Wednesday, 25 October 2023

آل سعود نجدی وہابیوں نے قبلہ اوّل اور فلسطین یہودیوں کو بیچا

آل سعود نجدی وہابیوں نے قبلہ اوّل اور فلسطین یہودیوں کو بیچا





محترم قارئینِ کرام : آل سعود وہابیوں نے جب فلسطین یہودیوں کو بیچا تو ہمارے اکابرین کہتے رہے کہ آلِ سعود دع اصل آلِ یہود ہیں مگر کچھ اُن کے نمک خوار و ریالوں پہ پلنے والے اِن کی حمایت کرتے تھے اور ہیں ہم آل سعود کے یہودیوں سے معاہدے کا اسکن پیش کر رہے مسلمان ضرور پڑھیں اور سوچیں اس معاہدے پر ۔ اور موجودہ صورتحال میں ان یہودیوں کی ناجائز اولادوں کی طرف سے لاکھوں مسلمانوں کے قاتل و قبلہ اوّل کے قابض اور توہین کرنے والے یہودی اسرائیل کو تسلیم کرنا کیا ثابت کرتا ہے خود سوچیئے اور فیصلہ کیجیے : ⬇

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہیں مثلِ یہودی یہ سعودی بھی عذاب

اس قوم کے بارے میں قمر اور کیا لکھے
کعبے کی کمائی سے جو پیتے ہیں شراب

تم نے یہودیوں اور برطانیہ سے مل کر سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرا ہم چپ رہے ۔

تم جنت البقیع اور جنت المعلیٰ میں صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے مزارات کو بلڈوز کیا ہم نے احتجاج کیا مگر تم ڈھیٹ بنے رہے ۔ (چشتی)

تم نے اہلبیت کو حکومت سے بے دخل کیا ہم چپ رہے ۔

تم نے فلسطین بیچا۔ ہم بولے ۔

مگر تماری خاطر خاموش ہو گئے ۔

تم نے ہمارے دشمنوں سے جنگی سازو سامان خریدا ہم چپ رہے ۔

مگر یاد رکھنا ہم تمہارے زرخرید غلام نہیں ۔

تم ہمیں اپنا نوکر یا بھکاری سمجھتے ہو تو تمہیں تماری تباہی مبارک ہو ۔

اب جب تم پہ وقت پڑے گا تو تم اپنی ہندو ۔ فلیپینی ۔ یہودی ۔ اور انگریز داشتاؤں رکھیلوں و آقاؤں سے مدد طلب کرنا ۔ جن سے تم لوگوں نے اپنے حرم بھر رکھے ہیں ۔ اب تمارے سیاہ کارتوت دیکھ کر تم سے نفرت سی ہو گئی ہے ۔

جس امت مسلمہ کی بات کرتے تم تھکتے نہیں تھے اس امت مسلمہ پر تمہاری عیاشیاں عیاں ہو چکی ہیں ۔ اب تم اپنی خیر مناؤ اور ہماری جان چھوڑ
دو آج سے نہ ہم تمہاری عزت کریں گے ۔ نہ کبھی تمہیں بچانے آہیں گے
۔ ہم تمیں اپنی جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔

اور ہم سے بھلائی کی امید بھی مت رکھنا ۔ ہم آءیں گے تو صرف بیت اللہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے آہیں گے ورنہ ہمیں تماری عزت اور زندگی سے کوئی سروکار نہیں ۔

تم ڈاکو ۔ لٹیرے اور عیاش ہو ۔ تمہارا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں تم آل سعود نہیں بلکہ آل یہود ہو ۔

تمارے دلوں میں امت مسلمہ کے لیے کوئی ہمدردی نہیں۔ تمارے دل میں صرف اور صرف یہود ونصاریٰ کی محبت ہے اور تم گاؤ ماتا کا پووتر موتر پینے والوں کے پجاری ہو ۔ (چشتی)

آل سعود و آل نجد جہاں کہیں آثار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دیکھتے ہیں اور لوگوں کی ان آثار سے عقیدت و محبت دیکھتے ہیں تو اپنی من گھڑت خود ساختہ توحید و شرک کی آڑ لے کر ان متبرک آثار اسلامی کو شرک و بدعت کہہ کر فی الفور مٹا دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو آل سعود و آل نجدی کے فتنہ و شر سے محفوظ رکھے آمین ۔ دوسری طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرانے کے علاوہ بھی بہت سی صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبرک حاصل کرتے تھے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کو تبرکاً مس کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوسے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرتے۔ جس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا دستِ مبارک دھوتے اسے اپنے چہروں اور بدن کے حصوں پر مل کر تبرک حاصل کرتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے تبرک حاصل کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک، لعابِ دہن، موئے مبارک، انگوٹھی مبارک ، بستر مبارک ، چارپائی مبارک اور چٹائی مبارک سے برکت حاصل کرتے تھے ۔ الغرض وہ ہر اس چیز سے تبرک حاصل کرتے جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس سے تھوڑی یا زیادہ نسبت ہوتی بلکہ جن مبارک مکانوں اور رہائش گاہوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکونت اختیار فرمائی، جن مقدس جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائیں، جن بخت رسا راہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے، ان کے گرد و غبار تک سے بھی انہوں نے تبرک حاصل کیا ۔ آل سعود و آل نجد کو یہود و نصاریٰ نے جو ایجنڈا دیا تھا وہ اسے پورا کر رہے ہیں یہ معاہدہ شاہ سعود نے کیا تھا جب فلسطین بیچا تھا یہودیوں کے ہاتھ ۔

صحیح بخاری میں حضرت عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اور نماز پڑھانے کا واقعہ درج ہے۔ جسے ائمہِ حدیث نے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ حضرت محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : أنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ، وَ هُوَ مِنْ أَصحَابِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ : أَنَّهُ أَتَي رَسُوْلَ ﷲِ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ ، قَدْ أَنْکَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي ، فَإِذَا کَانَتِ الْأَمْطَارُ ، سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِي مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّي بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَنَّکَ تَأتِيْنِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّي، قَالَ : فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ ﷲُ) . قَالَ عِتْبَانُ : فَغَدَا رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَبُوبَکْرٍ حِيْنَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّي دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ : (أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِکَ). قَالَ : فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَي نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَکَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا، فَصَلّٰي رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ۔
ترجمہ : حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ وہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں؟۔ جب بارش ہوتی ہے تو وہ نالہ جو میرے اور ان کے درمیان ہے بہنے لگتا ہے جس کے باعث میں ان کی مسجد تک نہیں جاسکتا کہ انہیں نماز پڑھاؤں۔ یا رسول اللہ صلی ﷲ علیک و سلم میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ میں کسی دن آؤں گا، حضرت عتبان نے بتایا کہ دوسرے دن صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دن چڑھنے کے بعد میرے گھر تشریف لائے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسبِ معمول اجازت طلب فرمائی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا ۔ گھر میں تشریف لانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے نہیں، فرمایا : تم کس جگہ پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے گھر میں نماز پڑھوں۔ میں نے گھر کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، ہم بھی کھڑے ہو گئے اور صف بنائی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھی پھر سلام پھیرا ۔ (صحیح بخاری ، کتاب الصلاة، باب : المساجد في البيوت، 1 : 164، رقم : 415،چشتی)

شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پاک کو آثارِ صالحین سے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں : وسؤاله النّبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يصلّي في بيته ليتّخذه مصلّي وإجابة النبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلي ذلک فهو حجّة في التّبرّک بآثار الصّالحين ۔
ترجمہ : حضرت عتبان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا کہ ان کے گھر تشریف لا کر نماز ادا کریں تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے لئے جائے نماز بنا لیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ان کی التجا قبول کرنا آثارِ صالحین سے تبرک کے ثبوت کے لئے بین دلیل ہے ۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاري، 1 : 569)

امام ابنِ عبد البر رحمۃ اللہ علیہ موطا کی شرح التمہید میں لکھتے ہیں : وفيه التبرّک بالمواضع التي صلّي فيها رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و وطئها وقام عليها ۔
ترجمہ : اس حدیثِ مبارکہ میں ان مقامات سے حصولِ برکت کا ثبوت ہے جہاں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی ، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک قدم رکھے اور جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے ۔ (التمهيد، 6 : 228،چشتی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دیہاتی حضرت زاہر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں دیہات سے تحفہ لایا کرتے تھے ۔ جب وہ واپس جانے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسے سامان عنایت کرتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بہت محبت کرتے تھے ۔ ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اقدس سے حصول تبرک کا واقعہ ایک حدیث مبارکہ میں یوں ہے : فَأتَاهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْماً وَهُوَ يَبِيْعُ مَتَاعَهُ فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ وَلَا يُبْصِرُهُ، فَقَالَ : مَنْ هَذَا؟ ارْسِلْنِي، فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَجَعَلَ لَا يَألُو مَا أَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حِيْنَ عَرَفَهُ .
ترجمہ : ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور وہ (بازار میں) سامان بیچ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پیچھے سے اس طرح بغل گیر ہوگئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتے تھے، انہوں نے کہا : کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو، پھر جب انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو (عقیدت و محبت کے ساتھ) اپنی پیٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینۂ اقدس سے حصولِ برکت کےلیے مَلنا شروع کر دیا ۔ (ترمذي الشمائل المحمدية صفحہ 396 - 399، رقم : 239)(أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 161،چشتی)(ابن حبان، الصحيح، 13 : 107، رقم : 5790)(بيهقي، السنن الکبري، 10 : 248)

حضرت ابوجُحَيْفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْءٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ يَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ فَيَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ، فَصَلَّي النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ ، وَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ.وَقَالَ أَبُوْ مُوْسَي : دَعَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدْحٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَ وَجْهَهُ فِيْهِ، وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا : اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَي وُجُوهِکُمَا وَ نُحُوْرِکُمَا ۔
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لے کر اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نیزہ تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگایا۔ پس اپنے مبارک ہاتھ اور چہرۂ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں سے فرمایا : اس میں سے پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوْءِ النَّاسِ، 1 : 80، رقم : 185)(مسلم الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي موسي وأبي عامر الأشعريين رضي اﷲ عنهما، 4 : 1943، رقم : 2497)(أبو يعلي المسند، 13 : 301، رقم : 301۔چشتی)

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے : فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّکُمَا فَأَضْلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً ۔
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان دونوں کو پردہ کے پیچھے سے آواز دی کہ اس متبرک پانی میں سے اپنی ماں (یعنی حضرت ام سلمہ) کےلیے بھی چھوڑ دینا) پس انہوں نے ان کے لئے بھی کچھ پانی باقی رکھا ۔ (صحیح بخاری ، کتاب المغازي، باب : غزوة الطائف، 4 : 1573، رقم : 4073)

حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے : رَأَيْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَا لًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ . . . الحديث ۔
ترجمہ : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے تھے جسے کچھ مل گیا اُس نے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی ۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلاة في الثياب، باب : الصلاة في الثَّوبِ الأَحْمَرِ، 1 : 147، رقم : 369،چشتی)۔(اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المناقب رقم : 3373 میں بھی بیان کیا ہے۔)

مذکورہ حدیث کے تحت، شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وفي الحديث من الفوائد التماس البرکة مما لامسه الصالحون ۔
ترجمہ : اس حدیث مبارکہ میں کئی فوائد ہیں جن میں سے ایک حصولِ برکت کے لئے صالحین کے مس شدہ چیز کو ملنا ہے ۔ (فتح الباري، 1 : 574)

عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : وَ إِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم کَادُوا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَي وَضُوْئِهِ ۔
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو ایسا لگتا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کے حصول کے لئے آپس میں لڑ مریں گے ۔ (صحیح بخاری ، کتاب الوضوء، باب : اسْتِعْمالِ فضلِ وَضُوءِ النَّاسِ، 1 : 81، رقم : 186)(اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم رقم : 77، کتاب الاموات رقم : 3993 میں مختصراً بیان کیا ہے)(ابن حبان الصحيح، 11 : 221، رقم : 4872)(أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 329)

حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ وَ هُوَ بِالْأَبْطَحِ فِيْ قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَآءَ مِنْ آدَمٍ قَالَ فَخَرَجَ بِلَالٌ بِوَضُوْئِهِ فَمِنْ نَّآئِلٍ وَ نَاضِحٍ ۔
ترجمہ : میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مقامِ ابطح میں سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں قیام فرما تھے، اس موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر نکلے پس لوگوں نے اس پانی کو مل لیا کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے اس پانی کو چھڑک لیا ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب : سُتْرةِ الْمُصَلّٰي، 1 : 360، رقم : 502)(ابن حبان، الصحيح، 6 : 153، رقم : 2394)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 395، رقم : 1718۔چشتی)

صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں : ففيه التبرک بآثار الصالحين واستعمال فضل طهورهم وطعامهم وشرابهم ولباسهم ۔
ترجمہ : پس اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین ، ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی ان کے بچے ہوئے کھانے اور استعمال شدہ ملبوسات سے تبرک کا ثبوت ہے ۔ (نووي شرح صحيح مسلم، 4 : 219)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے ۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی اسے وہ دنیا و مافیہا سے عزیز تر جانتے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے عمل سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اندر یہ شعور بیدار کر دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے اور ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے ۔ امام ابنِ سیرین رحمۃ ﷲ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَمَّا حَلَقَ رَأسَهُ، کَانَ أَبُوْ طَلْحَةَ أَوَّلَ مَنْ أَخَذَ مِنْ شَعْرِهِ ۔
ترجمہ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک حاصل کئے ۔ (بخاري الصحيح کتاب الوضوء، باب : الماء الذي يغسل به شعر الإنسان 1 : 75، رقم : 169۔چشتی)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ، وضو کے مبارک پانی سے، لعاب دہن ، پسینہ مبارک سے اور جن جن چیزوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مس کیا ہوتا ان سے برکت حاصل کرتے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَتَي مِنًي فَأَتَي الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَي مَنْزِلَهُ بِمِنًي وَ نَحَرَ ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ خُذْ. وَ أَشَارَ إِلَي جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْأَيْسَرِ ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيْهِ النَّاسَ ۔
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے وہاں قربانی کی اور حجام سے سر مونڈنے کو کہا اور اسی کو دائیں جانب کی طرف اشارہ کیا پھر بائیں جانب اشارہ کیا پھر اپنے مبارک بال لوگوں کو عطا فرمائے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر، 2 : 947، رقم : 1305)

قاضی شوکانی غیر مقلدوں کے امام اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں : قوله ثم جعل يعطيه للناس فيه مشروعية التّبرّک بشعر أهل الفضل ونحوه ۔
ترجمہ : اس روایت میں صاحبِ فضل شخصیات کے بال اور اس طرح ان کی دیگر اشیاء سے تبرک کا ثبوت ہے ۔ (شوکاني نيل الأوطار 5، 128۔چشتی)(شمس الحق عظيم آبادی ، عون المعبود، 5 : 317)

مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی ﷲ عنھما کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا ۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اُوپر کفن لپیٹ دیں ۔ (طبراني ، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871)(ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052،چشتی)(أبونعيم، حلية الاولياء وطبقات الأصفياء، 3 : 121)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتہ عطا فرمانے کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوجائیں ۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ام عطیہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی ﷲ عنہا وصال فرما گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذٰلِکَ بِمَآءٍ وَ سِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْاٰخِرَةِ کَافُوْرًا اَوْ شَيْئًا مِنْ کَافُوْرٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَاٰذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا اٰذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ ۔
ترجمہ : اس کو تین یا پانچ دفعہ یا اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بار بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو اور آخر میں کچھ کافور رکھ دینا۔ جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دینا ۔ (وہ فرماتی ہیں) جب ہم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک چادر عنایت فرمائی اور فرمایا : اس کو کفن کے نیچے پہنانا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : غسل الميت و وضوئه بالماء والسدر، 1 : 422، رقم : 1195)(مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : نهي النساء عن اتباع الجنائز، 2 : 646، رقم : 939)

اس حدیثِ مبارکہ کو بھی ائمہ و محدّثین نے تبرک بالصالحین کی بنیاد قرار دیا ہے۔ چند اکابر ائمہ حدیث کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :

امام ابنِ حجر عسقلانی اس حدیث کو تبرکِ صالحین کی بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : وهو أصل فی التّبرّک بآثار الصّالحين ۔
ترجمہ : یہ حدیثِ پاک آثار صالحین سے تبرک کے ثبوت میں اصل ہے ۔ ( فتح الباري جلد 3 صفحہ 29 ، 130)

شارح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے تبرک کا استنباط کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں : ففيه التّبرّک بآثار الصّالحين ولباسهم ۔
ترجمہ : اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین اور ان کے استعمال شدہ کپڑوں سے تبرک کا ثبوت ہے ۔ (شرح صحيح مسلم جلد 7 صفحہ 3)

قاضی شوکانی نے امام ابنِ حجر عسقلانی کے اِستنباط پر اعتماد کرتے ہوئے انہی کے الفاظ کہ وہو اصل فی التّبرّک بآثار الصّالحین کو نقل کیا ہے ۔ (نيل الأوطار جلد 4 صفحہ 64)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارک سے برکت حاصل کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سنت رہا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...