بیٹے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبدالغفار تھے، مولانا عبدالواحد کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے؛ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پرآگیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے؛ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی؛ سولفظ وہابی یہاں اور قوت پکڑگیا اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں اپنی محنت وخدمت سے ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری
مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علماء دیوبند اور جماعت اہلِ حدیث کے مابین ایک نقطۂ اتصال تھے، آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے؛ مگرمسلک ترکِ تقلید کا ہی رہا؛ تاہم آخر دم تک علماء دیوبند سے بہت قریب کا تعلق رہا، غیرمقلدین میں سے آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حدیث پڑھی، مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی شاگرد تھے، ملک کی سیاسی جدوجہد میں بارہا علماء دیوبند کے ساتھ شریک ہوئے اور فرقہ باطلہ کے رد میں بھی علماء دیوبند کے شانہ بشانہ کام کیا، انگریزوں کی ڈائری میں تحریک ریشمی رومال کے ذیل میں لکھا ہے:
"جنود ربانیہ کی فہرست میں میجر جنرل ہے یہی شخص مولوی ثناء اللہ امرتسری ہے انجمن اہلِ حدیث پنجاب کا صدر ہے، ہندوستان میں شاید سب سے ممتاز وہابی ہے، امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اردو اخبار اہلِ حدیث کومرتب کرتا ہے،مولوی ثناء اللہ امرتسری مولانا محمود الحسن کا شاگرد ہے اور شاید بیس پچیس برس گزرے ان سے حدیث پڑھی تھی "۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز اب پھر سے لفظ وہابی ان حضرات کے لئے واپس لارہے تھے، نواب صدیق حسن خان صاحب اور مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی نے جب رسالہ د"تنسیخِ جہادد" پردستخط کیئے اور وہابیانِ ہزارہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا تولفظ وہابی ان موحدینِ ہند سے اُٹھا لیا گیا تھا اور جونہی ان میں سے کسی نے مولانا محمود الحسن سے نسبت ظاہر کردی توپھراُسے وہابی قرار دیا جانے لگا، انگریزی سیاست کے اس مدوجزر میں معلوم نہیں کتنے لوگ ڈوبے ہوں گے۔
مولانا محمدابراہیم صاحب سیالکوٹی
آپ مولانا غلام حسن صاحب سیالکوٹی (شاگرد نواب صدیق حسن صاحب) اور حافظ عبدالمنان صاحب وزیرآبادی کے شاگرد تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری سے گہرے تعلق کی بناء پریہ بھی علماء دیوبند کے بہت قریب ہوگئے تھے؛ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں انگریزوں کی ڈائری میں یہ الفاظ ملتے ہیں:
"پسرمستری قادر بخش سکنہ سیالکوٹ "۔
مشہور اور نہایت بااثراور متعصب وہابی مبلغ، ہندوستان میں سفر کرتا رہتا ہے اور وہابیوں کے جلسوں میں اور دوسرے فرقوں سے مناظروں کے دوران نہایت پرجوش تقریریں کرتا ہے، اس لئے اس کی ہروقت مانگ رہتی ہے، ظفرعلی کاکٹرحامی ہے اور ثناء اللہ امرتسری کا ساتھی اور مولوی عبدالرحیم عرف بشیر احمد اور عبداللہ پشاوری کتب فروش کا ساتھی ہے۔
(تحریک ریشمی رومال د"انگریزوں کی اپنی ڈائرید")
مولانا وحید الزماں حیدرآبادی، المتوفی: سنہ۱۳۳۸ھ م سنہ۱۹۲۰ء
کتبِ حدیث کے اردو تراجم اور وحید اللغات لکھنے کے باعث آپ فرقہ اہلِ حدیث میں سب سے بڑے مصنف سمجھے جاتے ہیں، نواب صدیق خان کے بعد اس باب میں انہی کا نام ہے، پہلے نواب صاحب نے آپ کوتراجم کے لیے تنخواہ پرملازم رکھا، آپ کے دور میں مولوی شمس الحق عظیم آبادی، مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی، مولوی عبداللہ غازی پوری ہولوی فقہ اللہ صاحب پنجابی غیرمقلدین کی نمایاں شخصیتیں تھے، مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی خاصے معروف ہوچکے تھے۔
آپ نے میاں نذیر حسین صاحب سے حدیث پڑھی، غیرمقلد ہونے کے بعد شیعیت کی طرف خاصے مائل ہوگئے، آپ کی کتاب ہدیۃ المہدی آپ کے انہی خیالات کی ترجمان ہے، مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم کتاب د"ہدیۃ المہدید" تالیف کی ہے تواہلِ حدیث کا ایک بڑا گروپ تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلِ حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے۔(وحیداللغات مادہ شر)
آپ فخرالدین الطویحی شیعی (۱۰۸۵ھ) کی کتاب مطلع نیرین اور مجمع البحرین سے خاصے متأثر تھے، وحیداللغات کی اس قسم کی عبارات انہی خیالات کی تائید کرتی ہیں، شیخین رضی اللہ عنہ کواکثر اہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امر پربھی کوئی قطعی دلیل نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے۔
(مادہ عثم)
حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی۔         
(مادہ عجز)
حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے۔
(مادہ عجز)
پھرمحرم کے بارے میں رقمطراز ہیں:یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہامحرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا ہے۔
غیر مقلدین کی چند صاف صاف باتیں
1۔غیر مقلدین کے عقائد ونظریات
عقائد اعمال کی روح اور جان ہوتے ہیں اگر عقائد صحیح ہوں تو اعمال بھی صحیح ہوتے ہیں اوراگر عقائد خراب ہوجائیں توان کی خرابی تمام اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے خواہ وہ کتنے ہی اخلاص وللہیت اورسنت کےمطابق ادا کئے گئے ہوں اسی لئے قرآن وحدیث میں عقائد کی تصحیح پر بہت زور دیاگیاہے۔
موجودہ دور میں غیر مقلدین حضرات اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحیح العقائد موحد اور حق پرست سمجھتے ہیں اوراپنے سوا سب کو فاسد العقائد مشرک اورگمراہ سمجھتے ہیں ذیل میں غیر مقلدین کےاکابر واصاغر کےچند عقائد ونظریات پیش کئے جاتے ہیں جس سے ایک توغیرمقلدین کےقول وفعل کےتضاد کاکچھ اندازہ ہوسکے گا دوسرے حق وباطل میں بھی امتیاز ہوگا اور معلوم ہوگا کہ توحید کےیہ نام نہاد علمبردار خود کتنے پانی میں ہیں۔
اﷲ تعالی کے بارے میں غیرمقلدین کےعقائد
۱۔خدا عرش پربیٹھا ہے اورعرش اس کا مکان ہے(یعنی اﷲ ہر جگہ موجود نہیں۔ معاذاﷲ)
(رسالة الاختواءعلی مسلة الاستواء ھدیة المھدی ص۹)
۲۔ اﷲ تعالی کا چہرہ،آنکھ،ہاتھ،ہتھیلی،مٹھی، انگلیاں، کلائی،بازو، سینہ،پہلو، کمر،پاؤں، ٹانگ اور سایہ اس کی شان کے مطابق ہیں۔
(ھدیة المہدی ص۹)       
۳۔اﷲ تعالی جس صورت (انسان،چرند، پرند،جانور وغیرہ ) میں چاہے ظاہر ہو سکتا ہے۔
(ھدیة المہدی ص۹)
۴۔مذاق اور ٹھٹھہ کرنا اﷲ تعالی کی صفت ہے ۔
(ھدیة المہدی ص۹)
انبیاءعلیہم السلام کے بارے میں غیرمقلدین کےعقائد
۵۔عصمت مطلقہ (معصوم ہونا) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطے ثابت نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم آپ علیہ السلام کی بعض خطاؤں پر اعتراض نہ کرتے۔
(تحقیق الکلام فی مسلة البیعہ والہام ص۴۴,۴۵)
۶۔ائمہ رحمہ اﷲ و صحابہ رضی اﷲ عنہم تو کجا خود رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی رائے سے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں۔
(طریق محمدی ص۵۷)
۷۔رام چندر، کرشن جی، لچھمن جو ہندووں میں ہیں اور زرتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوشس اور مہاتما بدھ جو چین وجاپان میں ہیں اور سقراط وفیثا غورث جو یونان میں ہیں ہم پر واجب ہے کہ ان تمام انبیاء و رسل پر ایمان لائیں۔
(العیاذ باﷲ)
(ھدیةالمہدی ص۸۵)
۸۔ انبیاءعلیہم السلام سے احکام میں دین میں بھول چوک ہو سکتی ہے۔
(ردتقلید بکتاب الجید ص ۱۳)
خلفائے راشدین ؓکے بار ے میں غیرمقلدین کےنظریات
۹۔خطبہ جمعہ میں خلفاء الراشدین کا ذکر کرنا بدعت ہے۔
(ھدیة المہدی ص۱۱۰)
۱۰۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ ثانی مقرر کرنا اصل اسلام کے خلاف تھا۔
(طریق محمدی ص۸۳)
۱۱۔فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے صاف صاف موٹے مسائل میں غلطی کی۔
(طریق محمدی ص۵۴)
۱۲۔ روز مرہ کے مسائل حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے مخفی رہے ۔
(طریق محمدی ص۵۵)
۱۳۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا فتوی حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔
 (تیسیر الباری ص۱۶۹جلد۷)
۱۴۔ہم نے عمررضی اﷲ عنہ کا کلمہ نہیں پڑھا جو ان کی بات مانیں۔
(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۵۲)
۱۵۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے بہت سے مسائل حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھے ۔
(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۵۲)
۱۶۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ کا فعل نہ قابل حجت ہے نہ واجب العمل۔
(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۵۲)
۱۷۔متعہ سے اگر حضرت عمررضی اﷲ عنہ منع نہ کرتے تو کوئی زانی نہ ہوتا۔
(لغات الحدیث جلد۴ص۱۸۶)
۱۸۔حضرت عمررضی اﷲ عنہ کا فتوی حجت نہیں۔
(فتاوی ستاریہ جلد۲ص۶۵)
۱۹۔اجتہاد عمررضی اﷲ عنہ حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔
(تیسیر الباری جلد۷ص۱۷۰)
۲۰۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا عمل قابل حجت نہیں۔
