Wednesday, 29 April 2015

معراج النبی ﷺ کی حکمتیں‘ مقاصد‘ فلسفہ


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
’’ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا  انہ ھو السمیع البصیرo‘‘
پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرم سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول میں ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
ہماری تقریر کاموضوع بنیادی طور پر دو اجزاء پر مشتمل ہے۔
1۔ معرج النبی ﷺ 2۔ معراج شریف کی حکمتیں اور مقاصد
چنانچہ پہلے حصہ میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں معراج پر مختصر گفتگو ہو ایک نہایت اختصار کے ساتھ معجزہ کی حقیقت بیان کی جائیگی کیونکہ معراج بھی آپ ﷺ کا ایک نہایت اہم معجزہ ہے اور پھر حکمتوں پر گفتگو کے تین حصے ہونگے سب سے پہلے حمکت اور مقصد کی لغوی اور اصلاحی تعریفات اور پھر سفر معراج النبی ﷺ کی پہلے عمومی حکمتوں پر گفتگو ہو گی اور پھر بالخصوص حضورﷺ کی معراج کرانے کی حکمت‘ مقاصد اور غرض وغایت کو بیان کرنے کی سعادت حاصل کی جائے گی۔
معراج شریف:
نبی کریم ﷺ کا ایک جلیل القدر معجزہ اور اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے حضور ﷺ کا وہ کمال قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخولق الہیٰ میں آپ کے سوا کسی کو میسر نہیں‘ نبوت کے بارہویں سال سید عالم ﷺ معراج سے نواز لے گئے۔ مہینہ میں اختلاف ہے مگر اشہر یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی۔ مکہ مکرمہ سے حضور پر نور کا بیت المقدس تک شب کے چھوٹے سی حصہ میں تشریف لے جانا نص قرآنی سے ثابت ہے اس کا منکر کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور منزل قریب میں پہنچا احادیث صحیحہ معتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حد تواتر کے قریب پہنچ گئی ہیں اس کا منکر گمراہ ہے ۔ معراج شریف بحالت بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی ہے۔ یہی جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحاب رسول ﷺ کی کثیر جماعت اور حضور اکرم ﷺ کے اجلہ صحابہ اس کے متعقد ہیں ۔ بالخصوص آیات و احادیث سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے تیرہ دماغان فلسفہ کے اوہام فاسد محض باطل ہیں قدرت الہیٰ کے متعقد کے سامنے وہ تمام شبہات بے حقیقت ہیں۔(۱)
اسراء اور معراج کا فرق:
حضرت غزالی زمان سید احمد سعید کاظمی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ اگرچہ عام استعمالات میں حضور ﷺ کے تمام مبارک سیر و عراج یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں او رلامکان تک تشریف لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے لیکن محد ثین و مفسرین کی اصطلاح میں حضور ﷺ کا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے جانا اسراء کہلاتا ہے کیونکہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اس کو لفظ اسراء سے تعبیر فرمایا ہے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف حضور ﷺ کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے اس کیلئے معراج اور عروج کے الفاظ احادیث صحیحہ میں وارد ہوئے ہیں۔ نیز آپ لکھتے ہیں۔
اسرائ‘ معراج اور اعراج:
حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فارسی فرماتے ہیں جس کا اردو خلاصہ یہ ہے۔
’’کہ(مسجد حرام سے) بیت المقدس تک اسراء ہے ) اور وہاں سے آسمانوں تک معراج ہے اور آسمانوں سے مقام قرب قوسین تک اعراج ہے۔(۲)
معزز حضرات ! معراج شریف کا واقعہ حضور ختم المرسلین ﷺ کے معجزات میں سے ایک اہم معجزہ ہے جو رفعت آدمیت اور عظمت انسانیت کا آئینہ دار اور سائنسی علوم کا منبع ہے  علامہ اقبال علیہ الرحمتہ نے معراج النبی کے اسی فلسفہ اور حکمت کو اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے کہ۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردون
معاصر عرب اسکالر اور شاعر محمد لسعود الذیتی اپنے قصیدہ معراجیہ میں لکھتے ہیں۔
یا سیدی یا رسول اﷲ معذرۃ
ان جادل الناس فی مسراک حیانا
بعد مامنع الصاروخ مانعہ
یطیر صاحبہ فی الجو شیطانا
وشید العلم من غزو الفضاء علی
امکان معجزۃ الاسراء برھانا
یسوغ للفعل انکار وقد مسجدت
دنیاہ فی حرم التسلیم ایمانا(۳)
اور اس مجلہ میں دکتور محمد عبدالرب مقبل النظاری اپنے قصیدہ میں معراجیہ میں یوں رطب اللسان ہیں ایک شعر ملا حظہ ہو!
من لم یجد عزۃ فی ذکر مولد کم
وذکر مسراک ھلا عدفی الخشب
( الضیاء ایضاً)
حضرات گرامی قدر ! مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر حقیقت معجزہ پر مختصر گفتگو ہو جائے۔
میرے استاد محترم حضرت علامہ سید شجاعت علی قادری ( سابق جسٹس وفاقی شرعی عدالت) رحمتہ اﷲتعالیٰ لکھتے ہیں: ’’ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات ستودہ صفات کی مختلف حیثیات ہیں اور ہر حیثیت پر مسلم وغیر مسلم علماء نے گفتگو کی ہے اور اس پر لکھا ہے آپ کے معجزات مستقل موضوع ہیں۔اس موضوع پر متقدمین علماء اسلام نے بہت کچھ لکھا ہے اور رسول ﷺ کی حیات طیبہ کے عنوانات میں سے اسے اہم ترین عنوان قرار دیا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بے یقینی کی فروانی کی اس دور میں بعض مسلمان اہل قلم اس عنوان سے عام طور پر یا تو بے جہتی برت رہے ہیں یا من مانی تاویلات سے اس کا حلیہ بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں کا ذکر اس وقت بے کار ہے جو سرے سے معجزات کے منکر ہیں البتہ اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ ان کا معجزات کی آخر وجہ کیا ہے اور لوگ معجزات کو ان کے حقیقی مفہوم سے کیوں بدلتے ہیں؟
انکار معجزہ کی وجوہ:
میرے خیال میں معجزات سے کترانے‘انکار کرنے اور ان  کے حقائق میں تبدیلی کی وجوہ چار ہیں۔
۱۔ پہلی وجہ تو وہی ہے جو ابو جہل و ابو لہب کے پیش نظر تھی۔
۲۔ سائنس اور انسانی تحقیقات پر ضرورت سے زائد اعتماد۔
۳۔ مادہ پرستی یعنی یہ سمجھنا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مادہ کی تحریک ہی سے ہے۔
۴۔ غیر مسلموں سے مرعوبیت۔
مئوخر الذکر وجہ سب سے زیادہ اہل علم کو لے ڈوبی ہے‘ اس مرض میں وہ حضرات بھی مبتلا ہیں جو نیک نیتی سے اسلام کے بہی خواہ تھے۔ان لوگوں نے کہاں تک ہو سکا معجزات کی حقیقتوں کو مسخ کرکے ان کو دنیا میں واقع ہونے والے ’’ خلقات طبیعہ ‘‘ پر محمول کیا یا اتفاقات قرار دیا۔ کبھی احادیث کو موضوع ( من گھڑت) قراردیا اور جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو یہ کہ بجائے غیر مسلموں کے متاثر ہونے کے‘مسلمانوں کے بچے اسلامی عقائد سے دور ہوتے چلے گئے اور اسلاف ان کی نگاہوں میں مشکوک ٹھہرے۔ میرے خیال اور مشاہدے میں جو کچھ فائدہ اس قسم کے لوگوں کو حاصل ہوا وہ اس سے  کچھ زائد نہ تھا کہ ’’ انہیں فراخ دل‘ روشن دماغ ترقی پسند‘ روا دار وغیرہ خطابات و القابات سے نواز دیا گیا‘ اور بس!
معجزہ کیا ہے؟
عقائد اسلام پر عربی زبان میں ابو شکور سالمی (آپ داتا گنج علی ہجویری رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ کے ساتھی اور ہم عصر ہیں) رحمہ اﷲتعالیٰ کی ایک مستند کتاب ’’ تمہید ‘‘ ہ اس میں معجزہ کی تشریح درجج ذیل طریق پر کی گئی ہے ’’ وحد المعجزہ ان یظھر عقیب سوال والدعویٰ امر خارق للعادۃ من غیر استحالۃ بحمیع الوجوہ و یعجز الناس عن اتیان مثلہ بعد الجھد والاحتیال اذاکان لھم خذاقۃ وزرانۃ فی مثل ذلک ‘‘
(تمہید ابو شکور سالمی)
معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ سوال اور دعویٰ کرنے کے بعد ( رسول کے ہاتھ پر ) کوئی ایسی خارق عادت ( معمول شکن ) چیز ظاہر ہو جو حیثیت سے محال نہ ہو اور لوگ باوجود کوشش اور تدبیر کے اس قسم کے معاملات میں پوری فہم و بصیرت رکھتے ہوئے بھی اس کے مقابلہ سے عاجز ہو جائیں’’ معجزہ کی اس تعریف سے درج ذیل امور واضع ہوئے‘‘
۱۔ معجزہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ دعوائے نبوت کے بعد صادر ہو کیونکہ اگر دعوائے نبوت سے قبل کوئی خارق عادت چیز ہو جس کا تعلق نبی کی ذات سے ہو وہ معجزہ نہیں ہے اس اصطلاح میں ’’ ارہاص‘‘ کہا جاتا ہے۔
۲۔ معجزہ ہمیشہ خلاف عادت ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر معجزے کا تصور نہیں ہوتا مثلاً کوئی مدعی نبوت اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ کہے کہ میں کل سورج کو حکم دوں گا تو وہ مشرق سے نکلے گا اب آفتاب کا مشرق سے طلوع ہونا معجزہ نہیں کہلائے گا۔
۳۔ وہ امور جو بطور معجزہ صادر ہوئے ان میں سے کوئی بھی ’’محال عقلی ‘‘ نہ تھا ہاں محال عادی تھے یا مستبعد عقلی تھے۔
۴۔ لوگ باوجود اس قسم کے کاموں میں مہارت رکھنے کے اور پوری سعی و کوشش کے اس کے مقابلے میں عاجز ہو جائیں کیونکہ اگر دوسرے بھی کام کر دکھائیں تو معجزہ نبی کی صداقت کی دلیل  کیونکر بنے گا؟
نوٹ : یہ بھی یاد رہے کہ (i) معجزے کا مقابلہ ممکن نہیں۔
(ii) جھوٹے نبی سے کبھی معجزہ صادر نہ ہو گا۔
(iii)معجزہ تمام مذاہب میں حقیقت مسلمہ ہے ۔ ( مجلہ ترجمان اہل سنت کراچی)
معراج النبی کی حکمتیں‘ فلسفہ اور مقاصد بیان کرنے سے پہلے حکمت کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کردینا ضروری ہیں۔
الحکمۃ:
انصاف‘ حلم اور بردباری‘ فلسفہ حق کے موافق کلام کا م کی درستی
حکیم :
دانا‘ عالم‘ فلاسفر ( المنجد‘ ص‘ ۲۲۹)
حاشیہ صاوی علی الجلالین میں آیت کریمہ ’’ولقد آتینا لقمان الحکمۃ‘‘ ( ۱۲/۳۱) کے تحت لکھا ہے۔ حکمت علم اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے کسی شخص کوحکیم اس وقت کہا جائے گا جب وہ علم اور عمل دونوں کا جامع ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ حکمت سے مراد معرفت اور امانت ہے اور ایک قول ہے کہ حکمت سے مراد دل( ذہن و دماغ) کانور ہے جس سے اشیاء کا اسی طرح ادراک کیا جاتا ہے جس طرح آنکھوں سے۔( صاوی‘ جلد: ۵‘ ص: ۱۵۹۸ )
ابوالقاسم الحسین بن محمد المعروف امام راغب اصفہانی المتوفی ۲۰۵ء المفردات فی غریب القرآن میں لکھتے ہیں:
’’ علم اور عقل سے حق کو پانا حکمت ہے بھلائی کے کام کرنا‘ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے حکمت سے مراد قرآن مجید کے ناسخ و منسوخ محکم اور متشابہہ آیات کا علم بھی ہے۔
امام سدی نے بیان کیاہے کہ حکمت سے مراد نبوت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقائق القرآن کے فہم کو حکمت کہتے ہیں‘‘
أقران الموارد فی فصح العربیہ والشوارد میں سعید الخواری اللبنانی لکھتے ہیں:
حکمت مندرجہ ذیل معانی کیلئے آتا ہے۔ حکمت‘ عدل‘ علم‘ حلم‘ نبوت اور یہ بھی قول ہے کہ اس سے مراد وہ ملکہ مہارت ہے جو انسان کو نادانی کے کاموں سے روکے اور باز رکھے اور ایک قول ہے کہ ہر وہ کلام جو حق کے موافق ہے حکمت ہے اور بعض  نے کہا ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا حکمت ہے۔ تاکہ کوئی راغب تحسین کی طرح یہ شکوہ کرتے نہ پایا جائے کہ
ہر شئے جگہ سے بے جگہ محسوس ہوتی ہے
جوجس جگہ ہے اس کا منصب وہ نہیں ہوتا
جمہور مفسرین نے کہا ’’حکمت یہ ہے کہ انسان کا احکام شرعیہ کی معرفت ہو ‘‘ محدثین نے کہا وہ نور جس سے الہام اور وسوسہ میں فرق ہو وہ حکمت ہے… سرعت کے ساتھ صحیح جواب دینا حکمت ہے۔ بصبرت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی معرفت ہو‘ نفس کی اصلاح کا علم ہو… اور استاذی المکترم حضرت علامہ غلام رسول سعیدی لازالت شموس فیوصہ بازغتہ فرماتے ہیں ’’قرآن مجید میں حکمت کا اطلاق حسب ذیل معانی پر کیا گیا ہے۔
٭ نصیحت پر…جیسے ارشاد خداوندی ہے:
’’حکمتہ بالغۃ فماتغن النذر‘‘ (۴)
یہ جامع نصیحت ہے پس عذاب سے ڈرانے والی آیات نے (ان کو) کوئی فائدہ نہیں
٭ سنت پر… جیسے ارشاد خداوندی ہے۔
’’ ویعلکم الکتاب و الحکمۃ‘‘ (۵)
وہ تم کو قرآن اور سنت کی تعلیم دیتے ہیں۔
٭ عقل و فہم… جیسے ارشاد خداوندی ہے۔
’’ ولقد آتینا لقمٰن الحکمۃ ‘‘(۶)
اور ہم نے لقمان کو عقل اور فہم عطا کی ۔
٭ نبوت پر… جیسے ارشاد خداوندی ہے۔
’’ واٰ تینا الحکمۃ و فصل الخطاب‘‘ (۷)
اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو نبوت عطا کی تھی اور مقدمات کے فیصلہ کی صلاحیت۔
حکمت کا اطلاق دلائل پر‘ عام فہم مثالوں پر‘ ثواب کی بشارت دینے اور عذاب سے ڈرانے پر بھی کیا گیا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے ’’ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنہ ‘‘ (۸)
دلائل دے کر مثالوں سے سمجھا کر اور ثواب کی بشارت دے کر اﷲ کے راستہ کی دعوت دیجئے۔ علوم قرآن اور تفقہ فی الدین پر… ’’ یئوتی الحکمتہ من یشآء و من یئوت الحکمتہ فقداونی خیراً کثیراً ‘‘(۹) اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو حکمت عطا کی گئی اس کو خیر کثیر عطا کی گئی۔
ذہانت فقہ‘ علم‘ سکون اور اطمینان‘ غور و فکر اور بصیرت ان سب پر حکمت کا اطلاق کیا جاتا ہے… اور حماقت‘ طیش‘ عجلت‘ خواہش کی پیروی‘ غفلت‘ جہالت اور غباوت یہ سب حکمت کی ضدیں ہیں۔(۱۰)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ  ﷺ نے فرمایا:
’’ سب سے بڑی حکمت اﷲ تعالیٰ کا خوف ہے ‘‘ (۱۱)
فلسفہ اور حکمت کی کتابوں میں فلسفہ اور حکمت کی تعریف یوں کی گئی ہے:
’’متوسط انسانوں ( یعنی حکماء و فلاسفر نہ کہ انبیاء کرام) کی طاقت بھر موجودات واقعیہ کے احوال کا علم و حکمت اور فلسفہ ہے۔ ( فیض الحکمتہ الجمحمع الاسلامی محمد آباد اعظم گڑھ یوپی ہند)
حکمت کی تعریف:
ھو علم باحوال الموجودات اعیانا کانت امعقولات علی ماھی علیہ فی نفس الامر بقدر الطاقۃ البشریہ
موجودات نفس الامریہ ( خواہ موجودات خارجیہ ہو یا ذہنیہ ) کے احوال واقعیہ کو طاقت انسانی کے مطابق ماننا۔ ( مقدمہ تعلیم الحکمتہ ‘ حضرت علامہ عبدالستار سعیدی)
حکمت اور ضرورت میں فرق:
حضرت غزالی زمان رحمہ اﷲتعالیٰ علیہ لکھتے ہیں بعض امور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں لوگ انہیں ضرورت پر محمول کرکے غلطی میںپڑ جاتے ہیں مثلاً شب معراج بطریق اور اس کے تمام اعمال وغیرہ کی انتہائی کوششوں کے باوجود مسجد اقصیٰ کا دروازہ بند نہ ہو سکا۔ اب اگر کوئی سمجھ لے کہ دروازہ کھلا رہنے کی ضرورت تھی اگر بند ہو جاتا تو حضور ﷺ مسجد میں کیسے داخل ہوتے؟ تو یہ اس کا یہ سمجھنا قطعاً غلط ہوگا۔ اس لئے کہ اس وقت رسولﷺ کے ساتھ جبرائیل علیہ السلام تھے اور ظاہر ہے کہ ان کیلئے پہاڑوں کا اٹھا لینا کوئی مسئلہ نہیں تھا ایک بند دروازہ کاکھول لینا کیا مشکل ہو سکتا ہے ؟ معلوم ہو کہ دروازہ کا کھلا رہنا ضرورت کی وجہ سے نہیں تھا۔ بلکہ اس حکمت کی بنا پر تھا کہ حضور ﷺ کے مسجد اقصیٰ تشریف لے جانے پر ایک عظمت والا نشان قائم ہو جائے۔ اسی طرح سفر معراج میں اکثر امور کے متعلق حضورَﷺ کا جبرائیل علیہ السلام سے دریافت فرمانا اور ان کابتانا ضرورت کی بناء پر نہیں تھا بلکہ حکمت عملی کی بناء پر تھا کہ وہ سوال و جواب مذکور ہو۔ اور امت کو بھی ان امور کا علم ہوجائے۔ نیز یہ کہ اجنبی مقامات پر جانے والوں کیلئے یہ سوال و جواب کی سنت قائم ہوجائے۔ اور اس کے طرق و آداب متعین اور مشروع ہو جائیں۔(۱۲)
احکام کا دارومدار حکمت پر نہیں علت پر ہوتا ہے
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی لکھتے ہیں:
لا یصلح لو جود المصلۃ ولکن لوجود علۃ مضبوطۃ ادیر علیہا الحکم
(ولی اﷲ‘ حجتہ البلاغہ‘ باب فرق بین المصالح‘ الشرائع)
مصلحت (حکمت) کی بنیاد پر قیاس مناسب نہیں ہے بلکہ منضط علت ہی پر قیاس ہوگا اور وہی حکم کا مدار بنے گا۔
لیکن اگر حکمت میں یہ دشواریاں نہ ہوں تو اس کو علت بنانا درست ہے
ولود وجدت الحکمۃ ظاہرۃ منضبطتہ جازت ربط الحکم بہاکالعدم المانع بل یجب
(بحرالعلوم عبدالعلی فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت باب القیاس)
اگر حکمت ظاہر ہو (کہ حکم کے تمام افراد میں پائی جاسکے) اور منضبط ہو کہ نظم برقرار رہے تو حکم کا ربط حکمت کے ساتھ جائز بلکہ واجب ہی کیونکہ ایسی صورت میں کوئی مانع نہیں ہوتا۔
حنابلہ (رحمہم اﷲ تعالیٰ) کے نزدیک بلا شرط و قید حکمت کو علت قرار دینے کی اجازت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب یہ بات تسلیم ہے کہ کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا بلکہ ہر حکم کی بنیاد حکمت (مصلحت) ہی ہوتی ہے (جس سے علت نکالی جاتی ہے) تو حکمت (مصلحت) کو علت قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے خواہ منضبط ہو یا نہ ہو‘ تمام افراد میں پائی جانے یا نہ پائی جائے جیسا کہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کے قیاس میں بکثرت اس کی مثالیں موجود ہیں (القیاس فی الشرع الاسلامی)
نوٹ: حکمت اور علت میں فرق کو سمھجنے کیلئے چند مثالیں ملاحظہ ہوں
(۱) حق شفعہ ثابت کرنے کی علت جائیداد میں شرکت ہے اور حکمت پڑوسی کی تکلیف دور کرنا جو اجنبی کے آنے سے متوقع ہے۔ شفعہ دراصل اسی تکلیف کو دور کرنے کے لئے مقرر کیا گیا لیکن ظاہر ہے ہمیشہ یہ تکلیف نہیں ہوتی بلکہ کبھی تو دوسرے شخص کے آنے سے زیادہ سہولت ہوتی ہے اگر اس کو حکم کا مدار قرار دیا جائے تو ظاہر ہے کہ رفع حرج ہر جگہ نہ پایا جاسکے گا اس لئے شرکت کو علت بنایا گیا جو ہر جگہ پائی جاتی ہے۔
(۲) نماز قصر (چار رکعت کے بجائے دو رکعت) اور افطار صوم کی علت سفر ہے اور حکمت‘ مشقت و تکلیف کو دور کرنا ہے مگر یہ مشقت و تکلیف بہت سے ان لوگوں کو بھی اٹھانی پڑتی ہے جو گھر رہ کر کام کرتے ہیں مثلا لوہار‘ بڑھئی اور مزدور وغیرہ اگر حکمت کو علت بنایا جائے تو ان لوگوں کو بھی سفر جیسی سہولت ملنی چاہئے لیکن سفر کو علت بنانے میں یہ دشواری نہیں پیش آتی کیونکہ یہ لوگ مسافر نہیں ہیں۔
(۳) ایک حکمت جان کی حفاظت ہے جس کی خاطر بہت سے احکام مقرر کئے گئے ہیں اگر اس کو ہر جگہ علت بنالیا جائے تو جہاد کی اجازت نہ ہونی چاہئے کیونکہ اس میں جان کا اتلاف ہوتا ہے۔ ہر شخص کو یہ فلسفہ کون سمجھائے گا کہ جہاد میں بھی جان کی حفاظت ہے کہ ایک ادنیٰ زندگی دے کر اس سے بہتر زندگی حاصل ہوتی ہے یا چند اشخاص کی جان کے تلاف سے پوری ملت کو زندگی حاصل ہوتی ہے (۱۳)
ہمارے نام نہاد دانشوروں کے ہاں احکام شرع کے متعلق
ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ احکام کی بناء پر مصلحتوں اور حکمتوں پر سمجھ لی جاتی ہے اور ان مصلحتوں سے مراد خود تراشیدہ مصلحتیں ہیں یعنی جو اپنی فہم اور سمجھ میں آئیں بلکہ جن کو زبردستی اپنے دماغ میں جگہ دی گئی‘ کسی کی تقلید بیجا سے اس نفسانی سے اس پر مضامین لکھے جاتے ہیں اور لیکچر دیئے جاتے ہیں اور اس کو دین کی بڑی خیرخواہی سمجھا جاتا ہے اور اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے اور آثار سلف سے دیا جاتا ہے مثلا قرآن پاک میں جا بجا  آیا ہے۔ واﷲ علیم حکیم‘  وکان اﷲ علیما حکیم
اور یہ ’’فعل الحکیم لایخلو عن الحکمۃ‘‘ مشہور جملہ ہے یعنی حکیم کا فعل مصلحت سے خالی نہیں ہتا تو خدا تعالیٰ کا کوئی فعل اور کوئی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسی بات ہے کہ عوام و خواص اور عالم و جاہل‘ بے دین اور دیندار بلکہ مسلم اور غیر مسلم سب کے نزدیک مسلم ہے۔ سوائے دہریوں کے کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہیں نکلے گا جو اس کا مقرر نہ ہوا اور حدیثوں میں بھی یہ مضمون اس کثرت سے موجود ہے کہ بیان کا محتاج نہیں۔ ایک حدیث میں حضور اکرمﷺ فرماتے ہیںکہ میں تمہارے لئے مثل باپ کے ہوں۔ ظاہر ہے کہ باپ اولاد کو کبھی ایسا حکم نہیں دے سکتا جو اس کے لئے مفید نہ ہو اور اس مضمون پر دلائل عقلیہ تو اس قدر قائم کئے جاتے ہیں کہ ان کا بیان بہت طول چاہتا ہے۔ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ بندوں کو تنگ کرنے اور تکلیف دینے سے اس کو کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ اس نے کچھ احکام نازل ضرور فرمائے ہیں مگر ان سے صرف یہ غرض ہے کہ بندے سست نہ ہوجائیں‘ کاہلی بری عادت ہے۔ کاہل آدمی کسی قسم کی ترقی نہیں کرسکتا اس کو دور کرنے کے لئے کچھ مشاغل تجویز فرمائے ہیں۔ جب ان کی عادت رہے گی تو چستی و چالاکی پیدا ہوگی اور ہر قسم کی نگرانی کی عادت ہوگی مثلا نماز کہ اس کی بدولت صفائی رہتی ہے۔ سویرے اٹھنے کے وقت کی پابندی کی عادت پڑتی ہے اور مثلا زکوٰۃ اس سے سالانہ آمد و خرچ کی نگرانی ہوتی ہے۔
اور مثلا روزہ سے حفظ صحت اور تنقیہ بدن ہوتا ہے اور حج سے سفر ہائے دوردراز کی عادت پڑتی ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی ہر قسم کی ترقی کرسکتا ہے۔ ان مضامین پر آج کل کے مسلمان لیڈر بڑی بڑی تقریریں اور تحریریں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے حقیقت اسلام کو سمجھ لی ہے اور ہم بڑے پکے مسلمان ہیں۔ عوام ان تقریروں اور تحریروں سے بڑے متاثر ہوتے ہیں حتی کہ بعض دفعہ پرانے طریق کے علماء اسلام پر ان کو ترجیح دیتے ہیں ظاہرا یہ تقریریں اور تحریریں بہت خوش کن ہوتی ہیں مگر نظر حقیقت سے دیکھئے تو ان میں دھوکہ ثابت ہوگا۔ وہ یہ کہ ان مصالح کو احکام کے لئے علل غائبہ سمجھا‘ علت غائی اور چیز ہے اور مصلحت (اور حکمت) اور چیز ہے (علماء سلف نے ان فوائد کو امر زائد کے درجہ میں رکھا ہے جس کو مصلحت کہتے ہیں نہ کہ غایت کے درجہ میں) سلف نے باوجود تبحر اور عبور کے جو کچھ مصالح احکام شرعیہ کے بیان کئے ہیں ان میں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ مصلح علت غائی ہیں احکام کی بلکہ ان کو ایک امر زائد اور حکمت منفعت کے درجہ میں رکھا ہے اور اس پر بھی ہر جگہ احتیاطا کہتے ہیں واﷲ اعلم اور ہمارے بھائی ان مصالح کو علت غائی سمجھ کر وجودا و عدما احکام کو ان پر مبنی سمجھتے ہیں۔ ببین تفاوت رہ از کجاست تابکجا؟
احکام الٰہی کی علل غائیہ تلاش کرنے کی بجائے بے چوں چرا ان احکام الٰہیہ کی تعمیل حکم شارع سمجھ کر کرنی چاہئے ورنہ بسا اوقات اس سے یہ جرات پیدا ہوگی کہ مفید اور غیر مفید تر قسمیں قانون میں شروع ہوجائیں گی اور ہزاروں فتنے کھڑے ہوجائیں گے اور نظم و نسق باقی نہ رہے گا ہم اس کی چند مثالیں اختصار کے ساتھ دیتے ہیں جس سے توضیح ہوجائے گی۔
مثلا: لیڈر پروفیسر ٹائپ لوگ نماز کے فوائد بیان کرتے ہیں کہ اس سے تہذیب ہوتی ہے کوئی کہتا ہے کہ نماز سے مقصود ورزش ہے۔ کوئی کہتا ہے غرض باہمی میل جول ہے اگر ان تینوں نتائج کو منفعت و حکمت اور مصلحت کے درجہ میں رکھا جائے تو کچھ حرج نہیں مگر ماڈرن خطیب (لیڈر) صاحبان نے ان کو مبنی اور غرض اصل قرار دیا ہے تو کوئی کہہ سکتا ہے (بلکہ کہا ہے اور کہتے ہیں جیسے نیچری پرویزی فرقہ ہے) کہ ایک شخص تعلیم یافتہ ہے اور ورزش کا بھی ایک کافی حد تک عادی ہے اور ملنسار بھی ہے تو اس کو نماز کی ضرورت نہ رہنی چاہئے یا کسی مخالف نے اس سے اچھی ورزش پیش کردی تو اس کے سامنے نماز کوئی چیز نہ رہے گی اور اب تعلیم کا زمانہ ہے ہر شخص تہذیب کا مدعی ہے تو نماز کی کیا ضرورت رہی اور زمانہ نے صنعت و حرفت میں وہ ترقی کی ہے کہ گھر گھر ٹیلی فون لگا ہوا ہے (بلکہ اب تو بچے بچے کے ہاتھ موبائل پکڑا ہوا ہے کہ گھر کے اندر بیٹھے ہوئے احباب سے اور جس سے چاہو‘ بات چیت کرتے رہو‘ پھرپانچ وقت کام چھوڑ کر یا نیند خراب کرکے مسجد میں جانے کی کیا ضرورت ہے)
حل: اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ ان مصالح پر نماز کی بناء نہیں ہے یہ مصالح امر زائد ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کی بناء ہمدردی قومی کو بتایا جاتا ہے اور آج کل تمام قوم کے لئے سب سے زیادہ ضروری اور مفید چیز تعلیم کو کہاجاتا ہے تو جبکہ کسی کالج میں چندہ دیا جاتا ہے تو یہ ضرورت پوری ہوگئی پھر زکوٰۃ باقاعدہ نکالنے کی کیا ضرورت ہے۔
اسی طرح روزہ کی بناء تنقیہ بند پر رکھی جاتی ہے اور آج کل معاشرے میں کھیل اور ورزش عادت شبانہ روز میں داخل ہے۔ ٹینس‘ کرکٹ‘ فٹبال‘ پولو وغیرہ سے بخوبی تنقیہ بدن کا ہوتا رہتا ہے۔پھر سال بھر میں ایک مہینہ میں تنقیہ کی کیا ضرورت رہی بلکہ روزانہ مواد مجمعہ کاتنقیہ ہوجانا سہل تر اور نافع تر ہوگا۔
حل: اس کا جواب یہی ہے کہ تنقیہ بدن پر روزہ کی بناء نہیں یہ امر زائد ہے۔ اس طرح ممنوعات شرعیہ میں گفتگو ہوسکتی ہے۔ غرضیکہ اصل مدعا  یہ ہے کہ ایسے مصالح (حکمتوں اور فلسفوں) کو غیر اقوام کے سامنے بیان کرکے احکام اسلام کو ثابت کرنا باقاعدہ چال ہے اور ہزاروںمصیبتوں کو خریدنا ہے۔ صحیح اور باقاعدہ چال یہ ہے کہ کہا جاوے کہ یہ سب احکام خداوندی ہیں اور ادلہ شرعیہ سے ثابت ہیں لہذا واجًب التعمیل ہیں بلفظ دیگر مذہبی احکام ہیں۔ ان کے خلاف کرنے سے ترک مذہب لازم آتا ہے اور جبکہ ہم مذہب کو مانتے ہیں تو ان کا ماننا بھی ضروری ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ مذہب اسلام کو کیوں مانا اس کے لئے احکام کے منافع جاننا ضروری نہیں بلکہ اصول اسلام کا ثابت بالدلیل ہونا ضروری ہے اور وہ اپنے موقع پر ثابت ہے عقائد کی کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں اور علماء اسلام کے لئے ہر وقت تیار ہیں یہ جواب بالکل مسکت اور بے غبار اور بالکل حق ہے اور یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ ہر فن میں اصول کا ثابت کرنا اور دلیل سے منوانا ضروری ہوتا ہے۔ ہر ہر فرع کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلا علاج کے لئے طبیب کے انتخاب کے وقت ضرورت ہے کہ کسی کافی دلیل سے اطمینان کرلیا جائے کہ فلاں طبیب اس کام کے لئے مناسب ہے اس کے بعد فروع علاج میں دخل دینا اور ہر ہر نسخہ میں طبیب سے الجھنا اور دلیل مانگنا حماقت ہے (علی ہذا القیاس)
(حل اشباہات المفیدہ‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ فی دفع اشتباہات اسجدیدۃ‘ محمد عبدالمصطفی خلیفہ مجاز للتھانوی اداہر تالیفات اشرفیہ لاہور‘ طباعت۱۹۸۸ئ/۱۳۹۷ھ)
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بالا بحث کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ قرآن و سنت پر ایمان لانے کے بعد قتل کا کوئی کام باقی ہی نہیں رہتا… قرآن و سنت نے بہت سی باتیں خود بیان کرنے کے بجائے فقہاء کرام کے اجتہاد و استنباط پر چھوڑ دی ہیں چنانچہ جو لوگ اس کے اہل ہوں‘ ان کے لئے قرآن و سنت اور اصول شریعت کی روشنی میں عقل وقیاس کو استعمال کرکے احکام کے استنباط کا میدان موجود ہے جس میں ہر زمانے کے فقہاء کرام اپنی اجتہادی کاوش فرماتے ہیں لیکن قرآن وسنت کی صراحتوں کوچھوڑ کر یا اصول شرعیہ کو پامال کرکے محض عقل کی بنیاد پر ایسے لوگوں کا جو اس کے اہل نہیں‘ محض عقل کی بنیاد پر قرآن و سنت میں توڑ مروڑ کی کوشش سونا تولنے کے ترازو اور کانٹے میں پہاڑ کو تولنے والی بات ہے۔
جیسا کہ فلسفہ تاریخ کے مشہور امام علامہ ابن خلدون رحمتہ اﷲ علیہ نے اس بارے میں بڑی عمدہ بات کہی ہے‘ وہ لکھتے ہیں:
لہذا تم اپنے علم اور معلومات کو اس حصر کردینے میں خطاوار سمجھو جو کچھ ہم جانتے ہیں ۔ تم موجودات ان میں منحصر ہیں اور شارع علیہ السلام کے بتائے ہوئے اعتقادات اور اعمال کی اتباع کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ تمہاری سعادت و خوش بختی کے لئے حریص ہیں اور وہ اس چیز کو جو تمہیں نفع دے گی تم سے بہت زیادہ جانتے ہیں کیونکہ ان کا علم تمہارے علم سے بلند اور ایسے ذرائع سے حاصل ہونے والا ہے جو تمہاری عقل کے دائرہ سے بہت زیادہ وسیع ہے اور یہ بات عقل اور اس کی معلومات ک یلئے کوئی عیب لگانے والی نہیں بلکہ عقل دراصل ایک صحیح میزان ہے جس کے احکام یقینی اور جھوٹ سے پاک ہیں لیکن یہ میزان اتنی بڑی نہیں ہے کہ تم اس سے توحید اور آخرت کے امور‘ نبوت و صفات الٰہیہ یا کسی اور ایسی چیز کا وزن کرنا شروع کردو جو عقل کی دسترس اور رسائی سے بالاتر ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص سونا تولنے کیلئے ترازو دیکھے اور پھر اس ترازو اور کانٹے سے پہاڑوں کو تولنے کی طمع اور خواہش کرے گا تو ظاہر ہی کہ اس سے پہاڑ تو تلنے سے رہے‘ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ترازو کے احکام و نتائج درست نہیں ہرگز نہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ میزان کی ایک حد ہوتی ہے جس سے آگے وہ کام دینا چھوڑ دیتی ہے اسی طرح میزان عقل بھی ایک حد سے موقوف ہوجاتی ہے اور اس سے آگے کام سے رک جاتی ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
یہ منشاء ہرگز نہیں کہ فکر واستدلال ایک محض عبث اور لغو چیز ہے یا اس سے تعرض کرنا کوئی شرعی گناہ ہے لیکن ہاں! کسی فرد بشر کے واسطے ہم یہ جائز نہیں رکھتے کہ وہ اپنے عقل شخصی اور فکر ناقص کو اصل ٹھہرا کر انبیاء علیہم السلام کے پاک و صاف‘ صحیح و صادق‘ بلند و برتر تعلیمات کوزبردستی ان پر منطبق کرنے کی کوشش کرے جس پر اکثر اوقات اس کا ضمیر بھی خود اندر سے نفرین کررہا ہو۔ اس کے برخلاف نہایت ضروری ہے کہ انسان خدا اور اس کے رسولوں کے ارشادات کو اصل قرار دے کر اپنی عقلی معلومات کو ان کے تابع بنادے اور جو کچھ فرمائے اس کواپنے امراض روحانی کے حق میں اکسیر شفا تصور کرکے سمعا و طاعۃ کہتا ہوا بلا حجت و تکرا رسر اور آنکھوں پر رکھے (۱۴)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...