Thursday 12 October 2023

حضرات حسنین کریمین اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات

0 comments
حضرات حسنین کریمین اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات















محترم قارئینِ کرام : اہلِ سنت و جماعت اور شیعہ حضرات کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے سچی محبت کرتے تھے : شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرما گئے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ پس ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بدن کے ٹکڑے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے ۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا ‘ ان کا مرتبہ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہے اس کو یاد رکھنا ‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ۔ (جلاء العیون جلد دوم صفحہ نمبر 421,422)

ایک اور شیعہ عالم ناسخ التواریخ لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مزید کو یہ وصیت فرمائی : کہ اے بیٹا ! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب ﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا خون نہ ہو ۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔

محترم قارئینِ کرام : غور کیجیے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ ‘ یزید کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا ۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا کیا قصور ؟

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید ‘ شرابی ‘ ظالم اور امام حسین رضی ﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے ‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے ؟

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں

ایک شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی دینی سوال کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس بارے میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن حضرت ابی طالب سے پوچھ لیجیئے ، وہ مجھ سے زیادہ بڑے عالم ہیں ۔ اس نے کہا : امیر المومنین آپ کی رائے ، میرے نزدیک علی (رضی اللہ عنہ) کی رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ نے تو بہت ہی بری بات کی اور آپ کی رائے بہت ہی قابل مذمت ہے ۔ کیا آپ ان صاحب (حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ) کی رائے کو ناپسند کر رہے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے علم سے عزت بخشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا تھا : علی (رضی اللہ عنہ) آپ میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ موسی کے نزدیک ہارون (علیہما الصّلوۃ والسّلام) کی تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ابن عساکر۔ 42/170،چشتی)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھی تھے اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں ایران و خراسان کا گورنر مقرر کر رکھا تھا ۔ ایک بار حضرت عقیل رضی اللہ عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جی کھول کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور انہیں بہادری اور چستی میں شیر ، خوبصورتی میں موسم بہار ، جود و سخا میں دریائے فرات سے تشبیہ دی اور کہا : ’’اے ابو یزید (عقیل) ! میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے بارے میں یہ کیسے نہ کہوں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے ایک ہیں اور وہ نیزہ ہیں جس پر قریش قائم ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں بڑائی کی تمام علامات موجود ہیں ۔‘‘ عقیل نے یہ سن کر کہا : ’’امیر المومنین ! آپ نے فی الواقع صلہ رحمی کی ۔ (ابن عساکر۔ 42/416)

جب خارجیوں نے حضرت علی و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے قتل کا منصوبہ بنایا

خارج نے حضرت مولا علی ، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا : "میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے ۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا ۔ " حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "بیان کرو ۔" کہنے لگا : " آج میرے بھائی نے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا ہو گا ۔" حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "کاش تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے ۔ (تاریخ طبری ۔ 3/2-357،چشتی)

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا ۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ (بحار الانوار جلد 1 صفحہ 57 ملاباقر مجلسی شیعہ)( ابن عساکر جلد 59 صفحہ 193،چشتی)

حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران ان کے پاس جایا کرتے تھے ، جب وہ ایک باران کے پاس گئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں ایسا انعام دینا چاہتا ہوں جو میں نے آپ سے پہلے کسی کو دیا اور نہ بعد میں دوں گا ، چنانچہ انہوں نے انہیں چار لاکھ درہم دئیے جنہیں حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے قبول کر لیا ۔ (سیر اعلام النبلاء: ۳/۲۶۹)

دوسری روایت میں ہے : حضرت امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہر سال معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے جاتے اور وہ انہیں ایک لاکھ درہم دیا کرتے ، ایک سال وہ نہ جا سکے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس کوئی چیز نہ بھیجی ، حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھنے کےلیے دوات منگوائی تو انہیں خط لکھنے سے پہلے نیند آ گئی ، انہوں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو یوں لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہوں : حسن ! کیا تو اپنی ضرورت کےلیے مخلوق کو خط لکھتا ہے اور اپنے رب سے سوال نہیں کرتا ؟ حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں کیا کروں جبکہ میرا قرضہ بہت زیادہ ہو چکا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ دعا کیا کر : یا اللہ ! میں تجھ سے ہر اس چیز کا سوال کرتا ہوں جس سے میری قوت اور حیلہ کمزور ہے اور جس تک میری رغبت نہیں پہنچی ، اس کا میرے دل میں خیال نہیں آیا ، اس تک میری امید نہیں پہنچی اور میری زبان پر وہ یقین جاری نہیں ہوا جسے تو نے پہلی مخلوق میں سے کسی کو دیا ، مہاجرین اور دوسروں کو دیا مگر تو مجھ کو اس سے نواز دے، یا ارحم الراحمین ۔ حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں بیدار ہوا تو یہ دعا مجھے یاد ہو چکی تھی ، میں یہ دعا کرتا رہا ، تھوڑی ہی دیر بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے میرا تذکرہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ اس سال نہیں آئے ۔ جس پر انہوں نے میرے لیے دو لاکھ درہم کا حکم دے دیا ۔ (تاریخ دمشق: ۱۴/۸)

دوسری روایت میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کو خواب میں یہ دعا سکھائی تھی : میرے اللہ! میرے دل میں اپنی امید پیدا کر دے اور اپنے سے علاوہ لوگوں سے میری امید منقطع کر دے کہ میں تیرے علاوہ کسی سے امید نہ رکھوں، یا اللہ! جس چیز سے میری قوت کمزور پڑ گئی، میرا عمل اس سے قاصر رہا۔ اس تک میری رغبت نہ پہنچی، اس تک میرا سوال نہ پہنچا اور میری زبان پر وہ جاری ہوا جو یقین تو نے اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی ایک کو دیا، تو یا رب العالمین مجھے وہ بھی عطا فرما۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم، میں نے یہ دعا ہفتہ بھر بھی نہیں کی ہو گی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈیڑھ لاکھ درہم بھجوا دئیے۔ میں نے کہا: سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اپنا ذکر کرنے والوں کو نہیں بھولتا اور اپنے سے دعا کرنے والوں کو ناکام نہیں لوٹاتا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن تم کیسے ہو؟‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں خیریت سے ہوں، اور میں نے آپ کو اپنا واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بیٹے! جو لوگ خالق سے امید رکھتے اور مخلوق سے نہیں رکھتے ان کی امیدیں اسی طرح پوری ہوتی ہیں ۔ (تاریخ دمشق: ۱۴/۸)

زہری روایت کرتے ہیں : جب حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے اور حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اگر تمہیں یزید پر بجز اس کے اور کوئی فضیلت حاصل نہ ہوتی کہ تمہاری ماں قریشی خاتون ہے جبکہ اس کی ماں بنو کلب سے ہے تو تمہیں پھر بھی اس پر فضیلت ہوتی، مگر اس پر تمہاری فضیلت کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں ہے اس لیے کہ تمہاری ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ (الشریعۃ للآجری: ۵/۲۴۷۰ ۔ اس کی سند حسن ہے)

معاویہ رضی اللہ عنہ کے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تعلقات

جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ سے عطیات قبول کیا کرتے تھے ۔ (الشریعۃ للآجری ص:۲۴۷۰ ۔ اس کی سند حسن ہے)

ایک دفعہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کےلیے ایک لاکھ درہم بھیجے تو وہ اپنے پاس موجود لوگوں سے کہنے لگے : اس میں سے جو شخص کچھ لے لے وہ اس کا ہوا ۔ انہوں نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کےلیے ایک لاکھ درہم بھجوائے تو ان کے پاس دس لوگ بیٹھے تھے انہوں نے وہ درہم دس دس ہزار کر کے ان میں تقسیم کر دیے ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک لاکھ درہم دینے کا حکم دیا ۔ (تاریخ دمشق: ۶۲/۱۳۳،چشتی)

معاویہ رضی اللہ عنہ کی حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوتی تو فرماتے : نواسہ رسول! اہلا و سہلا مرحبا۔ پھر ان کےلیے تین لاکھ درہم کا حکم دیتے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ملاقات کرتے تو فرماتے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اور ان کے حواری کے بیٹے! میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں اور پھر انہیں ایک لاکھ درہم دینے کا حکم دیتے ۔ (تاریخ دمشق: ۶۲/۱۳۳)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہیں اچھے الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ ہشام بن عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نماز پڑھی اور پھر نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے خاموش رہے اور پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: ابن ہند دور نہ ہو ان میں کچھ ایسی گنجائش موجود ہیں جو ہمیں ان کے بعد کسی میں نظر نہیں آتیں۔ اللہ کی قسم! ہم انہیں خوفزدہ کرتے تھے مگر وہ تو شیر سے بھی زیادہ دلیر تھے۔ وہ ہم سے کیسے خوفزدہ ہو سکتے تھے، ہم انہیں دھوکہ دینا چاہتے مگر وہ بڑے دانا اور بارعب تھے وہ ہمارے دھوکے میں آنے والے نہیں تھے۔ و اللہ! میں چاہتا ہوں کہ جب تک اس  (جبل ابو قبیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) میں ایک پتھر بھی موجود رہے ہم ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں ۔ (عیون الاخبار: ۱/۱۱، ۱۲،چشتی)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا یہ قول اس وقت کا ہے جب عبدالملک بن مروان کے عہد میں انہیں حصار میں لے لیا گیا تھا ۔ (العالم الاسلامی فی العصر الاموی، ص: ۱۱۵)

اہل تشیع کے بڑے عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیئے ۔ ان کا بیٹا یزید پہلا آدمی تھا جس نے ان عطیات کو دوگنا کیا ۔ حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیئے جاتے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بھی دیئے جاتے ۔ (ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ)

جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس سے انکار نہیں ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ ( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر)

محترم قارئینِ کرام : حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی 465 ہجری) اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف المحجوب شریف میں لکھتے ہیں کہ : امام حسین رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں ایک مفلس و غریب آدمی مدد کےلیے حاضر ہوا آپ نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا بیٹھ جاؤ ، ہمارا وظیفہ راستے میں ہے ، کچھ دیر بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک آدمی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور پانچ تھیلیاں دیناروں کی پیش کیں جس میں ایک ایک ہزار دینار تھے اور ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے معذرت بھی کی ، آپ رضی اللہ عنہ نے وہ تھیلیاں اسی طرح پاس بیٹھے سائل کو دے دیں ۔ (کشف المحجوب مترجم ، صفحہ نمبر 185 مکتبہ شمس و قمر بھاٹی چوک لاہور،چشتی)

حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ لکھ کر بہت ساری گتھیاں سلجھادی ہیں ، جیسا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں نذرانہ پیش کرنا ، امام عالی مقام کا اسے نہ صرف قبول کرنا بلکہ اسے راہِ خدا میں خرچ بھی کرنا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا پیغام میں معافی چاہنا ؛ اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات یا جملہ ذکر نہ کرنا جیسا کہ آج کل کے تفضیلی رافضی ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ اگر حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ویسے ہوتے جیسا کہ معاذ اللہ آج باغی طاغی ، ظالم ، فاسق ، منافق ، شرابی ، سودی ، اور دشمن اہل بیت کی گردانیں پڑھی جارہی ہیں تو حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ایسے واقعہ کو جس سے ان ہستیوں میں محبت واضح و ثابت ہورہی ہے ذکر ہی نہ کرتے ، اسی واقعہ کے بعد اگلے صفحہ پر حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے یزید کے اہل بیت رضی اللہ عنہم پر مظالم کو بھی ذکر کیا مگر کہیں بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام یا ذکر اشارةً بھی نہ کیا ، نہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے صفین و جمل کو چھیڑا ، پتہ چلا حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی یہ ایک حساس اور الگ قسم کا مسئلہ تھا جس پر کسی قسم کی طعن وتشنیع نہیں کی جاسکتی وہ سب اصحاب رسول رضی اللہ عنہم ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت کا ادب و احترام ہم سب پر واجب ہے ۔

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی پانچ ہزار دینار ، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309،طبقات ابن سعد،ج 6،ص409، معجم الصحابہ،ج 4،ص370، کشف المحجوب،ص77، مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)

علامہ ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے دور حکومت میں سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی ﷲ عنہا دونوں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے پاس شام میں آیا جایا کرتے تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ ان دونوں شہزادوں کا بہت احترام فرماتے تھے ۔ ان کی خدمت میں بہت سے عطیات اور وظائف پیش کرتے تھے اور دونوں شہزادے انہیں بخوشی قبول فرماتے تھے ۔ (البدایہ والنہایہ، جلد 8، ص 158،چشتی)

اسی البدایہ والنہایہ میں ہے : حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے یزید سے کہا تھا کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ کے ساتھ اچھا رویہ اختیار رکھنا فصل رحمہ و ارفق بہ (ان سے صلہ رحمی اور نرمی والا معاملہ کرنا) ۔ (البدایہ والنہایہ جلد8 ص 169)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں نے حضرت امیر معاویہ رضی عنہ کی بیعت کی اور شیعوں کے کہنے پر توڑنے سے انکا کر دیا ۔ (تذکرۃُ الاطہار صفحہ 247 شیعہ مذہب کی مستند کتاب)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے باہمی مشورے سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا۔ حضرت علی سے ان کی شہادت سے پہلے پوچھا گیا: ” کیا آپ کے بعد ہم حسن کی بیعت کر لیں ؟ ” آپ نے فرمایا: "میں نہ تو اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے منع کرتا ہوں۔”(تاریخ طبری ،چشتی)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے چھ ماہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد کر لیا اور خلافت کو ان کے سپرد کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو وصیت ہم نے جو ہم پہلے عرض کر چکے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا حکم انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نے دیا تھا ۔
اس طرح سے امت مسلمہ پھر اکٹھی ہوگئی اور باغی تحریک کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ حضرت حسن کو دبا کر ان سے اپنی باتیں منوا لیں گے لیکن آپ نے اس کے بالکل برعکس معاملہ کیا۔ باغی راویوں نے اس کا انتقام حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بھی لیا اور آپ کے متعلق کچھ ایسی روایات وضع کیں جن میں آپ کی کردار کشی کی گئی۔ اس باب میں ہم انہی روایات کا جائزہ لیں گے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خصوصی حیثیت کیا تھی ؟

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین نواسے ہیں۔ جب آپ خلیفہ بنے تو آپ کی عمر محض 38 برس تھی۔ باغیوں نے بھی اس امید پر آپ کی بیعت کر لی تھی کہ آپ ناتجربہ کار ہیں، اس طرح وہ آپ سے وہ اپنی بات آسانی سے منوا لیں گے۔ دوسری جانب اہل شام بھی آپ کا احترام کرتے تھے کیونکہ آپ آخری دم تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرتے رہے تھے اور جنگ صفین میں بھی آپ جنگ سے دور رہے تھے۔اس وجہ سے آپ کی شخصیت اتحاد کے اس مشن کے لیے انتہائی موزوں تھی۔ آپ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک پیش گوئی فرمائی تھی جو کہ صحیح بخاری میں بیان ہوئی ہے ۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اتحاد کیوں کیا ؟

یہ بات واضح ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومت کی قیمت پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد اس لیے کیا تاکہ مخلص مسلمان متحد ہوں اور منافق باغیوں کی سرکوبی کی جا سکے۔ یہ حضرت حسن کے انتہا درجے کے خلوص کی نشانی تھی کہ آپ نے اپنے ذاتی مفاد پر امت مسلمہ کے مفاد کو ترجیح دی۔ باغی راویوں کو آپ کا یہ اتحاد ہضم نہیں ہو سکا اور انہوں نے تاریخی روایتوں میں اپنے جملے داخل کر کے اس اتحاد کو معاذ اللہ آپ کے لالچ ، مفاد پرستی ، بزدلی اور کمزوری سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ بات حقیقت سے بالکل ہی دور ہے ۔ طبری ہی نے بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن سے واقعے کی اصل صورت سامنے آ جاتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل عراق کا لشکر تیار کیا تھا جو آذر بائیجان اور اصفہان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک خاص لشکر عربوں کا تھا جس میں چالیس ہزار جنگجو تھے اور انہوں نے حضرت علی سے مرنے پر بیعت کی تھی۔ آپ نے ان پر قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو مقرر کیا تھا اور قیس مہم میں کچھ تاخیر کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں حضرت علی شہید ہوئے اور اہل عراق نے حسن بن علی کو خلیفہ مقرر کیا ۔ اہل عراق نے جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے خلافت کی بیعت کی تو حسن نے ان سے یہ شرط طے کی کہ آپ لوگ میری بات کو سنیں گے اور میری اطاعت کریں گے۔ میں جس سے صلح کروں، آپ اس سے صلح کریں گے اور میں جس سے جنگ کروں، اس سے جنگ کریں گے۔ اس شرط سے اہل عراق (یعنی باغی پارٹی) کے دلوں میں شک آ گیا۔ انہوں نے کہا: "یہ شخص ہمارے کام کا نہیں ، اس کا تو جنگ کا ارادہ لگتا نہیں ہے ۔” حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ ان پر برچھی کا وار کیا گیا جو اوچھا پڑا۔ اب ان لوگوں کے لیے حسن کے دل میں بغض بڑھ گیا اور وہ ان سے محتاط ہو گئے۔ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی اور اپنی شرائط لکھ بھیجیں کہ اگر آپ انہیں منظور کر لیں تو میں اطاعت کروں گا اور آپ پر اس وعدے کا پورا کرنا لازم ہو گا ۔ (تاریخ طبری ،چشتی)
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے ذاتی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے مفاد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اتحاد کیا تھا ۔ ایک شخص جس کے ساتھ چالیس ہزار جنگجو ہوں اور وہ بھی ایسے کہ جنہوں نے موت پر بیعت کی ہو، اسے کیا خوف لاحق ہو سکتا تھا۔ واضح ہے کہ حضرت حسن باغی پارٹی سے نفرت کرتے تھے اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے تھے ۔ دوسری طرف باغی پارٹی نے بھی بھانپ لیا تھا کہ آپ ان کے کام کے آدمی نہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے آپ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا اور آپ کے خیمے کو لوٹ لیا اور جس قالین پر آپ بیٹھے تھے، اسے بھی کھینچ لیا ۔ اس حملے کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کوفہ سے نکلے اور مدائن کے قریب مقصورۃ البیضاء کے مقام پر جا کر ٹھہرے۔ یہاں بھی آپ پر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ کرنے والا مختار ثقفی تھا جس نے پچیس برس بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے انتقام کے نام پر اپنی تحریک شروع کی اور پھر نبوت کا دعوی بھی کیا۔ روایت یہ ہے : سعد بن مسعود ، جو مختار کے چچا تھے اور یہ ابھی نوجوان لڑکا تھا، (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے ) مدائن کے گورنر تھے ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے بعد مدائن تشریف لائے تو اس نے اپنے چچا کو تجویز پیش کی کہ آپ کو باندھ کر حضرت معاویہ کے حوالے کر دیا جائے اور اس کے صلے میں امان مانگ لی جائے۔ چچا نے اسے جھڑک دیا اور کہا: "اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر حملہ کر کے انہیں باندھ لوں ۔ کیا برے آدمی ہو تم ؟” حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ ان کے معاملات میں تفرقہ پڑ گیا ہے تو انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس صلح کا پیغام بھیجا ۔ معاویہ نے عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہم کو ان کے پاس روانہ کیا۔ دونوں شخص مدائن میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور جو مطالبہ حسن نے کیا، اسے منظو رکر لیا ۔ (تاریخ طبری ۔ 4/1-24،چشتی)

صلح کے معاملے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کردار بھی غیر معمولی ہے

روایت کے مطابق آپ ہی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر جنگ و جدال کا یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلمانوں ہی کو نقصان پہنچے گا۔ اس وجہ سے آپ نے صلح کی تحریک شروع کی اور ایک سادہ کاغذ پر دستخط کر کے اس پر مہر لگائی اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ۔ صحیح بخاری کی روایت ہے : ابو موسی اسرائیل بیان کرتے ہیں کہ ان سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے خود بیان کیا کہ جب حسن بن علی ، معاویہ کے مقابلے کے لیے لشکر لے کر چلے تو عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا : "میں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس جو لشکر دیکھا ہے ، وہ اس وقت تک واپس جانے والا نہیں ہے جب تک کہ مقابل کی فوج کو بھگا نہ لے ۔” حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : "(اگر یہ جنگ ہو گئی اور فریقین کے بہت سے لوگ مارے گئے تو) مسلمانوں کی اولاد کی پرورش کون کرے گا ؟” عمرو نے کہا : "ہم ان سے مل کر صلح کے لیے بات چیت کریں گے ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ایک بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : "میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا(بخاری۔ کتاب الفتن۔ حدیث 6692،چشتی)

اس سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کے امت کے لیئے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اپنی انا او روقار کے لیئے جان دینے والے تو بہت ملتے ہیں لیکن اپنے دین اور امت کی بہتری کے لیے اپنی انا کو قربان کرنے والے کم ہی ملتے ہیں ۔ حضرت حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی ایسی ہے کہ مسلمانوں کو تا قیامت اس پر خوشی محسوس کرنی چاہیے اور آپ کے اسوہ حسنہ سے سبق سیکھنا چاہیے لیکن چونکہ یہ باغی تحریک کے مفاد کے خلاف تھی، اس وجہ سے انہوں نے اس قسم کی روایتیں مشہور کیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ، معاذ اللہ کمزور آدمی تھے اور انہوں نے دب کر صلح کی تھی۔ اوپر صحیح بخاری کی روایت سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت حسن کس درجے میں طاقتور تھے ۔ اس روایت میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جیسے انتہائی تجربہ کار سپہ سالار کی رائے نقل ہو ئی ہے کہ حضرت حسن کے ساتھ بڑی فوج موجود تھی اور اس کے مورال کا عالم یہ تھا کہ وہ فتح کے بغیر پیچھے ہٹنے والے نہ تھے۔ فو ج کے سالار قیس بن سعد رضی اللہ عنہما جیسے ماہر سیاست اور جنگجو کر رہے تھے۔ طبری کی روایت میں اس فوج کے لیے "پہاڑ جیسی افواج” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی کہا جائے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے دب کر صلح کی تو اسے تعصب کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس ، قیس بن سعد اور زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم سے بھی صلح کر لی ۔ آپ جنگ سے اس درجے میں بچنا چاہتے تھے کہ کسی طور پر بھی اسے پسند نہ فرماتے تھے ۔ طبری کی روایت ہے : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد کے پاس قاصد روانہ کیا کہ ان کو خوف خدا دلائے اور پوچھے کہ کس کے حکم سے آپ لوگ لڑنے کو تیار ہیں۔ جن کے تابع حکم تو آپ لوگ تھے، انہوں نے تو میری بیعت کر لی ہے۔ قیس نے معاویہ سے دب جانا گوارا نہ کیا۔ معاویہ نے ایک کاغذ پر مہر لگا کر انہیں بھیج دیا کہ جو آپ کا جی چاہے، اس کاغذ پر لکھ لیجیے، مجھے سب منظور ہے۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا : "قیس کے ساتھ رعایت نہیں کرنا چاہیے۔” معاویہ نے کہا : "ہوش کیجیے! اتنے لوگوں کو ہم اس وقت تک قتل نہیں کر سکتے جب تک کہ اہل شام میں سے بھی اتنے ہی لوگ نہ مارے جائیں اور جن کے بعد زندگی بے لطف ہے ۔ واللہ! جب تک کچھ بھی چارہ کار ممکن ہے ، میں قیس سے نہ لڑوں گا ۔ جب حضرت معاویہ نے وہ مہر شدہ کاغذ بھیجا تو قیس نے اپنے لیے اور حضرت علی کے گروہ کے لیے، امان طلب کی۔ یہ امان اس معاملے میں تھی جو قتل ان کے ہاتھوں ہوئے یا جو مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا (اس کا ان سے انتقام نہ لیا جائے گا۔) اس عہد نامہ میں انہوں نے حضرت معاویہ سے مال کی مطلق خواہش نہ کی اور حضرت معاویہ نے ان کی ہر شرط کو منظور کر لیا۔ ان کے سب ساتھی حضرت معاویہ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہو گئے ۔ اس فتنہ کے زمانے میں پانچ افراد بڑے صائب الرائے اور اہل سیاست میں شمار ہوتے تھے۔ یہ معاویہ بن ابی سفیان، عمرو بن عاص، مغیرہ بن شعبہ، قیس بن سعد اور مہاجرین میں عبداللہ بن بدیل خزاعی رضی اللہ عنہم تھے۔ ان میں قیس اور ابن بدیل ، علی کے ساتھ تھے اور مغیرہ و عمرو ، معاویہ کے ساتھ تھے ۔ ( طبری۔ 4/1-27،چشتی)

کیا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اتحاد کی مخالفت کی ؟

ابنِ سبائی راویوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس اتحا دکا مخالف ثابت کیا جائے تاکہ ان کی باغیانہ سرگرمیوں کو جواز مل سکے ۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جیسی ہستی کے بارے میں یہ بات انتہائی بدگمانی پر مبنی ہے کہ آپ مسلمانوں میں نہایت ہی مبارک اتحاد ہوتا دیکھ کر دوبارہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائیں ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے پورے دور میں جو طرز عمل رکھا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی دل و جان سے قدر کرتے تھے ۔ اس کا اندازہ الاخبار الطوال کی اس روایت سے ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ ’’الاخبار الطوال‘‘کسی نامعلوم شیعہ مصنف کی کتاب ہے اور غلط طور پر ابو حنیفہ الدینوری سے منسوب ہے : (صلح کے بعد) حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ملاقات سب سے پہلے حجر بن عدی سے ہوئی ۔ اس نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ان کے اس فعل (صلح) پر شرم دلائی اور دعوت دی کہ وہ (حضرت معاویہ سے) دوبارہ جنگ شروع کریں اور کہا : "اے رسول اللہ کے بیٹے! کاش کہ میں یہ واقعہ دیکھنے سے پہلے مرجاتا ۔ آپ نے ہمیں انصاف سے نکال کر ظلم میں مبتلا کر دیا۔ ہم جس حق پر قائم تھے، ہم نے وہ چھوڑ دیا اور جس باطل سے بھاگ رہے تھے، اس میں جا گھسے۔ ہم نے خود ذلت اختیار کر لی اور اس پستی کو قبول کر لیا جو ہمارے لائق نہ تھی ۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو حجر بن عدی کی یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے فرمایا : ’’میں دیکھتا ہوں کہ لوگ صلح کی طرف مائل ہیں اور جنگ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کیوں اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میں لوگوں پر وہ چیز مسلط کروں جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ میں نے خاص طور پر اپنے شیعوں کی بقا کے لیے یہ صلح کی ہے۔ میری رائے کہ جنگوں کے اس معاملے کو مرتے دم تک ملتوی کر دیا جائے۔ یقیناً اللہ ہر روز نئی شان میں ہوتا ہے ۔ اب حجر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، ان کے ساتھ عبیدہ بن عمرو بھی تھے ۔ یہ دونوں کہنے لگے: "ابو عبداللہ! آپ نے عزت کے بدلے ذلت خرید لی۔ زیادہ کو چھوڑ کر کم کو قبول کر لیا ۔ آج ہماری بات مان لیجیے ، پھر عمر بھر نہ مانیے گا ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی صلح پر چھوڑ دیجیے اور کوفہ وغیرہ کے باشندوں میں سے اپنے شیعہ کو جمع کر لیجیے ۔ یہ معاملہ میرے اور میرے ساتھیوں کے سپر د کر دیجیئے ۔ ہند کے بیٹے (معاویہ) کو ہمارا علم اس وقت ہو گا جب ہم تلواروں کے ذریعے اس کے خلاف جنگ کر رہے ہوں گے ۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : "ہم بیعت کر چکے اور معاہدہ کر چکے ۔ اب اسے توڑنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ (الاخبار الطوال صفحہ 233 - 234، چشتی) ۔ اسی روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی صلح چاہتے تھے۔ بعد میں بھی پورے بیس برس ان کے تعلقات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت اچھے رہے ۔

(1) جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، اپنے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے۔ ایک ہی دن میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193،چشتی)

(2) حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔ ( ابن عساکر۔ 59/193)

(3) اہل تشیع کے بڑے عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : معاویہ دنیا میں پہلے شخص تھے جنہوں نے دس دس لاکھ درہم بطور عطیہ دیئے ۔ ان کا بیٹا یزید پہلا آدمی تھا جس نے ان عطیات کو دوگنا کیا ۔ حضرت علی کے دونوں بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو ہر سال دس دس لاکھ درہم دیئے جاتے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بھی دیئے جاتے ۔ (ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغۃ)

(4) جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھرپور عزت کرتے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477،چشتی)

(5) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس سے انکار نہیں ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ ( ابو مخنف۔ مقتل الحسین علیہ السلام۔ قم: مطبعہ امیر)

(6) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ وہ قیصر روم کو خوفزدہ رکھنے کے لیے ہر سال دو مہمات ترکی کی جانب روانہ کرتے تھے ۔ یہ سردی اور گرمی کی مہمات کہلاتی تھیں اور طبری نے ہر سال کے باب میں ان کی تفصیل بیان کی ہے ۔ آپ نے ایک مہم قیصر کے دار الحکومت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی جانب روانہ کی ۔ اس لشکر میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔ ( ابن کثیر۔ 11/477) ۔ بزرگ صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی اسی لشکر کا حصہ تھے اور ان کی وفات قسطنطنیہ ہی میں ہوئی جہاں ان کی قبر آج تک موجود ہے ۔ اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دل و جان سے جائز حکمران تصور نہ کرتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ ہر سال ان کے مہمان بنتے اور ان کے دیے گئے تحفوں کو قبول کرتے ۔

یہاں ہم اس روایت کا جائزہ پیش کریں گے جو طبری نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق نقل کی ہے : قال زياد بن عبد الله، عن عوانة؛ وذكر نحو حديث المسروقي، عن عثمان بن عبد الرحمن هذا، وزاد فيه : حسن نے حسین اور عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہم) سے ذکر کیا کہ میں معاویہ کے ساتھ صلح کا معاہدہ لکھ چکا ہوں اور ان کی دی گئی امان کو تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ کہنے لگے : ’’میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ معاویہ کی بات کی تصدیق اور علی کی بات کی تکذیب نہ کیجیے ۔‘‘ حسن نے جواب دیا : ’’خاموش رہیئے ، میں آپ سے بہتر اس بات کو جانتا ہوں ۔‘‘( طبری۔ 4/1-25)
سند کو دیکھیے تو اس میں عوانہ کلبی (d. 147/765)موجود ہیں جو ہشام کلبی کے استاذ ہیں ۔ دوسرے صاحب زیاد بن عبداللہ (d. 183/799) ہیں جو کہ ضعیف تھے۔ تیسرے صاحب عثمان بن عبد الرحمن الحرانی ہیں (d. 203/819) جو کہ خود تو اگرچہ سچے آدمی ہیں مگر ضعیف لوگوں سے بکثرت روایتیں قبول کر لیتے ہیں ۔ ( ذہبی۔ سیر الاعلام النبلا۔ شخصیت نمبر 2143, 3714, 4372 )۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا راوی نہیں ہے جو حضرت امام حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے اتحاد (41/662) کا عینی شاہد ہو بلکہ یہ سب سو سال بعد کے لوگ ہیں ۔ اس وجہ سے غالب امکان یہی ہے کہ سند کے نامعلوم راویوں میں سے کوئی باغی راوی موجود ہے جس نے اپنی بغاوت کو جسٹی فائی کرنے کے لیئے اپنے الفاظ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔

کیا حضرت معاویہ رضی اللہ نے معاہدے کی شرائط پوری نہ کیں ؟

حضرت امام حسن و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی صلح کے معاہدے کو بیان کرتے ہوئے طبری نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق حضرت معاویہ رضٰ اللہ عنہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کیا ۔ روایت کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو ایک سادہ کاغذ پر دستخط کر کے بھجوا دیا اور کہا کہ آپ جو جی چاہے ، لکھ لیجیے ۔ دوسری طرف حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنی شرائط پہلے ہی لکھ کر انہیں بھجوا چکے تھے ۔ جب انہیں سادہ کاغذ ملا ، تو انہوں نے اس پر مزید شرائط لکھ کر اپنے پاس رکھ لیں اور بعد میں ان کا مطالبہ کیا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان بعد میں لکھی گئی شرائط کو پورا نہیں کیا ۔ اگر ایسا ہوا بھی ہو تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ انہی شرائط کو پورا کرنے کے پابند تھے جو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے انہیں بھجوا دی تھیں اور جن پر فریقین کا معاہدہ ہوا تھا ۔ تاہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم ، تدبر ، مروت اور کشادہ دلی کو مدنظر رکھا جائے تو یہ واقعہ بھی بے سروپا نظر آتا ہے ۔
یہ واقعہ جس سند سے روایت ہوا ہے ، سند یہ ہے : حدثني عبد الله بن أحمد المروزي، قال: أخبرني أبي، قال: حدثنا سليمان، قال : حدثني عبد الله، عن يونس، عن الزهري ۔ یہ سند ابن شہاب الزہری (58-124/58-124) سے شروع ہوتی ہے جو اس واقعہ کے سترہ برس بعد پیدا ہوئے ۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے کس شخص سے یہ بات سنی ۔ عین ممکن ہے کہ وہ نامعلوم شخص باغی تحریک کا رکن رہا ہو ۔ پھر زہری سے اس روایت کو یونس بن یزید ایلی بیان کرتے ہیں جو کہ ناقابل اعتماد ہیں اور زہری سے ایسی باتیں روایت کرتے ہیں جو اور کوئی نہیں کرتا ہے ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے اتحاد کر کے چونکہ باغی تحریک کی لٹیا ہی ڈبو دی تھی ، اس وجہ سے ان کے دل میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کےلیے بہت بغض تھا ۔ اس موقع پر انہوں نے آپ کو ’’یا مذل المومنین‘‘ یعنی اے مومنین کو ذلیل کرنے والے کہہ کر پکارا ۔

کیا یہ رقم سیاسی رشوت تھی ؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی رقم بطور عطیہ کیوں دی جاتی تھی ؟ بعض ناقدین اسے "سیاسی رشوت” قرار دیتے ہیں ۔ ہم اللہ تعالی سے اس بات کی پناہ مانگتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر سیاسی رشوت دینے اور حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہم پر سیاسی رشوت لینے کی تہمت لگائی جائے ۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ عرب معاشرے میں خاندان کے سائز کی اہمیت غیر معمولی تھی اور اسی سے سماجی رتبے کا تعین ہوتا تھا ۔ بچوں کی شادیاں جلد ہو جاتیں جس کی وجہ سے ایک ایک شخص کے پندرہ بیس بچے ہونا معمولی بات ہوتی تھی۔ 30-35 برس کی عمر میں انسان دادا اور نانا بن جاتا تھا۔ عربوں کی جوانی کی عمر بھی طویل ہوتی تھی ۔ یہ صورتحال عام تھی کہ 70-75 برس کی عمر کے لوگ جسمانی اعتبار سے اتنے فٹ ہوتے تھے کہ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر دور دراز سفر کر کے جنگوں میں قیادت کرتے ۔ ان کے بیٹے پچاس کے پیٹے میں ہوتے، پوتے تیس کے اور پڑپوتے ٹین ایجر ہونے کے دوران ہی صاحب اولاد ہوتے تھے ۔ اس طرح سے ایک شخص ہی کی فیملی میں دو اڑھائی سو افراد معمول کی بات تھی ۔ خاندان صرف انہی افراد تک محدود نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ ڈھیروں کی تعداد میں غلام اور لونڈیاں بھی ہوتے جن کے ساتھ غلاموں والا نہیں بلکہ فیملی ممبر کا سا سلوک ہوتا۔ انہی غلاموں کو جب آزاد کر دیا جاتا تو ان کا سماجی رتبہ بلند کرنے کے لیے انہیں خاندان کا باقاعدہ حصہ قرار دے دیا جاتا ۔ یہ لوگ "موالی (واحد مولی)” کہلاتے تھے۔ اس خاندان کے علاوہ معاشرے کے غرباء کی کفالت بھی انہی خاندانی سربراہوں کے ذمہ ہوتی تھی۔ طبقات ابن سعد میں ہر ہر خاندان کے مشہور لوگوں اور ان کے موالی کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے ۔

اتنے بڑے خاندان اور دیگر غرباء کی کفالت کے لیے ظاہر ہے کہ بہت بڑی رقم کی ضرورت پڑتی ہو گی۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ سب لوگ فارغ بیٹھ کر اپنے خاندان کے سربراہ پر بوجھ بنتے تھے بلکہ یہ سب اپنی خاندانی جائیداد پر کام کرنے کے علاوہ تجارت کیا کرتے تھے۔ قومی ضروریات جیسے جنگ وغیرہ کی صورت میں خاندان کے سربراہ کا فرض تھا کہ وہ اپنے خاندان کے تندرست لوگوں کو لے کر سرکاری فوج کا حصہ بنے۔ خلفاء راشدین نے دولت کی تقسیم کا طریقہ یہ نکالا تھا کہ سرکاری آمدنی کو خاندان کے سربراہ کو دے دیا جاتا اور وہ پھر اسے اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کرتا۔ اس تقسیم میں اگر کسی کو شکایت ہوتی تو وہ براہ راست گورنر یا خلیفہ کو شکایت کر سکتا تھا۔ اس کے لیے ہر خاندان کے سربراہ کے پاس رجسٹر ہوتے تھے جن میں اہل خاندان کا اندراج ہوتا تھا۔ انہی رجسٹروں کی مدد سے ’’علم الانساب‘‘ کی کتابیں لکھی گئی ہیں ۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی تقسیم دولت کے اس نظام کو جاری رکھا۔ آپ کے دور میں چونکہ مسلمانوں کی حکومت اس وقت کی معلوم دنیا کے ساٹھ فیصد رقبے پر پھیل گئی تھی، اس وجہ سے یہ دولت بھی بہت زیادہ ہوتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس دولت کو اکٹھا کرنے میں کسی پر ظلم کیا جاتا تھا۔ اس آمدنی کے بڑے ذرائع دو تھے: جب مسلم افواج نے قیصر و کسری اور دیگر بادشاہوں کے علاقے فتح کیے تو ان لوگوں نے جو دولت کے انبار لگا رکھے تھے ، وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگے ۔ یہ ان ممالک کے سرکاری خزانے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان ممالک کی سرکاری زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں ۔ مسلمانوں نے ان ممالک کے باشندوں سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ زمینوں پر کام کریں اور پیداوار کا نصف یا تہائی حصہ بطور خراج سرکاری خزانے میں داخل کریں ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ افغانستان سے لے کر مراکش تک کی زمینوں کی آمدنی کتنی ہو گی ۔ ہر علاقے کی آمدنی کو اسی علاقے کے لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا اور اس کا ایک حصہ مرکز کو بھیجا جاتا ۔ پھر یہی آمدنی مرکز کے مسلمانوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی ۔

حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں تو یہ بات معلوم و معروف ہے کہ انہیں جو عطیات ملتے ، اس میں سے بہت کم وہ اپنی ذات پر خرچ کرتے اور زیادہ تر رقم عام لوگوں کی ضروریات پر خرچ کرتے تھے ۔ ان حضرات نے سیاسی معاملات سے کنارہ کشی کر کے خود کو لوگوں کی دینی تربیت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان علمی خدمات کے انجام دینے کے ساتھ ساتھ جب ضرورت پڑتی تو یہ سیاسی میدان میں بھی اتر آتے۔ چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک بڑی مہم تیار کی جس کا مقصد قیصر روم کے دار الحکومت "قسطنطنیہ” کو فتح کرنا تھا۔ اس لشکر میں حضرت حسین ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر کے ساتھ ساتھ بزرگ صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے ۔ اگرچہ قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا لیکن اس مہم سے قیصر روم پر مسلمانوں کا زبردست رعب بیٹھ گیا ۔ دوران محاصرہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ان کی وصیت کے مطابق قسطنطنیہ کی فصیل کے باہر دفن کر دیا ۔ یہ مزار آج تک استنبول میں موجود ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ تمام صحابہ یک جان کئی قالب تھے ۔ ان میں کوئی بغض نہیں پایا جاتا تھا اور سب أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل) کی تصویر تھے۔ غالی راویوں نے بعد میں اپنے سیاسی مقاصد کےلیے داستانیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دیں جس سے یہ لگتا ہے کہ حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما نے بس مجبوراً حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی ورنہ معاذ اللہ ان کے دل ایک دوسرے کےلیے بغض اور کینہ سے بھرے پڑے تھے ۔ یہ تصویر ہرگز حضرات امامین حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے شایان شان نہیں ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آل رسول رضی اللہ عنہم کا دشمن کہنا کھلی گمراہی ہے ، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ تو اہل بیت سے محبت کرتے ، ان کی خدمت میں تحائف بھیجا کرتے حتی کہ وظائف بھی پیش کیا کرتے تھے ۔ جن کے سینے صحابی رسول کے بٖغض سے ابل رہے ہیں وہ بتائیں کہ : ⬇

کیا ’’آل رسول رضی اللہ عنہم کے دشمن‘‘ انہیں تحائف بھیجا کرتے ہیں ؟

کیا ’’آل رسول رضی اللہ عنہم کے دشمن‘‘ اہل بیت کے ساتھ صلہ رحم اور رفق کا حکم دیتے ہیں ؟

ہرگز نہیں بلکہ آل رسول کے دشمن تو وہ ہیں جنہوں نے کربلا میں آل رسول رضی اللہ عنہم پر ستم ڈھائے اور انہیں بے دردی سے شہید کیا ۔ جبکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تادم حیات آل رسول رضی اللہ عنہم اور نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ادب و احترام کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