Monday 27 April 2015

تقوی کے معنی اور مفہوم

0 comments

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ رہی۔اس کے لغوی معنی تو کسی شے سے دور رہنے،اس سے بچنے یااسے چھوڑنے ہی کے ہوتے ہیں۔لیکن شریعت اسلام میں تقویٰ نہایت وسیع معنی رکھتا ہے۔
مختصرطور پر تقویٰ کی تعریف کے سلسلہ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ دل کی اس حالت کا نام ہے جس کی موجودگی میں انسان ہر اس فعل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ پاک کو ناپسند ہو۔
’’انماالاعمال بالنیات‘‘ کے تحت جس طرح نیت ہر عمل کی جان ہوتی ہے اسی طرح تقویٰ میں بھی اسے بڑا دخل ہے۔اگر ارتکاب گناہ اور خدا کی نافرمانی سے صرف اس لیے بچا جائے کہ خدا ناراض ہو گایا رحمت الٰہی سے محرومی ہو گی تو تقویٰ کی حقیقت حاصل ہوتی ہے ورنہ اگرخیال رسوائی یابدنامی کاڈر ہو یا کوئی عمل دکھلاوے کے لیے کیا جائے تو تقویٰ نہیں ہوگا۔
قرآن وحدیث میں لفظ’’تقویٰ‘‘مختلف صورتوں میں بیشمارمقامات پر استعمال کیا گیا ہے۔ مختلف استعمالات کے پیش نظراس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے۔ ’’تقویٰ رذائل سے بچنے اور فضائل سے آراستہ ہونے کا نام ہے۔‘‘
نصرآبادی فرمایا کرتے تھے کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر چیز سے بچے- طلق ابن خبیب کا قول ہے کہ ’’اللہ کے عذاب سے ڈر کر اس کے نور کے مطابق اطاعت خداوندی یعنی اس کے احکا م پر عمل کرنے کا نام تقویٰ ہے۔‘‘ (رسالہ تشریہ)
جمشید نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ’’ زندگی اطاعت مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم میں گزارناتقویٰ ہے۔‘‘
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی تعریف پوچھی تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا:’’کیا آپ کبھی خاردار راستے پر چلے ہیں؟‘‘آپ نے جواب دیا: ’’ہاں‘‘: پھر پوچھا کہ’’آپ نے کیاطریقہ استعمال کیا؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فر مانے لگے:’’میں کانٹوں سے بچ بچ کر اور کپڑوں کو سمیٹ کر چلا۔‘‘حضرت کعب رضی اللہ عنہ بولے :’’یہی تقویٰ ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی مثال خا ر دار راستے کی ہے۔مومن کا کام یہ ہے کہ اس میں سے گزرتے ہوئے دامن سمیٹ کرچلے۔اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہر کام میں دیکھے کہ اس میں خدا کی خوشنودی مضمر ہے یا نہیں۔
ابو عبد اللہ رودباری فرمایا کرتے تھے کہ تقویٰ یہ ہے کہ ان تمام چیزوں سے اجتناب کیا جائے جواللہ سے دور رکھنے والی ہوں۔’’ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ’’اپنے تقویٰ سے بچنے کا نام تقویٰ ہے۔‘‘
متقی آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریا سے بچے اس لئے کہ یہ اعمال کو اس طرح کھاتی ہے جس طرح دیمک لکڑی کو کھاجاتی ہے۔کہتے ہیں کہ حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ کے علاقہ میں ایک بار قحط پڑ گیا۔لوگ آپ کے پاس دعا کروانے کے لئے آئے۔آپ فرمانے لگے: ’’بارش اس لئے نہیں ہوتی کہ گناہ گار زیادہ ہو گئے ہیں اورسب سے بڑا گناہ گار میں ہوں۔اگر مجھے شہر سے نکال دیا جائے تو باران رحمت برسنے لگ جائے گا۔ اللہ ان لوگوں پر رحمتیں برسائے، عظیم ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاں دعویٰ نہیں تھااوراسی کانام تقویٰ ہے۔ ‘‘
فر وتنی است دلیل رسید گان کمال
کہ چوں سوار بمنزل رسد پیادہ شود
یعنی اہل کمال کی نشانی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے۔آپ نے دیکھانہیں کہ سوار جب منزل مقصود پر پہنچتاہے تو پیادہ ہو جاتا ہے۔
تقویٰ کے مدارج
پہلا درجہ:عذاب آخرت سے ڈر کر اپنے آپ کو شرک سے بچانا تقویٰ ہے۔(انوار التنزیل جلد اول ص 16)
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات،صفات اور افعال میں یکتا جاننا تقویٰ کا پہلا زینہ ہے۔مومن کے عرفانی مدارج کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کی رگ وجان میں توحید رچی بسی ہوتی ہے۔وہ اللہ ہی کومعبود سمجھتا ہے اوراسی ذات کو مقصود تصور کرتا ہے۔ گو یہ سب کو تسلیم ہے کہ معبود وہی ہے ،مگر کم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقصود وہی ہے۔متقی شرک کو ظلم عظیم سمجھتا ہے۔اس کی دعوت و تبلیغ کا محوراثبات توحید اور تردید شرک ہوتا ہے،لیکن یاد رہے کہ توہین انبیاء اورگستاخ اولیاء توحید نہیں بلکہ جرم عظیم ہے، جس طرح خدا کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا کفر ہے، اسی طرح انبیاء ومرسلین کو اپنی طرح سمجھنا یا اپنے آپ کو ان کے مثل جاننا صریح کفر ہے۔اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔آمین یا رب العالمین۔
عقا ئد کا ٹھیک ہونا تقویٰ کی جان ہے۔سورہ بقرہ میں متقی کی تعریف میں اس کے اعمال کے ساتھ ساتھ راسخ عقائد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’’وہ لوگ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔نماز قائم کرتے ہیںاور ہمارے دیے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں جو آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی وحی پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔”(القرآن)
دوسرا درجہ:’’ ہر وہ فعل جس میں گناہ کا اندیشہ ہو یہاں تک کہ صغیرہ گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ کہلاتا ہے۔‘‘(انوارالتنزیل جلد اول ص16)
تقویٰ کے اس مرتبہ کی طرف قرآن حکیم نے اس طرح اشا رہ فرمایا ہے: ’’کاش بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے۔‘‘(الاعراف۔96)
متقی کے لئے ان حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے جو کائنات کے خالق نے متعین کی ہیں۔یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب خوف الٰہی دل میں پوری طرح جاگزیں ہو اور انسان ہر وقت یہ سوچے کہ یہ دنیا اندھیرنگری نہیں،بلکہ امتحان گاہ ہے اورایک نہ ایک دن اسے اپنے اعمال کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔
تیسرا درجہ :علامہ ناصر الدین ابو سعید عبداللہ بن بیضاوی لکھتے ہیں: ’’ہروقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا اور اس سے غافل کر دینے والی اشیاء سے لا تعلق ہونا تقویٰ ہے اور تقویٰ کی حالت حقیقی اور مطلوب ومقصود ہے‘‘ (انوار التنزیل ص16 جلد اول)
یہاں تعلق سے مراد ہر وقت خدا کو یاد کرنا ہے۔ہر فعل میںاس کی رضا دیکھنا ہے۔بعض صوفیاء کے پاس انفاس کا معمول بھی تقویٰ کے اس مفہوم میں آسکتا ہے۔ انسان کو ہر وقت اس کو شش میں لگے رہنا چاہیے کہ کوئی چیز راہ ِدین سے غفلت کا سبب نہ بنے۔شیطانی طاقتیں اس پر غالب نہ آئیں۔نفس امارہ اسے اپنے دامن میں نہ لے لے اور یہ سب کچھ عمل پیہم اور جہدِمسلسل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ فکر اورجذ بہ صا د ق اس سلسلہ میں ممّد اور معاون ثابت ہوتے ہیں۔
تقویٰ کی اہمیت
متقیا نہ زندگی انسان کو نمونے کا انسان بنا دیتی ہے۔مسلمان صرف اجتماعی زندگی میں ہی ایک ضابطے کا پابند نہیں بلکہ وہ انفرادی زند گی میں بھی ایک دستور اور قانون کے مطابق تعمیر اور تطہیر حیات کی منازل طے کرتا ہے۔اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور قول وفعل رضائے الٰہی کے حصول کے لئے ہوتے ہیں۔ تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک با ر پو چھا گیا : ’’آل نبی کون لوگ ہیں؟‘‘ توآپ نے ارشاد فرمایا: ’’متقی۔‘‘ علاوہ ازیں اسلام کا سارا نظام عبادت یہی مقصد رکھتا ہے کہ لوگ ’’متقی‘‘ یعنی صاحب کردار بن جائیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات ’’تقویٰ‘‘ کے لئے دعا فرماتے۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے:’’اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ اور عفت وغِنا کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
تقویٰ کے اثرات
اسلامی کردار یعنی تقویٰ کے اختیار کرنے سے ایک مسلمان کی زندگی پر بیشمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔دینی اور دنیاوی زندگی میں اس کی بدولت انسانی ضمیر کو سکون و چین میسر ہوتا ہے۔ قرآن کی روشنی میں تقویٰ کے اثرات پر ہم ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
تقویٰ اور فلاح حقیقی
انسان جب تک نظامِ وحی سے رہنمائی حاصل نہیں کرتا نقصان اور خسارے میں رہتا ہے۔ہدایت کے لیے وجدان اور عقل اس کے لیے نا کافی ثابت ہوتے ہیں۔اگر وہ اپنے خالق اور ہادی کی طرف رجوع نہ کرے تو وہ اکثر فیصلے غلط کرتا ہے۔اس کی دماغی اور ذہنی قوتیں زندگی کی پر پیچ راہوں میں اس کی ساتھی نہیں بنتیں۔وہ یہاں پہنچ کربے بس ہو جاتا ہے۔اس کی نگا ہیں کسی ہادی کو تلاش کرتی ہیں۔اگر اس بے چارگی کے عالم میںوہ فطرت کی آواز سن کر اپنے خالق و مالک کے ’’نظام ہدایت‘‘ جو مختلف ادوار میں انبیاء کی وساطت سے انسانیت کی رہنمائی کرتا رہا کو پہچان لے تو فطرت اسے فلاح کا پیغام دیتی ہے۔
وہ لوگ جن کے سینے ایمان سے خالی ہیں اور ان کے اعمال قرآن و سنت کے برعکس ہیں بے شک وہ انسان تو ہیں لیکن ’’نظام وحی‘‘سے عدم تمسّک کی بنائی پر نقصان و خسران ان کا مقدر ہے۔
’’بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘( العصر۔2)
نقصان کے مقابلہ میں قرآن ’’فلاح‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور ’’فلاح‘‘ کی شرائط میں تقویٰ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ سورہ ’’البقرہ‘‘ میں متقی کی 6 صفات بیان کرنے کے بعد رب ذوالجلال ارشاد فرماتاہے:’’یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کا میاب و کامران بھی ہیں۔‘‘(البقرہ۔5 )
تقویٰ اور امتیاز
تقویٰ کے اجتماعی اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ معاشرہ جو’’من حیث الجماعت‘‘  (پوری جماعت کی حیثیت سے )اپنے آپ کو کتاب و سنت کے مطابق بنا لیتا ہے۔اقوام عالم میں اس کی شان نرالی اور امتیازی بن جاتی ہے۔ارشاد رب العزت ہے: ’’اے اہل ایمان!اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امتیاز قائم کردے گا۔‘‘ ( الانفال: 29 )
’’امتیاز‘‘کی مختلف نو عیتیں ہو سکتی ہیں۔یعنی اس سے ایک معنی تو یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ تم میں اچھی اور بری چیز میں امتیاز کرنے کی قوت پیدا فرما دے گایعنی بصیرت عطا کر دے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقوام میں تمھیں امتیازی شان عطا کر دے۔
تقویٰ اورکشادگیِ رزق
روٹی،کپڑے اور مکان کامسئلہ ہر دور میں بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔قرآن نے معاشی آسودگی بھی اپنی حدوں میں قائم رہنے ہی میں قرار دی۔ارشادِ رب العزت ہے:’’متقی کے لیے اللہ تنگی سے نکلنے کے لئے سامان مہیا کرتا ہے اور اسے وہاں سے روزی دیتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔‘‘( اطلاق : 3-2)
اسلامی نظام کا مکمل مطا لعہ کرنے سے اچھی طرح اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ اسلام کیسے ’’معاشی خوشحالی‘‘ دیتا ہے۔
اس کے برعکس ’’اعراض عن القرآن‘‘ سے اقوام و ملل کی معاش و معیشت تنگ کر کے رکھ دی جاتی ہے۔قرآن نے معاشی تنگی کی وجہ ہی اس نظام سے بغاوت کو قرار دیا ہے۔
’’جس نے ہماری یاد سے غفلت برتی بے شک معیشت تنگ ہو جائے گی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔‘‘ (طہٰ : 124

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