Saturday, 21 October 2023

اسماعیل دہلوی اور سیّد احمد رائے بریلوی کے جہاد کی حقیقت پردہ اٹھتا ہے

اسماعیل دہلوی اور سیّد احمد رائے بریلوی کے جہاد کی حقیقت پردہ اٹھتا ہے




محترم قارئینِ کرام : جھوٹے پروپیگنڈے کے دور میں ضروری ہے کہ اصل واقعات سے قوم کو روشناس کرایا جائے اور بازار سیاست کے دلالوں کے سامنے حقیقی صورتحال پیش کر دی جائے تاکہ آج جو غدار وطن کا بدنما داغ اقتدار کے زور پر ہماری پریشانیوں پر مڑھا جارہا ہے‘ اس کا بے بنیاد ہونا معلوم ہو جائے ۔ سید احمد اور شاہ اسماعیل کے تعلق سے پورا دیوبندی مکتب فکر مسلسل تحریر و تقریر کے ذریعہ یہ ذہن دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی اور جہادی سرگرمیوں میں سارا رول ان ہی کا ہے اور انہوں نے ہی مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے وعظ کے ذریعہ منظم کرنے کے بعد جنگیں کیں اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے ۔ جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے ، بلکہ یہ دونوں اور ان کے دیگر حامی و متبعین انگریزوں کے وظیفہ خوار اور مکمل ہم نوا تھے۔ اس سلسلے میں خود افراد خانہ کی بیشمار شہادتیں موجود ہیں‘ جن میں سے چند ایک ہدیہ قارئین ہیں خود انہی کی زبانی پڑھیے ۔

سیاسی مصلحت کی بناء پر سید احمد صاحب نے اعلان کیا کہ سرکار انگریز سے ہمارا مقابلہ نہیں اور نہ ہمیں اس سے کچھ مخاصمت ہے ۔ ہم صرف سکھوں سے اپنے بھائیوں کا انتقام لیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ حکام انگلشیہ بالکل باخبر نہ ہوئے اور نہ ان کی تیاری میں مانع آئے ۔ (حیات طیبہ‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260)

سید صاحب کے پاس مجاہدین جمع ہونے لگے‘ سید صاحب نے مولانا شہید کے مشورے سے شیخ غلام علی رئیس الہ آبادی کی معرفت لیفٹیننٹ گورنر ممالک مغربی شمالی کی خدمت میں اطلاع دی کہ ہم لوگ سکھوں سے جہاد کرنے کی تیاری کرتے ہیں‘ سرکار کو تو اس میں کچھ اعتراض نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے صاف لکھ دیا کہ ہماری عملداری میں امن میں خلل نہ پڑے تو نہیں‘ آپ سے کچھ سروکار نہیں‘ نہ ہم ایسی تیاری میں مانع ہیں۔ یہ تمام بین ثبوت صاف اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ جہاد صرف سکھوں سے مخصوص تھا‘ سرکار انگریزوں سے مسلمانوں کو ہرگز مخاصمت نہ تھی ۔ (حیات طیبہ‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 523،چشتی)

اس تعلق سے مولانا جعفر تھانیسری کی تحریر اس طرح ہے : سید صاحب کا انگریزی سرکار سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت آزاد عمل داری کو اپنی ہی عمل داری سمجھتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ سرکار انگریز اس وقت سید صاحب کے خلاف ہوتی تو ہندوستان سے سید صاحب کو کچھ بھی مدد نہ ملتی‘ مگر سرکار انگریزی اس وقت دل سے چاہتی تھی کہ سکھوں کا زور کم ہو ۔ (حیات سید احمد شہید‘ ص 293)

سرسید بھی اس واقعات کی طرف عنان قلم موڑتے ہوئے بالکل ملتی جلتی باتیں لکھتے ہیں‘ جن سے سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جہادی کارناموں کا سراغ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے ۔ سید احمد صاحب نے پشاور پر پھر سکھوں کا قبضہ ہونے کے بعد اپنے ان رفیقوں سے جو جہاد میں جان دینے پر آمادہ تھے‘ یہ کہا کہ تم جہاد کے لئے بیعت شروع کرلو‘ چنانچہ کئی سو آدمی نے اسی وقت بیعت کی اور یہ بات تحقیقی ہے کہ جو شخص شیر سنگھ کے مقابلے میں لڑائی سے بچ رہے تھے‘ ان میں صرف چند آدمی اپنے پیشوا سید احمد صاحب کی شہادت کے بعد مولوی عنایت علی اور ولایت علی ساکن پٹنہ ان کے سردار ہوئے‘ لیکن انہوں نے جہاد کے فرائض انجام دینے میں کچھ کوشش نہیں کی اور جب پنجاب پر گورنمنٹ انگریز کا تسلط ہوا تو مولوی عنایت علی اور ولایت علی مع اپنے اکثر رفیقوں کے 1847ء میں اپنے گھروں کو واپس بھیج دیئے گئے ۔ پس اس سے ہم کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ خاص پٹنہ یا بنگالہ کے اور ضلعوں شے بلکہ عموما ہندوستان سے روپے اور آدمی اس وہابیت کے پہلے تین زمانوں میں ضرور سرحد کو بھیجے گئے تھے ۔ لیکن میری رائے میں یہ بات بہت کھلی ہوئی ہے کہ ان میں سے کوئی آدمی انگریز گورنمنٹ پر حملہ کرنے کے واسطے ہرگز نہیں گیا تھا اور نہ ان سے یہ کام لیا گیا اور نہ تین زمانوں میں سے کسی کو اس کا کچھ خیال ہوا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نیت بغاوت کی جانب مائل ہے ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم 145-146،چشتی)

مزید شواہد کے لئے اور آگے کی عبارت بھی ملاحظہ کریں ۔

جب مولوی عنایت علی اور ولایت علی 1847ء کو ہندوستان لوٹ آئے تو اس وقت سید احمد صاحب کے چند پیروکار سرحد پر باقی رہ گئے تھے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ان دو شخصوں نے پٹنہ اور اس کے قرب و جوار کے آدمیوں کو اس کی ترغیب دینے میں ہرگز کوتاہی نہیں کی کہ وہ جہاد میں شریک ہوں اور یہ اس کام کے واسطے روپیہ جمع کریں۔ چنانچہ وہ برابر بڑی سرگرمی سے کوشش کرتے رہے اور جس بات کا اب تک ان کو دل سے خیال تھا‘ اس کا اظہار انہوں نے 1851ء میں اس طرح صحیح ہے‘ کیا کہ وہ پھر ہندوستان سے سرحد کی جانب چلے گئے‘ مگر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے خیال کیا کہ یہ لوگ دوبارہ سرحد کو انگریزوںپر حملہ کی نیت سے گئے تھے اور انہوں نے بجائے سکھوں کے انگریزوں پر جہاد کیا تھا۔ حالانکہ جب ان لوگوں کو انگریزوں سے کسی طرح کی شکایت نہ تھی تو پھر ان کا ارادہ کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتا ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 147)

اس پر تھوڑی اور روشنی ڈالتے ہوئے سرسید اک رواں قلم سرخ لکیر کھینچتا ہوا نظر آتا ہے جس سے سید احمد رائے بریلوی کا کردار پوری طرح لہولہان نظر آتا ہے۔

اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ وہابی اپنے مذہب میں بڑے پکے‘ نہایت سچے ہوتے ہیں اور اپنے اصول سے کسی حال میں منحرف نہیں ہوتے اور جن شخصوں کی نسبت میں یہ لکھ رہا ہوں‘ وہ اپنے بال بچوں اور مال و اسباب کو گورنمنٹ انگریزی کی حفاظت میں چھوڑ گئے تھے اور ان کے مذہب میں اپنے بال بچوں کے محافظوں پر حملہ کرنا نہایت ممنوع ہے‘ اس لحاظ سے اگر وہ انگریزوں سے لڑتے اور لڑائی میں مارے جاتے تو وہ بہشت کی خوشبوئوں اور شہادت کے درجہ سے محروم ہوجاتے‘ بلکہ اپنے مذہب میں گناہ گار خیال کئے جاتے ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 148،چشتی)

مذکورہ اقتباسات کی بنیاد پر دیوبندی جماعت کے پیشوا سید احمد رائے بریلوی کو انگریز نوازوں کی پہلی فہرست اور بانیوں میں شمار کرنا تاریخی سچائی ہے اور اس میں کوئی جرم نہیں کہ انہیں انگریزوں کا کھلا ہوا معاون اور ناصر گردانا جائے‘ جبکہ ان شکستہ حالات ‘ فریاد کناں ماحول میں علمائے اہلسنت اپنے وطن کی آزادی کے لئے پوری طرح انگریزی افواج کے خلاف صف آراء اور تحریر و تقریر کے ذریعہ عام ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف متحد کررہے تھے‘ جس کے نتیجے میں قیدوبند کی صعوبتوں کے ساتھ جان و مال کے اتلاف کا شکار بنتے رہے ۔

انگریز نوازی کے ایسے واقعات سے خود سید احمد کے ماننے والوں ہی کی کتابیں شور محشر جیسا ماحول پیش کرتی ہیں اور بعد کے متبعین کی جھوٹی کہانی کا کھلا مذاق اڑاتی ہیں ۔

سوانح احمدی ‘ مخزن احمدی ‘ نقش حیات ‘ الدرالمنثور  وغیرہ کی عبارتیں بھی سید صاحب کے جہاد کو انگریز مخالف برسر پیکار طاقتوں کے خلاف بتاتی ہیں مگر اس جماعت کے شرپسندوں نے تاریخ نگاری کی روایت پر فرنگی ظلم کرتے ہوئے تاریخ سازی کی نئی طرح ایجاد کرکے یہ بتادیا کہ جھوٹی شہیدی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اب جھوٹی تاریخ کا سبق بھی عام کریں گے ۔

حالانکہ سید احمد کے عہد کے قریبی مورخین وہی باتیں لکھتے رہے جو علمائے اہلسنت بتاتے رہے ہیں۔ مگر بعد کے مورخین نے اپنی جماعت کے اکابرین کا دامن الجھتا دیکھ کر دروغ گوئی سے تاریخ کے صفحات پاٹ دیئے ۔

سید احمد کے جہادی پہلو کے سلسلے میں مندرجہ ذیل اقتباس بھی کافی واضح ہے :  سرکار انگریز گو منکر اسلام ہے‘ مگر مسلمانوں پر کوئی ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرائض مذہبی اور عبادات لازمی سے روکتی ہے‘ ہم ان کے ملک میں اعلانیہ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع و مزاحم نہیں ہوتی‘ بلکہ اگر ہم پرکوئی ظلم و زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے‘ پھر ہم سرکار انگریز پر کس سبب سے جہاد کریں اور اصول مذہب کے خلاف بلاوجہ طرفین کا خوف گرا دیں ۔ (حیات سید احمد شہید‘ ص 171)

فرانس کے مشہور مستشرق گارسن وتاسی کی کتاب تاریخ ادب اردو کی تلخیص طبقات الشعرائے ہند‘ ص 295‘ مطبوعہ 1848‘ میں سید صاحب کے تعلق سے موجود ہے کہ:بیس برس کا عرصہ ہوا کہ وہ سکھوں کے خلاف جہاد کرتا ہوا مارا گیا ۔ یہی بات دوسرے لفظوں میں نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے ترجمان وہابیہ میں بھی لکھی ہے کہ : حضرت شہید کا جہاد انگریزوں کے خلاف نہ تھا ۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ 12-88)

یہی حال شاہ اسماعیل کا بھی تاریخ کے صفحات پر نظر آتا ہے : خود وہابی نظریات کے حامل قلم کاروں اور ان کے عہد کے قریبی تذکرہ نگاروں نے ان کی انگریزی سے قربت اور وفاداری کے لڈو ہر خاص و عام کو بانٹے ہیں ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 1857ء کے وقت وہابی‘ دیوبندی جماعت کا وجود ہی نہیں تھا۔ لہذا یہ کہناکہ اکابر دیوبند نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا بگل بجایا‘ شدید ترین ناانصافی اور زیادتی ہے ۔

اس کے برعکس علامہ فضل حق خیرآبادی ‘ مفتی صدر الدین آزردہ ‘ مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی ‘ مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی ‘ مولانا احمد اﷲ شاہ مدراسی ‘ مولانا وہاج الدین مراد آبادی ‘ مولانا لیاقت علی الہ آبادی  اور دوسرے علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور عام مسلمانان ہند کو بیدار کیا۔

مگر علمائے سو کا یہ طبقہ پوری چاپلوسی کے ساتھ انگریزی حمایت میں قولاً و عملاً سرگرم رہا‘ جس کی گواہی خود افراد خانہ نے ہی دے دی ہے۔

کلکتہ کے جلسہ عام میں جب ایک شخص نے شاہ اسماعیل سے پوچھا کہ انگریزوں کے خلاف آپ جہاد کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے  تو شاہ صاحب نے فرمایا : ان پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں‘ ایک تو ان کی رعیت ہیں‘ دوسرے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست درازی نہیں کرتے ۔  _ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح آزادی ہے‘ بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں ۔ (حیات طیبہ‘ طبع قدیم صفحہ 364)

مرزا حیرت دہلوی کی یہ بھی تحریر ملاحظہ ہو : مولوی اسماعیل نے اعلان کررکھا تھا کہ انگریزی سرکار پر نہ جہاد مذہبی طور پر واجب ہے نہ ہمیں اس سے کچھ مخاصمت ہے ۔ (حیات طیبہ صفحہ 201)

اس تعلق سے سرسید نے بھی انتہائی واضح الفاظ استعمال کرکے انگریز نوازی کا سرا پول کھول دیا ۔ اس زمانے میں مجاہدین کے پیشوا سید احمد صاحب تھے۔ مگر وہ واعظ نہ تھے ۔واعظ مولوی محمد اسماعیل صاحب تھے‘ جن کی نصیحتوں سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایسا ولولہ خیز اثر پیدا ہوتا تھا جیسا کہ بزرگ کی کرامت کا اثر ہوتا ہے۔ مگر اس واعظ نے اپنے زمانہ میں کبھی کوئی لفظ اپنی زبان سے ایسا نہ نکالا جس سے ان کے ہم مشربوں کی طبیعت ذرا بھی برافروختہ ہو‘ بلکہ ایک مرتبہ کلکتہ میں سکھوں پر جہاد کرنے کا وعظ فرما رہے تھے ۔ اثنائے وعظ میں کسی شخص نے ان سے دریافت کیا کہ تم انگریزوں پر جہاد کرنے کا وعظ کیوں نہیں کہتے‘ وہ بھی تو کافر ہیں؟ اس کے جواب میں مولوی اسماعیل دہلوی نے کہا کہ انگریزوں کے عہد میں مسلمانوں کو کچھ اذیت نہیں ہوتی اور چونکہ ہم انگریزوں کی رعایا ہیں۔ اس لئے ہم پر اپنے مذہب کی رو سے یہ بات ہے کہ انگریزوں پر جہاد کرنے میں ہم کبھی شریک نہ ہوں ۔
(مقالات سرسید حصہ نہم صفحہ 141,42)

فساد بالا کوٹ کی اصل تصویر انگریز کا وفادار کون ؟ 

جعفر تھانسیری دیوبندی وہابی تواریخ عجیبہ میں لکھ رہا ہے : لاچار میں نے لارڈ ڈفرن صاحب بہادر گورنر جنرل ہند کو عرض کیا تھا کہ یہ کیسا انصاف ہے نہ مجھکو قید سے چھوڑتے ہو نہ کھانے کو دیتے ہو، نہ مجھ کو کالے پانی میں رہنے دیا، نہ میرا مال منضبط واپس دیا، اگر میرے ساتھ کچھ نیک سلوک کرنا خلافِ انصاف و اخلاق ہے تو صاحبو مجھکو پوری رہائی دیکر مطلق العنان کردو اس وقت میں اپنا گذارہ آپ کرلوں گا قید میں بھی رکھنا اور کھانے کو بھی نہ دینا یہ تو نوابی قانون ہے مگر لاڑد ڈفرن صاحب نے جواب تک نہیں دیا۔ اب میرا اللہ مالک ہے جب سے کپتان ٹمپل صاھب ولایت کو چلے گئے میں بھوکا نہیں مرتا، میرا پچاس روپیہ ماہوار کا خرچ خداوند تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے آپ پورا کر دیتا ہے ۔ میں نے جب انگریزی پڑھ کر طرح طرح کی کتابیں دیکھیں اور رات دن صدہا صاحب لوگوں کے ساتھ رہنے اور طرح طرح کی بات چیت کرنیکا اتفاق ہوا تو مجھکو معلوم ہوا کہ سرکار انگریزی کا ہرگز ہرگز ارادہ نہیں ہے کہ کسی ہندو یا مسلمان کو نصرانی بنا دیں بلکہ بیسیوں صاحب لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ خود نصرانیت کو ایک لغو اور بچوں کا کھیل سمجھتے ہیں 1857ء میں جو ہندوستانی فوج کو یہ خیال تھا کہ سرکار انگریز بذریعہ کارتوس وغیرہ ہمکو کرستان (کرسچن) کرنا چاہتی ہے بالکل (صفحہ 98 کا اختتام ہوا) ۔ صفحۃ 99 شروعات ۔ اسے بالکل ایک لغو اور پوچ وسوسہ شیطانی تھا جس سے طرفین کے ہزاروں خون ہوگئے۔ اور صدھا رئیس اور امیر اور معزز عہدہ دار بگڑ گئے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے دنیا کے موجودہ بادشاہوں میں انگریزی سلطنت ایک لامذہب اور آزاد اور عمدہ راج ہے۔ اگر یہ لوگ موجودہ بے بنیاد تعصب کو دل سے دور کردیویں (دیں) تو میرے خیال مین زمانہ حال کے مسلمان ترکوں، اور مغلوں اور افغانیوں سے بھی یہ لوگ اس بارے میں بہترہیں۔ ان بادشاہوں کی عملداری میں کوئی آدمی کھلا کھلا قرآن و حدیث پر عمل نہیں کرسکتا اور اپنی خیالات اور عقائد کو سوائے معمولی لکیر کے دوسرے طور پر ظاہر نہیں کرسکتا۔ دیکھو یہ فقط انگریزی راج کی بدولت ہے کہ میں نے یہ رسالہ سچ سچ لکھ دیا اور اپنے رنج و تکلیف کو ظاہر کردیا مگر اسمیں کوئی شک نہیں کہ انگریزی راج سے فقط ہماری سلطنت اور حکومت ہی نہیں جاتی رہی جسکے چلے جانے کا سوائے خاندانِ تیموری کے کسی دوسرے کو ایسا رنج نہیں ہے، بلکہ ہماری حرفت و تجارت و نوکری، مععاش وغیرہ سب برباد ہوگئے اور ہم فقیر بن گئے اور زبان دراز مکار دغا بازوں نےا پنی زبان درازی اور چالاکی سے واسطے اظہار اپنی خیرخواہی کے ہماری طرف سے سرکار کو ایسا بھڑکایا اور ایسے صریح دروغ الزام ہم پر قائم کئے کہ جن کی تردید میں مجھ کو ایک دوسری کتاب لکھنی پڑی۔ اب انگریز لوگ بجائے ہمدردی اور دستگیری کے ہمارے دشمن ہورہے ہیں اب تیرے حضور میں ہماری فریاد ہے کہ تو ہماری فاتح قوم کے دل میں انصاف اور رحم ڈال کہ وہ بیجا تعصب و مابیت کو دل سے دور کر کے اور خود غرضوں کی بات کو بلا دریافت تسلیم نہ کرکے اس فرقہ سینٹ موحدین مہذبین کی قدر کرے اور ان کی عداوت سے باز آئے اور اپنی کل رعایا گوری کالی کو بلا لحاظ مذہب و لباس (کوٹ پتلون) و رنگ کے حسب وعدہ سنہ 58ء کے ایک ہی آنکھ سے دیکھے تو پھر یہ سب موجودہ تکالیف سرکار کی رفع ہو جاوے گی (جائے گی) ۔ لاکھوں آدمیوں کے دلوں کو بے وجہ دکھانا اور ان کی دعا لینا اچھا نہیں ہے آگے سرکار مختیار ہے ۔ بر رسولان بلاغ باشد و بس ۔ (اختتام صفحہ 99 ،   تواریخ عجیبہ)

شروعات صفحہ تواریخ عجیبہ 100 ۔ اب آخیر بار ی میں لارڈ رین صاحب بہادر و جنرل ڈونلڈ اسٹیوارٹ صاحب بہادر اور کپتان ٹمپل صاحب بہادر و ڈاکٹر بٹسن صاھب اور عموماً کل افسران جزائر انڈیمان کا اور خصوصاً کرنل بی فورڈ اور جرنل ایچہ مین صاحب اور میجر پلیفیر صاحب اور کرنیل پرات صاحب، اور مستراہی ایچہ مین صاحب اسسٹنٹ کمشنر اور مسٹر بروکس صاحب اور سردار مگھیل صاحب، اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنران کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنکی بدولت میری قید سخت بہ آسانی طے ہوگئی اور پھر اپنے وطن مالوفہ کو آکر دیکھا اور اسی طرح ان متعصب صاحب لوگوں کے حق میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اس خداوند آتش تعصب کو ان کے دلوں سے دور کرتاکہ وہ فاتح اور مفتوح کے درمیان اتفاق اور محبت کرانیکی کوش کریں اور ناحق اشتعال کو دیکر جلتے کو نہ جلائیں۔ آمین یا رب العالمین ۔ دستخط محمد جعفر تھانسیری صدر بازار کیمپ انبالہ ۔ (اختتام صفحہ تواریخ عجیبہ 100،چشتی)

حاصل کلام اور چند اہم نکات 

(1) یہ وہی وہابی دیوبندی نام نہاد جہادی ہیں جو دعوے کرتے ہیں کہ غیراللہ سے مدد شرک ہے لیکن کود لارڈ ڈفرن سے پچاس روپیہ ماہوار پر امت مین تفریق ڈالتے رہے اور جہاد کے نام پر بالاکوٹ کے غیور مسلمانوں کو شہید کرتے رہے، ان کے نزدیک کپتان ٹمپل کے ولایت جانے سے پہلے ان کا پالن ھار یعنی پالنے والا اللہ نہیں تھا وہ جب ولایت گیا تو انکو اللہ کی یاد آئی اور یہ بھی کہ اسکے بعد پچاس روپیہ کی قیمت وصول کرنے کے لیئے انہوں نے (جہاد) کا راستہ اپنایا تھا اور امت میں تفریق ڈالی  ۔

(2) تواریخ عجیبہ صفحہ ۹۸ پر یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ یہ جاہل غیرتعلیم یافتہ طبقہ جب انگریزی پڑھ گیا تو انگلش کتایں دیکھیں اور ان کو اندازہ پھر بھی نہ ہوا کہ ان کا واسطہ کن سے پڑا ہے۔ کیونکہ برطانوی راج میں سب لوگ اصل میں صیہونی شیطان پرست تھے جس کو ہم لوگ آج بہ آسانی فری میسن اور ایلومناٹی کے نام سے جانتے ہیں یا زائیونسٹس۔ اسی لیئے تو وہ نصرانی مذہب یعنی عیسائیت کے بھی خلاف تھے۔ اور اسکو لغو اور بچوں کا کھیل اسی لیئے تو سمجھتے تھے نیز اس سے یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی یعنی غدر میں یہ لوگ انگریز کے پالے ہوئے پٹھو اور حمایتی تھے اور جو کوئی انگریز کے مخالف تھا یہ ہندو نواز طبقہ اسکو باغی کہتا تھا اور اسی لیئے امت کو بریلوی کا نام دیا اور خود مامے خاں بن بیٹھے ۔ 

(3) تواریخ عجیبہ صفحہ ۹۹ پر ثبوت دے دیا رہتی نسلوں تک کہ یہ لوگ اصل مین لادین تھے اسی لیئے تو انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی ہرحکومت سے اچھا بتا رہے ہیں اور لکھ بھی رہے ہیں کہ یہ لادین تھے ۔
 
(4) پھر ان کا یہ لکھنا کہ بادشاہوں کی عملداری میں کوئی آدمی کھلا کھلا قرآن و حدیث پر عمل نہیں کرسکتا اور اپنے خیالات اور عقائد کو سوائے معمولی لکیر کے دوسرے طور ظاہر نہیں کرسکتا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ وہابی شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی وہابی کے چاہنے والے اصل میں قرآن و حدیث کے نام پر اپنی لادینیت اور کفر شرک بدعت پھیلانا چاہتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی مسلمان بادشاہ کے دور میں ممکن نہ تھا، ورنہ ایک مسلمان کا مسلم بادشاہ کے دور میں کھلا کھلا قرآن و حدیث پر عمل نہ کرسکنا تو کسی انگریز نے بھی بیان نہیں کیا۔ بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ یہ لوگ ماضی کے جاہل گمراہ لوگ تھے جو ان کے ٹکڑوں پر پل رہے تھے اور ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں انگریز کے حمایتی تھے اور ان کو کسی طور اپنے گمراہ خیالات کی اشاعت نہیں تھی تیموری دور میں ورنہ انہوں نے ایک اور حسن بن صباح کھرا کردینا تھا یا ایک اور مرزا قادیانی ۔  

(5) اس جعفر تھانسیری (عرف میر جعفر پارٹ دوم) کا یہ لکھنا کہ راج جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا صاف صاف اظہار ہے کہ ان کے دلوں میں مسلم راج کے ختم ہونے کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ ہی اسلام سے ہیں ہی نہیں خوارج اسی لیئے تو ان کو رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ یہ لوگ دین سے نکل جائیں گے۔ بلکہ ان کے پیٹ پرستی پیسہ اور ہوس اقتدار کی بھوک کا ان لائینوں میں کھلم کھلا اقرار موجود ہے۔ مجھے حیرت ہے وہ کیسے جاہل لوگ ہیں جو ان وہابیوں دیوبندیوں کے ان جھوٹے انگریزی ہنودی صیہونی بیوقوفون کو علماٗ سمجھ کر پیروی کرتے ہیں ۔  

(6) اسی صفحہ پر یہ بھی لکھا ہے کہ اب انگریز لوگ بجائے ہمدردی اور دستگیری کے ہمارے دشمن ہورہے ہیں۔ یعنی جیسے ایک طوائف اپنے یار کو بتاتی ہے کہ دیکھو میں نے تمہاری راتیں جوان رکھیں اور اب تم میری طرف توجہ ہی نہیں دے رہے قسم سے یہی ڈرامہ یہاں پر دیا گیا ہے اور یہی محسوس ہوتا ہے ان الفاظ سے، یہ لوگ جو غیراللہ سے مدد کا پراپیگنڈہ چھوڑ کر امت کو مشرک بکتے ہیں خود انگریزوں کے ہرخاص و عام ٹٹ پونجیئے کو (ہمدرد اور دستگیر) کھلم کھلا مان رہے ہیں ۔ خود دیکھیئے ۔

(7) پھر اس پر کوئی شرم نہیں کہ ان کے ہاتھوں مسلمانوں کی ۹۰۰ سالہ راج کی تاریخ ختم ہوئی بلکہ ترکوں افغانوں سب کی بے عزتی کرکے لکھتے ہیں کہ اس فاتح قوم کے دلوں مین ہمارے لیئے رحم ڈال کہ وہ ہم پر بیجا تعصب نہ کرین بلکہ ہمیں لادین حکومت کا حمایتی اور وفادار سمھیں ۔ 

(8) فرقہ سینٹ موحدیث مہذبین ۔ کی قدر کرے سے مراد جعفر کی یہ ہے کہ انگریزوں کی سینٹ ِ صیہونیہ ان نام نہاد جدید موحدین مہذیبن کی قدر کرے۔ غور فرمائیے اس جملے پر بار بار نیز اس کا لکھنا کہ حسبِ وعدہ ۵۸ سن آپ ہم سب سے ایک جیسا سلوک کریں یعنی انہوں نے ہندووں کی طرح انگریز کی جو غلامی قبول کی تھی تو ۵۷ کی جنگ آزادی میں ان سے انگریز نے ویسے ہی کچھ وعدے کئے تھے جیسے آج ان کی نسل سے ٹی ٹی پی اور احرار وغیرہ سے انگریز اور ہنود نے وعدے کررکھے ہیں اور جو این ڈی ایس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ نیز یہ دیکھیں کہ اسی صفحہ کی بالکل آخری لائن میں اس نے انگریزی لادینی سرکار کو (مختار) مانا ہے لیکن یہی وہابی دیوبندی فرقہ دجال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مختار ماننے کا انکاری ہے ۔ منافق ۔

(10) اور تواریخ عجیبہ صفحہ ۱۰۰ پر انگریزوں کے جتنے بھی اور ہندو سرداروں کے جتنے بھی نام دیے وہ بھی یہ ثبوت ہیں کہ ان کا جزائر انڈیمان میں جانا فقط جھوٹا افسانہ ہے ۔ وہاں پر ان کو ویسے ہی اپر کلاس دی گئی تھی جیسے آج کے غدارِ قوم خوارج یا سیاستدان کو (اے) کلاس دی جاتی ہے جہاں سے وہ ہرقسم کی آزادی میں رہتا ہے مگر کہنے کو وہ قید ہوتی ہے۔ جن کو کالے پانی کی اصلی سزائیں ہوئیں تھیں ان کو تو انگریز نے شہادتیں دی تھیں جیسے مولانا فضل حق خیرآبادی رحمة اللہ علیہ ، مولانا کفایت علی کافی رحمة اللہ علیہ وغیرہ ۔ اور یہ لوگ جو آج بڑا الحاد کے خلاف اپنے آپ کو بتاتے ہیں یہی تو الحادیوں کے پکے ساتھی اور حمایتی ہیں۔ تو کاہے کا جہاد اور کاہے کا بالاکوٹ ؟

یہ تمام شواہد سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کو انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کےلیے کافی ہیں‘ مگر جماعت وہابیہ کو یہ سچائی کسی طور پر ہضم ہوتی نظر نہیں آتی اور وہ اپنے اس جرم پر پردہ ڈالنے کےلیے علمائے اہلسنت کی پاک باز‘ محب وطن اور انگریز دشمن شخصیات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تاکہ ان کا مکروہ کردار عام لوگوں کے سامنے نہ آسکے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...