Tuesday, 3 October 2023

مولا علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما بھائی بھائی

مولا علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما بھائی بھائی





محترم قارئینِ کرام : صحابہ کرام و اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم ہمارے ایمان کا محور و مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی ذواتِ ستودہ صفات کا مشکوک ہونا ہمارے اسلام و ایمان کا مشکوک ہونا ہے ۔ ہمارے اکابرین نے ہر دور میں بد اعمالیوں و بد اعتقادیوں کا راستہ روکا ہے ۔ اس بد اعتقادی کا تعلق خارجی و ناصبی افکار کیساتھ ہو یا پھر رافضی و سباٸی افکار کے  ساتھ ۔ آج کل ہر جگہ مسلمانانِ اہلسنت کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان بیان کے بعد ان کی ذات کو رافضیت کی روش پر مطعون کیا جا رہا ۔ اور یہ کوٸی نٸی بات نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے باطل لوگ باطل نظریات کا پرچار اور اسلام کی برگزیدہ ہستیوں کے بارے سب و شتم کرتے رہے ۔ اور علمإ حق قرآن و سنت سے اور ان کی کتب سے ان کا رد اور ان نفوس قدسیہ صحابہ کرام و اہلبیت اطہار کی عظمت و شان بیان کرتے رہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے رافضیوں اور ان کی پیروی میں تفضیلی نے پوسٹ بنائی جوکہ فقیر کی نظر سے گذری وہ یہ کہ معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا دشمن کہتے تھے جبکہ انہیں رافضیوں شیعوں اور ان کی پیروی کرنے والے تفضیلیوں کا معروف مجتہد و معتبر عالم عبد اللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب قرب الاسناد میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے : عن جعفر عن أبيه أن عليا ( عليه السلام ) كان يقول لاهل حربه : إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم ولم نقاتلهم على التكفير لنا ولكنا رأينا أنا على حق ورأوا أنهم على حق ۔
ترجمہ : امام جعفر اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے مدِمقابل (معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم انہیں کافر قرار دے کر جنگ نہیں لڑ رہے اور نہ ہی اس لئے لڑ رہے ہیں کہ وہ ہمیں کافر قرار دیتے ہیں بلکہ ہمارے خیال کے مطابق ہم حق پر ہیں اور اُن کے خیال کے مطابق وہ حق پر ہیں ۔ (قرب الاسناد، باب، احادیث متفرقه، صفحہ نمبر 93 رقم 313 مطبوعہ مؤسسة آلِ بیت احیاء التراث بیروت،چشتی)

جعفر ، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلي الشرك ولا إلي النفاق، ولكنّه كان يقول : هم إخواننا بغوا علينا ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے مدمقابل (معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی ۔ (قرب الاسناد باب احادیث متفرقه صفحہ نمبر 94 رقم 318 مطبوعہ مؤسسة آلِ بیت احیاء التراث بیروت)

خیال رہے کہ اس حدیث کی سند میں حضرت امام جعفر صادق ، حضرت امام باقر اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔ جن کو شیعہ آئمہ معصومین کہتے ہیں اور شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امامِ معصوم ، رسول الله کے برابر ہوتا ہے ۔ چنانچہ شیعہ محدث ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی لکھتا ہے : الآئمة بمنزلة رسول الله ۔ امام رسول اللہ کے برابر ہوتا ہے ۔ (الاصول من الکافي، جلد2، کتاب الحجة، صفحہ270 ، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ، مرتضٰی آخوندی، بازار سلطانی تہران،چشتی)

شیعہ عالم یعقوب الکلینی آئمہ کے بارے مزید لکھتا ہے کہ ابو جعفر علیہ السلام کہتے ہیں : نحن لسان الله و نحن وجه الله و نحن عین الله فی خلقه ۔
ترجمہ : ہم (آئمہ معصوم) الله کی مخلوق میں ، الله کی زبان ، الله کا چہرہ اور الله کی آنکھ ہیں ۔ (الاصول من الکافي، جلد2، کتاب التوحید، صفحہ145، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ، مرتضٰی آخوندی، بازار سلطانی تہران)

شیعہ مذھب کا خاتم المحدثین ملّا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ : پس خدا رسول اور اس کے بعد اہلبیت ہی جملہ ماسویٰ الله پر متصرف و غالب حاکم و بادشاہ اور ھادی و حافظ ہیں اور وہ اس لئے کہ معیارِ ولایت ان کو حاصل ہے باقی انبیاء اور ملائکہ یہ منصب نہیں رکھتے تو غیرِ معصوم جماعت کیونکر اس عہدے (معصومیت) کو لے سکتی ہے ؟ ۔ (جلاءالعیون، جلد 2، صفحہ29، مطبوعہ شیعہ بک ایجنسی انصاف پریس لاھور،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیعہ مجتہدین نے لکھا کہ آئمہ اہلبیت معصوم ہوتے ہیں (اور یہی نظریہ آج کل جہلا پیروں ، ھاہل خطیبوں ، ، نوٹ خوانوں ، نقیبوں ، جاہل شعرا اور تفضیلیوں نے اپنا رکھا ہے) اور رسول اللہ علیہ السّلام کے درجہ کے برابر ہوتے ہیں اور الله کی زبان آنکھ ہوتے ہیں اور انبیاء و ملائکہ سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔ تو یہی امام مولا علی رضی اللہ عنہ فرما رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے مخلص ساتھی ، مشرک و منافق نہیں ہیں بلکہ ہمارے بھائی ہیں ۔ جن کو مولا علی مخلص مومن اور اپنا بھائی کہیں ہم ان کو مخلص مؤمن اور مولا رضی اللہ عنہ کا بھائی کیوں نہ کہیں ؟ ۔ حُبِ علی رضی اللہ عنہ کا یہی تقاضہ ہے کہ قولِ علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کی جائے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ مولا علی رضی اللہ عنہ سے محبت بھی ہو اور ان کی بات بھی نہ مانی جائے ۔

مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرمائیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ میرا بھائی ہے اور مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے دعوے دار کہیں کہ نہیں یا علی سرکار آپ رضی اللہ عنہ سے غلطی ہو گئ معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کا دشمن ہے ۔ (معاذالله)

تو بتاؤ رافضیو اور تفضیلیو ہم مولا علی رضی اللہ عنہ کی مانیں یا تمہاری مانیں ؟

ہم تو علی رضی اللہ عنہ والے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کی مانیں گے ۔

باقی اگر کوئی شیعہ اس روایت سے انکار کرے گا تو خود اپنی نظر میں بھی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ وہ اپنے امامِ معصوم علی علیہ السّلام کے قول کو ٹھکرائے گا ۔

تو ہم مولا علی کی بولی بولیں گے کہ علی معاویہ بھائی بھائی ہیں ۔ رضی اللہ عنہما

خود کو سنی کہنے والے تفضیلی رافضی بھی سن لیں مولا علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اہلسنّت کے عظیم محدّث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاد امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا ہے :

فرمانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا :

جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ مشر ک نہیں ہیں ۔

پوچھنے والے نے کہا : کیا وہ منافق ہیں ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وہ منا فق بھی نہیں ہیں ۔

پوچھنے والے نے کہا: پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟

جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم اخواننا بغواعلینا ، وہ لوگ ہمارے بھائی ہیں ، انہوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1013 عربی،چشتی)،(مصنف ابی شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 734 مکتبہ رحمانیہ لاہور)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا کہ آپ کا انکے متعلق کیا خیال ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے : قتلانا و قتلاھم فی الجنۃ ۔ ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1036)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ اور ان کے ساتھیوں رضی اللہ عنہم کے متعلق فرماتے ہیں نہ وہ منافق تھے نہ مشرک وہ ہمارے بھائی تھے ۔ (مصنف ابی شیبہ جلد 11 صفحہ 734)

جنہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نہ منافق کہیں ، نہ مشرک کہیں بلکہ انہیں اپنا بھائی قرار دیں آج محبت حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے دعویدار کھلے رافضی اور سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی منافق ، کافر ، لعنتی نہ جانے کیا کیا کہیں کیا یہ حب حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا تقاضا ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ اس طرح جہاں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی توہین کر رہے وہیں براہ راست حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو جھٹلا اور ان کی توہین کر رہے ذرا سوچو بغض معاویہ رضی اللہ عنہم تم کس حد تک گر چکے اور اندھے ہو چکے ہو تمہیں فرامین حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بھی پاس نہیں رہا اللہ تمہیں ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین اے نفرتیں پھیلانے والو ۔

ہمارا اس مضمون لکھنے کا مقصد اس مدعا کو ثابت کرنا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں اگرچہ خطاۓ اجتہادی پر تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ داٸرہ اسلام سے خارج ہوگٸے یا پھر فاسق وفاجر ہو گٸے کہ ان کا نام لینا بھی جرم ہوگیا ۔ وہ صحابی رسول تھے ۔ خلیفة المسلین تھے ۔ خال المومنین تھے ۔ کاتب وحی رسول تھے ۔ بیس گورنر اور بیس سال خلیفة المسملمین بن کر کفر کو دھول چٹانے والے تھے ۔ میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں ۔ تمثیلاً عرض ہے کہ زید اور بکر کی کسی مسٸلہ میں لڑاٸی ہو جاتی ہے وہ ایک دوسرے کو گھونسے بھی مارتے ہیں لڑاٸی جھگڑا بھی کرتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ دونوں راضی ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کی تعریف و محامد بھی بیان کرتے ہیں ۔ اور یہاں تک کہ دونوں میں تحاٸف کا سلسلہ بھی چلتا ہے ۔ اس کے بعد ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور وہ اس لڑاٸی کے واقعے کو بنیاد پر بکر یا زید میں سے کسی ایک کیساتھ ہو کر سب و شتم شروع کردے حالانکہ یہاں رضا مندی کیساتھ تحاٸف کا سلسلہ بھی ہے ۔ کیا آپ اس شخص کو عقلمند سمجھیں گے ؟ ۔ بلکل نہیں ۔ آپ اس کو فسادی کہیں گے اور شرپسند کہیں گے ۔

یہی معاملہ حضرت سیدنا علی المرتضی اور سیدنا امیر معاویہ کے درمیان ہوا ۔ سیدنا علی المرتضی حق پر تھے اور سیدنا امیر معاویہ خطإ (رضی اللہ عنہما) پر لیکن سب کچھ ہونے کے بعد ان کا آپس میں راضی ہونا اور ایک دوسرے کی تعریف و محامد بیان کرنا ان کے درمیان خوشگوار ماحول پر دلالت کرتا ہے ۔

حضرت سیدنا مولا علی المرتضی اور اہلبیت اطہار  رضی اللہ تعالی عنہم کے چند مزید اقوال اہلسنت اور اہل تشیع کی کتب سے عرض کرتا ہوں جن کو پڑھ کر آپ کو سکون قلبی حاصل ہوگا اور سیدنا امیر معاویہ کی ذات آپ کو مشکوک نہیں لگے گی بلکہ  حضرت مولاٸے کاٸنات رضی اللہ عنہما کی زبان سے سن کر ان کی ذات کے حوالے سے جمیع شکوک و شبہات رفع ہوجاٸیں گے  ان شاء اللہ ۔

اہل تشیع کی کتب

عن جعفر عن ابیہ ان علیا علیہ السلام لم یکن ینسب احدا من اہل حربہ الی الشرک ولا الی النفاق ولکن یقول ھم اخواننا بغوا الینا ۔
ترجمہ ۔ حضرت امام جعفر صادق اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی اپنے ساتھ جنگ کرنے والوں میں سے کسی کو بھی شرک و کفر کی طرف منسوب نہیں کرتے  تھے اور نہ ہی ان کو منافق کہتے صرف اتنا کہتے کہ وہ ہمارے بھاٸی ہیں انہوں نے ہم سے زیادتی کی ہے ۔ (قرب الاسناد لابی العباس عبداللہ بن جعفر القمی صفحہ ٤٥ مطبوعہ تہران)

دوسری روایت بھی اسی کتاب میں الفاظ کی کمی و بیشی کیساتھ موجود ہے جیسا کہ اوپر ہم لکھ کر آۓ ہیں ۔

تیسرے نمبر پر جنگ صفین کے اختتام پر حضرت علی کا وہ فیصلہ جو آپ نے  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اور آپ کے رفقإ کے متعلق مختلف ممالک اسلامیہ کو روانہ کیا آپ فرماتے ہیں کہ ہماری اس لڑاٸی کی ابتدإ جو اہل شام کیساتھ واقع ہوٸی ۔ کیا تھی ؟ حالانکہ یہ بات ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہے رسول ایک ہے دعوت اسلام ایک ہے  ہم خدا پر ایمان لانے اس کے رسول کی تصدیق کرنے میں ان پر کسی فضیلت کے خواہاں نہیں نہ وہ ہم پر فضل و زیادتی کے طلب گار ہیں ۔ ہماری حالتیں بلکل یکساں ہیں مگر وہ اس لڑاٸی کی ابتدا یہ ہوٸی کہ خون عثمان رضی اللہ عنہ میں اختلاف پیدا ہوگیا حالانکہ ہم اس سے بری تھے ۔ (نیرنگ فصاحت ترجمہ نہج البلاغہ صفحہ ٤٦٧ مطبوعہ یوسفی دہلی)

اہلبیت اطہار اور مولاٸے کاٸنات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کو نہ کافر کہیں نہ منافق کہیں نہ فاسق و فاجر کہیں ۔ اگر کہیں تو اپنا بھاٸی کہیں ۔ اسی لیے تو سنی مسلمان بھی کہتے ہیں :

علی و معاویہ
بھاٸی بھاٸی ۔ رضی اللہ عنہما

اور جن کے دل میں کجی ہے وہ دشمن ثابت کرتے رہیں ۔

کتب اہلسنت سے دلاٸل

قال الحارث الاعور سٸل عن علی ابن طالب و ھم القدوة عن قتال اھل البغی من اھل الجمل و صفین ، امشرکون ھم ، قال لا من الشرک فروا ، فقیل امنافقون قالا لا لان المنافقین لا یذکرون اللہ الا قلیلا ، قیل لہ فما حالھم قال ، اخواننا بغوا علینا ۔ (تفسیر قرطبی جز ١٦ ص ٣٢٤ سورہ حجرات زیر آیت انما المومنون اخوة مطبوعہ قاہرہ،چشتی)(السنن الکبری للبیہقی ج ٨ ص ١٧٣مطبوعہ مکہ مکرمہ)
ترجمہ : حضرت علی سے جب جنگ جمل اور صفین کے بارے پوچھا گیا کہ جنھوں نے آپ سے بغاوت کی وہ مشرک تھے فرمایا نہیں پھر پوچھا منافق تھے فرمایا نہیں پھر پوچھا آپ نے کے بارے کیا کہتے ہیں ۔ فرمایا وہ ہمارے بھاٸی ہیں انھوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ۔

عن یزید بن الاصم قال قال علی رضی اللہ عنہ قتلای و قتلی معاویہ فی الجنة ۔ رواہ الطبرانی و جالہ وثقوا ۔ (مجمع الزواٸد جلد ٥ جز ٩ ص ٣٥٧ مطبوعہ مصر)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان لڑاٸی میں قتل کرنے والے اور شہید ہونے والے تمام جنتی ہیں ۔

اندازہ کیجیے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ان کو جنتی کہیں اور آج کا رافضی اور ان کی پیروی میں تفضیلی نیم رافضی ان کو جہنمی کہیں سوچیے اور بار بار سوچیے ۔

امام بخاری کے دادا استاد علیہما الرّحمہ کہیں کہ سیدنا بوبکر رضی اللہ عنہ کو افضل اس لیے مانتا ہوں کہ میرے مولا علی رضی اللہ عنہ نے افضل مانا ہے اگر افضل نہ مانوں تو مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں جھوٹا پڑتا ہوں ۔
امام بخاری کے دادا استاد علیہما الرّحمہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں آپ کی بات کو مانتے ہوٸے مولا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو افضل کہیں لیکن یہ رافضی اور ان کے پیروار تفضیلی نیم رافضی معلوم نہیں کیسے عاشق ہیں جو مولا علی رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنتی کہنے کی بجاٸے جہنمی کہہ رہے ؟

حارث بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ صفین سے واپس آٸے تو آپ نے ایسی باتیں فرماٸیں جو اس سے پہلے نہیں فرماتے تھے ۔ آپ نے فرمایا اے لوگو معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو ناپسند نہ کرنا اللہ کی قسم اگر تم نے ان کو گم کردیا تو تمہارے کندھوں سے تمہارے سر حنظل کی طرح گرنے لگیں گے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ٣٧٨٤٣)(کنزالعمال رقم الحدیث ٣١٧٠٤)(تاریخ دمشق ج ٦٢ ص ١٠٦،چشتی)

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے اس شخص نے بتایا جو جنگ صفین موجود تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی رات باہر نکلے تو آپ نے اہل شام کی طرف منہ کرکے یہ دعا کی کہ : اے اللہ میری مغفرت فرما اور ان کی مغفرت فرما پھر حضرت عمار لاٸے گٸے تو ان کے لیے بھی دعا کی گٸی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

یزید بن اصم بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ہمارے مقتول اور ان کے مقتول جنت میں ہیں اور یہ ہمارا معاملہ میرے اور معاویہ کی طرف سونپ دیا جاٸے گا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)(کنز العمال)(تاریخ دمشق)

سنن سعید بن منصور کے حوالے سے ایک لمبی روایت ہے جس میں مولا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان موجود ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جو ہم میں سے اور ان میں سے اللہ کی رضا اور آخرت کے لیے لڑتا ہوا قتل کیاگیا وہ جنت میں ہے ۔

آخر میں میں پوچھتا ہوں ان نام نہاد محبانِ مولا علی رضی اللہ سے جو اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کے ٹھیکیدار بنے ہوٸے ہیں کہ جب مولا علی رضی اللہ عنہ ان کو نہ کافر و مشرک کہیں اور نہ ہی منافق کہیں بلکہ فسق و فجور کا حکم بھی نہ لگاٸیں اور یہ چودھویں صدی کے دو ٹانگوں والے رافضی اور ان کے پیروکار تفضیلی نیم رافضی بکواسات در بکواست کرتے جاٸیں ۔ یہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت نہیں بلکل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بغض ہے ۔ جن سے لڑاٸی ہوٸی وہ مخالفت میں کچھ نہ کہیں بلکہ تعریف کریں ۔ ان کے خاندان کے لوگ بھی تعریف کریں ۔ تو پھر ان کی مخالفت کرنے والا خود کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کا غلام کہے وہ جھوٹا ہے ۔ جھوٹا ہے ۔ جھوٹا ہے ۔

اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رافضیوں شیعوں اور ان کے پیروکار تفضیلی نیم رافضیوں کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔ اب رافضی اور تفضیلی رافضی سینہ کوبی کریں یا اپنے امام پر تبرا لعن طعن یا جو کرنا ہے کریں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...