Sunday 12 April 2015

محفلِ میلاد پر سب سے پہلا اعتراض کب ہوا اور اُمت کو کس نے تقسیم کیا؟

0 comments
محفلِ میلاد پر سب سے پہلا اعتراض کب ہوا اور اُمت کو کس نے تقسیم کیا؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہندوستان اور منکرین میلاد۔

 بسا اوقات ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عقائد میں یہ تبدیلی کس دور کی پیداوار ہے۔ تو ہم اپنے خطے یعنی (برصغیر پاک و ہند) کی بات کرتے ہیں۔ محفل میلاد کی اصل یہ ہے کہ سرورِ کائنات ، فخر موجودات سید الانبیاء کی ولادتِ طیبہ اور سیرت پاک کو بیان کیا جائے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردار ، شمائل و خصائل کا ذکر کرنا قرآن پاک، احادیث وآثارِ صحابہ سے ثابت ہے اور اسی بنا پر سلف ِ الصالحین، علمائے امہ ، مشائخِ عظام محفلِ میلاد کا انعقاد کرتے رہےہیںاور اس میں برابر شرکت کرتے رہے، حد یہ ہے کہ امام ابوشامہ جو کہ استاذ ہیں امام نووی کے، امام ابن جزری، حافظ عماد الدین ابن کثیر، حافظ زین الدین عراقی، امام ابن حجر عسقلانی، حافظ جلال الدین سیوطی، علامہ شہاب الدین قسطلانی، علامہ عبدالباقی الحنبلی، امام زرقانی مالکی، علامہ امام مُلا علی قاری الھروی المکی الحنفی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وغیرہ وغیرہ وغیرہ جیسے بے شمار بلکہ تقریباً سبھی اساطینِ امت بلانکیر محفلِ میلاد میں شریک ہوتے رہے ہیں، بلکہ بہت سے علمائے کرام نے محفلِ میلاد پر مستقل کتابیں بھی لکھیں، جن میں سے ایک کثیر تعداد مکاشفہ لائبریری میں پی ڈی ایف صورت میں مخطوطہ جات کے ساتھ موجود ہیں۔ مولانا عبدالسمیع رامپوری نے انوار ساطعہ میں ان علماء و محدثین اور مشائخِ طریقت کی ایک لمبی فہرست پیش کی ہے۔

حالات یہ تھے کہ مغلیہ حکومت کے زوال کے تقریباً بیس سال بعد سہارن پور اور اس کے اطراف کے چند اسلاف بیزار مولویوں نے اس عملِ خیر اور مجلس خیر کے خلاف آواز اٹھائی اور دہلی کے غیرمقلد وہابی علماء سے یہ سوال کیا:

"کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ مولود خوانی و مدحت حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہیئت سے کہ جس مجلس میں امردانِ خوش الحان گانے والے ہوں، اور زیب وزینت وشیرینی وروشنی ہائے کثیرہ ہو اور رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب وحاضر ہوں، جائز ہے یا نہیں؟ اور قیام وقتِ ذکر ولادت جائز ہے یا نہیں؟ اور حاضر ہونا مفتیان کا ایسی مجلس میں جائز ہے یا نہیں؟ اورنیز بروزِ عیدین پنج شنبہ وغیرہ کے آب و طعام سامنے رکھ کر اس پر فاتحہ وغیرہ ہاتھ اٹھا کر پڑھنا اور اس کا ثواب اموات کو پہنچانا جائز ہے یا نہیں؟ اور نیز بروزِ سوم میت کے لوگوں جمع کرکے قرآن خوانی اور بھونے ہوئے چنوں پر کلمہ طیبہ مع پنج آیت پڑھنا اور شیرینی تقسیم وغیرہ تقسیم کرنا بحدیث نبوی جائز ہے یا نہیں؟ بینو توجروا۔"

اس سوال نامہ اور اس پر آپریشن تو آخر میں پیش کیا جائے گا پہلے اس سوال نامہ کا جواب ان کی طرف سے کیا دیا گیا وہ پڑھ لیں۔

جواب ۔ "انعقاد ِ محفل میلاد اور قیام وقتِ ذکر پیدائش آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرون ثلاثہ سے ثابت نہیں ہوا۔ پس یہ بدعت ہے۔ اور علیٰ ہذا القیاس بروز عیدین وغیرعیدینوپنج شنبہ وغیرہ میں فاتحہ مرسومہ ہاتھ اٹھا کر پایا نہیں گیا۔ البتہ نیابۃً عن المیت بغیر تخصیص ان امورِ مرقومہ سوال کے للہ مساکین وفقرا کو دے کر ثواب پہنچانا اور دعا اور استغفار کرنے میں امید منفعت ہے۔ اور ایسا ہی حال سوئم، دہم، چہلم وغیرہ، اور پنج آیت اور چنوں اور شیرینی وغیرہ کا عدم ثبوت حدیث اور کتبِ دینیہ سے ۔ خلاصہ یہ کہ بدعاتِ مخترعات ناپسند شرعیہ ہیں۔"


