Saturday, 4 April 2015

امام عشق و محبّت امام اھلسنّت مجدد دین و ملّت الشّاہ امام احمد رضا خان محدّث بریلوی رحمۃ اللہ کے چاھنے والوں کی خد مت میں گذارش(1)

امام عشق و محبّت امام اھلسنّت مجدد دین و ملّت الشّاہ امام احمد رضا خان محدّث بریلوی رحمۃ اللہ کے چاھنے والوں کی خد مت میں گذارش(1)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مفکر و مجدد امام احمد رضا قدس سرہ العزیز (م : 1340ھ / 1921ء) اپنے عہد میں بر صغیر کے سب سے بڑے دینی پیشوا اور ملی رہ نما تھے، انھوں نے اسلام اور عقیدہ اہل سنت کے تحفظ اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ امتِ مسلمہ کا اتحاد اور اس کی فلاح و نجات ان کی فکر کا خاص محور تھا۔ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقطہ اتحاد پر عالمِ اسلام کو ہم قدم اور ہم فکر کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کے زبردست داعی تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز دینِ مصطفیٰ، علمِ مصطفیٰ اور عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مضمر سمجھتے تھے۔ اسی فکر کے داعی شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال بھی تھے۔

بمصطفے ٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
عہدِ حاضر میں فکرِ رضا کی معنویت

امام احمد رضا قدس سرہ العزیز بلا شبہ عظیم مجدد، عظیم فقیہ اور عظیم دانش ور تھے۔ وہ امتِ مسلمہ کے داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات پر حساس نظر رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی حالتِ زار پر آنسو بھی بہاتے تھے اور ان کی فلاح و نجات کے لیے تدبیریں بھی پیش کرتے تھے۔ ان کی فکر و نظر کا محور یہی تھا کہ اسلامی تہذیب دنیا کی ہر تہذیب پر غالب ہو اور مسلم قوم دنیا کی ہر قوم سے بلند تر ہو۔ دین و مذہب، سیاست و صحافت، معیشت و معاشرت، تعلیم و تجارت، وہ ہر میدان میں مسلمانوں کو سرخرو اور کامیاب دیکھنا چاہتے تھے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے مسلسل جد و جہد کی۔ امتِ مسلمہ کو بار بار جھنجھوڑا، علما اور قائدین کو بیدار کیا اور انھیں ان کی منصبی ذمہ داریوں سے باخبر کیا۔ ان کی کوتاہیوں پر زجر و توبیخ فرمائی، تعمیری منصوبے بنائے، خطوطِ عمل طے کیے، باہمی اتحاد کے لیے قرآن و احادیث سے دلائل دیے۔ نفرت و بے زاری کا ماحول ختم کرنے کے لیے شرعی احکام سپردِ قلم کیے۔

امام احمد رضا کے افکار و نظریات پر اب ایک صدی مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دور اندیش مفکر کے افکار کی معنویت آج بھی اسی طرح باقی ہے، جس طرح ان کے عہد میں تھی، بلکہ بعض نظریات کی معنویت تو آج عہدِ رضا سے بھی سِوا نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا کے افکار ونظریات گرد و پیش کے حالات کا نتیجہ نہیں تھے کہ عشرے دو عشرے میں اپنی معنویت کھو دیتے بلکہ ان کے افکار و نظریات قرآن و حدیث سے ماخوذ تھے، جن پر حوادثِ روز گار کی گرد کی پرتیں بے اثر ہوتی ہیں۔ قرآن و سنت کے حقیقی جلوے جب عمل کے میدان میں درخشاں ہوتے ہیں تو حوادثِ روزگار خود اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔

آئیے! اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے افکار کی روشنی میں اپنے کردار و عمل کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
علماء کرام کا منفی عمومی رویہ

اس وقت اہلِ سنت و جماعت کے درمیان سخت انتشار ہے، علماء کرام اتحادکی فضا ہم وار کر سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کا ایک طبقہ خود اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف زبان و قلم کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ آج اہلِ سنت کے درمیان اتحاد و اتفاق کی سخت ترین ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف منظم اور مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں۔ اہل سنت کے خلاف پیہم شر انگیزی کا ایک سلسلہ شروع ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے عہد میں امت مسلمہ کی جو حالت تھی، آج بھی اس سے بہتر نظر نہیں آتی جس کا انہیں شدید احساس تھا۔ آپ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ خالص اہل سنت کی ایک قوت اجتماعی کی بہت ضرورت ہے، مگر اس کے لیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے۔

(1) علما کا اتفاق

(2) تحمل شاق قدربالطاق۔

(3) امرا کا انفاق لوجہ الخلاق۔

یہاں یہ سب مفقود ہیں۔‘‘

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 132)

علماء کرام کے عدم اتفاق کی بنیادی وجہ امام احمد رضا حسد قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی علماء کے اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ حسد ہی ہے۔۔۔ فلاں شخص عوام وخواص میں مقبول ہے، ہم کیوں نہیں۔۔۔ فلاں تحریک و ادارہ عوام و خواص کا مرکزِ توجہ ہے، ہمارا کیوں نہیں۔۔۔ ظاہر سی بات ہے ان چیزوں کا برسرِ عام اظہار تو کیا نہیں جائے گا لیکن جب سینے کی آگ سے دل کے پھپھولے جلتے ہیں تو نفرتوں کی لپٹیں اٹھتی ہی ہیں اور پھر شروع ہو جاتا ہے ایک دوسرے کی شخصیتوں، تحریکوں اور اداروں پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے کابدترین سلسلہ۔

امام احمد رضا قدس سرہ علماء کے انتشار کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اتفاقِ علما کا یہ حال کہ حسد کا بازار گرم، ایک کا نام جھوٹوں بھی مشہور ہوا تو بہتیرے سچے اس کے مخالف ہو گئے۔ اس کی توہین تشنیع میں گمراہوں کے ہم زبان بنے کہ’’ہیں‘‘ لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے؟ اب فرمائیں کہ وہ قوم کہ جو اپنے میں کسی ذی فضل کو نہ دیکھ سکے، اپنے ناقصوں کو کامل، قاصروں کو ذی فضل بنانے کی کیا کوشش کرے گی؟ حاشا یہ کلیہ نہیں مگر للاکثر حکم الکل

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 133)

امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس خصوصی تبصرے میں ہم اپنے عہد کے علما کا اختلافی چہرہ بخوبی پہچان سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...