قرآن موضوع : سورہ اعراف آیت نمبر 188 حصّہ چہارم
مفتی محمد شفیع دیوبندی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اس کا اعلان کردیں کہ میں اپنے نفس کےلیے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ، دوسروں کے نفع نقصان کا تو کیا ذکر ہے ۔ اسی طرح یہ بھی اعلان کردیں کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں کہ ہر چیز کا علم ہونا میرے لیے ضروری ہو، اور اگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا۔ اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا۔ اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی رہتا اور کبھی کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں، بہت سے کام ایسے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو حاصل کرنا چاہا مگر حاصل نہیں ہوئے اور بہت سی تکلیفیں اور مضرتیں ایسی ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچنے کا ارادہ کیا مگر وہ مضرت و تکلیف پہنچ گئی ۔ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر آپ صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرہ کا ارادہ کرکے حدود حرم تک پہنچ گئے مگر حرم میں داخلہ اور عمرہ کی ادائیگی اس وقت نہ ہوسکی سب کو احرام کھول کر واپس ہونا پڑا ۔ اسی طرح غزوہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زخم پہنچا اور مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی ، اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں معروف و مشہور ہیں ۔ اور شاید ایسے واقعات کے ظاہر کرنے کا مقصد ہی یہ ہو کہ لوگوں پر عملاً یہ بات واضح کردی جائے کہ انبیاء علیہم السلام اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول اور افضل خلائق ہیں مگر پھر بھی وہ خدائی علم وقدرت کے مالک نہیں تاکہ لوگ اس غلط فہمی کے شکار نہ ہوجائیں جس میں عیسائی اور نصرانی مبتلا ہو گئے کہ اپنے رسول کو خدائی صفات کا مالک سمجھ بیٹھے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ اس آیت نے بھی یہ واضح کردیا کہ انبیاء علیہم السلام نہ قادر مطلق ہوتے ہیں نہ عالم الغیب بلکہ ان کو علم و قدرت کا اتنا ہی حصہ حاصل ہوتا ہے جتنا من جانب اللہ ان کو دے دیا جائے ۔ ہاں اس میں شک و شبہ نہیں کہ جو حصہ علم کا ان کو عطا ہوتا ہے وہ ساری مخلوقات سے بڑھا ہوا ہوتا ہے خصوصاً ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اولین و آخرین کا علم عطا فرمایا گیا تھا۔ یعنی تمام انبیاء علیہم السلام کو جتنا علم دیا گیا تھا وہ سب اور اس سے بھی زیادہ آپ کو عطا فرمایا گیا تھا۔ اور اسی عطا شدہ علم کے مطابق آپ نے ہزاروں غیب کی باتوں کی خبریں دیں جن کی سچائی کا ہر عام و خاص نے مشاہدہ کیا ۔ اس کی وجہ سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہزاروں لاکھوں غیب کی چیزوں کا علم عطا کیا گیا تھا ، مگر اس کو اصطلاح قرآن میں علم غیب نہیں کہ سکتے ہیں اور اس کی وجہ سے رسول کو عالم الغیب نہیں کہا جا سکتا ۔ (معارف القرآن ج 4، ص 147 ۔ 148، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی، 1993 ء)
اس کی مزید وضاحت اس تفسیر سے ہوتی ہے جو علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی متوفی 1369 ھ نے النمل : 65 میں سپرد قلم کی ہے : ہاں بعض بندوں کو بعض غیوب پر باختیار خود مطلع کردیتا ہے جس کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو حق تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرمایا یا غیب کی خبر دے دی ، لیکن اتنی بات کی وجہ سے قرآن وسنت نے کسی جگہ ایسے شخص پر عالم الغیب یا فالن یعلم الغیب کا اطلاق نہیں کیا ۔ بلکہ احادیث میں اس پر انکار کیا گیا ہے کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اختصاص علم الغیب بذات الباری کے خلاف موہم ہوتے ہیں ، اس لیے علماء محققین اجازت نہیں دیتے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بندہ پر اطلاق کیے جائیں۔ گو لغۃً صحیح ہوں (الی قولہ) واضح رہے کہ علم غیب سے ہماری مراد محض ، ظنون و تخمینات نہیں اور نہ وہ علم جو قرائن و دلائل سے حاصل کیا جائے بلکہ جس کےلیے کوئی دلیل و قرینہ نہ ہو وہ ماد ہے ۔ اور الاعراف : 188 کی تفسیر کے آخر میں لکھتے ہیں : بہرحال اس آیت میں کھول کر بتلا دیا کہ اختیار مستقل یا علم محیط نبوت کے لوازم میں سے نہیں جیسا کہ بعض جہلاء سمجھتے ہیں ۔ ہاں شرعیات کا علم جو انبیاء علیہم السلام کے منصب سے منتعلق ہے کامل ہونا چاہیے ، اور تکوینات کا علم خدا تعالیٰ جس کو جس قدر مناسب جانے عطا فرماتا ہے ۔ اس نوع میں ہمارے حضور تمام اولین و آخرین سے فائق ہیں ۔ آپ کو اتنے بیشمار علوم و معارف حق تعالیٰ نے مرحمت فرمائے ہیں جن کا احساء کسی مخلوق کی طاقت میں نہیں ۔
ہمارے نزدیک بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باوجود عالم ماکان و مایکون ہونے کے عالم الغیب کہنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح مطلقاً یوں نہیں کہنا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیب جانتے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب کا علم دیا گیا یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب پر مطلع کیا گیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب کہنے اور آپ کی طرف علم غیب کی نسبت کرنے میں اعلی حضرت کا نظریہ : ⬇
اعلی حضرت امام احمد رضا متوفی 1340 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : علم غیب عطا ہونا اور لفظ عالم الغیب کا اطلاق اور بعض اجلہ اکابر کے کلام میں اگرچہ بندہ مومن کی نسبت صریح لفظ یعلم الغیب وارد ہے کما فی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح للملا علی القاری بلکہ خود حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) میں سیدنا خضر علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے کان یعلم علم الغیب مگر ہماری تحقیق میں لفظ عالم الغیب کا اطلاق حضرت عزت عز جلالہ کے ساتھ خاص ہے کہ اس سے عرفاً علم بالذات متبادر ہے ۔ کشاف میں ہے المراد بہ الخفی الذی لاینفذ فیہ ابتداء الا علم اللطیف الخبیر و لہذا لا یجوز ان یطلق فیقال فلان یعلم الغیب (غیب سے مراد وہ پوشیدہ چیز ہے جس میں ابتدا صرف اللہ تعالیٰ کا علم نافذ ہوتا ہے۔ اس لیے مطلقاً یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ فلاں شخص غیب کو جانتا ہے) ۔ اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قطعاً بیشمار غیوب و ماکان ومایکون کے عالم ہیں مگر الم الغیب صرف اللہ عزوجل کو کہا جائے گا ، جس طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قطعاً عزت و جلالت والے ہیں تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل نہ ہے نہ ہوسکتا ہے مگر محمد عزوجل کہنا جائز نہیں بلکہ اللہ عزوجل و محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ غرض صدق و صورت معنی کو جواز اطلاق لفظ لازم نہیں نہ منع اطلاق لفظ کو نفی صحت معنی ، امام ابن المنیر اسکندری کتاب الانتصاف میں فرماتے ہیں کم من معتقد لایطلق القول بہ خشیۃ ایھام غیرہ مما لا یجوز اعتقادہ فلا ربط بین الاعتقاد و الاطلاق (کتنے عقائد ایسے ہیں جن کا مطلقاً قول نہیں کیا جاتا ۔ مبادا ان کے غیر کا وہم کیا جائے جن کا اعتقاد جائز نہیں ہے ، اس لیے کسی چیز کا اعتقاد رکھنے اور اس کا اطلاق کرنے میں کوئی تلازم نہیں ہے) یہ سب اس صورت میں ہے کہ مقید بقید اطلاق اطلاق کیا جائے یا بلا قید علی الاطلاق مثلا عالم الغیب یا عالم الغیب علی الاطلاق اور اگر ایسا نہ ہو بلکہ بالواسطہ یا باالعطا کی تصریح کردی جائے تو وہ محذور نہیں کہ ایمان زائل اور مراد حاصل ۔ علامہ سید شریف قدس سرہ حواشی کشاف میں فرماتے ہیں وانما لم یجز الاطلاق فی غیر تعالیٰ لانہ یتبادر منہ تعلق علم بہ ابتداء فیکون منا قضا واما اذا قید وقیل اعلمہ اللہ تعالیٰ الغیب او اطلعہ علیہ فلا محذور فیہ (اللہ تعالیٰ کے غیر کے لیے علم غیب کا اطلاق کرنا اس لیے جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے متبادر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ علم کا تعلق ابتداءً ہے، تو یہ قرآن مجید کے خلاف ہوجائے گا لیکن جب اس کو مقید کیا جائے اور یوں کہا جائے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے غیب کی خبر دی ہے یا اس کو غیب پر مطلع فرمایا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے) ۔ (فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 81 مطبوعہ دار العلوم امجدیہ، کراچی)
نیز اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : علم مافی الغد (کل کا علم) کے بارے میں ام المومنین کا قول ہے کہ جو یہ کہے کہ حضور کو علم مافی الغد تھا (کل کا علم تھا) وہ جھوٹا ہے ۔ اس سے مطلق علم کا انکار نکالنا محض جہالت ہے علم جب کہ مطلق بولاجائے خصوصاً جب کہ غیب کی خبر کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے ۔ اس کی تصریح حاشیہ کشاف پر میر سید شریف علیہ الرحمہ نے کردی ہے اور یہ یقیناً حق ہے کہ کوئی شخص کسی مخلوق کے لیے ایک ذرہ کا بھی علم ذاتی مانے یقیناً کافر ہے ۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 34 مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)
اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اور شیخ شبیر احمد عثمانی دیوبندی دونوں نے ہی یہ تصریح کی ہے کہ علومِ اولین و آخرین کے حامل ہونے اور بکثرت غیوب پر مطلع ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب کہنا اور آپ کی طرف علم غیب کی نسبت کرنا ہرچند کہ ازروئے لغت اور معنی صحیح ہے لیکن اصطلاحاً صحیح نہیں ہے ۔
علم غیب عطا ہو کر بھی غیب ہی کہلاتا ہے اور عقیدہ علمِ غیب
محترم قارئینِ کرام : علم غیب عطا ہو کر بھی غیب ہی کہلاتا ہے کیونکہ قرآن حکیم کے مطابق ﷲ تعالیٰ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات کی خبر دی تو اس باب میں ارشاد فرمایا : ذَلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۔ (سورہ يوسف آیت نمبر 102)
ترجمہ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ۔
اس سے ثابت ہوا کہ علم غیب وحی کے ذریعے عطا ہونے کے بعد بھی قرآنی اصطلاح میں ’’غیب‘‘ ہی کہلاتا ہے ۔
ذٰلِکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو واقعات ذکر کئے گئے یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو کہ وحی نازل ہونے سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معلوم نہ تھیں کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں میں ڈالنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا ا ور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں سازش کر رہے تھے ، اس کے باوجود اے اَنبیاء علیہم السّلام کے سردار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجزہ ہے ۔ (تفسیر خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۳/۴۷-۴۸،چشتی)، (تفسیر مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۵۴۶-۵۴۷)
مکتبہ فکر دیوبند کے مفتی اعظم جناب مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں : جنابِ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم غیب کے متعلق یوں نہ کہا جائے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غیب نہیں جانتے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ نے علوم غیب کا بہت بڑا علم دیا تھا ۔ (تفسیر معارف القرآن جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 796 مطبوعہ مکتبۃ المعارف کراچی)
جمہور مفسرین کرام علیہم الرّحمہ کے نزدیک غیب وہ ہے جو حِس سے چھپا ہوا ہو ۔ (تفسیر کبیر،جلد اول ،صفحہ نمبر ۲۷۳)
یعنی آنکھ ، ناک،کان وغیرہ جو علم حاصل کرنے کے ذرائع ہیں ، اُن سے جو معلوم نہ کیا جا سکے وہ غیب ہے ۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ غیب وہ چیز ہے جسے کوئی بھی انسان اپنی عقل اور سوچ وفکر کے ذریعے خود سے حاصل نہ کر سکے ۔ واضح رہے کہ یہ تعریف انسان کے لحاظ سے ہے ، نہ کہ اللہ عزّ و جل کے لحاظ سے ۔ کیو نکہ ربِّ قدیر کے نزدیک تو دنیا کی کوئی چیزپو شیدہ ہی نہیں ، بلکہ ہر چیز اس کے نزدیک خوب روشن وظا ہر ہے ۔
منکرینِ علم غیبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کہتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بتا ہی دیا تو پھر وہ علم غیب کہاں رہا ؟
جواب : وہ غیب ہی رہا ، کیو نکہ خود اللہ تعالیٰ نے اُسے غیب ہی قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے : وما ھو علی الغیب بضنین ۔
ترجمہ : اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) غیب کی بات بتانے پر بخیل (کنجوس) نہیں ۔ (سورہ تکویر،آیت:۲۴)
پھر یہ کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی یہ کہنا درست نہ ہو کہ اللہ غیب جانتا ہے کیو نکہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز غیب ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں نہایت روشن اور ظاہر ہیں ۔
منکرین کہتے ہیں : پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو “عالم الغیب”کہنا صحیح ہو نا چا ہئے ؟
جواب : نہیں،کیو نکہ ”عالم الغیب” کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے ۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو “عالِمِ غیب ” عالمِ ما کان و ما یکون (جو کچھ ہو چکا ، ہوتا ہے اور ہوگا ان سب کا جاننے والا ) اور عالمِ اولین و آخرین کہا جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم مَاکَانَ وَمَایَکُوْن
محترم قارئین کرام : ہمارا عقیدہ ہے کہ جو ہوچکا ہے جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا ہمارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلّم جانتے ہیں آیئے اس پر دلائل کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں :
جو ہوچکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)
مخالفین اہلسنت کے اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کیلئے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اَلرَّحْمٰنُۙ O عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ ، خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ۔ (سورہ رحمٰن)
ترجمہ : اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ (ترجمہ محمد جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)
ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں :
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : انسان کو پیدا کیا ۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ’’انسان‘‘ اور’’ بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے مختلف قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد دو عالَم کے سردار محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَوّلین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبریں دیتے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور بیان سے مراد تمام چیزوں کے اَسماء اور تما م زبانوں کا بیان مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد مراد ہے اور بیان سے مراد گفتگو کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے۔( خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴/۲۰۸، صاوی، الرحمن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۶/۲۲۷۳-۲۲۷۴،چشتی)
مشہور مفسّر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی (معالم التنزیل) صفحہ ١٢٥٧) ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥١٦ھ)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلیﷲعلیہ وسلم صلی اﷲعلیہ وسلم والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣) ابی عبد ﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ ۔ (متوفی ٦٧١ھ)
امام ابن عادل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔
( اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣-٢٩٤)ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٨٨٠ھ،چشتی)
امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨ ، العلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٤٢٧ھ)
اَلرَّحْمٰنُ : رحمن ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جب سورۂ فرقان کی آیت نمبر60 نازل ہوئی جس میں رحمن کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا توکفارِ مکہ نے کہا کہ رحمن کیا ہے ہم نہیں جانتے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃُ الرّحمن نازل فرمائی کہ رحمن جس کا تم انکار کرتے ہو وہی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد (مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے فرمایا کہ رحمن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھایا ۔ (تفسیر خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴/۲۰۸)
اِس معنی کے اعتبار سے ان آیات سے 5 باتیں معلوم ہوئیں
(1) قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا ۔
(2) حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآن سکھایا ۔
(3) مخلوق میں سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کوئی استاد نہیں بلکہ آپ کا علم مخلوق کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے ۔
(4) حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک کے مُتَشابہات کا علم بھی دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سارا قرآن اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھادیا تو اس میں متشابہات کا علم بھی آگیا کہ یہ بھی قرآنِ پاک کا حصہ ہی ہیں ۔
(5) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام اَشیاء کے نام سکھائے،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا‘‘(بقرہ:۳۱)
ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے ۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ بنانا سکھائی ،چنانچہ ارشاد فرمایا :
’’وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ‘‘ ۔(انبیاء:۸۰)
ترجمہ : اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے (جنگی) لباس کی صنعت سکھا دی ۔
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پرندوں کی زبان سکھائی ،جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ‘‘۔(نمل:۱۶۔)
ترجمہ : اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو طب ، تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا، ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ‘‘ ۔ (اٰل عمران:۴۸)
ترجمہ : اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔
حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدُنی عطا فرمایا،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘ ۔ (کہف:۶۵)
ترجمہ : اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا ۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو کچھ سکھایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ : ’’ اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘‘
ترجمہ : رحمن نے ، قرآن سکھایا ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ’’وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ‘‘ ۔ (نمل:۶)
ترجمہ : اور (اے محبوب!) بیشک آپ کو حکمت والے، علم والے کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے ۔
اور ایک جگہ واضح طور پر فرمادیا کہ : ’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمہ : اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاعلم تمام اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے ۔
دیوبندی ، وہابی اور غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیث کے اکابرین نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم غیب عطائی کو بھی شرک قرار دیتے ہیں ۔ علم غیب عطائی ماننے والے کو ابوجہل جیسا مشرک کہتے ہیں ۔
اہلسنّت و جماعت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے اوّلین اور آخرین کے حالات جاننے والا اور غیب کی باتیں بتانے والا کہتے ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ کا قرآن مجید فرقان حمید میں فرمان ہے : وَمَاکَا نَ اللّٰہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجتَبِی مِن رُسُلِہ مَن یَّشَا ئُ ۔ (پارہ 4 رکوع 9 ّ)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کی اے عام لوگوں تمہیں غیب کا علم دے ۔ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ۔
امام سیوطی رحمۃاللہ علیہ کا عقیدہ
اس آیت کے تحت امام اجل جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ معنٰے یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے ۔ پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے ۔ ( تفسیر جلالین صفحہ 66 )
علامہ حقی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ
علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ اِسی آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ پس حقائق اور حالات کے غیب نہیں ظاہر ہوتے بغیر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے واسطہ سے ۔ ( تفسیر روح البیان صفحہ 132 جلد 2 مطبوعہ بیروت )
دوسرے مقام پر اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَعَلَّمَکَ مَا لَم تَکُن تَعلَم وَکَانَ فَضلُ اللّٰہِ عَلَیکَ عَظِیمََا ۔ (پارہ 5 رکوع 14 )
ترجمہ : اور تم کو سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔
امام رازی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ
امام المفسرین فخرالدین امام رازی علیہ الرحمۃ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اَی مِنَالاَحکَامِ وَالغَیبِ ۔ یعنی احکام اور غیب ۔ (تفسیر کبیر مطبوعہ مصر)
امام نسفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ
امام نسفی علیہ الرّحمہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : یعنی شریعت مطہرہ کے احکام اور امور دین سکھائے اور کہاگیا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علم غیب میں وہ باتیں سکھائیں جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ جانتے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چھپی چیزیں سکھائیں اور دلوں کے رازوں پر مطلع فرمایا اور منافقین کے مکر و فریب آپ کو بتادیئے ۔ اُمو ر دین سکھائے ، چھپی ہوئی باتیں اور دلوں کے راز بتائے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 250 مطبوعہ بیروت)
علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ
علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت فرمایا ہے : یہ ماکان وما یکون کا علم ہے کہ حق تعالیٰ نے شب ِ معراج میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمایا چنانچہ حدیث معراج میں ہے کہ ہم عرش کے نیچے تھے ایک قطرہ ہمارے حلق میں ڈالا ، پس ہم نے سارے گزرے ہوئے اور آئندہ ہونے والے واقعات معلوم کرلئے ۔ ( تفسیر حسینی فارسی صفحہ 124،چشتی)
علامہ قاضی ثناء اللّٰہ پانی پتی علیہ الرحمۃکا عقیدہ
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر مظہری میں فرمایا ہے : اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اسرار و مغیبات کے علوم عطا فرمائے ۔ ( تفسیر مظہری )
علامہ جار اللّٰہ محشری علیہ الرّحمہ
علامہ جار اللہ محشری علیہ الرّحمہ نے اپنی تفسیر کشاف میں فرمایا ہے : خفیہ امور لوگوں کو دلوں کے حالات ، امور دین اور احکام شریعت ۔ (تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 563 مطبوعہ بیروت)
علامہ بغوی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ
تفسیر معالم التنزیل میں اُنہیں آیات طیبات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : اللہ تعالیٰ نے انسان یعنی محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پیدا فرمایا اور ان کو بیان یعنی اگلی پچھلی باتوں کا بیان سکھادیا ۔ (تفسیر معالم التنزیل )
عَنْ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ الْاَ نْصَارِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الْفَجْرَ وَصَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّھْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاَخْبَرَنَا بِمَا ھُوَ کَاءنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَ: فَاَعْلَمُنَا اَحْفَظُنَا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات، الحدیث:۵۹۳۶، ج۲،ص۳۹۷،چشتی)(مشکوٰۃ،باب المعجزات،ص۵۴۳)
ترجمہ : حضرت عَمْرو بن اَخْطَب اَنصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن ہم لوگوں کو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ظہر کی نماز تک خطبہ پڑھتے رہے پھر اُترے اور نماز پڑھ کر پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اُترے اور نماز پڑھی پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور سورج ڈوبنے تک خطبہ پڑھتے رہے تو (اس دن بھر کے خطبہ میں ) ہم لوگوں کو حضور نے تمام ان چیزوں اور باتوں کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں تو ہم صحابہ میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جس نے سب سے زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھاہے ۔
حضرت عَمْرو بن اَخْطَب : اِس حدیث کے راوی حضرت عَمْرو بن اَخْطَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔یہ اَنصاری ہیں اور ان کی کنیت ’’اَبو زید‘‘ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی کنیت ان کے نام سے زیادہ مشہور ہے ۔ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت سے غزوات میں شریک ِجہاد رہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ محبت اور پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر دیااور ان کی خوبصورتی کے لیے دعا فرمائیی۔جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی سو برس کی عمر ہوگئی تھی مگر سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے اور آخری عمر تک چہرے کا حسن و جمال باقی رہا ۔ (اکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابۃ، ص۶۰۷، چشتی)
مختصر شرحِ حدیث : یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر سے غروب آفتاب تک بجز ظہر و عصر پڑھنے کے برابر دن بھر خطبہ ہی میں مشغول رہے اور سامعین سُنتے رہے اور اس خطبہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے ہونے والے تمام واقعات تمام چیزوں اور تمام باتوں کی سامعین کو خبر دے دی اور صحابہ میں سے جس نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا اتنا ہی بڑا وہ عالم شمار کیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب اخبارالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶)
یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ہے کہ قیامت تک کے کروڑوں واقعات کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صرف دن بھر کے خطبہ میں بیان فرما دیا۔صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کو خداوند ِعالَم نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ گھوڑے پر زِین کسنے کا حکم دیتے تھے اور ساءیس گھوڑے کی زین باندھ کر درست کر تا تھا اتنی دیر میں آپ ایک ختم ’’زبور شریف ‘‘کی تلاوت کرلیتے تھے (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۴۱۷، ج۲،ص۴۴۷ ، چشتی)
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نبی آخرالزمان جو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے جامع ہیں اگر دن بھر میں قیامت تک کے تمام احوال و واقعات کو بیان فرمادیں تو اس میں کونسا تعجب کا مقام ہے ۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی پڑتی ہے
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خدا وند ِعالِم ُا لْغَیْب و الشَّہادَۃ نے جس طرح بہت سے معجزانہ کمالات سے نوازااور تمام انبیاء اور رسولوں میں آپ کو ممتاز فرماکر’’سید الانبیاء‘‘ اور’’افضل الرسل‘‘بنایا اسی طرح علمی کمالات کا بھی آپ کو وہ کمال بخشا کہ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ یعنی روز ازل سے قیامت تک کے تمام علوم کا خزانہ آپ کے سینہ نبوت میں بھر دیا ۔
مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں دیکھا تو اس نے مجھ سے فرمایا کہ اوپر والی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے؟ تو میں نے عرض کیا کہ یااللہ! عزوجل تو ہی اس کو زیادہ جاننے والا ہے پھر خدا وند ِعالَم نے اپنی (قدرت کی)ہتھیلی کو میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا تو میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں پایا اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب کو میں نے جان لیا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث:۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲،چشتی)،(مشکوٰۃ،باب المساجد،ص۷۰)
اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرمادیا کہ میں تمام دنیاکو اور اس میں قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اسطرح دیکھ رہا ہوں جس طرح میں اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔(شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷)(زرقانی علی المواہب،جلد۷،ص۲۳۴)
جس طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں فرمایا کہ :
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
(القصیدۃ البردۃ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)
ترجمہ : یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم دنیا اور اس کی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپ کی سخاوت کے ثمرات میں سے ہیں اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘ آپ کے علوم کا ایک جزو ہے ۔
تمام ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیے گئے ہیں جس سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا علم غیب واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے ، لیکن دیوبندی ، وہابی غیر مقلد حضرات کے نزدیک یہ عقیدہ کفر و شرک ہے ، جبکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا اور پھر حضرات اہلسنّت و جماعت ہونے کا دعویٰ بھی کریں تو یہ صریحاََ دھوکہ اور فریب ہے لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ یہ اہلسنّت و جماعت نہیں ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment