Wednesday 1 April 2015

عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا ( پارٹ 5 )

0 comments
عرس ، مزرات کو چومنا اور چادریں چڑھانا ( پارٹ 5 )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زائرین حضرات کی فوری توجہ کے لیے

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انتہاء پسند ہیں اعتدال و توازن جو اسلامی احکام و تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا سوچے سمجھے آنکھیں بند کرکے بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر حرام کہدیا جو سراسر زیادتی اور احکام شرع کی خلاف ورزی ہے دوسری طرف جائز و مستحسن بلکہ سنت سمجھنے والوں نے اس سنت کے ساتھ اتنی بدعات جو ڑ دیں کہ الامان و الحفیظ۔
موم بتیاں اور چراغ روشن کرنا

ان کی اصل صرف یہ ہے کہ زائرین کسی وجہ سے دن کو زیارت قبور کے لیے نہیں آ سکتے رات کو وقت ملتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں قبرستان تک پہنچنے کے لیے اور صاحب مزار تک آرام سے پہنچنے کے لیے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کے وقت موم بتی یا چراغ وغیرہ کے ذریعہ روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا تاکہ رات کو آنے جانے والوں، تدفین کرنے والوں اور زائرین کو تکلیف نہ ہو اور وہ روشنی میں بآسانی آ جا سکیں یہ چراغاں عام راستوں میں قبرستانوں اور مساجد وغیرہ میں ہوتا تھا اور آج بھی بوقت ضرورت ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے اور اس کے جواز بلکہ استحباب میں کوئی شبہ نہیں۔

علامہ امام شیخ عبد القادر الرافعی الفاروقی الحنفی تقریرات الرافعی علی حاشےۃ ابن عابدین میں لکھتے ہیں :

إن البدعة الحسنة الموافقة لمقصود الشرع تسمی سنة فبناء القباب علی قبور العلماء والأولياء والصلحاء ووضع الستور والعمائم والثياب علی قبورهم أمر جائز إذا کان القصد بذلک التعظيم فی أعين العامة حتی لا يحتقروا صاحب هذا القبر وکذا ايقاد القناديل والشمع عند قبور الاولياء والصلحاء من باب التعظيم والا جلال ايضاً للأولياء فالمقصد فيها مقصد حسن ونذر الزيت والشمع للأولياء يوقد عند قبورهم تعظيما لهم ومحبة فيهم جائز ايضاً لا ينبغی النهی عنه.

’’اچھی بدعت (نئی بات) جو مقصود شرع کے موافق ہو سنت کہلاتی ہے پس علماء اور اولیاء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا، ان کی قبروں پر پردے، عمامے اور کپڑے ڈالنا جائز ہے جب کہ اس سے مقصد لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت کا اظہار کرنا ہوتا کہ وہ صاحب قبر کو حقیر نہ سمجھیں یونہی اولیاء و صلحاء کی قبر کے پاس قندیلیں اور شمعیں روشن کرنا تعظیم و اجلال کی بنا پر ہے سو اس میں ارادہ اچھا ہے۔ زیتون کے تیل اور موم بتیاں اولیاء اﷲ کی قبروں کے پاس روشن کی جاتی ہیں یہ بھی ان کی تعظیم و محبت ہے لہٰذا جائز ہے اس سے روکنا نہیں چاہیے‘‘۔

عبدالقادرالرافعی، تقریرات الرافعی علی حاشیہ ابن عابدین، 2 : 123

علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں :

بعض الفقهاء وضع الستور و العمائم و الثياب علی قبور الصالحين و الأولياء وقال في فتاوی الحجة و تکره الستور علی قبور.

ولکن نحن نقول الآن إذا قصد به التعظيم في عيون العامة حتی لا يحتقروا صاحب القبر ولجلب الخشوع والأدب للغافلين الزائرين فهوجائز لأن الأعمال بالنيات وإن کان بدعة.

’’بعض فقہاء نے صالحین و اولیاء کی قبروں پر غلاف اور کپڑے رکھنے کو مکروہ کہا ہے فتاویٰ الحجۃ میں کہاقبروں پر غلاف چڑھانا مکروہ ہے۔

لیکن اب ہم کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظروں میں تعظیم و تکریم مقصود ہے تاکہ وہ قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور تاکہ عاجزی و انکساری پیدا ہو اور غافل زائرین میں ادب پیدا ہو تو یہ امور جائز ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اگرچہ نئی چیز ہے‘‘۔

ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر بیروت
خلاصۂ کلام

مسلمان کی قبر پر پھول چڑھانا بھی مسنون ہے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کو چراغ جلانا یا روشنی کرنا بھی کار خیر ہے اس سے لوگوں کو آرام اور صاحب قبر کی عزت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے یونہی غلاف چڑھانا بھی مزارات و صاحبان مزارات کی تعظیم و تکریم کا اظہار کرنا ہے مگر آج کل بعض مزارات و مقابر پر جو جہالت، فضول خرچی، گمراہی اور ماحول کی پرا گندگی و تعفن پیدا کیا جاتا ہے وہ سراسر فضول، اسراف اور جہالت و گمراہی ہے۔
چراغاں

آپ موم بتی یا تیل کا چراغ اس نیت سے رکھیں کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں روشنی کا اہتمام کر کے عام ضرورت پوری کی جائے، اچھا ہے، اس کے ساتھ ایمرجنسی لائیٹ کا متبادل بھی آ گیا ہے۔ چراغوں اور موم بتیوں کی جگہ اسے استعمال کریں ان سے نہ دھواں، نہ گندگی اور نہ ہی بدبو پیدا ہوتی ہے آج کل مختلف مزارات پر حد سے زیادہ ہونے والا چراغاں جہالت، حماقت اور فضول خرچی ہے بجلی کی ٹیوبوں اور قمقموں کی دلفریب حسین روشنی کے ہوتے ہوئے بھی حد سے زیادہ چراغ جلانا، موم بتیاں روشن کرنا اور ان موم بتیوں کو آگ کے الاؤ میں ڈالنا، پگھلانا اور جلانا فضا کو زہر آلود کرتا ہے پورا ماحول گندا اور بدبودار ہوتا ہے لطافت و نظافت پسند شریف آدمی کو سانس لینا اور قدم رکھنا دشوار ہے ان پڑھ اور پڑھے لکھے جہلا خراج عقیدت پیش کر کے دین کی خدمت اور بزرگوں کی نیک نامی کو چار چاند لگا رہے ہیں یہ سب ولایت و تصوف کے نام پر ہو رہا ہے علماء و مشائخ دیکھ رہے ہیں سیاستدان اور حکمران دیکھ رہے ہیں صحافی اور دانشور تماشا دیکھ رہے ہیں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بلا ضرورت یہ موم بتیوں کا الاؤ اور چراغوں کا جلانا کونسی نیکی ہے؟ یہ سب قومی دولت کا ضیاع ہے شیطانی فضول خرچی ہے روحانی اور ستھرے ماحول کو زہریلے دھوؤں سے زہر آلود کرنا ہے پاؤں رکھو تو تیل اور موم، نہ بیٹھنا ممکن نہ چلنا، نہ سانس لینا، گرمی، بدبو، دھوئیں کی گندگی اور وہ بھی کہاں؟ داتا گنج بخش رحمۃاﷲ علیہ کے مزار اور مسجد میں، مادھولال حسین کے مزار اور مسجد میں یہاں سے زائرین تربیت لے کر اپنے علاقوں میں گندگی پھیلاتے ہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