اس فتویٰ پر دہلی کے تین غیر مقلد علما کے دستخط تھے۔ (1) مولوی حفیظ اللہ۔ (2) مولوی شریف حسین ۔ (3) الٰہی بخش۔ اور اُن کے علاوہ درج ذیل علمائے دیوبند وگنگوہ وسہارن پور کے تائیدی دستخط بھی تھے۔ (1) مولوی محمد یعقوب، صد رمدرس مدرسہ دیوبند (2) مولوی محمد محمود حسن دیوبندی ، مدرس مدرسہ دیوبند۔ (3) مولوی محمد عبدالخالق دیوبندی۔ (4) مولوی رشید احمد گنگوہی۔

گنگوہی کے الفاظ یہ تھے؛

"ایسی مجلس ناجائز ہے اور اس میں شریک ہونا گناہ ہے، اور خطاب جناب فخر عالم علیہ السلام کو کرنا اگر حاضر ناظر جان کر کرے کفر ہے، ایسی مجلس میں جانا اور شریک ہونا ناجائز ہے۔ اور فاتحہ بھی خلافِ سنت ہے اور سوم بھی، کہ یہ سنتِ ہنود کی رسوم ہے۔ ۔۔۔۔ التزام مجلس میلاد بلاقیام وروشنی وتقاسیم شیرینی وقیوداتِ لایعنی کے، ضلالت سے خالی نہیں ہے۔ علی ہذا القیاس سوم وفاتحہ برطعام کہ قرونِ ثلاثہ میں نہیں پائی گئی"۔


اس زمانے میں یہ محفل ِ میلاد وفاتحہ عرس کے خلاف پہلا فتویٰ تھا جو چارورقی تھا اور تیرہ سو دو ہجری میں مطبع ہاشمی میرٹھ سے شائع ہوا، اس کی سرخی تھی:  فتویٰ مولود وعرس وغیرہ۔ پھر دوسری فتویٰ مطبع ہاشمی میرٹھ سے ہی چھپا جس کا عنوان تھا: فتویٰ میلاد شریف یعنی مولود مع دیگر فتاویٰ۔ یہ چوبیس صفھے کا تھا اس میں محفلِ میلاد شریف کی بڑی مذمت کی گئی تھی اور پہلا چارورقی فتویٰ بھی اس میں شامل کردیا گیا تھا۔ ان فتوؤں نے مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بویا۔ اور عوامِ اہلسنت وجماعت کو طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا۔ اس علاقے کے لوگ زیادہ تر شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ صاحب فاروقی چشتی تھانوی سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے تھے، جو کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کے حالات کی ناسازگاری کی وجہ سے بارہ سو چھہتر ہجری یعنی اٹھارہ سو انسٹھ میں مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے تھے۔ اور حاجی صاحب کے مرید باصفا اور خلیفہ صادق عالمِ ربانی حضرت مولانا عبدالسمیع بےدل رامپوری سہارنپوری متوفی تیرہ سو اٹھارہ ہجری ۔ اہلسنت وجماعت کے مرجع ومقتدا تھے اور اسی لیئے آپ نے اسکے مخالفت میں وہ کتاب تحریر کی جس میں قرآن و حدیث کے حوالوں سے ان بے کار کے فتوؤں کا رد کیا گیا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت ہوتے ہی اسکے نسخے ہاتھوں ہاتھ بک گئے جب یہ کتاب دیوبند، گنگوہ اور سہارن پور کے وہابی علما تک پہنچی تو انہیں اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی۔ آخر کار "کھسیانی بلی کھمبا نوچے" کے مصداق، وہابی دیوبندی مولویوں کے سرکردہ مولوی رشید گنگوہی نے اس کے جواب میں تیرہ سو بائیس ہجری میں ایک کتا ب لکھ کر اپنے مریدِ خاص مولوی خلیل احمد انبیٹھوی سہارن پوری کے نام سے شائع کرائی۔ جس کا لمبا چوڑا چارسطری نام اپنے خاص ذوق کے مطابق یہ رکھا۔ (البراھین القاطعہ علی ظلام الانوار الساطعۃ، المقلب بالدلائل الواضحہ علی کرھۃ المرؤج من المولود والفاتحہ)۔ اور نیچے یہ عبارت لکھوائی : "بہ امر حضرت بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، راس الفقہاء والمحدثین ، تاج العلماء الکاملین جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی"۔

آپریشن ۔ پہلے سوال کا جائزہ ذرا دوسرے انداز سے پیش کیا جارہا ہے۔

جیسے کہ ہم پہلے بھی کئی مقامات پر بتا چکے ہیں کہ وہابی دیوبندی فرقہ دراصل بہ ذاتِ خود ایک بدعت ہے، انکو القابات بھی لگانے سے خاصا لگاؤ ہے۔ کیونکہ یہ نئی چیز ہے ، تاریخِ اسلام میں آپ کو (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی ، قادری، صوفیاء) سب کا ذکر ملے گا۔لیکن کہیں بھی آپ کو کسی وہابی اہلحدیث دیوبندی کا ذکر نہیں ملتا ۔ جو کہ بین ثبوت ہے ہماری بات کا۔ تو ان کے سوالات بھی بہ ذاتِ خود تراشیدہ ہوتےہیں جو کہ انکی اندرونی حیثیت کو اُس مسئلے پر آشکار کرتے ہیں۔ یہ خود ساختہ سوالات ہی دراصل دماغوں کو گمراہ کیئے جاتے ہیں جیسے کہ فریمیسن پہلے پرابلم تخلیق کرتے ہیں پھریہ شیطان پرست اس پر دو متضاد رائے بناتے ہیں تاکہ عوام مخالف اور معاون دونوں قبول کرلیں اور سمجھیں کہ یہ تو ان کی حمایت ہورہی ہے اور آخر میں وہی سولیوشن (یعنی حل) پیش کرتےہیں جس کو عوام بڑی آسانی سے مان جاتے ہیں ۔ اسی کو فریمیسونک انفلوئینس کہتےہیں۔ جیسے یہ فریمیسن ، سبلیمینل زبان میں بات کرتے ہیں ویسے ہی ان کی ایک شاخ یعنی وہابی دیوبندی اپنے (سَب،لیمی۔نِلsubliminal-) انداز میں سوالات تخلیق کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے کہ:

سوال کاشروع کیسے ہو رہا ہے لوگوں کے دماغ میں خودساختہ عقیدہ تراشنے کے لیئے کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین۔ اب یہاں ایک لحظہ رکیں اور اس  پر ذرا غور کریں۔ یہاں یہ شیطانی ابلیسی چال چلی جارہی ہے کہ وہ عقیدہِء میلادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو ہم نے قرآن و سنت سے دلائل کے ساتھ میلاد کے آرٹیکل میں تفصیل سے شائع کیا ہے۔ جس میں چودہ سو سال کے اسلام میں موجود تمام تر علماء کرام جن کے نام شروع میں بیان کیئے گئے وہ سب کے سب اصلی علماء و مفتیانِ شرع متین ہیں۔ انہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ ان کا ایمان ہی میلادِ نبوی منانا تھا جیسا کہ اُن کی لکھی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ تو یہاں دراصل اُن محدثین کو سائڈ کرکے اپنے اِن دو دو ٹکے کے سڑک چھاپ جہنمی کتوں جیسے مولویوں کو اہمیت دینے کی خاطر سوال کے شروع میں لکھا گیا ہے کہ (کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین) یعنی لوگوں کو لاشعوری (سب لیمی نل) طور پر اُن کے دماغ کو سلف الصالحین اور علمائے امت سے ہٹا کر اپنے مفتریوں کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ابلیسی چال ہے۔ وہ اس لیئے کہ دیکھیئے جب میلادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوا تو سب سے پہلے جس کو تکلیف ہوئی تھی وہ ابلیس تھا۔ اور وہ اس وقت اپنی مجلسِ شوریٰ میں بیٹھا ہوا تھا ۔ یہی اس نے ارادے کیئے کہ آپ کو نقصان پہنچا سکے لیکن جبرئل امین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ایسی لات ماری کہ یہ آخری طبق میں جاگرا تھا۔ لہٰذا اس سوال کے اس حصے کے پیچھے نفسیاتی طور پر ابلیس کے وہی ارادے کارفرما صاف محسوس کیئے جاسکتےہیں۔ جن کا مقصد لوگوں کو نبی کی محبت سے روکنا ہے۔ اور میلاد جو کہ صحابہ کرام سے ثابت ہے اُس کے خلاف شکوک پیدا کرنا ہے نیز اپنے مولویوں کو علما قرار دے کر لاشعور میں یک لخت آپ کی توجہ یا آپ کے ذہن و دل سے علمائے اصل کی اہمیت گھٹانے کی ایک ابلیس پرستی ہے۔

پھر لکھا ہے سوال میں کہ :

(ایسی ہیت سے کہ جس مجلس میں امردانِ خوش الحان گانے والے ہوں)

اب اس شیطانی جملے پر غور کیجیئے ذرا کہ یہاں پر آپ کے لاشعور میں (امردانِ خوش الحان) یعنی (اچھی آواز والے کمسن نوجوان) کی طرف دلایا جارہا ہے۔ اور اگلا ہی لفظ کہ (گانے والے) ۔ اب ابلیسی بات کو سمجھیں، کون نہیں جانتا کہ ابلیس میں ہم جنس پرستی ہوتی ہے۔ یہ مولوی بھی ایسے ہی ہیں (امردان) یعنی (نوجوان لڑکوں ) کی طرف راغب رہنے والے لوطی ، جنکا دھیان بجائے ثناء مصطفیٰ کے، لڑکوں پر ہوتا ہے۔لہٰذا لاشعوری طور پر آپ کے دماغ کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ دیکھو اس میں تو (بچے یا خوبصورت جوان) ہوتے ہیں  اور جو کہ گاتے ہیں ۔ ضلالت کی انتہاء ہے ابلیس ملعون کی کہ یہاں پر تلاوت کرنے نعت خوانی کرنے کو (گانے والے) کہہ کر آپ کے دماغوں میں یہ انپلانٹ کیا جارہا ہے کہ یہ تو محفلِ موسیقی ہے ناں کہ نعت خوانی۔ یعنی نعت کو ایک طرف گانا بنادیا، خود چونکہ لوطی ہوتے ہیں اسلیئے ان کا دھیان (امردان) کی طرف ہی رہتا ہے اور چونکہ خود کردار کے پست اور نیچ اور ذلیل ہوتے ہیں تو اسی لیئے یہ وہ اپنی حرکتوں کو مدنظر رکھ کر پاک محفل کا انکار کردیتے ہیں جس پر کہ اجماع امت ہے۔ حالانکہ ان بے غیرتوں سے کوئی پوچھے کہ جب سالانہ دستاربندی کرتے ہیں یہ وہابی دیوبندی اُس میں کیا (امردان) نہیں ہوتے؟ ۔ ہم نے تو کبھی نہیں کہا کہ وہابی دیوبندی جو رائے ونڈ کے جلسے کرتے ہیں اُن میں کوئی لوطی یا زانی نہیں ہوتا یا وہ سب کےسب اس کام میں مبتلا ہوتے ہیں؟۔ ہم نے تو کبھی یہ نہیں کہنے کی جرات کی کہ وہابی دیوبندی ٹولہ جو (عمرفاروق ڈے ) (کنگ سعود ڈے)(مدرز ڈے)۔ (فادرز ڈے) مناتا ہے یا دورہء تفسیر قرآن وغیرہ کے نام پر مسلمانوں کو جب گمراہ کرتا ہے تو اُس میں بھی خوش الحان امردان ہوتے ہیں جو آیتیں گاتے ہیں؟ کیا کہا کبھی ہم نے؟ نہیں کیونکہ ہم اہلسنت وجماعت اصلی مسلمان ہیں ۔اب اگلے الفاظ پر چلیں اور اس سے ذرا ان کی بدذاتیاں ملاحظہ کریں کہ ابلیس کیسے ان کے دماغوں کو اور دلوں کو کنٹرول کرتا ہے ۔ دراصل ابلیس ان کے روپ میں چھپ کر اپنی دلی کمینگی اور ضلالت کو چھپا کر آپ کے دماغوں کو متاثر کرتا ہے ۔
آگے لکھتے ہیں:

(اور زیب و زینت ، وشیرینی وروشنی ہائے کثرہ ہو)

اسکے بارے میں یہ سمجھیں کہ جب میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہوا تو تمام تر قرآن و حدیث کے ذخائر سے ہمیں یہ معلوم ہے کہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک سے اللہ کا نور تخلیق ہوا۔اور اس کے بارے میں باقائدہ احادیثِ صحیحہ موجود ہیں مختلف کتابوں میں کہ جس میں آپ کے میلاد کے دن جو جو معجزات ہوئے دنیا میں وہ بیان ہوئے۔ مزید احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ فرشتوں نے 3 جھنڈے لگائے، اور یہ کہ نور کا ظہور ہوا، ہر طرف روشنی چھا گئی۔