(فتاوی ثنائیہ جلد ۲ص۲۳۳)
۲۱۔ اذان عثمانی رضی اﷲ عنہ بدعت ہے اور کسی طرح جائز نہیں۔
( فتاوی ستاریہ جلد۳ص۸۵,۸۶,۸۷)
۲۲۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خودساختہ خلافت کا چار، پانچ سالہ دور امت کےلئے عذاب خداوندی تھا ۔
(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)
۲۳۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد امت نے سکھ کا سانس لیا۔
(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)
۲۴۔ آپ رضی اﷲ عنہ دنیائے سبائيت ( شیعت) کے منتخب خلیفہ تھے۔
(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)
۲۵۔ نبی علیہ السلام کی زندگی ہی میں آپ (علی رضی اﷲعنہ) حصول خلافت کے خیال کو اپنے دل میں پروان چڑھانے میں مشغول تھے۔
(صدیقہ کائنات ص۲۳۷)
۲۶۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا تین طلاقوں کو تین کہنے کا فیصلہ غصہ کی بنیاد تھا ۔
(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص۱۰۳)
۲۷۔ خلفاء الراشدین نے قرآن و سنت کے خلاف فیصلے دئيے اور امت نے اس کو رد کر دیا۔
(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص۱۰۷)
۲۸۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔
(تنویر آلافاق ص۱۰۸)
۲۹۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سمجھ معتبر نہیں۔
(شمع محمدی ص۱۹)
صحابہ کرام ؓکے بارے میں غیرمقلدین کےنظریات
۳۰۔حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ کے مناقب بیان کرنا جائز نہیں ہیں۔
(لغات الحدیث جلد۲ص۳۶)
۳۱۔معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ شریر تھے ۔
(لغات الحدیث جلد ۲ص۳۶)
۳۲۔اسلام کا سارا کام معاويہ رضی اﷲ عنہ نے خراب کیا۔
(لغات الحدیث جلد۳ص۱۰۴)
۳۳۔حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا قول حجت نہیں۔
(تیسیر الباری جلد۷ص۱۶۵)
۳۴۔ بعض صحابہ مشت زنی کرتے تھے ۔
(عرف الجادی ص۲۰۷)
۳۵۔ صحابی رضی اﷲ عنہم کا قول حجت نہیں ہے ۔
(فتاوی نذیریہ جلد۱ص۳۴۰)
۳۶۔موقوفات (اقوال و افعال) صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔
(رسالہ عبد المنان ص۱۴-۸۱-۸۴-۸۵-۵۹)
۳۷۔صحابہ رضی اﷲ عنہم کی درایت (سمجھ)معتبر نہیں۔
(تحفۃ الاحوذی جلد۲ص۴۴، شمع محمدی ص۱۹)
۳۸۔ بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم فاسق تھے۔
(نزل الابرار جلد۳ص۹۴)
۳۹۔متاخرین علماءصحابہ رضی اﷲ عنہم سے افضل ہو سکتے ہیں
(ھدیة المہدی ص۹۰)
۴۰۔صحابہ رضی اﷲ عنہم اور فقہا رحمہ اﷲ کے اقوال گمراہ کن ہیں۔
(فتاوی ثنائیہ جلد۲ص۲۴۷)
۴۱۔اقوال صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔
(عرف الجادی ص۴۴-۵۸-۸۰-۱۰۱-۲۰۷)
۴۲۔صحابہ رضی اﷲ عنہم کی فہم معتبر نہیں۔
(الروضة الندیہ ص۹۸)
۴۳۔حضرت مغیرہ رضی اﷲ عنہ کی۳/۴ دیانتداری کوچ کر گئی ۔
(لغات الحدیث جلد۳ص۱۶۰)
قادیانیوں سے متعلق غیرمقلدین کےعقائد
مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
مرزائیوں کا سب سے زیادہ مخالف میں ہوں مگر نقطۂ محمدیت کی وجہ سے میں ان کو بھی اس میں شامل سمجھتا ہوں(اخبار اہل حدیث امرتسر۱۶اپریل۱۹۱۵ء بحوالہ ترک تقلید کےبھیانک نتائج)
مرزائن سے نکاح جائز ہے(اخبار اہل حدیث امرتسر۲نومبر۱۹۳۳ء بحوالہ ترک تقلید کےبھینک نتائج)
میرا مذہب اورعمل ہے کہ ہر کلمہ گو کےپیچھے(نماز میں)اقتدا جائز ہے چاہے وہ شیعہ ہو یامرزائی(اخبار اہل حدیث ۱۲اپریل ۱۹۱۵ءفتوی امام ربانی ص۵۰)
2۔غیرمقلدین کےکارنامے
 جب انگریز کے منحوس قدم یہاں آئے تو یورپ سے ذہنی آوارگی  مادر پدرآزادی اور دینی بے راہ روی کی سوغات ساتھ لائے ،مذہبی آزادی اورمذہبی  تحقیق کےخوش نما اور دلفریب عنوانوں سے مسلمانوں میں افتراق کی مہم شروع کی گئی، تحقیق اور ریسرچ کےنام سے متواتر قران پاک کے بارے میں شبہات ڈالےگئے ،متروک اور شاذ قراتوں کو متواتر قران سے ٹکرادیاگیا،انگریز کے زیر سایہ پادریوں نے اس مہم کاآغاز کیااور روافض نے اس کو کمال تک پہنچادیا،  رسول اقدسﷺ  کی متواتر سنت کےخلاف پادری فانڈر نے میزان الحق میں اور پھر پادری عماد الدین نے جو آواز تحقیق الایمان میں اٹھائی اس کو سرسید احمد خان  غیرمقلد لےاڑے،پھر اسلم جیراجپوری سابق غیر مقلد اورغلام احمد پرویز سابق غیر مقلد  نے اس تحریک کو پروان چڑھایا،قرآن وسنت پر حملوں کےبعد  اب فقہ  اسلامی کی باری تھی جس کے ذریعہ احکام نبویﷺ عموماً اور نماز نبویﷺ خصوصاً تواتر علمی کےساتھ امت میں پھیلی ہوئی تھی یہ نماز  جس طرح ایک بہت بڑی  روحانی عبادت ہے اسی طرح مسلمانوں میں اتحاد ویک جہتی کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،مسلمان  نماز کے لئے پانچ وقت مسجد میں جمع ہوتے ہیں افتراق پسند حکومت برطانیہ کو جس کی پالیسی ہی یہ تھی  کہ لڑاؤ اور حکومت کرو مسلمانوں کا اتحاد کیسے پسند آتا ،آخر ایک فرقہ ایسا پیدا کیاگیا جو اس متواتر نماز کو غلط کہے نمازیوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرے متروک شاذ اور مرجوع روایات کو متواتر نماز سے ٹکرادے اور جوحشر پادری فانڈر نے قرآن کا کیا تھاوہی حشر نماز کا ہوجائے چنانچہ اس سلسلہ میں  حکومت برطانیہ  نے وکیل اہل حدیث ہند کو جاگیر دی آپ نے ایک رسالہ جہاد کےخلاف لکھا جس کا نام الاقتصاد فی مسائل الجہاد ہے اور رسائل اہل حدیث جلد اول میں چھپ چکا ہے اس میں سارا زور لگایاگیا کہ انگریز کےخلاف  جہاد حرام ہے اور ایک اشتہار اہل سنت کی متواتر نماز کےخلاف شائع کیا اور اس متواتر نماز کو غلط قرار دیا اور شہرشہر گاؤں گاؤں تقسیم کرکے ہر مسجد کو میدان جنگ بنادیا اس فرقہ کی کارکردگی کاخلاصہ دوہی کام تھے انگریز کےخلاف جہاد حرام اور مسلمانوں کی مساجد میں فساد فرض۔
3۔نماز سےمتعلق غیر مقلدین سے کچھ سوالات
غیر مقلدین کا دعوی ہے کہ ہماری نماز کا ہر ہر مسئلہ حدیث صحیح صریح متفق علیہ غیر معارض سے ثابت ہے جس میں قیاس اور اجتہاد کا کوئی دخل نہیں اس لیے وہ مندرجہ ذیل مسائل  کی احادیث صحیحہ صریحہ متفق علیہ غیر معارضہ پیش فرمائیں:
(۱)نماز میں نیت فرض ہے یا واجب یا سنت
(۲)تکبیر تحریمہ کا فرض ہونا
(۳)اکیلے نمازی اور مقتدی کا ہمیشہ تکبیر تحریمہ آہستہ کہنا
(۴)نماز میں ثناء کا سنت موکدہ ہونا
(۵)امام کا ہمیشہ ثناء اہستہ پڑھنا جب کہ حضرت عمر نے امام بن کر ثنا اونچی آواز سے پڑھی
(۶)مقتدی کا ثنا ہمیشہ اہستہ آواز سے پڑھنا جب کے نسائی میں مقتدی کا حضورﷺ کے پیچھے ثنا بلندآواز سے پڑھنا ثابت ہے
(۷)اکیلے نمازی کا ثنا ہمیشہ اہستہ آواز سے پڑھنا
(۸)ثنا کے بعد تعوذ کی ترتیب
(۹)تعوذ کا سنت ہونا
(۱۰)امام مقتدی اور منفرد سب کا تعوذ اہستہ آواز سے پڑھنا
(۱۱)تحریمہ کے وقت ہاتھ ہمیشہ کاندھوں تک اٹھانا
(۱۲)قیام کا فرض ہونا صرف فرائض میں
(۱۳)سنت ونفل میں قیام کا سنت ہونا
(۱۴)قیام میں ہاتھ ہمیشہ سینے پر باندھنا
(۱۵)نوافل میں بیٹھ کر ہاتھ سینہ پر باندھنا
(۱۶)تعوذ کے بعد تسمیہ کی ترتیب
(۱۷)بسم اللہ کا سنت مؤکدہ ہونا اکیلے نمازی کا ہمیشہ تسمیہ اہستہ پڑھنا
(۱۸)مقتدی کا ہمیشہ تسمیہ اہستہ پڑھنا
(۱۹)امام کا ہمیشہ تسمیہ بلند سے پڑھنا
 (۲۰)سورہ فاتحہ کا اکیلے نمازی پر فرض ہونا
(۲۱)سورہ فاتحہ کا امام پر فرض ہونا
(۲۲)سورہ فاتحہ کا مقتدی پر فرض ہونا اور اکیلے نمازی کا  سورۂ فاتحہ اہستہ پڑھنا
(۲۳)بعض مقتدیوں کا فاتحہ امام کی فاتحہ سے پہلے پڑھنا
(۲۴)امام کا گیارہ رکعتوں میں فاتحہ اہستہ پڑھنا
(۲۵)بعض مقتدیوں کا امام کی سورۃ کے ختم کے بعد فاتحہ پڑھنا
(۲۶)امام کا چھ رکعتوں میں فاتحہ بلند آواز سے پڑھنا
(۲۷)فاتحہ کے بعد اٰمین کا سنت مؤکدہ ہونا
(۲۸)اکیلے نمازی کا ہمیشہ اہستہ آواز سے اٰمین کہنا
(۲۹)مقتدی کا ہمیشہ گیارہ رکعتوں میں اٰ مین اہستہ کہنا
(۳۰)جہری  رکعتوں میں جو مقتدی امام کی سورت کے وقت ملے اس اپنی فاتحہ کے بعد ہمیشہ آہستہ  آمین کہنا
(۳۱)جہری رکعتوں کو جو مقتدی امام کے بعد پوری کرےان ہمیشہ اہستہ اٰ مین کہنا
(۳۲)جو مقتدی جہری رکعت میں امام کی فاتحہ کے آخر میں ملے اس کا اپنی فاتحہ  کے درمیان اونچی آواز سے اور اپنی فاتحہ کے بعد  زیادہ اہستہ آواز سے اٰ مین کہنا
(۳۳)امام کا گیارہ رکعتوں میں ہمیشہ زیادہ  اہستہ آواز سے آمین کہنا
(۳۴)امام کا چھ رکعتوں میں ہمیشہ بلند آواز سے آمین کہنا
(۳۵)آمین کے بعد اکیلے نمازی پر  زائد قرآن کا فرض نہ ہونا نہ واجب بلکہ صرف سنت ہونا
(۳۶)امام پر بھی سورت کا لازم نہ ہونا
(۳۷)مقتدی پر ہر نماز میں قرآن پاک کی ۱۱۳ سورتوں میں سے کچھ پڑھنا حرام ہونا
(۳۸)رکوع سے پہلے تکبیر کاسنت   مؤکدہ ہونا
(۳۹)تکبیر کب شروع کرے اور کہاں ختم کرے
(۴۰)رکوع سے پہلے ہمیشہ بغیر تکبیر کے رفع یدین کرنا
(۴۱)اس تکبیر کا اکیلے اور مقتدی کا آہستہ کہنا
(۴۲)رکوع کا فرض ہونا
(۴۳)رکوع میں تسبیحات کا سنت مؤکدہ ہونا
(۴۴)ان تسبیحات کا اہستہ کہنا جب کہ نسائی میں حضور اکرمﷺ کا اونچی آواز سے پڑھنا ثابت ہے
(۴۵)رکوع سے کھڑے ہوکر ہاتھ لٹکانا
(۴۶)رکوع کے بعد قومہ میں سمع اللہ لمن حمدہ امام کا بلند آواز سے اور منفرد کو آہستہ آواز سے کہنا
(۴۷)سمع اللہ کے بعدربنا لک الحمد مقتدی اور منفرد کوآہستہ آواز سے کہنا
(۴۸)سجدوں کی طرف جھکتے وقت تکبیر کا سنت موکدہ ہونا
(۴۹)اکیلے اور مقتدی کا اس تکبیر کو اہستہ آواز سے کہنا
(۵۰)سجدوں سے پہلے بعد اور درمیان میں  رفع یدین  کا منسوخ ہونا
(۵۱)سجدوں میں تسبیحات کا سنت مؤکدہ ہونا
(۵۲) امام منفرد اور مقتدی سب کا ان تسبیحات کو آہستہ پڑھنا جبکہ نسائی  میں اونچا پڑھنا ثابت ہے
(۵۳)دونوں سجدوں کے درمیان دائیاں پاؤں کھڑا کرکے بائیں پاؤں پر بیٹھنا اور ہاتھ گٹنوں پر رکھنا
(۵۴)دونوں سجدوں کے درمیان کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرنا
(۵۵)دونوں سجدوں کے درمیان دعا کا سنت مؤکدہ ہونا
(۵۶)امام مقتدی اور منفرد کا ہمیشہ اس دعا کو آہستہ آواز سے پڑھنا
(۵۷)دونوں سجدوں میں جاتے اور اٹھتے وقت تکبیر ا ت کاسنت مؤکدہ ہونا
(۵۸)اکیلے اور مقتدی کا ہمیشہ ان تکبیرات کوآہستہ أواز سے کہنا
(۵۹)جو شخص سجدوں سے پہلے  اور بعد میں رفع یدین کرے اس کی نمازکا باطلہونا
(۶۰)جو شخص جلسہ استراحت نہ کرے اس کی نماز کا باطل ہونا
(۶۱)جلسے استراحت کا بھی ذکرالہی سے خالی ہونا،اس سے اٹھتے وقت بھی کوئی ذکر کا  نہ ہونا
(۶۲)رکوع کے بعد دعائے قنوت میں دعا کی طرح ہاتھ اٹھاکردعا مانگنا اور پھر منہ پرہاتھ پھیرنا
(۶۳)التحیات ہر دو رکعت کے بعد فرض ہے یا واجب یا سنت
(۶۴)اکیلے مقتدی اور امام کا ہمیشہ التحیات آہستہ پڑھنا جب کے نسائی میں جہر کا ثبوت ہہے
(۶۵)التحیات کے بعد درود کس قعدہ میں فرض ہے اور کس قعدہ میں حرام ہے
(۶۶)درود کا امام مقتدی اور منفرد کا ہمیشہ آہستہ پڑھنا جبکہ نسائی میں جہر کا ثبوت ہے
(۶۷)درود کے بعد دعا فرض ہے یا واجب یا سنت
(۶۸)یہ دعا امام مقتدی اور منفرد ہمیشہ آہستہ پڑھتے ہیں جب کہ نسائی میں جہر ثابت ہے
(۶۹)دعا کے بعد دونوں طرف سلام فرض ہے یا واجب یا سنت
(۷۰)امام کا بلند آواز سے سلام  کہنا اور منفرد ومقتدی کا  ہمیشہ آہستہ آواز سے سلام کہنا
(۷۱)آپﷺ نے ایک آدمی کو نماز سکھائی فرمایا قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہہ  پھر کچھ قرآن پڑھ پھر سکون سے رکوع کر پھر سکون سے قومہ کر پھر اطمینان سے سجدے کر اور سجدوں کے درمیان آرام سے بیٹھ جب اس طرح نماز پڑھی تو نماز پوری ہوگئی(نسائی)اس میں تکبیرات ،تسبیحات ،فاتحہ،اٰمین وغیرہ کا تذکرہ نہیں ہے کیا آپ ایسی نماز کو مکمل صحیح مانتے ہیں یا فرمان رسولﷺ کے منکر ہیں۔
 (۷۲)نماز سنت نفل اور قضا کی نیت الگ الگ دل میں کیسی کرنی چاہیے مکمل نیت بتائیں اور جس حدیث میں دل کی مکمل نیت ہو وہ بھی تحریر کریں
(المسائل  ابن حجر حنبلی،متحدہ امارات السعودیہ العربیہ،۲۸ ربیع الثانی،۱۴۱۴ھ)
۔غیرمقلدین کےشرمناک مسائل
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیر مقلدین (جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں) کا وجود انگریز دور سے پہلے نہ تھا۔ انگریز کے دور سے پہلے پورے ہندوستان میں نہ ان کی کوئی مسجد تھی، نہ مدرسہ اورنہ کوئی کتاب۔ انگریز نے ہندوستان میں قدم جمایا تو اپنا اولین حریف علماءدیوبند کو پایا۔ یہی وہ علماءتھے جنہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور ہزاروں مسلمانوں کو انگریز کے خلاف میدان جہاد میں لا کھڑا کیا ، غیر مقلدین  نے انگریز کے خلاف جہاد کو حرام قرار دیا اور مسلمانوں میں تفرقہ اور انتشار پھیلایا اور آج تک اپنی اسی روش پر قائم ہیں۔
فقہ حنفی جو تقریبا ً بارہ لاکھ مسائل کا مجموعہ ہے اس عظیم الشان فقہ کے چند ایک مسائل پر اعتراض کرتے ہوئے غیر مقلدین عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے اور غیر مقلدعوام کی زبان پر یہ تو ایک چلتا ہوا جملہ ہے کہ “فقہ حنفی میں فلاں فلاں گندہ اورحیاءسوز مسئلہ ہے” اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ عوام کو آگاہ کیا جائے کہ خود غیر مقلدین کی مستند کتابوں میں کیا کیا گندے اور حیا سوز مسائل بھرے پڑے ہیں۔ افسوس کہ غیر مقلد علماءنے یہ مسائل قرآن وحدیث کا نا م لے کر بیان کئے ہیں۔ آپ یقین کریں جتنے حیاءسوز مسائل غیر مقلدین نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے منسوب کئے ہیں کسی ہندو ، سکھ یایہودی نے بھی اپنے مذہبی پیشوا سے منسوب نہیں کیے ہوں گے۔ غیر مقلدین تقیہ کر کے ان مسائل کو چھپاتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ فقہ حنفی پر خواہ مخواہ کے اعتراض کیے جائیں تاکہ ان کے اپنے مسائل عوام سے پوشیدہ رہیں۔
آپ یہ مسائل پڑھیں گے تو ہو سکتا ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگائیں اور توبہ توبہ کریں۔ کوئی شاید یہ بھی کہے کہ ایسی کتاب لکھنے کی کیا ضرورت تھی لیکن یہ حقیقت ہے جس تیزی سے اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر مقلدین اپنا لٹریچر پھیلا رہے ہیں حقیقت کو آشکار کرنا ہماری مجبوری ہے۔ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ غیر مقلدین کو ہدایت عطا فرمائیں اور امت کو اس فتنے سے بچائیں۔ آمین
مشہور غیر مقلد عالم نواب نور الحسن خان لکھتے ہیں:
منی ہر چند پاک ہے (عرف الجادی ۔ ص۱۰)
اور معروف غیر مقلد عالم علامہ وحید الزماں خان لکھتے ہیں:
منی خواہ گاڑھی ہو یا پتلی ، خشک ہو یا تر ہر حال میں پاک ہے۔
(نزل الابرار ۔ ج۱ص۴۹)
اور نامور غیر مقلد عالم مولانا ابو الحسن محی الدین لکھتے ہیں:
منی پاک ہے اور ایک قول میں کھانے کی بھی اجازت ہے
( فقہ محمدیہ ۔ ج۱ص ۴۶)
مشہور غیر مقلد عالم علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں :
عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے
(کنزالحقائق س۱۶)
 معروف غیر مقلد عالم نوب نورالحسن خان لکھتے ہیں:
نماز میں جس کی شرمگاہ سب کے سامنے نمایاں رہی اس کی نماز صحیح ہے۔
(عرف الجادی ۔ص۲۲)
مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں :
عورت تنہا بالکل ننگی نماز پڑھ سکتی ہے۔ عورت دوسری عورتوں کے ساتھ سب ننگی نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے۔ میاں بیوی دونوں اکٹھے مادر زاد ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے۔ عورت اپنے باپ ، بیٹے ، بھائی ، چچا ، ماموں سب کے ساتھ مادر زاد ننگی نماز پڑھے تو نماز صحیح ہے“۔
(بدورالاہلہ ۔ ص۳۹)
یہ نہ سمجھیں کہ یہ مجبوری کے مسائل ہوں گے۔ علامہ وحید الزماں وضاحت فرماتے ہیں ”کپڑے پاس ہوتے ہوئے بھی ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے“۔
( نزل الابرار۔ ج۱ ص۶۵)
معروف غیر مقلدعالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
”شرمگاہ کے اندر جھانکنے کے مکروہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں“۔
( بدورالاہلہ۔ص۱۷۵)
آگے لکھتے ہیں:
رانوں میں صحبت کرنا اور دبر (پیچھے کے راستے ) میں صحبت کرنا جائز ہے کوئی شک نہیں بلکہ یہ سنت سے ثابت ہے ۔
 (معاذاللہ ۔ استغفراللہ)
(بدورالاہلہ۔ص۱۷۵)
اور مشہور غیر مقلدعالم علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
بیویو ں اور لونڈیوں کے غیر فطری مقام کے استعمال پر انکار جائز نہیں
(ہدیہ المہدی ج۱ ۔ ص۱۱۸)
آگے لکھتے ہیں:
دبر (پیچھے کے راستے ) میں صحبت کرنے سے غسل بھی واجب نہیں ہو تا
(نزل الابرار۔ ج۱ص۲۴)
علامہ وحید الزما ں نے ایک عجیب وغریب مسئلہ غیر مقلدین کے لیے یہ بھی بیان کیا کہ :
خود اپنا آلہءتناسل اپنی ہی دبر میں داخل کیا تو غسل واجب نہیں ۔
(نزل الابرار۔ ج۱ص۲۴)
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
متعہ کی اباحت (جائز ہونا) قرآن کی قطعی آیات سے ثابت ہے۔
(نزل الابر ار ۔ ج۲ ص۳۳)
معروف غیر مقلدعالم نواب نور الحسن خان لکھتے ہیں:
جن کو زنا پر مجبور کیا جائے اس کو زنا کرنا جائز ہے اور کوئی حد واجب نہیں۔ عورت کی مجبوری تو ظاہر ہے۔ مرد بھی اگر کہے کہ میرا ارادہ نہ تھا مگر مجھے قوت شہوت نے مجبور کیا تو مان لیا جائے گااگر چہ ارادہ زنا کا نہ ہو۔
(عرف الجادی ۔ ص۲۰۶)
مشہور غیر مقلدعالم نواب نورالحسن لکھتے ہیں:
ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ کی قبل ودبر (یعنی اگلی اور پچھلی شرمگاہ) کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔
(عرف الجادی۔ص۵۲)
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
جائز ہے کہ عورت غیر مرد کو اپنا دودھ چھاتیوں سے پلائے اگرچہ وہ مرد داڑھی والا ہو تا کہ ایک دوسرے کو دیکھنا جائز ہو جائے۔
(نزل الابرار ج۲ص۷۷)
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
چار کی کوئی حد نہیں (غیر مقلدمرد) جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔
(ظفرالامانی۔ ص۱۴۱)
نواب نورالحسن خان لکھتے ہیں:
اگر کسی عورت سے زید نے زنا کیا اور اسی زنا سے لڑکی پیدا ہوئی تو زید خود اپنی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے۔
(عرف الجادی۔ ص۱۰۹)
مشہور غیر مقلدعالم نواب نور الحسن خان لکھتے ہیں:
اگر گنا ہ سے بچنا مشکل ہو تو مشت زنی واجب ہے۔
(عرف الجادی ۔ ص۲۰۷)
 اور بعض صحابہ ؓ بھی مشت زنی کیا کرتے تھے۔“(معاذاللہ )
(عرف الجادی ۔ ص۲۰۷)
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
اگر بیٹے نے ایک عورت سے زنا کیا تو یہ عورت باپ کے لیے حلال ہے۔اسی طرح اس کے برعکس بھی ہے۔
(نزل الابرار ۔ ج ۱ص۲۸)
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
اگر کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا، خواہ زنا کرنے والا بالغ ہو یا نابالغ یا قریب البلوغ ، تو وہ اپنے خاوند پر حرام نہیں ہوئی۔
 (نزل الابرار ج۲ ص۲۸)
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
 ایک عورت سے تین باری باری صحبت کرتے رہے اور ان تینوں کی صحبت سے لڑکا پیدا ہوا تو لڑکے پر قرعہ اندازی ہو گی۔ جس کے نام قرعہ نکل آیا اس کو بیٹا مل جائے گا۔اور باقی دو کو یہ بیٹا لینے والا دو تہائی دیت دے گا۔
(نزل الابرار۔ ج۲ص۷۵)
علامہ وحیدالزماں لکھتے ہیں:
 غیر مقلدین کے لیے ) بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج(شرمگاہ) تنگ ہو اور جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو۔
(لغات الحدیث پ۶ ص۴۲۸)
غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں:
عورت کو زیر ناف بال استرے سے صاف کرنے چاہئیں۔ اُکھاڑنے سے محل (شرمگاہ کا مقام) ڈھیلا ہو جاتا ہے۔
 فتاویٰ نذیریہ۔ ج۲ص۵۲۶)
معروف غیر مقلد عالم علامہ وحید الزماں غیر مقلد عورتوں کو حیض سے پاک ہونے کا طریقہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
عورت جب حیض سے پاک ہو تو دیوار کے ساتھ پیٹ لگا کر کھڑی ہو جائے اور ایک ٹانگ اس طرح اُٹھائے جیسے کتا پیشاب کرتے وقت اُٹھاتا ہے۔ اور روئی کے گالے فرج (شرمگاہ) کے اندر بھرے۔ پھر ان کو نکالے۔ اس طرح وہ پوری پاک ہو گی۔
(لغات الحدیث)
معروف غیر مقلد عالم مولوی ابو الحسن محی الدین لکھتے ہیں:
حائضہ حیض سے پاک ہو کر غسل کر لے پھر روئی کی دھجی کے ساتھ خوشبو لگا کر شرمگاہ کے اندر رکھ لے۔
(فقہ محمدیہ۔ ج۱ص۳۲)
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں:
خنزیر پاک ہے ۔ خنزیر کی ہڈی ، پٹھے ، کھر ، سینگ اور تھوتھنی سب پاک ہیں۔
(کنزالحقائق۔ ص۱۳)
علامہ صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں۔
(بدور الاہلہ۔ ص۱۶)
علامہ وحید الزماں خان لکھتے ہیں:
لوگوں نے کتے اور خنزیر اور ان کے جھوٹے کے متعلق اختلاف کیا ۔ زیادہ راجح یہ ہے کہ ان کا جھوٹا پاک ہے۔ ایسے لوگوں نے کتے کے پیشاب ، پاخانے کے متعلق اختلاف کیا ہے ۔ حق بات یہ ہے کہ ان کے ناپاک ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔
(نزل الابرار۔ ج۱ص۵۰)
معروف غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
گدھی ، کتیا اور سورنی کا دودھ پاک ہے۔
(بدورالاہلہ ۔ ص۱۸)
مفتی عبدالستار دہلوی امام فرقہ غربائے اہل حدیث فرماتے ہیں:
حلال جانوروں کا پیشاب اور پاخانہ پاک ہے ۔ جس کپڑے پر لگا ہو اس سے نماز پڑھنی درست ہے ۔ نیز بطور ادویات کے استعمال کرنا درست ہے۔
(فتاویٰ ستاریہ ۔ ج۱ ص۱۰۵)
نواب نورالحسن خان لکھتے ہیں:
گھوڑا حلال ہے۔
(عرف الجادی ۔ ص ۲۳۶)
مفتی عبدالستار صاحب لکھتے ہیں:
 گھوڑے کی قربانی کرنا بھی ثابت بلکہ ضروری ہے۔
(فتاویٰ ستاریہ۔ ج۱ص ۱۴۷-۱۵۲)
نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:
گوہ (چھپکلی نماایک جانور) حلال ہے۔
(عرف الجادی۔ ص۲۳۶)
نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:
خار پشت (کانٹوں والا چوہا) کھانا حلال ہے۔
(عرف الجادی ۔ ص۲۳۶)
نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:
بحری مردہ حلال ہے۔ (عرف الجادی ۔ ص ۲۳۶) یعنی مینڈک ، خنزیر ، کچھوا ، کیکڑا، سانپ ، انسان وغیر ہ۔
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
خشکی کے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خون نہیں۔ (بدورالاہلہ ۔ ص ۳۴۸) یعنی کیڑے ، مکوڑے، مکھی ، مچھر ، چھپکلی وغیرہ ۔
غیر مقلدین کے بدنصیب فرقے نے اپنی جنسی آگ بجھانے کے لیے قرآن پاک جیسی مقدس کتاب کو بھی نہ بخشا۔ معروف غیر مقلد عالم اور غیر مقلدین کے محدثِ ذی شان حافظ عبداللہ روپڑی نے قرآن کے معارف بیان کرتے ہوئے عورت اور مرد کی شرمگاہوں کی ہیئت اور مرد وزن کے جنسی ملاپ کی کیفیت جیسی خرافات بیان کر کے اپنے نامۂ اعمال کی سیاہی میں اضافہ کیا ہے ۔ آئیے ان کے معارف کے کچھ نمونے دیکھیں۔
غیر مقلدین کے محدثِ اعظم عبداللہ روپڑی فرماتے ہیں:
رحم کی شکل تقریباصراحی کی ہے ۔ رحم کی گردن عموماً چھ انگل سے گیارہ انگل اس عورت کی ہوتی ہے ۔ ہم بستری کے وقت قضیب ( آلہءمرد ) گردنِ رحم میں داخل ہوتی ہے اور اس راستے منی رحم میں پہنچتی ہے۔ اگر گردنِ رحم اور قضیب لمبائی میں برابر ہوں تو منی وسط (گہرائی) رحم میں پہنچ جاتی ہے ورنہ ورے رہتی ہے۔
(تنظیم ۔ یکم مئی ۱۹۳۲، ص ۶، کالم نمبر ۱)
حافظ عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں:
اور بعض دفعہ مرد کی منی زیادہ دفق (زور) کے ساتھ نکلے تو یہ بھی ایک ذریعہ وسط میں پہنچنے کا ہے۔ مگر یہ طاقت اور قوتِ مردمی پر موقوف ہے۔  (حوالہ بالا )
