حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں عدل اور تقوی کا فقدان تھا اور ناحق مال کھاتے اور قتل کرواتے تھے اعتراضات کا جواب
محترم قارئینِ کرام : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے دور حکومت کا مختصر تعارف 41 تا 60 ھجری میں اسلامی فتوحات کی انتہا ہو گئی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شاندار دور حکومت
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت و حکومت میں روم (یورپ) لیبیا , سوڈان , الجزائر , مراکش , تیونس کو فتح کیا اور یورپ کے جزیرے کوس , خیوس , کریٹ , روڈس , سسلی , جربہ , لیکیا , ازمیر , ارواد کو فتح کر کے قسطنطنیہ (استنبول) پر حملہ کیا ۔ فارس خراسان (ایران) کی فتوحات میں ۔ افغانستان , پشاور , خیبر پختونخوا (سرحد) بلوچستان , ازبکستان , ترکمنستان , تاجکستان , اور امو دریا کو پار کر کے اسلام کو چین کی سرحد تک پھیلا دیا ۔ اس کے علاوہ 1750 میں کشتیاں بنا کر مسلمانوں کو تبلیغ کےلیے روانہ کیا ۔ جن میں سے بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انڈونیشیا گئے جس سے آج وہ پورا ملک مسلمان ہے اور انہی کے دور خلافت میں برما اور ملائیشیا میں بھی اسلام پہنچا اور کشتیوں کے ذریعے سے ہی براعظم افریقہ کے اردگرد کے علاقوں میں اسلام پہنچا جسکا سہرا بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سر سجتا ہے ۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ)(المعجم البلدان)(اٹلس فتوحات اسلامیہ)(فتوح البلدان بلازری)(تاریخ اسلام ندوی)(تاریخ خلفاء)(اردو سیرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)
مذکورہ بالا مختصر تعارف سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف اِن کفار کی نسلیں آج تک کیوں برسرِ پیکار ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بے جا بھونڈے الزامات لگا کر اور اعتراضات کر کے کیوں بدنام کرتے ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اپنے بڑوں کی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں اس لیے اہلِ اسلام ان نسلوں کی غلاظت و فتنہ پردازی سے ہوشیار رہیں آٸیے اب اعتراضات کا جاٸزہ لیتے ہیں :⬇
رافضی اور اُن کے ہمنوا سنیوں میں چھپے رافضی اعتراض کرتے ہوۓ یہ دلیل دیتے ہیں : حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّة عَمْروِ بْنِ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّی یُحَدِّثُ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَخَذَ الْإِدَاوَۃَ بَعْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَیَتْبَعُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَا، وَاشْتَکٰی أَبُوہُرَیْرَۃَ فَبَیْنَا ہُوَ یُوَضِّیئُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ: ((یَا مُعَاوِیَۃُ! إِنْ وُلِّیتَ أَمْرًا فَاتَّقِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْدِلْ۔)) قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّی مُبْتَلًی بِعَمَلٍ لِقَوْلِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتَّی ابْتُلِیتُ ۔
ترجمہ : ابو امیہ عمرو بن یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : میں نے اپنے دادا سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار پڑ گئے تھے اوران کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے وضو کا برتن سنبھال لیا اور وہ برتن لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہنے لگے، ایک دن وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کرا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دو دفعہ اپنا سرمبارک ان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: معاویہ! اگر تجھے حکومت ملے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور عدل کا دامن تھامے رکھنا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ مجھے حکومت کے معاملے میں آزمایا جائے گا، بالآخر یہی ہوا ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۵۷/12411)
رافضی اور اُن کے ہمنوا سنیوں میں چھپے رافضی اس حدیث سے غلط استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کے اندر عدل اور تقوی کا فقدان تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یہ وصیت کی تھی ۔
اولا : اس روایت کی سند ضعیف ہے ۔ علامہ شعیب ارناؤوط بھی اس کو منقطع کہتے ہیں اور علت يه بيان كرتے ہینکہ عمرو کے دادا سعید کا معاویہ سے سماع ثابت نہیں ہے ۔
ثانیاً : رافضیوں اور اُن کے ہمنوا سنیوں میں چھپے رافضیوں کا یہ طفلانہ استدلال لائق تعجب ہے حالانکہ کسی کو وصیت کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے ہے کہ کہ صرف اس کو تلقین کرنا ان کاموں کو مزید مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے۔ قرآن میں اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا ہے : يا ايها النبي اتق الله ولا تطع الكافرين والمنافقين ۔
ترجمہ : اے (غیب جاننے والے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تقوی اختیار کریں کریں اور کافروں اور منافقوں کا کبھی کہنا نہ مانیں ۔
معاذاللہ کیا اب کوئی کہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر تقوی نہیں تھی تبھی اللہ نے انہیں تقوی کا حکم دیا ہے؟
اسی طرح اہل ایمان کو بھی کہا گیا ہے ۔ يا ايها الذين امنوا اتقوا الله ۔ اے اہل ایمان تم اللہ کی تقوی اختیار کرو ۔
کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے اس ٹائم جب یہ آیت نازل ہوئی ، اہلِ ایمان صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے دلوں میں تقوی نہیں تھا ؟
اس وجہ سے اللہ نے انہیں تقوی اختیار کرنے کا حکم ہے ؟
ہر گز نہیں کہ سکتا یہاں صرف تلقین کرنا اور تقوی پے مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم ہے اسی طرح طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا ہے ۔
یاد رہے اس طرح کی وصیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تمام تر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کو کی تھیں اس کےلیے احادیث میں سینکڑوں مثال موجود ہیں بلکہ آپ آخری اکثر خطبوں میں فرمایا کرتے تھے (اوصيكم بتقوى الله) میں تم سب کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں ہو ۔
ثالثاً : اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو حقیقت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر دلیل ہے کیوں کہ کہ اس طرح کی مبارک نصیحت و وصیت عموماً خیرخواہی کی نیت سے اپنے پیاروں کو ہی کی جاتی ہے ۔ جیسا کہ کہ قرآن مقدس کے اندر یعقوب علیہ السلام کی وصیت اپنے بیٹوں کےلیے موجود ہے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عدل اور فیصلے انتہائی عادلانہ اور معیاری ہوتے تھے جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے : قال سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه : " ما رأيتُ أحدًا بعد عثمان أقضى بحق من صاحب هذا الباب " يعني معاوية ۔
ترجمہ : حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو معاویہ سے زیادہ حق والا فیصلہ کر سکتا ہو ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 306،چشتی)(ذکرہ ابن عساکر رحمہ اللہ فی تاریخہ بسندہ الی اللیث جلد 59 صفحہ 161)
سند کے رواۃ پر کلام : ⬇
(1) لیث بن سعد : قال عنہ الحافظ ثقۃ ثبت امام مشہور ۔ (التقریب ت5684 ص519)
(2) بکیر بن عبد اللہ بن الاشج : قال عنہ الحافظ : ثقۃ ۔ (التقریب ت760 ص 102)
(3) بسر بن سعید : قال الحافظ : ثقۃ جلیل ۔ (التقریب ت666 ص96)
نوٹ : اس قول کے اندر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت بیان ہوئی کیوں کہ حق پرستی کے حوالے سے ان کے فیصلے ان کی فضیلت پر واضح دلیل ہیں اور یہ گواہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے اور جنتی صحابی حضرت سعد رضی اللہ عنہ دے رہے ہیں ۔
دوسرے اعتراض کا جواب : ⬇
رافضی اور سنیوں میں چھپے رافضیوں کی دلیل ہے : حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَةِ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَائَهُ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَی مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَی خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَائٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَهَا وَتَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِکَتِي ثُمَّ تَنْکَشِفُ وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَی إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَنْشُدُکَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْوَی إِلَی أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ وَقَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيمًا قَالَ فَسَکَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ ۔
ترجمہ : زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق ، زہیر، جریر، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبداللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منادی نے آواز دی الصلوة جامعة (یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے) تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بے شک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبداللہ کے قریب ہو گیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے تو عبداللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا تو میں نے ان سے کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بے شک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے راوی نے کہا عبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو ۔ (صحیح مسلم باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلفاء،چشتی)
اس الزام کی حقیقت کیا ہے ؟ آئیے دیکھتے ہیں : ⬇
اس حدیث میں جو شخص سوال کر رہا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یعنی عبدالرحمان بن عبدربہ وہ سیدنا معاویہ رضی الله عنه کا سیاسی حریف تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حامی تھا اور کوفی کا رہنے والا تھا ، ظاہر ہے اس دور میں امت مسلمہ سیاسی طور پر تقسیم ہوچکی تھی اور مسلمانوں کے دو بڑے گروہ بن چکے تھے، جو قصاص عثمان کے مسئلہ پر ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھتے تھے اور مسلمان دشمنان اسلام یعنی سبائی گروہ، قاتلین عثمان کی سازشوں اور کاوشوں کا شکار ہوکر آپس میں جنگیں بھی لڑ چکے تھے ، ایسے حالات میں عبدالرحمان بن عبدربہ جو کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مخالف تھا اور وہ اس موقعہ پر جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے ، کھل کر تنقید بھی کر رہا ہے، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مخالف آدمی تھا، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی سللہ عنہ اسے حکم دیں کہ لوگوں کا مال ناحق کھاؤ، یا انہیں کہیں کہ ناحق قتل بھی کرو۔۔؟؟ ظاہر ہے کہ معاویہ رضی اللہ نے کسی کو قتل کروانا تھا تو اپنے حامیوں کو حکم دیں گے یا پھر اپنے مخالف کو؟ اس لئے عبدالرحمان بن عبدربہ کے یہ الفاظ حضرت امیر معاویہؓ پر بے جا تنقید ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
محترم قارئینِ کرام : جب یہ شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سیاسی نظریے کو نہیں مانتا تھا اس لیے روایت کے بارے علماء اہل سنت یہی مؤقف رکھتے ہینکہ عبدالرحمان بن عبدربہ کے الفاظ اصل میں ظاہری معنی کے ساتھ عمومی حالت میں تسلیم کرنا درست نہیں بلکہ مقصدتھا جو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ سے تھے وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائی میں جو قتل ہورہے ہیں وہ ناحق قتل ہورہے ہیں اور جو مال خرچ ہو رہا ہے وہ ناحق خرچ ہو رہا ہے، اور اس نقصان کی ذمہ داری حضرت امیر معاویہ رضی اللہ پر ہے بلکہ آج بھی رافضیوں اور نیم رافضیوں کا یہی نظریہ ہے ۔
جیساکہ امام نووی علیہ الرحمہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : فاعتقد هذا القائل هذا الوصف في معاوية لمنازعته عليا رضي الله عنه ، وكانت قد سبقت بيعة علي فرأى هذا أن نفقة معاوية على أجناده وأتباعه في حرب علي ومنازعته ومقاتلته إياه ، من أكل المال بالباطل ، ومن قتل النفس ، لأنه قتال بغير حق ، فلا يستحق أحد مالا في مقاتلته .
ترجمہ : (عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے جو اعتراض کیا اس کا پس منظر یہ تھا کہ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پہ مسلمانوں نے بیعت کر لی تھی (بیعت کے بعد خلیفہ کی اطاعت کرنےکا حکم ہے اور اس کی نافرمانی سے رکنے کاحکم ہے) تو معاویہ رضی اللہ عنہ جو اپنے لشکروں پر جو مال خرچ کررہے ہیں اور جو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی میں مارے جارہے ہیں یہ تو گویاکہ یہ ناحق ہے تو اس تناظر میں عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے یہ بات کی تھی کہ یہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت ہے جو درست نہیں ہے،حق نہیں ہے ناحق ہے،یہ ان کا موقف تھا ۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس جنگ کے معاملے میں مخالفت کرتے تھے ۔ مسند احمد کی کچھ احادیث کے مطابق سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما نے تو دورانِ جنگ ہی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہہ دیا تھا کہ میں آپ کے ساتھ تو ہوں لیکن آپ کےساتھ مل کر لڑائی نہیں کر رہا،آپ لوگ غلطی پر ہو۔ اس لیے انہوں نے رد نہیں کیا ۔
نوٹ : اس جنگ کے حوالے سے اہلسنت کا مٶقف واضح ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی اجتھادی خطاء پر تھے اسی وجہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اس مسئلہ میں حق پر قرار دیا تھا ، تو لہٰذا اس جنگ کے تناظر میں راوی کا یہ تبصرہ مردود سمجھا جائے گا ۔
اھم ترین وضاحت : یاد رکھیں راوی کا یہ تبصرہ صرف جنگی معاملات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عمومی حالات پر نہیں ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بادشاہت کو رحمت کہا اور تعریف کی تو نیم روافض اس پر تنقید کرنے والے کون ہو سکتے ہیں ؟
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت رحمت اور ممدوح ہے ۔ ہم یہاں اس حوالے سے حدیثِ مبارکہ پیشِ خدمت ہے : قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم : أول هذا الأمر نبوة ورحمة ثم يكون خلافة ورحمة ثم يكون ملكا ورحمۃ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (اس امت میں اقتدار سنبھالنے کا آغاز) نبوت اور رحمت کے ساتھ ہو گا اس کے بعد خلافت اور رحمت کا دور شروع ہو گا ۔ اس کے بعد بادشاہت اور رحمت کا دور آئے گا ۔ (المعجم الکبیر طبرانی جلد 11 صفحہ 88،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا : بے شک تم نبوت ورحمت کے زمانہ میں ہو۔اورعنقریب خلافت ورحمت کازمانہ آئے گا۔پھراس کے رحمت بھری خلافت آئے گی ۔ (المجم الاوسط للطبرانی جلد 6 حدیث 6581)
چونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت رحمت والی ہونے کے باوجود خلافتِ راشدہ سے کم درجہ کی تھی اسی لیے اس کو الگ سے ذکر فرمایا ۔ اسی سے علماء حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کوخلافت عادلہ سے تعبیرفرماتے ہیں ۔
امام طبرانی بلاتفاق ثقہ امام محمدبن جعفربن اعین :
قال ابن یونس کان ثقہ (تاریخ ابن یونس ج2ص196)
ابوبکربن ابی شیبہ ; نامورثقہ امام ۔ الامام العلم سیدالحفاظ صاحب الکتب الکبار ۔ (سیراعلام النبلاء 11/1122)
زیدبن حباب : کوفی تابعی ثقہ ۔ (تاریخ الثقات للعجلی 1/171)
العلاء بن المنھال : قال ابوزرعہ ۔ ثقہ ۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 6/361)
مھند القیسی : کوفی ثقہ ۔ (تاریخ الثقات للعجلی 1/442)
قیس بن مسلم : قال ابن معین ۔ ثقہ ۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 7/104)
طارق بن شھاب : ۔ ثقہ ۔ وقدرای النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (تاریخ الثقات للعجلی 1/233)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ صحابی ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أول هذا الأمر نبوة ورحمة، ثم يكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة، ثم يكون إمارة ورحمة، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمر فعليكم بالجهاد، وإن أفضل جهادكم الرباط، وإن أفضل رباطكم عسقلان ۔
ترجمہ : سب سے پہلے نبوت و رحمت ہوگی ، پھر خلافت و رحمت ہوگی ، پھر بادشاہت و رحمت ہو گی ، اور پھر امارت و رحمت ہوگی اور اس کے بعد لوگ اس حکومت کو حاصل کرنے کےلیے ایک دوسرے کو گدھے کی طرح کاٹیں گے ۔ اس دور میں تم جہاد کو لازم پکڑنا ، اور تمہارا افضل جہاد الرباط (یعنی سرحدوں کی حفاظت) ہے اور افضل رباط عسقلان شہر کا رباط ہے ۔ (المعجم الكبير الطبرانی : 11138،چشتی)(مجمع الزوائد: 8964)(الدر المنثور في التفسير بالمأثور سورۃ آل عمران:200)
قال الہیثمی رواہ الطبرانی ورجالہ الثقات ۔ (مجمع الزوائد5/190)
امام طبرانی : بالاتفاق ثقہ امام
احمد بن النضر العسکری :
قال الخطیب ؛ کان من ثقات الناس
(تاریخ بغداد6/413)
سعید بن حفص النفیلی : وثقہ ابن حبان
(تاریخ اسلام ذہبی 5/826)
موسی بن اعین : قال ابوحاتم وابوزرعہ
ثقہ ۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 8/138)
ابن شھاب الزہری : ثقہ امام ۔
فطربن خلیفہ : قال احمد ۔ ثقہ صالح الحدیث ۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 7/90)
امام مجاہد : مکی تابعی ثقہ ۔ (تاریخ الثقات للعجلی 1/420)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۔ جلیل القدر صحابی ۔
عظمت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ : ⬇
عن ابن عمر رضی اللہ عنھماقال ما رایت احدا کان اسود من معاویہ بن ابی سفیان قال قلت ولا عمر قال کان عمر خیرا من معاویہ وکان معاویہ رضی اللہ عنہ اسود منہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا سردار کوئی نہیں دیکھا ۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی ١/حدیث 544،چشتی)(کتاب الاحاد والمثانی 1/516)(کتاب السنہ للخلال 2/680)(شرح اصول اعتقاد اھل السنہ 8/2781)(معجم کبیر طبرانی 12 /13432)
