Friday, 27 October 2023

تعلیماتِ حضرت سیدنا شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

تعلیماتِ حضرت سیدنا شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
محترم قارئینِ کرام : جب بھی امت مسلمہ علمی ، عملی ، روحانی اور سیاسی زوال کا شکار ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے مسلم امہ کو کسی ایسے فرد سے نوازا جس کے وجود نے صحرائوں کو گلشن بنادیا اور مسلمانوں کو سر اٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ۔ اس بات کی نشاندہی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرماگئے ہیں : إِنَّ ﷲَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم جلد 4 صفحہ 109، الرقم : 4291)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس امت کی (سربلندی کےلیے) ہر صدی کے آغاز میں ایسی شخصیت کو پیدا فرماتا ہے جس کے ذریعے تجدید و احیائے دین کا فریضہ سرانجام پاتا ہے ۔

قطب ربانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایسی ہی حیات آفرین شخصیتوں میں سے ایک ہیں ۔ جن کی کتاب زیست کا ایک ایک ورق خزاں رسیدہ چمن کےلیے باد بہاری کا ایک خوشگوار جھونکا ہے ۔ آپ کی تعلیمات نے عالم اسلام کے مرکز بغداد میں ٹوٹ پھوٹ کے شکار معاشرے کو حیات نو کا مژدہ سنا کر مسلم امہ کے نحیف و ناتواں بدن میں نئی روح پھونک دی ۔ تب سے اب تک آپ کی تعلیمات امت مسلمہ کو روح کی غذا فراہم کررہی ہیں ۔ عصر حاضر میں آپ کی نورانی تعلیمات ماضی کی نسبت زیادہ اہم ہو گئی ہیں کیونکہ مادیت بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ قوت کے ساتھ انسانیت اور اخلاقی اقدار کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ ایسے حالات میں سکون نا آشنا دلوں سے خود غرضی ، لالچ اور مال کی محبت کو نکال کر محبت، ایثار اور سکون سے ہمکنار وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دل و دماغ قرآن و حدیث کی روح سے آشنا ہوں ۔ آج بھی اگر مسلم امہ حضرت غوث الاعظم  رحمۃ اللہ علیہ کی ان حیات آفرین تعلیمات کو اپنالے جو قرآن و حدیث کے صحیح فہم پر مبنی ہیں تو آج بھی عالم اسلام اپنی تمام محرومیوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے تقریباً چونتیس سال بعد چھٹی صدی کے آغاز میں رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دینے کےلیے میدان کارزار میں اتر چکے تھے ۔ آپ کا دور مسلمانوں کے سیاسی نشیب و فراز ، مذہبی کشمکش ، مادیت پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا ۔ ان حالات میں آپ نے علم کی ترویج اور امت کی روحانی تربیت کے ساتھ ایک خاموش انقلاب بپا کر دیا ۔ آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کو عیاں کیا اور فکر آخرت کو اجاگر کیا ۔ تجدید و احیائے دین کےلیے آپ کی کوششوں کی وجہ سے ہی آپ کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا گیا ۔

ملک شام کے ایک سکالر ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی اپنی کتاب الشیخ عبدالقادر الجیلانی الامام الزاہد القدوۃ کے صفحہ 102 پر لکھتے ہیں : ہم بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں : پہلا حصہ 488ھ میں آپ کی بغداد آمد سے 521ھ میں مسند تدریس پر فائز ہونے تک ہے ۔ دوسرا حصہ 521ھ سے لے کر 562ھ میں آپ کے وصال تک ہے اور یہ علم کے چراغ جلانے، تعلیم دینے اور وعظ و ارشاد کا مرحلہ ہے ۔

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کے اخلاقی زوال پر بہت دلگیر ہوتے اور مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے بہت خوبصورت اور بلیغ انداز میں دین کے دامن سے وابستہ ہونے کی تلقین فرماتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے : فاجروں ، فاسقوں ، ریا کاروں ، بدعات میں مبتلا گمراہوں اور خوبیوں سے محروم مدعیوں کے باعث اسلام گریہ کناں ہے اور مدد کو پکار رہا ہے ۔ کتا اپنے مالک کو اس کی حفاظت ، شکار، زراعت اور جانوروں کے معاملے میں نفع دیتا ہے ۔ حالانکہ اس کتے کا مالک اسے رات کے وقت ایک لقمہ یا چند چھوٹے چھوٹے لقمے کھلاتا ہے اور اے انسان تو اپنے رب کی نعمتیں پیٹ بھر کر کھاتا ہے اور ان نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی منشاء کو پورا نہیں کرتا اور ان نعمتوں کا حق ادا نہیں کرتا ، اس کے احکام کو بجا نہیں لاتا اور اس کی حدود کا خیال نہیں رکھتا ۔ (الفتح الربانی صفحه31،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں اسلامی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور آپ اپنے وابستگان کے دل میں بھی یہی غیرت و حمیت دیکھنا چاہتے تھے ۔ آپ کے یہ جذبات اور احساسات الفتح الربانی میں منقول درج قول سے عیاں ہیں : تیرا برا ہو ، تیرے اسلام کی قمیض تار تار ہے ، تیرے ایمان کا کپڑا ناپاک ہے ، تو برہنہ ہے ، تیرا دل جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے ، تیرا باطن مکدر ہے ، تیرا سینہ اسلام کےلیے کشادہ نہیں ۔ تیرا ظاہر آراستہ اور باطن خراب ہے ، تیرے صحیفے سیاہ ہو چکے ہیں اور تیری دنیا جو تجھے بہت عزیز ہے تیرے ہاتھوں سے نکلنے والی ہے ، قبر اور آخرت تیرے سامنے ہیں ۔ اپنے حال کی آگہی رکھ ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ میں کچھ ایسی تاثیر رکھ دی تھی جس کی مثال بہت کم ملے گی ۔ غنیۃ الطالبین کی چودہ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کا مطالعہ کرنے سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ جب بولنے والے کی زبان کے پیچھے احوال بھی موجود ہوں تو ایک ایک بات دلوں میں اترتی جاتی ہے ۔

ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی حضرت غوث صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کی تاثیر کے بارے میں لکھتے ہیں : وعظ و ارشاد کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت ہی کم بیان کی وہ قوت عطا ہوئی ہو گی جو حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرحمت ہوئی ۔ آپ حضرت کے مواعظ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر ورق اور ہر صفحہ پر گفتار کی تاثیر اور قوت واضح طور پر محسوس کریں گے بلکہ آپ اس بات کو بلا تخصیص کسی مجلس کی چند سطور پر پڑھ کر بھی محسوس کرسکتے ہیں ۔ (الشيخ عبدالقادر الجيلانی صفحہ 46)

شہباز لامکانی حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کی اہمیت اور وسیع افادیت کا ذکر کرتے ہوئے ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں : الشیخ عبدالقادر 520ھ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد لوگوں کے سامنے (معلم و مربی کی حیثیت سے) ظاہر ہوئے تو آپ کو لوگوں میں عظیم مقبولیت حاصل ہوئی ۔ آپ کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں نے اپنے عقائد کو درست کیا اور آپ سے عظیم نفع حاصل کیا۔ آپ کے دم قدم سے (معتزلی اور اسماعیلی مذہب کے مقابلے میں) مذہب اہل سنت کو تقویت ملی ۔ (قلائد الجواهر علامه الشيخ محمد بن يحيیٰ صفحه 33،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ آپ ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالوہاب گیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے والد ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے تھے ۔ جمعہ اور منگل کی صبح کو اپنے مدرسہ میں جبکہ اتوار کی صبح کو اپنی خانقاہ میں وعظ فرمایا کرتے تھے ۔ (شذرات الذهب فی اخبار من ذهب امام عبدالحی بن احمد الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ جلد 6 صفحہ 332)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ حسنہ نے جہاں معصیت کا شکار مسلمانوں کو شریعت کی پیروی پر ابھارا وہیں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد کو بھی متاثر کرکے ایمان کی چاشنی سے آشنا کیا ۔ آپ کے ہاتھ پر اہل بغداد کی بڑی تعداد تائب ہوئی اور بغداد کے اکثر یہودی اور عیسائی آپ کے دست حق پرست پر ایمان لائے ۔ (الفتح الربانی صفحہ 220)

آج جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں ، اسے علمی ترقی کا دور کہا جاتا ہے ۔ سائنسی انکشافات ، برقی ذرائع علم (انفارمیشن ٹیکنالوجی) نے قرب و بعد کے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔ ڈگریوں کی صورت کاغذ کے پرزے اٹھائے ہر کوئی خواندگی کے گیت آلاپ رہا ہے مگر اس کے باوجود معاشرہ روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کا سبب علم و عمل کی دوئی ہے ۔ آج علم برائے عمل حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ علم برائے معاش حاصل کیا جاتا ہے ۔ علم و عمل کی اس دوئی نے تہذیب و اخلاق کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے حالانکہ دونوں کے اجتماع سے انسان اور معاشرے میں تہذیب پیدا ہوتی ہے ۔ قرآن مجید نے بے عمل عالم کو ایسے گدھے سے تشبیہہ دی ہے جس پر کتابیں لاد دی جائیں لیکن اس کے اخلاق و عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس شخص کا علم زیادہ ہو اسے چاہئے کہ خوفِ خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے ۔ علم کے مدعی ! خوفِ خدا سے تیرا رونا کہاں ہے ۔۔۔ ؟ تیرا ڈر اور وہشت کہاں ہے ۔۔۔ ؟ گناہوں کا اقرار کہاں ۔۔۔ ؟ رات اور دن عبادت میں ایک کر دینا کہاں ۔۔۔ ؟ نفس کو باادب بنانا اور الحب للہ والبغض للہ کہاں ۔۔۔ ؟ تمہاری ہمت جبہ و دستار ، کھانا ، نکاح ، دکان ، خلقت کی محفل اور ان کا انس ہے ، اپنی ان تمام چیزوں سے خود کو الگ کر ۔ یہ چیزیں اگر تمہارے نصیب میں ہیں تو اپنے وقت پر مل جائیں گی اور تمہارا دل انتظار کی کوفت سے آرام پائے گا ۔ (فتح الربانی صفحه 82،چشتی)

دین اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان جو بھی عمل کرے وہ اخلاص کے ساتھ کرے ۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا عمل بارگاہ الہٰی میں درجہ قبولیت پانے سے محروم رہتا ہے ، اگر وہ ریاکاری اور دنیا والوں کے دکھاوے کےلیے کیا جائے ۔ جبکہ اخلاص سے کیا گیا کم تر عمل بھی حضورِ حق میں بڑی قدرو منزلت کا حامل ہوتا ہے ۔ صوفیاء کرام کی حیاتِ طیبہ کا اہم ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر عمل خالص اللہ کی رضا کےلیے کرتے ہیں اور اپنے مریدین اور مخلصین کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اخلاصِ عمل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضرت سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تجھ پر افسوس ! تو مشرک ، منافق ، بے دین ، مرتد ہے ۔ تجھ پر افسوس ! ملمع کس کو دکھاتا ہے ، جو آنکھوں کی خیانت اور سینے کے رازوں سے واقف ہے ۔ تجھ پر افسوس ! نماز میں کھڑا ہوکر اللہ اکبر کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے ۔ تیرے دل میں مخلوق ، اللہ سے بڑی ہے ۔ اللہ کے سامنے توبہ کر ۔ نیک عمل غیر کےلیے نہ کر اور نہ دنیا اور نہ آخرت کےلیے کر بلکہ خاص اللہ کی ذات کا ارادہ رکھ ۔ ربانی پرورش کا حق ادا کر ۔ تعریف اور صفتِ عطا اور بے عطا کےلیے عمل نہ کر ۔ تجھ پر افسوس ! تیرا رزق کم زیادہ نہ ہوگا ، نیکی اور بدی کا تجھ پر حکم لگ چکا ہے ، وہ ضرور آئے گی ۔ جس چیز میں فراغت ہے ، اس میں مشغول نہ ہو ۔ اس کی عبادت میں لگا رہ ، حرص کم ، امید کو تاہ اور موت آنکھوں کے سامنے رکھ ، ضرور نجات حاصل کرے گا ۔ تمام احوال میں شریعت کی پابندی کر ۔ (فتح الربانی صفحه 167)

نفاق ، ریاکاری ، غرور و تکبر ، حسد بغض ، کینہ ایسے باطنی امراض ہیں کہ جو بڑے سے بڑے عمل کو بھی خاکستر کر دیتے ہیں لیکن یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان ان سے نجات نہیں پاتا ، اس وقت تک نہ وہ روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے اور نہ اس میں ترقی و کمال حاصل کر سکتا ہے ۔ اگرچہ یہ باطنی بیماریاں ہیں مگر ان کے تباہ کن اثرات انسان کی ظاہری شخصیت پر بھی پڑتے ہیں اور یوں وہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے ایک قابلِ رحم مریض کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے ۔ مگر حکیمِ حاذق جو ان روحانی امراض کا ماہر معالج ہو اس کو تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ وہ شیخِ کامل اور مردِ خدا ہوتا ہے جو اپنی نگاہِ کیمیا ساز سے باطن کی بیماریوں کا علاج کر کے مریض کو روحانی حیاتِ نو سے بہرہ یاب کر دیتا ہے ۔ وہ معالج کون اور کہاں سے دستیاب ہوتے ہیں ؟ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ریا کار ! تجھ پر افسوس ، اللہ کو دھوکہ نہ دے ، عمل کرکے ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کےلیے ہے حالانکہ مخلوق کےلیے ہے ۔ ان کو دکھاتا ہے اور ان سے نفاق کرکے چاپلوسی کرتا ہے اور اپنے رب کو بھلا دیتا ہے ۔ تو عنقریب دنیا سے مفلس ہو کر نکلے گا ۔ باطن کے بیمار ! اس مرض کا علاج کر ، اس کی دوا اللہ کے بندوں ، صالحین کے سوا اور کہیں نہ ملے گی ۔ ان سے دوا لے کر استعمال کرے گا تو ہمیشہ کےلیے تندرستی اور صحتِ ابدی حاصل ہو گی ۔ تیرا دل ، باطن اور خلوت اللہ کے ساتھ ہو جائے گی ۔ تیرے دل کی آنکھیں کھلیں گی اور تو اپنے رب کو دیکھے گا ۔ تیرا شمار محبین میں ہو گا جو اس کے دروازے پر کھڑے ہیں اور اللہ کے سوا غیر کو نہیں دیکھتے ہیں ۔ تیرا دل تو بدعت سے پُر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار کس طرح کر سکتا ہے ؟ ۔ (فتح الربانی صفحه 253،چشتی)

آج کے معاشرہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ الوہی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے بالعموم شکوہ کناں رہتے ہیں ، جس کے باعث لوگ بہت سی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کر ، اسی نے سب اندازے لگائے ہیں ، دوسرے نے نہیں ۔ (فتح الربانی صفحه 839)

آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : غیر اللہ کے پاس گلہ اور شکایت نہ کرو کیونکہ اس سے تم پر اور بلا بڑھے گی بلکہ خاموش اور ساکن اور گم ہو رہو ۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان کیا کرتا ہے اور اس کے تصرفات پر اظہارِ خوشی کرو ۔ اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آئو گے تو ضرور وحشت کو انسیت سے اور رنج و تنہائی کو خوشی سے بدل دے گا ۔ (فتح الربانی صفحه 66،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : خلقت کی شکایت کرنے سے اپنی زبان کو روک ۔ رضائے الہٰی کے لیے اپنے نفس اور مخلوق کا دشمن بن جا ۔ اس کی تابع فرمانی کا حکم کر اور گناہ سے روک ۔ ان کو گمراہی و بدعت ، حرص اور موافقتِ نفس سے باز رکھ ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابع فرمانی کا حکم کر ۔ (فتوح الغیب صفحه 133)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ تربیت یہ تھا کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں نہ صرف روحانی امراض کی نشاندہی کی بلکہ ان بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے نسخہ بھی تجویز کیا اور علاج بھی بتایا کہ کس طرح ان سے خلاصی پاکر قربِ الہٰی حاصل کیا جاسکتا ہے ؟

روحانی مقامات کی ترقی و کمال میں رزقِ حلال کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام کے مال سے ہوئی ہو گی ۔ پس جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے  ، اس کے منہ سے نکلنے والی دعا کب قبول ہوسکتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی آداب و اخلاق کے اندر کسبِ حلال پر بڑا زور دیا گیا ہے ۔ حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں کسبِ حلال کی اہمیت کو نہ صرف واضح کیا ہے بلکہ اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ بارگاہِ الہٰی کے قرب کے لیے پیٹ میں جانے والے ہر لقمے کا حلال اور پاکیزہ ہونا بھی شرط ہے ۔ بصورتِ دیگر اس راہ کا مسافر منزلِ مراد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس سلسلہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نیک کمائی اور سبب سے تعلق لازم کرو یہاں تک کہ ایمان قوی ہو جائے ، پھر سبب کو چھوڑ کر مسبب کی طرف چلا آ ۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنے ابتدائی احوال میں کسب کرتے ، قرض لیتے اور پابندِ اسباب رہتے ہیں اور آخر میں توکل کرتے ہیں ۔ کسب اور توکل کو شروع اور اخیر میں شریعۃً اور حقیقۃً جمع کر لیتے ہیں ۔ بیٹا ! نفس کو خواہشوں اور لذتوں سے روکو ، اس کو پاک روزی کھلاٶ ، نجس نہ بنو ، پاک حلال ہے اور حرام نجس ہے ۔ نفس کو غذائے حلال دو تاکہ اترائے نہیں اور ناک منہ چڑھا کر گستاخ نہ بنے ۔ (فتح الربانی صفحه 165،چشتی)

دل کی زندگی اور موت کی وضاحت میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بیٹا ! حرام کی روزی سے تیرا دل مرتا ہے اور حلال کی روزی سے زندہ ہوتا ہے ۔ ایک لقمہ تیرے دل کو منور کرتا ہے اور ایک لقمہ سیاہ کرتا ہے ۔ ایک لقمہ دنیا میں اور ایک لقمہ آخرت میں مشغول کرتا ہے ۔ ایک لقمہ دونوں سے بے رغبت کرتا ہے اور ایک لقمہ خالق میں مشغول کرتا ہے۔ حرام کی روزی دنیا میں مشغول کراتی ہے اور گناہوں سے پیار کراتی ہے ۔ حلال طعام آخرت میں لگاتا ہے ، اطاعتِ الہٰی سے محبت کراتا ہے اور دل کو مولیٰ سے قریب کرتا ہے ۔ کیا تو نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا : من لم یبال من این مطعمه ومشربه لم یبال اللہ من ای باب من ابواب النار ادخله ۔
ترجمہ : جو شخص اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا کھانا پینا کہاں سے ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ دوزخ کے دروازوں میں سے اس کو کس دروازے میں سے داخل کرے ۔ (فتح الربانی صفحه 232،چشتی)

آج عدمِ برداشت کے کلچر نے پوری دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانی کا امن خاک میں ملا دیا ہے ۔ دہشت گردی کا فروغ اسی کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ اسلام اخوت و محبت ، تحمل و بردباری کا علمبردار دین ہے مگر آج کچھ نادان دوستوں کی غلط کاریوں اور خود تراشیدہ تصورات کی وجہ سے ادیانِ عالم میں محبتوں کے امین اس دین کو دہشتگرد اور امن دشمن قرار دیا جارہا ہے ۔ صوفیائے کرام علیہم الرحمہ کی تعلیمات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں مذہب کے نام پر انسانوں میں دوریاں پیدا نہیں کیں بلکہ مخلوقِ خدا ہونے کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا ۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل سے گلشنِ اسلام میں بہار آئی اور لوگ ایسے مخلص مبلغینِ اسلام کے طرزِ عمل ، سیرت و کردار سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگے اور اس طرح اسلام انسانیت کے خیر خواہ ہونے کے باعث ایک آفاقی دین بن گیا اور چہار دانگِ عالم میں دینِ محمدی کا پھریرا لہرانے لگا ۔ برداشت کا درس دیتے ہوئے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بیٹا ! برداشت کو اپنے اوپر لازم پکڑ اور شر کو دور کر ۔ کلموں کے بہت سے ساتھی ہیں ۔ جب تم سے کسی نے ایک کلمہ شرارت کا کہا اور تم نے اس کا جواب دیا تو اس کلمۂ بد کے اور شریر ساتھی آجائیں گے حتی کہ تم دونوں کلام کرنے والوں کے درمیان شرارت قائم ہوجائے گی ۔ (فتح الربانی صفحه 109،چشتی)

قطب الاقطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ عزیمت کی راہ پر چلنے والوں میں ایک نمایاں شخصیت تھے ۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کے محببین بھی رخصت کے متلاشی نہ بنیں بلکہ عزیمت کی اسی راہ پر چلیں جس پر چلنے والے پچھتائے نہیں بلکہ خوش ہی رہے ۔ الفتح الربانی صفحہ 142 میں درج ہے کہ : پاک ہے وہ ذات جس نے میرے دل میں مخلوق کو نصیحت کرنے کا جذبہ ڈال دیا اور اسے میری زندگی کا مقصد بنا دیا ۔ اے لوگو ! رخصت کی تلاش سے گریز کرو اور عزیمت کی راہ کو اپناٶ جس نے رخصت کو اپنا کر عزیمت کو چھوڑ دیا اس کا ایمان خطرے میں ہے ۔ عزیمت کی راہ مَردوں کےلیے ہے کیونکہ وہ انتہائی کٹھن اور تلخ ہے اور رخصت عورتوں اور بچوں کے لیے ہے کیونکہ وہ انتہائی آسان ہے ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدین اور شاگردوں کو فقہ و تصوف کی تلقین فرمایا کرتے اور خصوصی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے کہ جو تصوف ، فقہ کے تابع نہیں وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا نہیں ۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے : شریعت جس حقیقت کی گواہی نہ دے وہ زندیقیت ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ کی طرف کتاب و سنت کے دو پروں کے ساتھ پرواز کرو ۔ اپنا ہاتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں دے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دو ۔ فرض عبادتوں کا ترک زندیقیت اور گناہوں کا ارتکاب معصیت ہے ۔

حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ہمہ جہت تعلیمات ہر دور میں مسلمانوں کےلیے مشعل راہ رہی ہیں اور یہ تعلیمات آج بھی اہل اسلام کےلیے نشان راہ ہیں اور آنے والے کل میں بھی اپنی اہمیت کو منواتی رہیں گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...