حافظ عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں:
رحم ، مثانہ (پیشاب کی تھیلی) اور رودہ مستقیم (پاخانہ نکلنے کی انتڑی ) کے درمیان پٹھے کی طرح سفید رنگ کا گردن والا ایک عضو ہے جس کی شکل قریب قریب الٹی صراحی کی بتلایا کرتے ہیں مگر پورا نقشہ اس کا قدرت نے خود مرد کے اند رکھا ہے ۔ مرد اپنی آلت (آلہءتناسل ) کو اُٹھا کر پیڑو کے ساتھ لگا لے تو آلت مع خصیتین رحم کا پورا نقشہ ہے۔(حوالہ بالا )
غیرمقلدین کے محدث روپڑی صاحب لکھتے ہیں :
آلت (آلہ ءتناسل ) بمنزلہ گردن رحم کے ہے اور خصیتین بمنزلہ پچھلے رحم کے ہیں ۔ پچھلا حصہ رحم کا ناف کے قریب سے شروع ہوتا ہے اور گردن رحم کی عورت کی شرمگاہ میں واقع ہوتی ہے۔ جیسے ایک آستین دوسرے آستین میں ہو۔ گردنِ رحم پر زائد گوشت لگا ہوتا ہے ۔ اس کو رحم کا منہ کہتے ہیں اور یہ منہ ہمیشہ بند رہتا ہے ۔ ہم بستری کے وقت آلت کے اندر جانے سے کھلتا ہے یا جب بچہ پیدا ہوتا ہے۔ قدرت نے رحم کے منہ میں خصوصیت کے ساتھ لذت کا احساس رکھا ہے۔ اگر آلت اس کو چھوئے تو مرد وعورت دونوں محظوظ ہوتے ہیں، خاص کر جب آلت اور گردنِ رحم کی لمبائی یکساں ہو تو یہ مرد وعورت کی کمال محبت اور زیادتی لذت اور قرار حمل کا ذریعہ ہے۔ رحم منی کا شائق ہے۔ اس لیے ہم بستری کے وقت رحم کی جسم گردن کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ گردن رحم کی عموماً چھ انگشت اسی عورت کی ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ گیارہ انگشت ہوتی ہے۔“ (حوالہ ءبالا )
حافظ روپڑی لکھتے ہیں:
منہ رحم کا عورت کی شرمگاہ میں پیشاب کے سوراخ سے ایک انگلی سے کچھ کم پیچھے ہوتا ہے۔“ (حوالہ بالا )
حافظ روپڑی غیر مقلد اندر کی پوری کہانی سے واقف ہیں۔ لکھتے ہیں:
اور گردن رحم کی کسی عورت میں دائیں جانب اور کسی میں بائیں جانب مائل ہوتی ہے۔ رحم کے باہر کی طرف اگرچہ ایسی نرم نہیں ہوتی لیکن باطن اس کا نہایت نرم ، چکن دار ہوتا ہے تاکہ آلت کے دخول کے وقت دونوں محظوظ ہوں ۔ نیز ربڑ کی طرح کھینچنے سے کھنچ جاتا ہے تا کہ جتنی آلت داخل ہو اتنا ہی بڑھتا جائے ۔ کنوراری عورتوں میں رحم کے منہ پر کچھ رگیں سی تنی ہوتی ہیں جو پہلی صحبت میں پھٹ جاتی ہے ۔ اس کو ازالہ ٔبکارت کہتے ہیں۔“
(تنظیم اہل حدیث روپڑی ، یکم جون ۱۹۳۲۔ ص۳، کالم نمبر ۳ )
غیر مقلدین کے محدث اعظم حافظ عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں:
اور ہم بستری کی بہتر صورت یہ ہے کہ عورت چت لیٹی ہو اور مرد اوپر ہو ۔ عورت کی رانیں اُٹھا کر بہت سی چھیڑ چھاڑ کے بعدجب عورت کی آنکھوں کی رنگت بدل جائے اور اس کی طبیعت میں کمال جوش آجائے اور مرد کو اپنی جانب کھینچے تو اس وقت دخول کرے۔ اس سے مرد عورت کا پانی اکٹھے نکل کر عموماً حمل قرار پاتا ہے۔“
(بحوالہ ءاخبارِ محمدی ، ۱۵جنوری ۱۹۳۹ء، ص ۱۳، کالم نمبر ۳)
قارئین ۔یہ تھے حافظ عبداللہ روپڑی کے قرانی معارف۔ معروف غیر مقلد عالم مولانا محمد جونا گڑھی نے بھی یہ معارف اپنے ”اخبار محمدی“ میں نقل کئے اور عنوان دیا ”عبداللہ روپڑی ، ایڈیٹر تنظیم کے معارف قرآنی ، اسے کوک شاستر کہیں یا لذت النساءیا ترغیب بدکاری؟“
ان معارف قرآنی پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالم شیخ محمد جونا گڑھی ، غیر مقلدین کے مفسر قرآن اور محدثِ ذی شان حافظ عبداللہ روپڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:
د"روپڑی نے معارف قرآنی بیان کرتے ہوئے رنڈیوں اور بھڑووں کا ارمان پورا کیا اور تماش بینوں کے تمام ہتھکنڈے ادا کئے۔د"
(اخبار محمدی ، ۱۵ اپریل ۱۹۳۹، ص ۱۳ )
قارئین محمد جونا گڑھی صاحب کی ”مہذب “ زبان کا نمونہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔ افسوس کہ آج سعودیہ میں جو اردو ترجمہ قرآن تقسیم ہو رہا ہے وہ انہیں محمد جونا گڑھی کا ہے ۔ کاش سعودی حکومت کسی متقی عالم کا ترجمہ قرآن شائع کرنے کا اہتمام کرتی۔
اختتامیہ :
قارئین یہ تو تھے بطور نمونہ غیر مقلدین کی چند کتابوں کے چند حوالے ۔ ورنہ اگر آپ غیر مقلدین کی کتابوں کو اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو بے شمار حیا سوز اور گندے مسائل ملیں گے ۔ اور وہ بھی قرآن وحدیث کے نام پر ۔ آخر میں ہم قارئین سے پوچھتے ہیں کہ جتنے گندے اور حیا باختہ مسائل غیر مقلدین نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے منسوب کئے ہیں کیاکسی ہندو ، سکھ ، یہودی یا قادیانی نے بھی اپنے مذہبی پیشواؤں سے منسوب کیے ہیں ؟ یا غیر مقلدین ان سب پر سبقت لے گئے ہیں۔

1 comment:

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...