حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مجتہد تھے یا مقلد
محترم قارٸینِ کرام : آج کل غير مقلدين سادہ لوح عوام مسلمین كو گمراه كرنے كے ليے یہ دريافت كرتے ہيں كہ سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كس كے مقلد تھے ؟ وه كس مذهب پر تھے ؟ پھر وه یہ ذهن ديتے ہيں كہ وه مقلد نہيں تھے تا كہ عوام كو يہ باور كرا سكيں كہ جيسے وه مقلد نہيں تھے ويسے یہ بھی مقلد نہيں ہيں ، اس ليئے ہم سب سے پہلے اپنے قارئين كرام پر مختصراً یہ واضح كر ديں كہ سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كبھی بھی غير مقلد نہيں تھے ، بلکہ سلف سے خلف تک كبھی یہ بلا نہيں پائی گئی ۔ وه حضرات اگر علوم ميں رسوخ و كمال و عنايت خداوندی سے درجہ اجتہاد تك پہنچ جاتے تو مجتہد ہوتے اور اگر اس درجہ عليا تك رسائی نہ ہو پاتی تو مقلد ہوتے ، تاريخ فقہ و اجتہاد ميں ايسی نظير نہيں ملتی كہ جو لوگ اجتہاد كي نعمت سے محروم ہوں وه راسخين فی العلم سے بے نياز ہو كر تقليد سے آزادی كے دعوے دار ہو جائيں ۔
واضح ہو كه غير مقلد اسے نہيں كہتے جو تقليد نه كرے بلكه اسے كهتے هيں جو مجتهد نه هو اور تقليد نه كرے ۔ آج كے زمانے ميں جنھيں غير مقلد كها جاتا هے وه يا تو جاهلِ مطلق هوتے هيں يا كچھ پڑھے لكھے ، اجتهاد كي صلاحيت ان ميں قطعاً نهيں پائي جاتي پھر بھي وه تقليدِ ائمه كے دشمن بنے هوئے هيں كيوں كه نه صرف يه كه وه تقليد نهيں كرتے بلكه تقليد ائمه مجتهدين كو شرك كهتے هيں ۔
سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كي حيات طيبه ميں تقليد اور اجتهاد دونوں كے نمونے پائے جاتے هيں ، پهلے آپ مقلد تھے پھر الله تعاليٰ نے آپ كو قطبيت كبري كي نعمت سے سرفراز فرما كر اجتهاد مطلق كے منصب پر فائز فرما ديا، اور ايسا كبھي نهيں رها كه آپ مجتهد بھي نه هوں اور مقلد بھي نه هوں جيسا كه آج كل كے غير مقلدين كا يهي حال هے۔ هم اپني بات كو واضح كرنے كے ليے كچھ شواهد پيش كرتے هيں : غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سيدنا امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كے مقلد تھے جيسا كه آپ نے فرمایا : هو مذهبُ مامِنا حمدَ بنِ محمّد بنِ حنبل رحمه اللّٰه تعاليٰ ۔ (غنیۃ الطالبین 45 2 غیر مقلدین کی پسندیدہ کتاب۔چشتی)
اور يہی ہمارے امام احمد بن محمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مذهب هے ۔ عند مامنا حمد رحمه الله تعاليٰ ﴿45 2﴾ يه همارے امام احمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مسلك هے ۔ وَقَد نَصَّ ال مامُ حمدُ رحمه اللّٰه۔ ﴿43 1﴾ امام احمد رحمه الله تعاليٰ نے يه صراحت فرمائي هے ۔ لانَّ الا مام حمدَ بنَ حَنبل قال ﴿47 1﴾ اس ليے كه امام احمد نے فرمايا ۔ لا نّه رُوي نّ الامام حمدَ بنَ حنبل قال ۔ اس ليے كه امام احمد بن حنبل سے يه روايت هے كه آپ نے فرمايا ۔
اس طرح كي عبارات غنيۃ الطالبين غیر مقلدین کی پسدیدہ کتاب ميں بے شمار مقامات پر ہيں جن سے عياں هوتا هے كه آپ سيدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ الله عليه كے مقلد تھے، كيوں كه اپنے بيان كرده مسائل كو ان كي طرف منسوب كرنا، ان كے مذهب كو نقل كركے اسے بر قرار ركھنا، اسے اختيار كرنا اور ان سے استناد فرمانا شان تقليد هے۔ مقلد كا كام هے نقل مذهب، اور اس كي دليل هے قول امام، اس كے مظاهر غنيۃ الطالبين ميں كھلي آنكھوں سے جا بجا مشاهده كيے جا سكتے هيں، يهاں تك كه آپ نے ايك مقام پر امام ممدوح عليه الرحمه كے مذهب پر هي وصال پانے كي دعا فرمائي هے۔ الفاظ يه هيں :قال ال مام بو عبدِ اللّٰه حمدُ بنُ محمّدِ بنِ حنبل الشّيباني رحمه اللّٰه و مَاتَنَا علي مذهبه صلًا و فرعًا وحَشَرَنا في زُم رَتِه يه قول امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل شيباني كا هے الله عز و جل ان پر رحم فرمائے اور هميں ان كے مذهب كے اصول و فروع پر وفات دے، اور قيامت كے دن هميں ان كے زمرے ميں اٹھائے۔﴿105 2غنيۃ﴾
يه هے مكمل تقليد ۔ مزيد اطمينان كے ليے درج ذيل شواهد بھي ملاحظه فرمائيں۔ شذرات الذهب ميں هے : ثم تفقه في مذهب الامام احمد بن حنبل علي ابي الوفائ بن عقيل و بي الخطاب و بي الحسين محمد بن القاضي بي يعلي والمبارك المخرمي ۔ وقال ابن السمعاني ھو امام الحنابلۃ وشيخھم في عصره فقيه صالح ۔
آپ نے ابو الوفا بن عقيل اور ابو الخطاب اور ابو الحسين محمد بن قاضي ابو يعلي اور مبارك مخرمي سے مذهب امام احمد بن حنبل كي فقه حاصل كي اور سمعاني فرماتے هيں كه آپ اپنے زمانے ميں حنابله كے امام اور شيخ تھے۔﴿ شذرات الذهب في اخبار من ذهب للمو رخ الفقيه عبد الحئي الحنبلي،ص:199 200۔چشتی﴾
اور سير النبلا ميں آپ كو حنبلي اور عبر ميں مدرس حنابله لكھا هے۔ قاضي القضاۃ محب الدين عليمي نے اپني تاريخ ميں آپ كو حنابله كا امام اور شيخ لكھا هے۔ ايسا هي قلائد الجواهر مشموله سر الاسرار،ص:192 193ميں هے۔ ان تصريحات سے بخوبي واضح هو جاتا هے كه حضور غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه مقلد تھے، غير مقلد نه تھے ۔
فقها كے تين طبقات هيں : ﴿١﴾ مجتهدِ مطلق ﴿٢﴾ مجتهدِ مذهب ﴿٣﴾ مقلد پھر مقلد كے بھي اعليٰ، اوسط، ادنيٰ مختلف مدارج هيں ۔
جس فقيه كو الله تبارك و تعاليٰ نے يه كمالِ علمي عطا فرمايا هے كه وه كتاب و سنت سے مسائل شرعيه كے استنباط كے ليے جامع اصول وضع فرمائيں، اور تمام دلائل پر گهري نظر ركھتے هوئے استنباط احكام فرمائيں، وه ٫٫مجتهد مطلق٬٬ كے نام سے موسوم هوتے هيں جيسے امام اعظم ابو حنيفه ، امام مالك، امام شافعي، امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنهم ۔
اور جس فقيه كو الله عز وجل نے اس حد تک وسعتِ علمي عطا فرمائي هے كه وه مجتهد مطلق كے بيان كرده اصولوں كے پيش نظر فروعي احكام كا استنباط فرمائيں، مگر انھيں اصول وضع كرنے كي استطاعت نه هو وه ٫٫مجتهدِ مذهب٬٬ كهلاتے هيں۔ جيسے امام اعظم كے اصحاب امام ابو يوسف و امام محمدبن حسن، امام زفر وغيره رضي الله تعاليٰ عنهم ۔
اور جس فقيه كو دونوں پر قدرت نه هو وه مقلد هوتے هيں جيسے امام قاضي خاں، صاحب هدايه وغيرهما رحمهم الله تعاليٰ ۔
مذهب حنبلي كے اصول و فروع پر وفات پانے ٬٬كا لفظ اس بات كي شهادت ديتا هے كه يه جمله تحرير فرماتے وقت حضرت سيدي غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه اجتهاد كے منصب پر فائز نه تھے اس ليے آپ اصول و فروع دونوں ميں سيدنا امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كے مقلد تھے ۔
محقق علي الاطلاق شيخ عبد الحق محدث دهلوي رحمۃ الله عليه زبدۃ الآثار ميں رقم طراز هيں : آپ كي خدمت ميں دنياے اسلام كے هر شهر سے استفتا آيا كرتے تھے، جس پر آپ كي آخري راے طلب كي جاتي تھي۔ آپ فقهي مسائل ميں امام شافعي اور امام احمد بن حنبل كے مسلك پر فتوي ديا كرتے تھے ۔ صاحب بهجۃ الاسرار فرماتے هيں كه آپ مجتهد في المذهب تھے، آپ اجتهاد كرتے تھے، آپ كا اجتهاد كبھي مسلك شافعي پر هوتا اور كبھي مسلك حنبلي پر۔ يه مشهور هے كه آپ مذهب حنبلي پر تھے اور بغداد ميں اكثريت علماے حنابله كي هي تھي، چوں كه امام احمد بن حنبل بھي بغداد ميں رهے اس ليے ان كي تعليمات كا اثر زياده تھا۔ آپ كا مقبره بغداد ميں هي هے۔ پهلے امام شافعي رضي الله تعاليٰ عنه بھي بغداد ميں رهے پھر حضرت امام احمد بن حنبل كو بغداد چھوڑ كر خود مصر چلے گئے۔ آپ ﴿حضور غوث اعظم ﴾ حضرت امام احمد بن حنبل كے بڑے مداح تھے ۔ ﴿زبدۃ الآثار تلخيص بهجۃ الاسرار، مترجم ص36 37﴾
اس عبارت سے چند باتيں معلوم هوئيں
﴿1﴾ آپ حنبلي مذهب پر تھے ۔
﴿2﴾ امام شافعي اور امام احمد بن حنبل كے مسلك پر فتوي ديتے تھے، اس كي وجه يه تھي كه سوال كرنے والے كبھي شافعي مذهب كے هوتے، كبھي حنبلي مذهب كے۔ شافعي مذهب كے مقلد كا سوال آتا تو شافعي مذهب پر جواب ديتے اور حنبلي مذهب كے سوال كا جواب حنبلي مذهب پر ديتے، جيسا سوال ويسا جواب ۔
﴿3﴾ مجتهد في المذهب تھے يه درجه ولايت پر فائز هونے كے بعد كا حال هے جيسا كه هم عن قريب واضح كريں گے۔ ان شائ الله تعاليٰ ۔
رئيس المحدّثين حضرت مُلّا علي قاري عليه رحمۃ الباري نے بھي يه تصريح كي هے كه ٫٫سركار غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه حنبلي مذهب ركھتے تھے ۔ (زبدۃ الآثار تلخيص بهجۃ الاسرار، مترجم ص22۔چشتی)
غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مجتهد مطلق تھے: يه آپ كے عنفوان شباب كا حال هے ۔ بعد ميں جب آپ كو بارگاه احديت كي طرف سے قطبيت كبري اور غوثيت عظمي سے نواز ا گيا اور معرفت الٰهي كے ساتھ آپ كو كشف كامل عطا كيا گيا جس سے آپ پر كتاب و سنت كے علوم و معارف ، اور اهل حقائق و ارباب اجتهاد كے اسرار اور مدارك كھل گئے تو آپ خود منصب اجتهاد پر فائز هو گئے ۔
كيوں كه وليِ كامل ، جيسا كه اكابرِ امت نے تصريح فرمائي هے، مذهب معين كي تقليد پر مامور نهيں هوتا۔ وه اپنے كشف كي وجه سے مقام يقين ميں مجتهد كے مساوي و برابر هوتا هے، بلكه بسا اوقات اس كا يقين بعض اهل اجتهاد سے زياده هوتا هے، وه اپنا علم شريعت كے سر چشمه كتابِ الٰهي سے اخذ كرتا هے جهاں سے اربابِ اجتهاد اخذ كرتے هيں، اور اسے قرآن مقدس كے ان تمام مواقع كي معرفت حاصل هوتي هے جو احاديث نبويه كے مآخذ هوتے هيں، اس ليے وه علماے امت كي تقليد كے بجاے صرف صاحبِ شريعت كي تقليد كرتا هے ۔
عارف صمداني، قطب رباني سيدي امام عبد الوهاب شعراني رضي الله تعاليٰ عنه اپني كتاب مستطاب ٫٫ميزان الشريعۃ الكبري٬٬ ميں اس امر كي وضاحت كرتے هوئے رقم طراز هيں : فمن اطلع علي ذلك من طريق كشفه ر يٰ جميع المذاهب و قوالَ علمائها متّصلۃً بِعَينِ الشريعۃ، و شارعۃً ليها كاتّصالِ الكفّ بال صابع والظلّ بالشّاخِص ومثل هذا لا يومر بالتعبّد بمذهب معين لشهوده بتساوي المذاهب في ال خذ من عينِ الشريعۃ و نّه ليس مذهب ولي بالشّريعۃ من مذهب ل ن كل مذهب عنده متفرع من عين الشريعۃ وصاحبُ هذا الكشف قد ساوي المجتهدين في مقام اليقين، وربّما زاد علي بعضهم لاغتراف علمه من عين الشريعۃ ولا يحتاج لي تحصيل آلات الاجتهاد الّتي شرطوها في حق المجتهد ﴿ص14، ج1﴾
جو ولي اپنے كشف كے ذريعه شريعت كي اس ميزان پر مطلع هو جائے وه يه مشاهده كرتا هے كه تمام مذاهب اور علما كے اقوال شريعت كے چشمے سے جُڑے هوئے هيں اور سب كے سب اسي كي طرف به رهے هيں، اس چشمے كے ساتھ مذاهب كا اتصال ايسا هي هے جسے انگليوں كے ساتھ هتھيلي اور جسم كے ساتھ سائے كا اتصال هوتا هے۔ ايسا صاحب كشف ولي كسي مذهبِ معين كي تقليد پر مامور نهيں هوتا، كيوں كه وه ديكھ رها هوتاهے كه سارے مذاهب ، شريعت كے سر چشمه قرآن سے ماخوذ و مستند هونے ميں هم رتبه هيں، اور اس حيثيت سے كوئي بھي مذهب دوسرے مذهب سے افضل نهيں هے، كيوں كه اس كي نگاه ميں هر مذهب شريعت هي كے چشمے سے پھوٹا هوا ايك سوتا هے يه صاحب كشف ولي مقام يقين ميں مجتهد كے مساوي هوتا هے، بلكه بسا اوقات يقين ميں بعض مجتهدين سے زياده هوتا هے كيوں كه يه اپنے علم كا اكتساب شريعت كے منبع سے كرتا هے اور اجتهاد كے ان آلات كے حاصل كرنے كا محتاج نهيں هوتا جو مجتهد كے ليے شرط اور ضروري هيں ۔
نيز اسي مفهوم كو انھوں نے ايك دوسرے مقام پر اپنے مخصوص انداز بيان ميں اس طرح واضح كيا هے : اگر تم كهو كه جو شخص شريعت كے سر چشمه ﴿قرآن كے علوم و معارف ﴾ پر مطلع هو جائے وه منبعِ شريعت سے اكتساب علم كرنے ميں مجتهد كا شريك هوتا هے اور اسے تقليد كا حكم نهيں هوتا، تو جواب يه هے كه واقعه ايسا هي هے، كيوں كه جس كے ليے بھي ولايتِ محمدي ثابت هو جائے وه احكام شرع كو وهيں سے اخذ كرتا هے جهاں سے اهلِ اجتهاد اخذ كرتے هيں، اور وه علما كي تقليد كے بجاے رسول الله صلي الله تعاليٰ عليه وسلّم كي تقليد كرتا هے ۔ ﴿ص26، ج 1﴾
اسي كتاب ميں ايك دوسرے مقام پر وليِ كامل كي پهچان اس طرح كرائي گئي هے : لا يبلغ الوليُّ مقامَ الكمال لّا ن صار يعرف جميع منازعِ ال حاديث الواردۃ عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه تعاليٰ عليه وسلّم، ويعرف من ين خَذَها الشّارِعُ من القرآن العظيم ف نّ اللّٰه تعاليٰ قال: ٫٫مَا فَرَّط نَا فِي ال كِتَابِ مِن شَي ئ ٬٬ فجميع ما بَ ےَّ نَ ت ه الشريعۃُ من ال حكام هو ظاهر الم خذ للولي الكامل من القرآن كما كان عليه ال ئمّۃ المجتهدون ولولا معرفتهم بذلك ما قدروا علي استنباط ال حكام الّتي لم تُصرِّح بها السُّنّۃ ۔
وليِ كامل مقام كمال كو اس وقت پهنچتا هے جب وه رسول الله صلي الله عليه وسلم كي ساري احاديث كے ايك ايك ماخذ كا عارف هو جائے، اور يه جان لے كه شارع عليه الصلاۃ والسلام نے قرآن عظيم سے ان احاديث كو كهاں سے اخذ فرمايا هے۔ كيوں كه الله عز وجل كا ارشاد هے كه ٫٫هم نے قرآن ميں كوئي بھي چيز اٹھا نه ركھي٬٬ ۔ وليِ كامل كے ليے تمام احكام شرع كا ظاهرِ ماخذ قرآن مقدس هے جيسا كه ائمه مجتهدين كے ليے احكام شرع كا ماخذ قرآن مقدس هے۔ اگر انھيں اس ماخذ پر آگاهي نه هوتي تو سنت نبويه ميں جن احكام كي تصريح نهيں هے، ان كے استنباط پر قادر نه هوتے ۔
اس تفصيل سے يه امر بخوبي واضح و روشن هو گيا كه وليِ كامل كي شان تقليد سے بالا تر هے كيوں كه يه خود مجتهد هوتا هے، اور شريعت كے سر چشمه قرآن سے احكام اخذ كرتا هے ۔
اور يه بھي ايک مسلم الثبوت حقيقت هے كه غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، الله تعاليٰ كے بڑے جليل القدر كامل و اكمل ولي تھے، آپ كي شان مرتبه كمال ميں تمام اولياے كاملين سے بالا تھي، اسي ليے آپ نے ارشاد فرمايا: ٫٫قَدَمي هٰذِه عَلَيٰ رَق بَۃِ كُلِّ وَلِيِّ اللّٰه٬٬ ميرا يه قدم تمام اوليائ الله كي گردن پر هے۔ اور يهي وجه هے كه جب اس اعلان كي شهرت كائنات ارضي كے مشايخِ وقت تك پهنچي تو متقدمين نے اس اعلان كے سامنے سر تسليم خم كر ديا، معاصرين كي گردنيں، جھك گئيں، اور دنيا كے تمام مشائخ خواه حاضر تھے يا غائب، چھوٹے تھے يا بڑے، مشرق ميں تھے يا مغرب ميں، هر ايك نے تصديق اور تائيد كي۔ اس ليے آپ بلا شبهه مجتهد تھے اور فقهي مسائل ميں اپنے اجتهاد پر عمل كرتے تھے۔ البته آپ كا اجتهاد كبھي حنفي مذهب كے مطابق هوتا اور كبھي مالكي، شافعي يا حنبلي كے موافق هوتا، اس ليے آپ چاروں مذاهب پر فتوي ديتے تھے ۔
اور حضرت ملا علي قاري ، نيز غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كے دوسرے تذكره نگاروں نے جو يه انكشاف كيا هے كه : آپ حنبلي المذهب تھے، ليكن اپنے زمانه ميں چاروں مذاهب ﴿حنفي، شافعي، مالكي و حنبلي﴾ پر فتوي ديا كرتے تھے ۔ ﴿نزهۃ الخاطر الفاتر ص22﴾
اس كا مطلب يه هے كه سائل جس مذهب كا مُقلِّد هوتا اسي كے مطابق آپ فتوي صادر كرتے۔ يه مطلب نهيں هے كه آپ هر امام كے مذهب پر عمل كرتے تھے جيسا كه غير مقلدين زمانه نے سمجھا۔اور منصبِ اجتهاد پر فائز هونے كے بعد آپ كا اجتهاد انھيں چاروں مذاهب ميں سے كسي كے موافق هوتا تو آپ فتوي اپنے اجتهاد كے مطابق صادر كرتے مگر اسي كے ساتھ ائمه اربعه ميں سے كسي امام كي موافقت بھي هو جاتي۔ آپ كا اجتهاد كبھي چاروں مذاهب سے باهر نه هوتا ۔
بسا اوقات ايسا بھي هوتا هے كه ولي كامل اجتهاد كے منصب پر پهنچ جاتا هے اور اپنے هي اجتهاد پر عمل بھي كرتا هے ليكن جس امام كي وه پهلے تقليد كر چكا هے اس كے ادب ميں وه اپنے آپ كو مقلد ظاهر كرتا هے يا اس كا اجتهاد امام مجتهد كے موافق هوتا هے امام شعراني فرماتے هيں : اگر تم يه كهو كه وليِ كامل بلا شبهه كسي امام كا مقلد نهيں هوتا وه اپنا علم اسي چشمے سے اخذ كرتا هے جهاں سے مجتهدين كے مذاهب كے سوتے به رهے هيں حالاں كه هم ديكھتے هيں كه كچھ اوليا بعض ائمه كي تقليد كرتے هيں۔ تو جواب يه هے كه بعض اوليا كي يه تقليد اس كے مقام كمال تك پهنچنے سے پهلے هوتي هے يا وه اس منصب پر پهنچ چكا هوتا هے ليكن اس مسئله ميں اپنے آپ كو بعض ائمه كے ادب ميں ان كے مذهب كا مقلد هونا ظاهر كرتا هے حالاں كه اس ولي كا عمل اس مجتهد كے قول پر اس ليے هوتا هے كه اس كي دليل پر مطلع هوتا هے اس كے قول پر از راه تقليد عمل كرنے كے ليے ايسا نهيں كرتا، بلكه اس وجه سے ايسا كرتا هے كه مجتهد كا قول اس ولي كے كشف و اجتهاد كے موافق اترتا هے تو حاصلِ كلام يهي هوا كه يه ولي صرف شارع عليه السلام كي تقليد كرتا هے بلكه اس مقام پر هر ولي صاحب شريعت حضور انور صلي الله تعاليٰ عليه وسلم هي سے علم اخذ كرتا هے اور جس مسئلے ميں وه اپنے سامنے اپنے نبي كے قدم كا مشاهده نه كرے اس پر ايك قدم چلنا بھي حرام سمجھتا هے۔ ﴿ص28 29﴾
اور خاص سركار غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق امام شعراني فرماتے هيں كه : وقد قلتُ مرّۃً لِسےّدي علي الخوّاص رضي اللّٰه تعاليٰ عنه : كيف صحّ تقليدُ سےّدي الشيخ عبدِ القادر الجيليّ لل مام حمد بن حبنل و سےّدي محمد الحنفي الشاذلي لل مام بي حنيفۃ مع اشتهارهما بالقطبيۃ الكبريٰ وصاحبُ هذا المقام لا يكون مقلّدًا لّا للشارع وحده۔؟ فقال رضي اللّٰه عنه: وقد يكون ذلك منهما قبل بلوغهما لي مقام الكمال ثم لمّا بلغا ليه استصحب الناسُ ذلك اللقب في حقهما مع خروجهما عن التقليد انتهي فاعلم ذلك ﴿مقدمۃ ميزان الشريعۃ ص29۔چشتی﴾
ميں نے اپنے شيخ سيدي علي خوّاص رضي الله تعاليٰ عنه سے ايك مرتبه دريافت كيا كه سيدي شيخ عبد القادر جيلي كا امام احمد بن حنبل كي اور سيدي شيخ محمد حنفي شاذلي كا امام ابو حنيفه كي تقليد كرنا كيو ں كر درست هے جب كه يه حضرات قطبيت كبريٰ كے ليے مشهور هيں اور ايسے مرتبه كے ولي صرف شارع كي تقليد كرتے هيں؟ تو انھوں نے فرمايا كه يه دونوں بزرگ مقام كمال تك رسائي حاصل كرنے سے پهلے تقليد كرتے تھے پھر جب يه حضرات اس مقام رفيع پر فائز هو گئے تو لوگوں نے ان كے حق ميں اسي لقب كو باقي ركھا حالاں كه يه تقليد كے حكم سے بالا تر هو كر مجتهد هو چكے تھے ۔
اعلي حضرت امام احمد رضا عليه الرحمۃ والرضوان نے ايك دوسري توجيه فرمائي هے جو بجاے خود بهت نفيس هے۔ رقم طراز هيں : حضور ﴿غوث پاك﴾هميشه سے حنبلي تھے اور بعد كو جب عينُ الشريعۃ الكُبري تك پهنچ كر منصب اجتهاد مطلق حاصل هوا، مذهب حنبلي كو كمزور هوتا هوا ديكھ كر اس كے مطابق فتوي ديا كه حضور محي الدين هيں اور دين متين كے يه چاروں مذاهب ﴿مذهب حنبلي و مذهب حنفي وغيرهما﴾ ستون هيں۔ لوگوں كي طرف سے جس ستون ميں ضعف آتا ديكھا اس كي تقويت فرمائي۔ ﴿فتاوي رضويه دوازدهم ص227﴾
نيز فرماتے هيں : حضرت سيدنا غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه محي الدين هيں، اِحياے دين كے ليے قائم كيے گئے﴿﴿١﴾زبدۃ ا لآثار ميں هے: وجه تسميه مشايخ قادريه بيان كرتے هيں كه لوگوں نے آپ سے ٫٫محي الدين٬٬ لقب كي وجه دريافت كي تو آپ نے فرمايا: ٫٫ميں ايك دفعه ايك لمبے سفر سے بغداد كي طرف لوٹ رها تھا، ميرے پاو ں ننگے تھے۔ مجھے اس نے سلام كيا ميں نے ٫٫وعليكم السلام٬٬ كها تو مجھے كهنے لگا كه ميرے قريب هو جاو ۔ ميں نزديك هوا تو مجھے كهنے لگا: مجھے اٹھاو ۔ ميں نے اُسے اٹھا كر بٹھاياتو اس كا جسم اچھا توانا نظر آنے لگا اور اس اس كے چهرے پر رونق نظر آنے لگي مجھے اُس نے پوچھا كيا تم مجھے پهچانتے هو؟ ميں نے نفي ميں جواب ديا تو كهنے لگا: مَيں تمھارا دين هوں جو اس قدرنحيف و نزار هو گيا تھا چنانچه آپ نے ديكھ ليا هے كه آپ كي وجه سے مجھے الله تعاليٰ نے از سر نو زندگي بخشي هے۔ آج سے تمھارانام ٫٫محي الدين ٬٬ هوگا ۔
جب ميںجامع مسجد كي طرف واپس آيا تو مجھے ايك شخص ملا اور مجھے كهنے لگا: يا سےّد محي الدين۔ ميں نے نماز ادا كي تو لوگ ميرے سامنے ادبًا كھڑے هو گئے اور هاتھوں كي بوسه دينے لگے اور زبان سے ٫٫يا سےّد محي الدين٬٬ پكارتے جاتے تھے حالاں كه اس سے پهلے كوئي بھي مجھے اس لقب سے نهيں پكارتا تھا۔ ﴿ص38﴾ايسا هي نفحات الانس من حضرات القدس ميں بھي هے۔﴾
اور مذهب حنبلي اسلام كا رُبع ﴿چوتھائي حصه﴾ هے حضور سيد المرسلين صلي الله تعاليٰ عليه وسلم نے سيدنا امام احمد بن حبنل رضي الله تعاليٰ عنه سے فرمايا: جَعَل تُك رُبُعَ ال سلام هم نے تمھيں اسلام كا چهارم بنايا۔يه مذهب ختم هونے كے قريب تھا لهذا اس كے احيا كے ليے اس پر افتا فرماتے ۔ ﴿فتاوي رضويه ص33، ج11﴾
اس وضاحت سے امام احمد رضا عليه الرحمه نے يه اشاره بھي فرما ديا كه مذهب حنبلي كي موافقت اس كے احيا كے ليے فرمائي، اس ليے نهيں كه مذهب حنفي ضعيف هے بلكه يه تو دلائل كے لحاظ سے قوي هے اور حضرت امام اعظم رضي الله تعاليٰ عنه كو ائمه ثلثه پر شرف تابعيت بھي هے جس كي وجه سے اسے يه خاص شرف بھي حاصل هے ۔
خلاصه كلام يه كه : حضور سيدي غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه ابتدائً مقلد تھے، حضرت امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كي تقليد كرتے تھے بعد ميں جب الله تعاليٰ نے آپ كو قطبيت كبريٰ كے منصب پر فائز فرما كر اجتهاد مطلق كي نعمت سے شرف ياب فرمايا تو آپ كتاب الله و سنت رسول الله سے خود استنباطِ احكام فرماتے اور اس كے مطابق فتاوي صادر فرماتے كه مجتهد مطلق اسي كا مكلف هے اس كے ليے تقليد روا نهيں ۔
هاں آپ كا اجتهاد ائمه اربعه رضي الله تعاليٰ عنهم ميں سے هي كسي كے اجتهاد كے موافق هوتا كبھي امام اعظم ابو حنيفه كے، كبھي امام مالك كے ، كبھي امام شافعي كے، اور زياده تر امام احمد بن حنبل كے ۔
مگر ايسا كبھي نه هوا كه آپ كا كوئي اجتهاد ان چاروں مذاهب سے خارج هو تو حق آج انھيں چاروں مذاهب ميں منحصر هے اور جو اس سے باهر هے وه سواد اعظم اهل سنت و جماعت سے باهر اور ٫٫مَن شَذَّ شُذَّ في النّار٬٬ كا مصداق هے جيسا كه علمائے امت نے اس كي صراحت فرمائي ۔ (طالبِ دعا ودعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment