Thursday, 5 October 2023

درسِ قرآن موضوع : سورہ اعراف آیت نمبر 188 حصّہ اوّل

درسِ قرآن موضوع : سورہ اعراف آیت نمبر 188 حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قُلۡ لَّاۤ اَمْلِکُ لِنَفْسِیۡ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ ؕ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِۚۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوۡنَ ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 188)
ترجمہ : تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خود مختار نہیں مگر جواللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں ۔

اس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کمال درجے کی عاجزی ، عظمت ِ الٰہی اور عقیدہِ توحید کے اظہار کا حکم فرمایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو قدرت و اختیار اور علم ہے خواہ اپنی ذات کے متعلق یا دوسروں کے بارے میں ، یونہی دنیاوی چیزوں کے بارے میں یا قیامت ، آخرت اور جنت کے بارے میں وہ تمام کا تمام اللہ عزوجل کی عطا سے ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَوّلِین و آخرین سے افضل ہونا ، دنیا و آخرت کے اُمور میں تَصَرُّف فرمانا ، صحابہ رضی اللہ عنہم کو شفا عطا فرمانا بلکہ جنت عطا فرمانا ، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کرنا وغیرہا جتنی چیزیں ہیں سب اللہ عزوجل کے چاہنے سے ہیں ۔

اختیاراتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : انما انا قاسم والله يعطی ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں ۔
(بخاری شريف جلد 1 صفحہ 16)

علماء کرام فرماتے ہیں یہ حدیث پاک مطلق تقسیم کرنے کے حوالے سے ہے ۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ جب تک میں حیات ظاہری کے ساتھ زندہ ہوں تو تقسیم کرنے والا ہوں بلکہ حیات برزخی یعنی روحانی طور پر تقسیم بھی میں کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ والله يعطی اللہ تعالیٰ دیتا ہے کیا کیا دیتا ہے بیان نہیں کیا، چونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جو چیز بھی کسی کو دیتا ہے تو بدست مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے ۔

جب یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم کرنے والے ہیں تو تقسیم کرنے والے کو مجازا عطا کرنے والا کہا جاتا ہے آپ اپنے معاشرے میں مشاہدہ کریں جب بھی کوئی چیز تقسیم کی جاتی ہے تو لوگ اس سے مانگتے ہیں کہ زیادہ دو یا مجھے بھی دو وغیرہ اگرچہ چیز کسی اور کے حکم پر دی جاتی ہے ۔

چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اکابرین امت کے نزدیک اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں جیسا کہ حدیث مبارک میں بیان کیا گیا ہے : ان الله حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبياء فنبی الله حی .
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں ۔ (سنن ابی داؤد، ج : 1، ص : 275)

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اسی میں «نفخة» دوسری دفعہ صور پھونکنا) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے (پہلی دفعہ صور پھونکنا، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔“صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔ (یعنی آپ کا جسم) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ،باب فضل یوم الجمعۃو لیلۃ الجمعۃ،رقم الحدیث ۸۸۳،چشتی)(تفرح ابواب الجمعة،باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة ، باب: جمعے کے دن اور اس کی رات کی فضیلت حدیث نمبر : 1047)

حدیث سے ماخوذ مسائل : جمعہ کے دن پڑھا ہوا درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے ۔ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ۔

دوسری حدیث پاک میں ہے : حياتی خير لکم و مماتی خير لکم ۔
ترجمہ : میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ (سنن نسائی جلد 1 صفحہ 189)

اسی طرح فرمایا تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر برے ہوں تو میں تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دائرہ ماذونیت میں مختار کل ہیں ۔ دائرہ ماذونیت سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذن اور اختیار دیا گیا ہے ۔

بعض کلمات کا اطلاق بعض مقامات میں مختلف معنی دیتا ہے ۔ مثلاً لفظ کل جب اللہ تعالیٰ کےلیے استعمال ہو گا تو حقیقی معنی میں ہو گا مگر جب یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مقرب بندہ کےلیے استعمال ہوگا تو اضافی معنی میں ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے مختار کل کا لفظ اسی معنی میں مراد لیا جاتا ہے۔ جب یہی لفظ کل مخلوق کے لیے ہو تو اس کے اطلاقات درجہ بدرجہ بدلتے رہتے ہیں ۔ مثلاً ایک چیز کسی دوسری چیز کے مقابلے میں کل ہے تو وہی چیز کسی دوسرے کے مقابلے میں جزو بھی ہو سکتی ہے ۔

انسانی علم جتنا بھی لامحدود اور وسیع ہو جائے وہ ماکان اور وما یکون کی حدود کے اندر ہی رہتا ہے ، اس سے آگے اس کی حدیں ختم ہو جاتی ہے ۔ یہی کل انسانی علم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں رکھا جائے گا تو مخلوق کا سارا علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں جزو ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تمام مخلوق کے مقابلے میں کل ہو گا ۔ مگر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کل علم معبود الٰہی کے مقابلے میں لایا جائے گا تو یہ جزو ہوگا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سارے اختیارات آپ علیہ السلام کے دائرہ ماذونیت میں ہیں، جس میں آپ مختار کل ہیں ۔

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : وقد اقامه الله مقام نفسه فی امره ونهيه واخباره و بيانه.
ترجمہ : اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امر ، نہی اور خبر دینے اور بیان کرنے میں اپنا نائب مقرر کیا ہے ۔ (ابن تيميه، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ 41)

وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ : اور اگر میں غیب جان لیا کرتا ۔ اس آیتِ مبارکہ میں علمِ غیب کی نفی کی علماء ِکرام نے مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ، ان میں سے چار توجیہات درج ذیل ہیں جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علوم کے بیان پر مشتمل اپنی لاجواب کتاب’’اِنْبَائُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنَ تِبْیَانٌ لِکُلِّ شَیْئ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کا کلام قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں بیان فرمایا ہے ۔

(1) اس آیت میں علمِ عطائی کی نفی نہیں بلکہ علمِ ذاتی کی نفی ہے ۔ امام قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غُیوب پر مُطّلع فرمایا اور آئندہ ہونے والے واقعات سے با خبر کیا۔ اس باب میں احادیث کا وہ بحرِ ذَخّار ہے کہ کوئی اس کی گہرائی جان ہی نہیں سکتا اور نہ ا س کا پانی ختم ہوتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو یقین اور وُثوق سے معلوم ہے اور ہم تک ا س کی خبریں مُتواتِر طریقے سے کثرت سے پہنچی ہیں اور غیب پر اطلاع ہونے پر اِن احادیث کے معانی و مطالب آپس میں متحد ہیں ۔ (شفاء شریف، فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ص۳۳۵-۳۳۶، الجزء الاول،چشتی)

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ‘‘ ۔ (سورۂ جن۲۶،۲۷)
ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا ۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ،  فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴/۱۴۹)

(2) اس آیت سے بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کی نفی کرتےہیں ۔ یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ قرآن پڑھ کر لوگوں کا گمراہ ہونا ۔ قرآن سے ثابت ہے ۔ سورہ بقرہ،آیت نمبر26 يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦) اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے ۔ اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں ۔

کسی نے بخاری شریف کے بارے میں کہا ہے : ⬇

بغیر عشق کے جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار ان کو آتی نہیں‌ بخاری

اعظم چشتی علیہ الرحمہ نے کہا تھا : ⬇

محبوبان اتے نقطی چینی کرنا کم نہیں ‏عاشقاں دا
جتھے دل لگ جاوے اعظم اوتھےعیب نظر نہیں‌آؤندا

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’ وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ۔ عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ۔ ﴿ۙ۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ‘‘ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا ۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ، فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴/۱۴۹،چشتی)

یہ کلام ادب و تواضع کے طور پر ہے

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلام تواضع اور ادب کے طور پر فرمایا ہو اور مطلب یہ ہے کہ میں غیب نہیں جانتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی مجھے اطلاع دی اور جو میرے لئے مقرر فرمایا میں صرف اسی کو جانتا ہوں ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷ )

اس آیت میں فی الحال غیب جاننے کی نفی ہے مستقبل میں نہ جاننے پر دلیل نہیں ہے ۔ علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے غیب پر مطلع ہونے سے پہلے یہ کلام فرمایا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علمِ غیب کی اطلاع دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ۔ (سورۂ جن۲۶،۲۷) ترجمہ : غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷،چشتی)

یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا، پھر ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اَشیاء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظاہر کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خبر دی تاکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت صحیح ہونے پر دلیل بن جائے ۔ (تفسیر خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲/۱۶۷)

لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ : تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہوکیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی ،تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ۔ بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین ! تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی ۔ (تفسیر خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۳۳۰)

آیتِ مذکورہ سے بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص کرتے ہیں اور آپ کی شفاعت کی نفی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آپ کو اپنے لیے نفع اور ضرر کا اختیار نہیں ہے تو دوسروں کو نفع کب پہنچا سکتے ہیں اور اس کی تائید میں ایک حدیث سے بھی استشہاد کرتے ہیں ۔

شیخُ الوہابیہ دیابنہ اسماعیل دہلوی متوفی 1246 ھ لکھتا ہے : مشکوۃ کے باب الخلافت والامارت میں لکھا ہے کہ بخاری اور مسلم نے ذکر کیا کہ نقل کیا ابوہریرہ نے کہ جب اتری یہ آیت کہ ڈرا دے تو اپنی برادری کو جو ناتا رکھتے ہیں تجھ سے تو پکارا پیغمبر نے اپنے ناتے والوں کو، پھر اکٹھا کرکے پکارا اور جدا جدا بھی۔ سو فرمایا اے اولاد کعب بن لوی کی بچاو تم اپنی جانوں کو آگ سے کیونکہ بیشک میں نہیں اختیار رکھتا تمہارا اللہ کے یہاں کچھ، یا یوں فرمایا کہ بیشک میں نہیں کام آنے کا تمہارے اللہ کے یہاں کچھ، اور اے اولاد مرہ بن کعب، اے اولاد عبد الشمس کی بچاؤ تم اپنی جانوں کو اگ سے کیونکہ بیشک میں نہ کام آؤں گا، تمہارے اللہ کے یہاں کچھ، اور اے اولاد عبد مناف کی بچاؤ تم اپنی جان کو آگ سے کیونکہ بیشک میں نہ کام آؤں گا تمہارے اللہ کے یہاں کچھ، اور اے فاطمہ بچاو تم اپنی جان کو آگ سے، مان گلے مجھ سے جتنا چاہے میرا مال نہ کام آؤں گا میں تیرے اللہ کے یہاں کچھ، ف یعنی جو لوگ کسی بزرگ کے قرابتی ہوتے ہیں ان کو اس کی حمایت پر بھروسہ ہوتا ہے اور اس پر مغرور ہو کر اللہ کا خوف کم رکھتے ہیں۔ سو اس لیے اللہ صاحب نے اپنے پیغمبر کو فرمایا کہ اپنے قرابتویوں کو ڈرا دیوے۔ سو انہوں نے سب کو اپنی بیٹی تک کو کھول کر سنا دیا کہ قرابت کا حق ادا کرنا اسی چیز میں ہوسکتا ہے کہ اپنے اختیار میں ہو، سو یہ میرا مال موجود ہے اس میں مجھ کو کچھ بخل نہیں اور اللہ کے یہاں کا معاملہ میرے اختیار سے باہر ہے وہاں میں کسی کی حمایت نہیں کرسکتا، اور کسی کا وکیل نہیں بن سکتا، سو وہاں کا معاملہ ہر کوئی اپنا اپنا درست کرلے اور دوزخ سے بچنے کی ہر کوئی تدبیر کرے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقط قرابت کسی بزرگ کی اللہ کے یہاں کچھ کام نہیں آتی جب تک کچھ معاملہ اللہ ہی سے صاف نہ کرے تو کچھ کام نہیں نکلتا۔ (تقویت الایمان کلاں ص 29، مطبوعہ مطبع علیمی لاہور)

شیخُ الوہابیہ دیابنہ اسماعیل دہلوی کی یہ تقریر حسبِ ذیل وجوہ سے باطل ہے : ⬇

1 ۔ شیخُ الوہابیہ دیابنہ اسماعیل دہلوی نے اس حدیث کا حوالہ غلط دیا ہے یہ حدیث مشکوۃ کے باب الخلافت و الارمات میں نہیں ، باب الانذار و التحذیر کی فصل ثانی میں ہے ۔ پاکستان اور ہندوستان کے مطبوعہ نسخوں میں صفحہ 460 پر ہے اور بیروت کی طبع شدہ مشکوۃ رقم الحدیث : 5373 ہے۔ صحیح البخاری میں رقم الحدیث : 2753 ہے اور صحیح مسلم میں الایمان، 348 (204) 491 ہے۔ ترمذی میں قم الحدیث : 3192 ۔ سنن النسائی میں رقم الحدیث : 3644 ۔ السنن الکبری للنسائی میں قم الحدیث : 11377 اور مسند احمد میں، ج 6، ص 187 پر ہے ۔

2 ۔ مشکوۃ میں اس حدیث کو امام مسلم کی روایت سے ذکر کیا ہے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آگ کے عذاب سے ڈرانے کے بعد یہ جملہ ہے البتہ میرا تمہارے ساتھ رحم کا تعلق ہے میں عنقریب صلہ رحم کروں گا ۔
غیر ان لکم رحما سابلہا ببلالہا شیخُ الوہابیہ دیابنہ اسماعیل دہلوی نے حدیث کے اس جملہ کو چھوڑ دیا، حالانکہ مشکوۃ میں مسلم کے حوالے سے یہ جملہ موجود ہے جہاں سے انہوں نے اس حدیث کو شروع کیا ہے ۔

3 ۔ امام ملا علی قاری متوفی 1014 ھ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دینا چاہے تو میں تم سے اللہ کے عذاب کو بالکل دور نہیں کرسکتا، اور یہ قرآن مجید کی اس آیت سے مقتبس ہے۔ " قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا او اراد بکم نفعا : آپ کہیے کہ اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا کوئی نفع پہنچانا چاہے تو اللہ کے مقابلہ میں کون ہے جو کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو " (الفتح : 11) ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا " قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ : آپ کہئے کہ میں اپنے نفس کے لیے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں، مگر جو اللہ چاہے  (الاعراف :188) ۔ اور اس میں توحید کی بیان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرچند کہ مومنین کو اپنی شفاعت سے نفع پہنچائیں گے کیونکہ آپ شفاعت کریں گے اور آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی لیکن آپ نے یہاں مطلقاً نفع رسانی سے منع فرمایا تاکہ انہیں عذاب سے ڈرائیں کہ وہ صرف شفاعت پر تکیہ نہ کرلیں اور ان کو آخرت کے لیے کوشش کی ترگیب دیں اور فرمایا میرا تمہارے ساتھ رحم کا تعلق ہے ۔ میں عنقریب صلہ رحم کروں گا، میں یعنی میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ قرابت کی وجہ سے نیکی اور احسان کروں گا ۔ (المرقات ج 10، ص 105، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، 1390 ھ)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی 1052 ھ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ لکھتے ہیں : اس کا معنی یہ ہے کہ چونکہ مجھ پر تمہارے رحم اور قرابت کا حق ہے میں اس کی تری سے اس کو تر کروں گا اور صلہ اور احسان کا پانی چھڑکوں گا ۔ اس حدیث میں بہت زیادہ مبالغہ کے ساتھ ڈرایا گیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت اس امت کے گنہگاروں کےلیے بھی ہوگی چہ جائیکہ اپنے اقرباء اور خویشان کےلیے ، اور احادیث سے ان کے حق میں شفاعت ثابت ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی بےنیازی کا خوف باقی ہے ۔ (اشعۃ اللمعات ج 4، ص 371، 372، مطبوعہ مطبع تیج کمار لکھنؤ) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...