ایک منٹ؛

ان احادیث کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا اُس شخصیت کا سوچیں کہ جس کو تکلیف ہوئی جو چیخ چیخ کر رویا ،یعنی ابلیس، اب ظاہر سی بات ہے کہ میلاد پر نور پھیلا، روشنی ہوئی۔ جب نور پھیلا اور روشنی ہوئی تو ابلیس کی تو یہی خواہش تھی اور ہے کہ روشنی ختم ہوجائے لہٰذا یہاں اس سوال میں یہی روشنی ختم کرنے کے لیئے یہ الفاظ درج ہوئے ان گمراہ خوارج کے دماغوں اور قلموں سے ، کہ ابلیس نے اپنی اسی خواہش کا اظہار کیا کہ کسی طرح مسلمانوں کو روشنی سے محروم کردیا جائے لہٰذا یہاں یہ سوال کیا گیا کہ زیب و زینت۔ (زیب و زینت )تو جواب یہ ہے کہ یعنی فرشتوں نے خوشیاں منائی، انبیاء کرام کی والدہ تشریف لائیں، فرشتوں نے جھنڈے لگائے روشنی کی۔ یہی تو زیب و زینت کہلاتی ہے۔ لہٰذا جو چیز حدیث میں ثبوت دیتی ہے یہ فرقہ جدید وہابیہ دیوبندی خوارجیہ نے اُسی ابلیسی خواہش کے پیشِ نظر یہ سوال یہاں اپنے غلیظ دماغ میں چھاپا۔ کیونکہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان بھی رہتا ہے ۔ اوریہی وہ شیطان ہوتا ہے جس کی ڈیڑھ فٹ کی داڑھی بھی ہوگی، مقطع چقطع بھی ہوگا لیکن اندرونی طور پر اوپر سے نیچے تک ابلیس کا پیروکار۔ امید ہے کہ اس جملے کی یہ تشریح اور پس منظر آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔

آگے لکھا ہے سوال میں کہ :
(اور رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب وحاضر ہوں، جائز ہے یا نہیں)۔

اب اس پر ذرا غور کریں کہ ، قرآن کہتا ہے کہ (انا ارسلنٰک شاھداً) (ہم نے نازل کیا آپ کو شاھد) یعنی گواہ بنا کر (گواہ حاضر وناظر ہی کو کہتے ہیں،یہ خود انکے ہی تھانوی مہاراج کی تفسیر قرآن میں لکھا ہے،قاسم نانوتوی نے بھی یہی معنی درج کیئے ہیں، مفردات القرآن وراغب اصفہانی میں بھی یہی تحریر ہے) اس پر مزید تفصیل آپ انتہائی قیمتی دلائل کے ساتھ دیگر آرٹیکلز میں مکاشفہ پر پڑھ سکتے ہیں ۔ یہاں ہم نے مختصراً معنی بتا دیا ہے۔ اب دیکھیں قرآن کہتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت پر گوا ہ ہیں۔ شاھد ہیں اور گواہ وہی ہوتا ہے جو واقعہ کے وقت حاضر ہو اور ناظر ہو یعنی دیکھ رہا ہو۔ عقیدہ حاضر و ناظر پڑھ لیں تو واضح ہوجائے گا کہ یہاں ابلیس دراصل (لہابی ،دیوبندی ) مُنہ سے آپ کو اسلام کے چودہ سو سال سے چلے آرہے اس قرآنی حکم سے ہٹانے اور ذہنوں میں پس و پیش ڈالنے کی گھٹیا مذموم کوشش کررہا ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوا اور آج اس عقیدہ پر (خوارج (آئندہ اس پوسٹ میں ہم خوارج لکھیں تو وہابی، اہلحدیث، سلفی ، اور دیوبندی سمجھا جائے))، پوری طرح سے ایمان رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہاں ابلیس اور ابلیس پرستوں نے (خارجی مُنہ) سے قرآن کے حکم سے آپ کو ہٹنے کے لیئے یہ سوال لکھا۔ اور آپ کے لاشعور کو پھر 3 اطراف سے دھوکہ دینے کےلیئے یہ سوال گھڑا گیا ۔

پھر لکھا ہے کہ

(اور قیام وقتِ ذکرِ ولادت جائز ہے یا نہیں ۔۔۔۔الیٰ ۔۔۔۔آب وطعام سامنے رکھ کر فاتحہ وغیرہ اور اموات کو ثواب پہنچانے پر سوال )۔

تشریح؛

یہاں ابلیس کی چال سمجھیں کہ چونکہ میلاد میں قیام کرنا افضل ہے جیسے کہ عبادات میں جب نمازیں نوافل پڑھی جاتی ہیں تو قیام کی حالت میں اجر وثواب زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن مجال ہے جو ابلیس کو یہ منظور ہو۔ چونکہ فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پر قیام کیا تھا ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھولے کے اردگرد حاضر رہتے تھے ، لہٰذا ابلیس کو یہ استعارہ کیسے قبول ہوسکتا تھا ، یہ عزت افزائی وہ حاسد کیسے بھول سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے (خارجی منہ ) سے اُس نے یہی لکھوایا کہ قیام بہ وقتِ ذکرِ ولادت جائز ہے یا نہیں۔ یعنی ایک طر ف تو وہ آپ کے لاشعور کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ چھوڑ یار قیام یعنی کھڑا ہونا بھلا کیا معنی رکھتا ہے۔ حالانکہ مسلمان کے لیئے بزرگوں کا بھی احترام کرنا سنت ِ نبوی ہی ہے۔ تو آقائے دوجہاں کے نام نامی کی خاطر قیام کرنا کیسے گناہ ہوگیا۔ ذرا ابلیسی کاروائی کو سمجھیں ، اُس کا ہر مقصد فقط یہ ہے کہ مسلمان قوم میں انتشار ہو، فرقہ پرستی ہو اور خوارج کے پلید منہ سے نکلے اپنے عقائد کو یہ اسلام کے لبادے میں پروان چڑھائے۔ ہر ہر عقیدہ ابلیس کے حق میں خارجیوں کے مُنہ اور فتوؤں سے جاتا ہے۔اور صریحاً مسلم قوم کو قرآن و سنت سے ہٹانے کے لیئے ہے۔ اسی طریقہ کو آج جدید دور میں فریمیسنز (ماس مائنڈ کنٹرول ٹرکس)  یا دوسرے الفاظ میں (دجالی کارندے) کے ماتحت میڈیا کے ذریعے استعمال کرتے ہیں ۔ اسی طریقے سے پہلے قادیانیت تخلیق کی گئی جو کہ بری طرح فلاپ ہوئی۔ تب ابلیس نے (خارجیت) کو اپنے لیئے استعمال کیا اور دیوبند ولہابیت اسکے ہاتھ اور پیر بنے۔

پھر آگے سوال میں لکھا ہے کہ(آب وطعام سامنے رکھ کر اس پر فاتحہ اور اموات کو ثواب پہنچانا)۔

اب اس کی تشریح بھی بڑی مزے کی ہے کہ ، چونکہ ابلیس کبھی بھی بنی ء آدم کو نہ زندہ خوش دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی فوت ہونے کے بعد کوئی فائدہ پہنچتا دیکھ سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا اکثریتی گروہ یعنی اہلسنت وجماعت اور حتی کہ شیعہ بھی فاتحہ خوانی کرتے ہیں اپنے مردوں کو ایصال وثواب پہنچانا اسلام اور اسلامی شریعت میں ہرطرح سے جائز اور روا ہے ۔ لہٰذا یہ سوال کرنا کہ یہ جائز ہے یا نہیں پھر سے وہی ابلیسی لاشعوری ٹرک ہے کہ آ پ کے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا کیئے جائیں تاکہ آپ نہ خود فیض حاصل کرسکیں اور نہ ہی مرنے کے بعد کسی مسلمان کوکوئی ثواب ہو۔ نیز۔ غور کریں کہ دین سے شغف رکھنے والا ہرکوئی جانتا ہے کہ ابولہب نے اپنی باندی کو آزاد کیا تھا جسکی وجہ سے اُس کے عذابِ قبر میں تخفیف کی جاتی ہے۔ لیکن ابلیس کو یہ تک گوارہ نہیں کہ کوئی کافر بھی بچ جائے کیونکہ اس کے دشمن بنی نوع انسان ہیں نا کہ صرف مسلمان۔ لیکن مسلمان چونکہ آخری چٹان ہیں اسی لیئے سب سے زیادہ ان کو تقسیم کرنے کےلیئے ابلیس نے اپنے فری میسنوں یعنی خوارج کو استعمال کیا یہ شکوک و شبہات آپ کے لاشعوری دماغ میں ڈالنے کے ، جو کہ اگر روز روز آپ کے سامنے پیش کیئے جاتے رہیں گے تو ایک دن آپ اُن کو لاشعوری طور پر قبول کرلیتےہیں اور یوں اسلام سے نکل کر خوارج کے یعنی ابلیس پرستوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔تبلیغی جماعت دیوبند کو شروع کرنے والا مولوی الیاس کانپوری نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے اپنے تجربے سے کہ لوگ جب ان (بدعات) (یعنی جن پر انہوں نے امت کو فرقوں میں تقسیم کیا) میں پڑے رہتے ہیں اور اگر ان کو منع کیا جائے تو وہ انکار کرتے ہیں لیکن اُنہی لوگوں کو اگر اپنے ساتھ دو دو تین تین دن چلے میں پھرایا جائے تو وہ سب کچھ خود بہ خود مان جاتے ہیں جس کو کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

ملاحظہ کیا آپ نے؟ یہی تو ابلیس کی (سب لیمی نل میسیجنگ) ہے۔ یہی تو ابلیس کی وہ شاطرانہ چال ہے، انسان اپنے گردوپیش سے انتہائی اثر لیتا ہے۔ جب بار بار ایک چیز چاہے جھوٹ ہی ہو، لاشعوری طور پر پیش کی جاتی رہے تو وہی اُس کا ایمان، اُسکی سوچ اور اُسکی عقیدہ بن جاتا ہے۔ اسکی دوسری بڑی مثال ٹی وی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ مختلف اشتہارات میں بے حیائی کے سب لیمی نل پیغام نشر کیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پردہ، شلوار قیمص اور دوپٹہ پہنے والی قوم آج جینز اور پتلونوں میں اپنی خواتین کو دیکھ کر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اسی کو (ماس ہپناٹزم کی سائنس) کہا جاتا ہے۔ اور آسان الفاظ میں ابلیسی سب لیمی نل میسیجز۔

اب ذرا مختصراً ان کے باقی سوال اور پھر انکے مفتریوں یعنی ابلیس پرستوں کے دیئے ہوئے بھونڈے جواب پر تشریح کردی جائے ۔

پہلا جملہ جو انہوں نے بطورِ جواب تحریر کیا ہے وہ یہ ہے کہ :
(انعقاد محفل میلاد اور قیام وقتِ ذکر پیدائش آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرونِ ثلاثہ سے ثابت نہیں ہوا۔ پس یہ بدعت ہے)

جواب؛ پہلی بات ہی بکواس ، جھوٹ افتراء ، بے دینی، مکاری، ابلیست پر مشتمل ہے کیونکہ ہم جب نصِ قرآنی سے ثبوت دے چکے ہیں کہ (ایام اللہ) منانے کا حکم خود قرآن نے دیا ہے تو پھر ان کا یہ کہنا کہ قرون ثلاثہ میں کوئی ثبوت نہیں ، دراصل اپنی نااہلی، نالائقی ، علم کی کمی اور خاص طور پر اپنے ابلیسی فرقے کی ابلیسی خطوط پر اسطوار تربیت کے اظہار سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہم نے اسی بلاگ پر جو میلاد کے باب میں تفسیراتِ قران کریم، اقوالِ صحابہ، احادیث، تاریخ مظاہر، اور سلف و خلف کی کتابوں کے سکینز کے ساتھ جو ثبوت دیئے ہیں 3 سال میں آج تک کسی نے اسکا جواب تو لانے کی جرات نہیں کی۔ لہٰذا یہ وہی ابلیسی چال ہے کہ شیطان کیسے بھلا چاہے گا کہ مسلمان وہ کام کریں جو فرشتوں نے کیا، اور جس پر اللہ خوش ہوتا ہے ۔ یعنی قرآن پر عمل۔ لہٰذا یہ بدعت نہیں بلکہ تم (خوارج) بذاتِ خود ایک بدعتِ سیئہ ہو۔ اور تمہارا خاتمہ انشاء اللہ ہردورمیں ہوتا رہے گا چاہے ہم رہیں یا نہ رہیں۔

اسی طرح پھر جو انہوں نے ہاتھ اٹھانے اور فاتحہ پر جواب میں لکھا ہے وہ بھی ادھورا سچ اور ڈھیر سارا جھوٹ ملانے کی ابلیسی کوشش ہی ہے ۔ ابلیس یا اسکے پروردہ یعنی فریمیسن یا خوارج ہمیشہ سے یہی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اپنے نظریات کو دوسرے کے کاندھے پر رکھ کر توپ کی طرح چلایا جائے سیکریسی میں۔ فاتحہ کون نہیں جانتا کہ قرآن کے ایک ایک لفظ پر دس دس نیکیوں کا اجر ہے۔ فاتحہ ایک مسلمان کی دوسرے مردہ یا زندہ مسلمان دونوں کی دین و دنیا کی بھلائی کے لیئے فائدہ پہنچانا ہے۔ شریعت میں باقائدہ اسکے طریقے وضع ہیں ۔ سب سے بڑی بات کہ یہ وہ عقائد ہیں کہ جن پر سلف الصالحین ومحدثین فقہاء سب متفق ہیں اور اجماع امت ہے۔ لیکن یہاں امت کو تقسیم کرنے کےلیئے ابلیس نے بہ زبانِ خوارج یہ جواب دے کر واضح کردیا کہ دراصل اسلام کے جھنڈے میں لال کافر اپنے عقیدے کو پروان چڑھا رہا ہے۔ خارجیت کے ہر ہرعقیدے کا تعلق براہ راست ابلیسیت سے ہے۔

اگر شیرینی چنے وغیرہ بانٹنے جس پر ذکرِ اللہ ہوا ہو وہ، ان ابلیس پرستوں کو حرام لگتا ہے تو یہی رشید گند،گوہی ہیں جنہوں نے ہندوؤں کی ہولی میں شرکت اور کھانے پینے کوتو جائز قرار دیا ہے ۔ لیکن ان کے اسلام میں وہ کھانا جس پر فاتحہ پڑھی گئی ہو وہ حرام ہے۔ تو ظاہر ہے کہ گندگُوہی صاحب کی ہرزہ رسائی کیو جہ سے آج تک اُمت اس ابلیسی فتنے میں مبتلا ہے۔ فاتحہ جو چودہ سو سال سے رائج آرہاہے ، جو سنتِ رسول ہے اور سنت صحابہ ہے۔ اُس پراعتراض ابلیس ہی کا کام ہے ۔

پھر اسی کے جواب میں جہاں مولویوں کے نام لکھے گئے ہیں ۔ یہ بھی ایک طرح سے لاشعوری طور پر آپ کو بتایا جارہا ہے کہ یہ دو دو ٹکے کے سڑک چھاپ جہنمی کتے یعنی (مولوی حفیظ اللہ، شریف حسین،سہانپوریز، تھانویز،محمودالحسن وغیرہ) ان کے دستخط ہونا جیسے اسلام پر حرف ِ آخر ہوگیا۔ یعنی چودہ سو سال سے چلی آرہی اُمت تو سب الو کی پٹھی تھی ، کافر، مشرک ، بدعتی تھی۔ وہ سارے امامین، محدثین، مفسرین اولیائے کرام، خود انکے اکابرین۔ وہ سب کے سب نااہل، بے دین اور مشرک تھے۔ جو چودہ سو سال بعد ان کَتُوروں نے ہمیں آکر اسلام سمجھانا ہے اور ڈھائی سو سال پرانے تیمیہ ازم اور اسماعیل دہلویت کے اسماعلیت ہی واحد مومن ہیں جن کو اسلام کا پتہ ہے باقی تو سارے شاید گھسیارے تھے۔ پھر اسی ہندوانہ گندگُوہی مہاراج جس کے نام سے ابلیسیت اور ہندوپرستی جھلکتی ہے ۔ اُس نے یہ بھی کفر بکا کہ (یہ سنتِ ہنود کی رسوم ہے) ۔ میرا سوا ل ہے کہ اچھا پہلے تو مفتری یہ بتائے کہ ہندوؤں نے آج تک کتنی سنتوں پر عمل کیا؟ کیوں کیا؟ کیسے کیا؟ تم نے کس پنڈت کو میلاد مناتےدیکھا؟۔ مسلمانوں کے ایک عمل کو تم جہنمی کتے ہندوؤں کی رسم قرار دیتے ہو۔ تو ہمارا یہ سوال ہے کہ مدرسہ دیوبند بنانا، انگریز سے پیسے لینا، ہندوؤں کے ہاتھ کشمیر بیچنا کیسے جائز ہوگیا؟ کیا وہ حرام نہیں ؟ یا یہ ضلالت سے خالی نہیں کہ ہندوؤں کی ہولی تو (ہولی) لیکن مسلمانوں کی عیدِ میلاد بدعت کفر اور شرک؟۔ اندراگاندھی بہن کو شاید وہابیہ نے اسی لیئے مدرسہ دیوبند بلایا، اور گاندھی کو حکیم الامت کا خطاب دیا، اور شاید اسی لیئے آج تک دیوبند آر ایس ایس کی حمایتی ٹٹو ہے ہندوستان میں اور پاکستان میں پاک وطن کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کارفرما۔


ایک مسلمان کی حیثیت سے میرا یہی خیال ہے کہ (خوارج) کی ان کتابوں اور انکے فتوؤں کو چوک پر رکھ کر بمع ان کے مولویوں کے ان کو آگ لگا دینی چاہیئے کیونکہ یہی لوگ اُمت کو تفریق میں ڈالنے کا باعث ہیں۔ ان کی برصغیر میں پیدائش سے پہلے کسی طور پر ان گمراہ فتوؤں اور عقیدوں کا کوئی رواج نہیں تھا۔ یہ بدعتی فرقے پیدا ہوئے ہیں تو فقط ابلیس کی پیروی کو پروموٹ کرنے کےلیے۔ لیکن فرق صرف یہ کہ چونکہ اہلسنت وجماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں اسی لیئے یہ دیوبندی وہابی کہلاتے ہیں۔ جبکہ پوری امت کو انہوں نے بریلوی بنا رکھا ہے۔ ہمار اسوال ہے کہ کیا امام ملا علی قاری، امام ابن عابدین شامی، امام اعظم، امام ابن کثیر، امام صالحی، امام دمشقی، امام نووی، امام جلال الدین سیوطی، امام ابن حجر مکی، امام عسقلانی، امام شطنوفی، امام قسطلانی اور کروڑوں اور امام یہ سب کے سب بریلوی تھے کیا؟
کیونکہ ان سب کا عقیدہ بھی میلاد کا وہی ہے جو ہم صوفیوں کا ہے تو پھر تمہاری جرات کیسے ہوئے خود کو اہلسنت میں گھسا کر ہم مسلمانوں کو گنجٰ ٹنڈوں اور تمبی چُک شلواروں اور لوٹے اٹھا کر دھوکے دینے کی؟انشاء اللہ تمہاری ابلیسیت پر ہمارا آپریشن جاری رہے گا اور انشاء اللہ پاکستان کی عظیم مملکت کو تم جیسے کینسرز سے نجات دلانے کے لیئے ہم ایسے ہی تمہیں ایکسپوز کرتے رہیں گے ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