Monday, 9 October 2023

عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا روافض کے اعتراض کا جواب

عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا روافض کے اعتراض کا جواب




محترم قارئینِ کرام : رافضی و نیم رافضی حضرات اکثر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ باغی ٹھہرے ۔

جواب : پہلے ہم اس کا جاٸزہ لیتے ہیں کہ کیا صحیح بخاری کی حدیث 2812 ، 447 میں واقعی یہ الفاظ موجود ہیں کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو (عربی والا باغی) گروہ قتل کرے گا !
سلطنت عثمانیہ کے آخری بادشاہ ، سلطان عبد الحمید نے صحیح بخاری کا ایک نسخہ شائع کروایا تھا جسے "نسخہ سلطانیہ" کہا جاتا ہے ۔ یہ آج کل "دار التاصیل" مصر سے شائع ہوتا ہے ۔ یہ نسخہ پہلے سے موجود نسخوں کو دیکھ کر لکھا گیا تھا ۔ اس میں لکھا ہے کہ "نسخہ ابی ذر" میں " تقتلہ الفئة الباغیة" کے الفاظ موجود نہیں تھے ۔ واضح رہے کہ "ابو ذر" صحیح بخاری کے متعدد نسخوں کے مرکزی راوی ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نسخہ درست ہے ؟ جو نسخہ قدیم ہوگا اور سند سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ سے ثابت ہوگا ، وہی درست نسخہ ہو گا ۔ اس وقت جو سب سے پرانے نسخے محفوظ ہیں وہ آج سے تقریباً 900 سال پرانے "ابو عمران ابن سعادة" کے تین نسخے ہیں جو کہ ترکی کی استنبول میں واقع murad molla kütüphanesi ( library ) میں موجود ہیں ۔ ان تینوں میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کا مسجدِ نبوی کی تعمیر کے وقت دو دو اینٹیں اٹھانے کا ذکر تو ہے ، لیکن آگے "تقتلہ الفئة الباغیة" کے الفاظ موجود نہیں ہیں ۔ میرے پاس نسخوں کی scanned copies  موجود ہیں ، تصاویر نیچے لگا دی ہیں ۔ یہ سب نسخے امام بخاری رحمة اللہ علیہ سے صحیح سند سے ثابت ہیں ۔ سند یہ ہے " کتب ابوعمران ابن سعادة عٙن الصدفی عٙن ابی الولید الباجی عٙن ابی ذر عٙن المستملی عٙن الفربری عٙن محمد بن اسماعیل البخاری رحمہم اللہ و رضی اللہ عنہم " ۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ "تقتلہ الفئة الباغیة" کے الفاظ اصلاً (originall) صحیح بخاری میں نہیں ہیں ، بلکہ یہ بعد کا اضافہ/ publishing mistake ہے ۔

دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ اگر صحیح بخاری میں "تقتلہ الفئة الباغیہ" کے الفاظ موجود نہیں ہیں تو پھر اس کے بغیر بخاری کی حدیث کا ترجمہ کیا بنے گا ؟ "يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ" سے کیا مراد ہے ؟ دیکھیں "یدعو" فعل مضارع واحد کا صیغہ ہے۔ مضارع کا ترجمہ by default حال (Present indefinite) میں کیا جاتا ہے ، جب قرآئن سے واضح ہو تو ترجمہ مستقبل میں کیا جاتا ہے ۔ اب قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ "تقتلہ الفئة الباغیہ" کا ترجمہ یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو باغی جماعت قتل کرتی ہے ، جبکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ۔ اس لیے اس کا ترجمہ مستقبل میں کیا جاتا کہ باغی جماعت قتل کرے گی۔ اب اسی کے سیاق (context) میں "يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ" کا ترجمہ بھی مستقبل میں کیا جاتا ہے عمار رضی اللہ عنہ انہیں جنت کی طرف بلائیں گے اور وہ گروہ جہنم کی طرف بلائیں گے ۔ لیکن فقیر ثابت کر چکا کہ "تقتلہ الفئة الباغیة" کے الفاظ صحیح بخاری میں نہیں ہے ۔ یعنی مستقبل والا context گیا ۔ اب ترجمہ حال میں کیا جائے گا ۔ "عمار رضی اللہ عنہ انہیں جنت کی طرف بلاتے ہیں اور وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں"۔ اب جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کے وقت میں دیکھیں تو اس سے مراد مشرکین مکہ یا اس وقت کا ہی کوئی گروہ بنے گا ، جسے حضرت عمار رضی اللہ عنہ اسلام کی دعوت دیتے (جنت کی طرف بلاتے) اور وہ جہنم (اسلام چھوڑنے) کی طرف بلاتے تھے ۔

دوسری بات وہ روایت جس میں باغی گروہ کی بات کی گئی ہے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کیا اس سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بالکل مراد نہیں اور نہ ان کا نام موجود ہے حدیث میں ، اسی طرح کے خارجی لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں بھی موجود تھے جب ایک شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو خوشخبری ہو میں نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ (جو جنگ جمل میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے لشکر میں موجود تھے) کو قتل کر دیا ہے تو اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں تجھے جہنمی ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں کیوں کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں تو حدیث رسول تھی کہ جو ان کو قتل کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ اب جس طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی الزام نہیں جہنمی ہونے کا (کیوں کہ وہ شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں سے تھا) اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہیں لگ سکتا ۔

اسی طرح سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے اور ان کے قاتلین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر میں شامل تھے جنہیں حدیث پاک میں منافقین فرمایا گیا ہے ۔ حدیث پاک ملاحظہ کریں : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : عثمان ! اللہ تعالٰی آپ کو خلافت کی قمیص پہنائیں گے، اگر منافق آپ سے وہ قمیصِ خلافت چھیننا چاہیں تو آپ نے اسے اتارنا نہیں ، یہاں تک مجھے آ ملو (شہید ہو جاؤ) ۔ پھر فرمایا : عثمان! اللہ تعالیٰ آپ کو خلعتِ خلافت پہنائیں گے ، اگر منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو آپ نے شہید ہونے تک اسے نہیں اتارنا ۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی ۔ (مسند الامام احمد : 24566، وسندہ صحیح)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے واضح طور پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو فتنہ کے وقت حق پر ہونے کی بشارت ارشاد فرمائی تھی اور شہادت کو ان کےلیے بطور اعزاز ارشاد فرمایا تھا.. سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف سے دی گئیں انہیں بشارتوں کی وجہ سے جب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلین اور باغیوں کو جو مدینہ کی حرمت پامال کرنے کے بھی مجرم تھے اور مدینہ منورہ کی حرمت پامال کرنے والوں پر حدیث میں لعنت بھیجی گئی ہے، انہیں باغیوں اور قاتلوں کو سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کے جھنڈے تلے دیکھا تو غلط فہمیوں اور بدگمانیاں کا پیدا ہونا لامحالہ لازم تھا جو کہ جنگ کی صورت اختیار کر گیا ۔

صحابی رسول حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر کے  مقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے کیا فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں : ⬇

حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کے لشکر میں تھے پس کعب بن مرہ بہزی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے فلاں چیز نہ سنی ہوتی تو آج میں اس مقام پر کھڑا نہ ہوتا پس جب انہوں (حضرت معاویہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر سنا تو لوگوں کو بٹھا دیا اور کہا : ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس تھے کہ وہاں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پیدل گزرے ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ ضرور بالضرور اس جگہ سے جہاں میں کھڑا ہوں ایک فتنہ نکلے گا، یہ شخص اس دن (مسند خلافت پر) ہو گا جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا پس عبدﷲ بن حوالہ ازدی منبر کے پاس سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تو اس آدمی کا دوست ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں! ابن حوالہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا میں اس مجلس میں موجود تھا اور اگر میں جانتا ہوتا کہ اس لشکر میں میری تصدیق کرنے والا کوئی موجود ہے تو سب سے پہلے یہ بات میں ہی کر دیتا ۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 236)(الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 316، الحديث رقم : 753،چشتی)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 89)(الشيباني في الأحاد و المثاني، 3 / 66، الحديث رقم : 1381)

جس طرح ان باغیوں اور قاتلوں جن کو احادیث میں منافق اور موجب لعنت فرمایا گیا کہ سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہ الکریم کے لشکر میں ہونے کی بنا پر سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم کو معتوب نہیں کیا جا سکتا اور نہ معاذاللہ ناحق کہا جا سکتا ہے کیونکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم خلیفہ برحق تھے اور اپنے اس مؤقف پر بھی حق پر تھے کہ باغیوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی میں قصاص لینے پر باغی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد کسی اور بڑے نقصان کا موجب بن سکتے تھے اس لیے قصاص لینے کو مؤخر فرمایا ۔ جبکہ مقابل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فوری قصاص لینے کے اپنے مؤقف کو حق سمجھنے کے باوجود خطائے اجتہادی پر تھے مگر اجتہادی خطا مطلقاً خطا یا گناہ نہیں ہوتی ۔

دل تھام کر سوچیے کہ اگر اس مقام پر اہلسنت کا مؤقف نہ اپنایا جائے اور اپنی عقلوں کے گھوڑے دوڑا کر رافضیوں ، نیم رافضیوں یا ناصبیوں کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بدگمانی کی جائے تو کیا ہم اپنا ایمان محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟ اگر ہم کذاب راویوں کی جھوٹی کہانیوں پر اعتماد کر کے ایک طرف کو بدگمانی پیدا کر لیں تو سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم سے بدگمان ناصبیوں کو کس منہ سے روکیں گے جو ان کے لشکر میں موجود باغیوں کے سبب انہیں معتوب کرتے ہیں معاذاللہ ثم معاذاللہ ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو حکم ارشاد فرمایا ہے ملاحظہ کریں : ⬇

حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے. ایک روایت میں ہے : انہیں لعنت (و ملامت) کرو ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رای النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3866، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 397، الرقم : 606، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 190.191، الرقم : 8366،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے تاریخ الاسلام میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ :  ⬇

وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال : قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه ۔ (تاريخ الإسلام - الذهبي - ج 3 - الصفحة 540)
ترجمہ : حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور فرمایا : آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلانِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا ۔

اس سے پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو محض خلافت سے کوئی غرض نہیں تھی ان کا مطالبہ صرف قتل عثمان کا قصاص لینا تھا اور یہی بات مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکتوب میں بھی موجود ہے ۔

وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام. والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان ۔ (نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع) - مکتوب 58 - الصفحة 448،چشتی)
ترجمہ : ہمارے معاملے کی ابتداء یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب کہ بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خونِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں تھا ۔

دوسری بات یہ کہ بخاری شریف میں فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں یہ الفاظ کہ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ایسے الفاظ ہیں کہ جن سے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کی بھی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ والے گروہ کے صاحب ایمان ہونے کی خود زبان نبوت نے تصدیق فرما دی اور صلح اور بیعت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کر کے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی تائید مزید فرما دی ۔

یہ حدیث شیعہ کتاب كشف الغمة میں بھی موجود ہے : ⬇

روى عن أبي بكرة قال بينما رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطب إذ صعد إليه الحسن فضمه إليه وقال إن ابني هذا سيد وان الله عله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظمتين ۔ (كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج 2 - الصفحة 320)
ترجمہ : ابی بکرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خطبہ ارشاد فرمانے کے دوران یکا یک امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ منبر پر چڑھ گئے تو آپ نے انہیں سینے سے لگایا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور الله اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۔

ذرا دل سے پوچھیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک صلح کی بشارت ارشاد فرمائیں اور یہ بھی فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ صلح کروائے گا تو کیا کوئی صاحب ایمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشارت اور اللہ تعالیٰ کے صلح کروانے کو خیر و برکت کے بجائے ظلم و ستم کی نہ ختم ہونے والا سلسلہ سمجھ سکتا ہے ؟ 
ہاں اس صلح کو خیر و برکت والا سمجھنے کےلیے ایمان کی شرط لازمی ہے ۔ اس صلح کے بعد مسلمانوں میں کم از کم بیس برس تک ہر طرح کی خانہ جنگی رک گئی ، بے شمار فتوحات ہوئیں ، مسلمانوں میں خوشحالی آئی ۔ امام حسن و حسین  رضی اللہ عنہما بذات خود فتوحات میں شامل ہوئے ۔

تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ باغی ٹھہرے تو پھر امام حسن و امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نہ صرف بیعت کی بلکہ انہیں مسلمانوں کا امیر بھی بنا دیا کیا امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ، اور اگر کوئی رافضی یا نیم رافضی کہے کہ کر سکتے ہیں تو پھر امام عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی یزید کی بیعت نہ کرنا اور سارا گھر لٹا دینا چہ معنی دارد ؟ ۔ کیا یہ حدیث امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم نہ تھی جو ان کی بیعت کرلی اور کیا اس حدیث کا مفہوم آج کل کے رافضی و نیم رافضی زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یا امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ ؟ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر دلائل اور بھی ہیں لیکن اختصار کے طور پر ایک حوالہ شیعہ کتاب رجال کشی کا دے دیتے ہیں : ⬇

امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو مع ساتھیوں کے شام بلایا جب یہ سب آگئے تو : وأعد لهم الخطباء، فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع، ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع، ثم قال قم يا قيس فبايع فالتفت إلى الحسين عليه السلام ينظر ما يأمره، فقال يا قيس انه امامي يعني الحسن عليه السلام ۔ (اختيار معرفة الرجال (رجال الكشي) - الشيخ الطوسي - ج 2 - الصفحة 104)
ترجمہ : ان کے لیے خطیب مقرر کیے گئے پھر کہا اے حسن رضی اللہ تعالی عنہ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے وہ اٹھے اور بیعت کی پھر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کہا آپ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے تو انہوں نے بھی اٹھ کر بیعت کی پھر قیس کو فرمایا اٹھ کر بیعت کرو اس نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف نظر کی تاکہ مرضی معلوم کر سکے آپ نے فرمایا اے قیس امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ میرے امام ہیں ۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کے بعد جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے ۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193،چشتی)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ (ابن عساکر۔ 59/193)

جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477)

کچھ تواریخ کے مطابق سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قسطنطنیہ کی طرف روانہ کیے گئے لشکر میں بھی شرکت فرمائی ۔

یزید پلید کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت 

اہل عراق حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو تمہارے مقابلے میں لا کر چھوڑ دیں گے ۔ جب وہ تمہارے مقابلے میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت دار ، بڑے حق دار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عزیز ہیں ۔ (تاریخ طبری ج:٥،ص:١٩٦)

افسوس صد افسوس وہ ازلی بدبخت پاس نہ رکھ سکا

چوتھی اہم بات یہ کہ جس کو خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ باغی اور منافق نہ کہیں انہیں آج کل کے رافضی و نیم رافضی کس منہ سے کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے تو انہیں اپنا بھائی کہا ہے ۔

شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے ۔

جعفر، عن أبيه : أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه ۔ إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق ۔ (قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 93،چشتی)
ترجمہ : امام جعفر عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدِمقابل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کی لشکر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے لڑائی اس لیئے نہیں کی کہ وہ ہمیں یا ہم ان کو کافر سمجھتے تھے لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور ہم نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا ۔

جعفر، عن أبيه عليه السلام : أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول : " هم إخواننا بغوا علينا ۔ (قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 94)
ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدمقابل (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی ۔ واللہ اعلم ۔

فیصلہ مولا کائنات سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے خود فرما دیا : ⬇

صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے ماتحت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا ، اور تاکید کی کہ کوئی بھی شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خط میں لکھا کہ''ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ  رضی اللہ عنہ) کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہےکہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہے ، ہمارا اوران کانبی ایک ہے، ہماری اور ان کی دعوت ایک ہے ، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدیق کرنے میں دونوں کا برابر ہیں ،صرف خونِ عثمان کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان میں اختلاف ہوا اور ہم اس سے بری ہیں لیکن معاویہ میرے بھائی ہیں ۔ ( نہج البلاغہ۱۵۱) 

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ''قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ'' ہمارے اور ان کے لشکر کے مقتولین جنت میں جائیں گے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، باب ما ذکر فی الصفین ، حدیث نمبر ۳۷۸۸۰)۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...