Wednesday, 18 October 2023

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اے مسلمانو اپنے قبلہ اوّل کےلیے اُٹھو

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اے مسلمانو اپنے قبلہ اوّل کےلیے اُٹھو
محترم قارئینِ کرام : مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے ۔ مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف (عربی میں الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں ۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے ۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے ۔ 2000ء میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک کعبہ ہی قبلہ رہا ، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بیت المقدس قبلہ رہا اور مسلمان بھی مدینہ منورہ میں آنے کے بعد تقریبا سولہ ، سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد نماز ظہر کی ادائیگی کے دوران مسجدِ قِبْلَتَین میں قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ ہوا ۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ حج ہمیشہ کعبہ ہی کا ہوا ہے ، بیتُ المقدس کا حج کبھی نہیں ہوا ۔

بَیتُ المُقَدَّس مسلمانوں کا قِبلہ اوّل ہے ، یہ فلسطین کے شہر القُدْس میں واقع ہے ، بعض نے  شہر کو بھی بَیتُ المُقَدَّس کہا ہے ۔ القُدْس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:چونکہ اس زمین میں حضرات انبیاء کے مزارات بہت ہیں اس لیے اسے قُدْس کہا جاتا ہے ۔ (مراۃ المناجیح جلد 6 صفحہ 457)

یہ انبیا علیہم السلام اور صُلحا (نیک لوگوں) علیہم الرحمہ کا مرکز رہا ہے حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کا مزارِ اَقدس اور عالَمِ اسلام کی مشہور و معروف مسجدِ اقصیٰ بھی اسی شہر میں واقع ہے ۔ (عجائب القراٰن صفحہ 194)(سفرنامے مفتی احمد یار خان حصہ دوم صفحہ 95)

کعبۂ مُعَظَّمَہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اس کی بنیاد ڈالی ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 1 صفحہ 465،چشتی)

پھر اس کی تعمیر حضرتِ سیدنا سام بن نوح  علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے کی ۔ (عمدۃ القاری جلد 11 صفحہ 81 تحت الحدیث : 3366)

عرصۂ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام نے بَیتُ المُقَدَّس  کی بِنا (بنیاد) اس مقام پر رکھی جہاں حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آ گیا تو آپ نے اپنے فرزندِ اَرجمند حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تکمیل کی وصیّت فرمائی ۔ (خزائن العرفان پارہ 22 سورہ سبا تحت الآیۃ : 14 صفحہ 795،چشتی)

حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جِنّوں کی ایک جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی ۔ (عجائب القراٰن صفحہ 192)

ابھی ایک سال کا کام باقی تھا کہ آپ کے انتقال کا وقت آگیا ۔ آپ نے غسل فرمایا، نئے کپڑے پہنے ، خوشبو لگائی اور اسی طرح تشریف لائے ، عَصا پر تکیہ فرما کر کھڑے ہو گئے ۔ مَلک الموت حضرت عِزرائیل علیہ السلام نے آپ کی رُوح قبض کر لی ۔ آپ اسی طرح عَصا پر ٹیک لگائے رہے ۔ پہلے تو جنّوں کو رات کی فُرصت مل بھی جاتی تھی اب دن رات برابر کام کرنا پڑتا تھا ۔ حضرت ہر وقت کھڑے ہی رہتے تھے اور اجازت مانگنے کی کسی میں ہمت نہ تھی ، ناچار سال بھر تک یَک لخت دن رات برابر کام کیا ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت صفحہ 528)

حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے بیتُ المُقَدَّس کی مسجد کو سنگِ رُخام (سنگِ مَرمَر) ، ہیروں موتیوں اور یاقوتوں سے بنوایا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 73،چشتی)(تفسیر معالم التنزیل پارہ 22 سورہ سبا تحت الآیۃ : 13 جلد 3 صفحہ 476)

اور بَیتُ المُقَدَّس کے گنبد کے سِرے پر کِبریت اَحمر (سرخ گندھک) کا انتظام کیا جس کی روشنی کئی مِیلوں تک پہنچتی تھی ۔ (تفسیر روح البيان پارہ 9 سورہ التوبۃ تحت الآیۃ : 18 جلد 3 صفحہ 399)

خُدّام کی تعداد بَیتُ المُقَدَّس کی خدمت کےلیےکثیر خادمین حاضر رہتے تھے، ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت سیدنا زکریا  علیہ السلام کے مبارک زمانہ میں  بَیتُ المُقَدَّس کے خُدَّام کی تعداد چار ہزار تھی ، ان  خُدّام کے 27 یا 70 سردار تھے جن کے  امیر حضرت سیدنا زکریا علیہ السلام تھے ۔ (تفسیر نعیمی پارہ 3 سورہ آل عمرٰن تحت الآیۃ : 37 جلد 3 صفحہ 381)

تبدیلیِ قبلہ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت سیدنا موسیٰ  علیہ السلام تک کعبہ (بیت اللہ شریف) ہی قبلہ رہا ، پھر حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک بَیت ُالمُقَدَّس قِبلہ رہا ۔ (صراط الجنان جلد 1 صفحہ 222)

ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں مسلمانوں نے سولہ (16) یا سترہ (17) مہینے تک بَیتُ المُقَدَّس کی طرف رُخ کرکے نمازیں پڑھیں ۔ (سیرت مصطفیٰ صفحہ 194)

ہجرت سے ایک سال ساڑھے پانچ مہینہ کے بعد پَندرھویں (15ویں) رجب پیر کے دن مسجد بَنی سَلَمہ میں نماز ظہر کے درمیان قِبلہ کی تبدیلی ہوئی ۔  (تفسیر نعیمی پارہ 2 سورہ البقرۃ، تحت الآیۃ : 142 جلد 2 صفحہ 16)

قبلہ کی تبدیلی یہودیوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی اور یہ طرح طرح سے مسلمانوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کر رہے تھے ، چنانچہ کچھ یہودیوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کے بارے میں مسلمانوں کے سامنے چند اعتراضات کیے اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے زمانہ میں جن صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے وفات پائی ان کی نمازوں کے درست ہونے پر مسلمانوں سے دلیل مانگی تو ان کے رشتہ داروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی نمازوں کا حکم دریافت کیا کہ وہ نمازیں ہوئیں یا نہیں ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اوراِنہیں اطمینان دلایا گیا کہ ان صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کی نمازیں ضائع نہیں ہوئیں ، ان پر انہیں ثواب ملے گا۔یاد رہے کہ اس آیت مبارکہ میں ایمان سے مراد نماز ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ البقرۃ : ۱۴۳، ۱/۹۸،چشتی)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں ۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر کی خواہش یہ تھی کہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا جائے ، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بیت المقدس کو قبلہ بنایا جانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناپسند تھا بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے علاوہ کثیر انبیاء کرام علیہم السلام کا قبلہ تھا اور ایک وجہ یہ تھی بیت المقدس کی طرف منہ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے یہودی فخر و غرور میں مبتلاء ہو گئے اور یوں کہنے لگے تھے کہ مسلمان ہمارے دین کی مخالفت کرتے ہیں لیکن نماز ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں ۔ چنانچہ ایک دن نماز کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امید میں باربار آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم آجائے ، اس پر نماز کے دوران یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کے حسین انداز کو قرآن میں بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اور خوشی کے مطابق خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ہی میں خانہ کعبہ کی طرف پھر گئے ، مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا اورظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف ہوئیں اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئیں ۔

ہم جسے عام طور پر "مسجد اقصی" کہتے ہیں ، اسے اور بھی دوسرے ناموں مثلا : "المسجد الأقصی" اور "الحرم القدسي الشریف" وغیرہ سے جانا جاتا ہے ۔ یہ تاریخی مسجد ، فلسطین کے شہر یروشلم (القدس) میں واقع ہے ، جو ان دنوں غاصب صہیونی ریاست اسرائيل کے قبضے میں ہے ۔ یہ مسجد مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقریبا سولہ یا سترہ مہینے تک مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کی ۔ شرعی طور پر اہمیت وفضیلت کے اعتبار سے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد ، مسجد اقصی کا مقام ومرتبہ ہے۔ قرآن وحدیث میں مختلف جگہوں پر اس مبارک مسجد کا ذکر آیا ہے ۔ اس مسجد کے ارد گرد کی جگہوں کو برکت والی جگہیں کہا گیا ہے ۔ انہیں وجوہات کے پیش نظر دنیا بھر کے مسلمان مسجد اقصی اور قدس کو بڑی عقیدت ومحبت سے دیکھتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کے موقع سے مسجد حرام سے جس جگہ لے جایا گیا ، وہ یہی مسجد اقصی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسجد میں سارے انبیاء علیہم السلام کی امامت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی مسجد سے سفر معراج پر روانہ ہوئے ۔ مسجد حرام سے مسجد اقصی کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مبارک سفر کو قرآن نے کریم نے یوں بیان کیا ہے : سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۔ (سورۃ الاسراء:1)
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔ بے شک وہ ہر بات سننے والی اور ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے ۔

مسجد اقصی کو مسلمانوں کا "قبلۂ اوّل" ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے ، مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پہلے مسجد اقصی کی جانب ہی رخ کر کے تقریبا سترہ مہینے تک نمازیں ادا کرتے رہے ۔ صحابی رسول حضرت بَرَاء بن عازِب فرماتے ہیں : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى إِلَى بَيْتِ المَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ البَيْتِ ۔ (صحیح البخاری : 4486)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ؛ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ شریف) کی طرف ہو ۔

مسجدِ اقصی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد روئے زمین پر مسجدِ حرام کے تقریباً چالیس سال بعد رکھی گئی ۔ اس حوالے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ ، الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى ،  قُلْتُ : كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ عَامًا ، ثُمَّ الْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ ، فَحَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ ۔ (صحیح مسلم : 520،چشتی)
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد کے حوالے سے سوال کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : مسجد حرام ۔ میں نے سوال کیا : پھر کون (اس کے بعد کون سی مسجد تعمیر کی گئی) ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : مسجد اقصی ۔ میں نے سوال کیا : ان دونوں کی تعمیر کے دوران کتنا وقفہ ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : چالیس سال ، پھر پوری زمین تیرے لیے مسجد ہے ، جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے ، نماز پڑھ لو ۔

اس حدیث شریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے "مسجد حرام" کی تاسیس کے 40/سال بعد مسجد اقصی کی بنیاد رکھی ۔ محدثین نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ مشرفہ کی تعمیری تجدید کی ، اسی طرح مسجد اقصی کی تجدید یعقوب علیہ السلام یا داؤد علیہ السلام نے کی اور سلیمان علیہ السلام نے اس کی تکمیل کی ۔

ایک حدیث شریف میں مسجد اقصی سے حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر ، حج یا عمرہ ادا کرنے والے کو اگلے اور پچھلے گناہوں کے معافی کی بشارت دی گئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ ، أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَا تَأَخَّرَ - أَوْ - وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ۔ (سنن ابی داؤد : 1741،چشتی)
ترجمہ : جس نے مسجد اقصی سے مسجد حرام کےلیے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ، اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے - یا - جنت اس کےلیے واجب ہوجائے گی ۔

مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا باعث ثواب ہے ۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو مختلف ابواب کے ذیل میں ذکر کیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ : المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى ۔ (صحیح بخاری:1189)
ترجمہ : (عبادت کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کےلیے ہی سفر کیا جائے (اور وہ ہیں) : مسجد حرام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصی ۔

ایک حدیث شریف میں مسجد اقصی میں ایک پڑھی جانے والی نماز کا ثواب، پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کے برابر بتایا گیا ہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ ، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ ۔ (سنن ابن ماجہ : 1413،چشتی)
ترجمہ : ایک آدمی کی ایک نماز اپنے گھر میں ، (ثواب میں) ایک نماز کے برابر ہے ، اس کی نمازمحلے کی مسجد میں ، پچیس نمازوں کے برابر ہے ، اس کی نماز جامع مسجد میں ، پانچ سو نمازوں کے برابر ہے ، اس کی نماز مسجد اقصی میں ، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ، (اسی طرح) اس کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی) میں ، پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور اسی شخص کی ایک نماز مسجد حرام میں ، ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔

مسجد اقصی کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے جیسا کہ حصّہ اوّل میں ہم تفصیل سے عرض کر چکے ہیں کہ اسی مسجد سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سفر معراج ہوا ۔ اسی سفر معراج میں آپ کو نماز کا تحفہ دیا گیا ۔ یہ واقعہ بخاری شریف میں ایک لمبی حدیث میں آیا ہے ۔ نماز والے حصے کا حاصل یہ ہے کہ اوّلاً اللہ تعالی نے اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پچاس نمازوں کا تحفہ دیا ۔ پھر حضرت موسی علیہ السلام کے کہنے پرکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ان پچاس نمازوں کی ادائیگی نہیں کر پائے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی سے نماز کی تعداد کی کمی کی درخواست کی ۔ پھر اللہ تعالی نے اس نماز کو کم کرتے کرتے پانچ نمازیں امت محمدیہ کےلیے باقی رکھی ۔ (صحیح بخاری: 349،چشتی)

پہلی صلیبی جنگ کے بعد ، جب 15/جولائی 1099ء کوعیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا ؛ تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ۔ پھرصلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ نے 538ھ/1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا ؛ تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے خرافات سے پاک کیا ۔ 88 سالوں کے علاوہ ، عہد فاروقی رضی اللہ عنہ سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں ۔

اے میرے قبلہ اوّل ! تو آج کس حال میں ہے ؟

تجھے اپنوں کی لاپرواہی نے کیسا لاچار بنا دیا ہے ؟

تیرے چاہنے والوں کی کمزوری اور تیرے دشمنوں کی مکاری نے تجھے کیسی تکلیف اور غم میں ڈال رکھا ہے ؟

تیرے مبارک در و دیوار جہاں فرشتے بھی اپنے پر آہستہ مارتے تھے مگر اب بدبخت یہودیوں کے اسلحے کی ٹھوکریں تجھے کتنارنج دیتی ہوں گی ؟

تیری وہ سجدہ گاہیں جہاں کبھی مقدس ترین ہستیاں ، نبوت کے پیکر پیغمبرانِ الٰہی سجدہ ریز ہوتے تھے اب وہاں مجرم یہودیوں کے ناپاک بوٹوں کی دھمک سائی دیتی ہے … جہاں کبھی تکبیر وتہلیل اور تسبیح و تحمید کے زمزمے گونجتے تھے مگر اب دھتکاری ہوئی یہودی قوم کے منحوس فوجیوں کے غلیظ اور بدبودار نعرے وہاں تعفن پھیلاتے ہیں تو تجھے ان سے کتنی گِھن آتی ہو گی ؟

 ہاں ! ان دلخراش حالات سے مسلمانوں کے سینے زخمی ہیں ، اہلِ دل اس پر تڑپتے ہیں ، تجھ سے محبت رکھنے والے مجھ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی جیسے لوگ یہ حالت دیکھ کر روتے اور آہیں بھرتے ہیں ، کوئی تجھ پر قربان ہونا چاہتا ہے مگر رکاوٹوں کے اتنے پہاڑ ہیں کہ اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے ، کوئی تجھے ستانے والے یہودیوں پر آگ بن کر برسنا چاہتا ہے مگر وہ تجھ سے بہت دور بیٹھ کر تیرے غم میں تیرا شریک ہوکر بے چین رہتا ہے …تو سعادتوں کا مرکز مگر آج تجھے شقاوت کے مارے یہودیوں نے گھیر رکھا ہے ، تو برکتوں کا گھر مگر آج تجھے غضب کی ماری قوم نے اجاڑ رکھا ہے … لیکن یاد رکھنا ! بہت جلد تیرے چاہنے والے ، تیری عزت اور تقدس کو پہچاننے والے تجھے ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کروائیں گے، عن قریب پھر وہ دن آئیں گے جب تکبیر کے پاکیزہ نعرے تجھ میں گونجیں گے ، عن قریب سعادت مند لوگ کی جبین نیاز تیری زمین کے بوسے لے گی بہت جلد ۔ ان شاء اللہ ۔

محترم قارئینِ کرام : مسجدِ اقصیٰ عام مساجد سے بہت بلند اور اونچی شان رکھتی ہے، اس کے دامن میں بے بہا برکتیں اور سعادتیں رکھ دی گئی ہیں ، اہل ایمان کے دلوں میں اس مسجد کی بڑی وقعت اور محبت رچی بسی ہوئی ہے ، قرآن وسنت میں اس مسجد کی فضیلت پر کئی دلائل اور ارشادات موجود ہیں جنہوں پڑھ کر ایک مخلص مومن کے دل میں اس مسجد کی خاص عقیدت اور محبت دل میں اتر جاتی ہے ۔ آئیے آج کی مجلس میں اسی عظیم البرکت مسجد کے کچھ فضائل پڑھتے ہیں جو قرآن و سنت میں ہمیں بتلائے گئے ہیں ۔

تین اہم مساجد میں سے ایک : اس مسجد کی ایک فضیلت اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ مسجد اُن تین مساجد میں شامل ہے جن کی طرف سفر کرنے کی بطورخاص اجازت دی گئی ہے اور اس کی طرف سفر کرنے کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لا تشد الرحال الا الیٰ ثلاثۃ مساجد : المسجد الحرام، و مسجدالرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، و مسجد الاقصیٰ ۔ (صحیح بخاری : ۱۱۸۹)
ترجمہ : تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے (اور وہ تین مساجد یہ ہیں) ، مسجد حرام ، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ ۔

اگر کوئی انسان عبادت اور تقرب الی اللہ کی نیت سے کسی مسجد کی طرف سفر کر کے جانا چاہتا ہے تو باقی مساجد ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں اس لیے ان مساجد میں کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہیں لیکن یہ تین مساجد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ، اس لیے ان کی طرف سفر کرنا جائز ہے ۔

یہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے

جب تک مسلمانوں کےلیے کعبة اللہ کو قبلہ مقرر نہیں کیا گیا تھا اُس وقت تک مسلمانوں کےلیے قبلہ یہی ’’مسجد اقصیٰ‘‘ تھی ، اس طرح یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ تھی ، اس بنیاد پر اس کی جو فضیلت اور مسلمانوں کے دل میں اس کا جو مقام ہونا چاہیے وہ بالکل واضح ہے ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے تقریباً سولہ یا سترہ مہینوں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں پھر ہمارا قبلہ کعبہ کو مقرر کردیا گیا ۔ (صحیح بخاری : ۳۳۹۲،چشتی)

زمین پر قائم ہونے والی دوسری مسجد : مسجد اقصی کی فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس زمین پر بیت اللہ کے بعد جو مسجد قائم ہوئی وہ یہی مسجد اقصی ہے ۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : مسجد حرام ۔ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد ؟ (یعنی مسجد حرام کے بعدکون سی مسجد بنائی گئی ؟) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ ۔  (صحیح بخاری : ۳۳۶۶)

مبارک سرزمین سے نسبت : مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ مسجد جس سر زمین پر واقع ہے اللہ تعالی نے اس سر زمین کو مبارک قرار دیا ہے ۔ (سورہ الاسرا :۱)

بعض اہل علم فرماتے ہیں اگر اس مسجد کےلیے اس قرآنی فضیلت کے علاوہ اور کوئی فضیلت نہ ہوتی تب بھی یہی ایک فضیلت اس کی عظمت و بزرگی اور شان کےلیے کافی تھی ۔

جس ملک میں ’’مسجدِ اقصیٰ‘‘ واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری اور باطنی برکات رکھی ہیں ، مادّی حیثیت سے چشمے ، نہریں ، غلے ، پھل اور میووں کی اِفراط اور رُوحانی اِعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیاء و رُسل علیہم السّلام کا مسکن و مدفن اوران کے فیوض واَنوار کا سرچشمہ رہا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں لے جانے میں یہ بھی اِشارہ ہوگا کہ جو کمالات انبیائے بنی اسرائل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ میں وہ سب جمع کردیے گئے ، جو نعمتیں بنی اسرائیل پرمبذول ہوئی تھیں ، اُن پراب بنی اِسماعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے ،’’ کعبہ‘‘ اور ’’بیت المقدس‘‘ دونوں کے انوار وبرکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے ۔ (تفسیر نعیمی ، تفسیر قرطبی ، تفسیر تبیان القرآن،چشتی)

سرزمین محشر : مسجد اقصی کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ جس سرزمین پر واقع ہے وہ سرزمین حشر ونشر کی جگہ ہے ۔

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ سرزمین حشر و نشر کی جگہ ہے ۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۰۷،چشتی)

مسجدِ اقصیٰ کی ایک یہ فضیلت بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عظیم اعزاز معراج کی صورت میں عطاء فرمایا ، جو ایک عظیم معجزہ بھی ہے ، تو سفر میں ایک اہم منزل وہ پڑاؤ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں فرمایا ، پھر یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمان کی بلندیوں کی طرف لے جایا گیا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :  میرے پاس براق لایا گیا ، یہ ایک سفید رنگت کی لمبی سواری تھی ، گدھے سے کچھ بڑی اورخچر سے کچھ چھوٹی ، اس کا ایک قدم انتہائے نظر کی مسافت پر پڑتا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : میں اُس پر سوار ہوا ، یہاں تک کہ میں بیت المقدس پہنچ گیا ، وہاں پہنچ کر اس سواری کو اس حلقے سے باندھ دیا جس حلقے سے دیگر انبیاء کرام علیہم السّلام (اپنی سواریاں) باندھتے ہیں ، پھر میں مسجد میں داخل ہوا ، اس میںد ورکعات اداء کیں ، پھر باہر نکل آیا، حضرت جبرئیل علیہ السّلام دودھ اورشراب کا ایک الگ الگ برتن میرے پاس لائے ، میں نے ان میں سے دودھ والا برتن لے لیا ، اس پر حضرت جبرئیل علیہ السّلام نے فرمایا : آپ نے فطرت ( کے عین مطابق چیز کو) پسند فرمایا ہے ۔ اس کے بعد وہ ہمیں آسمان کی طرف لے کر چل پڑے ۔ (صحیح مسلم :162،چشتی)

اجرِ نماز میں کئی گُنا اضافہ : اس مسجد کی ایک اہم فضیلت یہ بھی ہے کہ اسلام کے اہم ترین رکن نماز کا اجر و ثواب اس مسجد میں کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مسجد کا مقام و مرتبہ دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے ۔

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے اس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) کی فضیلت زیادہ ہے یا بیت المقدس والی مسجد (یعنی مسجد اقصیٰ) کی ؟ یہ باتیں سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری مسجد میں پڑھی جانے والی ایک نماز اُس مسجد (مسجد اقصیٰ) کی چار نمازوں سے افضل ہے ۔ اور وہ نماز کی جگہ تو بہت ہی خوب ہے ۔ عن قریب ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کو اگر گھوڑے کی ایک لگام کے برابر بھی کوئی ایسی جگہ مل جائے کہ جس سے وہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کرسکیں تو ان کے نزدیک یہ زیارت پوری دنیا سے بہتر ہوگی ۔ (مستدرک حاکم : 4/509،چشتی)

یہ حدیثِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی نشانیوں اور علم غیب میں سے ہے ، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ ایک وہ وقت آئے گا جب مسلمانوں کے دلوں میں اس مسجد کی قدر و قیمت بہت بڑھ جائے گی اور اس مسجد کے بارے میں دشمنانِ اسلام کی عداوتیں بہت بڑھ جائیں گی ، ان کی عداوتوں کی وجہ سے مسلمان اس مسجد کےلیے ترسیں گہ حتیٰ کہ انسان یہ سوچے گا کہ کاش اگر مجھے گھوڑے کی لگام جتنی کو ئی ایسی جگہ بھی مل جاتی جہاں سے میں مسجد اقصیٰ کی دیکھ لیتا تو وہ اس خوشی کو دنیا بھر کی خوشیوں سے بہتر سمجھے گا ۔

تمام انبیاء کرام علیہم السّلام کی اجتماع گاہ : ایک طویل حدیثِ مبارکہ میں ہے ، جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی مسجد میں سب انبیاء علیہم السّلام کی ایک نماز میں امامت کرائی ، حدیثِ مبارکہ کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں : فحانت الصلاۃ فاممتہم ۔ نمازکا وقت آیا تومیں نے ان کی امامت کرائی ۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر 172،چشتی)

مسجدِ اقصیٰ ایک ایسی پاکیزہ سرزمین میں واقع ہے ، جہاں ’’کانا دجال‘‘ بھی داخل نہیں ہوسکے گا ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : وہ دجال ساری زمین گھومے گا م گر حرم اوربیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکے گا ۔ (مسنداحمد ۔حدیث نمبر : 19665،چشتی)

جب امیر المومنین حضرت صیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی ۔ مسجد اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل (جس کو سورۃ الاسراء بھی کہتے ہیں) کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے ۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ مسجدِ اقصٰی کا بانی حضرت یعقوب علیہ سلام  کو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان  علیہ سلام نے کی۔ بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی ۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی ۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا ، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں ۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا ۔

سانحہ بیت المقدس 1969 : 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا ۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں ۔ اس المناک واقعہ کے بعد خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی ۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی ۔ یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔

سانحہ  بیت المقدس 2017 اب جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل نوازی کیلے یہاں اسرائیل کا دار الخلافہ اور اپنا امریکی سفارتخانہ  کھولنے کاحکم جاری کر دیا ہے ۔  ٹرمپ کے  حکم کی ایسی کی تیسی ۔۔۔۔۔۔ حکم صرف اللہ کا اب 2021 کے مئی اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسرائیلی درندے یہودیوں نے پھر حملہ کر سینکڑوں مسلمان مرد ، عورتیں اور بچے اب تک شہید ہو چکے ہیں ، قبلہ اول کا تقدس مسلسل پامال کیا کیا جا رہا ہے اور امتِ مسلہ اور اس کے حکمران و افواج خوابِ غفلت میں پڑے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قبلہ اول کو بچانے کےلیے کیا کرتی ہی ؟ درحقیقت  اللہ تعالیٰ  مسلمانوں کا امتحان لے رہا ہے ورنہ اللہ صرف کن کہتا ہے اور وہ ہو جاتا ہے ۔ میرے ذاتی نظریہ کے مطابق میں تو اس مسلہ پر ، اگر یہ طول پکڑ گیا ، میں  عالمی جنگ تک کے خطرہ کو محسوس کر رہا ہوں ۔۔ باقی تمام مسلمان اپنی سطح پر امریکہ و اسرائیل کا اور ان کی ہر قسم کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔ اپنی Trade (تجارت)  ڈالر میں ہرگز نہ کریں ، اس کی کرنسی کو نیچے گرانے میں لگ جایں ۔  امریکہ کا دیوالیہ نکالنے اور اس کو مالی طور پر غیر مستحکم کرنے میں  پر ہر مسلمان اپنا حصہ ڈالے ۔ یہی آپ کا اس وقت جہاد تصور ہوگا ۔

ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں ، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امت اس مسجد کی قدر کرتی ، اس مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی اور ہر قسم کے کفر اور کفریہ تسلط سے پاک رکھتی لیکن ۔ آہ ۔ آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں ، انہیں وہاں قسما قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے ، یہودی ظالم انہیں بلڈوزروں سے روند رہے ہیں ، بچوں کو قتل کررہے ہیں ، عورتوں کو جیلوں میں بند کرتے ہیں ، مسلمان عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں ، بوڑھوں کی تذلیل کرتے ہیں ، نوجوانوں کو گولیوں سے اُڑادیتے ہیں ، اُن کے گھروں کو مسمار کردیتے ہیں ، مسجد اقصی کی حرمت پامال کی جاتی ہے ، یہ سب حالات ہم مسلمانوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ان کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں ، ہم ان کےلیے دعاء کو اپنے معمولات کا حصہ بنا لیں اور جہاد کا پختہ عزم کریں ، جہادی قافلے میں شامل ہوجائیں ، تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑا جائے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان کے رہنماؤں کو اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہو امت مسملہ کی بھاگ دوڑ سنبھالیں اور مظلوم بے کسوں مسلمانوں کو گاجر مولیوں کی طرح کٹنے سے بچانے کےلئے امن کا وہ ہی راستہ اپنایا جائے جو تاریخ اسلام میں سنہری حروف کےساتھ لکھا جاتا ہے ۔ یعنی جہاد فی سبیل للہ ۔ اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں جیسا اللہ عزوجل کے پیارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے ۔ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہم زیر نہیں کر سکتی ۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں والہ قصہ بن جائے گا ۔

یا اللہ مسجدِ اقصیٰ کو ظالموں ، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک فرما ، فسلطینی مسلمانوں کے ضعف اور کمزوری کو ختم فرما ، انہیں قوت عطاء فرما ، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما ، کافروں کی جنگ کو واپس انہی پر پلٹ دے ۔ یا اللہ بلاشبہ تو ہی سب سے بہتر انتقام لینے والا اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے ۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سالوں سے پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں ؛ مگر آج بھی مسجدِ اقصیٰ اس کا انتظام و انصرام اردن کی "وزارت ِاوقاف اور شئونِ مقدّساتِ اسلامیہ" کے تحت ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی قدس اور مسجدِ اقصیٰ کو ان ظالم وجابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے آزاد کرا دے اور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...