قرآن موضوع : سورہ اعراف آیت نمبر 188 حصّہ سوم
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو کسی کام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا ، انہوں نے آپ کے پاس ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو وہ لوٹ آئے ۔ حضرت عباس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس کسی کام سے بھیجا تھا وہ آپ کے پاس ایک شخص کو دیکھ کر لوٹ آئے اور بات نہ کر سکے ، آپ نے فرمایا کیا تم کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ، وہ شخص جبریل علیہ السلام تھے اور (حضرت ابن عباس) اس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک کہ نابینا نہ ہو جائیں اور ان کو علم دیا جائے گا ۔ (مسند احمد رقم الحدیث 2679، 2848 طبع جدید)(المعجم الکبیر رقم الحدیث : 10584، 12836)(حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ مسند احمد کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 6، ص 276)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عنقریب تم مصر کو فتح کروگے اور یہ وہ زمین ہے جس میں قیراط کا ذکر کیا جاتا ہے تم وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا کیونکہ ان کا ذمہ اور رحم ہے ۔ (ذمہ سے مراد حرمت اور حق ہے اور رحم سے مراد یہ ہے کہ حضرت ہاجر ، حضرت اسماعیل کی والدہ مصری تھیں) ۔ (صحیح مسلم فضائل الصحابہ، 227 (2543) 6375)(مسند احمد ج 6، ص 173)
حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حنین کی طرف گئے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو ذات انواط کہا جاتا تھا، جس پر وہ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے ۔ مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے بھی ایک ایسا ذات انواط بنا دیجیے جیسا ان کے لیے ذات انواط ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ ! یہ تو ایسا ہے جیسا موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا ہمارے لیے بھی ایسا خدا بنادیں جیسے ان کے خدا ہیں، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر سوار ہوگے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث 2187،چشتی)(صحیح ابن حبان ج 15، رقم الحدیث : 6702)(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20763)(مصنف ابن ابی شیبہ ج 15، ص 101)(المعجم الکبیر ج 3، رقم الحدیث : 3291، 3290)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ ہر سو سال کے سر پر (صدی کی انتہا یا ابتداء پر) اس امت کےلیے اس شخص کو مبعوث کرے گا جو ان کے لیے ان کے دین کی تجدید کرے گا ۔ (یعنی بدعات کو مٹائے گا اور جن احکام پر مسلمانوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا تھا ان پر عمل کروائے گا) ۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4291)(جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8881)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی آخری زندگی میں ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھائی اور جب سلام پھیرلیا تو فرمایا مجھے بتاؤ یہ کون سی رات ہے کیونکہ اس کے ایک سو سال بعد ان لوگوں میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا جو روئے زمین پر اب زندہ ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 601)(صحیح مسلم فضائل الصحابہ، رقم الحدیث : 217 (2537) 6361)(سنن ابو داود رقم الحدیث : 4348)(سنن الترمذی رقم الحدیث : 2258)(سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 5871)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اہل خیبر میں سے ایک یہودیہ نے ایک بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بکری کا ایک دست لیا اور اس میں سے کھایا اور آپ کے اصحاب میں سے ایک جماعت نے بھی اس میں سے کھایا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کہا اپنے ہاتھ روک لو ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس یہودیہ کو بلوایا اور فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ کو کس نے خبر دی ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دست کی طرف اشارہ کیا مجھے اس نے خبر دی ہے ۔ اس نے کہا ہاں ، آپ نے فرمایا تم نے کس لیے ایسا کیا تھا ؟ اس نے کہا میں نے سوچا اگر یہ نبی ہیں تو ان کو اس زہر سے نقصان نہیں ہوگا اور اگر یہ نبی نہیں ہیں تو ہماری خلاصی ہوجائے گی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو معاف کردیا اور اس کو سزا نہیں دی، اور آپ کے بعض اصحاب جنہوں نے اس بکری کا گوشت کھایا تھا وہ فوت ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بکری سے کھائے ہوئے گوشت کی وجہ سے پیٹھ کے اوپر گردن کے نیچے فصد لگوائی ۔ بنو بیاضہ کے آزاد شدہ غلام نے یہ فصد لگائی تھی ۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : 68)(سنن ابو داود رقم الحدیث : 4510)(الادب المفرد، رقم الحدیث : 243)(جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8887)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بکری تحفہ میں پیش کی گئی جو زہر آلود تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہاں جتنے یہودی ہیں ان سب کو جمع کرو ، یہودیوں کو جمع کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرتا ہوں ؟ کیا تم مجھ سے سچ بولو گے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اے ابو القاسم ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای تمہارا باپ کون ہے ؟ انہوں نے کہا ! ہمارا باپ فلاں ہے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے ۔ تب یہودیوں نے کہا آپ نے سچ کہا اور نیک کام کیا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرتا ہوں کیا تم مجھے سچ سچ بتا دوگے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اے ابو القاسم، اور اگر ہم نے جھوٹ بھی بولا تو آپ کو ہمارے جھوٹ کا علم ہو جائے گا جیسا کہ آپ کو ہمارے باپ کے متعلق علم ہو گیا ۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اہل دوزخ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم اس میں تھوڑی دیر رہیں گے ، پھر ہمارے بعد تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے ! تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دوزخ میں دفع ہو جاؤ ، بہ خدا ہم تمہارے بعد اس میں کبھی بھی نہیں جائیں گے ، پھر آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کسی چیز کے متعلق سوال کروں تو کیا تم سچ سچ بتاؤ گے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تم کو اس کام پر کس چیز نے برانگیختہ کیا ؟ انہوں نے کہا ہم نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو ضرر نہیں دے گا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 5777،چشتی)(مسند احمد ج 2، ص 451)(سنن دارمی رقم الحدیث : 69)(جامع الاصول، ج 11، رقم الحدیث 8886)
انصار کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے، آپ قبر کھودنے والے کو وصیت فرما رہے تھے کہ پیروں کی جانب سے قبر کو کشادہ کرو، اور سر کی جانب سے قبر کو کشادہ کرو، جب آپ واپس ہوئے تو ایک عورت کی طرف سے دعوت دینے والا آیا، آپ نے اس کی دعوت کو قبول کرلیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، پس کھانا لایا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ رکھا، پھر قوم نے اپنا ہاتھ رکھا، سب نے کھایا، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا آپ اپنے منہ میں ایک لقمہ چبا رہے تھے، آپ نے فرمایا مجھے یہ علم ہوا کہ یہ اس بکری کا گوشت ہے جس کو اس کے مالک کی مرضی کے بغیر لیا گیا ہے، پھر اس عورت کو بلایا گیا اس نے کہا یارسول اللہ ! میں نے کسی کو نقیع (بکریاں فروخت کرنے کی جگہ، منڈی) کی طرف بھیجا تھا، تاکہ میرے لیے بکری خرید لی جائے، تو بکری نہیں ملی، میں اپنے پڑوسی کو پیغام بھیجا جس نے ایک بکری خریدی تھی کہ وہ بکری مجھے قیمت کے عوض بھیج دے تو وہ پڑوسی نہیں ملا، میں نے اس کی بیوی کو پیغام بھیجا تو اس نے وہ بکری مجھے بھیج دی، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو ۔ (سنن ابو داود، رقم الحدیث : 3332)(مسند احمد ج 5، ص 293)(جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8889)(مشکوۃ رقم الحدیث : 5942)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (جنگ بدر کے دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور آپ نے زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا۔ پھر حضرت انس (رض) نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے جس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ رکھا تھا کوئی شخص اس سے بالکل متجاوز نہیں ہوا (اسی جگہ گر کر مرا) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ان کو گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے کل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کفار بدر کے گرنے کی جگہیں بتا رہے تھے اور فرما رہے تھے، کل فلاں یہاں گرے گا۔ انشاء اللہ ۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 2681)(صحیح مسلم المنافقین : 75 (2872) 7088)(سنن نسائی رقم الحدیث : 2073)(مسند احمد ج 3، ص 219 ۔ 258)(مشکوۃ رقم الحدیث : 5938)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر سے تشریف لائے اس وقت بڑے زور سے آندھی چلی لگتا تھا کہ سوار دفن ہو جائیں گے ، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک منافق کی موت کی وجہ سے یہ آندھی بھیجی گئی ہے، جب ہم مدینہ پہنچے تو ایک بہت بڑا منافق مرچکا تھا ۔ (صحیح مسلم المنافقین : 15 (2782) 6908)(مسند احمد ج 3، ص 315)(مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : 1029)(جامع الاصول ج 11 ۔ رقم الحدیث : 8885)
حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا جن کو آپ نے ناپسند کیا، جب بکثرت سوال کیے گئے تو آپ غضب ناک ہوئے پھر آپ نے لوگوں سے کہا تم جو چاہتے ہو مجھ سے سوال کرو، ایک شخص نے کہا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہارا باپ سالم ہے شیبہ کا آزاد کردہ غلام، جب حضرت عمر نے آپ کے چہرے پر غضب کے آثار دیکھے تو عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 92، 7291)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے دن فرمایا کل میں یہ جھنڈا ضرور اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ تمام رات مسلمانوں نے اس بےچینی میں گزاری کہ آپ کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، صبح کو تمام مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب کو اس جھنڈے کے عطا کیے جانے کی امید تھی، آپ نے پوچھا علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، پھر حضرت علی کو مسلمانوں نے بلایا، وہ لائے گئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی، وہ تندرست ہوگئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی تکلیف ہی نہ تھی، آپ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی، وہ تندرست ہوگئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی تکلیف ہی نہ تھی، آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا، حضرت علی نے کہا یارسول اللہ ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا حتی کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجائیں، آپ نے فرمایا اطمینان سے جانا، حتی کہ تم ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ، پھر ان کو اسلام کی دعوت دینا، اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کا کیا حق واجب ہے، اللہ کی قسم ! اللہ تمہارے سبب سے کسی ایک شخص کو ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3701، 3009،چشتی)(صحیح مسلم فضائل الصحابہ، 34 (2406) 6160)(سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 8403)(جامع الاصول ج 8، رقم الحدیث : 6495)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں میری اس بیماری میں عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ گیا تھا، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کتنی تکلیف ہے ! میں مال دار ہوں اور میری صرف ایک بیٹی ہے کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! میں نے کہا کیا نصف مال صدقہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں، پھر آپ نے فرمایا تہائی مال صدقہ کرو، تہائی مال بہت ہے، اگر تم اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑو تو وہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو فقراء چھوڑو اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں، اور تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو خرچ بھی کروگے تم کو اس میں اجر دیا جائے گا حتی کہ تم جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے اس پر بھی اجر ملے گا، میں نے عرض کیا : یارسولا للہ ! کیا میں اپنے احباب کے پیچھے رہ جاؤں گا ۔ (یعنی حج کے بعد ان کے ساتھ مدینہ نہ جا سکوں گا ؟) آپ نے فرمایا تم ہرگز پیچھے نہیں رہوگے، تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو بھی کروگے، تمہارے درجے اس سے زیادہ اور بلند ہوں گے اور شاید کہ تم بعد میں زندہ رہو اور تم سے ایک قوم کو فائدہ اور دوسری کو نقصان ہو، اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت کو قائم رکھ اور ان کو ان کی ایڑیوں پر نہ لوٹا، لیکن سعد بن خولہ پر افسوس ہے، حضرت سعد نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر اس لیے افسوس کیا کہ وہ مکہ میں ہی فوت ہو گئے تھے ۔ (حضرت سعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تک زندہ رہے انہوں نے ایران کو فتح کیا جس سے مسلمانوں کو نفع اور مجوسیوں کو نقصان ہوا) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4409)(صحیح مسلم الوصیۃ 5 (1628) 4131)(سنن ابو داود رقم الحدیث : 2864)(سنن الترمذی رقم الحدیث : 2123،چشتی)()(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 2708)(سنن النسائی رقم الحدیث :3226)(سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 6453)(مسند احمد ج 1، ص 179، 175، ج 3، ص 32 ۔ 365)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تم اس قوم سے جنگ نہ کرو جو بالوں والے چمڑے کی جوتیاں پہنیں گے اور حتی کہ تم ترکوں سے قتال نہ کرو، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور ناک چپٹی ہوگی اور ان کے چہرے ہتھوڑوں سے کو ٹی ہوئی ڈھالوں کی مانند ہوں گے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3578)(صحیح مسلم الفتن 62 (2912) 7177)(سنن ابو داود رقم الحدیث : 4304)(سنن ترمذی رقم الحدیث : 2222)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4096)(مسند احمد ج 2، ص 239)(مسند حمیدی رقم الحدیث : 1100)(جامع الاصول ج 10، رقم الحدیث : 7870)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم یہود سے قتال کروگے اور تم ان پر مسلط ہوجاؤگے، حتی کہ ایک پتھر یہ کہے گا کہ اے مسلمان ! میرے پیچھے ایک یہودی ہے ۔ اس کو قتل کردو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3593)(صحیح مسلم الفتن 79 (2922) 7202)(مسند احمد ج 2، ص 417)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ کیا کہ اگر میں اس غزوہ کو پا لوں تو میں اس میں اپنی جان اور مال کو خرچ کروں اگر میں اس میں شہید ہوگیا تو میں سب سے افضل شہید ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو میں جہنم سے آزاد ہوں گا ۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : 3174، 3173، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے اور اہل احد پر نماز جنازہ پڑھی، پھر آپ منبر کی طرف مڑ گئے، (یعنی مسجد کی طرف تشریف لے گئے) آپ نے فرمایا میں تمہارا پیش روہوں، اور میں تم پر گواہ ہوں، اور بیشک اللہ کی قسم ! میں اب بھی اپنے حوض کی طرف ضرور دیکھ رہا ہوں، اور بیشک مجھے تمام روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں، اور بیشک اللہ کی قسم ! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم (سب) مشرک ہوجاؤگے البتہ مجھے یہ خوف ہے کہ میرے بعد تم دنیا میں رغبت کرو گے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1344)(صحیح مسلم الفتن 30 (2296) 5864)(سنن ابوداود رقم الحدیث : 3223، 3224)(سنن النسائی رقم الحدیث : 1954)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ بدر کے دن اہل جاہلیت کا فدیہ چار سو (درہم) مقرر کیا، اور حضرت عباس نے یہ دعوی کیا کہ ان کے پاس بالکل مال نہیں ہے ، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چھا تو وہ مال کہاں ہے جو تم نے اور ام الفضل نے مل کر دفن کیا تھا اور تم نے کہا تھا کہ اگر میں اس مہم میں کام آگیا تو یہ مال میرے ان بیٹوں کا ہے : الفضل، عبداللہ اور قثم۔ حضرت عباس نے کہا اللہ کی قسم ! مجھے اب یقین ہوگیا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں، اس بات کا میرے اور ام الفضل کے سوا کسی کو علم نہیں تھا ۔ (سبل الہدی والرشاد ج 4، ص 49، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1414 ھ،چشتی)
امام ابن سعد، عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر کے دن نوفل کو قید کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا اپنی جان کے فدیہ میں وہ نیزہ دو جو جدہ میں ہے، انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ کے بعد میرے علاوہ کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ میرے پاس جدہ میں نیزہ ہے ۔ (سبل الہدی والرشاد ج 4، ص 69)
عاصم بن زید السکونی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا، ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی باہر نکلے، آپ ان کو وصیت فرما رہے تھے، حضرت معاذ سوار تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے ۔ جب آپ نصیحت سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے معاذ ! امید ہے کہ اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کروگے اور شاید کہ تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کے خیال سے حضرت معاذ رونے لگے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے معاذ مت روؤ کیونکہ (آواز سے) رونا شیطان کا کام ہے ۔ (مسند احمد ج 5، ص 235 ، شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے،چشتی)(مسند احمد ج 16، رقم الحدیث : 21953)(دلائل النبوت للبیہقی ج 5، ص 404 ۔ 405)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالخصوص قیامت کے احوال کی جو خبریں دی ہیں، ان کے متعلق ہم نے متعدد کتب حدیث کے حوالہ جات سے پچیس احادیث بیان کی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم ماکان ومایکون کے متعلق ہم نے متعدد کتب حدیث کے حوالہ جان سے دس احادیث بیان کی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منجملہ غیب کی جو خبریں دی ہیں اس کے متعلق ہم نے متعدد کتب حدیث سے اکیاون احادیث بیان کی ہیں ، سو آپ کے علم غیب کے متعلق یہ کل چھیاسی احادیث ہیں اور ہر ہر حدیث متعدد کتب حدیث کے حوالوں سے مزین ہے ۔ فقیر چشتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب سے متعلق تمام احادیث کا احاطہ اور احصاء نہیں کیا اور طوالت کی وجہ سے بیشمار احادیث کو ترک کر دیا ، اس سے قارئین کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو علم غیب عطا فرمایا تھا ، وہ علم کا ایسا عظیم سمندر ہے جس کا تصور بھی ہم لوگ نہیں کر سکتے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ کہلوانے کی وجہ کہ اگر میں غیب کو جانتا تو خیر کثیر جمع کرلیتا : ⬇
علامہ علی بن محمد خازن متوفی 725 ھ لکھتے ہیں : اگر تم یہ اعتراض کرو کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بکثرت واقعات کی خبر دی ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم معجزوں میں سے ہے تو ان احادیث اور آیت کریمہ " لو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر " (الاعراف : 188) میں کیسے تطبیق ہوگی، تو میں کہوں گا کہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بطور تواضع اور ادب یہ کلمات کہلوائے ہوں اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے مطلع اور قادر کیے بغیر میں غیب کو نہیں جانتا ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب پر مطلع کرنے سے پہلے یہ کلمات کہلوائے ہوں ، پھر جب اللہ نے آپ کو مطلع کردیا تو آپ نے غیب کی خبریں دیں ، جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے : عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول۔ (الجن : 26 ۔ 27) ۔ یا اس آیت میں کفار کے سوال کا جواب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سارے مغیبات پر مطلع فرمایا تو آپ نے ان کی خبریں دی اور یہ آپ کا معجزہ ہوگیا اور آپ کی نبوت کی صحت پر دلیل ۔ (لباب التاویل للخازن ج 2، ص 167، مطبوعہ پشاور،چشتی) ۔ علامہ سلیمان جمل متوفی 1204 ھ اور علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ نے بھی ان جوابات کو ذکر کیا ہے ۔ علامہ سلیمان نے ان جوابات کو اختیار کیا ہے اور علامہ آلوسی نے ان جوابات میں تامل کی دعوت دی ہے ۔ (حاشیۃ الجمل علی الجلالین ج 2، ص 217، روح المعانی ج 9، ص 137) ۔ علامہ آلوسی کا مختار جواب یہ ہے کہ اس آیت میں علم غیب کے استمرار کی نفی ہے یعنی اگر میں ہمیشہ غیب کو جانتا ہوتا تو خیر کثیر کو جمع کرلیتا ۔ (روح المعانی ج 9، ص 137، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
علامہ خفاجی متوفی 1069 ھ نے یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر علم کی نفی کرائی گئی ہے اور جن احادیث میں علم کا ثبوت ہے وہ اللہ کے بتانے سے ہے ۔ (نسیم الریاض ج 3، ص 150، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی 1367 ھ لکھتے ہیں : یہ کلام براہ ادب و تواضع ہے، معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ذات سے غیب نہیں جانتا جو جانتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کی اطلاع سے (خازن) حضرت مترجم (اعلی حضرت) قدس سرہ نے فرمایا بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے، جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی درکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہو ، کیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے تو اس کے تمام صفات ذات ، تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا ، تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ، بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے مراد تنگی اور تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کر لینا ہو، اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا ، تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع اور ضرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین و کافرین تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی ۔ (خزائن العرفان علی حاشیۃ کنزل الایمان صفحہ 282 مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور) ۔ علماء دیوبند نے بھی اس سے ملتی جلتی اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment