Friday, 20 October 2023

امت کا اس پر اجماع ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا

امت کا اس پر اجماع ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا

محترم قارئینِ کرام : جہاد اسلام کے فرائض میں نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ کی طرح اسلام کا پانچواں فرض ہے ۔ نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ : الْجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۔ یعنی جہاد جاری رہے گا قیامت تک ۔ (المعجم الأوسط للطبراني  حدیث نمبر 4915)

و عن جابر بن سمرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم : لن يبرح هذا الدين قائما يقاتل عليه عصابة من المسلمين حتى تقوم الساعة ۔ رواه مسلم ۔ (مشكوة المصابيح كتاب الجهاد حدیث نمبر 3801)
ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا ، مسلمانوں کی ایک جماعت اس کی خاطر قیامت تک لڑتی رہے گی ۔

یزید بن ابی نشبہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے ایک روایت مروی ہے ۔ اس روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : والجهاد ماض منذ بعثنی اللہ الی ان یقاتل آخر امتی الدجال ، لا یبطله جورجائز ولا عدل عادل ۔
ترجمہ : جب سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے ، جہاد جاری رہے گا یہاں تک کہ میرا آخری امتی دجال سے جنگ کرے گا ، اسے کسی ظالم (حکمران) کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کرے گا ۔ (سنن ابی داود حدیث نمبر ۲۵۳۲)(سنن سعید بن منصور حدیث نمبر ۲۳۶۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الخیل معقود فی نواصیها الخیر الی یوم القیامة ، الاجر والمغنم ۔
ترجمہ : گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر رکھی گئی ہے ، اجر بھی ہے اور مالِ غنیمت بھی ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب الجھاد ماض مع البر و الفاجر حدیث نمبر ۲۸۵۲،چشتی)(صحیح مسلم ۱۷۳ / ۹۹ دارالسلام حدیث نمبر ۴۸۴۹)

سلمہ بن نفیل الکندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ولایزال من امتی امة یقاتلون علی الحق ۔ حتیٰ تقوم الساعة ۔
ترجمہ : اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا ۔ حتیٰ کہ قیامت برپا ہو جائے گی ۔ (سنن النسائی ۲۱۴/۶، ۲۱۵ ح۳۵۹۱،چشتی)(سنن النسائی ج۲ ص۳۵۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لن یبرح هذا الدین قائما ، یقاتل علیه عصابة من المسلمین حتی تقوم الساعة ۔
ترجمہ : یہ دین (اسلام) ہمیشہ قائم رہے گا ، مسلمانوں کی ایک جماعت دین کےلیے قیامت تک قتال کرتی رہے گی ۔ (صحیح مسلم: ۹۲۲ دارالسلام: ۹۴۵۳)

قرآن و سنّت کی بے شمار نصوص اور اجماع امت جہا د کی فر ضیت کا اعلان کر رہے ہیں ۔ امام ابن ہام حنفی متوفی ۷۶۱ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ولا شك ان اجماع الامة ان الجهاد ماض الی یوم القیامة لم ینسخ ، فلا یتصور نسخه بعد النبی صلی الله علیه وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رے گا ، یہ منسوخ نہیں ہوا ، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے ظاری وصال مبارک) ک بعد اس کی منسوخیت کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ (فتح القدیر جلد ۵ صفحہ ۱۹۰ کتاب السیر)

مشہور جلیل القدر تابعی امام مکحول الشامی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۱۳ھ) فرماتے ہیں :  ان فی الجنة لمائة درجة، مابین الدرجة الی الدرجة کما بین السماء والارض، اعدها الله للمجاهدین فی سبیل الله ۔
ترجمہ : بے شک جنت میں سو درجے ہیں ، ایک درجے سے دوسرے درجے کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے ، انہیں اللہ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے (مجاہدینض کےلیے تیار کر رکھا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۰۴/۵ ح۱۹۳۵۳ و سندہ صحیح)

عصرِ حاضر میں جہادکے موضوع پر کام کرنے والوں میں بہت سے اہل علم نے اس سوال سے صرف نظر کیا ہے اور اس کے بجائے اس امر پر بحث کی ہے کہ کیا اسلام صرف “دفاعی جہاد” کو ہی جائز سمجھتا ہے یا “اقدامی جہاد” بھی اس کے نزدیک جائز ہے ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ فقہاء کے عام طریقے کے مطابق جہاد کے حکم کی “علت” پر بحث کرتے کیونکہ علت کی موجودگی معلول کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے اور علت کی عدم موجودگی میں معلول بھی نہیں پایا جاتا ۔ اگر جہاد کی علت “کفر” ہے ، جیسا کہ بعض فقہاء کا مٶقف تھا ، تو پھر تمام غیر مسلموں کے خلاف جہاد فرض ہوگا ، اور اگر جہاد کی علت “محاربہ” ہے ، جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک تھا ، تو صرف ان لوگوں سے ہی جنگ کی جاسکے گی جو محاربہ کا ارتکاب کرتے ہوں ۔ دونوں صورتوں میں بعض اوقات اقدام ضروری ہو جاتا ہے ۔ اس لیے دفاعی اور اقدامی کی تقسیم مناسب محسوس نہیں ہوتی ۔ پھر بھی ایک مسئلہ ہے کہ اگر جہاد صرف دفاع تک ہی محدود ہو تو دفاع میں کون سی صورتیں آتی ہیں ؟ کیا دفاع سے مراد ریاست کا دفاع ہے یا امت اور دین کا دفاع بھی اس میں شامل ہے ؟ فقیر پہلے فقہاء کے طریقے کے مطابق جہاد کی علت پر بحث کرے گا اور اس کے بعد اس حکم کی وسعت کا جائزہ لے گا ۔

جہاد کی علت : ⬇

جہاد کے حکم کی صحیح نوعیت اور وسعت معلوم کےلیے دفاعی اور اقدامی کی بحث سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ اس حکم کی “علت” اور “غایت” کی تحقیق کی جائے ۔ فقہاء کے ایک گروہ کا موَقف یہ تھا کہ قتال کی علت “کفر” ہے ۔ یہ قول امام شافعی اور بعض ظاہریہ و حنابلہ سے مروی ہے ۔ (مغنی المحتاج الی شرح المنھاج، بیروت مکتبۃ الحلبی 1933ء، جلد 4 صفحہ 223،چشتی)(بدایۃ المجتھد و نھایۃ المقتصد، الریاض مکتبۃ مصطفٰی باز 1995ء جلد 1 صفحہ 371)

اس قول کے بموجب کفر کا وجود جب تک باقی رہے گا قتال جاری رہے گا ۔ تاہم اس قول پر چند قوی اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتا عورتوں ، بچوں اور دیگر مقاتلین کے قتل سے منع فرمایا ۔ اگر قتال کی علت کفر تھی تو اس استثناء کی حیثیت کیا ہو گی ؟ ۔ مزید یہ کہ اگر کفر علت ہو تو جنگ اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک کہ تمام کفار مسلمان نہ ہو جائیں ، یہاں تک کہ ہتھیار ڈالنے والوں کےلیے بھی بس دو ہی راہیں ہوں گی ، اسلام قبول کرلیں ، نہیں تو انہیں قتل کیا جائے گا ۔ اس طرح یہ قول بنیادی قرآنی اصول “لا اکراہ فی الدین” سے متصادم ہو جاتا ہے ۔ نیز اس قول کے بموجب اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی اقامت اور ان سے جزیے کی وصولی بھی ناجائز ہو جاتی ہے ۔ ان قباحتوں کے پیش نظر بعض لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ قتال کی علت “کفر” نہیں بلکہ “شوکتِ کفر” ہے ۔ گویا غیر مسلموں کو ان کے دین پر عمل کی اجازت تو ہو گی مگر انہیں یہ حق نہیں حاصل ہو گا کہ وہ منظم ریاست کی صورت میں رہیں ، اور قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کفر کی شان و شوکت باقی ہے ۔ جب اسلام اور مسلمانوں کی بالادستی قائم ہو جائے تو غیر مسلموں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اسلامی ریاست کے زیر سایہ اپنے مذہب پر عمل کریں ، انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ اس دوسرے قول کےلیے عام طور پر استدلال ان آیات و احادیث سے کیا جاتا ہے جن میں یا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگوں کے خاص پہلو ، عذاب الٰہی ، کا ذکر کیا گیا ہو ، یا جن میں اسلام اور کفر کی مستقل نظریاتی کشمکش کا ذکر ہو ۔ نیز بعض اوقات ان آیات و احادیث سے استدلال جن میں قتال کے فریضے کا مطلقا ذکر آیا ہے ۔ مثلا سورۃ التوبۃ میں حکم ہوا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔
ترجمہ : اے ایما ن والو جہاد کرو ان کافروں سے جو تمہارے قریب ہیں اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے  ۔ (سورۃ التوبۃ آیت نمبر 123)

دوسری طرف وہ آیات ہیں جو قتال کے حکم کو محاربے کے ساتھ مقید کر دیتی ہیں ۔ مثلاً سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔
ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 190)

ایسی صورت میں کہا جاتا ہے کہ سورۃُ التوبۃ کی آیات نے سورۃُ البقرۃ کی آیات کو منسوخ کر دیا ہے ۔ لیکن یہ دلیل انتہائی ضعیف ہے کیونکہ نسخ کی طرف تبھی جایا جاتا ہے جب جمع ممکن نہ ہو ، جبکہ یہاں “حمل المطلق علی القید” کے قاعدے پر جمع ممکن ہے ۔ اور پھر سورۃ البقرۃ کی آیات کس طرح منسوخ ہو سکتی ہیں جبکہ وہ قتال کی علت بیان کر رہی ہیں ؟ ان وجوہات کی بناء پر جمہور فقہاء ، جن میں امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور شافعیہ و حنابلہ علیہم الرحمہ کی اکثریت شامل ہیں ، کی رائے یہ ہے کہ قتال کی علت “کفر” یا “شوکتِ کفر” نہیں بلکہ “محاربہ” ہے ۔ (بدایۃ المجتھد جلد1 صفحہ 371،چشتی)(فتح القدیر جلد 4 صفحہ 291)(المدونۃ الکبری القاہرۃ دارالباز 1323ھ جلد 3 صفحہ 6)(قاعدۃ فی قتال الکفار صفحہ 116)

اگر مان لیا جائے کہ قتال کی علت “کفر” یا “شوکتِ کفر” کا خاتمہ ہے تو پھر اس کا لازمی تقاضہ یہ ہوگا کہ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ مسلسل برسرِ جنگ رہیں گے ، امن کا معاہدہ اول تو کیا نہیں جائے گا ، اور اگر کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت کیا گیا تو وہ بھی موقت ہو گا جس کی حیثیت جنگ بندی کی ہو گی ۔ اس کے برعکس اگر جمہور فقہاء کرام علیہم الرحمہ کی رائے کے مطابق مان لیا جائے کہ قتال کی علت “محاربہ” ہے تو پھر قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مخالفین کی جانب سے محاربہ پایا جائے ۔ جب وہ محاربہ ترک کر کے امن کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہوں تو ان کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی ۔ جمہور کے قول کا لازمی تقاضہ یہ بھی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ امن کا معاہدہ جائز ہو ، چاہے یہ معاہدہ موقت ہو یا وقت کی قید سے آذاد ہو ۔ امام سرخسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : و المقصود ان یامن المسلمون و یتمکنوا من القیام بمصالح دینھم و سنیاھم ۔ (المبسوط کتاب السیر جلد 10 صفحہ 4)
ترجمہ : مقصود یہ ہے کہ مومن امن سے رہیں اور ان کےلیے اپنے دین اور دنیا کے مصالح کا حصول ممکن ہو سکے ۔

جمہور کے مٶقف پر عام طور پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں جہاد کے ہمیشہ جاری رہنے کا اعلان کیا گیا ہے : جہاد جاری ہے جب سے مجھے اللہ نے بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کے آخری لوگ دجال سے جنگ کریں ، اسے ظالم کا ظلم باطل کر سکے گا نا عادل کا عدل ۔ (سنن ابی داوَد، کتاب الجھاد باب فی الغزو مع ائمۃ الجور  رقم الحدیث 2170)

یہ حدیث دیگر کئی آیات و احادیثِ مبارکہ کی طرح جہاد کی فرضیت بیان کر رہی ہے جیسا کہ اوپر فقیر ذکر کر چُکا ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جہاد کی فرضیت تا قیامت قائم رہے گی اور منسوخ نہیں ہو گی ، لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ مسلمان ایک مسلسل جنگ جاری رکھیں ، چاہے کوئی ان سے جنگ کرے یا نہ کرے ، اور چاہے کسی نے محاربے کا ارتکاب کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ بلکہ جب بھی قتال کا سبب پایا جائے گا قتال کیا جائے گامثلاً صلوٰۃ و زکوٰۃ کی فرضیت بھی تا قیامت قائم رہے گی ، مگر اس پر عمل تبھی ہو گا جب فرضیت کا سبب پایا جائے گا ۔ مثلاً نماز ظہر کےلیے زوال شمس ، یا زکوٰۃ کےلیے نصاب کے برابر مال کی ملکیت ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں رسالت کی ابتداء سے “جہاد” کا ذکر ہے ، اور معلوم ہے کہ مکی دور میں جہاد کا لفظ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا تھا ۔ پس حدیث میں اسی وسیع مفہوم میں جہاد کے جاری رہنے کا ذکر ہے ۔ البتہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کی خاص اور اعلٰی قسم ، قتال ، کا سبب ہوگا تو قتال بھی جاری رہے گا ۔ پس قیامت سے کچھ قبل بھی مومن دجال کے خلاف قتال کریں گے ۔ پھر اگر اس حدیث کا یہ مفہوم لیا جائے کہ جہاد بمعنیٰ قتال کی کاروائی تا قیامت بغیر کسی انقطاع کے جاری رہے گی تو اس سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں قتال کے اسباب یعنی محاربے کی مختلف صورتیں قیامت تک موجود رہیں گی اس لیے قتال بھی جاری رہے گا ۔ گویا اس حدیث کی حیثیت پیشنگوئی کی ہو جائیگی ۔ کسی بھی آیت یا حدیث کو اس سے مخصوص سیاق و سباق اور دیگر آیات و احادیث کے ذخیرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ۔

مسلسل جنگ کے نظریے کے اثبات کےلیے بعض اوقات ان احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے جن میں جہاد کی فضیلت ذکر ہوتی ہے اور اس سلسلے میں ان احادیث کے مخصوص موقع و محل اور دیگر آیات و احادیث کے ساتھ ان کے تعلق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ مثلاً عام طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے : الجنۃ تحت ظلال السیوف ۔ جنت تلواروں کی چھاوَں میں ہے ۔ اب ایک تو اس حدیث کا مخصوص موقع و محل ہے ۔ اس بات کی روایت سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے حروریہ کے موقع پر کی اور کہا کہ جب ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگ دشمنوں کے ساتھ ہو رہی تھی تو اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا گویا جنگ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو ترغیب دے رہے تھے اور ان کا حوصلہ ابھار رہے تھے ۔ اگر اس مخصوص موقع و محل کو ایک لمحے کےلیے نظر انداز بھی کیا جائے تو دیکھیے کہ اس حدیث کی ابتداکے الفاظ کیا ہیں ؟ ۔ لا تتمنوا لقاء العدو ، و سلوا اللہ العافیۃ ۔ واذا لقیتموھم فاصبروا ، واعلموا اَن الجنۃ تحت ظلال السیوف ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب لا تتمنوا لقاء العدو رقم الحدیث 2801)
ترجمہ : دشمن سے مد بھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگو ۔ ہاں ، اگر ان سے تمہارا سامنا ہوتو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کی چھاوَں میں ہے ۔

اب اگر حدیث کی ابتداء کو دیکھا جائے تو مسلسل جنگ کے نظریے کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے کیونکہ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کی تمنا کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا ہے ۔ مزید برآں ، اگر ابتدائی جملوں کو بھی نظر انداز کیا جائے اور صرف آخری جملے کو دیکھا جائے تب بھی اس سے مسلسل جنگ کےلیے استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ ۔ اس سے تو صرف جہادکی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، جس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح بعض اوقات سورۃ التوبۃ کی آیت کا یہ ٹکڑا پیش کیا جاتا ہے ہے : فقاتلوا اَئمۃ الکفر ۔ تو کفر کے ان پیشواوَں سے لڑو ۔ اب پہلے تو اس آیت کو پورا نقل کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ایک مخصوص موقع و محل سے متعلق حکم ہے ۔ چنانچہ آیت شروع سے یوں ہے : وَ اِنْ نَّكَثُـوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُـوْۤا اَىٕمَّةَ الْكُفْرِۙ-اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ ۔
ترجمہ : اور اگر عہد کر کے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں تو کفر کے سرغنوں سے لڑو بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں ۔ (سورۃ التوبۃ آیت نمبر 12)

یہاں حکم دیا گیا کہ اگر کفار معاہدہ توڑ دیں اور مسلمانوں کے دین میں طعن و تشنیع کریں تو پھر کوئی عہد باقی نہیں بلکہ اب ان کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہوگا ۔ (تفسیر خازن جلد ۲ صفحہ ۲۲۰)

دین میں طعنہ زنی سے مراد یہ ہے کہ دینِ اسلام کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو دینِ اسلام کے شایانِ شان نہیں یا ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کو ہلکا جان کر اس پر اعتراض کرنا ۔ اسی طرح نماز اور حج پر طعنہ زنی کرنا ، قرآن اور ذکرِ رسول پر طعنہ زنی کرنا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ پاک میں گستاخی کرنا سب اس میں داخل ہے ۔(تفسیر قرطبی جلد ۴ صفہ ۱۷ الجزء الثامن،چشتی)(تفسیر روح المعانی جلد ۵ صفحہ ۳۵۳)

معلوم ہوا کہ : جن مشرکین سے معاہدہ کیا گیا ہو تو اس معاہدے کے قائم رہنے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ہمارے دین پر اعلانیہ طعنہ زنی نہ کریں اور اگر وہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں یا قرآن سے متعلق کسی گستاخی کے مُرتَکِب ہوں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کے خلاف جنگ کی جائے گی ۔ (احکام القرآن للجصاص جلد ۳ صفحہ ۱۱۰)

کفار کے ساتھ جنگ کرنے سے مسلمانوں کی غرض ان کے ذاتی مفادات نہیں بلکہ انہیں کفرو بداعمالی سے روکنا ہے اور یہی اسلامی جہاد کا سب سے اہم مقصد ہے ۔

سورۃ التوبۃ کے بہت سے دیگر احکام کی طرح یہ حکم خاص شرائط کیساتھ ہے ، کفر کے پیشواوَں سے مراد ہر دور میں کفار کے وہ سردار ہوں گے جو آیت میں مذکور جرائم کا ارتکاب کریں، یعنی عہد شکنی ، یا مسلمانوں کے دین میں طعن جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی بھی شامل ہے ، کرنے والے ۔ چنانچہ یہ حکم تمام غیر مسلموں یا ان کے تمام سرداروں کے متعلق نہیں ہے ۔

“کفر کی شان و شوکت توڑنا” اگر وہ دعوت کے راستے میں مزاحم ہو یا مزاحم محسوس ہو ایک ضرورت ہو سکتی ہے لیکن یہ قانونی علت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ منضبط وصف نہیں ہے ۔ فقہائے کرام نے علت “محاربۃ” ذکر کی ہے ۔ فقہائے کرام علیہم الرحمہ تبھی جنگ کے جواز کے قائل ہوتے ہیں جب یہ بات محض مفروضہ نہ رہے بلکہ عملاً نظر آئے کہ کوئی حکومت اسلام کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہے ، اس رکاوٹ کو دور کرنے کا راستہ صرف جنگ ہی کی صورت میں ہے ، اور مسلمانوں میں جنگ کی استطاعت بھی ہے ۔ یہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ محاربہ کی ایک صورت ہے ۔

جہاد کی علت ،محاربہ، متعین ہو جانے کے بعد اس پر بحث ضروری ہے کہ ان صورتوں کا ذکر کیا جائے جن کو اسلامی قانون نے محاربے میں داخل قرار دیا ہے یعنی وہ صورتیں جن کے مخالفین میں پائے جانے پر اسلامی ریاست کو جنگ و قتال کی اجازت ہوتی ہے اور بزور قوت اس کا سدِ باب کرنا اس کےلیے ضروری ہوتا ہے ۔ یہاں ان صورتوں کا مختصراً ذکر پیش کیا جاتا ہے : ⬇

دارالاسلام کے خلاف بیرونی جارحیت : یہ واضح ہے کہ دارالاسلام پر حملے کی صورت میں حملہ آور محاربین بن جاتے ہیں اور ان کے خلاف جہاد واجب ہو جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔
ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 190)

بعض مخصوص حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کی جانب سے باقاعدہ حملے سے قبل پیش بندی کے اقدام کے طور پر بھی کاروائی کی تھی، جس کی مثالیں غزوہَ خیبر، غزوہَ بنی مصطلق اور غزوہَ تبوک ہیں ۔

امن معاہدات کی خلاف ورزی : اگر مسلمانوں نے غیر مسلموں سے امن کا معاہدہ کیا ہو اور وہ اس کی خلاف ورزی کریں تو ایسی صورت میں ان کے خلاف جنگی اقدام جائز ہوجاتا ہے ۔ اس طرح کے امن معاہدات دو طرح کے پوتے ہیں : ⬇

عقد ذمہ : جس کی رو سے غیر مسلموں کو دارالاسلام میں مستقل اقامت کا حق مل جاتا ہے ، انہیں عصمت حاصل ہو جاتی ہے اور ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہو جاتی ہے ۔

عقد موادعہ : جس کی رو سے دارالاسلام سے باہر مستقل اقامت پذیر غیر مسلموں کے ساتھ دارالاسلام کے مسلمانوں کے پر امن تعلقات قائم ہوتے ہیں ۔ اہلِ موادعہ کے خلاف جنگی اقدام اس وقت تک ناجائز ہوتا ہے جب تک عقد موادعہ نافذ العمل ہوتا ہے ۔

عقد موادعہ کے طرز پر امن معاہدہ کسی فردِ واحد یا چند مخصوص افراد سے بھی کیا جا سکتا ہے جس کی رو سے اس فرد یا افراد کو دارالاسلام میں داخل ہونے اور وہاں عارضی قیام کی اجازت مل جاتی ہے ۔ اس کو “امان ” کہا جاتا ہے اور جسے امان دیا جائے اسے “مستامن” کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اس دور میں ویزہ جاری کرنا ، ویزہ کے ذریعہ سے غیر مسلموں کو دارالاسلام میں عارضی قیام کی اجازت حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اسلامی مملکت کے قوانین کی پابندی کرے گا ، لیکن اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کا امان ختم ہو جائے گا ۔ اگر اس طرح کے معاہدے کے بعد دوسرے فریق نے کوئی “جنگی اقدام” کیا تو یہ امن معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور اس فریق کے خلاف فوجی کاروائی جائز ہو جاتی ہے ۔ جہاں تک عقد ذمہ کا تعلق ہے ، فقہاء احناف علیہم الرحمہ کے مطابق یہ صرف دو باتوں سے ٹوٹتا ہے : (1) ۔ دارالاسلام کی حکومت کے خلاف بغاوت یا (2) ۔ دارالاسلام کی سکونت ترک کرکے دارالحرب میں مستقل اقامت اختیار کرنا ۔ (الھدایۃ، کتاب السیر باب الجزیۃ فصل ولا یجوز احداث بیعۃ جلد 2 صفحہ 404 - 405،چشتی)
عقد موازعہ عقد غیر لازم ہے ، یعنی کوئی بھی فریق اسے یکطرفہ طور پر ختم کر سکتا ہے ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع کتاب السیر جلد 6 صفحہ 73)
البتہ مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ اگر وہ اسے یکطرفہ طور پر ختم کر رہے ہیں تو کسی قسم کے جنگی اقدام سے قبل دوسرے فریق کو باقاعدہ اطلاع دیں ۔ اسی طرح مستامن کے ساتھ عقد امان ختم کرنے کی صورت میں اسے اس کے محفوظ مقام تک پہنچانا لازم ہوتا ہے ۔ جہاں تک عقد ذمہ کا تعلق ہے یہ مسلمانوں کے حق میں عقد لازم ہے ، یعنی مسلمان اسے اپنی جانب سے ختم نہیں کر سکتے ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب السیر جلد 6 صفحہ 82)

عقد موادعہ کے بعد اگر اہل موادعہ اپنے دار کے اندر مقیم مسلمانوں پر ظلم کریں تو اس سے معاہدہ ٹوٹ نہیں جاتا لیکن اگر وہ مسلمان دارالاسلام کے مسلمانوں کی مدد طلب کریں تو ان پر ان کی مدد واجب ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں دارالاسلام کے مسلمانوں پر واجب ہوگا کہ کسی قسم کی جنگی کاروائی سے قبل پہلے عقد موادعہ کے خاتمے کا اعلان کریں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْاۚ-وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔
ترجمہ : بیشک جو ایمان لائے اور اللہ کے لیے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے اور وہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت نہ کی تمہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا جب تک ہجرت نہ کریں اور اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے مگر ایسی قوم پر کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ۔ (سورۃ الانفال آیت نمبر 72)

دارالاسلام سے باہر مقیم مسلمانوں پر ظلم : جیسا کہ اوپر مذکو ر ہوا ، دارالاسلام سے باہر مقیم مسلمانوں کی حفاظت کی ذمہ داری دارالاسلام کے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی ۔ تاہم اگر ان پر ظلم کیا جا رہا ہو اور وہ ہجرت نہ کر سکتے ہوں تو پھر ان کی مدد مسلمانوں پر لازم ہو جاتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَاۚ-وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ﳐ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 75)
ترجمہ : اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جویہ دعا کر رہے ہیں کہ اے رب ہمارے ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے ۔

اس آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جہاد فرض ہے اور اس کے ترک کا تمہارے پاس کوئی عذر نہیں تو تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد نہ کرو حالانکہ دوسری طرف مسلمان مرد وعورت اور بچے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور وہ ربُّ العٰلَمین عزوجل کی بارگاہ میں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ عزوجل ہمیں اس بستی کے ظالموں سے نجات عطا فرما اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار عطا فرما ۔ تو جب مسلمان مظلوم ہیں اور تم ان کو بچانے کی طاقت رکھتے ہو تو کیوں ان کی مدد کیلئے نہیں اٹھتے ۔

معلوم ہو کہ : ⬇

(1) جہاد فرض ہے ، بلاوجہ جہاد نہ کرنے والا ایسا ہی گنہگار ہو گا جیسے نماز چھوڑنے والا بلکہ کئی صورتوں میں اِس سے بھی بڑھ کر ہے ۔ البتہ یہ خیا ل رہے کہ جہاد کی فرضیت کی کچھ شرائط ہیں جن میں ایک اہم شرط اِستِطاعت یعنی جنگ کی طاقت ہونا بھی ہے ۔ جہاد یہ نہیں ہے کہ طاقت ہو نہیں اور چند مسلمانوں کو لڑائی میں جھونک کر مروا دیا جائے ۔ جہاد کبھی فرضِ عین ہوتا ہے اور کبھی فرضِ کِفایہ ۔

(2) آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کےلیے مسلمانوں کی مَظلومِیَّت کا بیان کرنا بہت مفید ہے ۔ آیت میں جن کمزوروں کا تذکرہ ہے اس سے مراد مکہ مکرمہ کے مسلمان ہیں ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی گئی تاکہ وہ ان کمزور مسلمانوں کو کفار کے پنجۂ ظلم سے چھڑائیں جنہیں مکہ مکرمہ میں مشرکین نے قید کر لیا تھا اور طرح طرح کی ایذائیں دے رہے تھے اور اُن کی عورتوں اور بچوں تک پر بے رحمانہ مظالم کرتے تھے اور وہ لوگ اُن کے ہاتھوں میں مجبور تھے اس حالت میں وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی خلاصی اور مددِ الٰہی کی دعا ئیں کرتے تھے ۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کا ولی و ناصر کیا اور انہیں مشرکین کے ہاتھوں سے چھڑایا اور مکۂ مکرمہ فتح کرکے اُن کی زبردست مدد فرمائی ۔

(3) آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرُاللہ کو ولی اور ناصر (یعنی مددگار) کہہ سکتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...