1:ابو بکر الخرائطی :وکان من الاعیان الثقات
(تاریخ 7/539)
2:ابراھیم بن الجنید:وثقہ ابو بکر الخطیب
(تاریخ ذہبی 4/267 )
3:ھشیم:ثقہ وکان یدلس
(العجلی 2/334)
4:اسحاق بن ابراھیم:قال ابن معین ثقہ
( تاریخ ذہبی 5/792)
5:عوام بن حوشب :قال احمدثقہ ثقہ
(تاریخ ذہبی 3/947)
6:جبلہ بن سحیم ۔ کوفی تابعی ثقہ ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ کاعلاج : ⬇
ابراہیم بن میسرہ کہتے ہیں : میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو کبھی کسی کو مارتے نہیں دیکھا سوائے اس شخص کے جس نے سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہا ۔ آپ نے اس کے تین کوڑے لگائے ۔ (طبقات ابن سعد5/384)
ابن سعد:بالاتفاق ثقہ امام۔احمدبن محمدبن ولیدالازرقی المکی:وثقہ ابوحاتم وغیرہ(تاریخ اسلام للذہبی 5/261)
محمدبن دینار:قال ابوزرعہ صدوق (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 7/250)
محمدبن مسلم الطائفی:
1:قال ابن معین ثقہ (تاریخ ابن معین بروایت الدارمی 1/197)
2:قال علی ابن المدینی :کان صالحاوسطا (سوالات ابن ابی شیبہ لابن المدینی 1/136)
3:قال العجلی:ثقہ (تاریخ الثقات للعجلی رقم 1503 )
4:قال ابوداود:لیس بہ باس (تہذیب الکمال 26/415)
5:قال ابن عدی:صالح الحدیث لاباس بہ(الکامل لابن عدی7/296)
6:ذکرہ ابن حبان فی الثقات ۔ (کتاب الثقات7/399)
7:قال یعقوب بن سفیان : ثقہ لاباس بہ (تہذیب التہذیب 9/445)
8:ذکرہ الذہبی ۔ فی من تکلم فیہ وھوموثق(1/169)
9:قال الحاکم:عن حدیثہ ۔ ھذاحدیث صحیح الاسناد( المستدرک رقم:٣٣١٨)
10:قال ابن عبدالبر:ثقہ (الاستذکار 8/594،چشتی)
ابراہیم بن میسرہ:قال ابن معین : ثقہ ۔ (تاریخ ابن معین بروایت الدارمی 1/65،چشتی)(تاریخ ذہبی 1/265)
صحیح بخاری و صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ میری امت میں 12 خلیفہ ہوں گے ، سب قریش سے ہوں گے ۔ (صحیح بخاری ؛ 7222)(صحیح مسلم؛ 4709)
جو لوگ 30 سال خلافت والی روایت پیش کر کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کرنا چاہتے ہیں اور اس دور کو ظالمانہ قرار دینا چاہتے ہیں ، وہ ذرا بتائیں کہ 30 سال تک 4 یا 5 خلفاء ہوئے ، باقی 7 یا 8 خلفاء کب اور کیسے ہوں گے ؟
عقل کے اندھو اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اولاد سے عمر بن عبد العزيز رضی اللہ عنہ حکومت کریں تو اسے خلافت راشدہ کہتے ہو ، کس منہ سے ؟
حالانکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی؛ 11138، بسند حسن) جو اوپر گزر چکی ہے ۔ پھر 12 خلفاء والی حدیث بھی مانتے ہو، کس منہ سے ؟ ۔ امام مہدی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بھی قائل ہو ، کس منہ سے ؟
سنیوں کے لبادے میں چھپ کر اعتراض کرنے والو تم اہل سنت نہیں ، رافضی ہو رافضی ۔ ہاں جس شخص کو فقیر کی تحریر کا رد کرنا ہے وہ دلاٸل سے جواب دے تاکہ بات واضح ہو جائے شکریہ ۔
مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس امت میں اقتدار سنبھالنے کا جو معاملہ ہے اس کا پہلا دور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور ہے جسے نبوت اور رحمت والا دور کہا گیا اس کے بعد جو دور شروع ہو گا وہ خلافت اور رحمت والا دور ہوگا ۔ یہ خلفاءِ راشدین کا تیس سالہ دور ہے نیز حدیث کے اس جملہ سے چاروں خلفاءِ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت بر حق ثابت ہوئی ۔ اس حدیث میں خلافت والے دور کے بعد جس دور کا تذکرہ ہے اس کو بادشاہت اور رحمت والا دور کہا گیا اور اس سے مراد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور ہے اس حدیث کے ٹکڑے نے ثابت کر دیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بادشاہت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں رحمت والی بادشاہت ہے اور محمود و تعریف شدہ ہے ۔ الحمدللہ یہ حدیث لمحہ فکریہ ہے ان افراد کےلیے جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی بادشاہت پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اندر راوی کی طرف الزام کردہ چیزیں ہوتی تو جنتی شہزادے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور دیگر کبار صحابہ رضی اللہ عنہم ان کی بیعت کبھی نہ کرتے اور کبھی ان کے سامنے اس حق کہنے سے نہ رکتے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment